antal hyat

Antal Hayat Episode 13 written by siddiqui

انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )

باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو۔۔۔

قسط نمبر ۱۳

رات کے سناٹے میں کمرے کی دیواروں پر ٹک ٹک کرتی گھڑی کی آواز کچھ زیادہ ہی بلند محسوس ہو رہی تھی۔ ایک طرف خاموشی کا راج تھا، دوسری طرف ایک گروپ چیٹ کی روشن اسکرین پر تیز ہوتی گفتگو کا شور۔

سنو سب۔۔۔
ابرار کا پیغام جیسے کسی سنجیدہ اعلان کا پیش خیمہ ہو۔

ہاں بول۔۔۔
دانیال نے فوراً جواب دیا،

ابے نالے، بے روزگار! تیرے پاس کوئی کام نہیں؟ نالائقی کرنے کے سوا؟ بس فارغ بیٹھا موبائل ہی چلاتا رہتا ہے۔۔۔
اذلان کا فوراََ جواب آیا دانیال کے جواب کے ریپلائے میں۔۔۔

زیادہ فری نہیں ہو تم؟

اذلان نے فوراً جوابی وار کیا۔
تو ہوگا فری۔۔۔ میں تو فری ہو بھی نہیں سکتا۔

مار دوں گا دونوں کو! میری بات سنو۔۔۔
ابرار کا میسج گروپ چیٹ میں پھر سے نمودار ہوا

اذلان کی بے نیازی جُوں کی تُوں تھی۔
بولے گا تو سنیں گے ناں۔۔۔

ابرار کا میسج فوراََ آیا۔۔۔
ابھی دس بج رہے ہیں بھائی۔۔۔ بارہ بجے سوتے ہیں۔ ابھی گیارہ  بجے بھائی کے کمرے میں جا کر بولیں گے اُن سے۔۔۔

دوبارہ دھرنا ہوگا؟ یوسف کا پیغام آیا

نوائس۔۔۔ بورڈ وورڈ لے لوں میں؟
دانیال نے پوچھا۔

ابرار کی انگلیاں جیسے موبائل کی اسکرین پر غصے سے تھرکنے لگیں۔
تو نا۔۔۔ پٹے گا مجھ سے۔۔۔

کون؟ میں؟
دانیال کی معصومیت کا خول اب بھی برقرار تھا۔

ابرار نے لفظوں کی چھڑی چلائی
نہیں، تیری پھپھو۔۔۔

دانیال نے معصومیت سے سر ہلایا۔
لیکن میری تو کوئی پھپھو ہی نہیں ہے۔۔۔
مُوئے مُوئے۔۔۔

مُوئے مُوئے۔۔۔
یوسف نے بھی موئے موئے کا قہقہے میں ساتھ دیا۔

یہ بتاؤ، بھائی کے روم میں جا کر کریں گے کیا؟
ارسل نے پوچھا،

ابے نالے! بولا نا، دھرنا دیں گے۔۔ یوسف کا پیغام آیا

لیکن کس چیز کا؟ ارسل کا پیغام آیا۔۔

ارحم کا میسیج آیا
اُس لڑکی کو نکالنے کا۔۔۔

اوہ… آئی سی…
ارسل نے سادہ سا مگر سب کچھ سمجھ جانے والا جواب دیا۔

ہاں چلو پھر۔۔۔ ابرار بولا

سلے تیرے کو اتنا ماروں گا نا۔۔۔ ابرار کے میسیج پر ہی اذلان کا میسج فوراََ آیا

اب کون سی موت پڑ گئی تیرے کو؟
ابرار کا میسیج آیا

پاگل انسان! تُو ابھی بولا تھا کہ ابھی دس بجے ہیں، اور گیارہ بجے جائیں گے۔ تو ابھی کیوں جانے کو کہہ رہا ہے؟ اذلان نے ساتھ غصے والا ایموجی بھی ساتھ سینڈ کیا۔۔۔

اوہ ہاں!  گیارہ بجے چلیں گے۔۔۔ جب تک، سب اپنا اپنا کام کرلو۔ جس کو جو کرنا ہے۔ ابرار کا میسج آیا

اس میسیج کے بعد گروپ چیٹ ختم ہوگئی،
دانیال نے تیزی سے انگلیاں چلائیں، اور فوراً انسٹاگرام کھول لیا۔ اور اپنی سٹوری، ممیز، اپنے ویڈیو پر لائک کتنے آئے کونسی ویڈیو وائرل ہوئی وہ اپنی انسٹا کی دنیا میں مشغول ہوگیا۔۔۔

دوسری طرف یوسف، جو ابھی کچھ دیر پہلے دھرنا دینے کے لیے بالکل تیار لگ رہا تھا، اب تیزی سے اپنی گرل فرینڈ کو ریپلائے کرنے میں مشغول ہوگیا۔۔۔

اذلان فون سائڈ پر رکھا خاموشی سے اٹھا اور  اپنے کمپیوٹر کے سامنے جا بیٹھا۔ مانیٹر کی نیلی روشنی اس کے چہرے پر عجیب سنجیدگی کا عکس ڈال رہی تھی۔ اور وہ اپنے کام میں گھوم ہوگیا۔۔۔

اور اُدھر ارسل، آہستگی سے اُٹھا، اور بغیر کچھ کہے ارحم کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ اب ان دونوں کے درمیان وہی روایتی ڈیلی روٹین کی باتیں ہونی تھیں۔
کیا کیا پورا دن۔۔؟؟  کہاں گئے۔۔۔، آج یہ کیا۔۔۔ آج میں نے  وہ کیا۔۔۔ کچھ اپنا بتاتا کچھ اُس کا سنتا۔۔۔۔ اور کچھ بے معنی مگر دل کے قریب باتیں۔۔۔ جو دنیا کو فالتو لگتیں، مگر انہیں سکون دیتیں۔
اور پھر۔۔۔
ابرار۔۔۔۔
وہ فون سائڈ پہ رکھ کر خاموش ہو گیا۔
باہر رات کی ہوا خاموشی سے کھڑکی سے ٹکرا رہی تھی، جیسے اُسے بھی اُس کے دل کا حال معلوم تھا۔۔۔۔
اور پھر وہی اوورتھینکنگ جو ہر رات سونے سے پہلے وہ کرتا تھا۔۔۔۔

++++++++++++++

رات کے کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے کی خاموش پناہ گاہ میں بستر پر نیم دراز تھا۔۔ کمرے کی مدھم روشنی میں اس کا چہرہ اداس سا لگ رہا تھا۔ بظاہر سب کچھ معمول پر تھا، لیکن اس کا دل، اس کا دماغ۔۔۔ مکمل طور پر حیات کی سوچ میں الجھا ہوا تھا۔

کیا میں  نے اُسے کچھ زیادہ ہی نہیں بول دیا؟
امن کی خود سے یہ سرگوشی اُس کی بےچینی کی عکاس تھی۔
کیا حیات واقعی میرے آفس میں کام کرنے کے لائق نہیں؟

مگر فوراً ہی ضمیر نے سر اٹھایا
غلطی اُس کی بھی تھی، لیکن… اُس کا نیچر ہی ایسا ہے،

وہ باتیں، وہ مکالمے، سب کچھ ایک فلم کی طرح امن کے ذہن میں چل رہے تھے۔
لیکن اُسے زبان سنبھال کر بات کرنی چاہیے تھی… اگر اُس وقت ابرار کی جگہ کوئی اور ہوتا تو؟

اسے سوچ کر جھرجھری سی آئی۔
پورے بزنس کی دنیا میں جو عزت برسوں میں کمائی تھی، وہ ایک لمحے میں چلی جاتی۔

لیکن اُس نے کہا تھا کہ اُس نے پہلے پیار سے پوچھا تھا…ابرار بھی تو غصے کا تیز ہے اُس نے سنی ہی نہیں ہوگی اُس کی بات۔۔۔
امن کو یاد آیا، اُس کی آنکھوں میں واقعی حیرانی تھی، نہ کہ گستاخی۔

اور اگر وہ واقعی ضد پر آ گیا تھا تو… پھر بھی حیات کو آرام سے بات کرنی چاہیے تھی۔۔۔

یہی سب سوچیں اُس کے ذہن میں گھومتی رہیں، جیسے اندھیری رات میں بادل چپکے چپکے گرج رہے ہوں۔

کیا حیات کو واقعی میری باتیں بری لگیں؟
یہ خیال دل میں آیا تو جیسے سینے میں خالی پن سا اُتر گیا۔

لگا تو ہے… تبھی تو اُس نے بحث نہیں کی… ورنہ اُس کے پاس تو میرے ہر سوال کا، ہر جملے کا جواب ہمیشہ تیار ہوتا ہے۔۔

وہی حیات، جو کبھی بات بات پر اُلٹا جواب دیتی تھی، اُس روز خاموش ہو گئی تھی۔

اور اُس نے کہا تھا… کہ اُسے شوق نہیں ہے میرے آفس میں کام کرنے کا۔۔۔

یہ جملہ بار بار گونج رہا تھا، جیسے کوئی تیز ہوا بار بار دروازہ بجا رہی ہو۔

کیا کروں اب؟… فون کروں؟
اُس نے خود سے پوچھا، جیسے دل سے اجازت مانگ رہا ہو۔

نہیں… اتنی رات کو فون کرنا عجیب لگے گا۔
پھر بولا
میسج کر دیتا ہوں… مگر اگر اُس کا موبائل اُس کی مما کے پاس ہوا تو؟

خود کو ٹوکتے ہوئے اُس نے پھر سوچا
خیر… جو ہو گا دیکھا جائے گا…

بالآخر، دل پر جمی برف کو توڑتے ہوئے، اُس نے بمشکل موبائل اُٹھایا۔ چیٹ کھولی، اور اگلے لمحے، ایک دھچکے نے اُسے مکمل ساکت کر دیا۔

حیات نے… مجھے بلاک کر دیا؟

یہ… یہ کیا حرکت ہے؟
اُس نے بمشکل خود سے کہا۔

کوئی امن جنید خان کو کیسے بلاک کر سکتا ہے؟
اُس کے لہجے میں خفگی تھی، اور شاید ہلکی سی بے یقینی بھی۔

میں بھی بات نہیں کروں گا… جائے بھاڑ میں! ایک تو غلطی بھی اس کی… اور اوپر سے مجھے ہی قصوروار بنا دیا۔
وہ بظاہر غصے میں تھا، مگر اندر کہیں دکھ کی دھند گہری ہوتی جا رہی تھی۔

اتنے میں دروازہ کھلا۔اور سارے بھائی ایک ایک کر کے اندر آئے اور ابرار آتے ساتھ پھک پڑا۔۔۔

ہاں تو بھائی، تم نے کیا سوچا؟
اُس کی آواز میں وہی ضد تھی جو اکثر چھوٹے بھائیوں کی ناراضی میں چھپی ہوتی ہے۔

کس بارے میں؟

ابرار نے پلکیں سخت کر کے کہا
اُس لڑکی کو نکالنے کے بارے میں…

امن نے گہری سانس لی،
میں نے کہا نا، غلطی اُن لوگوں سے ہوئی تھی، اب میرا دماغ خراب مت کرو۔۔۔

ابرار کو یہ جواب ناگوار گزرا۔ وہ اب پوری ضد کے ساتھ بولا
ہاں بھائی، ہو گئی غلطی، ختم! اب نکال دو اُسے۔ مجھے نہیں پتا کچھ بھی۔۔۔

امن کا لہجہ اب تلخ ہو چکا تھا
ہاں ہاں، سب کو نکال دوں! سارے ایمپلائیز کو فارغ کر دوں! پھر تم سے کام کروا لوں، ٹھیک ہے؟

ہاں! بس مجھے نہیں پتا۔۔۔ وہ کچھ سنے کو تیار ہی نہیں تھا

امن نے بھی آگے سے لاپرواہی سے کہا
تو مجھے بھی نہیں پتا۔۔۔

خاموشی کا ایک لمحہ آیا، اور پھر ایک دھماکہ خیز جملہ
ہاں تو پھر ٹھیک ہے! مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے، نہیں ہوں میں کوئی تمہارا بھائی وائی۔۔۔
ابرار غصے میں چیختے ہوئے اپنے کمرے کی طرف مڑا اور دروازہ اتنے زور سے بند کیا کہ ساری دیواریں گونج اٹھیں۔

کمرے میں جیسے خاموشی کی چادر تن گئی ہو۔

امن نے بے بس ہو کر سر جھٹکا
عجیب ڈراما ہے اس کا…
پھر باقی بھائیوں کی طرف مڑا جو کونے میں کھڑے تھے، تجسس اور الجھن سے بھرے چہروں کے ساتھ۔

تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟ جاؤ، اپنا کام کرو۔ میں دیکھ لوں گا اِسے۔ امن غصے سے سب کو گھورتے کہا

ارحم نے آہستہ سے پوچھا،
بھائی… اُس لڑکی میں ایسا کیا ہے… جس کی وجہ سے تُم اپنے  بھائی کو ناراض کر رہے ہو؟ ابرار بول رہا ہے تو نکل دو اُس کو۔۔۔۔

ارسل نے بھی بھنویں چڑھائیں اور سوال دہرایا، مگر طنزیہ انداز میں کہا
ہاں، ایسے بھی کون سے ہیرے جَڑے ہوئے ہیں اُس میں؟ تُم کو ہزار ایمپولائے مل جائے گے اُس سے اچھے۔۔۔

تم لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے نا، تو جا کے اپنا کام کرو۔ میں دیکھ لوں گا…
وہ تھکن سے بولا۔

کل جا کے دیکھوں گا اُس لڑکی کو… یوسف بولا۔۔

ہاں میں بھی جاؤں گا… دانیال بھی فوراََ بولا۔۔

امن نے سرد نگاہوں سے دونوں کو دیکھا،
دونوں چپ چاپ جا کے سو جاؤ۔ صبح یونی جانا ہے تم لوگوں کو۔۔۔

دانیال نے سر جھٹکا،
ایک تو یہ سالا دُکھ کیوں ختم نہیں ہوتا…

یوسف نے زیرِ لب ایک لمبی سانس لی
پتہ نہیں…

امن نے اب سخت لہجے میں کہا
دونوں جا رہے ہو یا نہیں؟

دانیال ہارے ہوئے سپاہی کی طرح بولا
جا رہا ہوں بھااااااااائی…
اور پھر وہ دونوں خاموشی سے کمرے سے نکل گئے۔

اذلان اب کمرے میں رکا تھا، تکیے سے کھیلتا، دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا، نظریں کبھی چھت پر، کبھی امن پر۔

اب؟
بس ایک لفظ، مگر سوال ہزار۔

امن نے اُس کی طرف دیکھا،
اب یہ کہ تم بھی جاؤ… اور جا کے سو جاؤ۔

بھائی… نکال دو نا اُس لڑکی کو، کیا مسئلہ ہے؟
اذلان بولا

امن نے تھک کر سر جھٹکا، جیسے سینے میں کچھ رُک گیا ہو۔۔
ہاں، میں اسے یوں ہی، بغیر کسی بڑی بات کے نکال دوں؟ سارے اچھے ایمپلائیز کو یوں ہی نکالتا رہوں تو چلے گا میرا آفس؟

اور کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے… ابرار بھی کم نہیں ہے، وہ بھی بہت اُلٹا سیدھا بول کر آیا ہے وہاں۔
یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کو رُکا،
اب اُن لوگوں کی کیا غلطی کہ انہوں نے اسے پہچانا نہیں؟ ابرار کو بھی تو فون کر کے آنا چاہیے تھا نا۔

اذلان کچھ نہ بولا۔

ہاں، صحیح بول رہے ہو…  ارحم بولا وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
امن کے انداز، لہجے، اور ہر لفظ کو وہ نوٹ کر رہا تھا۔
ارحم کے ذہن میں ایک الجھی سی سوچ تھی، ایک سوال، جو بار بار پلٹ کر اُسے چبھ رہا تھا۔
امن تو ہمیشہ اپنے بھائیوں کی طرفداری کرتا تھا… چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں، چاہے اسے ڈانٹنا پڑے، مداخلت کرنی پڑے، پر وہ آخر میں اُن کے ساتھ ہوتا تھا۔
لیکن آج؟
آج وہ… ایک لڑکی کے لیے اپنے بھائیوں سے بھیڑ لے رہا تھا۔
کوئی تو بات ہے اس لڑکی میں… کچھ خاص… کچھ ایسا، جو امن کو اُس میں نظر آتا ہے…

پاس کھڑا ارسل اب برداشت سے باہر ہو چکا تھا۔
چہرے پر غصہ، لہجے میں تیکھی ناقدری تھی
عجیب ہے… ایک لڑکی کو نکالنے میں موت آ رہی ہے تم کو۔۔۔
اور یہ کہتے ہوئے وہ پلٹا، اور بھاری قدموں سے کمرے سے باہر چلا گیا۔

امن اب ان دونوں — اذلان اور ارحم — کی طرف متوجہ ہوا، جن کی آنکھوں میں اب بھی سوال تھے، مگر ہونٹوں پر خاموشی۔

اب تم دونوں بھی جاؤ۔
آواز مدھم تھی، جیسے دل تھک چکا ہو۔

اذلان نے ایک آخری کوشش کی — اس بار سختی نہیں، محبت سے، نرمی سے کہا
بھائی… نکال دو نا اُس کو… پلیز…

جا کے سو جاؤ۔
بس اتنا کہہ کر اس نے آنکھیں چرا لیں۔

اذلان کا صبر ٹوٹ گیا، لہجہ بلند ہو گیا۔۔
ایسی بھی کونسی چاند کی ملکہ ہے وہ جو اُسے نہیں نکال سکتے تم؟

اب کے ارحم فوراً بیچ میں آیا،
چھوڑ دے نا، بھائی کا اور ابرار کا معاملہ ہے، تُو کیوں بیچ میں پڑ رہا ہے؟ چل۔۔۔
اور وہ اذلان کو کھینچتے ہوئے باہر لے گیا۔

دروازہ بند ہوا۔ سب چلے گئے۔

امن کمرے میں اکیلا رہ گیا —

وہ بستر پر لیٹ گیا، آنکھیں بند کیں…
لیکن نیند آج بھی اس سے روٹھ گئی تھی۔

بےصدا رات میں دل نے صدا دی چپکے سے —
قصور تیرا نہیں، مگر درد میرا کیوں ہے؟

+++++++++++++

اگلی صبح سورج کی کرنیں کھڑکی کے پردوں سے جھانک کر کمرے میں داخل ہو رہی تھیں۔ امن حسبِ معمول وقت پر بیدار ہوا، تیار ہو کر نیچے ناشتے کی میز پر آ بیٹھا۔ وہ خاموشی سے کافی کا کپ اُٹھانے ہی لگا تھا کہ سیڑھیوں سے قدموں کی آواز آئی۔

ابرار کمرے سے نکلا اور نیچے آ کر لاؤنج عبور کرتا ہوا میز کے قریب پہنچا۔

سارا بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
اَئے، آج تو جلدی اُٹھ گیا تُو۔۔۔۔

ابرار نے بے دلی سے کہا
ہاں، ایک ضروری میٹنگ تھی دادی… اسی لیے۔

اَچھا؟ آ، ناشتہ کر لے۔ سالما۔۔ ابرار کا ناشتہ لے آ۔۔۔

ابرار نے جلدی سے کہا
نہیں دادی، میں جا رہا ہوں، آفس میں ہی کر لوں گا ناشتہ۔

سارا بیگم نے بنا تاثرات بدلے کہا
اَئے! گھر سے بغیر کچھ کھائے نہیں نکلتے۔۔۔
یہ بات وہ یونہی نہیں کہہ رہی تھیں، یہ امن کی نظروں کا خاموش اشارہ تھا جس پر وہ جان بوجھ کر سختی سے بولی تھیں۔

ابرار نے زچ ہو کر کہا
ارے یار دادی۔۔۔

سارا بیگم  نے اب ذرا اونچے لہجے میں کہا
اَئے! ہم تیرے یار ہیں؟! چُپ چاپ بیٹھ کر ناشتہ کر، ساری تمیز لحاظ بھول گیا ہے۔ ابھی تیرے دادا اور ابا کو بتاتی ہوں۔۔۔

ابرار نے جھنجھلا کر کہا
دادی… مجھے لیٹ ہو رہا ہے۔۔۔

سارا بیگم  نے دو ٹوک لہجے میں کہا
تجھے ایک بار میں بات سمجھ نہیں آتی؟ چُپ چاپ بیٹھ جا۔۔۔

ابرار نے سر جھکا کر کہا
اچھا… دادی۔
اور وہ میز کے ایک کونے پر بیٹھ گیا، جیسے مجبوری میں ہار مان لی ہو۔

امن نے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے نرمی سے کہا
ابرار، ایک بات سنو۔

ابرار نے سخت لہجے میں کہا
مجھے کچھ نہیں سننا۔

میٹنگ کے بعد میرے آفس آ جانا۔ چُپ چاپ سے، ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔ سخت دو ٹوک لہجہ میں کہا۔۔۔

ابرار نے منہ بناتے ہوئے کہا
اچھا ہو کب رہا ہے؟

تو برا بھی نہیں ہو رہا۔ امن نے ابرار کو گھورتے کہا۔۔

ابرار نے تلخ انداز میں کہا
تو؟

تو یہ کہ اگر تم نہیں آئے، تو برا ہو سکتا ہے۔۔ اور جب امن ایسے وائرنگ تمہیں دے تو تمہیں اُس کی بات مان لینی چاہیے۔۔۔

عجیب زبردستی ہے۔۔۔ غصّے سے کہا گیا

امن نے سنجیدگی سے کہا
ہاں، زبردستی ہے۔ بڑا بھائی ہوں تمہارا۔ پیار سے نہیں مانو گے تو زبردستی ہی کرونگا۔۔

ابرار نے میز سے نظریں ہٹا کر کہا
عجیب… میں ویسے بھی نہیں آؤں گا۔۔۔

دو بجے، ٹھیک ہے۔۔۔
اور یہ کہتے ہوئے وہ اپنی گاڑی کی چابیاں اُٹھا کر دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

سارا بیگم نے ابرار کی طرف دیکھ کر مسکرا کر کہا
اَئے، جا نا… اچھا ہے، اپنی بھابھی کو بھی دیکھ لینا۔

ابرار نے رُک کر سارا بیگم کی طرف چونک کر دیکھتا ہے
بھابھی…؟

سارا بیگم نے پھر سے کہا
ہاں بھابھی۔۔۔

ابرار نے حیرت سے کہا
دادی! کیا بول رہی ہیں آپ؟ آپ کو پتہ بھی ہے؟

سارا بیگم نے ابرو چڑھاتے ہوئے کہا
اَئے! ہاں مانا ہم بڈھے ہو گئے ہیں، لیکن ابھی ہمارا دماغ خراب نہیں ہوا کہ جو منہ میں آئے بول دیں۔۔۔

ابرار نے شک میں پڑے ہوئے کہا
تو… بھابھی کہاں سے آ گئیں؟ اوہ اچھا! کیا زاویار نے لڑکی پسند کر لی؟

سارا بیگم نے زچ ہو کر کہا
اَئے! نہیں! امن کی بھابھی۔۔۔

ابرار نے اور بھی الجھ گیا۔۔
امن بھائی کی… بھابھی؟
وہ جیسے خود سے سوال پوچھ رہا تھا، کیونکہ بات اس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔

سارا بیگم خود بھی گڑبڑا گئی۔۔۔
اَئے ہاں، مطلب امن کی ہونے والی بیوی، مطلب… تیری، تیرے سارے بھائیوں، حتیٰ کہ زاویار کی بھی بھابھی۔۔

ابرار نے ایک دم چونک کر کہاں
ہہ… ہیـــن؟

اَئے ہاں۔۔۔

ابرار نے اب نیم فکاہیہ اور نیم صدمے میں کہا
تو کون ہے وہ…؟ بھائی نے خود پسند کی ہے؟

اَئے ہاں! جا کے دیکھ لے خود ہی آفس میں، تو سب سمجھ جائے گا۔۔۔
یہ کہہ کر سارا بیگم اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔ وہ جا تو رہی تھیں لیکن ابرار کے دماغ میں ہلچل چھوڑ گئی تھیں۔

ابرار نے اپنے آپ سے بڑبڑاتے ہوئے کہا
بھائی نے لڑکی پسند کر لی… سیریسلی؟ بھائی نے؟
(یہ وہ بھائی تھا جو جذبات کی شدت سے دور، ہر بات میں اصول و ضوابط کی کتاب کھول کے بیٹھا رہتا تھا۔)

وہ ایک لمحہ وہیں بیٹھا رہا، نظریں سارا بیگم کے بند ہوتے دروازے پر ٹکی ہوئی تھیں، جیسے دروازے کے پار اسے وہ بھابھی نظر آ جائے گی جس کا تذکرہ آج پہلی بار سننے کو ملا تھا۔

+++++++++++++

دن کی روشنی پوری طرح پھیل چکی تھی، اور آسمان پر بادلوں کی ہلکی سی تہہ سورج کی تمازت کو نرم کر رہی تھی۔ اسی ہلکی روشنی میں، ایک سیاہ گاڑی شہر کی شاہراہ پر روانی سے بہہ رہی تھی۔ گاڑی کے اسٹیئرنگ پر بیٹھا شخص نہایت خاموش، پر سکون، اور مکمل توجہ سے گاڑی چلا رہا تھا۔

یہ ابرار جنید خان تھا — جو آج کے نوجوان انویسٹرز میں سب سے منفرد، سب سے نمایاں تھا۔
بڑے بڑے معاہدے، بااثر شخصیات، مشکل فیصلے اور نازک لمحات — سب کچھ وہ اکیلا سنبھالتا تھا۔

نہ اس کے ساتھ کوئی اسسٹنٹ ہوتا، نہ کوئی مینیجر، اور نہ ہی کوئی ایڈوائزر۔ وہ جس میٹنگ میں بھی جاتا، تنہا جاتا۔۔۔

اور حیرت کی بات یہ تھی کہ اتنی بڑی کمپنی، جس کا دائرہ یورپ، خلیج اور جنوبی ایشیا تک پھیلا ہوا تھا — اس میں آج تک کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا تھا۔

لوگ حیران ہوتے، سوال کرتے۔۔۔
آخر کیسے؟ ایک شخص، جو اکیلا فیصلے کرتا ہے، جس کے ساتھ کوئی ٹیم نہیں ہوتی… اس کے فیصلے غلط کیوں نہیں ہوتے؟ وہ جس کمپنی میں جہاں بھی انویسٹمنٹ لگتا وہاں اُسے فائدہ ہی فائدہ ہوتا تھا۔۔۔

جواب بہت سادہ تھا — ابرار کی حکمت، گہرا مشاہدہ، اور غیر معمولی اندازِ معاملہ فہمی۔

ابرار کبھی کوئی ایسی ڈیل نہیں کرتا تھا جس میں صرف نفع یا نقصان کا ترازو ہو، بلکہ وہ ہر ڈیل کو ایک جنگ کی طرح دیکھتا — جہاں اگر سامنے والا دغا دے بھی دے، تو تلوار خود اسی کے سینے میں پیوست ہو۔

اس کی کمپنی کی ڈیلز یوں ڈیزائن ہوتی تھیں کہ اگر سامنا کرنے والا فریق غلطی کرے، جھوٹ بولے یا وعدہ خلافی کرے — تو قیمت اسی کو چکانی پڑے، ابرار یا اس کی کمپنی کو نہیں۔

بعض لوگ کہتے تھے
نہیں، لوگ ابرار کے غصے سے ڈرتے ہیں، کوئی اس سے دھوکہ دینے کی جرات ہی نہیں کرتا۔

لیکن سچ یہ تھا کہ
ابرار کا جلال نہیں، اس کی بصیرت زیادہ خوفناک تھی۔

اسی بصیرت نے ابرار کو اکیلا شہسوار بنا دیا تھا — جو بظاہر تنہا تھا، مگر اپنی سوچ، مہارت اور انداز سے پوری دنیا کے سرمایہ کاروں پر بھاری تھا۔

اور آج بھی — حسبِ معمول، وہ ایک اہم میٹنگ کے لیے روانہ تھا۔ لیکن شاید آج کا دن معمول سے مختلف ہونے والا تھا… کیونکہ ابرار کے دماغ میں صرف بزنس نہیں چل رہا تھا… بلکہ بھائی امن، دادی کی باتیں، اور بھابھی کا ایک حیرت انگیز تاثر بھی کہیں گہرا بیٹھ چکا تھا۔

وہ ابھی ایک موڑ پر مڑا ہی تھا کہ اچانک…

چشمانِ حیرت سے جا کر ٹکرایا تقدیر کا لمحہ۔۔۔

ایک لڑکی، نہایت بے فکری سے موبائل دیکھتے ہوئے عین اس کی گاڑی کے سامنے آ گئی۔
اگلے ہی لمحے، ٹائروں کی چیخ سڑک پر سنائی دی اور گاڑی ایک انچ کے فاصلے پر رُک گئی۔ وہ اپنی کار سے اُتر آیا۔۔۔

لڑکی کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا اور بغیر ایک پل ضائع کیے برس پڑی
آنکھیں بند کر کے گاڑی چلا رہے ہیں کیا؟ اندھے ہیں آپ ؟! حالانکہ غلطی اسی کی ہی  تھی،

وہ جو ہمیشہ پلٹ کر دو سنا دیتا تھا، آج خاموش کھڑا تھا… جیسے گنگ ہو گیا ہو۔

بولتے کیوں نہیں؟ گاڑی چلانی نہیں آتی تو لے کیوں رکھی ہے؟ اگر مجھے لگ جاتی تو؟ اگر میں مر جاتی تو؟ میری پڑھائی ابھی مکمل نہیں ہوئی… مجھے نوکری کرنی ہے، شادی کرنی ہے، میری ماں، میری فیملی… میری بیسٹ فرینڈ…
وہ بولتی گئی، چیختی گئی، اور وہ ابرار بس چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ جیسے کسی اور ہی دنیا میں کھو گیا ہو۔

یہ وہی ابرار تھا جو کسی کی بات برداشت نہیں کرتا تھا۔ جسے اگر غلط کہا جائے تو آگ بگولا ہو جاتا تھا۔
لیکن آج؟  آج وہ کیوں چپ تھا؟ آخر اس لڑکی کی باتوں میں ایسا کیا تھا…؟

بولتے کیوں نہیں؟ گونگے ہیں کیا؟!

وہ مسلسل بولے جا رہی تھی، اور ابرار؟
وہ… بس دیکھے جا رہا تھا۔

کسی ٹی ڈی والے کو دے دیں یہ گاڑی، آپ سے نہیں سنبھلتی تو۔۔۔

کیا گونگے ہیں آپ؟ وہ پھر چلائی، میرا وقت ہی ضائع ہو رہا ہے یہاں، جائے یہاں سے گونگے انسان۔۔۔

یہ کہہ کر وہ قدموں کی چاپ چھوڑتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
اور ابرار؟
اُس کے جانے کے بعد ہی وہ واپس اپنی کار میں آبیٹھا، اور خاموشی سے میٹنگ کے لیے نکل گیا۔

+++++++++++

آفیس کا ماحول معمول کے مطابق تھا، فائلیں، کمپیوٹر کی چمک، اور وقت کی تیز رفتار ٹک ٹک — لیکن آج اس فضا میں ایک عجیب سی خاموشی گونج رہی تھی۔

حیات آفیس تو آئی تھی، مگر آج کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ نہ وہ امن سے بحث کر رہی تھی، نہ اپنی عام سی شوخ باتوں میں الجھی ہوئی تھی۔ بس چپ چاپ اپنی جگہ پر بیٹھی فون میں مگن تھی۔ آنکھوں میں خاموشی تھی اور چہرے پر سنجیدگی کی ایک دبیز تہہ۔

امن نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا —
ہممم…ہمم…

جی…؟
اس نے پلکیں اٹھا کر دیکھا، لہجہ نرم مگر سرد تھا

مجھے کافی چاہیے۔
حالانکہ ابھی اس کا کافی کا وقت نہیں تھا، مگر وہ صرف اُسے باتوں پر لانے کی کوشش کر رہا تھا — کہ شاید وہ کوئی نوکیلا جواب دے،

براؤن یا بلیک؟

امن چند لمحے کے لیے ساکت رہ گیا۔
جیسے کسی نے اُسے زور سے جھنجھوڑ دیا ہو۔
یہ کیا؟
یہی حیات ہے؟
بغیر کسی مزاحمت کے، سیدھا سوال؟

ہہ… بلیک کافی لے آؤ…
شاک کی کیفیت میں بولا

اچھا، لاتی ہوں۔
خاموشی سے اٹھ کر باہر چلی گئی

دروازہ بند ہوا تو امن نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ اس کا دل بے چین ہو رہا تھا۔

امن دل میں سوچتے ہوئے
کیا اُسے واقعی میری کل رات والی بات بری لگ گئی؟

+++++++++++++

ابرار نے جیسے ہی اپنی گاڑی آمن کے آفس کی پارکنگ میں روکی، اس کی نگاہ ایک شناسا سی شبیہ پر جا ٹھہری —
وہی لڑکی… جو آفیس جاتے وقت اُس کے سامنے آگئی تھی۔۔۔

وہ لڑکی ایک کار کے پاس کھڑی، موبائل پر مصروف تھی۔

ابرار ایک پل کو وہیں ساکت ہو گیا۔
وہ لمحہ، وہ منظر… بس دل میں اترتا جا رہا تھا۔

پھر اچانک وہ چونکا، جیسے کسی خواب سے جاگا ہو۔ اس نے جیب سے موبائل نکالا اور امن کو کال ملائی۔

ابرار نے فون پر، مدھم لہجے میں کہا
ہیلو… میں تمہارے آفس کے باہر ہوں۔

امن نے بغیر سوچے سمجھے کہا
ہاں تو آ جاؤ، میں کیبن میں ہوں۔

ابرار نے رک کر کہا
میں تم سے ملنے نہیں آیا۔

امن نے حیرت سے کہا
تو…؟

ابرار نے سیدھے لہجے میں کہا
میں بھابھی سے ملنے آیا ہوں…

ایک پل کو امن کی سانسیں رک گئیں۔

امن نے چونک کر کہا
ک… کیا…؟

ہاں، دادی نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔ تو تم یہ غلط فہمی دل سے نکال دو کہ میں تم سے ملنے آیا ہوں۔

اچھا، آ جاؤ…
فون بند ہوتے ہی امن نے سر تھام لیا۔

یااللہ… اب کیا کروں…
وہ بڑبڑایا۔

کل ہی تو اس کی اور حیات کی تلخ تکرار ہوئی تھی۔
الفاظ کا وہ زہر جو نہ صرف دلوں میں اتر گیا تھا، بلکہ خود امن کو بھی بےچین کر گیا تھا۔
اور اب…
آج…
اگر ابرار کو یہ معلوم ہو گیا کہ وہی لڑکی، جسے وہ کل “نکال دو” کے لفظوں میں رد کر چکا تھا…
وہی، جو اسے اپنی انا کی راہ میں رکاوٹ لگی تھی…
اب وہی اُس کے بڑے بھائی کی منتخب کردہ شریکِ حیات ہے…
تو کیا ہوگا…؟

+++++++++++

حیات ہاتھ میں کافی کا کپ لیے امن کے کیبن کی طرف بڑھ رہی تھی۔
چلتے چلتے اچانک اس کی نظریں جم گئیں… اور قدم جیسے زمین میں دھنس گئے۔

سامنے…
کاؤنٹر کے قریب،
وہی چہرہ —
ابرار…

ہنہ!!! یہ… یہ دوبارہ آ گیا؟

کپ کی گرمی ہاتھوں میں تھی، لیکن اندر کہیں ایک ٹھنڈک اتر گئی۔
ایک خاموش خجالت،
ایک ان دیکھی کشمکش نے اسے وہیں روک دیا۔

حیات نے بے ساختہ اردگرد دیکھا، پھر اپنے آپ سے سرگوشی میں گویا ہوئی
کیا مجھے جا کے اس سے معافی مانگنی چاہیے…؟

وہ کافی کا کپ تھامے وہیں رک گئی، سوچوں میں گم، اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے۔

ہاں… ایک سوری تو بنتی ہے، کل بہت بدتمیزی کی تھی میں نے۔ لیکن اگر میں جا کے معافی مانگوں گی تو اس وحیات پارانی کو لگے گا کہ میں اُن کی وجہ سے سوری بول رہی ہوں۔۔۔

نہیں! میں نہ ان کی وجہ سے معافی مانگ رہی ہوں، نہ ہی نوکری سے نکالے جانے کے ڈر سے۔ بس… بس ویسے ہی۔ اخلاقی فرض سمجھ کے۔ پر اُنہیں تو یہی لگے گا نا کہ اُن کی وجہ سے سوری کہا ہے… کیا کروں؟

پھر وہ ہلکے سے کندھے اچکائی ، جیسے فیصلہ کر بیٹھی ہو۔

چلو چھوڑو، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جا کے کہہ ہی دیتی ہوں، ایک سوری ہی تو ہے۔

یہ کہتے ہوئے اُس نے ایک فیصلہ کیا،
اور اپنے ہاتھ کا کافی کپ وہیں پاس بیٹھے فائلوں میں گھوم  ایمپولے کی طرف بڑھا ۔۔۔
یہ لو، پی لو۔

لیکن مس میں۔۔۔ یہ تو۔۔۔ وہ حیران پریشان حیات کا چہرا دیکھتے گویا ہُوا۔۔

کہا نہ پی لو، چپ چاپ۔ زیادہ ڈرامے مت کرو۔
حیات نے خفکی سے کہا

ج… جی…
بے اختیار کپ تھام لیا۔۔

حیات مسکرا کر، آہستہ سے کہا
ہُمم… گڈ

اور وہ اپنے قدم دوبارہ آگے بڑھا دی — دل میں الجھن، آنکھوں میں سوال، اور چہرے پر وہی ضدی مسکراہٹ جو صرف حیات کی پہچان تھی۔

++++++++++

امایہ مسلسل اپنی گھڑی کی طرف دیکھ رہی تھی ہر گزرتا لمحہ اُس کی بےچینی میں اضافہ کر رہا تھا۔ موبائل ہاتھ میں تھا، لیکن حیات کی طرف سے نہ کوئی کال، نہ کوئی میسج۔

امایہ نے تنگ آ کر خود سے کہا
یہ اب تک آئی کیوں نہیں؟ کال بھی اٹھا نہیں رہی… آخر مسئلہ کیا ہے؟

اس نے ایک گہرا سانس لیا، جیسے اپنے دل کو تسلی دے رہی ہو، مگر بے سود۔
نہیں، اب اور انتظار نہیں کر سکتی… خود ہی جا کر دیکھتی ہوں۔

++++++++++++++

ابرار ریسیپشن پر بیٹھی ذرا سے سخت لہجے میں کہا
بھائی کو بلاؤ… باہر۔

زارا جلدی سے فوراً بولی۔۔۔
ج… جی سر… آپ تشریف رکھیں، میں ابھی باس کو بلاتی ہوں…

ابرار نے ابرو چڑھا کر، حکم والے انداز میں کہا
ہمم… جلدی۔

پھر وہ نرمی سے مڑ کر  ایک کونے میں پڑے صوفے پر بیٹھ گیا

امايہ  آفیس میں داخل ہوئی اور آہستہ آہستہ زارا کے پاس آئی،
سُنیں…

زارا نے فوراََ اُس کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔
ج… جی مم؟

ابرار کی نظر ریسیپشن پر کھڑی لڑکی کی طرف اُٹھی
یہ… یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟ وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔۔۔۔

مجھے حیات سے ملنا ہے… امایہ نے زارا سے کہا۔۔

ابھی زارا کچھ کہتی،  امایہ کی نگاہ اچانک بیٹھے ابرار پر جا پڑی۔
اُس کا چہرہ تھوڑا سا کھل گیا، لیکن حیرت کے ساتھ۔

امايہ دل ہی دل میں بڑبڑاتی ہوئی
یہ… یہ یہاں؟ اوہ! تو یہ اُن کا ہی آفیس ہے؟

زارا نے پیشہ ورانہ انداز میں پوچھا
آپ کو کیوں ملنا ہے مِس حیات سے؟

اوہو! مِس حیات واہ بھئی، بڑے ششکے چل رہے ہیں اِس کے یہاں۔ امايہ شوخی انداز میں گویا ہوتی ابرار کی طرف متوجہ ہو کر کہا

یہ آپ کا ہی آفس ہے نا؟ مجھے تو پہلے ہی شک تھا! تبھی آپ میری دوست کو چھٹی نہیں دے رہے! کب سے انتظار کر رہی ہوں میں اُس کا باہر پارکنگ میں… لیکن نہیں! آپ کو تو کسی کا خیال ہی نہیں۔
اب اُس کی آواز میں غصہ، مایوسی، اور تھوڑا بہت طنز گھُل گیا تھا۔

امایہ کی زبان اب اور  تیز ہوگئی۔۔۔
صحیح کہتی ہے حیات! آپ ایک نمبر کے ہارٹ لیس پرسن ہیں… مُردہ کہیں کے۔۔۔

لیکن اُس کے طعنے، اُس کے غصے، یہاں تک کہ اُس کی تیزی بھی ابرار کے چہرے پر کوئی تاثر نہ لا سکی۔
وہ اب بھی اُسی جگہ بیٹھا تھا — بالکل ساکت، بس نظریں تھیں جو امایہ کے چہرے پر جم گئی تھیں۔
نہ وہ پلک جھپک رہا تھا، نہ مسکرا رہا تھا، نہ ناراض… جیسے اُسے ہر بات سے فرق ہی نہ پڑتا ہو۔
یا شاید… جیسے وہ اُس میں کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔

امایہ نے اب زارا کی طرف مڑ کر، جھنجھلا کر کہا
یہ تم لوگو کے باس تھوڑے سے گونگے ہیں کیا؟

حیات اسی طرف آرہی تھی جب اُس کی نظر ابرار کے ساتھ کھڑی امایہ پہ پڑی۔۔۔۔
اوہ نو! یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟!

وہ قریب آئی، اور جھک کر آہستہ سے امایہ کے کان میں بولی
تم یہاں کیوں آئی ہو؟

امایہ نے بھنویں چڑھاتے ہوئے کہا
ابے آج طیبہ کا برتھ ڈے ہے نا! وہاں جانا ہے! بتایا تھا نا کل رات۔۔۔

اوہ نو… میں تو بھول ہی گئی۔۔۔

“تجھے یاد کیا رہتا ہے؟

حیات ہلکی سی مسکراہٹ دباتے ہوئے، سنبھل کر بولی
خیر… ابھی تو تم یہاں سے چلو، میں آفس کے بعد آ جاؤں گی تم لوگوں سے ملنے۔۔۔

امایہ نے ہونٹ سکیڑ کر، منہ بناتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے… جا رہی ہوں۔۔۔
پھر وہ زارا کو ایک نظر دیکھی ابرار کو مکمل نظرانداز کرتے ہوئے واپس پلٹ گئی۔۔۔

حیات نے ایک لمحے کو گہرا سانس لیا، پھر ذرا اور مایہ کی طرف مڑ کر، نارمل انداز میں بولی
تم دونوں اپنا کام کرو۔

مایہ نے نیم طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا
وہی کر رہے ہیں، تم ہی تو ۔

ہاں تو کرو کسی نے روکا ہے۔۔ اور تُمہاری زبان بہت چلتی ہے باس سے شکایت کرنا پڑے گا۔۔۔  حیات نے آنکھیں چھوٹی چھوٹی کرے غصے سے مایہ کو دیکھا۔۔۔

اچھا سوری۔۔۔ مایہ نے کہا اور نظرے چرا لی ایک تو سب کے سب اُس کے ہی پیچھے پڑے تھے۔۔۔

امایہ جا چکی تھی، زارا اور مایہ اپنے کام میں مصروف ہو چکی تھیں،
اور حیات اب دھیمے قدموں سے اُس صوفے کی طرف بڑھ رہی تھی جہاں ابرار بیٹھا تھا —
وہی ابرار، جس کی خاموش نگاہیں کسی معمولی بات کو بھی غیر معمولی بنا دیتی تھیں۔

حیات بنا کچھ کہے اُس کے سامنے والے صوفے پر آ کر بیٹھ گئی،
چہرے پر نرمی تھی، مگر اندر کچھ کہنے کی الجھن بھی۔
سنو…

ابرار نے بغیر تاثرات کے، نظریں جمائے کہا
کیا ہے؟ یہ تمہاری دوست تھی ابھی جو آئی تھی؟

حیات نے ہلکا سا سانس لے کر کہا
ہاں… اُسے چھوڑو۔ مجھے تم سے بات کرنی تھی۔۔۔

ابرار نے سیدھے لہجے میں کہا
ہاں تو کرو۔

حیات ایک لمحے کو رُکی، جیسے الفاظ چُن رہی ہو،
پھر ہمت کر کے بولی
وہ… کل کے لیے سوری… حیات کو نہیں پتا تھا کہ تم اُن کے بھائی ہو۔

ایک لمحے کی خاموشی۔

پھر ایک جملہ جو شاید حیات کو سننے کی توقع نہ تھی —
نہ انداز میں غرور، نہ ناراضی، بس سادہ الفاظ
ہمم… میری طرف سے بھی سوری۔ اسپاٹ لہجے میں سوری کہا گیا۔۔۔

یہ… یہ کیا؟ ابرار نے اپنی غلطی مان لی؟ وہ بھی اتنی آسانی سے؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ کل تک تو وہ غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا… تو آج یہ بدلاؤ…؟

حیات نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ اٹھایا، جیسے مذاق میں فیصلہ سنا رہی ہو۔
جاؤ، معاف کیا! کوئی بات نہیں، حیات کا دل بہت بڑا ہے۔”

ابرار نے گردن ذرا سا اکڑائی،
ہاں، میں نے بھی معاف کیا…

حیات نے مصنوعی احترام سے جھک کر کہا
شکریہ آپ کے معاف کرنے کا… حیات دھَنّے ہو گئی آپ کی۔۔۔

ابرار نے سر کو تھوڑا جنبش دے کر کہا
ہاں ہاں… بس ٹھیک ہے۔
گویا وہ سلطانِ معافی ہو، جو روز لوگوں کو دربار میں بلا کر معاف کرتا ہو۔

حیات نے آنکھیں گھما کر کہا
بس… اوورایکٹنگ شروع ہو گئی۔

ابرار نے سنجیدگی سے پوچھا
بھائی کہاں ہیں ویسے؟

حیات نے منہ بگاڑ کر کہا
کہاں ہوں گے… اپنے کیبن میں ہوں گے۔

اچھا۔
پھر حیات نے ماحول کو ہلکا کرتے ہوئے موضوع بدلا
ہاں سب چھوڑو، یہ بتاؤ کافی پیو گے یا چائے؟ یا جوائس؟

ابرار نے بغیر سوچے کہا
کافی۔

بلیک یا براؤن؟ حیات نے پوچھا۔۔

میں بلیک کافی  نہیں پیتا۔ بلکہ گھر میں کوئی نہیں پیتا… سوائے بھائی کے۔ اسی لیے براؤن کافی۔۔۔

حیات نے ناک سکوڑ کر کہا
ہاں… وہ وہیات پارانی تو کچھ بھی کر سکتے ہے۔۔
چھوڑو اُنہیں، میں تمہارے لیے کافی لے کر آتی ہوں۔

یہ کہہ کر حیات تیز قدموں سے کینٹین کی طرف بڑھ گئی۔

اور اُدھر ابرار نے ایک لمحہ خود سے نظریں چرائیں، پھر دل میں ایک دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ سوچا
ہمم… یہ اتنی بھی بُری نہیں ہے۔

++++++++++++

کیا بولوں گا میں ابرار کو؟
امن بار بار اپنے کیبن کے اندر چکر لگا رہا تھا۔

امن نے خود سے بڑبڑاتے ہوئے کہا
وہ تو سنتے ہی بھڑک جائے گا… یا اللہ! یہ کس مصیبت میں پھنسایا ہے مجھے… کیا کروں اب میں؟
وہ بےچینی سے دیوار پر ٹنگی گھڑی کی طرف دیکھتا ہے

بول دوں کہ آج تمہاری بھابھی نہیں آئیں؟ ہاں، یہ ٹھیک ہے…
(وہ کچھ پُر اعتماد ہونے لگا، پھر رک گیا)
پر… بعد میں تو پتا چل ہی جائے گا… اور جب اُسے معلوم ہو گا کہ میں نے جھوٹ بولا تھا… تو وہ اور زیادہ غصہ کرے گا۔

امن واقعی پریشان تھا۔
جنید ہاؤس کے جس فرد سے وہ ذرا سا بھی دبتا تھا، وہ صرف اُس کے بھائی تھے — باقی دنیا کی تو اُس کو کوئی پروا نہ تھی۔۔۔

خیر، باہر جا کر دیکھتا ہوں… اگر زیادہ غصہ کرے گا تو سارا ملبہ دادا دادی پر ڈال دوں گا۔۔
وہ تھوڑا سا خود کو سنبھالتے ہوئے بڑبڑایا

آہ ابرار! کتنا تنگ کرو گے مجھے۔۔۔

اب کے وہ اپنے کیبن سے باہر نکلا۔

اور جیسے ہی اُس نے قدم باہر رکھا — اُس کی آنکھیں ساکت ہو گئیں۔

یہ کیسے ممکن ہے؟
اُس کے لبوں سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے۔

سامنے کا منظر کچھ ایسا تھا جو امن کے تصور میں بھی نہ تھا —
ویٹنگ اریہ کے صوفے پر حیات اور ابرار ساتھ بیٹھے تھے…
ابرار کے ہاتھ میں کافی کا کپ تھا، اور حیات مزے سے جوائس پی رہی تھی۔

دونوں ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے —
حیات زیادہ ہنس رہی تھی۔۔۔ ابرار بس مُسکرا رہا تھا۔۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے سالوں پرانی دوستی ہو…
کوئی بدمزگی، کوئی تلخی، کوئی غصہ… کچھ بھی تو نہیں تھا وہاں۔

امن کے ذہن میں جیسے زلزلہ آ گیا۔

دل میں سوچتے ہوئے۔۔
یہ کیسے ہو گیا؟ یہ تو کل تک ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کے روادار نہیں تھے… ابرار  کے غصہ کو  تو میں جانتا ہوں، وہ تو اتنی جلدی تھمنے والا نہیں… پھر یہ سب…؟

کیا حیات نے منایا؟
لیکن وہ کیوں مناتی؟ وہ خود بھی تو ناراض تھی… پھر یہ سب کیسے ہو گیا؟

وہ اپنی جگہ کھڑا سوچتا رہا…
مگر اب اسے یقین ہو چکا تھا — کچھ ہوا ہے، ضرور کچھ خاص ہوا ہے۔

امن تیز قدموں سے چلتا ہوا اُن دونوں کے پاس پہنچا۔

امن نے سخت لہجے میں کہا
تم دونوں کو میں پاگل نظر آتا ہوں نا؟

حیات نے فوراً کہا
کوئی شک ہے کیا؟

ابرار نے سپاٹ لہجے میں، بغیر کچھ سوچے جھٹ سے جواب دیا۔۔۔
نہیں۔۔۔

حیات اپنی ہنسی دباتی چہرہ دوسری طرف موڑ لیا، مگر ہنسی چھپائے نہیں چھپتی۔

میں مذاق نہیں کر رہا! میں بہت غصے میں ہوں۔۔ وہ دونوں کو گھورتے بولا۔۔۔

ابرار بے نیازی سے بولا
تو رہو نا غصے میں… ہم نے کیا تمہارے غصے کو ٹھنڈا کرنے کا ٹھیکہ لیا ہے؟

امن حیرت و غصے کا امتزاج میں کہا
ابھی کل تک تم دونوں ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے، یہ اچانک کون سا معجزہ ہو گیا جو تم دونوں ایسے ساتھ بیٹھے ہو؟
آنکھیں سکوڑتے ہوئے دونوں کی طرف دیکھا

حیات نے ایک ادا سے گردن گھما کر کہا
کیوں؟ آپ سے ہماری خوشی برداشت نہیں ہو رہی؟

ابرار نے مزے سے کافی کا سپ لیتے ہوئے کہا
بھائی، تم آم کھاؤ… گٹھلی کیوں ڈھونڈ رہے ہو؟

امن نے مصمم ارادے سے کہا
میں گٹھلی دیکھے بغیر آم نہیں کھاؤں گا۔۔ بتاؤ، گٹھلی کہاں ہے؟

حیات نے بےفکری سے کہا
ارے کچھ نہیں ہوا! ایک سوری بات تھی۔ اس نے پہلے مجھے سوری کہا، پھر میں نے بھی کہہ دیا۔ بس… لڑائی ختم، دوستی پکی۔۔۔

ابرار نے جھٹ سے کہا
او ہیلو! پہلے میں نے نہیں، اس نے کہا تھا سوری۔۔

“ہنہ… چُپ رہو۔۔ ایک ہی بات ہے۔۔۔ حیات ناک سیکوری بولی۔۔۔

بس ایک سوری کی بات تھی؟ اور سب ٹھیک ہو گیا؟
دل ہی دل میں سوچا— یہ وہی ابرار  ہے؟ جس کا غصہ ایک بار چڑھ جائے تو پہاڑ ہل جائے، اور حیات؟ وہ تو غلطی ہونے پر بھی سوری نہیں بولتی تھی۔۔۔

ہاں بھئی! اب آپ کو ہم سٹمپ پیپر پر لکھ کر دیں عجیب… حیات نے چڑ کر کہا

ابرار نے سنجیدہ لہجے میں، امن کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
ہاں بھائی، یہی بات ہے۔ بس ہم دونوں کو غلط فہمی ہو گئی تھی،
اور اب ہم نے سوری بول کے سب کلیئر کر دیا۔

پھر ابرار نے سنجیدگی سے کہا
سو۔۔۔ مسٹر امن جنید خان … اُرف ابرار جنید خان کے بڑے بھائی…چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری
میں — ابرار جنید خان — آپ کی کمپنی میں انویسٹ کرنے کے لیے تیار ہوں…

لیکن میری… ایک شرط ہے۔

+++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔

3 Comments

  1. Next Episode do jldi kiya suspense chor diya hai 😭😭😭😭

  2. Abrar 😭🙌🏻

  3. New couple unlock

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *