انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۱۸
رات کا وقت تھا۔ سب بھائی کھانے کی میز کے گرد جمع تھے۔ لیکن میز پر خاموشی نہیں، شرارت، طنز اور ہنسی مذاق کی گونج تھی۔
دانیال نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے شوخی سے پوچھا،
بھائی، ساری تیاری ہو گئی نا پکنک کی؟
اذلان فوراً طنز کیا،
پوچھ تو ایسے رہا ہے جیسے نہ ہوئی ہوتی تو یہ کر لیتا۔
دانیال نے فوراً پلٹ کر جواب دیا،
ہاں تو کر لیتا، تیری طرح نالائق اور بےروزگار نہیں ہوں میں۔۔۔
اذلان کے آنکھوں میں غرور کی چمک تھی،
میری طرح تُو ہو بھی نہیں سکتا۔۔۔
دانیال نے تیزی سے کہا،
ہونا بھی نہیں چاہتا۔۔۔
اذلان فوراً بولا
تیرے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے، جب تُو ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔
اسی لمحے ابرار نے جھنجھلا کر کہا،
بس کرو دونوں! ہر وقت فضول بحث شروع کر دیتے ہو۔۔۔
اذلان نے کندھے اچکاتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا،
ہاں تو تُو آ کے کوئی کام کی بحث کر لے۔
ابرار نے تیکھی نگاہ سے دیکھا،
ہو گیا تیرا؟ بن گیا کُول؟
اذلان مسکرا کر بولا،
مجھے بننے کی کیا ضرورت؟ میں ہوں ہی کُول۔
یوسف نے آگے بڑھ کر اذلان کے کندھے کو ہاتھ لگایا،
لیکن بھائی تُو تو گرم ہو رہا ہے۔۔۔۔
سب ہنس پڑے۔ اذلان نے پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا،
تُو تھوڑا سا، میرا مطلب پورا پاگل ہے کیا؟
یوسف نے خالص معصومیت سے کہا،
عجیب…
امن نے تنگ آ کر کہا،
منہ بند کرو، اور چپ چاپ کھانا کھاؤ۔۔۔۔
دانیال نے فوراً موقع نہ گنوایا،
بھائی، منہ بند کر کے کھانا؟ ناک سے کھاؤں کیا؟
اذلان نے قہقہہ لگایا،
ہاں، کھا کے دکھا سکتا ہے تو۔۔۔
ارحم نے ناگواری سے کہا
تم لوگ سب کتنے پاگل ہو۔۔۔
ارسل نے فوراً پوچھا،
کتنے؟
ارحم نے سنجیدگی سے کہا،
ایک سو بیس فیصد۔۔۔
اذلان نے سر ہلاتے ہوئے کہا،
یہ بھی ارسل کے ساتھ رہ رہ کے سٹیا گیا ہے۔ بھائی سب کا علاج کرواؤ، ورنہ یہ تمہیں بھی پاگل کر دیں گے۔۔۔
امن نے تیز لہجے میں کہا،
اور تمہارے اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟
اذلان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
میرے بارے میں تو میرے بہت اچھے خیالات ہیں، تم اپنا بتاؤ؟
امن نے ناگواری سے کہا
ابھی ایک تھپڑ لگا دوں گا، اپنی زبان کو قابو میں رکھا کرو، اور بولنے سے پہلے سوچا کرو۔۔۔
اذلان نے کندھے اچکائے،
ہمم… واٹ ایور۔۔
اور یہ کہہ کر وہ اٹھ کر چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد خاموشی چھا گئی۔
دانیال نے نرمی سے کہا،
بھائی، تو کل تمہارے دفتر کی چھٹی ہوگی پھر؟
امن نے مختصراً جواب دیا،
ہاں۔
دانیال نے سر ہلایا،
اچھا…
+++++++++
دوسرے دن دوپہر کے تین بج رہے تھے۔
سورج کی تیز روشنی کھڑکی کے شیشوں سے چھن کر اندر آ رہی تھی۔ امن اور زاویار پہلے ہی آفیس پہنچ چکے تھے۔ دونوں اگلے سفر، آنے والے ٹرپ، اور ٹیم کے انتظامات میں مصروف تھے۔
کمرے میں ہلکی سی خاموشی تھی، مگر زاویار کو ہمیشہ کی طرح بےچینی تھی۔
زاویار نے فائل بند کرتے ہوئے کہا،
بھائی، سب سامان ایک دفعہ چیک کیے ہو نا؟
امن نے اطمینان سے جواب دیا،
ہمم، تم دیکھ چکے ہو نا؟ مطلب میں بھی دیکھ چکا ہوں۔
زاویار نے ناک چڑھائی،
عجیب ہو تم، جا کے دیکھ لو ایک بار۔۔۔
امن نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکائے،
تم دیکھ چکے ہو، بس کافی ہے۔
زاویار نے آنکھیں گھمائیں،
بعد میں کوئی مسئلہ ہوا نا تو مجھ سے مت کہنا۔۔۔
امن نے سر ہلاتے ہوئے کہا،
ہمم، ٹھیک ہے۔
زویار نے بے زاری سے کہا،
واٹ ایور۔۔۔
وقت گزرتا گیا، اور آہستہ آہستہ باقی ورکرز بھی آفیس پہنچنے لگے۔
چہروں پر جوش، آوازوں میں چہل پہل — مگر امن کا دل جیسے کہیں اور اٹکا ہوا تھا۔
پتہ نہیں حیات آئے گی بھی یا نہیں…
اس کے چہرے پر فکر صاف جھلک رہی تھی۔
جس کے لیے یہ سارا ٹرپ پلان ہوا تھا، اگر وہ ہی نہ آئی، تو پھر ساری خوشی جیسے بےمعنی ہو جائے گی۔
امن انہی سوچوں میں گم بیٹھا تھا کہ زاویار اس کے قریب آیا۔
بھائی… نتاشا نہیں آ رہی۔
امن نے چونک کر پوچھا،
کیوں؟
زاویار نے بےزار انداز میں جواب دیا،
پتہ نہیں… کوئی ڈراما کر رہی ہے شاید۔
امن نے گہری سانس لی،
چھوڑ دو، دل نہیں ہوگا آنے کا۔
زاویار نے فوراً کہا،
بھائی تو پھر مینیج کون کرے گا؟ میں اکیلا نہیں کرنے والا، ابھی کال کرو اور بُلا لو اُس کو۔۔۔
امن نے نرمی سے کہا،
تم کر لو…
زاویار نے فوراً انکار کیا،
میں نہیں کر رہا۔۔۔
امن نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
اچھا ٹھیک ہے، میں کر دیتا ہوں۔
زاویار نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا،
ہاں، کر لو… اور کہہ دینا، جیسے بھی آئے مجھے نہیں پتہ۔۔۔
امن نے سنجیدگی سے کہا
ہمم، اب میرے ابا نہ بنو۔۔۔
زاویار نے ناک سکیڑ کر کہا،
ہاں ہاں…
آفس کا ماحول اب کچھ زندگی محسوس کرنے لگا تھا۔
سب ایک ایک کر کے آ رہے تھے، ہنسی، باتوں اور تیاریوں کا شور پھیلنے لگا تھا۔
اتنے میں زارا اور مایا بھی آ گئیں۔
دروازہ کھلا، اور دونوں ایک ساتھ اندر داخل ہوئیں۔
آج تو ان دونوں کا انداز ہی کچھ الگ تھا۔
چونکہ آفیس کا باقاعدہ وقت نہیں تھا، تو دونوں نے شلوار قمیض کے بدلے فل میکسی اسکرٹ اور آدھی آستین کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی،
اور ان کے بال کھلے کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے۔۔
اور چہرے پر ہلکا سا میکپ۔۔۔
السلام علیکم سر…
دونوں نے خوش دلی سے کہا۔
دروازے کے قریب زاویار کھڑا تھا،
چہرے پر ہمیشہ کی طرح سختی اور لہجے میں وہی بےنیازی۔۔۔
وعلیکم السلام…
اس نے خشک انداز میں جواب دیا۔
مایا نے نظریں چراتے ہوئے ہلکے سے بڑبڑائی،
عجیب آدمی ہے… آج بھی اپنی منحوس گیری دکھا رہا ہے… اس کے اندر تو شاید ‘feelings’ نام کی چیز ہی نہیں۔۔۔۔
زارا نے آہستہ سے کہا،
ہمیں کیا کرنا ہے، چھوڑ دو…
مایا نے کندھے اچکائے،
ہاں، صحیح کہہ رہی ہو۔
ادھر امن ایک طرف فون پر مصروف تھا۔
کیا ہوا، کیوں نہیں آ رہی ہو؟
امن نے عام لہجے میں پوچھا
فون کی دوسری جانب نتاشا تھی۔
اس کی آواز میں روٹھا ہوا سا لہجہ تھا۔۔
بس ایسے ہی… دل نہیں ہے آنے کا۔
کیوں؟
بس… ایسے ہی۔
تم نہیں آؤ گی تو باقی چیزیں مینیج کون کرے گا؟
اور اگر آنا نہیں تھا تو پہلے بتانا چاہیے تھا۔
اب تمہیں آنا ہی پڑے گا — خاموشی سے آفیس پہنچو۔۔۔
نتاشا تھوڑا رکی، پھر آہستہ بولی،
اچھا… تم کہہ رہے ہو تو آتی ہوں۔
امن نے مختصراً جواب دیا،
ہمم…
اور کال بند کر دی۔
فون بند کرتے ہی وہ چند لمحے خاموش بیٹھا رہا۔
دل کے کسی کونے سے ایک خیال سر اُٹھا —
حیات کو بھی کال کروں کیا؟
پھر خود ہی سر ہلا دیا۔
نہیں… نہیں کرتا۔ اگر کال کی تو وہ شاید آنا چاہتی بھی ہو تو نہ آئے۔
کاش حیات بھی نتاشا کی طرح میری بات مان لیتی…
لیکن وہ تو حیات ہے، وہ کسی کی کیوں مانے گی؟
ہمیشہ اپنی منوائے گی…
یہ سوچتے ہوئے امن کے چہرے پر ایک ان دیکھی مسکراہٹ آ گئی۔
وہ مسکراہٹ جو شاید ہی کسی نے دیکھی ہو،
وہ خوشی جو اس کے چہرے پر کبھی کبھار ہی آتی تھی۔
++++++++++++
شام کے پانچ بج چکے تھے۔
سورج کی کرنیں عمارت کے شیشوں سے پھسل کر زمین پر بکھر رہی تھیں۔
آفیس کے اندر تقریباً سب ہی پہنچ چکے تھے — قہقہے، باتیں، اور روانگی کی چہل پہل۔
بس ایک کمی تھی… حیات کی۔
اس کا اب تک کوئی اتا پتا نہیں تھا۔
امن کے چہرے پر خاموشی کے باوجود ایک ان کہی سی بے چینی تھی۔
وہ بار بار موبائل اسکرین دیکھتا، مگر کوئی کال، کوئی میسج نہیں۔
دوسری طرف نتاشا بھی آ چکی تھی، ہمیشہ کی طرح تیار، پُر اعتماد، مگر آج شاید کچھ زیادہ بولڈ۔
اس کی موجودگی نے ماحول کو چمکا تو دیا،
مگر امن کے اندر جو خالی پن تھا، وہ کسی موجودی سے نہیں بھرا جا سکتا تھا۔
بھائی، چلو اب نکلتے ہیں… جسے آنا تھا، سب آ گئے ہیں۔
ہمم… رُک جاؤ۔ چھ بجے تک نکلتے ہیں۔
کیوں بھائی؟
دانیال اور یوسف نہیں آئے ابھی۔۔۔۔ انہیں کال کرو، پھر نکلتے ہیں۔
(یہ جملہ صرف بہانہ تھا، اسے خود بھی معلوم تھا۔
اصل انتظار ان دو کا نہیں تھا…)
ہاں، کرتا ہوں۔ زاویار نے کہا اور جیب سے فون نکل کر کال ملانے لگا۔۔۔
ہمم…
امن کی نظریں مسلسل آفس کے گیٹ پر جمی ہوئی تھیں۔
دل میں ایک ہی خیال،
کاش وہ آ جائے…
اور پھر
وہ لمحہ آ ہی گیا۔
وہی چہرہ، وہی انداز،
وہی مسکراہٹ جس کا انتظار اسے صبح سے تھا۔
حیات گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔
آج اس نے ہلکی کافی براؤن رنگ کی نِٹ سویٹر پہنی ہوئی تھی، جو سامنے سے تھوڑی سی ڈھیلی اور آرام دہ تھی۔
نیچے اس نے سفید شرٹ اسٹائل فراک پہن رکھی تھی، کمر پر سیاہ بیلٹ کے ساتھ باندھ رکھا تھا،اس کے ساتھ آسمانی رنگ کی جینز اور سفید اسپورٹس شوز تھے،
جو اس کے پورے انداز کو ایک کیژوئل مگر پُرکشش اسٹائل دے رہے تھے۔ بال ہمیشہ کی طرح کھلے چھوڑ رکھے تھے، اور بالوں میں لگی چھوٹی سی تتلی والی کلپ نے اس کی خوبصورتی میں ایک معصوم سی نزاکت بھر دی تھی۔
اس کے لبوں پر وہی مخصوص مسکراہٹ تھی،
جو کسی کی بھی نظر کو ٹھہر جانے پر مجبور کر دے۔
ہائے، حیات آ گئی ہے۔۔۔
وہ زارا اور مایہ کے پاس اکر بولی۔۔۔
اتنی دیر سے آ رہی ہو! مجھے تو لگا تم واقعی نہیں آؤ گی۔۔۔۔
زارا نے حیات سے کہا
ارے بھئی، حیات پکنک کیسے مِس کر سکتی ہے؟
اسی لیے تو… حیات آ گئی۔۔۔
اچھا جی؟ زارا نے مُسکراتے ہوئے کہا
جی جی۔۔۔
اتنے میں امن آگے بڑھا، حیات کے پاس آیا اور بولا
تم تو کہہ رہی تھیں نہیں آؤ گی؟
لیکن اب آ گئی ہوں نا۔
پاگل لڑکی…
وہ زیرِ لب مسکرایا
اور آپ… وہیات پارانی۔۔۔
ایکسکیوز می؟ امن نے حیات کو گھورا
واٹ ایور۔۔۔ حیات نے ناگواری سے کہا
اسی لمحے زاویار تیزی سے آیا۔
بھائی، چلو سب آ گئے ہیں، نیچے گاڑی کھڑی ہے۔۔۔
اَمن نے سر ہلاتے ہوئے کہا،
ہمم، چلو…
+++++++++++++
کچھ دیر بعد وہ سب اپنی منتخب جگہ پر پہنچ گئے۔
سمندر کے کنارے دن کی روشنی نے ساحل کو سنہرا کر رکھا تھا۔۔
ریزارٹ تو پہلے سے بُک تھا، مگر باربی کیو کا انتظام باہر ساحل پر ہی ہونا تھا۔
زاویار اور آفس کے چند لڑکے سامان گاڑی سے اتار رہے تھے،
اور ایک طرف ایک چھوٹا سا خیمہ بھی لگایا جا رہا تھا۔
دانیال نے اچانک زور سے پکارا،
اوئے دیش۔۔۔
اس کی آواز سن کر یوسف نے گردن موڑی۔
کیا۔۔۔۔
رک ذرا، ابھی بتاتا ہوں کیا۔۔۔
یہ کہہ کر دانیال نے اپنا جوتا اتارا اور یوسف کے پیچھے بھاگ پڑا۔
یوسف اسے اپنے پیچھے آتا دیکھ کر بوکھلا گیا اور تیزی سے آگے بھاگا۔
سب چونک کر اُن دونوں کو ہی دیکھنے لگے۔۔۔
ابے بتا تو کیا ہوا ہے؟ میرے پیچھے کیوں بھاگ رہا ہے تُو؟
یوسف بھاگتے ہوئے چیخا
دانیال نے زور دے کر کہا، تُو رُک تو بتاتا ہوں…
یوسف گھبرا کر چیخا،
نہیں رکوں گا، تُو مارے گا۔۔۔
ہاں تو مار کھانے والے کام کر کے، کیا اِکسپیکٹ کر رہا ہے کہ میں تجھے پھولوں کا ہار پہنا دوں گا؟
وہ اُس کے پیچھے پیچھے ڈور رہا تھا اور چیخ چیخ کر کہہ بھی رہا تھا۔۔۔
زارا نے ان دونوں کو دیکھ کر ہستے ہوئے مایا سے کہا
ان دونوں بچوں کو دیکھو…
پاگل ہی ہیں دونوں۔۔۔۔ مایہ نے بھی ہستے ہوئے جواب دیا۔۔
زارا نے سر جھٹکتے ہوئے کہا، ہاں، بالکل پاگل۔۔
یوسف بھاگتے ہوئے پھر چیخا،
ابے۔۔۔ میں نے آخر ایسا کیا کیا ہے؟ بتا تو سہی۔۔۔
رُک جا، بتاتا ہوں۔۔۔ دانیال بھی چیخا
یوسف نے پھر رفتار بڑھائی،
نہیں رُکوں گا، تُو مارے گا مجھے۔۔
دانیال کی آواز اب زیادہ بلند ہو گئی،
بچے گا پھر بھی نہیں تُو۔۔۔
یوسف چیخا،
بھائیییی۔۔۔
اب وہ سیدھا امن کی طرف بھاگ رہا تھا۔
دانیال پیچھے سے بولا،
آج تو بھائی بھی نہیں بچائیں گے تجھے۔۔۔
ابے میں نے کیا کیا ہے؟ یہ تو بتا پہلے۔۔۔
وہ پیچھے مڑتا چیخا
دانیال نے آنکھیں نکال کر غصے سے چیخا
زیادہ بھولا مت بن، تجھے پتا ہے کہ تُو نے کیا کیا ہے۔۔۔
ابے مینٹل پتہ ہوتا تو تجھ سے کیوں پوچھتا۔۔۔
یوسف چیخا۔۔۔
بس میرے کو نہیں پتہ بس آج تو بچے گا نہیں میرے ہاتھوں سے۔۔۔
عجیب۔۔۔۔ بھائی۔۔۔
وہ چیختا۔۔۔ تیز دوڑتا امن کو ڈھونڈتا۔۔۔
امن کے ملتے ہی اُس کے پیچھے جا چُھپا۔۔۔ اور امن کے پیچھے سے بولا۔۔۔
بھائی… دیکھو اِس درندے کو۔۔۔اسے رہ رہ کے دورہ پڑتا رہتا ہے۔۔۔
امن نے حیران ہو کر پوچھا،
کیا ہوا ہے اب؟
دانیال نے غصے سے امن کے پاس اکر روکتا بولا۔۔
بس بھائی، اب پانی سر سے اوپر جا چکا ہے۔۔۔
لیکن تم تو سُکھے کھڑے ہو، پانی کہاں سے آیا؟
وہ امن کے ساتھ ہی کھڑی تھی۔۔۔ دانیال کی بات سن کر حیرانی سے بولی۔۔۔
دانیال فوراً بولا،
ارے وہ والا پانی نہیں۔۔۔
حیات نے آنکھیں پھیلا کر معصومیت سے پوچھا،
تو کون سا پانی؟
یوسف نے جلدی سے امن کے پیچھے سے کہا،
ارے کوئی ایسا پانی نہیں۔۔۔ یہ پاگل ہے، کچھ بھی بولتا رہتا ہے۔۔۔
حیات نے سر ہلا کر کہا،
اچھا…
دانیال اب غصے سے حیات کو گھورتا بولا۔۔۔
کیا مطلب اچھا؟ میں پاگل لگ رہا ہوں تمہیں؟
حیات نے فوراََ جواب دیا،
نہیں، لیکن وہ بول رہا ہے نا تو…
دانیال نے تیوریاں چڑھا کر کہا،
تو؟
حیات نے کندھے اچکائے،
کچھ نہیں، تم لوگ جاری رکھو…
دانیال سر ہلاتا دوبارہ یوسف کی طرف متوجہ ہو کر چیخا
بھائی ہٹ جاؤ سامنے سے، یہ آج نہیں بچے گا۔۔۔
اس کی نظریں یوسف پر جمی ہوئی تھیں، جیسے بس موقع ملے اور ابھی جھپٹ پڑے گا۔
حیات نے فوراً طنزیہ لہجے میں کہا
جوتے سے کون مارتا ہے بھلا؟
دانیال نے دانت پیستے ہوئے کہا
یہ مار کھائے گا آج۔۔۔
حیات نے مسکراتے ہوئے کہا
اچھا… دیکھتے ہیں پھر۔۔۔
امن نے سخت لہجے میں دانیال سے کہا
دانیال۔۔۔ابھی ایک تھپڑ لگا دوں گا۔ تماشہ مت کرو یہاں، ورنہ آئندہ کے بعد کہیں بھی نہیں لے کر جاؤں گا۔۔۔
دانیال نے فوراً شکایت کی
بھائی۔۔ تُم مجھے ہی بول رہے ہو، اس کو بھی کچھ کہو نا! یہ ہے نمبر ون کا چور… ڈاکو انسان۔۔۔
یوسف نے جھٹ سے کہا
تُو خود ہی ہوگا چور، ڈاکو۔۔۔
دانیال نے فوراً ضربِ المثل الٹ دی
دیکھو بھائی! الٹا کوتوال چور کو ڈانٹے۔۔
ہیں؟ یہ نہیں ہوتا! کہتے ہیں — الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔۔۔
حیات نے جلدی سے کہا
دانیال نے کندھے اچکائے
وہی تو، ایک ہی بات ہے۔۔۔
حیات نے سر ہلایا۔۔۔
اچھا…
امن نے جھنجھلا کر کہا
اب دونوں کو ایک ایک تھپڑ لگا دوں گا۔۔
حیات نے منہ بنایا
کیوں؟ آپ کہیں کے پرائم منسٹر ہیں کیا؟
امن نے سخت لہجے میں کہا
چپ رہو تم۔۔۔
حیات نے فوراً ناگواری سے کہا
میں تو بولوں گی۔۔۔
امن نے غصے سے گھورتے ہوئے کہا
حیات…
اچھا…
بھائی دیکھو! یہ دوبارہ میرا جوتا پہن لیا ہے! یہ والا تو اور بھی مہنگا ہے، اسے بولو اُتار کے دے، نہیں تو اچھا نہیں ہوگا!
حیات نے حیران ہو کر کہا
کتنے کا ہے؟ پانچ ہزار کا؟
دانیال نے فخر سے کہا
نہیں! ڈیڑھ لاکھ کا ہے۔۔۔
حیات کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں
ہیں!! ڈی… ڈیڑھ لاکھ کا؟ یہ جوتا ہے یا سونا؟ اتنا مہنگا جوتا کون پہنتا ہے بھلا؟
دانیال نے سینہ چوڑا کرتے ہوئے جواب دیا
میں پہنتا ہوں۔۔۔
امن نے درمیانی لہجے میں کہا
واپس کر دے گا، فکر نہیں کرو۔۔۔
دانیال نے فوراً جواب دیا
نہیں بھائی! یہ نہیں دے گا، بہت ڈھیٹ انسان ہے۔۔۔
امن نے تحمل سے کہا
میں کہہ رہا ہوں نا، دے دے گا۔
دانیال نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا
بھائی… نہیں دیا نا، تو دیکھنا تم۔۔۔
امن نے بس مختصراً کہا
ہمم…
+++++++++++++
رات سمندر کے کنارے اتر چکی تھی۔ آسمان پر چاند اپنی مدھم روشنی بکھیر رہا تھا، اور لہروں کی ہلکی سی سرگوشی ماحول کو کسی خواب کی مانند بنا رہی تھی۔ خیمے کے پاس کوئلے سلگانے کی کوششیں جاری تھیں۔ ادھر ادھر ہنسی کی آوازیں، باربی کیو کی خوشبو، اور ٹھنڈی ہوا میں گھلی سمندر کی نمی ایک عجیب سا سکون دے رہی تھی
مایا نے خیمے کے پاس بیٹھتے ہوئے دھیرے سے کہا،
یہ حیات کو دیکھو، باس کے ساتھ ہی ساتھ گھوم رہی ہے…
زارا نے نظریں اٹھا کر دیکھا،
ہاں… واقعی۔۔۔
مایا نے ہلکا سا طنز بھرا تبسم کیا،
جہاں جا رہے ہیں، ان کے پیچھے پیچھے جا رہی ہے، اور باس ہیں کہ کچھ کہہ بھی نہیں رہے اسے…
ان کے قریب نتاشا بھی بیٹھی تھی، خاموش مگر توجہ سے ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی۔
زارا نے آہستہ آواز میں کہا،
آپس کی بات ہے، لیکن مجھے لگتا ہے باس… حیات کو پسند کرتے ہیں۔
مایا نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
ہمم، تو ایسے آگے پیچھے گھومے گی تو پسند تو آ ہی جائے گی نا…
زارا نے بات آگے بڑھائی،
اور تمہیں یاد ہے؟ باس نے یہ پورا ٹرِپ بھی اسی کے کہنے پر پلان کیا تھا… ورنہ وہ تو دفتر کے معاملے میں کسی کی نہیں سنتے۔۔۔
مایا نے سر ہلایا، بالکل…
نتاشا کا چہرہ اس دوران سخت ہوتا جا رہا تھا۔ دل میں ایک طوفان سا اٹھ رہا تھا۔
اسے تو میں چھوڑوں گی نہیں…
وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔
خود کو سمجھتی کیا ہے یہ؟ لگتا ہے کہ امن کو مجھ سے چھین لے گی؟ نہیں… امن صرف میرا ہے۔ اس کا بندوبست کرنا ہی پڑے گا…
اس کی آنکھوں میں حسد کی چنگاریاں چمکنے لگیں۔
دوسری طرف، امن اور زاویار سمندر کے قریب جھک کر کوئلے جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ حیات بھی کھڑی تھی، حیات، جو عام دنوں میں چنچل اور شوخ مزاج لڑکی تھی، آج غیر معمولی خاموش تھی۔ وہ آمن کے بالکل پیچھے پیچھے چل رہی تھی جہاں جہاں امن جارہا تھا وہ اُس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔۔۔
گھر کب تک جائیں گے؟
حیات نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
آمن نے، کوئلے پر پھونک مارتے ہوئے، جواب دیا،
بارہ یا ایک بجے تک… بس تھوڑا سا باربی کیو بن جائے تو کھا کر نکلتے ہیں۔
حیات نے آہستہ سے پوچھا،
اچھا…
امن نے نظریں اٹھائے بغیر کہا،
تم جا کر وہاں بیٹھ جاؤ، زارا لوگوں کے ساتھ۔
حیات نے فوراً نفی میں سر ہلایا،
نہیں، میں یہی ٹھیک ہوں…
سمندر کا پانی اب تھوڑا بلند ہو چکا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ موسم میں سکون تھا، مگر حیات کے دل عجیب سا ہورہا تھا۔۔۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی انجانی وحشت اس کے وجود کو اندر سے کھائے جا رہی ہو۔ وہ چپ چاپ خیمے کے پاس آ کر زارا کے قریب بیٹھ گئی۔ اس کے لب خاموش تھے، جیسے کسی نے سی دیے ہوں۔ چہرے پر ایک ایسی سنجیدگی تھی جو عام حالات میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔
شور شرابے کے بیچ وہ خاموش بیٹھی تھی، جیسے ہجوم میں بھی تنہا ہو۔
مایا نے زارا کے کان میں آہستہ سے کہا،
اسے کیا ہوا ہے؟
زارا نے کندھے اچکائے،
پتہ نہیں…
مایا نے کہا،
پوچھو نا، لگتا ہے کچھ ٹھیک نہیں۔
زارا نے نرمی سے پکارا،
حیات، تم ٹھیک ہو؟
حیات نے فقط ہلکے سے سر ہلایا، زبان سے کچھ نہ کہا۔
زارا نے دوبارہ پوچھا،
پکا؟
حیات نے پھر آہستگی سے ہمم… کہا،
زارا نے کچھ دیر بعد کہا،
تو پھر یوں چپ چاپ کیوں بیٹھی ہو؟ انجوائے کرو نا…
تم لوگ کرو… وہ بولی۔۔۔
++++++++++++
اچانک حیات کے موبائل پر ایک اَن جان نمبر سے کال آنے لگی۔
یہ کون کال کر رہا ہے…؟ حیات نے حیرت سے کہا۔
اُس نے کال اُٹھائی، مگر کال فوراً ہی کٹ گئی۔
“لعجیب… پتا نہیں کون ہے…
ابھی اُس نے اتنا ہی کہا تھا کہ موبائل دوبارہ بجنے لگا۔
عجیب… کون ہے؟ اُس نے ہلکی سی جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہا،
مگر اس بار بھی کال فوراً کٹ گئی۔
زارا نے حیرت سے پوچھا
کیا ہوا؟ کس کی کال ہے؟
پتا نہیں… جیسے ہی اُٹھاتی ہوں، فوراً کٹ جاتی ہے۔
اوہ، شاید سگنل کا مسئلہ ہوگا؟
ہمم… شاید…
اتنے میں موبائل دوبارہ بجنے لگا۔
زارا بولی، شاید گھر سے کال ہو، کوئی ایمرجنسی بھی ہو سکتی ہے؟
ہاں… مگر بات تو تب ہو جب کوئی بولے، یہاں تو کال فوراً بند ہو جاتی ہے…
تم ذرا آگے پیچھے ہو کے دیکھو، سمندر کے پاس اکثر سگنل نہیں آتے, زارا نے مشورہ دیا۔
ہمم… حیات نے آہستہ سے کہا اور چلنے لگی۔
اب وہ وہاں سے اُٹھ کر کچھ دُور آگئی تھی، مگر کال اب بھی بار بار کٹ رہی تھی۔ حیات کال کے چکّر میں آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ اُسے احساس تک نہ ہوا کہ وہ کب ساحل سے سمندر کے قریب پہنچ گئی تھی۔ شاید یہ بات اُس کے ذہن میں آئی ہی نہیں تھی۔
کال مسلسل بج کر بند ہو رہی تھی۔
کتنی عجیب بات ہے…
میسج بھی تو کر سکتا ہے، مگر نہیں… اِسے تو بس کال ہی کرنی ہے۔۔۔۔
وہ خود سے بڑبڑائی۔ اُس کے قدم بے اِختیار چلتے رہے، اور اب وہ اُس جگہ پہنچ چکی تھی جہاں روشنی کی ایک کرن تک نہ تھی۔ چاروں طرف صرف سمندر کی لہروں کا شور گونج رہا تھا… وہ واقعی بہت دور آ گئی تھی۔
حیات کے کانوں میں اب بھی فون کی ٹون بج رہی تھی کہ اچانک اُسے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے پیچھے سے دھکا دیا ہو۔ اُس کا فون ہاتھ سے چھوٹا، اور اگلے ہی لمحے وہ زمین پر گری۔
حیات نے گھبرا کر پیچھے مُڑ کر دیکھا — مگر وہاں… وہاں کوئی نہیں تھا۔
دُور دُور تک کوئی سایہ تک نظر نہیں آ رہا تھا۔
اُس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ ایک پرانا زخم جیسے کسی نے اچانک چھیڑ دیا ہو۔
پھر اُسے محسوس ہوا کہ سمندر کی لہریں اُس کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
وہ لمحے بھر کو ساکت رہ گئی… اور پھر ایکدم بوکھلا گئی۔
وہ پیچھے ہٹی، تو لہریں بھی پیچھے چلی گئیں — مگر اگلے ہی لمحے ایک اور بڑی لہر اُس کی سمت لپکی۔
اب کے وہ بری طرح ڈر گئی۔ اُس کے لبوں سے سسکیاں نکلنے لگیں۔ وہ ایک چھوٹے بچے کی طرح رونے لگی۔
نہیں… حیات کے پاس مت آؤ… نہیں…
اُس نے ہچکیوں کے درمیان لہروں سے کہا، مگر سمندر پر اُس کا کوئی اختیار نہ تھا۔
لہریں حسبِ معمول پیچھے جاتیں، اور پھر دوبارہ اُس کی طرف بڑھنے لگتیں،
ح… حیات کہہ رہی ہے… حیات کے پاس مت آؤ…
چاروں طرف اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ صرف چاند کی مدھم سی روشنی آسمان پر چمک رہی تھی۔
سمندر کی لہروں کا شور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہا تھا — اور ہر موج کے ساتھ حیات کے دل میں خوف کی ایک نئی لہر اُٹھتی تھی۔
اچانک اُس کے دل میں وہ تمام یادیں لوٹ آئیں — وہی یادیں جنہیں اُس نے کبھی اپنے دل کے کسی اندھیرے گوشے میں دفن کر دیا تھا۔
اب وہ سب یادیں جیسے مُردوں کی طرح دوبارہ زندہ ہو رہی تھیں، اُس کے دل کی دھڑکنوں کے ساتھ سانس لے رہی تھیں۔
نہیں… نہیں، حیات کو یہاں مت چھوڑ کر جائیے… پلیز…
اُس کی آواز کپکپانے لگی۔ آنسو اُس کے چہرے پر بہنے لگے۔
ڈر کے مارے اُس کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے، دماغ سن ہو چکا تھا، اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کرے تو کیا کرے۔
نہ… نہیں! حیات یہاں نہیں رہے گی۔۔۔۔۔
اُس نے پورے زور سے چیخ کر کہا، مگر وہاں کوئی نہ تھا جو اُس کی چیخ سُن سکے۔
چاروں طرف صرف لہروں کا شور تھا… اور اُس شور میں حیات کی روتی، ٹوٹی ہوئی آواز،
وہ آواز جو شاید سمندر کے شور میں دب کر رہ گئی تھی۔۔۔
+++++++++++
رات سمندر کے کنارے اپنے شباب پر تھی۔
ہوا میں باربی کیو کے دھوئیں کی خوشبو گھل رہی تھی،
کسی کے فون سے گانے کی مدھم آواز آ رہی تھی،
اور قہقہوں کا شور لہروں کے شور سے ٹکرا کر فضا میں گھل رہا تھا۔
زاویار، اَمن، یوسف اور دانیال سب اپنے اپنے مشغلے میں کھوئے ہوئے تھے۔
زاویار کوئلوں کو پھونک رہا تھا،
اَمن گوشت کے ٹکڑوں پر تیل لگا رہا تھا،
اور دانیال و یوسف دور کھڑے تصویریں لے کر اپنی ہی دنیا میں مگن تھے۔
بھائی، جا کے دیکھ تو سہی — دانیال اور یوسف کہاں گئے؟
پچھلی بار کی طرح ڈوبنے کی شرط تو نہیں لگا بیٹھے؟
زاویار نے امن سے کہا…
ہاں دیکھتا ہوں۔۔۔
امن نے نظریں اِدھر اُدھر دوڑائیں۔ دانیال اور یوسف تھوڑے فاصلے پر تصویریں لے رہے تھے، ہنسی مذاق میں مگن۔
مگر اچانک اُس کی نگاہ اُس سمت گئی جہاں ابھی کچھ دیر پہلے حیات بیٹھی تھی، اب وہ جگہ خالی تھی۔۔
یہ… یہ حیات کہاں گئی؟
یہی کہیں ہوگی، دیکھو ذرا…
نہیں ہے۔
ارے کہاں جائے گی، یہی ہوگی۔
میں دیکھتا ہوں…
وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور زارا کے پاس گیا۔
حیات کہاں ہے؟ امن نے زارا سے پوچھا
پتہ نہیں باس، ابھی تو یہی بیٹھی تھی۔ اُس کے فون پر کسی کی کال آئی تھی، یہاں سگنل نہیں تھے تو وہ تھوڑا دور چلی گئی تھی کال اٹینڈ کرنے۔ لیکن… ابھی تک واپس نہیں آئی۔۔۔ زارا نے فوراََ جواب دیا۔۔۔
کیا مطلب ابھی تک نہیں آئی؟
اُس کے چہرے پر حیات کے لیے فکر صاف جھلکنے لگی تھی۔
اُسے گئے ہوئے کافی وقت ہو گیا ہے، مگر وہ ابھی تک واپس نہیں آئی۔۔۔
یہ پاگل لڑکی اب کہاں چلی گئی…
اُس نے دل ہی دل میں بےچینی سے کہا۔
اچھا، میں دیکھتا ہوں۔
وہ مُڑ کر واپس جانے لگا۔
پتہ نہیں یہ حیات کہاں نکل گئی ہے…
اُس کے لہجے میں ایک عجیب سی بےچینی تھی،
ارے بھائی، یہی کہیں ہوگی، سیلفی لے رہی ہوگی۔ دیکھو نا اچھی طرح….
زاویار نے پھر سے کہا
تمہیں کیا لگتا ہے میں اندھا ہوں؟
لہجے میں تلخی، چہرے پر فکر کی لکیر صاف دکھائی دے رہی تھی۔
کیا پتہ…؟ زاویار نے کندھے اچکائے
میں سیریس ہوں، زاویار۔۔۔۔
یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں ایک انجانا خوف چمک گیا، زویار نے اُس کے لہجے کی سنجیدگی کو محسوس کیا۔
تو جا کے دیکھ لو، یا اسے کال کر لو موبائل پر۔
زاویار نے حال بتایا۔۔۔
ہمم… دیکھتا ہوں۔
وہ اتنا کہہ کر خاموشی سے اُٹھا اور قدم آگے بڑھا۔
تھوڑا دُور کھڑے دانیال اور یوسف کے پاس آیا۔
حیات کو دیکھا تم لوگوں نے؟
کون حیات؟
دانیال نے حیرانی سے پوچھا۔۔۔
ابے بھائی کی اسسٹنٹ۔۔۔
یوسف نے یاد کروایا۔۔۔۔
اچھا وہ پاگل۔۔۔۔
دانیال کو یاد آیا۔۔۔
ہاں، دیکھی ہے کہیں؟
امن نے بےچینی سے کہا
نہیں، میں نے تو نہیں دیکھی۔
دانیال نے نفی میں سر ہلا دیا۔۔۔
میں نے دیکھا تھا اسے، کال پر بات کرتے ہوئے… سیدھی جا رہی تھی۔
یوسف نے کہا۔۔۔
کہاں؟
ابے مجھے کیا پتہ بھائی، بس سیدھی جا رہی تھی۔۔۔
کیوں، کچھ ہوا ہے کیا؟
یوسف نے پوچھا۔۔۔
نہیں…
یہ کہتے ہی وہ سیدھا آگے بڑھنے لگا۔
یوسف نے اُسے جاتے دیکھ پیچھے سے کہا
بھائی، کہاں جا رہے ہو؟
آ رہا ہوں… امن نے بنا پیچھے موڑ کہا۔۔۔
بھائی، دیکھ کے جانا۔ آگے اندھیرا ہے۔ وہاں لائٹ وغیرہ نہیں ہے۔
یوسف نے پھر سے کہا
اچھا۔۔۔۔
وہ کہتا آگے بڑھنے لگا۔۔۔
اب روشنی دھیرے دھیرے ماند پڑ رہی تھی۔ ہوا میں نمی سی تھی، امن کے قدم دھیرے دھیرے ریت میں دھنس رہے تھے، مگر اُس کے دل کی دھڑکن ہر قدم کے ساتھ تیز ہو رہی تھی۔
دور کہیں، چاند کی روشنی سمندر پر ٹوٹی پھوٹی سی چمک رہی تھی۔
اور اُس اندھیرے کے پار… شاید کسی کی چیخ، ابھی تک لہروں میں گم تھی۔
++++++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔۔
