زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ آخری قسط ۔۔۔۔
ازقلم سیدہ طوبیٰ بتول۔۔۔۔
آمنہ بیگم، نگینہ بیگم کی آرم چیئر پر بیٹھی ہوئی تھیں۔
ان کے ہاتھ میں سارہ کی فوٹو فریم تھی۔ وہ رو رہی تھیں۔میری بچی! تُو مجھے اس عمر میں اکیلا چھوڑ کر کیوں چلی گئی؟
یہ کہہ کر وہ سسکنے لگیں۔ اتنے میں شاہ زین وہاں آیا اور قالین پر بیٹھ گیا۔
میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں، پھوپھو! سارہ کے مرنے سے پہلے میں اُسے طلاق دے چکا تھا۔
پھر اس نے ساری بات بتائی۔ آمنہ بیگم کے ہاتھ سے فوٹو فریم نیچے گرنے ہی والا تھا کہ شاہ زین نے فوراً تھام لیا۔
وہ فریم اُن کی گود میں رکھ کر خاموشی سے کمرے سے نکل گیا۔آمنہ بیگم اب بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔ ان کی آنکھیں رونے سے سرخ ہو چکی تھیں۔
عروہ دودھ کا گلاس لیے کمرے میں داخل ہوئی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر جانے لگی تو آمنہ بیگم نے اُسے آواز دی۔
وہ واپس پلٹی اور بستر پر بیٹھ گئی۔
آمنہ بیگم بھی اٹھ بیٹھیں۔بیٹا، مجھے معاف کردو۔ میں نے تمہارے لیے دل میں بہت بغض رکھا۔ یہی بغض اپنی بیٹی کے دل میں بھی ڈال دیا۔ میری تربیت ہی ٹھیک نہیں تھی۔ میں بیوہ ہو کر بھی تم پر الزام لگاتی رہی، تمہیں تکلیفیں دیتی رہی۔
عروہ نے اُن کے آنسو صاف کیے۔
پیارے پھوپھو، صرف آپ نے نہیں بلکہ اس سوسائٹی نے بھی مجھے طعنے دیے ہیں۔ لیکن دیکھیں، میں اب ایک مضبوط عورت بن چکی ہوں۔ ہر درد سہنے کی عادت ہو گئی ہے۔
آمنہ بیگم نے عروہ کے ہاتھ تھام لیے۔بیٹا، ہمارا معاشرہ کتنا ظالم ہے! آج مجھے احساس ہوا کہ مظلوم عورت پر یہ مزید ظلم ڈھاتا ہے۔ میں بھی انہی ظالموں میں شامل ہو گئی تھی، میں نے تمہیں بہت دکھ دیے۔
عروہ نے ان کے ہاتھوں کو چوم لیا۔بس پھوپھو، اب روئیے مت۔ اگر سارہ مر گئی تو کیا ہوا، میں آپ کی بیٹی ہوں، اور ایک ماں کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتی۔
آمنہ بیگم نے عروہ کو گلے سے لگا لیا۔ساری نفرتیں، ساری تلخ یادیں، اور معاشرے کے دکھ جیسے آنسوؤں کے ساتھ بہہ گئے۔
کچھ دیر بعد آمنہ بیگم نے کہا،بیٹا، میں دو دن بعد عمرہ پر جا رہی ہوں۔ میرے لیے دعا کرنا کہ اللہ مجھے معاف کردے۔
عروہ مسکرائی، ماشااللہ پھوپھو، یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اللہ آپ کو خوش رکھے، آپ کے سب گناہ بخش دے۔ میرے لیے بھی دعا کیجیے گا کہ مجھے بھی یہ سعادت نصیب ہو۔
صبح کے وقت زارا کچن میں آئی تو فرحت بیگم چائے بنا رہی تھیں۔
امی، مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔
وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔
فرحت بیگم مسکرائیں، بولو بیٹا۔امی، میں اپنے کولیگ ایان سے محبت کرتی ہوں اور ہم شادی کرنا چاہتے ہیں۔
فرحت بیگم نے زارا کو دیکھا، پھر ایک زور دار تھپڑ مار دیا۔تمہیں شرم نہیں آتی اپنی ماں سے ایسی بات کرتے ہوئے؟
ہمارے خاندان میں ایسی روایات نہیں ہیں!زارا نے آنسو ضبط کیے۔
فرحت بیگم بولیں، بیٹا، ہمارا معاشرہ ایسی لڑکیوں کو کبھی معاف نہیں کرتا جو خاندان کی روایت توڑتی ہیں۔ اگر تم نے اپنے پسند کے لڑکے سے شادی کی تو خاندان کی عزت خاک میں مل جائے گی۔
رات کے تین بج رہے تھے۔ زارا لان میں جھولے پر بیٹھی فون پر ایان سے بات کر رہی تھی۔ایان، مجھے تمہاری ضرورت ہے۔
تم کیوں نہیں سمجھ رہے ہو؟
ایان نے کہا، جب گھر والے نہیں مان رہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
عروہ جو پانی لینے کچن میں آئی تھی، کھڑکی سے زارا کو دیکھ رہی تھی۔ وہ باہر آئی اور زارا کا فون چھین لیا۔
مسٹر ایان، میں زارا کی بڑی بہن عروہ بات کر رہی ہوں۔ تم لڑکے اتنے عجیب کیوں ہو؟ پہلے لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتے ہو اور پھر ماں باپ نہیں مان رہے کا بہانہ بنا کر انہیں چھوڑ دیتے ہو! اگر ہمت ہے تو اپنے ماں باپ سے بات کرو، ورنہ کسی لڑکی کی زندگی برباد مت کرو۔ تم نہیں جانتے، کتنی لڑکیاں محبت کے نام پر اپنی جان گنوا دیتی ہیں۔یہ کہہ کر اس نے فون بند کیا۔
زارا، اپنے کمرے میں جاؤ اور سو جاؤ۔ میں امی سے بات کروں گی۔ لیکن وعدہ کرو، اگر وہ لوگ نہیں مانے تو تم پاگل نہیں ہوگی۔
آگے بڑھ جانا، موو آن کر لینا۔
زارا نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔
اگلے دن سب لوگ لاؤنج میں چائے پی رہے تھے، عائشہ لان میں کھیل رہی تھی۔
عروہ نے کہا، دیکھیں، زارا نے سب کچھ سچ بتا دیا ہے۔ آپ لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ پسند کی شادی سے خاندان کی عزت خراب ہوگی؟ لڑکیوں کو بھی اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق ہے۔ زندگی تو ایک پہیلی ہے، جہاں دکھ اور خوشیاں دونوں ملتے ہیں۔ لیکن اگر ہم دل کی سنیں تو زندگی کا ہر لمحہ خوبصورت بن جاتا ہے۔سب خاموشی سے سن رہے تھے۔
محبت کی پہلی اور آخری شرط عزت ہے، اور زارا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے اس کا ساتھ نہ دیا تو کیا پتا وہ باغی بن جائے۔اب کی بار شازین بولا۔
سب نے زارا کی طرف دیکھا۔دن گزرتے گئے، مگر ایان مرزا اپنی فیملی کے ساتھ رشتہ لے کر نہیں آیا۔ اس نے نیا آفس جوائن کر لیا تھا۔ وہ کبھی کبھار زارا سے کال یا میسج پر بات کر لیتا، مگر جب زارا رشتے کی بات کرتی تو وہ بہانہ بناتا۔
ایک دن زارا کا صبر جواب دے گیا۔
ایان، آخر مسئلہ کیا ہے؟
آج صاف بتا دو!سامنے سے ایان کے قہقہے گونجنے لگے۔
تم جیسی لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ ہم تمہارے عشق میں پاگل ہیں؟ نہیں زارا، ہم صرف وقت گزاری کرتے ہیں۔ تم جیسی معصوم لڑکیاں محبت کے خواب دیکھتی ہیں، اور ہم مزے سے ہنستے ہیں۔یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔
زارا کا دل ٹوٹ گیا۔ اس نے ایان کو فوراً بلاک کر دیا اور رونے لگی۔
تبھی عروہ کمرے میں آئی۔ارے چٹکی، کیوں رو رہی ہو؟
زارا اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
عروہ نے کہا، یہ تمہارے لیے سبق ہے، کہ صحیح اور غلط انسان میں فرق کیسے پہچانا جائے۔ ہمت مت ہارو، آگے بڑھو۔ اپنی پہچان بناؤ۔ ایک دن تم کروڑوں ایان مرزا جیسے لوگوں کو پیچھے چھوڑ دو گی۔
کچھ سال بعد، زارا نے اپنا فیملی بزنس جوائن کرلیا۔
آج اس کا بزنس انٹرنیشنل سطح پر پھیل چکا تھا۔اسے
Best Marketing Manager
کا ایوارڈ ملا تھا۔عروہ اور باقی سب فخر سے اسے دیکھ رہے تھے۔
عروہ نے کہا، دیکھا، پیار کے پیچھے پاگل نہیں ہونا چاہیے۔ محبت فطری جذبہ ہے — جانور کے بچے سے بھی ہو جاتی ہے۔لیکن لڑکیوں کو محبت میں خود کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔
زارا نے ثابت کر دیا کہ عورت اپنی محنت سے دنیا بدل سکتی ہے۔
روشن ولا کے لاؤنج میں سب لوگ آئس کریم کھا رہے تھے۔عروہ شازین کے برابر بیٹھی تھی۔ اس نے سبز شیفون کا سوٹ پہن رکھا تھا۔اس کی گود میں عائشہ بیٹھی تھی۔
شازی، کبھی سوچا تھا کہ میں بھی خوش رہ سکوں گی؟
شازین نے اس کا ہاتھ تھاما۔عروہ، تم خوشیوں کی مستحق ہو۔
عروہ مسکرا دی۔زندگی میں دکھ تھے، جدائیاں تھیں، لیکن اب وہ مکمل تھی۔
عروہ اور شازین چھت پر بیٹھے کافی پی رہے تھے۔
عائشہ اور زارا نیچے لان میں کھیل رہی تھیں۔ریحانہ بیگم، فرحت بیگم، فیضان صاحب اور کاشف صاحب لاؤنج میں شام کی چائے کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔
سارہ کے شک اور حسد نے اس کی جان لے لی۔
دانیال کی زندگی اتنی ہی تھی، مگر اس نے عروہ کا ساتھ دیا۔
زارا کی شادی ایان سے نہیں ہوئی، مگر اس نے اپنی محنت سے سب کچھ حاصل کرلیا۔
زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ — یہی فقرہ ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی میں ہر رنگ پیار، صبر اور ہمت سے بنتا ہے۔
عروہ کی زندگی آزمائشوں سے بھری تھی —الزامات سے لے کر ناکام منگنی، دانیال سے شادی، اس کی معذوری،سارہ کا شک، بیوگی، نفرتیں، اسلام آباد کی تنہائی،اور آخرکار روشن ولا میں شازین کی بیوی اور عائشہ کی ماں بننے تک۔
لیکن اس نے ہمیشہ سکھایا کہ زندگی کو رنگین کیسے بنایا جائے۔
اس کہانی میں کوئی ولن نہیں تھا —ولن تھی تو صرف زندگی،جو کبھی دکھ دیتی ہے، کبھی سبق۔
اور جب اپنے ساتھ ہوں —تو واقعی زندگی رنگین بن جاتی ہے۔
جزاک اللہ خیر۔۔۔۔
(ختم شد)
