زِندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر 29
از قلم سیدہ طوبیٰ بتول
لاؤنج کی میز پر پیزا باکسز، آئس کریم اور سینڈوچز رکھے ہوئے تھے۔ شاہ زین کچن سے پلیٹیں لا کر رکھ رہا تھا۔ اُس نے نیلے رنگ کی شرٹ پہن رکھی تھی۔
عائشہ کمرے سے بھاگتی ہوئی باہر آئی۔ اُس نے سفید رنگ کی فراک پہنی ہوئی تھی اور سر پر چھوٹے چھوٹے ستاروں والے کلپس لگے ہوئے تھے۔
اتنے میں ڈور بیل بجی۔
عائشہ بھاگ کر دروازہ کھولتی ہے۔ سامنے عروہ کھڑی تھی — آف وائٹ شیفون کا سوٹ پہنے، کندھے پر ہرے رنگ کی شال، ہلکا سا میک اپ، اور بال نفاست سے جوڑے میں بندھے ہوئے۔
شاہ زین جب پلیٹیں رکھ کر مڑا، تو دونوں کی نظریں ایک لمحے کے لیے ملیں۔
عروہ اندر آ چکی تھی۔ وہ مسکرائی،
السلام علیکم، شاہ زین بھائی۔
عائشہ نے حیرت سے دونوں کو دیکھا، پھر بولی،
پاپا، مس آپ کو بھائی کیوں کہہ رہی ہیں؟
شاہ زین مسکرایا، کیونکہ یہ زارا پھوپھو کی بہن ہیں، میری کزن۔
او واو! عائشہ خوش ہو کر بولی۔ آپ تو زارا پھوپھو سے بھی زیادہ پریٹی ہیں! میں نے آپ کے لیے ایک ڈرائنگ بنائی ہے، میں ابھی لاتی ہوں!
یہ کہہ کر وہ بھاگتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
اب عروہ نے سنجیدگی سے شاہ زین کی طرف دیکھا،
شاہ زین بھائی، یہ عائشہ… آپ اور سارہ کی بیٹی ہے نا؟ اور… سارہ کی ڈیتھ ہو گئی؟
شاہ زین کے چہرے پر غم اور غصے کے آثار چھا گئے۔
ہاں، مت لو اُس کا نام۔ اُس کے شک اور حسد نے سب کچھ ختم کر دیا…
پھر شاہ زین نے اسے ساری حقیقت بتا دی۔
عروہ کے ہاتھ سے پرس زمین پر گر گیا۔ وہ لڑکھڑائی، اور فرش پر بیٹھ کر رونے لگی۔
یا اللہ! میرے اپنوں نے میرے خلاف سازش کی… سارہ کی وجہ سے میرے ہی اپنوں نے مجھ پر الزام لگائے…
اس کا چہرہ زرد پڑ گیا، اور وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی۔
مانیٹر کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔ عروہ کو ڈرپ لگی ہوئی تھی۔
شاہ زین اسٹول پر بیٹھا تھا، گود میں سوئی ہوئی عائشہ تھی۔
ڈاکٹر اندر آیا،
مسٹر شاہ زین، مس عروہ کو نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے۔ انہوں نے کافی عرصے سے اپنے جذبات دبائے رکھے تھے۔ اب انہیں مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ انہیں کسی بھی قسم کا ذہنی دباؤ نہ دیں۔
شاہ زین نے حیرت سے کہا،
نروس بریک ڈاؤن؟ مگر عروہ تو بہت مضبوط تھی…
ڈاکٹر کندھے پر ہاتھ رکھ کر چلا گیا۔
شاہ زین نے عروہ کی طرف دیکھا،
عروہ… تم نے نہ جانے کتنے دکھ برداشت کیے ہیں…
تبھی عروہ کی انگلیاں ہلنے لگیں۔ اُس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔
شاہ زین بھائی… میں مر کیوں نہ گئی… میرا سب کچھ چلا گیا… میرا ہر رشتہ…
شاہ زین نرمی سے بولا،
نہیں عروہ، کچھ نہیں گیا۔ تم خود پر یقین رکھو۔ آج سے تم اکیلی نہیں رہو گی۔ تم میرے فلیٹ چلو، عائشہ تم سے بہت اٹیچ ہو گئی ہے۔ اُس کے ساتھ رہو…
بے شک، زندگی ہر بار ہمیں درد دیتی ہے،
مگر اگر کوئی ہمارا ساتھ دے،
تو وہی درد ہماری دوا بن جاتا ہے۔
اب عروہ شاہ زین کے فلیٹ میں رہ رہی تھی۔
اُس نے سفید چکن کاری کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، کندھے پر نیلے جارجٹ کا دوپٹہ۔
شاہ زین نے گرے رنگ کی ٹی شرٹ اور ٹراوزر پہن رکھا تھا۔
عائشہ گلابی فراک میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔
وہ سب مل کر رات کا کھانا کھا رہے تھے — کھانا عروہ نے بنایا تھا۔
عائشہ مسکراتی ہوئی اپنی کاپی عروہ کو دیتی ہے۔
عروہ کاپی کھولتی ہے تو اس میں ایک بچی اور اُس کی مما بنے ہوئے ہیں، جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی ہیں۔
عروہ مسکرائی،
بہت خوبصورت ڈرائنگ ہے! یہ دونوں کون ہیں؟
عائشہ شرماتے ہوئے عروہ کی گود میں آ بیٹھی،
یہ آپ اور میں ہیں! آپ بہت اچھی ہیں، آپ میری رئیل مما بن جائیں نا، پلیز!
شاہ زین کے ہاتھ سے نوالہ پلیٹ میں گر گیا۔
عروہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
عائشہ بیٹا… تمہاری مما بہت اچھی تھیں… میں تمہاری مما نہیں بن سکتی…
عائشہ اداس ہو گئی، عروہ کے گال پر بوسہ دیا،
پلیز بن جائیں نا… میں روز اللہ میاں سے دعا کرتی ہوں کہ مجھے میری مما واپس مل جائیں۔ دیکھیں نا، ہمیں مڈرز ڈے پر ایوارڈ بھی ملا تھا… میں آپ کو تنگ نہیں کروں گی، ہر بات مانوں گی…
عروہ نے آنسو پونچھے اور خاموشی سے کمرے میں چلی گئی۔
شاہ زین نے عائشہ کو گود میں لیا اور پیار سے کھانا کھلانے لگا۔
فجر کی نماز کے بعد عروہ بالکونی میں کھڑی تھی۔
شاہ زین دو کافی کے مگ لیے آیا۔
عروہ نے مگ تھاما اور دھیرے سے بولی،
عائشہ کی باتوں نے مجھے ایک بار پھر ماضی میں لوٹا دیا، شاہ زین… وہ الزامات یاد ہیں نا آپ کو؟
شاہ زین نے اس کی طرف دیکھا،
عروہ، میں نے ہمیشہ تمہارا ساتھ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب تم نے روشن ولا چھوڑا، میں نے بھی چھوڑ دیا۔
مجھے پتا چلا تم اسلام آباد میں رہ رہی ہو تو میں بھی یہیں آ گیا۔
عائشہ جب دو سال کی ہوئی تو میں اُسے اپنے ساتھ لے آیا تاکہ کم از کم اُسے باپ کا پیار تو مل سکے۔
میں اکثر چھٹیوں میں کراچی جاتا ہوں، وہاں سب اُسے بہت پیار دیتے ہیں، مگر ماں کا نعم البدل کوئی نہیں ہوتا۔
اسی طرح شوہر کا بھی بیوی کا نہیں۔
مجھے لگتا ہے… ہمارے پاس انہی رشتوں کی کمی ہے۔
عائشہ کے لیے ہم ایک ہو سکتے ہیں — باقی فیصلہ تمہارا…
یہ کہہ کر شاہ زین چلا گیا۔
جبکہ عروہ آنکھوں میں نمی لیے آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔
کیا عروہ اپنی ماضی کی تلخ یادوں سے نکل پائے گی؟
یا شاہ زین اور عروہ کی زندگی ایک نئے موڑ پر مل جائے گی؟
جاری ہے۔۔۔۔
