دِل یا دھڑکن از قلم صدیقی
ٹریلر ۔۔۔۔
” تُجھے پتہ ہے، میں تیرے لیے دنیا ختم کر سکتا ہوں”
“اور میں تیرے لیے جان دے بھی سکتا ہوں… اور لے بھی سکتا ہوں۔”
” جان لینے تک تو ٹھیک ہے، لیکن میں تجھے جان دینے نہیں دوں گا…”
“پھر وعدہ کر… ہمارے بیچ کوئی نہیں آئے گا۔”
“کوئی بھی نہیں آئے گا۔”
“وعدہ کر، کوئی لڑکی بھی ہمارے بیچ نہیں آئے گی۔”
“اگر آ گئی تو؟”
“آ بھی گئی تو، تُو مجھے اچھی طرح جانتا ہے… میری جان جب تجھ پر قربان ہے، تو لڑکی کیا چیز ہے؟”
“اور تُو مجھے بھی اچھی طرح جانتا ہے… اگر کوئی لڑکی آئی تو سمجھ جانا…”
“This world is going to end…”
……….
” دوست۔۔۔( وہ دھاڑا) دوست ہے تبھی یہاں سینے پر وار کیا”
” یہ سب کرتے ہوئے تُجھے خوف نہیں آیا تُجھے ڈر نہیں لگا کہ میری جان بستی ہے اُس میں ” اچانک وہ آگے بڑھا اور اُس کی گردن مضبوطی سے دبوچ لی کہ اُنگلیاں اُس کی جلد میں پیوست ہوگئیں
فون کی سکرین پر ایک براہِ راست نیوز رپورٹ چل رہی تھی۔ رپورٹر کی آواز میں وہی سنسنی تھی، جو صرف بڑے انکشافات کے وقت ہوتی ہے۔
“ناظرین! ہم آپ کو ایک اور سب سے اہم خبر سے آگاہ کرتے چلیں۔۔۔ لندن کے سب سے بڑے اندر کور مافیا ڈان، جو ایم ڈی مافیا کے نام سے جانے جاتے ہیں، اُن کی شناخت کے مزید سراغ ہمارے ہاتھ لگے ہیں۔”
رپورٹر کے پیچھے ایک دھندلی تصویر چل رہی تھی۔ تصویر میں واضح نہیں تھا، مگر آنکھیں نمایاں تھیں—بھوری آنکھیں، جو اندھیرے میں بھی چمک رہی تھیں۔
” ایم ڈی مافیا کی بھوری آنکھیں ہیں “
ایک ٹوٹا ہوا، براؤن رنگ کا لینس۔
ماہی کی سانسیں ایک پل کو رک سی گئیں۔ اس کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔ ولید اور براؤن لینس؟ اس کا ان چیزوں سے کیا تعلق؟ وہ تو کبھی کوئی لینس استعمال نہیں کرتا تھا، اور نہ ہی ماہی نے اسے اس بارے میں بات کرتے سنا تھا۔ تو پھر یہ یہاں کیسے آیا؟
ماہی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اُس کی نظر لینس کے ڈبے پر پڑی ۔۔۔ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ بہت سارا لینسز پورا ڈبا براؤن رنگ کے لینس سے بھرا ہوا تھا۔ وہ کچھ لمحے ساکت کھڑی رہی، جیسے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو۔ دل کی دھڑکن بےترتیب ہونے لگی۔
یہ سب یہاں کیوں ہے؟ ولید کے پاس۔۔۔اتنے سارے براؤن لینسز کا کیا کام ؟
ایم ڈی مافیا لندن کا انڈرکور مافیا کون تھا وہ ؟ حامد کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔
یہ راز تھا ماہی کو اس راز تک پہنچنا تھا
“کبھی کبھی… ایک لمحہ، ایک نظر… پوری زندگی کو بدل دیتا ہے۔”
ولید ابھی کچھ کہتا یا سمجھتا کہ دروازہ کھلا –
اور وہ… سجی سنوری، ہوئی ماہی اُس کے سامنے تھی۔
اور جیسے ہی ولید کی نظر ماہی پر پڑی –
وقت تھم گیا۔
سانس جیسے رک گئی۔
اور اُس کا ہاتھ بے اختیار اپنے دل پر جا پڑا…
جیسے دل کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہو۔
ہوش میں رہنا اب… واقعی مشکل ہو گیا تھا۔
کیونکہ ماہی آج صرف خوبصورت نہیں لگ رہی تھی –
آج وہ دل کی دعا کی طرح پوری ہو کر سامنے آئی تھی۔
“کیا وہ بھی میرے لیے وہی محسوس کرتی ہے، جو میں کرتا ہوں؟”
“ایک دل… جس نے ہمیشہ اُس کے لیے دھڑکنا سیکھا… لیکن زبان کبھی بول نہ سکی۔”
“مجھے شادی نہیں کرنی… ولید، مجھے حارث سے شادی کرنی ہے!”
“جب دل ٹوٹتے ہیں، تو صرف آنکھیں نہیں روتیں… پورا وجود تڑپتا ہے۔”
وہ ماہی پر بندوق تنے کھڑا تھا
“میں تمہیں مار دوں گا، ماہی!”
“پہلے مجھے مارنا پڑے گا…”
ولید ماہی کے سامنے آچکا تھا
“جب عشق میں وفا کی قیمت… جان سے چکائی جاتی ہو — تو ہر محبت، ایک قربانی بن جاتی ہے۔”
“ہاں، آرہا ہوں، آرہا ہوں۔۔۔ اب کیا اُڑ کر آجاؤں؟ بکو مت!”
گاڑی فل اسپیڈ پر تھی، رفتار جیسے ہواؤں سے باتیں کررہی ہو۔ اسٹیئرنگ پر مضبوط گرفت، ماتھے پر شکنیں، اور بلیوٹوتھ پر مسلسل بحث جاری تھی ۔۔
“اب تم نے اور کچھ بولا نہ، تو وہیں آ کر خود تجھے زندہ جلا دوں گا!” اس کی آواز میں غصے کی چنگاریاں تھیں۔ “جب بھی بولنا، فضول ہی بولنا! کوئی نہیں آرہی پولیس…”
“مہنوس!” اس نے دانت پیس کر کہا۔ “تجھے رکھا کس نے میرے ساتھ؟ کام کے قابل نہیں ہے تُو، ڈر بھوک کہیں کا۔۔!”
غصے میں اس نے اسٹیئرنگ پر ہاتھ مارا، رفتار مزید بڑھا دی۔
پھر اچانک، اس کی آنکھوں کے سامنے بلیو سٹرک کیفے آ گیا۔
بلیو سٹرک کیفے
گاڑی کے ٹائروں نے سڑک پر ہلکی سی چیخ ماری، اور اُس نے بریک لگا دی ۔ اس کی نظریں سامنے کیفے پر جمی تھیں۔
______________
وہ غصے سے حامد کو ایک نظر ڈالتا، پھر باہر نکل آیا۔ جیسے ہی وہ باہر آیا، وہ سب کہیں جا چکے تھے۔ چلے گئے تھے یا کہیں چھپ گئے تھے تاکہ ایم ڈی انہیں مزید نقصان نہ پہنچا سکے۔ کچھ بھی کہنا مشکل تھا۔ پھر ایم ڈی کے بندے لوگ اپنے بندے کو اٹھا کر یہاں سے چلے گئے۔
جب ہر طرف خاموشی تھی ، اور وہ سب جا چکے تھے، تب ایک لڑکی اُسی کمرے سے باہر آئی جہاں ایم ڈی کے بندے بند تھے۔ وہ بڑی سی سیاہ چادر میں خود کو چھپائے ہوئے تھی، اور نرمی سے باہر نکلی، اور اپنے راستے چلی گئی۔۔۔
______________
ماہی نے دل ہی دل میں دانت پیسا اور سوچا”یہ آگیا نا میری زندگی میں! اب بس میری ہر بات پر مجھے ٹوکے گا اور دس سوال کرے گا… ایسا کیوں کیا؟ وہ کیوں کیا؟ یہ کیوں کیا؟ وہ کیوں کیا؟ افف!”
ماہی نے باکس کھولا
اندر ایک نفیس، سونے کی باریک چین تھی –
جس میں چھوٹے چھوٹے حروف میں جُڑا ایک نام چمک رہا تھا
“ماہی ولید “
ماہی نے اسے چند لمحوں تک بس خاموشی سے دیکھا۔۔۔۔ پھر کہا ۔۔
پھر ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا،
“اچھا ہے…”
باکس اب خالی تھا – چین اُس کے ہاتھوں میں تھی۔ وہ نازک سی چین کو اُنگلیوں میں گھماتی رہی، پھر ایک نظر ولید کی طرف دیکھ کر بولی
“پہنا دو…”
ولید کے لبوں پر ایک نرم، حیران سی مسکراہٹ ابھری۔
“کھولنے نہیں آیا نا…”
وہ آہستگی سے اُس کے ہاتھ سے چین لے چکا تھا، اُس کے لہجے میں شرارت تھی ۔۔۔
ماہی نے گردن تھوڑی سی موڑی، بال پیچھے کیے، اور ہنوز سنجیدگی سے بولی
“ہاں تو… تمہیں تو پتا ہے، ماہی ایسی چیزیں کہاں پہنتی ہے۔۔۔ اور ہاں، یہ میں تمہاری خوشی کے لیے پہن رہی ہوں۔
مینی اندر آتے ہی جھنجھلاہٹ سے کہا “تم جسے ‘پھول’ کہہ رہی ہو، تمہیں پتا ہے وہ کتنا بدتمیز ہے؟!”
ماہی نے جلدی سے مہر سے خود کو چھڑایا اور ٹیبل کے نیچے گھس گئی۔
ٹیبل کے اوپر کپڑا ڈلا ہوا تھا ، جو اسے چھپانے کے لیے کافی تھا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا لیکن اس کے ہاتھ کانپ نہیں رہے تھے۔ اس نے جیب سے فون نکالا اور تیزی سے پولیس کا نمبر ملانے لگی۔
ابھی نمبر ملایا ہی تھا کہ اچانک ایک اور روشنی اس کے چہرے پر پڑی۔
“Not a bad idea…”
ایک بھاری اور زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ آواز آئی۔
ٹیبل کا کپڑا ہٹائے وہ اُس کے پاس ہی بیٹھا تھا۔۔۔ گہری بھوری نظریں اس کے چہرے پر جمائے۔
وہ بے حد قریب تھا، اتنا کہ ماہی کو اس کی سانس اپنی جلد پر محسوس ہو رہی تھی۔ ایم ڈی کی نظریں برف جیسی سرد تھیں، مگر ان میں ایک عجیب سا چمک تھی۔
ماہی نے فون سے نظریں ہٹا کر اُسے دیکھا، اُس کی چمکتی سیاہ آنکھیں بھوری سرد آنکھوں سے ٹکرائیں—یہ محض لمحے کا کھیل تھا، مگر جیسے وقت کی روانی تھم گئی ہو۔ ایک پل، ایک نظر، اور سب کچھ بدل گیا۔ اُس کی دھڑکن بےترتیب ہوگئی، جیسے کسی نے اچانک دل کے ساز پر کوئی انجان سر چھیڑ دیا ہو۔
نہ جانے کیوں اُس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔
حامد جھنجھلا گیا۔ “پھر سے موت پڑ گئی اسے … ایک ہی رشتہ ہے میرے پاس، اور سالا وہ بھی اتنا تنگ کرتا ہے!” وہ بڑبڑایا۔
“اسے پتہ ہے میں یہاں سے باہر نہیں نکلتا، پھر بھی… کردیا ہوگا ان کی سر پھری ماہی نے پھر کچھ۔۔۔ !”
حامد نے سختی سے فون پکڑا اور غصے میں تیزی سے ٹائپ کرنے لگا:
“میں نہیں آ رہا… بھاڑ میں جا!”
اور پھر غصے میں فون بند کردیا۔۔
نائلہ نے شرارت بھرے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا،
“ہاں بولیے بولیے، کیا چاہیے؟ آپ کے لیے تو ہمارا سب کچھ حاضر ہے!”
” مُجھے تمہاری گن چاہیے ۔۔ ” اُس نے یہ الفاظ اتنے آرام سے کہئے تھی مانو جیسے وہ گن نہیں کوئی چھوٹا سا کھلونا مان رہی ہو ۔۔۔
نائلہ نے حیرت اور الجھن کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ماہی کو دیکھا، “کیا؟ گن؟ ماہی، لیکن کیوں؟ گن کا کیا کرو گی تم؟”
وہ دھیمے مگر مضبوط لہجے میں بولی، “مجھے ضرورت ہے، بس تم دے دو۔”
جلد آ رہا ہے…
ایک ایسی محبت کی کہانی، جو تمہیں اندر تک ہلا دے گی۔
The first episode is coming on September 6th
