Zindagi ke rang apno ke sang Written by syeda tooba batool Episode 30

زندگی کے رنگ اپنوں کے سنگ قسط نمبر 30 

از قلم سیدہ طوبیٰ بتول

یہ مسجد تھی جہاں ظہر کی نماز ادا کی گئی تھی۔ وہاں نکاح کی تقریب میں عروہ نے سفید رنگ کا لہنگا پہنا ہوا تھا، اور اس کے سر پر لال رنگ کا کرن لگا دوپٹہ تھا۔ وہ سنبھلی ہوئی بیٹھی تھی۔ شاہ زین اس کے سامنے سفید کرتا شلوار پہنے بیٹھا تھا۔

تبھی وہاں صرف ایک ہی آواز گونجی:
“قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے!”

عروہ کو اپنی پہلی شادی یاد آگئی — جب اس کا نکاح دانیال سے پڑھا گیا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ شاہ زین کو عروہ کے چہرے میں سارہ کا عکس نظر آ رہا تھا۔

عائشہ سفید فراک پہنے، بالوں میں لال ربنز لگائے وہاں آئی۔
“واو! اب میری بھی مما آگئیں، میں کتنی لکی ہوں!”

اگلے دن رات کے وقت زارا اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی لیپ ٹاپ پر پریزینٹیشن بنا رہی تھی۔ تبھی اس کا فون بجا — اسکرین پر ایان مرزا کا نام چمک رہا تھا۔ زارا منہ بنا کر فون اٹینڈ کرتی ہے۔
“میڈم ورک ہولک… یقینا آپ پریزینٹیشن بنا رہی ہیں؟”

زارا نے بے زاری سے جواب دیا:
“مسٹر ایان مرزا، ڈیڈ لائنز سر پر ہیں۔”

ایان کی مسکراتی ہوئی آواز آئی:
“اس وقت تو میرے سر پر آپ کا بھوت سوار ہے۔”

زارا چونکی، “کیا مطلب ہوا؟”

ایان نے نرمی سے کہا:
“میرا مطلب یہ ہے کہ میرا ہر دن آپ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔”

زارا کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی — اُسے اندازہ ہو گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔
ایان نے سنجیدگی سے کہا:
“زارا، میں زندگی بھر تمہارا ساتھ دینا چاہتا ہوں۔ تمہیں مسکراتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں۔ Will you marry me?”

زارا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
“ہمارے ہاں پسند کی شادی نہیں ہوتی۔”

ایان مسکرایا،
“تو پھر ہم یہ روایت بدل دیں گے۔”

ادھر اسلام آباد میں عروہ بیڈ پر بیٹھی کاپیاں چیک کر رہی تھی۔ ننھی عائشہ ہاتھ میں ٹیڈی بیئر پکڑے، اور ایک ہاتھ سے عروہ کے دوپٹے کا کونہ تھامے سو رہی تھی۔

اسی وقت شاہ زین کمرے میں آیا:
“آف اللہ میڈم، اتنے تو اسٹوڈنٹس محنت نہیں کرتے جتنی تم ٹیچرز کرتے ہو!”

عروہ مسکرائی،
“جی، کیا کریں، ڈیوٹی ہے۔ عائشہ کو سلانا تھا، ورنہ کب کی چیک ہو چکی ہوتیں۔”

شاہ زین بیڈ پر بیٹھ گیا۔
“عروہ، بابا کا فون آیا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے یہاں کا بزنس بند کرو، بہت لاس ہو رہا ہے، اور واپس کراچی آ جاؤ۔”

عروہ نے چونک کر پوچھا،
“تو جائیں آپ، لیکن میں اکیلی کیسے رہوں گی؟”

شاہ زین نے نرمی سے کہا،
“یہاں اکیلے رہنے کو کس نے کہا ہے؟ ہم دونوں واپس روشن ولا چلیں گے۔”

عروہ کے ہاتھ سے پین بیڈ پر گر گیا۔
“روشن ولا؟ وہاں جہاں سے مجھے نفرت ملی؟ وہاں بری یادیں ہیں… اب وہاں مجھے کوئی اپنانا نہیں چاہے گا۔”

شاہ زین آہستگی سے اس کے قریب آیا، اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے:
“عروہ، میں نے وعدہ کیا تھا کہ جب تک تمہیں واپس روشن ولا نہ لے آؤں، وہاں نہیں رہوں گا۔
اب تم میری زندگی کا حصہ ہو۔ شاید اب سب کو یہ احساس ہو گیا ہو کہ نفرت کا بوجھ ساری عمر نہیں اٹھایا جا سکتا۔”

عروہ نے نظریں جھکا لیں، اس کے آنسو شاہ زین کے ہاتھوں پر گرنے لگے۔
شاہ زین نے نرمی سے کہا،
“تم میری عزت ہو، اور تمہاری عزت کیسے کروانی ہے، یہ میں جانتا ہوں۔”
یہ کہہ کر اُس نے عروہ کے آنسو پونچھ دیے۔

 

جاری ہے۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *