insaniyat ki awaz bane

insaniyat ki awaz bane…. written by Tasmia kanwal (Article)

آرٹیکل: انسانیت کی آواز بنی

از قلم: تسمیہ کنول

ہماری دنیا کے نقشے پہ ایک ایسا بھی ملک ہے۔ جسے جانتا تو ہر کوئی ہے مگر اس کے بارے میں بات کرنا کوئی پسند نہیں کرتا یا ہر کوئی ڈرتا ہے کہ کہیں اس کا اکاؤنٹ band

نہ ہو جائے.کیونکہ آج کل کے لوگوں کو اپنے اکاؤنٹ سے بڑی محبت ہو گئی ہے لیکن انسانوں سے نہیں انسانیت کہیں کھو سی گئی ہے۔

میں بات کر رہی ہوں فلسطین کے مظلوم بچوں کی جہاں ہر روز کئی بچے یتیم ہو جاتے ہیں اور کئی بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ وہاں پہ ہونے والے ظلم اور اس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے

مگر اس کے خلاف آواز اٹھانے کی طاقت کسی میں بھی نہیں کیونکہ سب لوگ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔وہاں پر بچے بھوک سے مر رہے ہیں ان کے پاس میڈیکل کی سہولتیں میسر نہیں وہاں پر جانے والے لوگ جو ان کی مدد کے لیے جاتے ہیں انسانیت کے ناطے۔

ان کو بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے یہ کہہ کے کہ یہ دہشت گرد ہیں مگر اصل دہشت گردی تو ان افواج نے مچا رکھی ہے جو مظلوموں پہ ظلم کرتے ہیں۔ جن چھوٹے چھوٹے بچوں کو ٹھیک سے چلنا بھی نہیں آتا ان کو بم دھماکوں میں اڑا دیا جاتا ہے۔نہ جانے کب ہماری عوام ہوش کے ناخن لے گی اور کب ان کے خلاف آواز اٹھائے گی. ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے خلاف اس ظلم کے خلاف آواز بنے۔

اپنے سوشل کاؤنٹ کے ذریعے_____ اور اپنے روپیوں کے ذریعے____ تاکہ کل بروز قیامت ہم اپنے خدا کے سامنے یہ کہنے والے بن سکیں کہ ہم نے کوشش کی تھی خاموش رہ کے ظلم کا ساتھ نہیں دیا تھا۔

کیونکہ حضرت ابراہیم کی آگ بجھانے کے لیے ایک چڑیا اپنی چونچ میں قطرہ قطرہ پانی لا کر مدد کرنے کی کوشش کرتی تھی۔

حالانکہ وہ جانتی تھی اس کے اس دو تین بوندوں سے کچھ نہیں ہوگا لیکن وہ کوشش کرنے والوں میں سے تو تھی۔

کیا ہم ایک چڑیا کی طرح چھوٹی سی چھوٹی کوشش بھی نہیں کر سکتے؟

ایک ویڈیو بنانا ان کے لیے آواز اٹھانا__ بائیکاٹ کرنا اسرائیل اور امریکن کمپنیوں کی چیزوں سے اجتناب کرنا__ کیا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے؟

خدا کا خوف کریں اور اپنی آخرت کے لیے تھوڑی سی نیکیاں کما لیں۔

شاید یہ آپ کی نجات کا ذریعہ ہی بن جائے۔۔۔

ختم شدہ۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *