zindagi ke rang apno ke sang written by syeda Tooba batool Episode 25…

زندگی کتے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر:25

ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔

سارہ اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی، آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں۔

تبھی ریحانہ بیگم کمرے میں آئیں۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا،سارہ بیٹا، روؤ مت، اور شازین سے مت لڑا کرو۔

وہ نرمی سے نصیحت کر رہی تھیں۔ سارہ نے سائڈ ٹیبل سے ٹشو اٹھایا، آنسو صاف کیے۔

لیکن بڑی مامی، مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ جب بھی شازین عروہ بجو سے بات کرتے ہیں، میرا دل کٹنے لگتا ہے۔

اور دیکھیں، آج شازین نے مجھے تھپڑ بھی مارا، وہ بھی اس وقت جب گھر میں مہمان تھے

ریحانہ بیگم کے چہرے پر افسوس چھا گیا،شازین نے غلط کیا، لیکن بیٹا سوچو… عروہ ہم سب کی لاڈلی بچی ہے، مگر دیکھو، اس نے سب کچھ کھو دیا — شوہر، دادی، سب کچھ۔بیٹا، عروہ اور شازین پر شک کر کے اس کے زخموں پر نمک مت چھڑکو، بلکہ اس کا مرہم بنو۔

یہ بات سن کر سارہ شرمندگی سے سر جھکا لیتی ہے۔

عروہ اپنے کمرے میں دادی کا دوپٹہ سر پر اوڑھے، صوفے پر بیٹھی قرآنِ پاک کی تلاوت کر رہی تھی

اور جو لوگ صبر کرتے ہیں، ان پر رب بہت رحم فرماتا ہے۔

القرآن 2:153

وہ قرآن بند کر کے جسدان میں لپیٹتی ہے اور دادی کے دوپٹے کے کونے سے اپنے آنسو پونچھتی ہے۔پھر دیوار پر لگی اپنی اور دادی کی تصویر کو چھوتی ہے،دادو، آپ ہوتیں تو کتنا اچھا ہوتا۔ آپ کہتیں، عروہ دکھی مت ہو۔

آپ مجھے حوصلہ دیتیں… جانتی ہیں دادو کا پیار کیا ہوتا ہے؟

یہ ایک انمول خزانہ ہے۔

دادی کی دعائیں وہ ہوتی ہیں جہاں ہم اپنے خوابوں کی تعبیر پاتے ہیں۔

اور جب دادی نہیں رہتیں تو دل جیسے کٹ سا جاتا ہے

گھر میں سناٹا چھا جاتا ہے، روشن ولا اندھیرا ہو جاتا ہے،اور ہماری آنکھیں ہمیشہ کے لیے نم رہ جاتی ہیں۔

اسی وقت، ریحانہ بیگم سارہ کو سمجھا رہی تھیں:بیٹا، عروہ اپنی زندگی میں سب سے زیادہ مظلوم ہے۔

اوپر سے جتنی مضبوط دکھتی ہے، اندر سے اتنی ہی ٹوٹی ہوئی ہے۔

عروہ نے زمین پر بچھی جانماز تہہ کی،یا اللہ، سب کے دلوں میں سکون ڈال دے… یا اللہ، مجھے صبر عطا کر۔

آج روشن ولا کے لان میں فیری لائٹس لگی تھیں، سفید غبارے جھول رہے تھے۔آج نگینہ بیگم کی سالگرہ تھی —وہی منظر جو پچھلے سال سب نے خوشی سے منایا تھا،اب سب کی آنکھوں کے سامنے ایک دردناک یاد بن چکا تھا۔

عروہ نے سفید اور ہرے رنگ کا شیفون سوٹ پہنا ہوا تھا۔وہ اسٹیج کی طرف بڑھتی ہے جہاں میز پر کیک، پھول اور نگینہ بیگم کی تصاویر رکھی تھیں۔

مہمان کرسیوں پر بیٹھے تھے —سارہ، شازین، ان کی گود میں چھ ماہ کی عائشہ،فرحت بیگم کے برابر میں فیضان صاحب اور زارا،ریحانہ بیگم کے برابر میں کاشف صاحب اور آمنہ بیگم موجود تھیں۔

عروہ نے مائیک تھاما،دادو کہا کرتی تھیں کہ گھر صرف دیواروں سے نہیں بنتے،بلکہ رشتوں میں محبت سے بنتے ہیں۔

آج ان کی سالگرہ ہے، اور ہم سب ادھورے ہیں۔

میں سب سے بس اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ دادو ہم سب کو ایک ساتھ خوش دیکھنا چاہتی تھیں۔

لہٰذا سب گلے شکوے بھلا کر ایک نئی زندگی شروع کریں۔

وہ روہانسی ہو گئی،میں چاہتی ہوں کہ ہم سب ایک دوسرے کے لیے روشنی بنیں،نہ کہ ایک دوسرے کے لیے اندھیرا۔

اس کی بات سن کر مہمانوں نے تالیاں بجائیں۔مگر سارہ نے آنکھیں گھماتے ہوئے چڑ کر کہا،ہر بات میں اٹینشن لینے کی کوشش کرتی ہے یہ لڑکی۔

یہ سن کر فرحت بیگم نے نظریں جھکا لیں۔آمنہ بیگم نے ریحانہ بیگم کو کہنی ماری،سب کی خوشیاں اجاڑ کر اب نصیحتیں دے رہی ہے

زارا مسکرا کر بولی، آپی تو ڈرامہ کوئن ہیں

فیضان صاحب نے جھنجھلا کر کہا، عروہ ہر بات میں ٹپک پڑتی ہے! اور وہ اندر چلے گئے۔

سب کی باتوں کے باوجود، شاہ زین اسٹیج سے اتر کر عروہ کے پاس آیا۔

ماشاءاللہ، بہت دل سے سپیچ دی ہے۔سارہ بھی عائشہ کو لیے قریب آئی اور ہلکی تالیاں بجائیں،تمہیں ہر وقت شاہ زین کی اٹینشن چاہیے نا؟

عروہ اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ہاتھ میں اپنی شادی کی تصویر تھی، جس میں دانیال اور نگینہ بیگم ساتھ کھڑے تھے۔

اسے دادی کی نصیحتیں یاد آئیں:عروہ، زندگی میں جب سب دور ہو جائیں تو قریب کرنے کی کوشش کرو۔اور اگر کوئی تمہاری پرواہ نہ کرے تو چھوڑ دو، اپنی زندگی جیو۔اس کے آنسو تصویر پر گرنے لگے۔

سب کو میری باتیں بری لگتی ہیں، دادو… شاید اب مجھے اس گھر میں نہیں رہنا چاہیے۔وہ روتے ہوئے بولی۔پھر الماری سے سوٹ کیس نکالا اور کپڑے رکھنے لگی۔

اسی وقت شازین، جو عائشہ کو لے کر کمرے میں جا رہا تھا، دروازے پر آ کر رکا۔

کہیں جا رہی ہو؟

عروہ نے پھیکی مسکراہٹ دی،جن گھروں میں محبت نہ رہی ہو، جہاں صرف نفرت باقی رہ جائے، وہاں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

یہ کہہ کر اس نے سوٹ کیس بند کر دیا۔

باہر بجلیاں کڑک رہی تھیں۔عروہ نے عبایا پہنا، نیلا حجاب اوڑھا، سوٹ کیس سنبھالا اور نیچے اتری۔

فرحت بیگم کچن میں سبزیاں کاٹ رہی تھیں۔

امی، میں جا رہی ہوں… گھر چھوڑ کر۔وہ روتے ہوئے بولی اور گلے لگنے لگی، مگر فرحت بیگم پیچھے ہٹ گئیں۔

جہاں جانا ہے جاؤ، مگر یاد رکھنا، در در کی ٹھوکریں کھا کر واپس اسی گھر میں آؤ گی۔بہتر ہے کہ چپ چاپ یہیں رہو

عروہ ہلکا سا مسکرائی اور کچن سے باہر نکل گئی۔زارا صوفے پر بیٹھی سیلفی لے رہی تھی،عروہ نے کہا، زارا، آج تم بہت اچھی لگ رہی ہو۔

وہ گلے لگنے لگی تو زارا پیچھے ہٹ گئی،آپی، پلیز! مجھے گلے مت لگائیے گا، مجھے ویسے بھی یونی کے فنکشن میں جانا ہے۔زارا چلی گئی۔

عروہ نے ریحانہ بیگم اور کاشف صاحب کو سلام کیا،ریحانہ بیگم نے رخ پھیر لیا، کاشف صاحب نے بھی خاموشی اختیار کی۔

عروہ، اب سمجھ لو… ہمارے راستے جدا ہو چکے ہیں۔تم تو ہمارے سر پر مصیبت کی طرح منڈلا رہی ہو۔

عروہ کے قدم لڑکھڑائے۔

وہ لان میں آئی، جہاں سارہ عائشہ کو گود میں لیے بینچ پر بیٹھی آئس کریم کھا رہی تھی۔

عروہ نے عائشہ کے ماتھے پر پیار کیا،سارہ نے فوراً دوپٹہ ڈال کر بچی کو چھپا لیا،عروہ! دور رہو میری بیٹی سے، مجھے تمہارے منحوس سائے سے ڈر لگتا ہے!یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی۔

اسی وقت شازین بھاگتا ہوا آیا،عروہ، پلیز مت جاؤ، میں سب ٹھیک کر دوں گا!عروہ خاموش رہی،حسرت بھری نظروں سے روشن ولا کو دیکھا، اور باہر نکل گئی۔

وہ سڑک پر کھڑی روشن ولا کو دیکھ رہی تھی،کچھ رشتے سانس کی طرح ہوتے ہیں اگر وہ مر جائیں، تو باقی رشتے سانس لینا چھوڑ دیتے ہیں۔

لان میں دوبارہ سب جمع تھے

شازین اندر آیا،کیا کر دیا آپ لوگوں نے؟ وہ لڑکی صرف سکون سے جینا چاہتی تھی،اور آپ سب نے اسے گھر سے جانے پر مجبور کر دیا

سارہ نے منہ بنایا،تو کیا کریں؟ اس کی وجہ سے نانو مر گئیں، دانیال بھائی مر گئے، کورٹ کے چکر لگانے پڑے وہ بھی چیخی۔ننھی عائشہ سہم گئی، رونے لگی۔

جاری ہے۔۔۔۔

فرحت بیگم نے آگے بڑھ کر بچی کو گود میں لیا اور کمرے میں چلی گئیں۔

سارہ! ماں بیگم کے ساتھ جو ہوا وہ ایک حادثہ تھا، اس میں عروہ کا کوئی قصور نہیں!شازین بولا۔

ریحانہ بیگم نے غصے سے کپ میز پر پٹخا،بس کرو شازی! وہ بیوہ ہے، مگر اس نے ہم سے ہماری دنیا چھین لی۔ میری گود اجاڑ دی اُس نے۔

آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟

کیوں اُس کے لیے دنیا تنگ کر دی؟

اگر وہ بیوہ ہے تو کیا وہ انسان نہیں؟

اس کا دل نہیں؟

جذبات نہیں؟شازین چیخا۔

ہمارے گھر کا سکون اسی کی وجہ سے برباد ہوا ہے!اب وہ چلی گئی ہے تو سکون واپس آئے گا!سارہ نے جواب دیا۔

سکون؟ یہ ظلم ہے!سب نے ایک مظلوم عورت پر اور ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں!شازین بولا۔

کاشف صاحب کھڑے ہوئے،بس، شازی! زبان سنبھال کر! تمہیں اندازہ بھی ہے کہ ہم سب سے کس لہجے میں بات کر رہے ہو

شازین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ہاں، اندازہ ہے بابا… مگر سب نے جو کیا، غلط کیا۔ماں بیگم کہتی تھیں کہ اس گھر کی دیواریں دادا نے محبت سے بنوائی تھیں۔

مگر اب لگتا ہے یہ دیواریں جلد کھوکھلی ہو جائیں گی،کیونکہ مجھے نفرت کی بو آنے لگی ہے۔

آپ سب نے اسے گھر سے نکالا،اب یاد رکھیں — میں بھی تبھی واپس آؤں گا جب عروہ واپس آئے گی

یہ کہہ کر وہ سیڑھیاں چڑھ گیا۔سارہ بھی پیچھے پیچھے گئی۔

اور اس گھر میں موسم کے ساتھ ساتھ رشتے بھی خراب ہو چکے تھے

کیا شازین سب کچھ ٹھیک کر پائے گا؟

یا یہ فاصلے ہمیشہ کے لیے بڑھ جائیں گے؟

جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *