انجانا سکون
ازقلم ہادیہ نعمان
کچھ راز، راز ہی رہنے چاہئیں
کچھ حقیقتوں سے پردہ نہیں اُٹھنا چاہئیے
کچھ باتیں نہ جاننا ہی بہتر ہوتا ہے
انسانی زندگی میں کچھ پہلو ایسے ہوتے ہیں جنہیں مکمل طور پر جان لینا یا سب پر ظاہر کر دینا ضروری نہیں ہوتا۔ ہر حقیقت کا پردہ چاک کرنا اور ہر راز کو زبان پر لے آنا ہمیشہ دانشمندی نہیں کہلاتا۔ کائنات کا نظام بھی اسی حکمت پر قائم ہے کہ کچھ چیزیں ہماری نظروں سے اوجھل ہیں، کچھ حقیقتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں، اور کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہمارے علم میں نہ آئیں تو بہتر ہے۔ یہ فطرت کا اصول بھی ہے اور انسانی زندگی کا تجربہ بھی۔ اگر ہم ہر حقیقت کو جان لیں تو شاید ہمارے دلوں کا سکون چھن جائے اور زندگی کا حسن بھی باقی نہ رہے۔
راز اور سکون کا رشتہ
زندگی میں سکون ہمیشہ جاننے سے نہیں بلکہ کبھی کبھار نہ جاننے سے بھی نصیب ہوتا ہے۔ ہر سچ انسان کے بس کی بات نہیں۔ کچھ سچ ایسے ہوتے ہیں جو ہماری برداشت سے باہر نکل جاتے ہیں اور ہمیں اندر سے توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض اوقات دوستوں یا رشتے داروں کی اصل سوچ اگر ہمیں پہلے ہی پتا چل جائے تو شاید ہم ان کے ساتھ محبت اور قربت قائم نہ رکھ سکیں۔ لیکن جب وہ باتیں ہم سے اوجھل رہتی ہیں تو رشتہ سلامت رہتا ہے اور زندگی میں ہم آہنگی قائم رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے: “کچھ باتیں نہ جاننا ہی بہتر ہے۔” سکون دل کا راز ہمیشہ حقیقت کے مکمل انکشاف میں نہیں بلکہ بعض حقیقتوں کے پردے میں چھپنے میں ہے۔
حقیقتوں کا پردہ اور نفسیاتی اثرات
زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ انسان ہر سچ برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ “سچ کڑوا ہوتا ہے” مگر اس کڑوے سچ کا ذائقہ بعض اوقات انسان کے اعصاب، جذبات اور دل و دماغ پر اتنا گہرا اثر ڈالتا ہے کہ وہ اپنی معمول کی زندگی بھی کھو بیٹھتا ہے۔ کچھ حقیقتیں انسان کو توڑ دیتی ہیں، کچھ اس کی خوشیاں چھین لیتی ہیں اور کچھ اس کے رشتوں کی بنیادیں ہلا دیتی ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر سچ کو بیان کرنا یا ہر حقیقت کو جان لینا عقلمندی نہیں۔
نفسیات کے ماہرین کے مطابق، جب کوئی انسان ایسی حقیقت جان لیتا ہے جو اس کی برداشت سے باہر ہو، تو اس کے ذہن میں منفی خیالات کا ایک طوفان برپا ہو جاتا ہے۔ وہ شخص ڈپریشن، مایوسی یا شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی کو اچانک اپنے کسی قریبی عزیز کی دھوکہ دہی کا پتا چل جائے تو یہ حقیقت اس کے دل پر ایسا زخم چھوڑتی ہے جو آسانی سے نہیں بھرتا۔ کبھی کبھی یہ زخم زندگی بھر کا دکھ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نفسیات کے ماہرین اکثر مشورہ دیتے ہیں کہ انسان کو ہر وہ بات جاننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جو اس کی زندگی میں بے چینی اور اضطراب پیدا کرے۔
کچھ حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہماری صلاحیتوں سے باہر ہیں۔ کائنات کی تخلیق، تقدیر کے راز، یا مستقبل کے پردے میں چھپی ہوئی باتیں اگر انسان پر ظاہر ہو جائیں تو شاید وہ جینے کی ہمت ہی کھو دے۔ انسان کی عقل محدود ہے اور اس کا دل کمزور۔ اگر اسے سب کچھ معلوم ہو جائے تو وہ زندگی کا بوجھ برداشت نہیں کر پائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت نے کچھ حقیقتوں پر پردہ ڈال رکھا ہے تاکہ انسان اپنی زندگی سکون اور امید کے ساتھ گزار سکے۔
اسی طرح، بعض حقیقتیں رشتوں میں بھی ایسی ہوتی ہیں جنہیں جاننا بہتر نہیں۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے کی ہر چھوٹی بڑی سوچ کو جان لیں تو شاید وہ سکون سے ساتھ نہ رہ سکیں۔ اگر دوست ایک دوسرے کے دل کی ہر پوشیدہ بات جان لیں تو ممکن ہے کہ وہ دوستی کبھی قائم نہ رہ سکے۔ اس لیے پردہ ڈال دینا بعض اوقات رشتوں کو مضبوط کرتا ہے اور نہ جاننا سکون کو قائم رکھتا ہے۔
انسانی رشتے اور راز
رشتوں کی بنیاد ہمیشہ اعتماد، محبت اور احترام پر ہوتی ہے۔ لیکن اگر ان رشتوں میں ہر بات، ہر سوچ اور ہر حقیقت کھول دی جائے تو یہ رشتے اپنی خوبصورتی کھو بیٹھتے ہیں۔ انسان کے دل میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو وہ صرف اپنے ضمیر کے ساتھ رکھتا ہے۔ ان رازوں کا باہر آ جانا کبھی کبھی محبت کو کمزور کر دیتا ہے۔
دوستی اور راز
دوستی ایک انمول رشتہ ہے، لیکن یہ بھی اسی وقت مضبوط رہتا ہے جب کچھ باتیں پردے میں رہیں۔ ہر دوست کی اپنی ذاتی زندگی اور ذاتی سوچ ہوتی ہے۔ اگر ایک دوست دوسرے کی ہر چھپی ہوئی سوچ جان لے تو ممکن ہے کہ اس کے دل میں بدگمانی یا شک پیدا ہو جائے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی دوست کو یہ پتا چل جائے کہ دوسرا دوست بعض اوقات اس سے جلتا ہے یا اس کے بارے میں منفی سوچ رکھتا ہے تو یہ حقیقت دوستی کی دیوار کو کمزور کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ دوستی میں ہر بات کہہ دینا ضروری نہیں، بلکہ کبھی کبھی کچھ باتیں چھپا لینا ہی تعلق کو قائم رکھتا ہے۔
محبت اور راز
محبت ایک نازک رشتہ ہے۔ اس میں خلوص، قربانی اور اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ اعتماد اس وقت ٹوٹتا ہے جب ہر حقیقت کھل جائے۔ اگر ایک شریکِ حیات دوسرے کو اپنی ماضی کی ہر بات، ہر تعلق یا ہر سوچ کھول کر بتا دے تو یہ ممکن ہے کہ وہ رشتہ برداشت نہ کر سکے۔ بعض اوقات یہ حقیقتیں محبت کو زہر بنا دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عقلمندی یہ ہے کہ ماضی کے کچھ باب ہمیشہ بند رہنے چاہئیں تاکہ حال اور مستقبل خوشگوار رہ سکیں۔
خاندانی رشتے اور راز
گھر کے اندر بھی بہت سے راز ہوتے ہیں۔ والدین بعض اوقات اپنی مشکلات یا محرومیاں بچوں سے چھپا لیتے ہیں تاکہ ان کا بچپن خوشیوں کے ساتھ گزرے۔ بہن بھائی ایک دوسرے کی کمزوریاں ہمیشہ نہیں کھولتے تاکہ محبت قائم رہے۔ اگر ہر بات کھول دی جائے تو شاید گھر کا سکون باقی نہ رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گھر انہی رازوں اور پردوں کی بدولت گھر رہتا ہے۔
راز نہ بتانے کی حکمت
راز چھپانا بزدلی نہیں، بلکہ کبھی کبھی یہ سب سے بڑی حکمت ہوتی ہے۔ اگر کسی کی چھوٹی سی کمزوری کو چھپایا جائے تو وہ عزت کے ساتھ جی سکتا ہے، لیکن اگر وہی کمزوری سب کے سامنے آ جائے تو اس کی زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لیے سمجھدار انسان وہی ہے جو جانتا ہے کہ کون سی بات زبان پر لانی ہے اور کون سی دل میں رکھنی ہے۔
دینی اور فلسفی پہلو
اسلام میں رازداری کی اہمیت
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ کب بات کرنی ہے اور کب خاموش رہنا ہے۔ قرآن و حدیث میں کئی مقامات پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسان دوسروں کے راز فاش نہ کرے اور ہر بات ہر جگہ بیان نہ کرے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا
جب کوئی تم سے بات کرے اور پیچھے دیکھے (کہ کوئی اور تو نہیں سن رہا) تو وہ بات ایک امانت ہے)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ راز چھپانا ایمان اور امانت داری کا حصہ ہے۔ اگر ہر شخص دوسروں کے راز بیان کرنے لگے تو معاشرے میں نہ عزت باقی رہے گی اور نہ اعتماد۔
پردہ ڈالنے کی تعلیم
اسلام یہ بھی سکھاتا ہے کہ دوسروں کی کمزوریوں اور خامیوں پر پردہ ڈالنا عین نیکی ہے۔ ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی کمزوری پر پردہ ڈالے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ یہ تعلیم دراصل انسان کو یہ شعور دیتی ہے کہ ہر بات کو ظاہر کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ دوسروں کی خامیوں کو چھپا کر ہم نہ صرف انہیں عزت دیتے ہیں بلکہ اپنے رشتے اور معاشرے کو بھی برباد ہونے سے بچاتے ہیں۔
فلسفیانہ پہلو
فلسفے کی دنیا میں بھی یہ بات مانی گئی ہے کہ ہر حقیقت انسان کے لیے جاننا ضروری نہیں۔ یونانی فلسفیوں کا کہنا تھا کہ انسان کی عقل محدود ہے، اور وہ کائنات کے کچھ راز کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر وہ سب جاننے کی کوشش کرے گا تو الجھ کر رہ جائے گا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ “جہالت کبھی کبھی سکون ہے”۔ یعنی کچھ باتوں کو نہ جاننا انسان کے دل و دماغ کے لیے آسانی کا باعث ہوتا ہے۔
صوفیاء کی تعلیمات
صوفیاء کرام نے بھی یہی سکھایا کہ ہر بات ہر جگہ بیان نہیں کی جاتی۔ وہ فرماتے تھے کہ دل کا حال صرف اللہ کے سامنے بیان کرو، دنیا کے سامنے نہیں۔ کیونکہ دنیا تمہاری کیفیت کو سمجھنے کی بجائے تمہارا مذاق بھی اڑا سکتی ہے۔ صوفیاء اس بات کے قائل تھے کہ انسان کو اپنے راز سینے میں محفوظ رکھنے چاہئیں۔ یہی سکون اور روحانیت کا راستہ ہے۔
مثالیں اور کہانیاں: راز چھپانے کی حکمت
پرانے وقتوں کی کہانی
قدیم زمانے میں ایک بادشاہ تھا جو اپنے وزیر پر بے حد اعتماد کرتا تھا۔ بادشاہ کی ایک جسمانی کمزوری تھی جس کے بارے میں پورے دربار میں کسی کو علم نہیں تھا۔ صرف وزیر کو یہ راز معلوم تھا، لیکن اس نے کبھی زبان پر نہیں لایا۔ برسوں گزر گئے، بادشاہ ہمیشہ وزیر کو سب سے زیادہ عزت دیتا رہا۔ ایک دن بادشاہ نے وزیر سے پوچھا: “تمہیں میرا راز برسوں سے معلوم ہے، تم نے کبھی کسی کو بتایا نہیں، کیوں؟” وزیر نے جواب دیا: “اگر میں یہ راز دوسروں کو بتا دیتا تو آپ کی عزت لوگوں کی نظروں میں گر جاتی، اور میرا مقام آپ کے دل میں بھی ختم ہو جاتا۔ اس لیے میں نے اسے راز ہی رہنے دیا”۔
یہ کہانی یہ سکھاتی ہے کہ راز چھپانا بعض اوقات عزت اور رشتوں کو قائم رکھنے کے لیے سب سے بڑی حکمت ہوتی ہے۔
ادبی مثال
شاعر اور ادیب اکثر یہ بات لکھتے آئے ہیں کہ دل کی ہر بات بیان کر دینا کبھی کبھی انسان کو کمزور بنا دیتا ہے۔ مشہور کہاوت ہے
دل کے زخم سب کو نہ دکھاؤ، کیونکہ ہر کوئی مرہم رکھنے والا نہیں ہوتا۔
یہ بات بھی دراصل اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کچھ باتوں کو چھپائے رکھنا ہی انسان کے سکون کا باعث ہے۔
روزمرہ زندگی کی مثال
ہمارے گھروں میں بھی یہ بات اکثر نظر آتی ہے۔ ماں باپ اپنی مالی مشکلات بچوں کو نہیں بتاتے تاکہ ان کے دل پر بوجھ نہ آئے۔ بہن بھائی ایک دوسرے کی کمزوری سب کے سامنے نہیں لاتے تاکہ عزت باقی رہے۔ اگر یہ چھوٹے چھوٹے راز فاش ہو جائیں تو گھر کا سکون ختم ہو جائے۔اسی طرح، اگر دفتر میں کام کرنے والے ساتھی ایک دوسرے کے ہر راز کھول دیں تو ماحول زہر بن جائے۔ اس لیے انسان جب کچھ باتیں اپنے دل میں رکھتا ہے تو وہ ماحول کو خوشگوار رکھتا ہے۔
ایک اور کہانی
کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک بزرگ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا: “میں چاہتا ہوں کہ سب لوگ مجھے عزت دیں، مجھے بتائیں کہ میں کیا کروں؟” بزرگ نے مسکرا کر کہا: “اپنے راز سب پر ظاہر نہ کیا کرو، کیونکہ جو انسان اپنی ہر بات سب کو بتا دے، لوگ اس کی قدر کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔”یہ بات دراصل اس سچائی کو واضح کرتی ہے کہ راز کا احترام ہی انسان کو عزت دلاتا ہے۔
نتیجہ اور عملی زندگی میں رہنمائی
انسانی زندگی ایک راز اور حقیقتوں کے امتزاج پر قائم ہے۔ اگر ہم سب کچھ جان لیں تو زندگی کا حسن باقی نہ رہے، اور اگر سب کچھ چھپا لیا جائے تو زندگی ادھوری محسوس ہو۔ اصل کمال یہ ہے کہ انسان یہ پہچان لے کہ کون سا راز دل میں رکھنا ہے اور کون سی حقیقت زبان پر لانی ہے۔
سکون کی کنجی
سکون ہمیشہ زیادہ جاننے میں نہیں بلکہ صحیح وقت پر خاموش رہنے میں ہے۔ جو لوگ ہر بات کہہ دیتے ہیں، وہ اکثر اپنے ہی الفاظ کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ سمجھداری سے صرف ضروری باتیں بیان کرتے ہیں اور باقی اپنے دل میں رکھتے ہیں، وہی لوگ زیادہ مطمئن اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔
اعتماد اور عزت
راز چھپانا اعتماد کو بڑھاتا ہے۔ اگر کوئی دوست یا عزیز آپ پر اعتماد کر کے اپنی بات آپ سے کہے اور آپ اسے راز میں رکھیں، تو آپ کی عزت اس کے دل میں اور بڑھ جائے گی۔ لیکن اگر وہی راز آپ دوسروں کو بتا دیں تو اعتماد ٹوٹ جاتا ہے اور رشتہ ہمیشہ کے لیے کمزور ہو جاتا ہے۔ اس لیے عقلمند انسان ہمیشہ دوسروں کے راز کو اپنی امانت سمجھتا ہے۔
عملی زندگی کے لیے رہنمائ
ا. ہر بات ہر جگہ نہ کریں۔ سوچیں کہ آپ کے الفاظ کا اثر کیا ہوگا
۔2. راز کو امانت سمجھیں۔ اگر کوئی آپ پر اعتماد کر کے اپنی بات کہے تو اسے محفوظ رکھیں
۔3. ماضی کو ہمیشہ نہ کھولیں۔ بعض دفعہ ماضی کو دبانا حال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے
۔4. خاموشی کو طاقت بنائیں۔ ہر سچ بولنا ضروری نہیں، کبھی کبھی خاموش رہنا زیادہ طاقتور ثابت ہوتا ہے
۔5. خدا پر بھروسہ رکھیں۔ کچھ حقیقتیں ایسی ہیں جنہیں جاننے کی صلاحیت صرف اللہ نے اپنے پاس رکھی ہے۔ انسان کو انہی حدود میں رہنا چاہیے۔
حتمی کلمات
زندگی کے سفر میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کچھ راز راز ہی رہیں تو بہتر ہے، کچھ حقیقتوں پر پردہ پڑا رہے تو سکون باقی رہتا ہے، اور کچھ باتیں نہ جاننا ہی خوشی اور اطمینان کی ضمانت ہے۔ یہی حکمت انسان کو مضبوط بھی بناتی ہے اور اس کی شخصیت کو نکھارتی بھی ہے۔
کچھ حقیقتیں سامنے آئیں تو دل ٹوٹ جاتا ہے،کچھ باتیں چھپ جائیں تو رشتہ بچ جاتا ہے۔
ہر راز کا جان لینا ضروری تو نہیں ہوتا،کچھ ان کہی باتوں میں سکون چھپا رہتا ہے۔
کبھی کبھی نا جاننا ہی اصل راحت ہے،آنکھ کا دھوکہ بھی دل کو سہارا دے جاتا ہے۔
یقین کی عمارت ہمیشہ سچ سے نہیں بنتی،کچھ پردے بھی رشتوں کو قائم رکھ جاتے ہیں۔
—-ختم شد—-
