انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی)
باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو۔۔
قسط نمبر ۱۹
وہ سِسکیوں کے درمیان زمین پر گری پڑی تھی۔ نہ اُسے خود کا ہوش تھا، نہ آس پاس کی کسی چیز کا۔
اُس کے ذہن میں اگر کچھ تھا تو صرف سمندر کی لہروں کا خوف… اور وہ یادیں — وہی پرانی یادیں، جنہیں اُس نے کب کا دفن کر دیا تھا۔
یادیں… جو آج جانے کیوں قبر توڑ کر واپس لوٹ آئی تھیں۔
لہریں اب بھی شور کر رہی تھیں، جیسے اُس کا مذاق اُڑا رہی ہوں۔
+++++++++++
پتہ نہیں یہ پاگل لڑکی کہاں چلی گئی ہے…
وہ تیز قدموں سے چلتا جا رہا تھا، مگر اردگرد بس ہوا کا شور تھا — اور لہروں کی وہی بےرحم گونج۔
حیات۔۔۔۔۔ حیات۔۔۔۔۔
وہ زور سے پکارا — مگر نہ کوئی جواب آیا، نہ کسی آہٹ نے پلٹ کر اُس کی صدا سنی۔
پتہ نہیں کہاں چلی گئی…
اُس کی آواز اب بھاری ہونے لگی تھی۔ ماتھے پر فکر کی لکیریں ابھر آئیں، اور آنکھوں میں حیات کے لیے بےچینی صاف جھلک رہی تھی۔
اَمن نے زیرِ لب کہا مجھے اُسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے تھا…
اب اُس نے جیب سے موبائل نکالا، اور حیات کا نمبر ڈائل کیا۔
افون اُٹھاؤ، حیات… پلیز فون اُٹھاؤ…
اُس کی آواز میں اضطراب تھا
فون مسلسل بجتا رہا۔
مگر دوسری طرف خاموشی تھی،
اَمن بار بار کال کرتا، آگے بڑھتا گیا۔ اُس کے قدم تیز، مگر دل بھاری ہوتا جا رہا تھا۔
وہ اندھیرے میں نظریں دوڑاتا، پاگلوں کی طرح اردگرد دیکھتا رہا۔ مگر حیات کہیں نہیں تھی۔
حیات۔۔۔۔ حیات۔۔۔۔
وہ ساتھ میں حیات کو پکارے بھی جارہا تھا۔۔۔کہ بس اُس کا اُس کی آواز پہنچ جائے۔۔۔
اب وہ کافی دور آ چکا تھا۔
چاندنی میں اُس کا چہرہ صاف دکھائی دے رہا تھا، آنکھوں میں نمی تھی، مگر آنسو نہیں۔
ایسا لگتا تھا جیسے اُس کی کوئی قیمتی شے، کوئی ایسا وجود جسے وہ کھونا نہیں چاہتا تھا… کہیں گم ہو گیا ہو۔
اکہاں چلی گئی ہے یہ…
وہ ایک جگہ رُکا، چاروں طرف نظریں دوڑائیں،
کہاں ڈھونڈوں اب اِسے میں؟ بتا کے چلی جاتی تو کیا چلا جاتا اس کا…
ایسے تو جو بات نہیں بتانے والی ہو وہ بھی بتائے گی، اور ابھی بنا بتائیں چلی گئی۔۔۔
کوئی اتنا پاگل کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ ساحل سمندر سے وہ کہاں جا سکتی ہے۔۔۔؟
اُس کی آواز میں درد تھا، اور تھکن بھی۔
پھر اُس نے ایک بار پھر فون نکالا، اور حیات کا نمبر دبایا۔
کال گئی۔۔۔
اور اُس خاموش رات میں، کہیں دور…
لہروں کے شور کے بیچ، رِنگ ٹون کی مدھم سی آواز سنائی دی۔
اَمن ایک لمحے کے لیے ٹھٹکا۔۔۔
پھر اُس کے چہرے پر اُمید کی ایک کرن اُبھر آئی۔
وہ اُسے مُسلسل فون کرتا رہا اور رِنگ ٹون کی آواز کا پیچھا کرنے لگا۔۔۔۔
اَمن ابھی چند ہی قدم آگے بڑھا تھا کہ اُس کی نگاہ اچانک رُک گئی۔
سامنے…
زمین پر بیٹھی حیات نظر آئی، بالکل بےبس، کمزور، اور بکھری ہوئی۔
اُس کی آنکھیں سُوجی ہوئی تھیں، مگر آنسو اب بھی اُنہی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔
یہ منظر دیکھ کر اَمن کا دل جیسے مٹھی میں آ گیا۔ وہ فوراً بھاگتا ہوا اُس کے پاس پہنچا، اور گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔۔۔۔ اُس کے پاس۔ بیٹھ گیا۔۔۔
ح… حیات۔۔۔۔ حیات۔۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔ یہاں اِس طرح کیوں بیٹھی ہو؟ اُس کی آواز میں گھبراہٹ تھی، پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔
مجھے گھر جانا ہے۔۔۔
وہ روتے ہوئے بولی۔۔۔
کیوں؟ کیا ہوا ہے؟ مجھے بتاؤ، کس نے کچھ کہا؟
مجھے نہیں پتہ… مجھے یہاں نہیں رہنا، مجھے بس گھر جانا ہے…
وہ روئے جا رہی تھی،
کیا ہوا ہے حیات۔۔۔ مُجھے بتاؤ۔۔۔ میں سب ٹھیک کردونگا۔۔۔۔
مجھے نہیں رہنا یہاں۔۔۔۔
وہ روتی ہوئی پھر بولی۔۔۔
میں ہوں نا یہاں… تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
وہ نہایت نرم لہجے میں بولا،
مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے؟ کِسی نے کچھ کہا ہے۔۔
نہیں… مجھے نہیں پتہ، مجھے یہاں نہیں رہنا…
وہ بار بار ایک ہی جملہ دہرا رہی تھی،
حیات، میری طرف دیکھو…
اُس نے دھیرے سے اُس کا ہاتھ تھاما۔
میں ہوں نا تمہارے پاس، کچھ نہیں ہوگا۔ ٹرسٹ مے
پہلے یہ رونا بند کرو، پلیز…
وہ ایسے کہہ رہا تھا جیسے اُس کے رونے سے اُسے خود تکلیف ہو رہی ہو۔
حیات نے اچانک گھبرا کر کہا وہ… وہ دیکھیں! وہ میرے پاس آ رہا ہے… مجھے یہاں نہیں رہنا… آپ مجھے گھر چھوڑ دیں، پلیز…
اُس نے خوفزدہ آنکھوں سے سمندر کی طرف دیکھا۔
ابھی میں تمہیں کیسے گھر چھوڑ دوں؟ اور اگر چھوڑ بھی آیا تو باقی سب کو کیا کہوں گا؟
میری بات مانو، اُٹھو یہاں سے… رونا بند کرو، میں ہوں نا، کوئی کچھ نہیں کرے گا تمہیں۔
وہ نرم لہجے میں سمجھا رہا تھا، مگر اُس کے دل میں طوفان اُٹھ رہا تھا۔
اُس نے اپنی زندگی میں شاید پہلی بار اپنے بھائیوں کے سوا کسی اور کی اتنی فکر کی تھی۔
ن… نہیں، آپ مجھے گھر چھوڑیں… پلیز…
وہ چھوٹے بچے کی طرح ضد کر رہی تھی، آنسوؤں سے چہرہ بھیگ چکا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے، آرام سے… چلو، میں چھوڑ دیتا ہوں۔
پہلے رونا بند کرو… آنسو پونچھو…
اُس کا دل کٹ رہا تھا اُسے اِس حالت میں دیکھ کر۔ وہ چاہ کر بھی اُس کے آنسو برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔
ہ… ہمم…
اب کے وہ آہستہ آہستہ اپنے آنسو صاف کرتی
اَمن کا ہاتھ تھام کر کھڑی ہو گئی۔
پکا تمہیں گھر جانا ہے، نا؟
اُس نے نرمی سے پوچھا،
حیات خاموش رہی۔
بس ہلکے سے سر کو ہاں میں ہلا دیا۔
ٹھیک ہے پھر۔۔۔ چلو…
اَمن ایک ہاتھ سے اُس کا ہاتھ تھامے چل رہا تھا۔
وہ بھی آہستہ آہستہ اُس کے ساتھ قدم ملا رہی تھی۔۔
دوسرے ہاتھ سے اَمن نے فون نکالا، اور کیب بُک کر دی۔
وہ اُس کو اپنے ساتھ لیے انٹریز کی طرف آگیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد کیپ آگئی۔۔ اُس کو لیے وہ کیپ میں بیٹھ گیا۔۔۔
اب وہ اُسے کسی بھی حال میں اکیلا نہیں چھوڑ نہیں سکا تھا۔۔۔۔
حیات کو گھر چھوڑتے وہ خود بھی اپنے گھر آگیا اور خاموشی سے اپنے روم میں چلا گیا۔۔۔ روم میں پوچھتے ہی اُس نے زاویار کو میسیج کردیا۔۔۔
میں گھر آگیا ہوں۔۔۔ تُم وہاں سب دیکھ لے نہ۔۔۔
++++++++++++
گھر آتے ہی حیات خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
اِسے کیا ہوا ہے؟
انہوں نے حیرت سے زینب بیگم کی طرف دیکھا۔
ارے… تھک گئی ہوگی نا۔
(اُنہوں نے آہستگی سے کہا،
لیکن یہ اتنی جلدی واپس آ گئی…
(ان کے چہرے پر فِکر کی لکیریں ابھر آئیں۔)
ہمم… پتہ نہیں۔ خیر، ابھی اُسے آرام کرنے دیں۔
بعد میں بات کر لیجیے گا۔
زینب بیگم نے نرمی سے کہا،
++++++++++++
سی سائیڈ سے واپس آتے ہوئے زاویار اپنے گھر جانے کے بجائے امن کے گھر پہنچ چُکا تھا۔۔۔
پتہ نہیں اَمن کو کیا ہوا تھا کہ وہ سیدھا گھر چلا آیا۔
کیا ہوا بھائی؟ سب ٹھیک ہے؟ اتنی جلدی کیوں آگئے؟
وہ امن کے کمرے میں داخل ہوتا بےچینی سے پوچھا۔۔۔
ہاں، سب ٹھیک ہے۔ امن نے دھیرے سے کہا
اچھا تو حیات مل گئی تھی؟ زاویار نے پوچھا۔۔۔
ہاں۔۔۔ امن نے دھیرے سے کہا
کہاں تھی؟
وہیں… بس گھر جانے کی ضد کر رہی تھی، تو میں اُسے گھر چھوڑ آیا۔۔۔
زاویار نے حیرت سے کہا ہُہ؟ اور خود بھی واپس آگئے؟
ہاں…
کیوں؟
پتہ نہیں… شاید اُسے وہاں نہیں جانا تھا…
بھائی، کیا بولے جا رہے ہو تم؟
تم چپ رہو۔
عجیب بات ہے… دیکھو اگر حیات تمہیں اچھی لگتی ہے تو دادی سے کہہ دو، اس میں اتنا سوچنے والی کون سی بات ہے؟ اور اگر نہیں لگتی، تو وہ بھی صاف صاف بتا دو۔
ہمم…
بس اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ چہرے پر وہی سنجیدگی، جیسے ذہن میں کچھ چل رہا ہو۔
کچھ دیر بعد دانیال اور یوسف بھی اَمن کے کمرے میں آ گئے۔
بھائی! تم بغیر کھائے آگئے؟ دانیال اندر آتے فوراََ بولا۔۔۔
ہاں! مس کر دیا نا؟ کتنا مزے کا بنا تھا۔۔۔ یوسف نے افسوس سے کہا جیسے امن کا کتنا بڑا نقصان ہوگیا۔۔۔
اچھا…
بس اتنا ہی کہا، جیسے سن تو رہا ہو، مگر دھیان کہیں اور ہو۔
اچھا وچھا نہیں، یہ بتاؤ واپس کیوں آگئے؟ ہم دونوں کو اکیلا چھوڑ کر؟ دانیال نے خفکی سے کہا
ہاں بالکل۔۔۔۔ یوسف نے بھی دانیال کی بات پر ہاں پے ہاں ملایا
اکیلے تو نہیں تھے تم لوگ۔
اکیلے ہی تھے ہم۔۔۔ دانیال نے کہا
بھائی، زویار بھائی کی بات کر رہے ہیں، وہ تھا… اُدھر۔ یوسف نے دانیال کو سمجھتے کہا
اوہ ہاں،… لیکن پھر بھی بتاؤ، واپس کیوں آگئے؟
بھائی کا سر درد کر رہا تھا، اسی لیے۔ اور اب تم دونوں جاؤ، جا کے سو جاؤ۔ زاویار نے جلدی سے کہا
اور وہ بیوٹی فل لڑکی؟ مل گئی تھی بھائی؟ دکھائی تو نہیں دی مجھے۔۔۔ اُدھر۔۔۔ یوسف کو یاد آیا۔۔ بھائی لسٹ ٹائم اُس کو ڈھونڈ رہے تھے۔۔۔
بیوٹی فل لڑکی نہیں، پاگل لڑکی۔۔۔ دانیال نے فوراً یوسف کو ٹوکا۔۔۔
ابے چُپ! تجھے کچھ پتا نہیں۔۔۔ یوسف نے ناگواری سے کہا
مل گئی نا، اب تم دونوں چلو، جا کر سو جاؤ۔۔۔ زاویار سختی سے کہتا۔۔۔ دونوں کو کھینچتا ہوا کمرے سے باہر لے گیا۔
کیا بھائی۔۔۔ عجیب۔۔۔ باہر آتے ہی دانیال جھنجھلا کر بولا۔۔۔
ہاں بہت عجیب اب جاؤ اپنے روم میں دونوں۔۔۔
میں بھی اب گھر جا رہا ہوں۔۔ بھائی کے سر میں درد ہورہاہے تو اُنہیں سونے دینا۔۔۔اُن کے روم میں اب مت جانا۔۔۔
زاویار نے سختی سے کہا۔۔۔
عجیب۔۔۔ جارہا ہوں میں۔۔۔
دانیال بولا۔۔۔ اور اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
ایک تو بھائی کہیں بھی گھومنے جاتے ہیں اُن کے سر ہے درد ہوجاتا ہے۔۔۔۔ دن رات جو کام کرتے رہتے ہیں ٹان درد نہیں ہوتا۔۔۔ ہر ٹریپ پر بھائی کے سر میں درد ہوجاتا ہے۔۔۔
یوسف بھی بولا۔۔۔اور اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
پاگل دونوں۔۔۔
زاویار نے دیکھا جب دونوں اپنے اپنے روم کے اندر چلے گئے تو وہ بھی اپنے راستے ہو لیا۔۔۔۔
+++++++++++++
حیات بیٹا اُٹھو، آفس نہیں جانا آج؟
زینب بیگم نے ہمیشہ کی طرح پیار بھرے انداز میں کہا۔
کمبل کے اندر سے دبی دبی آواز آئی۔۔
نہیں… حیات کو نہیں جانا۔
کیوں؟ چھٹی ہے آج؟ زینب بیگم نے پوچھا۔۔۔
نہیں… حیات کو نہیں پتا۔
کیا مطلب؟ زنیب بیگم کو کچھ سمجھ نہیں آیا وہ کمبل کے اندر سے پتہ نہیں کیا کیا بولے جارہی تھی۔۔۔
نہیں پتا… مطلب نہیں پتا۔
مسز ندیم نے کمبل ہٹایا تو چونک گئیں۔۔۔
حیات کی آنکھیں سرخ تھیں، ماتھا تپ رہا تھا، بدن جل رہا تھا۔
ارے، تمہیں تو تیز بخار ہے۔۔ رکو، میں دوا لاتی ہوں۔
وہ جلدی سے کمرے سے نکل گئیں۔
اُن کے باہر آتے ہی ندیم صاحب نے پوچھا۔۔۔ جو آفیس جانے کے لیے مکمل تیار۔۔۔ اس وقت ڈننگ ٹیبل پر بیٹھ پر ناشتہ کرنے رہے تھے۔۔۔
کیا ہوا؟
حیات کو اتنا تیز بخار ہے۔۔۔
زنیب بیگم نے پریشانی سے جواب دیا۔۔۔ پتہ نہیں لگتا ہے رات بھر بخار رہا ہے اُسے، آنکھیں سُرخ ہورہی تھی لگتا ہی رات بھر سوئی نہیں۔۔۔
ہاں۔۔۔ میں دیکھتا ہوں۔۔۔
ندیم صاحب بھی پریشانی کے عالم میں ڈائننگ ٹیبل سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور حیات کے روم کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔
حیات کے روم میں پہنچتے ہی دھیرے سے کہا
کیا ہوا میری بیٹی کو؟
حیات نے آنکھیں بند رکھتے ہوئے آہستہ کہا،
کچھ نہیں۔
ارے۔۔۔۔ مُجھے بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟
ندیم صاحب نے نرمی سے پوچھا اور بیڈ پر اُس کے پاس بیٹھ گئے۔۔۔
حیات کو آفیس نہیں جانا۔۔۔ حیات اب اُس آفس نہیں جائے گی۔ حیات نے آنکھیں کھلی دھیرے سے کہا
کیوں بیٹا؟ کچھ ہوا کیا؟ ندیم صاحب نے نرمی سے پوچھا۔۔۔
وجہ۔۔۔ یہیں ہے کہ حیات کو وہ آفیس نہیں پسند۔۔۔
مگر ہماری ڈیل؟
ختم۔ ختم۔
حیات نے تیزی سے کہا
مسٹر ندیم نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا،
چلو ابھی آرام کرو، اس بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے۔
مگر حیات نے جیسے بچی بن کر ضد پکڑ لی،
اب کوئی بات نہیں ہوگی۔ حیات نے کہہ دیا نا۔۔۔ نہیں جانا، مطلب نہیں جانا۔۔۔
مسٹر ندیم مسکرا دیے،
اچھا اچھا جناب، جیسا آپ بولیں۔۔۔
کچھ دیر بعد مسز ندیم ناشتہ اور دوا لے کر آئیں،
پہلے کچھ کھا لو، پھر دوا لے لینا تاکہ بخار اتر جائے۔
میں ناشتہ تو کرلونگی۔۔۔ مگر دوا تبھی کھاؤں گی جب آفس سے میرا ریزائنیشن لیٹر سائن ہو کر مُجھے ملے گا۔۔۔ حیات نے ایک اور ضد پکڑ لی
مسٹر ندیم فوراََ بولے۔۔۔
ارے میں نے کہا نا، تمہیں نہیں جانا۔۔ تو نہیں جاؤ۔۔
پکا؟
ہاں ہاں پکا، بالکل نہیں جانا۔ اب دوا کھا لو۔۔۔ ندیم صاحب نے نرمی سے کہا
ہممم گُڈ۔
وہ مسکرا کر ناشتہ کرنے لگی۔۔۔
++++++++++++
دوسری طرف آفس میں گھڑی نے دس بجا دیے تھے۔
مگر حیات کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔
امن صبح سے ہی بےچین تھا۔
ایک تو وہ لڑکی امن کو بہت تنگ کرتی تھی۔۔۔
اس نے کال ملائی۔
فون کی گھنٹی بجتی رہی، مگر دوسری طرف سے آواز کسی اور کی آئی۔
ہیلو؟
السلام علیکم آنٹی، امن بول رہا ہوں۔
وعلیکم السلام بیٹا، بولو؟
حیات آفس کیوں نہیں آئی آج؟
بیٹا اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، بخار ہے۔ دوا کھا کر سو گئی ہے۔
امن نے ایک لمحہ چپ رہ کر کہا،
اچھا… ٹھیک ہے۔ اللہ حافظ۔
اُس کے دل نے بے شمار سوال کیے، مگر امن کی زباں نے ساتھ نہ دیا۔ وہ پوچھنا چاہتا تھا۔۔
حیات اب کیسی ہے؟
کیا اُسے بخار رات والے حادثے کی وجہ سے آیا ہے؟
کیا اُس کا بخار اتر گیا؟
کیا اُس نے ناشتہ کیا؟ دوا لینے میں ضد تو نہیں کی؟
دل کے ایک کونے میں سوالوں کی قطار لگ گئی تھی،
مگر لب خاموش تھے…
فون کے اُس پار زینب بیگم کی مدھم سی آواز سنائی دی
’ہاں بیٹا، خیال رکھنا۔ اللہ حافظ۔‘
فون بند ہو گیا، اور امن کا دل ڈوب گیا۔۔۔
پتہ نہیں یہ لڑکی مجھے اور کتنا پریشان کرے گی…
اب اُس کا دل کسی کام میں نہیں لگ رہا تھا۔
دفتر کی فائلیں، میٹنگز، سب بےمعنی لگنے لگیں۔
دفتر کی فائلیں اُس کے سامنے بکھری پڑی تھیں،
مگر ہر صفحے پر اُسے حیات کا چہرہ دکھائی دیتا۔۔
وہی روتی ہوئی آنکھیں، وہی ڈرا ہُوا چہرا۔۔۔
بار بار اُس کے کانوں میں حیات کی مدھم سی آواز گونج رہی تھی۔۔۔
اور وہ اپنے آپ سے ہر بار ہار جاتا۔
آخرکار اُس نے زاویار کو فون کیا۔
ہاں بولو؟ دوسری طرف سے زاویار کی آواز آئی۔۔۔
میں آج گھر جا رہا ہوں، تم آفیس دیکھ لینا۔
زاویار چونکا۔
خیریت تو ہے؟ طبیعت خراب ہے کیا؟
نہیں۔۔۔ سب ٹھیک ہے بس ویسے ہی۔۔۔
بھائی! تم کسی دیوار سے تو نہیں ٹکرا گئے؟ یہ کیسی باتیں کر رہے ہو؟
امن جھنجھلا گیا،
کیا بکواس کر رہے ہو زاویار؟
ارے بھائی، تم ہی تو بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو…
زاویار کی حیرت بجا تھی۔ امن کبھی یوں اچانک آفس سے نہیں جاتا تھا۔ وہ صرف دو صورتوں میں غیر حاضر ہوتا— یا تو طبیعت کی خرابی کے باعث، یا اپنے بھائیوں کی کسی مجبوری کے سبب۔ اس کے علاوہ وہ ہمیشہ کام میں ڈوبا رہتا تھا۔ تو پھر آج اچانک…؟
چپ رہو، میں جا رہا ہوں۔ جتنا کہا ہے، اتنا ہی کرو۔
یہ کہہ کر آمن نے فون کاٹ دیا۔
++++++++++++++
سارا بیگم لاؤنچ کے صوفے پر بیٹھی تسبیح گھما رہی تھیں جب امن اُنہیں اندر آتا دیکھائی دیا۔۔۔
ارے تُو جلدی آ گیا؟ اُنہوں نے تعجب سے کہا،
ہاں دادی ۔۔۔۔ بس آج تھوڑا جلدی نکل آیا۔
دادو نے تسبیح روک لی، ماتھے پر فکر کی لکیر اُبھری۔
ارے، تیری طبیعت تو ٹھیک ہے نا بیٹا؟
“ہاں ہاں دادی، بالکل ٹھیک ہوں۔ بس ذرا سا سر درد ہے۔ اور ابھی میں اپنے کمرے میں جارہا ہوں۔۔ بنانا شیک بھجوا دیں میرے کمرے میں؟
یہ کہہ کر وہ دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھنے لگا،
سارا بیگم نے اُس کے پیچھے دیکھتے ہوئے آہستگی سے خود سے کہا،
ارے اِس کو کیا ہو گیا۔۔۔۔
++++++++++++++
شام کے دھندلکوں نے آسمان کو ہلکے نارنجی اور سیاہ رنگوں میں رنگ دیا تھا۔ ہوا میں خنکی تھی،
امن نے آخرکار وہ فیصلہ کر لیا۔۔۔
عقل نے ہزار بار روکا تھا، مگر دل نے آخرکار مانا ہی لیا۔۔۔
آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اُس نے اپنے کپڑوں کی سلوٹیں سیدھی کیں، بالوں پر ہاتھ پھیرا، اور ایک گہرا سانس لیا۔
چہرے پر سکون کا تاثر لانے کی کوشش کی، مگر آنکھوں کے اندر کی ہچکچاہٹ چھپ نہ سکی۔
گھر سے نکلتے ہوئے اُس نے سارا بیگم کو بتایا تک نہیں، بس اتنا کہا،
دادی، ذرا باہر جا رہا ہوں۔ دیر نہیں لگاؤں گا۔
راستے میں ایک پھولوں کی دکان کے سامنے رُک گیا۔
سفید اور گلابی گلابوں کا ایک خوبصورت گلدستہ خریدا
ساتھ ہی ایک چھوٹی سی شاپ سے جوس اور کچھ میٹھا بھی لے لیا۔
سب کچھ اُس نے محض “formalities” کے طور پر خریدا،
+++++++++++
امن نے دروازے کے سامنے چند لمحے رُک کر سانس لی۔
اس نے ہچکچاتے ہوئے بیل دبائی — ایک… دو… تین بار۔
دروازے کے پیچھے ہلکی سی آہٹ ہوئی، اور پھر ہینڈل چرچراہٹ کے ساتھ گھوما۔
دروازہ کھلا تو سامنے ایک ملائم لہجے والی بوڑھی ملازمہ کھڑی تھی۔
السلام علیکم، صاحب۔
امن نے ہلکے سے مسکرا کر جواب دیا، وعلیکم السلام۔
ملازمہ نے ذرا غور سے اُسے دیکھا، پھر پہچاننے کے انداز میں بولی،
ارے آپ… آپ وہی ہیں نا، حیات بی بی کے باس؟
امن نے آہستہ سا سر ہلایا۔
جی، میں ہی ہوں۔
اچھا اچھا، اندر آئیے صاحب، آئیے۔۔۔
وہ جلدی سے ایک طرف ہٹی، اور امن آہستہ قدموں سے دہلیز پار کر گیا۔
ملازمہ اُسے ڈرائنگ روم میں لے آئی۔
آپ یہاں بیٹھیں، میں حیات بی بی کو بلاتی ہوں۔
امن نے مختصر سا ہمم… کہا، اور سوفے پر بیٹھ گیا۔
++++++++++
ملازمہ دروازے کے پاس آ کر ذرا جھجکی، پھر آہستہ سے بولی،
بی بی جی… وہ، حیات بی بی کے باس آئے ہیں۔
زینب بیگم نے کہا،
ہاں تو بٹھا دو انہیں اندر۔
جی بی بی جی، بٹھا دیا ہے… لیکن…
لیکن کیا؟
بی بی جی، لگتا ہے وہ حیات بی بی کی طبیعت پوچھنے آئے ہیں۔
تو؟
تو یہ کہ… حیات بی بی ان سے ملیں گی کیا؟
زینب بیگم نے کہا
یہ سب تمہارا کام نہیں ہے۔ تم جا کر چائے ناشتے کا انتظام کرو، باقی میں دیکھ لوں گی۔
جی، جیسا آپ کہیں۔
ملازمہ فوراً چپ ہو کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔
+++++++++++
زنیب بیگم آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر آئیں۔
حیات بیڈ پر نیم دراز تھی، موبائل پر ریلز دیکھتے ہوئے بےفکری سے مسکرا رہی تھی۔
حیات! اُٹھو، اپنا حلیہ درست کرو اور فوراً نیچے آؤ۔۔۔
حیات نے چونک کر موبائل روکا۔
کیوں؟ کوئی آیا ہے کیا؟
ہاں، زنیب بیگم نے مختصر سا جواب دیا۔
کون؟
امن آیا ہے۔
حیات کے ہاتھ سے موبائل چھوٹتے چھوٹتے بچا۔
ک…کیا؟ وہ؟ کیوں آئے ہیں وہ؟
ان سے جا کے کہہ دیں — حیات ان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی! وہ فوراً یہاں سے چلے جائیں۔۔۔
زنیب بیگم نے خفگی سے کہا،
چپ کر جاؤ حیات! ڈرامے مت کرو۔ ملازمہ بتا رہی تھی کہ وہ تمہارے لیے چاکلیٹ لایا ہے۔
یہ سنتے ہی حیات کے اندر جیسے بجلی سی دوڑ گئی۔
کیا؟ چاکلیٹ؟ وہ تقریباً اچھل کر بیٹھی۔
ہاں، وہی کہہ رہی تھی۔
اچھا اچھا، آپ جائیں… حیات دو منٹ میں آ رہی ہے۔۔۔
اور پھر چاکلیٹ کے لیے تو حیات کُچھ بھی کر سکتی تھی۔۔۔
زنیب بیگم کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔
ہمم، جلدی آؤ۔
++++++++++++++
ڈائننگ روم میں دروازے کے پردے کے پیچھے سے جب زنیب بیگم نمودار ہوئیں،
امن فوراً احتراماً کھڑا ہو گیا۔
السلام علیکم آنٹی، کیسی ہیں آپ؟
اس کے لہجے میں ہمیشہ کی سی نرمی تھی،
زنیب بیگم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
وعلیکم السلام، ارے بیٹا، بیٹھو بیٹھو… اسے اپنا ہی گھر سمجھو۔ میں بالکل ٹھیک ہوں، الحمدللہ۔
تم سناؤ، کیسے ہو؟ گھر میں سب خیریت ہے نا؟
امن دوبارہ بیٹھ گیا،
جی آنٹی، سب بالکل ٹھیک ہیں، اور میں بھی ٹھیک ہوں، الحمدللہ۔
اچھا بیٹا، اور بتاؤ، کام کیسا جا رہا ہے؟ سنا ہے بہت بزی رہنے لگے ہو آج کل۔
امن نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا،
جی، بس اللہ کا شکر ہے، سب اچھا چل رہا ہے۔ آپ کو تو پتا ہی ہے، اتنا بڑا بزنس ہے،
سنبھالنے میں وقت تو لگتا ہی ہے… بس اسی وجہ سے زیادہ مصروف رہتا ہوں۔
زنیب بیگم نے ہنستے ہوئے کہا،
اچھا تو پھر آج یہاں آنے کا وقت کیسے مل گیا، بیٹا جی؟
امن کے چہرے پر ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی،
پھر آہستہ بولا،
ارے نہیں آنٹی، ابھی لنچ کے بعد تھوڑا فری تھا تو سوچا، حیات کی طبیعت پوچھتا ہوا آ جاؤں۔
زینب بیگم نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
اچھا اچھا، بڑی پرواہ کرتے ہو نا اپنے ایمپلائیز کی۔۔۔
امن نے نظریں چکنی سی مسکراہٹ کے ساتھ جھکا لیں۔
جی…
سب کی نہیں کرتا۔
(دل نے دبے لفظوں میں کہا، پتہ نہیں اس پاگل لڑکی کی کیوں کر رہا ہوں…)
پھر ایک لمحے بعد سیدھا ہو کر بولا،
آپ بُلا دیں آنٹی، حیات کو۔۔
ہاں، وہ بس آرہی ہے۔۔۔۔
وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی نظریں سیدھی امن پر گاڑ دیں۔
کیوں آئے ہیں آپ یہاں؟
حیات کے سوال پر امن نے ذرا بھنویں سکیڑیں، پھر نرمی سے بولا۔۔۔
کوئی تمیز ہوتی ہے، کوئی طریقہ ہوتا ہے۔
پہلے سلام کیا جاتا ہے، تمہیں کسی نے سکھایا نہیں؟
حیات نے فوراََ جواب دیا،
نہیں، آپ سکھا دیں…
بس، تم دونوں بیٹھو۔ باتیں کرو۔۔۔ میں چائے بھجواتی ہوں۔
وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اٹھیں اور کچن کی طرف چل دیں۔
ان کے جاتے ہی امن نے مسکرا کر کہا،
ہاں، میں تو سکھا ہی دوں گا۔
ایکسکیوز می؟ حیات نے آنکھیں سکیڑیں کہا
ہم؟
یہ بتائیے، آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟ حیات صوفے پر اُس کے سامنے بیٹھتی پوچھا۔۔۔
آپ کی طبیعت پوچھنے۔
تو پوچھیے۔
پاگل لڑکی۔۔۔ وہ دھیرے سے بولا، اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔
حیات نے نظریں میز کی طرف موڑ لیں جہاں پھولوں کا گلدستہ اور جوس رکھا تھا۔
یہ میرے لیے لائے ہیں آپ؟ اُس نے قدرے تیز لہجے میں پوچھا۔
ہم… بیماری کی عیادت کے لیے خالی ہاتھ نہیں جاتے نا، اسی لیے لایا ہوں۔ امن نے نرمی سے جواب دیا۔۔۔
حیات نے پھول اٹھاتے ہوئے کہا،
اچھا… اور چاکلیٹ کہاں ہیں؟
امن نے چونک کر پوچھا،
کون سی چاکلیٹ؟
وہی چاکلیٹ جو آپ میرے لیے لائے ہیں۔ لائے ہیں نا؟
بیمار کے لیے چاکلیٹ کون لے کر آتا ہے؟
آپ کو لانی چاہیے تھی۔
حیات نے خفکی سے کہا
امن نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا،
پاگل لڑکی! بیماری میں چاکلیٹ کھاؤ گی تم؟
ہاں تو۔۔۔۔ حیات نے بے نیازی سے کہا
لیکن میں چاکلیٹ نہیں لایا۔
حیات نے منہ پھیر کر ناک چڑھائی،
تو خود بھی کیوں آئے ہیں؟
کہا تو تھا، عیادت کے لیے آیا ہوں۔
حیات نے تیز لہجے میں کہا،
حیات مرنے نہیں والی ہے جو آپ عیادت کو آئے ہیں۔۔
امن نے مسکراتے ہوئے نظریں اُٹھائیں،
مجھے تو لگا مرنے والی ہے…
ہاں ہاں، ظالم انسان! مار دو حیات کو۔
آپ تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ حیات مر جائے!
لیکن سن لیجیے، مرے حیات کے دشمن یعنی آپ…
حیات اتنی جلدی آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔۔۔
حیات نے خفکی سے چڑ کر کہا
واقعی؟ امن نے آنکھیں سیکڑیں پوچھا۔۔۔
حیات نے اکڑ کر کہا ہاں، بالکل۔۔۔۔
اچھا… دیکھتے ہیں۔
ہاں، اپنی ان دونوں موٹی موٹی، کالی کالی آنکھوں سے دیکھیے گا۔۔۔۔
آنکھوں سے ہی دیکھا جاتا ہے، حیات۔۔۔
تو حیات نے کب کہا کہ آپ پاؤں سے دیکھیں گے؟
حیات نے معصومیت سے کہا
ہاں ہاں، ساری غلطی میری ہے۔ میں ہی اُلٹا سیدھا بولتا ہوں۔
ہاں تو! خیر… اگلی بار اگر آئیں تو چاکلیٹ لے کر آئیں،
ورنہ آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔
اچھا؟ اور کچھ؟ امن نے نرمی سے طنز کیا۔۔۔
نہیں۔۔۔
نہیں، سوچ لو، بعد میں یاد آ جائے گا کچھ…
حیات نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا
ہمم… سوچنے دیں…
پاگل لڑکی۔۔۔
حیات نے منہ پھیرتے ہوئے کہا
خود وہیات پارانی۔۔۔۔
امن نے اُس کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے کہا
کہاں سے میں تمہیں واہیات لگ رہا ہوں؟
حیات نے آنکھیں سکیڑ کر اُسے دیکھا،
ہر اینگل سے۔۔۔۔
امن نے سنجیدگی سے کہا
تمہاری آنکھیں خراب ہیں۔
حیات نے فوراََ جواب دیا ۔
اور آپ کا دماغ۔۔۔
امن نے حیرت سے کہا ایکسکیوز می…؟
کیا؟ حیات نے حیرت سے آنکھیں پھيلائیں
ابھی ابھی تم نے کیا کہا؟
حیات نے بےنیازی سے کہا وہی جو آپ نے سنا۔
اور میں نے کیا سنا؟
حیات کو کیا پتا آپ کیا کیا سنتے رہتے ہیں۔ آپ کے کان بھی تو بجتے رہتے ہیں نا؟
اور پلیز، فضول کا ٹائم پاس مت کیجیے۔۔
امن نے مسکرا کر کہا
میں ٹائم پاس کر رہا ہوں؟
یوس۔۔۔۔
یہ تُم کون سی زبان بولنے لگتی ہو تم تھوڑی تھوڑی دیر بعد؟ امن نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
آپ سے مطلب؟ حیات نے منہ بنائے کہا
کیا مطلب آپ سے مطلب؟
حیات نے بیزاری سے کہا
کچھ نہیں بھئی۔۔۔۔
اسی دوران ملازمہ ناشتہ لے کر آئی اور میز پر سجا دیا۔۔۔ سفید چینی کی پلیٹوں میں سلیقے سے چکن سینڈوچز رکھے تھے،
ساتھ ایک چھوٹی پلیٹ میں چیز رولز اور آلو کے کٹلس،
چائے کے برتن کے ساتھ ایک چھوٹا سا مگ رکھا تھا،
جس میں بھاپ اُٹھتی کافی تھی۔۔۔
ساتھ میں ایک چھوٹی پلیٹ پر مکھن اور شہد رکھا تھا، اور کنارے پر دو کرسپی ٹوسٹس۔
امن نے میز پر رکھے چیزوں پر سرسری سی نظر ڈالی، اور اس کے زبان سے بےاختیارِ نِکلا۔۔۔۔۔
میں یہ سب نہیں کھاتا۔
ابھی آپ کس کے گھر آئے ہوئے ہیں؟
حیات نے ناگواری سے امن کو دیکھتے کہا
یہ کیسا سوال ہے؟ امن نے چونک کر پوچھا۔۔۔
سوال تو سوال ہوتا ہے، اب جیسا بھی ہو، جواب دیں۔۔۔
تمہارے گھر آیا ہوں، اور کس کے؟
امن نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔
تو جیسا کہ آپ حیات کے گھر آئے ہوئے ہیں…
ہمم… تو؟
تو آپ کو یہ سب کھانا پڑے گا۔۔۔۔
یہ کیسا رول ہے؟
یہ حیات کے گھر کا رول ہے۔
سب کو فالو کرنا ہوتا ہے۔
آنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے تھا۔۔۔
اچھا، مُجھے تو جیسے فرشتے آ کر بتا گئے تھے نا
کہ حیات کے گھر میں یہ سب کھانا فرض ہے۔۔۔
حیات نے معصوم حیرت سے کہا
ہیں؟ سچ میں؟
پاگل لڑکی۔۔۔۔ امن نے مسکراتے ہوئے کہا
حیات نے سنجیدگی سے کہا
اب آپ دوبارہ ٹائم پاس کر رہے ہیں۔
امن کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا اچھا اور کچھ؟
میز پر رکھے کِسی بھی چیز سے اُس کا واسطہ نہیں تھا۔۔۔ اُسے اس طرح کی کوئی بھی چیز نہیں پسند تھی۔۔۔ہاں بس کافی پی سکا تھا۔۔۔
حیات نے پلیٹ آگے کھسکائی۔
نہیں، کھائیے۔۔۔۔
امن نے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا،
تمہیں پتا ہے… تم کافی بہت اچھی بناتی ہو۔
جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ، آفس آؤ… اور کافی بنا دینا۔۔
حیات نے تھوڑے توقف کے بعد کہا
گیٹ ویل سون‘ بولنے کا یہ طریقہ ذرا کیژول نہیں تھا؟
امن نے مُسکراتے ہوئے کہا
یہ میرا اسٹائل ہے۔
حیات نے ناگواری سے کہا
آپ کا اسٹائل بھی آپ کی طرح واہیات ہے۔
ویسے حیات آپ کو ایک خوشخبری دے دیتی ہے۔
امن نے مسکراتے ہوئے کہا ہمم؟ دو؟
حیات نے سنجیدگی سے کہنا شروع کیا۔۔۔
حیات اب سے آفس نہیں آئے گی۔ بات ہو گئی ہے بابا سے، انہوں نے کہا ہے نوکری چھوڑ دو۔
یہ سن کر امن کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔۔۔
وہی چہرہ، جو ابھی چند لمحے پہلے مسکراہٹ کے رنگوں سے بھرا تھا، اب یکایک ساکت ہو گیا۔
کیا۔۔۔؟؟
بس اتنا ہی نکلا اس کے لبوں سے۔
اس کی آواز میں حیرت کم، بےیقینی زیادہ تھی۔ جیسے دماغ نے سنا ہو، مگر دل ابھی ماننے سے انکاری ہو۔
ہاں، اب حیات آپ کے آفس نہیں آئے گی۔
بچ گیا آپ کا آفس برباد ہونے سے…
اور آپ بھیک مانگنے سے۔۔۔۔
وہ سنجیدگی سے بولی۔۔
امن نے ایک لمحہ خاموشی سے اُس کی طرف دیکھا،
پھر مسکراہٹ زبردستی چہرے پر کھینچتے ہوئے بولا،
اچھا… ٹھیک ہے۔ تم ٹھیک ہو جاؤ، پھر آ کر ریزائنیشن لیٹر لے لینا۔
حیات نے تھوڑے توقف کے بعد کہا
ہاں… ٹھیک ہے۔
امن کافی کا آخری گھونٹ لیا، اور جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔
++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔۔
