زِندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر 27
از قلم سیدہ طوبیٰ بتول
اب یہ اسلام آباد کے ایک اسکول کا منظر ہے،
جہاں چھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے ہیں اور ٹیچرز انہیں پڑھا رہی ہیں۔
عروہ وہی لباس پہنے ہوئے، کندھے پر اپنی دادی کا ڈوپٹہ ڈالے، سلکی لمبے سیدھے بال کندھوں پر بکھرائے، ہاتھوں میں کچھ کتابیں اور پرس لیے اسکول کے اندر داخل ہوتی ہے۔
وہ ہر کلاس سے گزرتی ہے اور اساتذہ کو سلام کرتی جاتی ہے۔
تبھی وہ ہال میں لگی وال کلاک کی طرف دیکھتی ہے اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کلاس ون میں جاتی ہے،
جہاں چھوٹے بچے ہاتھوں میں ڈرائنگ لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔
عروہ اپنا پرس اور کتابیں میز پر رکھتی ہے اور بچوں کی ڈرائنگ دیکھنے لگتی ہے۔
ایک بچہ روتے ہوئے اس کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے:
مس! میں نے ڈرائنگ بنائی تھی، مگر اس پر پانی گر گیا اور وہ خراب ہوگئی۔
عروہ زمین پر دو زانو ہو کر بیٹھتی ہے، اس کے آنسو اپنے ہاتھوں سے صاف کرتی ہے،
اور اسے اپنے گلے سے لگا کر ماتھے پر پیار کرتی ہے۔
دیکھو بیٹا، ہمت کبھی نہیں ہارنی چاہیے۔
کبھی کبھی زندگی ہم سے بہت کچھ چھین لیتی ہے،
بہت کچھ برباد ہو جاتا ہے،
مگر ہمیں خدا پر یقین اور بھروسہ رکھنا چاہیے۔
وہ یہ کہہ کر بچے کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہے۔
بچہ اپنی کرسی پر جا کر بیٹھ جاتا ہے اور باقی بچے تالیاں بجانے لگتے ہیں۔
پھر ایک چھوٹی سی گڑیا جیسی بچی، اسکول کی یونیفارم پہنے،
دو چوٹیاں کیے، اپنی ڈرائنگ لیے عروہ کے پاس آتی ہے۔
مس! میں نے دعا کی ڈرائنگ بنائی ہے،
ڈرائنگ میں دعا کے لیے اٹھے ہوئے دو ہاتھ ہیں۔
عروہ مسکرا کر اس بچی کا ماتھا چومتی ہے۔
واہ! بہت خوبصورت۔
بچو، ہمیں ہمیشہ اللہ سے دعا مانگنی چاہیے،
اور اگر کبھی دعا قبول نہ ہو تو پریشان نہیں ہونا چاہیے،
کیونکہ اللہ کچھ دعائیں اپنے خزانے میں محفوظ کر لیتا ہے۔
اسلام آباد کے ایک ماڈرن علاقے میں ایک فلیٹ کے اندر،
ہوا کے جھونکوں سے پردے ہل رہے تھے۔
وہی گڑیا جیسی بچی صوفے پر بیٹھی ڈرائنگ کر رہی تھی۔
پھر وہ بھاگ کر اپنے بابا کے پاس آئی،
جو صوفے پر بیٹھے لیپ ٹاپ پر کام کرنے میں مصروف تھے۔
بابا! دیکھیں، میں نے کیا بنایا!
وہ خوشی سے بولی۔
ڈرائنگ میں ایک چھوٹی سی بچی بنی تھی،
جس کا ہاتھ اس کے ابو نے پکڑا ہوا تھا۔
یہ آپ ہیں، اور یہ میں!
وہ ہنستے ہوئے بولی۔
شاہ زین، شازین احمد نے لیپ ٹاپ بند کیا،
ڈرائنگ کی طرف دیکھا اور پھر اپنی بیٹی کی طرف۔
ہاں، بہت اچھا بنایا ہے۔
اب آپ بک ریڈنگ کرلو، مجھے آفس کا کام ہے۔
وہ بے دلی سے بولا اور دوبارہ لیپ ٹاپ کھول لیا۔
اس کی نظریں کچھ لمحے کے لیے
عائشہ پر ٹکیں جو ہجے ٹوٹے الفاظ میں کتاب پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
پھر اس نے میز پر رکھی ڈرائنگ کو دیکھا۔
اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
زندگی کام اور ذمہ داریوں میں اتنی الجھ جاتی ہے
کہ ہم اپنوں کو توجہ ہی نہیں دے پاتے۔
اس نے دل میں سوچا اور دوبارہ ٹائپنگ میں مصروف ہوگیا۔
کراچی کے ایک آفس میں زارا اپنی ڈیسک پر بیٹھی کمپیوٹر پر کام کر رہی تھی۔
اس نے نیلے رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا،
ماتھے پر ہلکا میک اپ، بال ہائی پونی ٹیل میں بندھے تھے۔
تبھی پینٹ کوٹ میں ملبوس ایان مرزا اس کے پاس آیا،
وجیہ چہرے اور داڑھی والا۔
مس زارا، اس فائل پر آپ کے سائن چاہییں۔
زارا دانت بھینچ کر بولی،
رکھیں، کر دیتی ہوں۔
جلدی سے سائن کیے اور فائل واپس دے دی۔
ایان مسکراتے ہوئے چلا گیا۔
چیریٹی ہال کا منظر
ہال سفید پھولوں سے سجا ہوا تھا۔
ہر دیوار پر Hope Foundation for Needy Children کے بینرز لگے تھے۔
کچھ لوگ گفتگو میں مصروف تھے،
کچھ ڈونیشن دے رہے تھے۔
عروہ پیچ رنگ کے کاٹن سوٹ میں،
گلے میں مفلر کی طرح ڈوپٹہ ڈالے،
بال جوڑے میں بندھے ہوئے،
ڈونیشن فارم ترتیب دے رہی تھی۔
وہ پہلے جیسی معصوم مگر اب پر وقار اور پُر سکون لگ رہی تھی۔
عمر اب 30 سال ہو چکی تھی۔
تبھی وہاں ڈونیشن دینے شاہ زین آیا۔
ایسا لگا جیسے پل بھر کو وقت رک گیا ہو۔
دونوں کے لبوں سے ایک ہی سوال نکلا:
آپ یہاں؟
عروہ نے نظریں جھکائیں،
جی، میں یہاں والنٹیئر ہوں… اور آپ؟
شاہ زین نے مسکراتے ہوئے فارم لیا۔
بس سوچا آج یہاں آ کر کسی غریب کی مدد کر دوں،
تو شاید دعائیں مل جائیں۔
فارم بھر کر اس نے پیسے باکس میں ڈالے اور عروہ کی طرف دیکھا۔
تم بدل گئی ہو۔
عروہ نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا:
وقت سب کو بدل دیتا ہے،
کبھی درد سے، کبھی خوشیوں سے۔
اسی لمحے شاہ زین کا فون بجا۔
وہ مڑ گیا۔
عروہ نے نظریں ہٹائیں اور فارم ترتیب دینے لگی۔
دل ہی دل میں سوچا:
زندگی کچھ راستے الگ ضرور کر دیتی ہے،
مگر خونی رشتوں کے اثر مٹایا نہیں کرتی۔
گلے دن زارا پریزنٹیشن دے رہی تھی۔
جیسے ہی وہ کانفرنس روم سے نکلی،
ایان بھی اس کے پیچھے آیا۔
مس زارا، آپ سب کو دیکھ کر مسکراتی ہیں،
کبھی ہمیں بھی دیکھ کر مسکرا لیا کریں۔
زارا نے ابرو اٹھائی:
میں صرف مطلب کی باتوں پر ہنستی ہوں۔
یہ کہہ کر وہ اپنی ڈیسک پر واپس چلی گئی۔
عروہ اسکول سے آ کر ظہر کی نماز ادا کر رہی تھی۔
نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کی:
اور صبر کرو، بے شک صبر کرنے والوں کو بہترین اجر ملے گا۔
یہ پڑھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
قرآن بند کیا اور دل میں کہا:
واقعی، صبر کرنے والوں کو بہترین اجر ملتا ہے۔
آج مدرز ڈے تھا۔
عائشہ صوفے پر بیٹھی رنگ بکھیرے کارڈ بنا رہی تھی۔
اس نے کارڈ پر لکھا:
Happy Mother’s Day, Mama
اور نیچے ایک چھوٹا سا دل بنایا۔
پھر وہ اپنے روم میں گئی،
جہاں سارہ کی فوٹو فریم رکھی تھی —
وہی تصویر جس میں سارہ کی گود میں ننھی عائشہ تھی۔
عائشہ نے کارڈ فریم کے پاس رکھا،
تصویر کو چھوا،
اور بولی:
ماما، آپ کو یہ پسند آیا؟
سب کے پاس ماما ہیں، میرے پاس نہیں…
پر ماما، آپ تو روز میرے خوابوں میں آتی ہیں نا؟
واقعی —
ماں کبھی چھوڑ کر نہیں جاتی،
بس ہر وقت اپنے بچوں کے آس پاس رہتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔
