آخری سِحر
قلم از: عمارہ عزیز
6 قسط
پھر وہ کمرے سے باہر نکل گئی اور التمش کے دروازے کے پاس کھڑی ہو گئی۔
چاروں ملکہ کو دیکھ کر حیران ہوئے اور بولے:
“آپ یہاں؟”
ملکہ بولی:
“تم چاروں جاؤ، میں اُسے دیکھ لوں گی۔”
الیمارا بولی:
“کیا؟
ملکہ اِنچّا بولی؟ آپ سب جاؤ، میں دیکھ لیتی ہوں۔”
پھر وہ سب زرکا اور الیمارا کے کمرے میں چلے گئے۔
ملکہ نے اب دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔
ملکہ اونچی آواز میں بولی:
“التَمش، کیا آپ مجھے سن رہے ہیں؟ تو یہ دروازہ کھولو!”
التَمش بستر پر بیٹھا تھا، ملکہ کی آواز سن کر چونک گیا۔
ملکہ بولی:
“مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے!”
التَمش بستر سے اٹھا اور دروازے کے پاس گیا۔ وہ دروازہ کھولنے ہی لگا کہ رک گیا اور وہیں کھڑا ہو کر ملکہ کی باتیں سننے لگا۔
ملکہ نے پھر دستک دی اور بولی:
“التَمش، کیا آپ اندر موجود ہیں؟ اگر آپ میری آواز سن رہے ہیں تو جلدی یہ دروازہ کھولو، مجھے تم سے بات کرنی ہے!”
وہ یہ بول ہی رہی تھی کہ التَمش نے دروازہ کھول دیا اور فوراً بولا:
“کیا بات کرنی ہے؟”
ملکہ غصے میں بولی:
“آپ کب سے دروازہ کیوں نہیں کھول رہے تھے؟”
التَمش بولا:
“میری مرضی۔ آپ اپنی بات کہیے۔”
ملکہ بولی:
“اندر چلیے، کمرے میں۔”
التَمش نے ایک دم ملکہ کو دیکھا اور بولا:
“کیا؟ میرے کمرے میں؟”
ملکہ سنجیدگی سے بولی:
“ہاں، چلیے۔”
پھر وہ دونوں کمرے میں داخل ہو گئے۔ یہ دیکھ کر سپاہی آپس میں مختلف قسم کی کہانیاں بنانے لگے۔
ملکہ اندر جا کر التمش کے بستر پر بیٹھ گئی۔
التمش یہ سب دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔
ملکہ بولی:
“کیا ہوئے؟ میرے ساتھ آ کر بیٹھو۔”
التمش بولا:
“ہاں، اچھا۔”
پھر وہ بستر پر ملکہ سے کچھ دُوری پر آ بیٹھا۔
ملکہ بولی:
“دراصل بات یہ ہے کہ میں سیدھی اور صاف بات کروں گی۔”
التمش بولا:
“جی، میں بھی یہی چاہتا ہوں، آپ بولیے۔”
ملکہ بولی:
“وہ جو باہر ہوا، صحیح نہیں تھا۔”
التمش فوراً بولا:
“جی، آپ مشال کے بارے میں بات کرنے آئی ہیں تو میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔”
ملکہ ذرا زور سے بولی:
“التمش! میری بات سُنو آرام سے۔”
التمش بولا:
“میں نے اُس پاگل لڑکی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی!”
ملکہ غصے سے اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی اور بولی:
“اپنی حد میں رہو، آخر تم نے اُسے پاگل کیسے کہا؟”
التمش بھی غصے میں بولا:
“اپنا یہ رُعب مجھ پر مت جَماؤ، کوئی ڈر نہیں مجھے تم سے!”
ملکہ نے گہری سانس لی اور سوچا کہ وہ معاملہ سنوارنے آئی ہے، بگاڑنے نہیں۔
وہ آہستہ سے بولی:
“میں بس اتنا بول رہی ہوں کہ تم اُسے معاف کر دو۔”
التمش بولا:
“نہیں! پتا نہیں کیا ہے اُسے۔ جب سے یہاں ایا ہو، میرے پیچھے پڑ گئی ہے۔ وہ ہر وقت میرے پاس آ کر بولتی ہے کہ مجھے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے!”
ملکہ بولی:
“میں تمہاری بات سمجھ رہی ہوں، لیکن تم اُس کے جذبات بھی تو سمجھو۔”
التمش بولا:
“آپ کیا چاہتی ہیں؟”
ملکہ بولی:
“میں بس چاہتی ہوں جب بھی وہ تمہارے پاس آئے، تم اُس سے اچھے سے بات کر لینا، غصہ مت کرنا۔”
التمش بولا:
“اُفف! اچھا ٹھیک ہے!”
ملکہ بولی:
“شکریہ تمہارا۔”
پھر ملکہ بستر سے اُٹھنے ہی لگی تھی کہ التمش فوراً بولا:
“ایک بات بتائیے، سچ بولیے گا۔”
ملکہ بولی:
“ہاں، بولو، میں سچ ہی بولتی ہوں۔”
التمش بولا:
“کیا مشال مجھے پسند کرنے لگی ہے؟ یہ بات سچ بتائیے مجھے۔”
ملکہ یہ سنتے ہی خاموش ہو گئی، اور دل میں مشال کی باتیں چلنے لگیں۔
ملکہ کو یاد آیا:
“ایک بات کا خیال رکھیے گا، میں التمش کو پسند کرتی ہوں، یہ بات آپ کے اور میرے سوا کسی کو معلوم نہ ہو، یہاں تک کہ التمش کو بھی نہیں… وعدہ کیجیے…”
ملکہ خیالات میں گم سی ہو گئی تھی۔
التمش اونچی آواز میں بولا:
“سنیے، ملکہ!”
ملکہ خیالوں سے نکلتے ہوئے بولی:
“ہاں ہاں، نہیں… وہ تمہیں پسند نہیں کرتی۔”
التمش اُسے دیکھتے ہوئے بولا:
“آپ کی زبان کچھ اور اور تاثرات کچھ اور بیان کر رہے ہیں۔”
ملکہ سنجیدگی سے بولی:
“میں سچ بولتی ہوں، ایسا کچھ نہیں جیسا تم سوچ رہے ہو۔ بس اُس کی عادت ہی ملنے جلنے والی ہے۔”
التمش نے اپنی بھنویں اُٹھائیں اور بولا:
“اچھا اچھا، عادت ہی ایسی ہے، ٹھیک ہے۔ شکریہ سچ بتانے کا۔ دراصل اُس کی ہر حرکت اِس چیز کا اشارہ دیتی تھی کہ وہ مجھے پسند کرنے لگی ہے، لیکن آپ نے بات واضح کر دی۔”
ملکہ بولی:
“چلیے، شکریہ۔ اب میں چلتی ہوں۔ یاد رکھنا، اُسے دُکھ مت دینا، وہ اچھی ہے۔”
التمش بولا:
“ہاں، میں سمجھ گیا۔”
پھر ملکہ اپنے کمرے میں چلی گئی،
اور التمش نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے سوچا:
“دونوں میرے پیچھے پڑ گئی ہیں!
ایک کہتی ہے اُس کو دُکھ نہ دینا،
دوسری کہتی ہے اُس کو دُکھ نہ دینا…
اب میں دُکھ دوں تو دوں کسے؟ اُفف!”
پھر وہ تھک کر بستر پر لیٹ گیا۔
دونوں لڑکے ابھی زرکا اور الیمارا کے کمرے میں تھے۔
سب چپچاپ بیٹھے تھے کہ زرکا فوراً بولی:
“مجھے باہر جانا ہے، میں نے دن کے وقت بازار کو کچھ غور سے نہیں دیکھا۔ چلو، ایلمارا!”
ایلمارا بولی:
“نہیں، میں نہیں جانا چاہتی، میری طبیعت تھوڑی خراب ہو رہی ہے۔”
آریب نے فوراً ایلمارا کو دیکھا اور بولا:
“کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے، مطلب کیا ہو رہا ہے طبیعت کو؟”
زرکا نے آریب کو تھوڑی حیرت سے دیکھا، اُس کا یہ ردِعمل اُسے تھوڑا مختلف لگا تھا۔
زرکا یہ دیکھتے ہوئے بولی:
“زرکا، طبیعت ٹھیک ہے نا؟”
افسان نے بھی یہ بات محسوس کی اور ذرا مسکرایا۔
زرکا نے اُسے مسکراتے ہوئے دیکھ لیا، پھر افسان نے زرکا کو دیکھ کر سر دروازے کی طرف کیا۔
زرکا بولی:
“کیا ہوا؟”
افسان بولا:
“باہر چلو، کچھ بات کرنی ہے، ہم دونوں باہر چلتے ہیں۔”
زرکا بولی:
“لیکن ایلمارا…”
ایلمارا بولی:
“میں ٹھیک ہوں، جاؤ تم۔”
آریب بولا:
“ہاں، تم دونوں جاؤ، میں ہوں نا ایلمارا کے پاس۔”
پھر وہ دونوں محل سے باہر بازار میں نکل گئے۔
دوسری طرف مشال کمرے کے چکر لگا رہی تھی، وہ بےحد بےچین تھی اور ملکہ کے آنے کا انتظار کر ہی رہی تھی کہ ملکہ کمرے میں آئی اور دروازہ بند کیا۔
مشال جلدی سے ملکہ کے پاس آئی اور بولی:
“کیا ہوا؟ جلدی بولو، اُس نے کیا کہا؟”
ملکہ بولی:
“ارے بتا رہی ہوں، چُھری کے نیچے سانس لو ذرا!”
مشال بہت پُرجوش تھی، بولی:
“جلدی بتاؤ نا!”
ملکہ بولی:
“ہاں بھائی، وہ مان گیا ہے!”
مشال نے چیخ ماری اور بولی:
“آہہہ! کیا سچ میں؟ مجھے یقین نہیں آ رہا! تھینک یو سو مچ! تم بہت اچھی ہو!”
ملکہ بولی:
“اچھا، اب تم خوش ہو؟”
مشال بولی:
“ہاں، بہت زیادہ!”
اچھا تو افسان تم مجھے اشارے کیوں کر رہے تھے؟
افسان سنجیدگی سے بولا:
“ہاں، بس کچھ بات کرنی تھی اور تمہیں بازار بھی دیکھنا تھا تو میں نے سوچا یہ مناسب وقت ہے۔”
زرکا بولی:
“اچھا، لیکن بات تو بتاؤ، آخر کیا بات کرنی ہے تمہیں؟”
افسان بولا:
“دراصل جب سے یہاں آئے ہیں کچھ خاص بات نہیں ہوتی، ہمیں بات کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔”
وہ دونوں ابھی بازار میں موجود ایک ہوٹل کے میز پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وہ ہوٹل کچھ خاص خوبصورت اور اچھا لگ رہا تھا۔
زرکا افسان کے جواب میں بولی:
“ہاں لیکن ہم پہلے بھی کچھ خاص بات نہیں کیا کرتے تھے، اور اب یہاں آ کر تو بات کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔”
افسان بولا:
“وہی تو، بس یہاں الجھ کے رہ گئے ہیں۔”
زرکا بولی:
“ہاں، صحیح بول رہے ہو، خیر اب کیا ہی کر سکتے ہیں، اُس ملکہ کی بات کے مطابق ہمیں صبر کرنا پڑے گا۔”
افسان اُس کی بات کاٹتے ہوئے بولا:
“ہاں، تبھی تو ہم اس جگہ سے نکل پائیں گے۔”
زرکا بولی:
“خیر یہ چھوڑو، بات بتاؤ جو بتانے لائے ہو۔”
افسان بولا:
“ہاں، بتاتا ہوں جلدی، کس بات کی، پہلے کچھ آرڈر کر لیں۔”
زرکا بولی:
“ہاں، کر لو، مجھے بھوک لگ رہی ہے۔”
افسان مذاق میں بولا:
“دیکھو ایک بات کان کھول کر سن لو!”
زرکا تھوڑی حیران ہو کر بولی:
“کیا بات؟”
افسان بولا:
“میرے ہوتے ہوئے کھانے کی قیمت تم ادا نہیں کرو گی، سمجھی؟”
زرکا ہنسنے لگی، افسان بھی مذاق میں بولا:
“بس اب ضد مت کرنا۔”
زرکا اُسے دیکھ کر بولنے لگی:
“ایسا ہی ہے تو یہ قیمت میں ہی ادا کروں گی۔”
افسان بولا:
“کش ہمارے ملک میں بھی ایسے ہی، پیسوں کی ضرورت کے بغیر سب ملتا ہوتا۔”
زرکا بولی:
“تکے سب نکمے اور نکّارے ہو جاتے ، ایسی چیزوں کا لوگ کس حد تک فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، تم سوچ بھی نہیں سکتے۔”
افسان نے اپنی دونوں ابروئیں اُٹھائیں اور بولا:
“ہاں، صحیح کہا! خیر بات بتاتا ہوں۔”
زرکا نے ہاں میں سر ہلایا اور بولی:
“جلدی بتاؤ!”
دوسری طرف آریب، ایلمارا کے پاس بستر پر بیٹھا اُسے بس دیکھ رہا تھا۔
ایلمارا بھی اُسے دیکھ رہی تھی کہ وہ بولی:
“کیا ہے؟ کب سے گھورے جا رہے ہو؟”
آریب تھوڑے غصے میں بولا:
“اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی؟ کھانا وقت پر کیوں نہیں کھاتی؟ مجھے لگتا ہے وقت پر سوتی بھی نہیں ہوگی!”
یہ سنتے ساتھ ایلمارا کے ماتھے پر شکنیں آئیں، پھر بولی:
“تو آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ میری مرضی میں جو بھی کروں!”
آریب سنجیدگی سے بولا:
“چُپ رہو، آخر تمہیں یہاں کچھ ہو گیا تو میرے سِوا تمہارا خیال کون رکھے گا؟ سوچا ہے کبھی؟”
ایلمارا نے آریب کو دیکھ کر بیزار منہ بنایا اور بولی:
“او ہو! سو فنی! آپ کیا سمجھتے ہیں اپنے آپ کو؟ کہ آپ کے سِوا میرا یہاں کوئی نہیں؟ بلکہ آپ کون ہیں میرے؟ یہ بتائیں پہلے!”
آریب تھوڑی نرمی سے بولا:
“میری بات سمجھنے کی کوشش کرو ایلمارا، تم سمجھ نہیں رہیں۔ دیکھو، اپنا خیال رکھا کرو۔ میری بات کا یہ مطلب ہے کہ یہاں تمہاری کوئی فیملی نہیں ہے یا کوئی اور جو تمہاری پروا کرے۔ اُمید کرتا ہوں تم میری باتیں سمجھ رہی ہو۔”
ایلمارا اُسے دیکھتے ہوئے بولی:
“ہم… نہیں، میں نہیں سمجھ رہی! اور مجھ سے کوئی اُمید بھی مت کرو، میں خود کو سنبھال سکتی ہوں! تم جاؤ یہاں سے!”
آریب بولا:
“دیکھو، یہ پتہ نہیں کیسی دنیا ہے…”
ایلمارا نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے بیچینی سے بولی:
“کیا تمہیں بھی یقین ہے نا کہ یہ جنّاتوں کی دنیا ہے؟ مجھے پتہ ہی تھا تمہیں بھی یقین آ ہی جائے گا، اور یہی سچ ہے!”
آریب اُسے دیکھ کر حیران ہوا، دل میں سوچا:
یہ اس بارے میں کتنا ہی سوچتی ہے، اور کتنا پُرجوش ہے!”
پھر وہ بولا:
“پتہ نہیں، لیکن حالات ایسے ہی ہیں کہ ملکہ کی بات پر ہی یقین کرنے میں بھلائی ہے ہماری۔”
ایلمارا افسردہ ہو کر بولی:
“مطلب صرف مجھے ہی اس بات پر یقین ہے… لگتا ہے کوئی اس بات پر یقین نہیں رکھتا،
آریب جو ایلمارا کو اُداس نہیں دیکھ سکتا تھا، بولا:
“اچھا نا ایلمارا، مجھے بھی یقین ہے اس بات پر۔ تمہاری طرح میں بھی یہی سوچتا ہوں۔”
ایلمارا حیران ہو کر بولی:
“کیا سچ میں؟ بس تم ہی میری سوچ کو سمجھ سکتے ہو!”
پھر ایلمارا اُس کے قریب آ کر بولی:
“ویسے تم اتنے بھی بیوقوف نہیں ہو!”
اُس کے اس ردِعمل سے آریب حیران ہوا اور بولا:
“نہیں جی، میں بیوقوف نہیں ہوں!”
اور پیچھے ہٹ گیا۔
پھر دل میں سوچا:
“پاس آ کر اِس نے بات کی بھی تو کیسی فُضول بات کی، کچھ اچھا نہیں بول سکتی تھی کیا؟”
پھر بولا:
“اچھا سُنو، کیا تمہیں کچھ کھانا ہے یا میڈیسن لا دو؟”
ایلمارا بولی:
“تمہیں کیا لگتا ہے؟ یہاں میڈیسن ملتی ہوگی؟”
آریب بولا:
“پتہ نہیں، لیکن میں پتہ کروا لوں گا، اس بات کی فکر نہ کرو۔ بس بتاؤ لا دو؟
ایلمارا بولی:
“نہیں، اب اچھا محسوس کر رہی ہوں تم سے بات کر کے۔”
آریب حیرانی سے بولا:
“کیا سچ میں؟”
ایلمارا بولی:
“ہاں نا، سچ بات ہے۔ خیر اب تم جا سکتے ہو اگر جانا چاہو تو۔”
آریب بولا:
“نہیں، مجھے نہیں جانا۔ ویسے بھی اتنے دن بعد بات کرنے کا وقت ملا۔”
ایلمارا بولی:
“ہاں، یہ تو ہے۔”
پھر وہ باتوں میں مصروف ہو گئے۔
اب کھانا آ چکا تھا اور وہ دونوں کھانا کھاتے ہوئے بات کر رہے تھے۔
افسان بولا:
“دیکھو، میں نے کئی بار یہ محسوس کیا ہے کہ آریب ایلمارا سے پیار کرتا ہے۔”
زرکا بات کو سمجھتے ہوئے سر ہلانے لگی اور بولی:
“ہاں، میں نے بھی محسوس کیا تھا، اور آج اُس کا ایلمارا کے لیے پریشان ہونا… اب تو مجھے یقین ہو گیا ہے۔”
افسان بولا:
“وہی تو! دیکھو، آج بھی بلکہ کئی بار ایسا ہی ہوا۔ اور وہ باتوں میں بھی ایلمارا کا بہت ذکر کرتا ہے۔”
زرکا بولی:
“اچھا، لیکن ایلمارا نے کبھی اُس کا کچھ خاص ذکر نہیں کیا۔”
افسان بولا:
“ہاں، کیا پتا ایلمارا اُسے پسند نہ کرتی ہو، بس آریب ہی اُس کے پیچھے پاگل ہو۔”
زرکا بولی، پھر تھوڑا اُلجھ کر کہنے لگی:
“نہیں… ویسے اُس کی بات نہیں کرتی، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے وہ بھی اُسے تھوڑا تھوڑا پسند کرتی ہے۔”
افسان بولا:
“اچھا؟ شاید ایسا ہی ہو۔ تم اُس سے پوچھتی کیوں نہیں؟”
زرکا اُسے دیکھتے ہوئے بولی:
“مجھے تو بس شک ہے کہ وہ اُسے پسند کرتی ہے، تمہیں تو یقین ہے نا؟ تم اُس سے کیوں نہیں پوچھتے؟”
افسان بولا:
“ہاں، یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ خیر، پوچھوں گا۔”
زرکا بولی:
“اچھا، اب بس ہو گئی میری، میرا پیٹ بھر گیا۔”
افسان بولا:
“ہاں، میرا بھی۔”
زرکا بولی:
“چلو واپس چلیں، مجھے ایلمارا کی فکر ہو رہی ہے، کہیں زیادہ طبیعت خراب نہ ہو جائے۔”
پھر افسان اُٹھتے ہوئے بولا:
“چلو، اُنہیں زیادہ دیر اکیلا بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔”
زرکا بولی:
“توبہ ہے!”
پھر وہ دونوں محل کی طرف روانہ ہو گئے۔
زرکا اور افسان محل جا ہی رہے تھے کہ راستے میں اُنہیں بہت خوبصورت سی دکانیں نظر آئیں جو شاید نئی بنی تھیں، کیونکہ پہلے بازار میں یہ دکانیں نظر نہیں آئی تھیں۔
افسان سب دکانیں دیکھتے ہوئے بولا:
“دیکھو تو ذرا، نئی دکانیں بن گئی ہیں!”
زرکا حیرانی سے بولی:
“یار، کل ہی تو باہر آئے تھے، اتنی جلدی یہاں دکانیں بن گئیں؟”
افسان کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی، وہ پُرسکون انداز میں بولا:
“ہاں یار، لیکن…” پھر وہ رک گیا۔
زرکا نے اُسے دیکھ کر کہا:
“اُف، حد ہے! تمہیں بھی اب یقین ہے نا کہ یہ جنّاتوں کی دنیا ہے؟”
افسان نے بھی اُسے دیکھ کر کہا:
“ہاں، سب ہی یقین کرتے ہیں۔ ملکہ کی بات پر تو یہی حقیقت ہوگی۔”
زرکا ایک قہقہہ لگا کر ہنسی اور بولی:
“تم سے اس بے وقوفی کی اُمید نہیں تھی!”
افسان سنجیدگی سے بولا:
“خیر، اس بات کو یہی ختم کرتے ہیں۔”
وہ ایسے بولا جیسے ان باتوں سے اب تنگ آ گیا ہو۔
زرکا بھی سنجیدگی سے بولی:
“ٹھیک ہے، تمہاری مرضی۔”
وہ آہستہ آہستہ چل کر باتیں کر رہے تھے کہ زرکا کو ایک دکان نظر آئی جو ظاہری طور پر کچھ خاص نہیں لگ رہی تھی،
لیکن دکان میں ایک شیشے کے شوکیس میں رکھے پتھر بہت قیمتی اور دلکش لگ رہے تھے۔
دوسری طرف مشال اور ملکہ کمرے میں اپنے اپنے بستر پر لیٹی تھیں۔
کمرے میں مدھم سی روشنی چل رہی تھی۔
ملکہ نے کالے رنگ کا ایک سادہ سا لمبا فراک پہنا تھا اور اپنے لمبے، گھنے، کالے بالوں میں چوٹی کی ہوئی تھی۔
وہ روزانہ اسی لباس میں سویا کرتی تھی۔
وہ سیدھی لیٹی تھی، آنکھیں جھپک تک نہیں رہیں تھیں — آنکھیں کھلی تھیں جیسے کچھ سوچ رہی ہو۔
مشال اپنے بستر پر ملکہ کی طرف کروٹ لے کر لیٹی تھی۔
وہ اُسی کو دیکھ رہی تھی۔
اُس نے سفید رنگ کا لمبا فراک پہنا ہوا تھا اور بال کھلے چھوڑ رکھے تھے — بال کھلے چھوڑنا اُس کی عادت تھی۔
ملکہ اپنی سوچوں میں گم تھی اور مشال اُسے دیکھ رہی تھی کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔
ملکہ کے دل میں کچھ باتیں کافی دنوں سے گُم تھیں —
“آخر سب کیسے ہوگا؟ میں تو اکیلی ہوں، یہ سب کیسے کروں گی؟ کیا میں اپنے بھائی کے خلاف لڑ پاؤں گی؟”
وہ اپنے اندر اُلجھ سی گئی تھی۔
پھر اُس نے سوچا،
“آخر میں اپنے بھائی سے لڑ ہی تو رہی ہوں، بے شک وہ اپنے لوگوں کے لیے ہو یا اِن انسانوں کے لیے…”
وہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ سوچتے سوچتے اُس نے مشال کی طرف کروٹ لی،
تو دیکھا کہ مشال اُسی کو دیکھ رہی ہے۔
یہ دیکھ کر وہ تھوڑی چونکی اور بولی:
“مشال، کیا کر رہی ہو؟ آخر کب سے مجھے دیکھ رہی ہو؟ سوئی کیوں نہیں ابھی تک؟”
مشال بھی چونکی اور بولی:
“کب سے نہیں، کچھ دیر پہلے سے۔ میں دیکھ رہی تھی آپ کیا سوچ رہی ہیں۔”
ملکہ نے اُسے جانچتی نگاہوں سے دیکھا اور بولی:
“اچھا، ایسی بات ہے؟ لیکن مجھے تو لگ رہا ہے تم کچھ اور سوچ رہی ہو۔”
مشال نے سوالیہ انداز میں کہا:
“کیا؟ آخر آپ کو کیا لگا کہ میں کیا سوچ رہی ہوں؟”
ملکہ سیدھی ہوئی، پھر بولی:
“یہی کہ تمہاری اور التمش کی شادی کیسے ہوگی، کیونکہ وہ اب مان گیا ہے نا۔”
مشال شرمائی، لیکن اُس نے یہ ظاہر نہیں کیا اور سنجیدگی سے بولی:
“نہیں، ایسا کچھ نہیں ہے۔ آخر اتنا جلدی یہ سب کیسے ہوگا؟”
ملکہ مذاق میں بولی:
“سب جانتی ہوں، دل ہی دل میں لڈو پھوٹ رہے ہیں تمہارے، کیا صحیح کہا نا میں نے؟”
مشال نے تھوڑا سا ہنس کر کہا:
“ہاں، ایسا تو نہیں ہے۔ ابھی تک تو ہم یہاں سے باہر تک بھی نہیں نکل پائے، تو شادی کیسے کریں گے؟”
ملکہ اُسے چھیڑتے ہوئے بولی:
“ہاں، بس یہاں سے نکلنے کی دیر ہے، نکلتے ساتھ ہی تم نے نکاح کر لینا ہے!”
مشال حیران ہو کر بولی:
“حد ہے! اتنی بھی جلدی نہیں مجھے۔”
ملکہ اب تھوڑی سختی سے بولی:
“اچھا چلو، شاباش، سو جاؤ اب۔ آنکھیں بند کرو، چلو شاباش!”
مشال بھی اب سیدھی لیٹ گئی اور اُس نے آنکھیں بند کر کے کہا:
“آپ بھی سو جائیں، میڈم جی!”
ملکہ نے اونچی اور سخت آواز میں کہا:
“ہاں؟ کیا بولا تم نے؟ سُنائی دیا!”
مشال بولی:
“کچھ نہیں!”
اور تھوڑا سا ہنسی۔
دل ہی دل میں التمش کو سوچنے لگی
اور دونوں اب سو گئیں۔
دوسری طرف آریب ایلمارا کے بستر سے اٹھا، اور باہر جانے کے لیے پورا ایک قدم بڑھا ہی تھا کہ ایلمارا نے اُسے آواز دی:
“رکو!”
وہ فوراً رکا، مگر پیچھے مُڑ کر ایلمارا کو نہیں دیکھا۔
ایلمارا فوراً اپنے بستر سے اُٹھی، جیسے کوئی بہت ضروری بات کرنے جا رہی ہو۔
وہ تقریباً دوڑتی ہوئی آریب کے سامنے آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بغیر رکے بولنے لگی:
“سنو! میں نے تو تم سے ایک ضروری بات کرنا بھول ہی گئی تھی! آخر میں کیسے… یہ کیسے بول سکتی ہوں!”
اور اُس نے زور سے اپنا ہاتھ اٹھا کر اپنے سر پر مارنے کی کوشش کی
آریب نے فوراً اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور حیرانی سے بولا:
“آخر تم کیا کر رہی ہو؟ تمہاری طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں ہے، اور تم یہ کیا کر رہی ہو اپنے ساتھ؟”
اُس کی پریشانی چہرے پر صاف ظاہر تھی۔
ایلمارا نے بھی یہ محسوس کیا اور آہستہ سے بولی:
“ہاں… لیکن میں بتانا بھول گئی تھی…”
آریب نے اُسے آہستہ سے ہاتھ سے پکڑ کر واپس بستر پر بیٹھا دیا اور بولا:
“تو اب بتا دو۔ آخر میں کہیں بھاگ تو نہیں رہا۔”
ایلمارا بھی آہستہ سے بیٹھ گئی اور بولی:
“ہاں… یہ تو بھول ہی گئی تھی… پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے…”
اسی لمحے اُس نے محسوس کیا کہ آریب نے اب تک اُس کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے۔
آریب نے بھی یہ محسوس کیا، فوراً ہاتھ چھوڑا اور تھوڑا جھجکتے ہوئے بولا:
“ہاں… تم وہ بات بتاؤ۔”
ایلمارا نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا:
“ہاں… وہ بات یہ ہے کہ… مجھے لگتا ہے زرکا افسان کو پسند کرتی ہے۔”
آریب ایک دم حیران ہوا۔
اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں:
“کیا؟ ایسی بات ہے؟”
ایلمارا مسلسل اُسے دیکھتی ہوئی بولی:
“تم اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو؟”
آریب نے اُسے دیکھ کر کہا:
“کیونکہ… مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔”
ایلمارا نے ہلکے سے کہا:
“حد ہے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ ہر بات کا علم تمہیں ہی ہو۔”
آریب نے سر جھکا کر جیسے مانتے ہوئے کہا:
“ہاں… یہ بات بھی ہے۔ تمہیں زیادہ پتہ ہوگا، آخر تم زرکا کے ساتھ رہتی ہو۔”
ایلمارا بولی:
“ہاں، لیکن وہ بات چھوڑو۔ تم یہ بتاؤ کہ تمہیں لگتا ہے کہ افسان بھی زرکا کو پسند کرتا ہے؟”
آریب نے سوچا
اُس کے ذہن میں کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں آیا جس سے اُسے ایسا محسوس ہوا ہو۔
“نہیں یار… مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔”
ایلمارا بولی:
“لیکن مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔”
آریب سوچتے ہوئے بولا:
“ایسا کیوں لگتا ہے تمہیں؟”
ایلمارا فوراً بولی:
“دیکھا نہیں تھا تم نے؟ وہ دونوں باہر بھی اکیلے گئے تھے، اور یونیورسٹی میں بھی وہ کینٹین میں ایک ساتھ جایا کرتے تھے۔”
آریب نے بیزاری سے منہ بنایا:
“اوہ چھوڑو بھی۔ خیر یہ چیز کیسے طے کرتی ہے کہ کوئی کسی کو پسند کرتا ہے؟”
وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
ایلمارا نے اُسے جانچتی نظروں سے دیکھا اور بولی:
“آگے بولو۔ رکے کیوں؟”
آریب تھوڑا جھجکا اور بولا:
“کچھ نہیں… بس… ایسی کوئی خاص بات نہیں۔ چھوڑو۔”
ایلمارا بولی:
“آہہ! خیر بول بھی دو، کیوں چھپا رہے ہو؟”
آریب نے فوراً کہا:
“یوں تو ہم بھی ساتھ کینٹین جاتے تھے، ہمیشہ ساتھ رہتے تھے۔
تو اگر کوئی کہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے… تو کیا یہ سچ ہے؟”
وہ پوچھ تو رہا تھا،
لیکن انداز ایسا تھا جیسے وہ جاننا چاہتا ہو۔
ایلمارا نے اُسے غور سے دیکھا اور بولی:
“نہیں… ایسا نہیں ہے۔ ہم بھلا ایک دوسرے کو کیوں پسند کرتے ہوں گے؟ ہم تو بس یونہی جاتے تھے۔”
آریب بولا:
“ہاں… تو وہ بھی یونہی جاتے ہوں گے۔”
پھر وہ فوراً اُٹھا — اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
ایلمارا نے اُسے روکنے کی کوشش کی، مگر وہ جیسے اُس کے سوال میں اُلجھ کر رہ گئی تھی۔
پھر اُس نے گہرا سانس لیا اور سوچا:
“ویسے… وہ ٹھیک ہی بول رہا ہے…”
اور واپس بستر پر لیٹ گئی۔
آریب ابھی بھی ایلمارا کے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا تھا۔
اُس نے سوچا:
“آخر اُسے میری محبت کا احساس تو ہوتا نہیں…
آئی بڑی دوسروں کی محبتیں پہچاننے والی…”
اُس نے بیزاری سے چہرہ موڑا، جیسے وہ غصے میں ہو
اور وہ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
جاتے ہی اُس نے التمش کو دیکھا
وہ جوں کا توں بستر پر لیٹا تھا، ملکہ کے جانے کے بعد سے اسی طرح۔
آریب نے اُسے دیکھا، نفی میں سر ہلایا، اور جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔
اور خیالات میں گم ہو گیا۔
التمش نے بس اپنا سر تھوڑا سا اُٹھا کر آریب کو دیکھا،
پھر دوبارہ اُسی حالت میں چلا گیا۔
دونوں ایسے لیٹے جیسے بہت تھک چکے ہوں
بہت زیادہ۔
دوسری طرف آریب ایلمارا کے بستر سے اٹھا، اور باہر جانے کے لیے پورا ایک قدم بڑھا ہی تھا کہ ایلمارا نے اُسے آواز دی:
“رکو!”
وہ فوراً رکا، مگر پیچھے مُڑ کر ایلمارا کو نہیں دیکھا۔
ایلمارا فوراً اپنے بستر سے اُٹھی، جیسے کوئی بہت ضروری بات کرنے جا رہی ہو۔
وہ تقریباً دوڑتی ہوئی آریب کے سامنے آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بغیر رکے بولنے لگی:
“سنو! میں نے تو تم سے ایک ضروری بات کرنا بھول ہی گئی تھی! آخر میں کیسے… یہ کیسے بول سکتی ہوں!”
اور اُس نے زور سے اپنا ہاتھ اٹھا کر اپنے سر پر مارنے کی کوشش کی
آریب نے فوراً اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور حیرانی سے بولا:
“آخر تم کیا کر رہی ہو؟ تمہاری طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں ہے، اور تم یہ کیا کر رہی ہو اپنے ساتھ؟”
اُس کی پریشانی چہرے پر صاف ظاہر تھی۔
ایلمارا نے بھی یہ محسوس کیا اور آہستہ سے بولی:
“ہاں… لیکن میں بتانا بھول گئی تھی…”
آریب نے اُسے آہستہ سے ہاتھ سے پکڑ کر واپس بستر پر بیٹھا دیا اور بولا:
“تو اب بتا دو۔ آخر میں کہیں بھاگ تو نہیں رہا۔”
ایلمارا بھی آہستہ سے بیٹھ گئی اور بولی:
“ہاں… یہ تو بھول ہی گئی تھی… پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے…”
اسی لمحے اُس نے محسوس کیا کہ آریب نے اب تک اُس کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے۔
آریب نے بھی یہ محسوس کیا، فوراً ہاتھ چھوڑا اور تھوڑا جھجکتے ہوئے بولا:
“ہاں… تم وہ بات بتاؤ۔”
ایلمارا نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا:
“ہاں… وہ بات یہ ہے کہ… مجھے لگتا ہے زرکا افسان کو پسند کرتی ہے۔”
آریب ایک دم حیران ہوا۔
اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں:
“کیا؟ ایسی بات ہے؟”
ایلمارا مسلسل اُسے دیکھتی ہوئی بولی:
“تم اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو؟”
آریب نے اُسے دیکھ کر کہا:
“کیونکہ… مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔”
ایلمارا نے ہلکے سے کہا:
“حد ہے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ ہر بات کا علم تمہیں ہی ہو۔”
آریب نے سر جھکا کر جیسے مانتے ہوئے کہا:
“ہاں… یہ بات بھی ہے۔ تمہیں زیادہ پتہ ہوگا، آخر تم زرکا کے ساتھ رہتی ہو۔”
ایلمارا بولی:
“ہاں، لیکن وہ بات چھوڑو۔ تم یہ بتاؤ کہ تمہیں لگتا ہے کہ افسان بھی زرکا کو پسند کرتا ہے؟”
آریب نے سوچا
اُس کے ذہن میں کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں آیا جس سے اُسے ایسا محسوس ہوا ہو۔
“نہیں یار… مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔”
ایلمارا بولی:
“لیکن مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔”
آریب سوچتے ہوئے بولا:
“ایسا کیوں لگتا ہے تمہیں؟”
ایلمارا فوراً بولی:
“دیکھا نہیں تھا تم نے؟ وہ دونوں باہر بھی اکیلے گئے تھے، اور یونیورسٹی میں بھی وہ کینٹین میں ایک ساتھ جایا کرتے تھے۔”
آریب نے بیزاری سے منہ بنایا:
“اوہ چھوڑو بھی۔ خیر یہ چیز کیسے طے کرتی ہے کہ کوئی کسی کو پسند کرتا ہے؟”
وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
ایلمارا نے اُسے جانچتی نظروں سے دیکھا اور بولی:
“آگے بولو۔ رکے کیوں؟”
آریب تھوڑا جھجکا اور بولا:
“کچھ نہیں… بس… ایسی کوئی خاص بات نہیں۔ چھوڑو۔”
ایلمارا بولی:
“آہہ! خیر بول بھی دو، کیوں چھپا رہے ہو؟”
آریب نے فوراً کہا:
“یوں تو ہم بھی ساتھ کینٹین جاتے تھے، ہمیشہ ساتھ رہتے تھے۔
تو اگر کوئی کہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے… تو کیا یہ سچ ہے؟”
وہ پوچھ تو رہا تھا،
لیکن انداز ایسا تھا جیسے وہ جاننا چاہتا ہو۔
ایلمارا نے اُسے غور سے دیکھا اور بولی:
“نہیں… ایسا نہیں ہے۔ ہم بھلا ایک دوسرے کو کیوں پسند کرتے ہوں گے؟ ہم تو بس یونہی جاتے تھے۔”
آریب بولا:
“ہاں… تو وہ بھی یونہی جاتے ہوں گے۔”
پھر وہ فوراً اُٹھا — اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
ایلمارا نے اُسے روکنے کی کوشش کی، مگر وہ جیسے اُس کے سوال میں اُلجھ کر رہ گئی تھی۔
پھر اُس نے گہرا سانس لیا اور سوچا:
“ویسے… وہ ٹھیک ہی بول رہا ہے…”
اور واپس بستر پر لیٹ گئی۔
آریب ابھی بھی ایلمارا کے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا تھا۔
اُس نے سوچا:
“آخر اُسے میری محبت کا احساس تو ہوتا نہیں…
آئی بڑی دوسروں کی محبتیں پہچاننے والی…”
اُس نے بیزاری سے چہرہ موڑا، جیسے وہ غصے میں ہو
اور وہ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
جاتے ہی اُس نے التمش کو دیکھا
وہ جوں کا توں بستر پر لیٹا تھا، ملکہ کے جانے کے بعد سے اسی طرح۔
آریب نے اُسے دیکھا، نفی میں سر ہلایا، اور جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔
اور خیالات میں گم ہو گیا۔
التمش نے بس اپنا سر تھوڑا سا اُٹھا کر آریب کو دیکھا،
پھر دوبارہ اُسی حالت میں چلا گیا۔
دونوں ایسے لیٹے جیسے بہت تھک چکے ہوں
بہت زیادہ۔
دوسری طرف آریب ایلمارا کے بستر سے اٹھا، اور باہر جانے کے لیے پورا ایک قدم بڑھا ہی تھا کہ ایلمارا نے اُسے آواز دی:
“رکو!”
وہ فوراً رکا، مگر پیچھے مُڑ کر ایلمارا کو نہیں دیکھا۔
ایلمارا فوراً اپنے بستر سے اُٹھی، جیسے کوئی بہت ضروری بات کرنے جا رہی ہو۔
وہ تقریباً دوڑتی ہوئی آریب کے سامنے آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بغیر رکے بولنے لگی:
“سنو! میں نے تو تم سے ایک ضروری بات کرنا بھول ہی گئی تھی! آخر میں کیسے… یہ کیسے بول سکتی ہوں!”
اور اُس نے زور سے اپنا ہاتھ اٹھا کر اپنے سر پر مارنے کی کوشش کی
آریب نے فوراً اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور حیرانی سے بولا:
“آخر تم کیا کر رہی ہو؟ تمہاری طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں ہے، اور تم یہ کیا کر رہی ہو اپنے ساتھ؟”
اُس کی پریشانی چہرے پر صاف ظاہر تھی۔
ایلمارا نے بھی یہ محسوس کیا اور آہستہ سے بولی:
“ہاں… لیکن میں بتانا بھول گئی تھی…”
آریب نے اُسے آہستہ سے ہاتھ سے پکڑ کر واپس بستر پر بیٹھا دیا اور بولا:
“تو اب بتا دو۔ آخر میں کہیں بھاگ تو نہیں رہا۔”
ایلمارا بھی آہستہ سے بیٹھ گئی اور بولی:
“ہاں… یہ تو بھول ہی گئی تھی… پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے…”
اسی لمحے اُس نے محسوس کیا کہ آریب نے اب تک اُس کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے۔
آریب نے بھی یہ محسوس کیا، فوراً ہاتھ چھوڑا اور تھوڑا جھجکتے ہوئے بولا:
“ہاں… تم وہ بات بتاؤ۔”
ایلمارا نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا:
“ہاں… وہ بات یہ ہے کہ… مجھے لگتا ہے زرکا افسان کو پسند کرتی ہے۔”
آریب ایک دم حیران ہوا۔
اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں:
“کیا؟ ایسی بات ہے؟”
ایلمارا مسلسل اُسے دیکھتی ہوئی بولی:
“تم اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو؟”
آریب نے اُسے دیکھ کر کہا:
“کیونکہ… مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔”
ایلمارا نے ہلکے سے کہا:
“حد ہے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ ہر بات کا علم تمہیں ہی ہو۔”
آریب نے سر جھکا کر جیسے مانتے ہوئے کہا:
“ہاں… یہ بات بھی ہے۔ تمہیں زیادہ پتہ ہوگا، آخر تم زرکا کے ساتھ رہتی ہو۔”
ایلمارا بولی:
“ہاں، لیکن وہ بات چھوڑو۔ تم یہ بتاؤ کہ تمہیں لگتا ہے کہ افسان بھی زرکا کو پسند کرتا ہے؟”
آریب نے سوچا
اُس کے ذہن میں کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں آیا جس سے اُسے ایسا محسوس ہوا ہو۔
“نہیں یار… مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔”
ایلمارا بولی:
“لیکن مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔”
آریب سوچتے ہوئے بولا:
“ایسا کیوں لگتا ہے تمہیں؟”
ایلمارا فوراً بولی:
“دیکھا نہیں تھا تم نے؟ وہ دونوں باہر بھی اکیلے گئے تھے، اور یونیورسٹی میں بھی وہ کینٹین میں ایک ساتھ جایا کرتے تھے۔”
آریب نے بیزاری سے منہ بنایا:
“اوہ چھوڑو بھی۔ خیر یہ چیز کیسے طے کرتی ہے کہ کوئی کسی کو پسند کرتا ہے؟”
وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
ایلمارا نے اُسے جانچتی نظروں سے دیکھا اور بولی:
“آگے بولو۔ رکے کیوں؟”
آریب تھوڑا جھجکا اور بولا:
“کچھ نہیں… بس… ایسی کوئی خاص بات نہیں۔ چھوڑو۔”
ایلمارا بولی:
“آہہ! خیر بول بھی دو، کیوں چھپا رہے ہو؟”
آریب نے فوراً کہا:
“یوں تو ہم بھی ساتھ کینٹین جاتے تھے، ہمیشہ ساتھ رہتے تھے۔
تو اگر کوئی کہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے… تو کیا یہ سچ ہے؟”
وہ پوچھ تو رہا تھا،
لیکن انداز ایسا تھا جیسے وہ جاننا چاہتا ہو۔
ایلمارا نے اُسے غور سے دیکھا اور بولی:
“نہیں… ایسا نہیں ہے۔ ہم بھلا ایک دوسرے کو کیوں پسند کرتے ہوں گے؟ ہم تو بس یونہی جاتے تھے۔”
آریب بولا:
“ہاں… تو وہ بھی یونہی جاتے ہوں گے۔”
پھر وہ فوراً اُٹھا — اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
ایلمارا نے اُسے روکنے کی کوشش کی، مگر وہ جیسے اُس کے سوال میں اُلجھ کر رہ گئی تھی۔
پھر اُس نے گہرا سانس لیا اور سوچا:
“ویسے… وہ ٹھیک ہی بول رہا ہے…”
اور واپس بستر پر لیٹ گئی۔
آریب ابھی بھی ایلمارا کے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا تھا۔
اُس نے سوچا:
“آخر اُسے میری محبت کا احساس تو ہوتا نہیں…
آئی بڑی دوسروں کی محبتیں پہچاننے والی…”
اُس نے بیزاری سے چہرہ موڑا، جیسے وہ غصے میں ہو
اور وہ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
جاتے ہی اُس نے التمش کو دیکھا
وہ جوں کا توں بستر پر لیٹا تھا، ملکہ کے جانے کے بعد سے اسی طرح۔
آریب نے اُسے دیکھا، نفی میں سر ہلایا، اور جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔
اور خیالات میں گم ہو گیا۔
التمش نے بس اپنا سر تھوڑا سا اُٹھا کر آریب کو دیکھا،
پھر دوبارہ اُسی حالت میں چلا گیا۔
دونوں ایسے لیٹے جیسے بہت تھک چکے ہوں
بہت زیادہ۔
v
دوسری طرف آریب ایلمارا کے بستر سے اٹھا، اور باہر جانے کے لیے پورا ایک قدم بڑھا ہی تھا کہ ایلمارا نے اُسے آواز دی:
“رکو!”
وہ فوراً رکا، مگر پیچھے مُڑ کر ایلمارا کو نہیں دیکھا۔
ایلمارا فوراً اپنے بستر سے اُٹھی، جیسے کوئی بہت ضروری بات کرنے جا رہی ہو۔
وہ تقریباً دوڑتی ہوئی آریب کے سامنے آئی اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بغیر رکے بولنے لگی:
“سنو! میں نے تو تم سے ایک ضروری بات کرنا بھول ہی گئی تھی! آخر میں کیسے… یہ کیسے بول سکتی ہوں!”
اور اُس نے زور سے اپنا ہاتھ اٹھا کر اپنے سر پر مارنے کی کوشش کی
آریب نے فوراً اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور حیرانی سے بولا:
“آخر تم کیا کر رہی ہو؟ تمہاری طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں ہے، اور تم یہ کیا کر رہی ہو اپنے ساتھ؟”
اُس کی پریشانی چہرے پر صاف ظاہر تھی۔
ایلمارا نے بھی یہ محسوس کیا اور آہستہ سے بولی:
“ہاں… لیکن میں بتانا بھول گئی تھی…”
آریب نے اُسے آہستہ سے ہاتھ سے پکڑ کر واپس بستر پر بیٹھا دیا اور بولا:
“تو اب بتا دو۔ آخر میں کہیں بھاگ تو نہیں رہا۔”
ایلمارا بھی آہستہ سے بیٹھ گئی اور بولی:
“ہاں… یہ تو بھول ہی گئی تھی… پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے…”
اسی لمحے اُس نے محسوس کیا کہ آریب نے اب تک اُس کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے۔
آریب نے بھی یہ محسوس کیا، فوراً ہاتھ چھوڑا اور تھوڑا جھجکتے ہوئے بولا:
“ہاں… تم وہ بات بتاؤ۔”
ایلمارا نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا:
“ہاں… وہ بات یہ ہے کہ… مجھے لگتا ہے زرکا افسان کو پسند کرتی ہے۔”
آریب ایک دم حیران ہوا۔
اُس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں:
“کیا؟ ایسی بات ہے؟”
ایلمارا مسلسل اُسے دیکھتی ہوئی بولی:
“تم اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو؟”
آریب نے اُسے دیکھ کر کہا:
“کیونکہ… مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔”
ایلمارا نے ہلکے سے کہا:
“حد ہے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ ہر بات کا علم تمہیں ہی ہو۔”
آریب نے سر جھکا کر جیسے مانتے ہوئے کہا:
“ہاں… یہ بات بھی ہے۔ تمہیں زیادہ پتہ ہوگا، آخر تم زرکا کے ساتھ رہتی ہو۔”
ایلمارا بولی:
“ہاں، لیکن وہ بات چھوڑو۔ تم یہ بتاؤ کہ تمہیں لگتا ہے کہ افسان بھی زرکا کو پسند کرتا ہے؟”
آریب نے سوچا
اُس کے ذہن میں کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں آیا جس سے اُسے ایسا محسوس ہوا ہو۔
“نہیں یار… مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔”
ایلمارا بولی:
“لیکن مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔”
آریب سوچتے ہوئے بولا:
“ایسا کیوں لگتا ہے تمہیں؟”
ایلمارا فوراً بولی:
“دیکھا نہیں تھا تم نے؟ وہ دونوں باہر بھی اکیلے گئے تھے، اور یونیورسٹی میں بھی وہ کینٹین میں ایک ساتھ جایا کرتے تھے۔”
آریب نے بیزاری سے منہ بنایا:
“اوہ چھوڑو بھی۔ خیر یہ چیز کیسے طے کرتی ہے کہ کوئی کسی کو پسند کرتا ہے؟”
وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
ایلمارا نے اُسے جانچتی نظروں سے دیکھا اور بولی:
“آگے بولو۔ رکے کیوں؟”
آریب تھوڑا جھجکا اور بولا:
“کچھ نہیں… بس… ایسی کوئی خاص بات نہیں۔ چھوڑو۔”
ایلمارا بولی:
“آہہ! خیر بول بھی دو، کیوں چھپا رہے ہو؟”
آریب نے فوراً کہا:
“یوں تو ہم بھی ساتھ کینٹین جاتے تھے، ہمیشہ ساتھ رہتے تھے۔
تو اگر کوئی کہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے… تو کیا یہ سچ ہے؟”
وہ پوچھ تو رہا تھا،
لیکن انداز ایسا تھا جیسے وہ جاننا چاہتا ہو۔
ایلمارا نے اُسے غور سے دیکھا اور بولی:
“نہیں… ایسا نہیں ہے۔ ہم بھلا ایک دوسرے کو کیوں پسند کرتے ہوں گے؟ ہم تو بس یونہی جاتے تھے۔”
آریب بولا:
“ہاں… تو وہ بھی یونہی جاتے ہوں گے۔”
پھر وہ فوراً اُٹھا — اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
ایلمارا نے اُسے روکنے کی کوشش کی، مگر وہ جیسے اُس کے سوال میں اُلجھ کر رہ گئی تھی۔
پھر اُس نے گہرا سانس لیا اور سوچا:
“ویسے… وہ ٹھیک ہی بول رہا ہے…”
اور واپس بستر پر لیٹ گئی۔
آریب ابھی بھی ایلمارا کے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا تھا۔
اُس نے سوچا:
“آخر اُسے میری محبت کا احساس تو ہوتا نہیں…
آئی بڑی دوسروں کی محبتیں پہچاننے والی…”
اُس نے بیزاری سے چہرہ موڑا، جیسے وہ غصے میں ہو
اور وہ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
جاتے ہی اُس نے التمش کو دیکھا
وہ جوں کا توں بستر پر لیٹا تھا، ملکہ کے جانے کے بعد سے اسی طرح۔
آریب نے اُسے دیکھا، نفی میں سر ہلایا، اور جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔
اور خیالات میں گم ہو گیا۔
التمش نے بس اپنا سر تھوڑا سا اُٹھا کر آریب کو دیکھا،
پھر دوبارہ اُسی حالت میں چلا گیا۔
دونوں ایسے لیٹے جیسے بہت تھک چکے ہوں
بہت زیادہ۔
جاری ہے۔۔۔۔
