Taqdeer e azal Episode 12 written by siddiqui

تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۱۲

ہال میں دوبارہ سے ہلکی ہلکی سرگوشیاں ہونے لگیں۔
لوگ ایک دوسرے سے نظریں چرا کر دیکھ رہے تھے، کوئی حیران تھا، کوئی بس خاموش۔ اور اسی خاموشی میں ہادی اور زرتاشا آہستہ سے اپنی نشستوں پر جا بیٹھے۔

پریشے اور اُس کے گھر والوں سے ملنے کے بعد دونوں کے چہروں پر ایک لمحاتی سکون تھا،

چند لمحوں بعد زینب بیگم خود چل کر زرتاشا کے پاس آئیں۔
ان کے چہرے پر وہ سختی نہیں تھی جو پچھلے دنوں میں تھی۔ اب وہاں ایک ماں کا دُکھ اور ایک ماں کی نرمی تھی۔
وہ زرتاشا کے سامنے رُکیں، لمحہ بھر کے لیے چپ رہیں، پھر جیسے دل ہار گئیں۔
زرتاشا نے نظریں جھکائیں تو زینب بیگم نے آگے بڑھ کر اُسے گلے سے لگا لیا۔
میری بچی…
یہ لفظ زینب بیگم کے لبوں سے نکلے تو زرتاشا کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔
اس کے آنسو ماں کے کندھے پر بہہ نکلے۔

ہادی نے نظریں جھکا لیں۔ اس لمحے میں جو محبت، جو دعا، جو ماں کی خوشبو تھی — وہ لفظوں سے ماورا تھی۔
زینب بیگم نے زرتاشا کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
خوش رہو… اللہ تم دونوں کو ہمیشہ آباد رکھے۔

مگر ہال کے ایک کونے میں، عدنان صاحب خاموش بیٹھے تھے۔ چہرے پر سنجیدگی، آنکھوں میں شکوہ۔
انہوں نے زرتاشا کی طرف ایک نظر بھی نہ ڈالی۔

زرتاشا نے ایک لمحے کو اُن کی طرف دیکھا، اور دل میں ایک خاموش دعا مانگی۔
یا اللہ، جیسے امی مان گئیں… بابا کو بھی مانا دے۔

اس کی خوشیاں تو بہت پہلے برباد ہو چکی تھیں،
اب بس خواہش یہی تھی کہ ماں باپ کا دل پھر سے اُس کے لیے نرم ہو جائے۔
کیونکہ سب سے زیادہ دکھ تو اسی بات کا تھا…
کہ ماں باپ روٹھ گئے تھے۔۔۔

کائنات کا دل تو اب سب چیزوں سے اُچاٹ ہو چکا تھا۔ وہ خاموش بیٹھی تھی، جیسے دنیا کی ہر رونق اُس سے چھین لی گئی ہو۔
نظر کبھی ہادی اور زرتاشا پر جاتی — دونوں ساتھ بیٹھے تھے، چہروں پر خوشی، آنکھوں میں اطمینان۔
پھر نگاہ خودبخود زیدان پر پڑتی، جو فون میں لگا دنیا سے لاپرواہ بیٹھا تھا۔۔۔
اور آخر میں وہ خود کو دیکھتی، ایک خالی وجود، ایک خاموش سا سایہ، جو محض سانسیں لے رہا تھا۔

کیا خواب دیکھے تھے اُس نے…؟
کتنی دعائیں، کتنی امیدیں جوڑ رکھی تھیں…
اور آخر ہوا کیا؟
سب کچھ ایک لمحے میں بکھر گیا، جیسے ریت مٹھی سے پھسل جائے۔

ہال میں اب شور کم ہو چکا تھا، قہقہے مدھم پڑ گئے تھے۔
فنکشن اپنے انجام کو پہنچا،
پریشے اپنے گھر والوں کے ساتھ رخصت ہو چکی تھی،
اور باقی سب بھی ایک ایک کر کے جا چکے تھے۔

بس چند خالی کرسیاں رہ گئیں… اور کائنات، جو اب بھی وہیں بیٹھی تھی۔
زینب بیگم اور رضیہ بیگم اُسے ساتھ لے آئیں،
گھر میں پہنچتے پہنچتے رات کے ایک بج چکے تھے۔

مگر…
زیدان؟
وہ سیدھا گھر نہیں آیا تھا۔

سب لوگ اپنے کمروں میں جا چکے تھے، اور کائنات
بھی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔۔۔

کمرے میں اندھیرا تھا۔
وہ بستر پر گر پڑی،
آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو تکیے کو بھیگاتے جا رہے تھے۔دل جیسے سینے میں دھڑکنے کے بجائے جل رہا تھا۔
اُسے ہادی چاہیے تھا…
اُس کی خواہش سادہ تھی، مگر تقدیر نے اس سادگی کو ایک کرب میں بدل دیا تھا۔
وہ اُس کی بیوی بننا چاہتی تھی، مگر نصیب نے جیسے اُس کے سارے خوابوں پر ایک لکیر کھینچ دی تھی۔

اب صبر کہاں سے آتا؟
دل ہر لمحہ چیخ رہا تھا، مگر لب خاموش تھے۔

وہ وہیں بستر پر لیٹی تھی،
کپڑے بدلے بغیر، آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے بغیر، بس روتی جا رہی تھی… جیسے رونا ہی اب اُس کا سہارا ہو۔

اور وہ اپنے غم میں ایک بار پھر زیدان کو بھول چکی تھی۔۔۔

+++++++++++++

رات کے تین بجے کے قریب زیدان آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ گھر بالکل خاموش تھا
کمرے کی مدھم روشنی میں اُس کی نظر کائنات پر پڑی۔

وہ بستر کے دوسری جانب رخ موڑے لیٹی تھی۔
کپڑے وہی تھے جو فنکشن میں پہنے تھے،

زیدان نے آہستہ سے سانس بھری۔
ایک تو مہارانی کا رونا دھونا ختم ہی نہیں ہوتا…
وہ زیرِ لب بڑبڑایا۔
کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا اس کا…

وہ چند لمحے دروازے کے پاس کھڑا سوچتا رہا،
پھر خاموشی سے اندر آیا۔

جب اُس نے اندر اکر کائنات کا چہرے پر نظر ڈالی تو کائنات روتے روتے سو چکی تھی۔ چہرے پر آنسوؤں کے نشان اب بھی موجود تھے۔ نہ کپڑے بدلے تھے، نہ چہرہ دھویا تھا،

لو، آج پھر مہارانی نے اپنی جان لینے کا سوچا ہوگا.. اور پھر روتے روتے نیند آ گئی ہوگی۔۔۔
وہ خود سے بولا،

پھر الماری کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
اور الماری کھولا۔۔۔ تو پایا اُس کے سارے کپڑے نہایت ترتیب سے رکھے تھے،
پھر اس نے آہستہ سے الماری کے چاروں پلے کھول دیے۔
تینوں میں اُس کے اپنے کپڑے رکھے تھے،
اور چوتھے خانے میں کائنات کے کپڑے،
اوپر دو خانے ایک میں اُس کے نئے کپڑے، دوسرے میں روزمرہ کے۔
اور اس کے نیچے دراز کھولے، اُس میں کائنات کے زیورات رکھے تھے۔۔۔
اور سب سے نیچے جوتوں کا ایک صاف ستھرا حصّہ تھا

زیدان خاموشی سے سب دیکھتا رہا۔
اپنا حق لینا بھی نہیں آتا اسے… ہنہ۔۔۔
وہ خود سے بڑبڑاتا ہوا اپنی شرٹ اور ٹراؤزر نکالا اور واش روم میں گھس گیا۔۔۔
اور کچھ دیر بعد نِکلا۔۔
ایک نظر اُس نے بستر پر پڑی کائنات پر ڈالی،
پھر زیدان نے لائٹ مدھم کی، اور صوفے پر جا کر لیٹ گیا۔
کچھ ہی دیر میں وہ بھی نیند کی وادی میں اتر گیا،
+++++++++

فجر کا وقت تھا۔
ہلکی سی اذان کی آواز فضا میں گونج رہی تھی، جیسے کسی سوئے ہوئے دل کو جگا رہی ہو۔
مگر کائنات کے دل پر اب کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔

آنکھ تو ہر روز کی طرح آج بھی کھل گئی تھی،
لیکن دل… وہ اب بھی بند تھا۔
اس نے چادر منہ پر کھینچ لی، جیسے آواز سے خود کو چھپانا چاہتی ہو۔

اللہ نے مجھے ہادی نہیں دیا… میری دعا نہیں سنی… میری خوشی نہیں دی…
وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔
تو اب میں بھی اللہ کو خوش نہیں کروں گی…

یہ ضد نہیں تھی، یہ دکھ تھا، جو ضد بن گیا تھا۔

وہ کروٹ بدل گئی۔۔۔ لیکن نیند تو آنی نہیں تھی۔۔
کپڑے کی موٹی سِل چُبھنے پر اُسے احساس ہوا کہ اُس نے ابھی تک لباس تبدیل نہیں کیا۔

پھر وہ اٹھی الماری کی طرف بڑھی خاموشی سے ایک جوڑا نکالا، اور واش روم میں چلی گئی۔

کچھ دیر بعد وہ باہر نکلی۔
آنکھوں میں نیند نہیں تھی، اور دل میں سکون نہیں۔
سوچا تھوڑا کچھ پڑھ لے، مگر عائشہ بیگم اُس کا سارا سامان تو لا چکی تھیں، کتابیں نہیں لائی تھی۔۔

وہ دھیرے سے دروازہ کھول کر نکلی دروازہ آہستگی سے بند کیا۔
اور سیڑھیاں اترنے لگی۔
سیڑھیوں کے نیچے مریم بیگم مل گئیں۔

نماز پڑھنے اٹھی ہو نا، بیٹا؟
مریم بیگم نے نرمی سے پوچھا۔

آپ اپنا کام کریں، امّاں۔۔۔
وہ ناگواری سے کہتی جانے لگی۔۔۔

کیا ہوا ہے، بیٹا؟ تم ایسے کیوں بات کر رہی ہو؟
مریم بیگم  نے کائنات کا راستہ روک کر کہا

اماں، مجھے تنگ نہ کریں۔ کائنات نے تھوڑے غصے سے کہا

ناراض ہو مجھ سے؟ مریم بیگم نے نرمی سے پوچھا۔۔

کائنات کے چہرے پر ایک تلخی سی اُبھر آئی۔
آپ کو کیا فرق پڑتا ہے، اماں؟
آپ نے تو میری زندگی برباد کر دی نا۔۔۔

ایسا کیوں کہہ رہی ہو، بیٹا…

سچ کہہ رہی ہوں، اماں۔۔۔۔
ایک تو آپ نے مجھ پر یقین نہیں کیا،
اُس غم سے میں ابھی نکلی بھی نہیں تھی
کہ آپ نے میری شادی اُس انسان سے کر دی
جو مجھے پسند ہی نہیں کرتا۔ وہ تو کیا میں بھی جیسے پسند نہیں کرتی تھی۔۔۔
کیوں، اماں؟ کیوں کیا آپ نے ایسا؟
کیا میں آپ کے لیے بھی بوجھ بن گئی تھی؟
بابا کے بعد اس دنیا میں صرف آپ ہی تو تھی میرے سہارا۔۔۔ اس گھر میں ایک آپ ہی تو تھی جیسے میری پرواہ تھی۔۔۔ کیا آپکو میری پرواہ تھی اماں؟

مریم بیگم کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
انہوں نے آگے بڑھ کر کائنات کا ہاتھ پکڑ لیا۔
مجھے معاف کر دو، بیٹا…
میں جانتی ہوں میں ایک بری ماں ہوں۔
تمہارے ابا کے جانے کے بعد میں نے تمہیں کوئی خوشی نہیں دی۔
ہر جگہ تمہیں صبر کا سبق دیا،
کمپرومائز کا حکم دیا۔
اور… تم پر یقین نہیں کیا۔
یہ میری سب سے بڑی غلطی تھی۔
مگر میری بچی…
میں نے تمہارے لیے ایک بہت اچھا فیصلہ کیا تھا۔
یہ شادی، تمہارے لیے… تمہاری بھلائی کے لیے کی تھی۔
شاید ابھی تمہیں سمجھ نہ آئے،
مگر ایک دن تم دیکھو گی،
یہی رشتہ تمہاری تقدیر بدل دے گا…

کائنات خاموشی سے اُس کی بات سنتی رہی۔
چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔
پھر آہستگی سے بولی
میں نے آپکو معاف کر دیا، اماں… میں نے سب کو معاف کردیا۔۔۔ مُجھے اب کچھ نہیں چاہیے امّاں، نہ آپ سے نہ اللّٰہ سے نہ کسی اور سے۔۔۔ مُجھے اب کِسی کی محبت کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

کائنات نے ایک لمحے کو ماں کی آنکھوں میں دیکھا
وہ آنکھیں جو اب آنسوؤں سے لبریز تھیں،

مگر کائنات کا دل اب تھک چکا تھا۔
وہ چپ رہی، کوئی جواب نہ دیا۔

پھر آہستگی سے اپنا ہاتھ مریم بیگم کے ہاتھوں سے چھڑایا… اور بغیر کچھ کہے،
پلٹ کر چل دی۔

+++++++++++++

صبح ہمیشہ کی طرح سب لوگ ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے۔
فیضان صاحب اور عدنان صاحب ناشتہ کر کے کب کے نکل چکے تھے،
جبکہ زینب بیگم ابھی تک اُٹھی نہیں تھیں۔

اس وقت ٹیبل پر عائشہ بیگم، رضیہ بیگم اور اسوان بیٹھے تھے۔

عائشہ بیگم نے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور بولیں
پری کا کیا پروگرام ہے؟ وہ کب آرہی ہے واپس؟

اسوان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
ابھی تو ایک ہفتہ اور رہے گی وہ، پھر آئے گی…

رضیہ بیگم نے سر ہلایا،
لگتا ہے اُس کا دل لگ گیا ہے اُدھر…

اسوان نے کہا
ہاں، بہت خوش ہے وہاں۔ دعا اور دایم سے تو ویسے ہی اُس کی بہت دوستی ہے۔
اچھا، زیدان کے ولیمے کا کیا سین ہے؟

رضیہ بیگم نے فوراً جواب دیا
ارے، آجانے دو پری کو، پھر کریں گے۔ اور زارا بھی نہیں ہے وہ بھی آجائے گی۔ ہم چاہ رہے تھے زیدان کے ولیمے میں حریم بھی آجائے،
تو اچھا نہیں ہو جائے گا؟

عائشہ بیگم نے فوراً تائید کی
ہاں، ویسے یہ ٹھیک رہے گا۔ میں فون کر دیتی ہوں ابھی سے حریم کو، کہ وہ پری کے ساتھ ہی یہاں آجائے۔ اور جیسے ہی وہ کنفرم کرتی ہے، ہم ولیمے کی تاریخ رکھ دیں گے۔

رضیہ بیگم نے کہا
ہاں ہاں، ٹھیک ہے…

اسی لمحے انہیں زیدان کی آواز سنائی دی۔۔
اونچی، کرخت اور ہمیشہ کی طرح سرد
کائنات… کائنات… میرا ناشتہ لے کر آؤ۔۔۔۔

سب کی نظریں اوپر اُٹھ گئیں۔
وہ ریلنگ پر کھڑا تھا، چہرے پر وہی تیور،
اور آنکھوں میں وہی تلخی۔

اسوان نے اوپر دیکھا اور بولا
نیچے آ کر ہمارے ساتھ ناشتہ کر لو…

زیدان نے فوراً جواب دیا
نہیں۔۔۔۔
اور پھر دوبارہ آواز لگائی۔۔۔
کائنات… کائنات…

کچن سے برتنوں کی آواز آئی،
اور اگلے ہی لمحے کائنات غصے سے باہر نکلی۔

جی حضور، آپ کی غلام ابھی آپ کے لیے ناشتہ پیش کر رہی ہے…
تھوڑا صبر کیجیے، آپ کی غلام کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو ہے نہیں،
جو گھماؤں اور آپ کے پاس ناشتہ پہنچ جائے۔۔۔۔

زیدان کے چہرے پر سختی اُبھری۔
مجھے نہیں پتا، جلدی لے کر آؤ۔۔۔۔
یہ کہتا ہوا وہ واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔

کائنات نے زیرِ لب غصے سے کہا
کچھ آتا جاتا ہے نہیں، بس حکم چلاؤ لو ان سے۔۔۔
وہ بڑبڑاتی ہوئی واپس اندر جانے لگی تھی کہ پیچھے سے عائشہ بیگم کی آواز نے اُسے روک دیا۔
یہ کیسے بات کر رہی تھی تم زیدان سے؟

کائنات نے مڑ کر تیز لہجے میں کہا
میرا شوہر ہے، جیسے مرضی چاہوں بات کروں۔۔۔
یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی۔

رضیہ بیگم نے حیرت سے کہا
یہ کیسے بول کر گئی ہے؟

عائشہ بیگم نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے کہا
شادی کے بعد اس کی زبان کچھ زیادہ نہیں چلنے لگی؟

رضیہ بیگم نے کہا
چلنے تو لگی ہے…

دونوں کی نظریں پھر اسوان پر پڑیں،
جو چپ چاپ مسکرا رہا تھا۔

عائشہ بیگم نے پوچھا
تم کس بات پر اتنا کھلکھلا رہے ہو؟

کچھ نہیں… بس دیکھیں، میرا فیصلہ کتنا اچھا تھا۔۔۔۔

عائشہ بیگم نے فوراً کہا
مجھے تو تمہارا فیصلہ کہیں سے اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔

رضیہ بیگم نے کہا
الٹا ہمیں تو لگ رہا ہے، کائنات کو بھی زیدان کی طرح دورے پڑنے لگے ہیں۔۔۔

اسوان نے مسکرا کر کہا
آپ لوگ نہیں سمجھیں گی… بس کچھ دن صبر کریں۔ کُچھ دِن بعد زیدان آپ سب کو یہاں ڈائننگ ٹیبل پر نظر آئے گا۔۔
یہ کہہ کر وہ ہنستے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔

رضیہ بیگم نے سر جھٹکا،
اس کا بھی دماغ خراب ہو گیا ہے…
اپنے ہی خوابوں میں جیتا ہے یہ۔۔۔

عائشہ بیگم نے چائے کا آخری گھونٹ لیا اور کہا
سچ کہہ رہی ہیں، اماں… اس گھر کا کوئی بھی بچا نارمل نہیں ہے۔۔

+++++++++++

صبح ہی صبح پریشے کے گھر کا ماحول بہت خوشگوار تھا۔
ڈراٸنگ روم میں اس کی سہیلیاں بیٹھی تھیں، قہقہوں کی آوازیں گونج رہی تھیں،
اور پریشے ان سب کے درمیان بیٹھی، ہنستی مسکراتی بہت مطمئن نظر آرہی تھی۔

مصباح نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا
یار تم سچ میں بہت لکی ہو…

پریشے نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
سو تو ہے…

ہانیہ نے حیرت سے پوچھا
لیکن تم تو کہہ رہی تھی نا کہ جب تک اسٹڈی ختم نہیں ہو جاتی، شادی نہیں کرو گی؟

پریشے نے کندھے اچکائے۔
بس ویسے ہی کر لی…

مصباح نے فوراً بات کاٹ دی، ہنستی ہوئی بولی
ارے اتنا انتظار کیسے کرواتی؟ کہیں جِیجو بھاگ ہی نہ جاتے، بیچاری ڈر گئی ہوگی، اسی لیے جلدی شادی کر لی۔۔۔۔

پریشے ہنس دی۔
میں تو چاہتی تھی وہ بھاگ جائیں…

ہانیہ چونک گئی۔
کیوں؟ کوئی کمی تھی ان میں؟

پریشے نے آہستگی سے کہا
نہیں، کمی تو مجھ میں تھی نا۔
میں ایک مڈل کلاس فیملی سے تھی،
اور وہ لوگ اتنے ہائی کلاس…
ہماری کلاس میں تو زمین آسمان کا فرق تھا۔

ہانیہ نے بات کاٹتے ہوئے کہا
ہاں تو کیا ہوا؟ محبت میں یہ فرق کب معنی رکھتا ہے۔۔۔۔

پریشے نے دھیرے سے کہا
ہاں، لیکن مجھے ڈر تھا۔
ایسے بڑے خاندانوں میں اکثر مڈل کلاس لڑکیاں چلی تو جاتی ہیں،
مگر اُنہیں وہاں وہ عزت نہیں ملتی جس کی وہ حقدار ہوتی ہیں۔
اور میری نظر میں محبت سے زیادہ عزت اہم ہے۔
اگر کوئی مجھے عزت کے ساتھ ایک وقت کی روٹی بھی دے،
تو وہ میرے لیے ذلت کے عیش سے کہیں بڑھ کر ہے۔

مصباح نے نرم لہجے میں پوچھا
لیکن اب تو تم نے شادی کر لی… وہاں تمہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہورہا؟

پریشے کے چہرے پر حیرت اور شکر کا ملا جلا تاثر ابھرا۔
ہاں یار، اسی بات پر تو میں حیران ہوں…
میں نے جیسا سوچا تھا، ویسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
وہاں سب نے مجھے عزت دی ہے — عزت نہیں، پیار دیا ہے۔
اسوان کی دادی، اس کی امی، اس کی چچی… سب بہت اچھی ہیں۔
اور جب وہ میرا رشتہ لے کر آئے تھے،
تب بھی انہوں نے امی ابو سے اتنی محبت سے بات کی تھی…
جیسے وہ اپنی بہو نہیں، ان کی بیٹی کو اپنانے آئے ہوں۔

ہانیہ نے خوشی سے کہا
واہ یار، سسرال کے معاملے میں بھی تم بہت لکی ہو…

مشبہ نے بات کاٹی
واقعی! ورنہ سسرال کے معاملے میں ہم لڑکیاں ہمیشہ مار کھا جاتی ہیں۔۔۔۔

پریشے کے لبوں پر نرم سی مسکراہٹ آ گئی۔
کبھی کبھی لگتا ہے جیسے میری زندگی کسی فیری ٹیل کی طرح ہے…
جیسے واقعی کسی عام سی لڑکی کے لیے شہزادہ آ گیا ہو۔
میں خود کو اب واقعی ایک فیری ٹیل کی شہزادی سمجھنے لگی ہوں…

ہانیہ نے چھیڑتے ہوئے کہا
بنتا بھی ہے یار تُمہارا تو۔۔۔جِیجو اتنے اچھے مل گئے تمہیں۔۔۔۔

مصباح ہنسی۔
اور بتاؤ؟ منہ دکھائی میں کیا دیا جِیجو نے؟

پریشے شرما کر ہنسی، پھر آہستہ سے اپنے گلے کا لاکٹ دکھایا۔
یہ…

روشنی لاکٹ پر پڑی تو وہ چمک اُٹھا۔۔۔۔
بالکل ویسا جیسے کسی خواب کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حقیقت بن گیا ہو۔

++++++++++++++++

کائنات خاموشی سے ناشتہ ٹرے میں رکھے کمرے میں داخل ہوئی۔
زیدان ہمیشہ کی طرح بستر کے ایک کونے پر ٹیک لگائے، فون میں مصروف تھا۔

کائنات نے جا کر میز پر ناشتہ رکھا،
آواز میں تھکن اور خفگی دونوں تھی۔
یہ لیں…

زیدان نے فون سے نظر ہٹائے بغیر کہا،
اب مجھے نہیں کرنا، لے جاؤ…

کائنات نے بھنویں چڑھائیں..
اب کیا مسئلہ ہے؟

کہا نا، نہیں کرنا… لے جاؤ…
زیدان کے لہجے میں وہی سردی، وہی حکم دینے والا انداز۔

کائنات نے جھنجھلا کر کہا،
بھاڑ میں جائے…
وہ واپس سے ٹرے اٹھنے لگی۔۔۔۔

زیدان اُس کے الفاظ پر چونکا۔۔۔ فون سے نظریں ہٹائے اُس کی طرف دیکھا۔۔۔
کیا کہا تم نے…؟
اس کی آواز بھاری تھی، مگر چہرے پر حیرت بھی تھی۔

کائنات نے بے خوفی سے پلٹ کر جواب دیا،
میں نے کہا، بھاڑ میں جائے…

زیدان نے فون نیچے رکھا،
یہ تم نے کہاں سے سیکھا؟

کیا…؟ وہ انجان بن گئی۔

یہ لفظ — بھاڑ میں جائے…
زیدان نے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا۔

کائنات نے ہونٹوں پر ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ سجائی،
آپ سے سیکھا ہے…

مجھ سے…؟ زیدان کے لبوں پر ہلکی سی حیرت تھی۔

ہاں، آپ ہی سے۔
آپ ہی تو سب کو بھاڑ میں بھیجتے رہتے ہیں…
تو میں نے سوچا، آج آپ کو میں بھاڑ میں بھیج دوں۔۔۔۔ وہ خفکی سے بولی۔۔۔

زیدان کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ ابھری۔
ہونٹوں پر دبی ہوئی ہنسی تھی جو وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔
چہرے کا رُخ دوسری طرف موڑ کر،
ہاتھ کے اشارے سے بولا
جاؤ… جاؤ… جاؤ…

کائنات نے غصّے سے کہا،
آئندہ میں آپ کے لیے ناشتہ لے کر نہیں آؤں گی۔۔۔۔

زیدان نے خود پر قابو پاتے دوبارہ کہا۔۔۔
جاؤ… جاؤ…

کائنات غصّے میں پیر پٹختی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔
اور زیدان اُس کے جاتے ہی کھول کر مسکرانے لگے۔۔۔

غصے میں اس کا دماغ بھی کام نہیں کرتا۔۔۔ لگتا ہے۔۔۔
وہ خود سے بڑبڑایا۔۔۔۔

+++++++++++

وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی اُسی وقت اسوان بھی اسی اپنے روم سے آفیس جانے کے لیے نِکلا تو اسوان کے نظر اُس پر پڑ گئی۔۔۔ وہ جاتے جاتے روک گیا۔۔۔۔ اور کائنات کے ہاتھوں میں ناشتے کی ٹرے دیکھا کر پوچھا۔۔۔۔
کیا ہوا ناشتہ نہیں کیا اس نے۔۔۔

کائنات نے چڑ کر جواب دیا،
نہیں… آپ کروا دیں۔۔۔

اسوان نے ہلکا سا بھنویں چڑھائیں،
میں کیوں کرواؤں؟ تم اُس کی بیوی ہو، تم کرواؤ…

کائنات نے فوراً تیکھے لہجے میں کہا،
میں نہیں کروا رہی۔۔۔۔

وہ یہ کہہ کر تیزی سے مڑی،
اور غصے میں قدم اٹھانے ہی والی تھی کہ
اسوان کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔

اچھا ٹھہرو۔۔۔۔ وہ بولا،
دو مجھے، میں لے جاتا ہوں۔

کائنات نے ٹرے اس کے ہاتھ میں تھمائی،
یہ لیں… اور اٹھاتے رہیں اپنے بھائی کے نخرے۔
اور بگڑتے رہے اُنہیں۔۔۔

اسوان نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔
کیوں نہیں۔۔ اٹھاؤں اُس کے نخرے؟

کائنات نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے کہا،
نہیں! میں تو کہتی ہوں رہنے دیں…
چار دن بھوکے رہے گے نا،
جب بھوک سے جان نکلنے لگے گی، تب عقل ٹھکانے آ جائے گی۔۔۔۔

اسوان نے نرمی سے کہا،
وہ بہت ضدی ہے کائنات…

کائنات نے بے پرواہی سے جواب دیا،
تو…؟

اسوان نے گہری سانس لے کر کہا،
مر جائے گا، مگر اپنی ضد سے پیچھے نہیں ہٹے گا…

کائنات نے ایک لمحے کو چپ چاپ اسوان کو دیکھا
پھر خفکی سے بولی،
پھر اٹھائے رہے اُس کے نخرے۔۔۔۔ لیکن مُجھے سے کوئی امید مت رکھیے گا۔۔۔۔
وہ کہتی تیزی قدموں سے چلتی یہاں سے نکل گئی۔۔۔۔ اور اسوان مسکراتا زیدان کے کمرے کے اندر چلا گیا۔۔۔۔

+++++++++++

سائرہ بیگم آہستہ سے زرتاشہ کے کمرے میں داخل ہوئیں۔
زرتاشہ آئینے کے سامنے بیٹھی تھی، جیسے سوچوں میں کہیں کھوئی ہوئی ہو۔

سائرہ بیگم نے نرم لہجے میں کہا
زرتاشہ، تم ہادی کے ساتھ جا کر ولیمے کی شاپنگ کر لو۔ ہادی کے ابو اور میں نے طے کر لیا ہے کہ اس مہینے کی سترہ تاریخ کو تم دونوں کا ولیمہ رکھ دیتے ہیں…

زرتاشہ نے آئینے میں ان کی جھلک دیکھی، پھر دھیرے سے پلٹ کر کہا
میں اکیلی جا کر شاپنگ کروں؟ آپ نہیں جائیں گی؟

سائرہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا
نہیں… تم جا کر کر لینا۔

یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف مڑ گئیں اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔

دروازہ بند ہونے کی آواز کے ساتھ ہی کمرے میں خاموشی گہری ہو گئی۔
زرتاشہ نے دھیرے سے سانس کھینچی،
اور آئینے میں اپنے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بے آواز مسکرائی، وہ مسکراہٹ، جو صرف دکھ کو چھپانے کے لیے تھی۔

++++++++++++

صبح سے جو وہ کمرے سے نکلی تھی، رات کے نو بج چکے تھے۔
سارا دن وہ کمرے میں زیدان کو  دکھائی نہیں دی۔
اب جب کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھلا تو زیدان اُسی حالت میں بیٹھا ملا،
جیسے صبح چھوڑ کر گئی تھی،
وہی صوفے پر جھک کر کچھ سوچتا ہوا،
وہی سنجیدہ خاموشی اُس کے چہرے پر جمی ہوئی۔

کائنات نے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پکڑے اندر قدم رکھا۔
اس کے لہجے میں تھکن بھی تھی اور تھوڑی سی ضد بھی۔۔۔
اب کھانا کھائیں گے یا واپس لے جاؤں؟

زیدان نے نظریں اُٹھائے بغیر پوچھا،
تم کہاں تھی صبح سے؟

کائنات نے سادہ لہجے میں کہا،
اپنے روم میں تھی۔

زیدان نے اب اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،
نہیں، تم یہاں تو نہیں تھی…

کائنات نے اب ہلکے سے تیور چڑھائے،
میں نے کہا نا، اپنے روم میں تھی…
آپ کے روم میں نہیں، اپنے روم میں۔۔۔

زیدان نے سرد لہجہ میں کہا
یہ تمہارا روم ہے۔۔۔

کائنات نے فوراََ جواب دیا۔۔۔۔
نہیں، یہ آپ کا روم ہے۔

زیدان نے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اگلا سوال کیا،
اور میں کس کا ہوں؟

کائنات نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔
آپ اللہ میاں کے…

اُس کی اس بات پر زیدان کو بے اختیار ہنسی آئی۔۔۔
مگر فوراً چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔۔۔

کائنات نے ٹرے میز پر رکھتے ہوئے کہا،
اب یہ کھائیں گے یا واپس لے جاؤں؟

زیدان نے خود پہ قابو پاتا۔۔۔
کھاؤں گا…
پھر وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور صوفے پر آبیٹھ گیا۔
کائنات بھی دوسرے صوفے میں بیٹھ گئی۔۔۔۔

ویسے… اُس نے چمچ اٹھاتے ہوئے پوچھا،
کیا کر رہی تھیں تم اپنے روم میں؟

کائنات نے بلا تاثر جواب دیا،
پڑھ رہی تھی…

زیدان نے سوالیہ انداز میں ابرو اٹھائے،
اچھا؟ پڑھ کے کیا کرو گی؟

کائنات نے جاگ سے پانی کا گلاس اُس کے سامنے کرتے ہوئے کہا
آپ کو پڑھاؤں گی۔

اُس نے نظرے اٹھایا کائنات کو دیکھا کر کہا
میں تو پڑھا لکھا ہوں۔

کائنات نے سنجیدگی سے کہا،
لگتے تو نہیں ہیں…

زیدان چونک کر بولا،
کیا نہیں لگتا؟

کائنات نے بے نیازی سے کہا،
پڑھے لکھے نہیں لگتے۔

زیدان نے پھر سوال کیا۔۔۔
اچھا؟ اور پڑھے لکھے لوگ کیسے لگتے ہیں؟

کائنات نے فوراً جواب دیا،
میرے جیسے لگتے ہیں…

زیدان نے فوراً پلٹ کر کہا،
لیکن تم تو ابھی پڑھ رہی ہو؟
تو پڑھی لکھی کیسے ہو گئی؟

کائنات نے گھور کر کہا،
چپ کر کے کھانا کھائیں…

پھر وہ کچھ نہیں بولا۔۔۔ خاموشی سے نوالہ اُٹھایا، اور کھانے لگا۔۔۔۔۔

+++++++++++

ہادی ابھی اس وقت ارسم کے کمرے میں ارسم کے سامنے بیٹھا تھا۔۔۔
کیا ہوا ہے تمہیں؟ پچھلے کچھ دنوں سے عجیب سے لگ رہے ہو… کُچھ ہُوا ہے کیا۔۔۔؟؟ کوئی کمپنی کا مسئلہ ہے کیا؟

ارسم نے سر جھکا لیا۔ آنکھوں میں ایک تھکی ہوئی چمک تھی۔
نہیں… یہ میری زندگی کا مسئلہ ہے۔

زندگی کا؟ کیا کہہ رہے ہو تم؟

ارسم نے گہری سانس لی، جیسے کوئی بوجھ اندر سے نکالنے جا رہا ہو۔
اسوان بھائی… انہوں نے میری خوشیاں نگل لیں ہادی۔ میں اب اُن سے سب کچھ چھین لونگا۔۔۔
میں اُنہیں برباد کردونگا۔۔۔۔

ہادی کے چہرے پر تشویش ابھر آئی۔
کیا کہہ رہے ہو ارسم؟ دوسروں کو برباد کرنے والے خود کبھی پھر آباد نہیں ہوتے۔۔۔۔

لیکن میں تو پہلے ہی برباد ہو چکا ہوں نا…
میرے پاس اب بچا ہی کیا ہے۔۔۔؟؟

ہادی نے ارسم کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
ایسا مت کہو۔ تمہارے پاس تمہارے ماں باپ ہیں، تمہاری کمپنی ہے، اور میں ہوں۔

بس، میں نے سوچ لیا۔ اس نے زور سے کہا۔ میں اسوان بھائی سے بدلہ لوں گا۔ بہت برا بدلہ۔

ہادی نے گہری سانس لی، کیا کرو گے؟

پتہ ہے اسوان بھائی کی خوشیاں کیا ہے؟؟

کیا۔۔۔؟؟

پیسہ، کمپنی، شہرت — ان کا غرور۔۔۔ اور ان کی یہ طاقت ہے۔۔۔
بیٹی، بھائی، ان کی محبت — ان کی کمزوری۔
میں یہی سب اُن سے چھین لوں گا۔
ارسم کے الفاظ میں سرد ارادہ تھا۔

مٹ کرو یہ۔۔۔۔ ہادی نے نرمی سے سمجھایا۔۔۔

اگر نہیں کیا تو مجھے سکون نہیں ملے گا۔۔۔
ارسم نے دھیرے سے کہا آنکھوں میں بےپناہ دکھ تھا۔۔

تمہیں یہ کرنے کے بعد بھی سکون نہیں ملے گا۔۔۔
ہادی نے نرمی سے کہا

ارسم کی آنکھیں خلا میں کہیں اٹک گئیں۔۔
مل جائے گا۔۔۔

+++++++++++++++

صبح کی ہلکی روشنی پردوں کے پار اندر جھانک رہی تھی۔
پریشے ابھی چائے کا مگ ہاتھ میں تھامے بیٹھی تھی، جب فون کی گھنٹی بجی۔
اسکرین پر ایک ہی نام چمک رہا تھا۔۔۔
Aswan Calling…

اُس نے مسکراتے ہوئے کال ریسیو کی۔
ہاں جی، فرمائیے جناب…

دوسری طرف سے وہی مانوس، چہک بھری آواز آئی،
اور سنو، اب میں آ جاؤں تمہیں لینے؟

پریشے نے چونک کر کہا،
ابھی؟ ابھی تو صرف ایک دن ہوا ہے مجھے آئے۔۔۔

بس بہت ہے ایک دن، مجھے تمہاری یاد آ رہی ہے…

ایک دن میں ہی؟ وہ ہنسی کو ضبط کرتی بولی۔

ایک دن؟ اُس نے مصنوعی حیرت سے کہا،
مجھے تو ہر سیکنڈ بعد تمہاری یاد آ جاتی ہے…

پریشے کے ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ پھیل گئی۔
آپ کا پھر شروع ہو گیا…

کیا شروع ہو گیا؟ اسوان نے معصومیت سے پوچھا۔

یہ… چھپری پَن۔۔۔

دوسری طرف لمحے بھر کو خاموشی چھائی، پھر آواز آئی
بس جب جب تمہیں دیکھتا ہوں، جب جب تم سے بات کرتا ہوں… تب تب شروع ہو جاتا ہے۔۔۔۔

پریشے نے مگ میز پر رکھتے ہوئے سر جھٹکا،
اتنی cringe باتیں کرتے تھکتے نہیں آپ؟

۔Cringe باتیں نہیں، یہ تو میری محبت ہے۔۔۔

بہت ہی کوئی چھپری محبت ہے۔۔۔ وہ ہنس کر بولی۔

اسوان کی آواز تھوڑی سنجیدہ ہوئی، مگر لہجے میں نرمی تھی،
اچھا؟ چھپری محبت؟
جس دن میں نے یہ سب بولنا بند کر دیا نا، اُس دن تم بہت پچھتاؤ گی…

پریشے ہنس دی،
میں تو شکر ادا کروں گی اُس دن۔۔۔۔

اسوان کے لہجے میں ضد اُتر آئی،
اچھا، بس! اب میں ابھی آ رہا ہوں تمہیں لینے۔۔۔

پریشے نے فوراً ٹوکا،
بلکل نہیں! آپ کل رات کو آئیے گا…

کل؟ وہ بھی رات کو؟ اسوان کو حیران کا جھکتا لگا۔۔

ہاں، کیونکہ ابھی ایک دن ہی ہوا ہے۔ پھر میں کل دوسرا دن گزار لوں گی، تب پورے ہوں گے دو دن۔۔۔

اسوان نے گہری سانس لی، جیسے ضد میں مسکراتا ہوا بولا،
چلو، نہ میرا نہ تمہارا… میں آج رات کو ہی آ جاؤں گا تمہیں لینے۔۔۔۔

پریشے فوراً بولی،
نہیں، کل رات کو آئیے گا۔۔۔۔

یعنی تم اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹو گی نا؟

پریشے کے لہجے میں شوخی تھی،
کبھی نہیں…

دوسری طرف سے ایک دھیمی ہنسی گونجی،
ٹھیک ہے بیگم صاحبہ، پھر کل رات ہی سہی…
یہاں دو سال انتظار کروایا وہاں دو دن اور کروا لیں۔۔۔ آخری آنا تو پھر آپکو ہمارے پاس ہی ہے۔۔۔

ہاں ہاں۔۔۔
پریشے نے فون بند کیا تو دل میں ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھر آئی۔۔۔۔

++++++++++++++++

وہ تقریباً دس بجے کے قریب جاگا۔
آنکھیں کھلیں تو لمحے بھر کے لیے اُلجھن ہوئی۔
ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔۔۔
کمرہ خالی تھا…
وہ نہیں تھی۔

وہ اچانک اٹھ بیٹھا،
بے اختیار دروازے کی طرف لپکا۔ لیکن دروازہ کھولتے ہی روک گیا اُس کی نظریں دروازے پر ٹھہر گئی۔۔۔۔

دروازے پر ایک سفید سا پیپر چپکا تھا۔۔۔
جس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا۔۔۔

براہِ مہربانی چیخیے گا مت…
میں پیپر دینے جا رہی ہوں۔۔۔۔

وہ چند لمحے اُس پر نظریں جمائے کھڑا رہا۔۔۔
پھر اُس کے ہونٹوں کے کنارے خود بخود مسکرانے لگے۔ اور اس وقت وہ کمرے میں بھی نہیں تھی۔۔۔ وہ کھل کے مُسکرا دیا۔۔۔

چُوزّی… ڈرپوک کہیں کی…
وہ مُسکراتا زیر لب بڑبڑایا۔۔۔۔

++++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *