Aakhri sehr

“Aakhari Sehr” “Trailer” Written By “Amara Aziz”

آخری سحر” 
Written by “Amara Aziz

تحریری ٹریلر

فلورنس، اٹلی کی پرانی گلی “ویا دی نیری” رات کے پہر کسی خواب کی مانند لگ رہی تھی۔ تنگ، پتھریلی، اور خاموش۔
وہیں موجود ایک کیفے کے شیشے کے دروازے پر ” کلوزڈ ” کا تختی آویزاں تھی۔ مگر اندر کی روشنی اب بھی مدھم سی جل رہی تھی۔
اندر موجود لڑکی نے میز پر رکھا آخری کپ اٹھایا — وہ جانے کے لیے مڑی ہی تھی کہ پیچھے سے ایک آواز سنائی دی:
“One coffee, please.”
وہ فوراً رُخ موڑ کر اُس آواز کی سمت دیکھنے لگی۔
لڑکی نے اُسے جانچتی نظروں سے دیکھا۔ اُس نے ایک سیاہ رنگ کا ہُڈ پہن رکھا تھا، جو اتنا آگے کھینچا گیا تھا کہ چہرہ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ کوئی نوجوان لگ رہا تھا۔
“کیا تم نے باہر لگی ‘کلوزڈ’ والی تختی نہیں دیکھی؟ کیفے بند ہو چکا ہے۔” اُس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
“مجھے کافی کی بہت طلب ہو رہی ہے… اور شہر کے زیادہ تر کیفے بند ہو چکے ہیں۔”
“میں بہت دُور سے آیا ہوں، میم…” اُس نے لجاجت سے کہا۔
لڑکی نے گہری سانس لی، پھر خاموشی سے کچن کی طرف پلٹ گئی۔
اس نے کافی بنائی، اور اُس نوجوان کے ٹیبل پر رکھ دی۔ کافی سے اُٹھتی بھاپ اور اُس کی مہک نے پورے کیفے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
لڑکی قریب رکھی میز سے چند برتن اُٹھانے لگی، اور اُنہیں کچن میں لے گئی۔
وہ واپس آئی تو کمرے کا منظر بدل چکا تھا۔
وہ نوجوان وہاں موجود نہیں تھا۔
صرف ایک خالی کپ میز پر رکھا تھا… اور اُس کے ساتھ رکھی ہوئی تھی کافی کی پوری قیمت۔
لڑکی جیسے ہی اُس میز کے قریب پہنچی اُس کی نظر میز کے نیچے پڑی وہ ایک کالا پرس تھا۔
لڑکی نے پرس ہاتھ میں لیا، اور فوراً کیفے سے باہر نکلی — شاید اُسے اُس لڑکے کا سایہ ابھی بھی دور جاتا دکھائی دے رہا تھا۔
وہ اُس کے پیچھے بھاگی، اور آواز لگانے لگی:
“سنیے! یہ آپ کا پرس ہے، کیفے میں رہ گیا تھا! سنیے! اپنا پرس لے لیجیے!”
وہ بار بار آواز دیتی رہی، دوڑتی رہی — لیکن اُس شخص نے ایک بار بھی مڑ کر نہیں دیکھا۔
نہ اُس کی رفتار کم ہوئی۔
پھر اچانک… جیسے کوئی ٹھنڈی، تیز ہوا چلی — لیکن اُس ہوا میں کچھ عجیب تھا… جیسے وہ آنکھوں پر ایک دھند سی چھوڑ گئی ہو۔ایک انجانی گھبراہٹ نے اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔وہ اب آگے بڑھنے کی بجائے، قدم پیچھے ہٹنے لگی۔
چہرے پر خوف نمایاں تھا۔
اچانک… جیسے کوئی اُس کے بالکل پیچھے آ کھڑا ہوا ہو۔
کسی نے گردن کے پچھلے حصے پر زور سے کچھ مارا۔
نہ وہ کچھ بول سکی… نہ چیخ۔
پھر… کسی نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھا اور اُسے گھسیٹتا ہوا، اندھیرے کی طرف لے گیا۔


ایک خوبصورت گھر… جیسے کسی اور دُنیا میں پریوں نے بنایا ہو۔
وہ کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، بس کھڑکی سے آتی سورج کی نرم کرنیں اُس نسوانی وجود پر پڑ رہی تھیں، اور اُس کا وجود واضح ہو رہا تھا۔وہ لڑکی شیشے کے سامنے بیٹھی خود کا عکس دیکھ رہی تھی۔ وہ محسوس کر سکتی تھی کہ وہ بدل گئی ہے۔
اُس کے کمر تک آتے لمبے، ہلکے بھورے بال، آنکھوں میں لگا گہرا کاجل، لب ہلکے گلابی، اور دودھیا سفید رنگت… اُس نے سبز رنگ کا ٹخنوں کو چھوتا فراک زیب تن کر رکھا تھا۔
وہ خود کو دیکھ کر جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔
اچانک آئینے میں ایک اور وجود نمودار ہوا، جو قدم بڑھاتا اُس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔لڑکی نے رُخ موڑ کر اُس لڑکے کی جانب دیکھا۔
وہ ہلکی سبز شلوار قمیض میں ملبوس تھا، بال ہلکے براؤن، آنکھیں شہد رنگ کی، اور چہرہ… وہ ایک خاص کشش رکھتا تھا۔
وہ لڑکا دھیرے سے بولا:
“نہ جانو تم، میں تم سے پیار کرتا ہوں نہ اقرار کرتا ہوں، نہ ہی اظہار کرتا ہوں کہنے کو بہت کچھ ہے، مگر الفاظ ساتھ نہیں دیتےتمہارے انکار کا وہم، زباں کو روک لیتا ہے”
لڑکی کے لب اُس لڑکے کو دیکھ کر ہلکے سے مسکرائے۔
“میں جانتی ہوں تم مجھ سے پیار کرتے ہوبغیر کہے بھی، سب اقرار کرتے ہوخاموشی میں بھی سن لیتی ہوں دل کی بات نظروں سے تم سارا اظہار کرتے ہوسچ کہوں تو میں بھی تم سے پیار کرتی ہوں ہر دھڑکن میں تمہیں ہی یاد کرتی ہوں پر لبوں پہ آئے بھی تو کچھ کہہ نہیں پاتی میرے دل کو بھی تمہارے انکار سے ڈر لگتا ہے”
….یہ الفاظ دونوں کے دلوں میں گونج رہے تھے



یہ منظر ہے ایک لمبے چھوڑے سے بادلوں میں ڈوبے میں محل کا — ایسا لگتا تھا جیسے آسمان سے نحوست برس رہی
ہو۔محل کے اندر داخل ہو تو ایک کشادہ کمرہ آتا ہے، جس میں ایک بلند و بالا سیاہ تخت رکھا ہے۔ اُس تخت پر ایک شخص
براجمان ہے، جس کی آنکھوں میں قہر اور آواز میں زہر ہے۔ وہ گرج دار آواز میں چلا رہا تھا:
“اتنا سا کام بھی نہیں کر سکتے تم لوگ؟! ایک کمزور لڑکی تک کو نہ ہرا سکے؟! تم سب کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے!”
تخت کے سامنے کھڑے چند سپاہیوں نے شرمندگی سے اپنی گردنیں جھکا رکھی تھیں۔
وہ شخص مزید گرجا:
“اب شکست کھا کر یہاں آنے کی ضرورت کیا تھی؟! لے جاؤ ان نکموں کو، اور وہیں قید کر دو… جہاں انسانوں کو رکھا جاتا ہے!”
سپاہیوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی، اور اُن ناکام سپاہیوں کو پکڑ لیا۔
پکڑے گئے سپاہی بے بسی سے چلائے:
“ہمیں ایک موقع دے دیں، مہاراج! ہماری جان لے لیں، لیکن ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہ کریں!””مہاااااارج! ہمیں معاف کر دیجیے!”
مگر اُن کی چیخ و پکار اَن سنی کر دی گئی، اور انہیں زبردستی کمرے سے باہر لے جایا گیا۔
چند ہی لمحوں بعد وہ سب اُس تاریک جگہ پہنچا دیے گئے جہاں انسانوں کو زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا تھا۔ وہاں ظلم کی انتہا ہو رہی تھی
کمر پر برسائے گئے کوڑوں کی آوازیں،
اور درد سے چیختے انسانوں کی سسکیاں…
یہ سب کچھ دیکھ کر وہ مجرم سپاہی بھی ہکا بکا رہ گئے۔ اُن کی آنکھوں میں پہلی بار خوف اور حیرت ایک ساتھ جھلکنے لگا۔


ایک خوبصورت دنیا ہے… شاید کوئی اور ہی دنیا۔ایسی دلکش، ایسی روشن… کہ ہر سمت رنگوں کا جادو بکھرا ہے،ہر طرف لوگوں کی چہل پہل ہے جیسے خوشیوں کی کوئی بستی ہو۔
ایک لڑکی، جس کی آنکھیں گہری سرمئی تھیں،لباس شاہی انداز کا وہ اس رونق میں پانچ لوگوں کے درمیان کھڑی انھیں کچھ سمجھانے میں مصروف تھی۔
دراصل اس دُنیا میں آنے سے پہلے تم انسانوں کو یہ منظر اِس لیے دکھایا جاتا ہے تاکہ تم لوگ اپنی فطرت پہچان سکو۔
جب تم کسی منزل کو پانا چاہتے ہو،تو تم پوری دل و جان سے اُس منزل کو پانا چاہتے  ہو،مگر پھر… وہی تم ہو جو اُس راہ سے ہٹ جاتے ہو۔منزل کو پاتے پاتے، کوئی اور چیز تمہیں اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے کوئی فریب، کوئی آسائش، کوئی عارضی کشش۔اور تم اپنی اصل راہ کو چھوڑ کر اُس کے پیچھے چل پڑتے ہو۔
اس دنیا میں آنے سے پہلے… تمہیں تمہاری فطرت دکھائی جاتی ہے،اور کئی اور باتیں بھی سکھائی جاتی ہیں۔
تب ہی، ایک گہری نیلی سمندر جیسی آنکھوں والا لڑکا جس کا لباس چمکتا سفید تھا،سنجیدگی سے بولا:
“اچھا… تو یہ ہے تمہارا مقصد؟”وہ سمجھتے ہوئے بولا
“لیکن یاد رکھو ہر انسان اپنی منزل کو نہیں بھولتا۔”


“او لڑکی، میری بات سُنو!”وہ بازار کے بیچ و بیچ کھڑا سامنے سپاہیوں کے ساتھ سیدھی جاتی لڑکی کو روکنے کے لیے اونچی آواز میں بولا۔آس پاس بازار میں موجود چند سپاہیوں نے، جو اُس کے قریب ہی تھے، اپنے ہاتھ میں تھامے نیزے اُس پر تان لیے۔جبکہ دُور کھڑی شاہی لباس میں ملبوس لڑکی اُس کی آواز سنتے ہی ٹھٹک کر رُکی، پھر رُخ موڑ کر اُس گستاخ کی جانب دیکھا۔
“حکم کریں، ملکہ! اس گستاخ کو کیا سزا دینی ہے؟”اُس کے قریب کھڑے خاص سپاہی نے ہلکی مودبانہ آواز میں اُس لڑکی سے پوچھا۔
سپاہیوں کے جُھنڈ میں کھڑا وہ لڑکا اب بھی ویسے ہی سیدھا کھڑا تھا، خوف کا کوئی نام و نشان اُس کے چہرے پر نہیں تھا۔ اُس نے ایک قدم آگے بڑھایا۔سپاہیوں نے ہتھیار اُس کی گردن کے عین قریب کر دیے کہ نیزے کی نال اُس کی گردن پر ہلکی سی چبھن پیدا کرنے لگی۔مگر وہ لگاتار قدم اُس لڑکی کی جانب بڑھاتا رہا۔سپاہی اُس کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے تھے، فی الحال وہ اُسے کچھ کر نہیں سکتے تھے جب تک اُنہیں حکم نہ ہوتا۔وہ اُس لڑکی کے عین سامنے آ کر رُک گیا۔
اور اپنی نیلی آنکھوں سے اُس لڑکی کی سرمئی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا”کیا نام ہے تمہارا؟…امم ملکہ؟”وہ ایسے بول رہا تھا جیسے جانتا نہ ہو۔
“سمجھتی کیا ہو تم اپنے آپ کو؟”
اُس کی بات سُن کر اُس لڑکی کے قریب کھڑا اُس کا خاص سپاہی آگے بڑھ کر بولا:”اپنی حد میں رہو، لڑکے!”
یکدم اُس لڑکی نے ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور مُٹھی بند کر لی۔تمام سپاہیوں نے اپنے ہتھیار نیچے کیے اور ایک ایک قدم پیچھے ہٹا لیا۔
اب وہ لڑکا بولا:”جیسے پہلی بار تم نے میری جان بچائی تھی… اب پھر سے میری جان بچا کر تم مجھ پر ایک اور احسان کرنا چاہتی ہو؟”وہ جیسے بیزار ہوا تھا۔
لڑکی ہلکا سا مُسکرائی اور بولی:”چلو، اس بار تمہاری جان نہیں بچاتی… کہیں تم زیادہ قرضدار نہ ہو جاؤ۔ جاؤ، میرے!”
وہ اُس کی آنکھوں میں لگاتار دیکھتے ہوئے بولی:”سپاہیو! اِسے قید خانے لے جاؤ!”وہ بلند آواز میں بولی تھی، اتنی کہ سب پر اُس کا حکم واضح ہو جائے۔
اُس لڑکے نے دونوں ابرو اُٹھا کر حیرت سے اُسے دیکھا، جیسے اُسے اِس چیز کی توقع نہ تھی۔


شاہی لباس میں ملبوس وہ لڑکی اپنے تخت پر بیٹھی تھی، اور اس وقت دربار میں موجود تمام لوگوں سے مخاطب تھی۔
“آج آپ سب کو یہاں جمع کرنے کی ایک خاص وجہ ہے۔ مجھے آپ کو ایک اہم خبر سنانی ہے۔ وہ مہلت… جو آپ کو دی گئی تھی، اب ختم ہو چکی ہے۔”
تخت نشین لڑکی اپنی بات کہہ ہی رہی تھی کہ دربار کا بڑا دروازہ یکایک کھلا، اور ایک لڑکا دوڑتا ہوا اندر داخل ہوا۔دربار میں پہلے ہی خاصا ہجوم تھا، مگر وہ لڑکا لوگوں کو دھکیلتا، ان کے درمیان سے گزر کر تخت کے بالکل سامنے آ کھڑا ہوا۔
اُس کے چہرے پر کشمکش کے آثار نمایاں تھے۔ وہ بلند آواز میں گویا ہوا:
“ایسا نہیں ہونے والا! ہم سب اس طرح خاموشی سے یہاں سے نہیں جائیں گے!”
تخت نشین لڑکی نے چند لمحے اُسے خاموشی سے دیکھا، جیسے کچھ سوچ رہی ہو… پھر اُس پر سے نظریں ہٹا کر خود کو مضبوط کیا، اور اپنی بات مکمل کی:
“جیسا کہ میں نے آپ سب کو یہاں آتے ہی بتایا تھا، آج وہ دن آن پہنچا ہے…جس کے بعد ہمیں جدا ہونا ہی پڑے گا۔یہی فیصلہ ‘قدرت’ کے لیے بہتر ہے،اور یہی تمام انسانوں کے لیے بھی لازم ہے۔”
ایک پل کو دربار میں خاموشی چھا گئی۔
“بہرحال… فاصلے ہی بہتر ہیں۔میری بات یہیں مکمل ہوتی ہے۔آپ سب کو… الوداع۔”


آس پاس جیسے میلہ سا لگا تھا، ہر طرف خوشیاں سی تھیں جیسے کوئی خواب ہو۔
اسی روشنی اور رونق میں ایک لڑکی چل رہی تھی۔ اُس کے ساتھ ایک لڑکا بھی آہستہ آہستہ قدم ملا کر چل رہا تھا۔ وہ سیاہ قمیض شلوار میں ملبوس تھا، جیسے یہ لباس اُسی کے لیے بنا ہو۔ رنگ گندمی تھا، اور اُس کے گندمی رنگ میں ایک خاص کشش تھی۔سیاہ آنکھیں، سیاہ بال — دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ سیاہ رنگ کا شوقین ہے۔
لڑکی، جو اُس کے ساتھ تھی، اُس نے سیاہ رنگ کا ایک لمبا فراک پہن رکھا تھا جو ٹخنوں تک آ رہا تھا۔ اُس کے ہونٹ سرخ تھے، آنکھیں ہلکی براؤن اور سیاہ بال کندھوں تک آ رہے تھے۔ اُس کی رنگت بھی گندمی تھی… اور وہ واقعی خوبصورت لگ رہی تھی۔
اب وہ دونوں آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ آس پاس مختلف دکانیں تھیں۔ اتنے میں لڑکی کی نظر ایک دکان پر پڑی — وہ خوشی سے اُس دکان کی طرف دوڑ گئی۔ لڑکا بھی اُس کے پیچھے پیچھے گیا۔
لڑکی شیشے کے پیچھے بند قیمتی پتھروں کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
لڑکا بولا:”تمہیں قیمتی پتھر پسند ہیں؟”
لڑکی نے کہا:”ہاں، کیوں نہیں! یہ تو بہت دلکش ہوتے ہیں۔”
اتنے میں دکان دار دکان کے اندر سے باہر آیا اور بولا:”مجھے لگتا ہے آپ دونوں خود بھی قیمتی پتھر ہی ہیں… ویسے آپ کو کون سا پتھر راس آتا ہے؟”
لڑکی نے لڑکے کی طرف دیکھا، مسکرائی اور کہا:”مجھے تو نہیں معلوم۔”
لڑکا بولا:”کوئی بات نہیں…”
لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا:”چلو، ہم آگے چلتے ہیں۔”

شاہی لباس میں ملبوس وہ لڑکی دو دُنیاؤں کے دروازے کے قریب کھڑی تھی۔ تمام انسان اس دروازے سے اُس کی دُنیا سے جا چکے تھے۔ اُس لڑکی نے گہری سانس لی۔ دل کو سمجھانا اس وقت سب سے زیادہ مشکل تھا۔
پھر اُس نے اپنے ہاتھ میں تھامی چھڑی زور سے زمین پر ماری۔
یکدم ہوائیں تیز ہو گئیں۔ نیلگوں آسمان گہرے سُرخ رنگ میں تبدیل ہو گیا۔ اُس کا لباس ہوا سے دائیں جانب لہرا رہا تھا۔ بادل اُس کی چھڑی کے عین اُوپر چکر لگا رہے تھے۔
اُس نے اپنے آس پاس موجود تمام مخلوق کو دیکھا، اور بلند آواز میں کہا:
……… کیا تم سب تیار ہو؟ کیونکہ یہ سحر ہے
آخری سحر…! جس کے بعد یا نجات ہے… یا فنا”

…………جلد آ رہا ہے
آخری سحر کہانی… دو دُنیاؤں کی

Written by “Amara Aziz

از قلم  آمارا عزیز

The first episode is coming on September 6th

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *