انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )
باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو
قسط نمبر ۱۶
سنا ہے ان کے نرم ہاتھوں سے پھسل جاتی ہیں چیزیں اکثر
میرا دل لگا ہے ہاتھ ان کے خدا خیر کرے۔۔۔
چند منٹ بعد…
فضا بدل چکی تھی۔ یونیورسٹی کی ہلچل سے نکل کر وہ دونوں اب ایک سنجیدہ ماحول میں قدم رکھ چکے تھے۔
آمن کا آفس — جہاں خاموشی عزت کی علامت سمجھی جاتی تھی، اور ہر در و دیوار پر وقار کی چھاپ تھی۔
یوسف نے کاؤنٹر پر کھڑی مایا اور زارا کو دیکھ کر جھک کر بولا
ہیلو بیوٹیفل گرلز! تو کیسی ہیں آپ دونوں؟
دانیال نے یقین سے لبریز لہجے میں کہا
ہائے! میں دانیال… نامِ تو سنا ہی ہوگا۔۔۔؟
دونوں کا انداز ایسا تھا جیسے کسی مافیا گروپ کی انٹری ہو چکی ہو — تھوڑے شوق، تھوڑی دہشت کے ساتھ۔
زارا نے ابرو چڑھا کر کہا
سر، آپ دونوں یہاں کیوں آئے ہیں؟
یوسف نے مصنوعی حیرت سے کہا
اوہ تو ظاہر ہے آپ سے ملنے۔۔۔
دانیال نے چڑ کر کہا
اہ چھی تھو! بالکل بھی نہیں… میرے بھائی کا آفس ہے، جب دل چاہے گا آؤں گا۔۔
زارا نے نرمی اور جھنجھلاہٹ کے بیچ کہا
لیکن…
یوسف نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
آہا… ایک تو جب آپ یہ ‘لیکن’ بولتی ہیں نا، قسم سے دل لے جاتی ہیں۔۔۔
زارا نے ابرو اچکاتے ہوئے، غصے اور تمیز سے کہا
سر! مائنڈ یور اون بزنس… کیا بول رہے ہیں آپ؟
یوسف نے چہرے پر شرارت بھری معصومیت طاری کرتے ہوئے کہا
وہی… جو آپ سُن رہی ہیں۔
آنکھ دبا کر بولا اور گویا کسی فلمی سین کی ریہرسل دے رہا ہو۔
دانیال نے آہستہ آواز میں، یوسف کی طرف جھکتے ہوئے
ابے نہیں کر! بھائی کو بتا دے گی، پھر کھانا بھائی سے مار…
یوسف اچانک جیسے کسی بھولی ہوئی حقیقت کا خیال آ گیا ہو
ابے ہاں! میں تو بھول ہی گیا تھا! سوری سوری، بیوٹیفل گرلز، بعد میں آتا ہوں آپ کے پاس۔۔۔
ایک فلرٹی سی جھک کے ساتھ رخصت لینے لگا۔۔
دانیال نے اس کے پیچھے طنزیہ انداز میں کہا
تُو ہے ہی تھرکی کہیں کا۔۔۔
یوسف نے اکڑتے ہوئے کہا
تُو ہوگا تھرکی! میں تو بس تھوڑا عاشق مزاج ہوں۔
دانیال نے ہنستے ہوئے کہا
اسی کو تھرک پن کہتے ہیں، شاعر صاحب۔۔۔۔
ابے جا، اپنا کام کر۔۔۔۔
ہاں نِکل۔۔۔
ان کے لہجے کی گونج، ہال میں پھیل گئی۔ شور مچاتے، ہنستے، چہکتے، وہ دونوں الگ الگ سمتوں میں چل دیے — دانیال کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ کی طرف، اور یوسف ڈریس ڈیزائننگ ڈیپارٹمنٹ کی طرف ۔
مایا نے زارا چڑ کر کہا
اب یہ دونوں کہاں سے ٹپک پڑے یہاں؟
زارا نے بے زارگی سے کہا
مجھے کیا پتا؟ عجیب لوگ ہیں۔۔۔
تو زاویار سر یا نتاشہ کو بلاؤ۔۔۔ مایا نے کہا اور نتاشہ کو کال کر کے اپنے پاس بُلایا
نتاشا نے ان دونوں کی طرف آ کر پیشہ ورانہ نرمی سے کہا
کیا ہوا گرلز؟ ایوری تھنگ اوکے؟
مایا نے تھوڑی بڑبڑاہٹ، تھوڑی شکایت میں کہا
نہیں نا، میم! وہ… باس کے دونوں چھوٹے بھائی پھر سے آ گئے ہیں… تباہی مچانے۔۔۔
وہ دونوں یہاں؟ نتاشہ نے حیرانی سے کہا
جی… اور ایک کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ کی طرف گیا ہے، اور دوسرا ڈریس ڈیزائننگ کی طرف…
نتاشا نے چہرے پر اعتماد سجائے کہا
اچھا… تم دونوں ٹینشن مت لو، میں دیکھتی ہوں۔
یہ کہہ کر وہ تیز قدموں سے کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئی،
نتاشا کے جاتے ہی…
زارا نے ہلکی سی سرد آہ بھرتے ہوئے، نیم مایوسی سے کہا
یہ ہر بار ہی یہی بولتی ہیں… لیکن پتہ اُنہیں بھی ہے، اور ہمیں بھی… کہ وہ دونوں آفتیں، باس کے علاوہ کسی کے کنٹرول میں نہیں آتیں۔۔۔
مایا نے مکمل اتفاق کے ساتھ، ہنوز نظر دروازے پر
ہاں… بس فلیکس مارنے کے لیے بول دیتی ہیں ہمیں… کہ جیسے وہ کچھ کر لیں گی…
ہُممم… زارا نے بس سر ہلایا اور کام مج مصروف ہوگئی۔۔
++++++++
نتاشا نے حیرت سے کہا
اوہ! تم کب آئے یہاں؟
دانیال سر عام، بے نیازی سے، کہا
تم سے مطلب؟ میرے بھائی کا آفس ہے، جب دل کرے گا تب آؤں گا۔۔۔
(پورے ڈیپارٹمنٹ کی نگاہ دانیال پر تھی — مگر دانیال؟ اسے کسی کی پروا نہیں تھی۔ وہ صرف خود کو اور اپنے بھائیوں کو جانتا تھا۔)
نتاشا نے غصے سے لب بھینچتے ہوئے کہا
دانیال! مجھ سے بدتمیزی نہ کرو۔۔۔
دانیال نے ابرو چڑھاتے ہوئے کہا
تو تم بھی میرے منہ نہ لگو۔۔۔
نتاشا نے چند لمحے چپ، پھر جذبات سے بھرپور لہجے میں کہا
کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ ابھی جا کے آمن کو بتاتی ہوں۔۔
دانیال نے دھیرے سے، مگر آنکھوں میں بجلی سی چمک لیے کہا
Go for it…
میں بھی بول دونگا صبح صبح تُم میرا دماغ خراب کر رہی ہو، اور ہاں بھولنا مت، میرے اندر اتنی پاور ہے کہ تمہیں یہاں سے نکلوا بھی سکتا ہوں۔
تو بہتر یہی ہے کہ تم اپنا کام کرو… میرے معاملے میں آنے کی ضرورت نہیں۔۔۔
نتاشا نے ہنکارتی ہوئی، مگر دل میں تھرتھراتی کہا
ٹھیک ہے… دیکھتے ہیں۔۔۔
تو دیکھو، میں نے کب کہا ہے کہ اپنی آنکھ ڈونیٹ کر دو؟
واٹ ایور
یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھی اور باہر نکل گئی
باہر نکلتے ہی، اُسے سامنے سے زاویار آتا دکھائی دیا
نتاشا نے جھنجھلاہٹ کر کہا
جاؤ جاؤ، آ گئے ہیں تمہارے دو تباہی، جاؤ سنبھالو اُنہیں۔۔۔
زاویار بے نیازی سے، جیب میں ہاتھ ڈالے
واٹ ایور… اپنا کام کرو۔۔۔۔
وہی کرنے جا رہی ہوں۔۔۔۔
یہ کہتے ہی منہ موڑتی اپنے کیبن میں چلی گئی
زاویار، اب کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوا — قدموں میں نرمی، مگر آنکھوں میں کڑک… جیسے کسی عدالت کا جج ہو۔
وہ آتے ہی دیکھا کہ دانیال کمپیوٹر پر گیم کھیل رہا — بالکل لاپروا، جیسے دنیا کی کوئی فکر نہ ہو۔
زاویار ہلکا سا کھانسا
اہم اہم…
وہ عین دانیال کے پیچھے کھڑا تھا اور سامنے دانیال بیٹھا تھا، اور اُس کے سامنے کمپیوٹر تھا۔۔۔
دانیال نے بغیر دیکھے، نخوت سے کہا
جس کو کھانسنا ہے، باہر جا کے کھانسے… یہاں جراثیم پھیلانے کی ضرورت نہیں۔۔۔
اچھااا… زاویار نے سرد لہجے میں تھوڑا تیز کہا
دانیال چونک کر، فوراً مڑا
ہنہ؟ اوہ! زاویار بھائی! السلام علیکم۔۔۔
فوراً اٹھ کھڑا ہوا، جیسے کوئی مجرم پولیس دیکھ لے
دانیال نے بے حد خوش اخلاقی سے، حد سے زیادہ اداکاری کرتے ہوئے ہاتھ بڑھایا
کیسے ہیں آپ؟ اور سب خیریت ہے گھر میں؟
تمہیں لگ رہا ہے یہ عام سا سلام ہے؟ تو جان لو… دانیال یہاں اوور ایکٹنگ کر رہا ہے — بالکل اسٹرگلنگ ایکٹر کی طرح،
زاویار نے سخت نگاہوں سے گھورتے ہوئے کہا
کیا کر رہے ہو یہاں؟
دانیال نے مسکراہٹ سے کہا
تمہاری شادی کا کارڈ دینے آیا ہوں۔۔۔
وہ جانتا تھا زاویار کو “شادی” نام کے لفظ سے بھی چِڑ تھی — جیسے کسی نے اُس کی روح پر نمک چھڑک دیا ہو۔۔۔
زاویار نے بغیر پلک جھپکائے، دھیمے مگر کڑک لہجے میں کہا
فری نہیں ہو، ورنہ ابھی ایک تھپڑ ماروں گا پھر سیدھے ہوجاؤ گے۔۔۔
تم خود ہی آ کے میرا دِماغ خراب کر رہے ہو، بھائی۔۔
اچھا… اب جن کے پاس دِماغ ہوتا ہی نہیں، اُن کا بھی ‘خراب’ ہونے لگا؟ ٹھہرو ابھی تُمہارا دماغ سیٹ کرتا ہوں۔۔۔
دانیال فوراً سیدھا ہوگیا۔۔
نہیں نہیں بھائی… آمن بھائی کو مت بتانا! تُو میرا پیارا بھائی ہے نا… پلیز۔۔۔
یہ بتا، یہاں کیوں آئے ہو؟ اور وہ دوسرا، وہ آفت… کہاں ہے؟
دانیال نے کندھے اُچکھائے بس… ایک پرسنل کام تھا۔۔
صحیح ہے… پھر بھائی کو بھی بتانا وہ پرسنل کام۔۔۔
دانیال نے جلدی سے کہا
ابے یار! تم تو ہر بات پہ بُرا مان جاتے ہو… آؤ، میں بتاتا ہوں کیا پرسنل تھا… پہلے کچھ کھانے چلاتے ہیں۔۔۔
وہ زاویار کا ہاتھ پکڑ کر تقریباً کھینچا، اور دونوں اب کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ سے نکل کر کینٹین کی طرف جا رہے ہیں…
++++++++++
آمن نے سرد لہجے میں، فائل بند کرتے ہوئے کہا
ہو گیا تمہارا؟
حیات نے بازو باندھے، ضدی بچے کی طرح کہا
نہیں! جب تک چھٹی نہیں ملے گی، میرا ‘ہوگا’ بھی نہیں۔۔۔
تو پھر بولتی رہو…
حیات نے ناراضی سے لب بھینچتے ہوئے، جیسے ضبط ٹوٹنے کو ہو
کیا عجیب مسئلہ ہے آپ کو… کبھی آرام سے، پیار سے بھی میری بات مان لیا کریں۔۔۔
آمن نے اب نگاہیں اُٹھا کر، براہِ راست کہا
تمہاری بات ماننے لائق ہوتی بھی ہے؟
حیات نے فوراً، بنا رکے کہا
ہاں! تو…
حیات نے دھیرے سے، لہجے میں شکوہ نہیں بلکہ اداسی لیے کہا
پتا ہے… آپ کبھی سنتے نہیں… بس سنتے ہیں، سمجھتے نہیں…بس سمجھتے ہیں۔۔۔
اور تم… ہر بار ضد کرتی ہو، کبھی خاموش ہو کے بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتی…
اچانک… انٹرکام کی بیپ کی آواز آئی،
امن نے انٹرکام اُٹھایا
سر۔۔۔۔ سر
ہاں، سن رہا ہوں… بولو۔
زارا نے ہڑبڑاہٹ سے کہا
سر… سر… دانیال اور یوسف دوبارہ آ گئے ہیں… اور اِس بار پھر کوئی نیا تماشہ لے کر… پلیز آ کر دیکھیں،
یہ دونوں بھائی ایسے ہی تھے جہاں جاتے تھے وہاں ایک طوفان اپنے ساتھ لیے جاتے تھے ایسا ممکن ہی بھی تھا کہ وہ کہیں گئے ہوں اور وہاں کچھ بڑا مسئلہ نہ ہوا ہو
اچھا، دیکھتا ہوں…
جی سر، پلیز…
اور کال کٹ گئی
حیات نے ذرا سا جھک کر، بھنویں اٹھا کر کہا
کیا ہوا؟
امن نے بے نیازی سے کہا
کچھ نہیں… تمھاری طرح دو اور بندر آ گئے ہیں، میرا دِماغ کھانے۔۔۔
حیات نے فوراً چونکتے ہوئے، آنکھیں گول کی
کیا مطلب؟ میں بندر ہوں؟!
آمن نے شرارت بھری سنجیدگی سے، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
نہیں… بندر تو میل ہوتا ہے، نا؟ اور تم تو فیمیل ہو… تو تم کیسے بندر ہو سکتی ہو؟
اوہ۔۔۔ ہاں…
ہمم یہ کہہ کر وہ اٹھا ، اور کیبن کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا
++++++++++
امن نے باہر اکر ایک ایمپویلے سے پوچھا
کہاں ہیں دونوں؟
سر… ایک تو ڈریسنگ ڈپارٹمنٹ میں گیا ہے… دوسرے کا مجھے پتا نہیں…
اچھا…
وہ دھیمے مگر پراثر قدموں سے ڈریسنگ ڈپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گیا
جہاں یوسف اپنی فطرت کے عین مطابق محفل گرم کیے بیٹھا تھا
یوسف نے چمکتی آنکھوں سے، ایک ڈیزائنر لڑکی سے کہا
آپ خود اتنی خوبصورت ہیں… تبھی تو آپ کے کپڑوں کی ڈیزائننگ بھی اتنی دلکش نکلتی ہے…
ایمپلائی نے ناک چڑھا کر کہا
سر… پلیز! آپ اپنا کام کریں۔۔۔۔
یوسف نے ڈھٹائی سے کہا
آپ کے ہوتے ہوئے… میرا دھیان کسی کام میں کیسے لگ سکتا ہے؟
ایمپلائی نے کڑک لہجے میں کہا
میں باس کو کال کر دوں گی۔۔۔
یوسف نے مسکرا کر کہا
ارے آپ کے لیے تو ہم زمانے سے لڑنے کو تیار ہیں…
اچانک پیچھے سے آواز ائی
اچھا؟ اور ساتھ ہی پیچھے سے کِسی نے یوسف کا کان مورا
یوسف نے چیخ کے قریب، بوکھلا کر کہا
ن…نہیں بھائی! میں تو مذاق کر رہا تھا… یہ تو میری بہن جیسی ہے، آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔۔
آمن نے آہستہ سے مگر سخت نظروں سے کہا
ہاں ہاں، ابھی بتاتا ہوں تمہیں مذاق کیا ہوتا ہے… پہلے یہ بتاؤ، دانیال کہاں ہے؟
اور کہاں ہوگا… کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ میں… کوئی نہ کوئی گیم کھیل رہا ہوگا۔۔۔
آمن نے ابرو چڑھا کر کہا
کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ کوئی گیمنگ کیفے ہے؟
بھائی، مجھے کیا پتا؟ آپ خود پوچھ لیں جا کے…
پوچھتا ہوں… پھر تم دونوں سے حساب بھی لیتا ہوں۔۔
یوسف نے فوراً فوجی بن کر کہا
جی جی سرکار… جیسا آپ حکم فرمائیں۔۔۔
چپ کر کے ساتھ چلو۔۔۔۔
یہ دونوں اب کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ کی طرف بڑھے
کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ — مگر یہاں سکون تھا … شور شرابا نہیں اور جہاں شور شرابا نہیں وہاں دانیال نہیں۔۔۔
امن نے ہلکے سے دانت بھینچتے ہوئے کہا
تم دونوں میرے آفس کو سرکس سمجھتے ہو کیا؟ وہ اب کہاں گیا؟
ابھی تو یہیں ہونا چاہیے تھا… پتا نہیں کب فرار ہو گیا۔۔ یوسف نے اِدھر اِدھر دیکھتے دانیال کو ڈھونتے کہا
کہاں ہے دانیال…؟
بھائی تمہیں تو پتہ ہے، وہ ایک جگہ زیادہ دیر ٹک کر کہاں رہتا ہے۔ بےچین بوٹی ہے… چلا گیا ہوگا کہیں، اُس وقت تو یہی آیا تھا۔
سکون نہیں ہے اِس کو بھی…
تبھی ایک نرم، قدرے جھجکی ہوئی آواز اُن کے پیچھے سے ابھری۔ سر…
آمن نے مڑ کر دیکھا۔ وہ ادارے کا ایک جونیئر ایمپلائی تھا، آنکھوں میں ادب اور لہجے میں دھڑکتی خبر لیے۔
ہاں؟
سر… وہ دانیال… زاویار سر کے ساتھ کینٹین کی طرف گئے ہیں۔
اچھا… امن نے سکون سا سانس لیا
یوسف کی مسکراہٹ وسیع ہوئی۔
پتہ نہیں کتنا ٹھونستا ہے، پھر بھی موٹا نہیں ہوتا۔۔۔
آمن نے جھنجھلا کر اُس کی طرف دیکھا،
ابھی ایک تھپڑ لگاؤں گا کھینچ کے! منہ بند رکھو اپنا۔
لہجہ خشک ہو گیا۔ کچھ لمحوں بعد وہ قدموں میں جلدی لیے کینٹین کی سمت بڑھ گیا۔
کچھ قدم چلنے کے بعد، جیسے قسمت کو اُس کی تپش پر رحم آ گیا ہو۔ سامنے، کینٹین کے ایک کونے میں وہی منظر تھا جو آمن کے اندر کے طوفان کو لمحے بھر کو روک دیتا۔
دانیال، اپنے مخصوص انداز میں، کہنی میز پر ٹکائے، ہاتھ میں ٹھنڈی بوتل لیے بیٹھا تھا۔ اُس کے سامنے گرم گرم سموسے رکھے تھے۔ جیسے دنیا کے سارے مسئلے سموسوں میں تحلیل ہو گئے ہوں۔ اُس کے ساتھ زاویار بھی بیٹھا تھا — گہری نظروں سے دانیال کو تکٹے۔
دانیال نے بوتل کا آخری گھونٹ لیا اور مزے سے دوسرا سموسہ اُٹھایا۔ جہاں نے تنقیدی نظروں سے اُسے دیکھا، جیسے وہ اِک غذا نہیں بلکہ گناہ کا ارتکاب کر رہا ہو۔
کتنا کھائے گا؟ اب بتا بھی دے… زاویار نے بیزاری سے کہا
دانیال نے شرارت بھری معصومیت سے کہا،
بھائی، تمہیں میں نے روکا ہے؟ تم بھی کھا لو۔
مگر اُن کی مختصر سی خوش مزاجی میں جیسے کوئی ہلکی سی دراڑ پڑی، جب پیچھے سے ایک آواز سنائی دی —
ادھر سُنو۔۔۔۔
آمن کی آواز، جو دور سے آئی تھی، مگر اُس میں وہی شناسا سختی تھی…
دانیال چونک کر زاویار کی طرف مڑا، نظریں بےچینی سے اس کے چہرے پر پھسل گئیں۔
بھائی، یہ غلط بات ہے۔ تم نے وعدہ کیا تھا کہ آمن بھائی کو نہیں بتاؤ گے۔
لہجہ شکایت بھرا تھا، جیسے کسی نے اُس کی چھوٹی سی دنیا پر بجلی گرا دی ہو۔
زاویار نے امن کی طرف دیکھتے کندھے اُچکائے،
اب جھیلو…
یہ کہتے ہی وہ اُٹھ کھڑا ہوا
دانیال نے جذباتی اداکاری کی چادر اوڑھ لی۔ اُس کا ہاتھ پکڑا، اور فلمی انداز میں بول اٹھا،
اچھا صلہ دیا تُو نے میرے پیار کا… بھائی نے ہی لوٹ لیے گھر بھائی کا۔۔۔
امن نے پھر سے آواز دی، اس بار لہجے میں سختی کچھ زیادہ تھی۔
تم آ رہے ہو یا میں آؤں؟
دانیال نے فوراً چونک کر جواب دیا،
نہیں بھائی، آ رہا ہوں، آ رہا ہوں۔۔۔
اُس نے جلدی جلدی بوتل کی ٹوپی بند کی، اور تقریباً دوڑتا ہوا آمن کے پیچھے چل پڑا۔
کیبن میں آؤ میرے… امن نے دور سے ہی دانیال کو گھورتے کہا
دانیال نے پیچھے سے جھنجھلاتے ہوئے کہا،
کیوں بھائی، یہاں بات نہیں ہو سکتی کیا؟
+++++++++++
ہنہ؟ تُم کون …؟
یوسف کے روم میں داخل ہوتے ہی حیات کی نظر یوسف پر گئی۔۔۔
گورے رنگ کا مالک، وہ اپنے تمام بھائیوں میں سب سے زیادہ گورا تھا۔ چہرہ ہنوز جوانی کے نرم نقش لیے ہوئے، اس کے گھنگریالے بھورے بال ماتھے پر بے ترتیبی سے بکھرے تھے۔ اس نے سفید رنگ کی ڈھیلی سی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، جس پر ایک اوور سائزڈ جیکٹ نما شرٹ بھی تھی—ہلکی سی کریم وائٹ، جس کے بڑے بڑے بٹن اور جیبیں اُس کے لاپرواہ مگر اسٹائلش ذوق کا پتہ دیتی تھیں۔ نیچے اُس نے ہلکی راکھ رنگ کی سویٹ پینٹ پہنی ہوئی تھی، پاؤں میں سفید نائیکی جوگرز تھے،
آپ کا انٹرو، محترمہ؟
حیات کی نظریں یوسف کی شوخیوں سے الجھ کر ایک پل کو رُکیں، پھر وہ اپنے مخصوص لہجے میں گویا ہوئی
محترم، آپ میرا تعارف لے کر کیا کریں گے؟
یوسف نے ایسے دل پر ہاتھ رکھا جیسے کوئی تیر سینے میں لگا ہو — اُففف… وہ بےساختہ بولا، جیسے ابھی ابھی کسی نے اُس کی پہلی محبت کا نام لے دیا ہو۔
اسی لمحے دروازہ کھلا، اور آمن اندر داخل ہوا، ساتھ ہی دانیال نے کمال خود اعتمادی سے اندر قدم رکھا جیسے وہ اس کمپنی کا سی ای او ہو،
وہ گندمی رنگت کا مالک تھا، گھنے بال، قدرے بکھرے ہوئے تھے۔ ہلکی لہروں کی طرح گرتے بال نہ زیادہ چھوٹے، نہ زیادہ لمبے — بس اتنے کہ گردن کے کناروں کو چھو رہے تھے۔ ان کی تراش میں بے ترتیبی تھی، گھنی بھنویں اور گہری بھوری آنکھیں۔ چہرے پر ہلکی داڑھی جو نفاست سے تراشی ہوئی تھی،
اور اس نے سفید ٹی شرٹ کے اوپر گہرے سبز رنگ کی کھلی شرٹ پہن رکھی تھی بازو قدرے موڑے ہوئے تھے اور نیچے نیلی جینز پہن رکھی تھی اور کلائی پر سادہ سی گھڑی، دانیال اپنے بھائیوں میں سب سے زیادہ وہ وجیہہ اور پُر کشش تھا۔۔
امن نے قدرے سرد لہجے میں کہا،
اب بتاؤ…
دانیال نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی، جیسے یہ دفتر اُسی کے آباواجداد کی ملکیت ہو۔ پھر اُس کی آنکھیں، سامنے کھڑی حیات پر ٹھہر گئیں۔
اس چڑیل کو تو باہر بھیجو۔۔۔
یوسف فوراً کود پڑا، دانیال کے بلکل ساتھ چپک کر بیٹھ گیا اور اُس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
ابے! خوبصورت لڑکیوں کو ایسے ‘چڑیل’ نہیں کہتے، ظالم۔۔۔
حیات نے اپنے بازو سینے پر باندھے، اور ایک زہریلی مسکراہٹ لبوں پر سجا لی۔
حیات کو اچھی طرح پتہ ہے کہ تم دونوں مل کر اُس کی برائی کر رہے ہو۔ اور ہاں… زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ورنہ حیات دن میں تمہیں آفتاب کے نظارے کروا دے گی…
آمن نے ایک آنکھ تنگ کر کے سوال کیا،
آفتاب کا مطلب پتہ ہے؟
حیات اُس کے قریب آ کر رک گئی۔ ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا۔ لہجہ ہلکی ناراضگی کے ساتھ معصومیت میں لپٹا ہوا تھا —
چپ سے رہیں نا، مجھے کیا پتہ آفتاب کا مطلب؟ میں نے ریلس میں سنا، تو بول دیا۔ عجیب! آپ کو تو ہر بات سے مسئلہ ہے…
دانیال نے فوراً موقع پر وار کیا،
بھائی، آفتاب کے نظارے؟ اتنا بھی خوبصورت نہیں ہے دانیال کے نظارے’ بولتی تو زیادہ اچھا لگتا۔۔۔
یوسف نے گہری سانس لی اور دانیال کی طرف دیکھ کر مسکرا کر بولا
ہاں، وہ تو اب بوڑھا بھی ہو گیا ہے… کیمسٹری پڑھاتے پڑھاتے۔۔۔۔
ایسا لگتا ہے سارے پاگل میرے ہی حصے میں آ گئے ہیں… امن نے دانیال اور یوسف ک افسوس سے دیکھا
جی…؟
حیات نے گردن تھوڑی سا ٹیڑھی کی اور ابرو چڑھائے، جیسے اعتراض اٹھا رہی ہو۔
امن نے فوراً جواب دیا،
جی! اب سائیڈ پہ جا کے بیٹھیں، چپ چاپ۔ اور تم دونوں…
اس نے دانیال اور یوسف کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔
ہم؟ یوسف نے مصنوعی معصومیت سے کہا۔
کس لیے آئے ہو یہاں؟
دانیال نے گردن جھٹکی اور سنجیدگی کی نقالی کرتے ہوئے کہا،
تم بتاؤ… کیوں ہی آئے ہوں گے ہم یہاں؟
حیات نے زیرِ لب ہنستے ہوئے کہا،
تماشا کرنے…
یوسف چونکا،
کچھ کہا کیا آپ نے؟
حیات نے فوراً پلکیں جھکائیں،
نہیں… carry on.
یوسف نے امن کی طرف مڑ کر اطمینان سے کہا،
اوکے… ہاں بھائی، بولو تم۔۔۔
امن نے زندگی سے ہارے ہوئے انسان کی طرح سر پکڑا، پھر حیات کو گھورتے ہوئے کہا،
ہو گیا تمہارا…؟
حیات نے ایک بےنیاز مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
جی، بولیں اب آپ۔۔۔
امن نے آسمان کی طرف دیکھا، جیسے کسی غیبی مدد کے انتظار میں ہو۔
کہاں پھنس گیا ہوں میں…
حیات جھٹ سے بول پڑی،
اچھے خاصے تو کھڑے ہیں… لگ تو نہیں رہا آپ کہیں پھنسے ہوئے ہوں گے۔۔۔
امن نے دونوں ہاتھ جوڑنے کے انداز میں تھک کر کہا،
مس حیات، آپ پلیز کچھ دیر کے لیے چپ ہو سکتی ہیں؟
حیات نے گردن جھکا کر معصوم سی شکل بنائی،
ہاں، ٹھیک ہے… نہیں بولتی اب میں…
تھینک یو۔۔۔۔ امن نے دھیرے سے کہا
دانیال کی پیشانی پر تیوری چڑھ چکی تھی، جیسے صبر کا آخری قطرہ بھی اب چھلکنے کو تیار ہو۔
بھائی! میرا بھی سن لو… عجیب اپنا لگے ہوئے ہو تم۔۔۔ وہ یوں بولا جیسے برسوں کا پرانا قرض اتارنے آیا ہو۔
امن نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا،
بولو گے، تو سنوں گا نا….
کال کیوں نہیں اٹھا رہے تھے ہم لوگوں کی؟ اور میسج کا ریپلائی تمہارے فرشتے کریں گے؟ بولو… دانیال سے خفکی سے کہا
یوسف نے موقع پر لپک کر اپنی موجودگی ثابت کی،
ہاں ہاں، بولو…
امن نے کرسی کے بازو پر تھپکی دی،
میں آفس کام کرنے آتا ہوں، تم لوگوں کے میسجز کے جواب دینے نہیں۔ اور ویسے بھی… اور تم خود فون کیے تھے مجھے؟
دانیال نے فوراً انگلی اٹھا کر یوسف کی طرف اشارہ کیا،
یوسف نے تو کیا تھا نا…
یوسف نے گردن ہلائی،
ہاں…
آمن نے آہستہ سے کہا،
میں نے دیکھا نہیں…
وہی تو! کیوں نہیں دیکھا؟ اگر کوئی مر جائے گا، تب بھی نہیں دیکھو گے تم؟ ہے نا؟
دانیال نے خفکی سے کہا
آمن نے ماتھے پر بل ڈالے،
تم کہاں کی بات کہاں لے جا رہے ہو؟
میں یہی کی بات، یہی لے کے آیا ہوں! اور تم بات نہ پھیرا کرو….
یوسف نے دانیال کے شانے پر ہاتھ رکھا،
ہاں بھائی…
آمن نے تھوڑا جھک کر نرم لہجے میں کہا،
اچھا، کام بتاؤ… کال کیوں کر رہے تھے؟
(وہ جانتا تھا اگر بحث کو اور بڑھایا تو نقصان صرف اُس کا ہوگا۔ دانیال وہ تھا جو ایک کال کا جواب نہ ملنے پر بھی کائناتی جنگ چھیڑ سکتا تھا۔ اور آمن… وہ تو اپنے بھائیوں کو روتا، ناراض، یا دور ہوتا کبھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔)
یہ دیکھو… دانیال نے سے جیب سے کچھ نکالا۔
وہ ایک کریڈٹ کارڈ تھا — جو اس نے آمن کے سامنے میز پر رکھا،
امن نے ابرو چڑھاتے ہوئے کارڈ کی طرف دیکھا،
کیا دیکھوں…؟
دانیال نے ہلکے سے گردن جھکائی اور میز پر رکھے کریڈٹ کارڈ کی طرف اشارہ کیا،
یہ…
امن نے پلکیں سکیڑتے ہوئے کہا،
ہمم… یہ تو دیکھ رہا ہے؟
دانیال نے بے زاری سے منہ بنایا، یار سمجھا کرو نام۔۔
ابے بھائی! سیدھا سیدھا بول نا کہ کریڈٹ کارڈ میں پیسے ختم ہو گئے ہیں، لمبی کیوں کر رہا ہے بات کو؟
یوسف نے بیزاری سے کہا
دانیال نے فوراً تصدیق کی۔۔ہاں…
امن نے ہاتھ میں پکڑی گھڑی پر نظر ڈالی،
ہاں تو، آج کیا تاریخ ہے؟
دانیال نے فوراً چہرہ بگاڑ لیا،
دیکھو اب بھائی بات لمبی کر رہے ہیں…
یوسف نے تھوڑا جھک کر کہا،
ہاں بھائی، ہم لوگ تاریخ دیکھ کے تھوڑی آئے ہیں۔ پہلے بولتے، دیکھ کے آتے۔۔۔
حیات فون میں جلدی سے تاریخ دیکھا کر کہا
آج بیس تاریخ ہے۔
امن کے چہرے پر اک تیز سی مسکراہٹ نمودار ہوئی،
Exactly.
دانیال نے اب کچھ نہ سمجھنے کا نخرہ کیا،
تو…؟
امن نے آنکھیں سکیڑیں،
تو…
دانیال نے دونوں ہاتھ پھیلا دیے،
یار بھائی دے دو نا، پیسے ختم ہو گئے ہیں، اب کیا کریں؟
امن نے سنجیدگی سے کہا،
نہیں۔
دانیال نے گردن پیچھے کھینچ لی جیسے اسے دھچکا لگا ہو،
یار بھائی…
یوسف نے بھی آواز میں تھوڑی معصومیت شامل کر کو کہا، بھائی دے دو نا…
امن نے اب ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھا،
دونوں کے کریڈٹ کارڈ میں پیسے ختم ہو گئے؟
یوسف فوراً بولا،
ہاں بھائی…
تم لوگوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے؟ پیسے درختوں پر اگتے ہیں کیا؟ ایک مہینے میں بیس ہزار ختم کر دیے؟ سیریسلی؟
امن کو پیسو کے بہت قدر تھی اور وہ چاہتا تھا کہ اُس کے بھائی بھی یہ قدر سمجھے ایسا نہیں ہے کہ امن بہت کنجوس ہے امن بس اپنے بھائیوں کو ہر بری چیز سے پروڈکٹ کرنے چاہتا تھا اُسے پتہ تھا اگر وہ ان لوگو کو زیادہ آزادی دے گا تو یہ لوگ بگڑ جائے گے اسی لیے امن ان پے بہت زیادہ نظر رکھتا تھا خاص طور پر یوسف اور دانیال پہ
دانیال کی آنکھوں میں بےساختگی تھی،
بھائی… اُس میں سے دس ہزار تو پٹرول میں ڈال جاتا ہے پورے مہینے میں…
امن نے بغور دیکھا، تو یہ میرا مسئلہ ہے اب؟
دانیال نے کندھے اچکائے،
تو بھائی… کس کا مسئلہ ہے پھر؟
امن نے گہری سانس لی اور سختی سے کہا،
مجھے نہیں پتا۔ اب دس دن بغیر پیسوں کے گزارو دونوں۔ بہت اڑا لیے پیسا تم لوگوں نے…
بھائی… دس دن سمجھ آ رہا ہے تمہیں؟
Ten Days!
ایک دو دن ہوتا تو پھر بھی خیر تھی…
امن کا لہجہ اب بھی سرد تھا،
تو سوچ سمجھ کے خرچ کرنا تھا نا…
دانیال نے ہار ماننے کے بجائے، جذباتی بلیک میلنگ کا پرانا ہتھیار نکالا،
یار بھائی دے دو…
یوسف نے بھی ساتھ دیا، آواز میں التجا گھول کر،
ہاں بھائی… پلیز دے دو…
امن نے ابرو چڑھائے،
نہیں کا مطلب ہوتا ہے نہیں…
یار بھائی…
یوسف نے آخری وار کیا،
بھائی پانچ ہزار ہی دے دو… دس دن کے لیے… گزارا ہو جائے گا…
نہیں۔۔۔ اب کے لفظ میں سختی تھی۔۔
دانیال نے جلدی سے کہا،
یار بھائی… اب دے دو نا، کیا اب لڑکیوں کی طرح نخرے دکھا رہے ہو؟
آمن کی نظریں اچانک تیز ہو گئیں،
کیا…؟
دانیال فوراً پیچھے ہٹا،
ک-کچھ نہیں بھائی… دے دو نا…
آمن نے سرد سانس لی،
اچھا ٹھیک ہے۔ لیکن پیسے لو، اور سیدھا گھر جاؤ۔ اور یہ سب باتیں آئندہ گھر پر کرنا…
یوسف فوراً خوش ہو کر بولا،
ہاں صحیح ہے… دو اب۔۔
دانیال نے یوسف کے کان میں سرگوشی کی،
ابے بھائی… اتنے میں کیا ہوگا؟
یوسف نے آہستہ سے کہا،
تو فلحال یہ لے، باقی بعد میں دیکھتے ہیں…
امن نے اپنا فون اٹھایا دونوں کے کارڈز میں رقم ڈلوائی۔
یوسف نے جیب سے موبائل نکالا، ٹائم دیکھا، اور ایک لمبی سی انگڑائی لی۔
بھائی… چلو اب میں جا رہا ہوں۔ اللہ حافظ…
پھر دانستہ دانیال کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے کیبن سے باہر نکل گیا
چل تُو بھی۔
دانیال نے حیرت سے آفیس سے باہر نکلتے ہی یوسف کی طرف دیکھا،
اب…؟
یوسف نے آنکھیں چھوٹی کیں،
اب کچھ نہیں، چلو ابرار بھائی کے پاس۔
دانیال نے اپنے بائک بیٹھتے کہا
ابے ہاں… یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں… پہلے ہی وہاں چلے جاتے…
یوسف نے ناک سکیڑ کر اپنی بائک پر بیٹھتے کہا،
ایکسکیوز می، تو نے نہیں سوچا، میں نے سوچا تھا۔۔
دانیال طنزیہ مسکرایا، اور ہیلمیٹ پہن لی۔۔۔
ہاں ہاں، ٹھیک ہے! اب زیادہ ‘بن’ مت…
یوسف نے گردن اکڑائی، اور ہیلمیٹ پہن لیا۔۔
میں پہلے سے ہی ‘بنا’ ہوا ہوں، اور کیا بنوں گا؟
دانیال نے بے زاری سے کہا، ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا
ارے تُو جا رے…
اور اپنی بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے تیزی سے ابرار کے آفس کی طرف نکل گیا۔۔۔۔۔
یوسف نے سر جھٹکا،
عجیب ہے… ایک تو آئیڈیا دو اسے، اوپر سے نخرے بھی میرے پہ ہی دکھاتا ہے…
پھر خود بھی بائیک اسٹارٹ کر کے اس کے پیچھے روانہ ہوگیا۔
++++++++++++
اب یہ دونوں کون تھے؟ حیات نے ابرو چڑھاتے ہوئے سوال کیا،
میرے بھائی… امن نے سادگی سے جواب دیا۔
حیات نے پلکیں جھپکائیں۔ اور کتنے بھائی ہیں آپ کے؟
تین اور ہیں۔ وہ مختصر گو رہا۔
ہیں؟ تین اور؟ کتنے ہوگئے۔۔۔
سات۔۔۔۔ امن کے لبوں پر ایک مدھم سا تبسم ابھرا۔
حیات نے سر جھٹکا، جیسے اس سب کا اس سے کچھ لینا دینا نہ ہو — اور پھر، اچانک موضوع بدلتے ہوئے وہ بولی، اچھا،… کیا آپ مجھے چھٹی دیں گے؟ میں پکنک پر جاؤں گی۔
امن کی نگاہ ایک لمحے کو اس پر ٹھہر گئی —
فرسٹ آف آل، مس حیات، جہاں آپ جا رہی ہیں وہ ‘ٹرپ’ ہے، ‘پکنک’ نہیں۔ اور دوسری بات… اس نے انگلی سے میز پر ہلکا سا دباؤ دیا، میرے لیے نہیں کا مطلب نہیں ہی ہوتا ہے۔ اور اب سے، تمہارے لیے بھی ‘نہیں’ کا مطلب بھی ‘نہیں’ ہونا چاہیے۔
حیات نے گردن اکڑائی ضدی لہجے میں بولی حیات کو نہیں پتا۔ حیات تو جائے گی۔ ابھی حیات گھر جا کر اپنے بابا کو کہے گی۔ وہ خود آپ سے بات کر لیں گے۔”
امن نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں نیم وا کیں۔ ہاں ہاں، دیکھ لوں گا۔۔۔۔
ہاں، دیکھ لیجیے گا۔ وہ جیسے میدانِ جنگ کی جانب بڑھنے والی سپاہی تھی، جیت کا یقین آنکھوں میں چمک رہا تھا۔
ہمم… جاؤ اب، کافی لے کر آؤ۔
ہنہ… بس حیات سے کام ہی کرواتے رہو سب۔ حیات اگر کچھ بولے تو وہ مانو نہیں۔ وہ بڑبڑاتی ہوئی، خفگی کے عالم میں اپنے لبوں کو سکون سے حرکت دیتی ہوئی، آخرکار کیبن سے باہر نکل گئی۔
ہیلو… زاویار کو بھیجو میرے آفس میں۔
امن نے انٹرکام پر آہستگی سے کہا،
جی سر، بھیجتی ہوں… زارا نے رسمی انداز میں جواب دیا، اور لائن منقطع ہو گئی۔
چند منٹ بعد، کیبن کا دروازہ معمولی سی آہٹ سے کھلا۔
ہاں بھائی، بولو۔
زاویار مخصوص بےتکلفی سے داخل ہوا،
امن کی نظریں شیشے کے پار خلا میں گم تھیں، پھر وہ دھیرے سے بولا، ایک پکنک پلان کرو۔
ہھمم؟ کیا بول رہے ہو بھائی؟ زاویار کے چہرے پر حیرت تھی —
امن نے سنجیدگی سے کہا وہی جو تم سن رہے ہو۔
اچھا اچھا، کرتا ہوں۔ کب کا پلان ہے؟
دو دن بعد کا۔۔۔
بھائی؟ اتنی جلدی؟
ہاں۔
زاویار نے سر جھٹکا، اتنی بھی کیا جلدی ہے بھائی، چلیں جائیں گے آرام سے۔
جو بول رہا ہوں، اتنا کرو۔ امن کا لہجہ قطعی ہو گیا۔
اچھااااا… بھائیییییی۔۔۔
اُسی لمحے دروازہ کھولا حیات اندر آئی۔۔
اس کے ہاتھ میں کافی کا کپ تھا، لیکن چہرے پر ناپسندیدگی کی پرچھائیاں تھیں — جیسے وہ خود کو اس پورے سسٹم کا ستایا ہوا کردار سمجھتی ہو۔
جانا کہاں ہے لیکن…؟ زاویار نے پوچھا۔۔
کہاں جا رہے ہو تم لوگ؟
حیات نے چونک کر پوچھا، اس کے لہجے میں
تجسس تھا
زاویار نے ایک اچٹتی نظر حیات پر ڈالی اور تھوڑا سا جھک کر آہستگی سے بولا،
بھائی، اِس کو لے کے نہیں جائیں گے لیکن۔۔۔
امن کی نگاہ، جو کھڑکی کے پار کسی خیال میں گم تھی، آہستہ سے پلٹی۔
ہاں، ویسے بھی یہ اپنی یونیورسٹی کی طرف سے جا رہی ہے۔
کیوں؟ کہاں جا رہے ہو تم لوگ؟ حیات نے پوچھا
پکنک پر۔۔۔
زاویار نے دانت دکھاتے ہوئے جواب دیا۔
کب؟ اب کے سوال میں جلدی بھی تھی، بےچینی بھی۔
دو دن بعد۔ زاویار نے نپے تُلے انداز میں بتایا۔
حیات نے ایک سانس اندر کھینچی، جیسے ذہن میں فوراً ہی ایک پلان بن گیا ہو۔
نہیں، کل چلو پھر۔ حیات دو دن بعد اپنی یونی کی طرف سے بھی چلی جائے گی۔
امن نے سپاٹ لہجے میں جیسے فیصلہ صادر کر دیا، ہم لوگ تو دو دن بعد ہی جائیں گے۔ اور آپ میری پی اے. ہیں، تو آپ کو تو لازمی جانا ہے۔
حیات نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا، آپ چپ سے رہیں۔ آپ کے کہنے پہ جاؤں گی میں؟
امن کے لبوں پر مسکراہٹ ابھری —
ہاں، کیونکہ آفس میں تمہارا باس میں ہوں۔
ہاں تو باس ہیں تو کیا…؟!
حیات نے گردن اکڑاتے ہوئے جواب دیا، جیسے باس کا لقب اس کے لیے کسی خاص اہمیت کا حامل نہ ہو۔
جانا کہاں ہے ویسے؟ زاویار کی سوئی وہیں اٹکی تھی۔
ہمم؟ بتاؤ۔۔۔؟ امن نے سوچتے ہوئے کہا حیات کی وجہ سے پکنک کا پلان تو بنا لیا تھا لیکن گھومنے پھرنے میں اُسے انٹرسٹ کہاں تھا۔۔۔
حیات کی آنکھیں چمکیں۔ ایک دم جوش سے بولی، ‘Amusement Park‘ چلو۔۔۔۔
چھوٹی بچی ہو کیا؟ زاویار نے ناگواری سے کہا
شٹ اپ۔۔۔ حیات نے دانت پیستے ہوئے کہا،
بس دو انگلش کے لفظ سیکھ لیے ہیں، اور وہی پورا دن بولتی رہتی ہے… زاویار نے ناگواری سے حیات کو گھورا،
حیات نے خفکی سے کہا زیادہ فری نہ ہو…
زاویار نے فوراً پلٹ کر کہا، کتنی دفعہ بتانا پڑے گا مجھے کہ میں فری نہیں ہوں، بہت ایکسپینسو ہوں۔۔
حیات نے اس کی طرف دیکھا — ایک اچٹتی، تنقیدی نظر۔شکل سے تو نہیں لگ رہے ہو…
زاویار نے جھک کر آہستگی سے بولا،
شکل سے تو تم بھی بھکارن نہیں لگ رہی تھیں، لیکن اُس دن پارکنگ میں مانگ تو رہی تھیں۔
بس۔۔۔ بھی کرو دونوں۔۔۔ امن نے دونوں کو ٹوکا
ہاں، یہی بولے جا رہی ہے فضول کا… حیات نے ناگواری سے کہا
بس… چپ ہو جاؤ۔۔۔۔’Amusement park‘ ہی چلو، بس
حیات نے اپنا فیصلہ سنا دیا، جیسے بحث اب ختم۔
زاویار نے دونوں ہاتھ اٹھائے، یہ کوئی اسکول کی ٹرپ نہیں ہے کہ ‘Amusement Park’ جائیں ہم لوگ…
ہمم…امن نے گردن ہلائی، زاویار ٹھیک کہہ رہا ہے۔
حیات نے برا سا منہ بنایا، پھر اگلا آئیڈیا پیش کر دیا
تو واٹر پارک چلتے ہیں۔۔۔
زاویار نے آنکھیں سکیڑ کر امن کو دیکھا،
بھائی، تم پوچھ بھی کس سے رہے ہو…؟
حیات نے ہاتھ سینے پر باندھ کر کہا،
آف کورس، حیات سے۔۔۔
تمہارے ذہن میں آنے والے آئیڈیاز اتنے واہیات ہوتے ہیں کہ تمہیں لگتا ہے ہم ان پر عمل کریں گے؟
زاویار نے نرمی سے طنز کیا،
واہیات؟ حیات نے مصنوعی حیرت سے آنکھیں پھیلائیں، یہ حیات کے آئیڈیاز نہیں… یہ تمہارے اور حیات کے باس کے آئیڈیاز ہیں۔۔۔
پاگل لڑکی… امن نے کہا،
خود ہوں گے پاگل۔۔۔
حیات نے فوراً پلٹ کر کہا، آواز میں روٹھے بچوں جیسا غرور اور بے باکی تھی۔
یار بھائی، جلدی بتاؤ نا۔ مجھے اور بھی کام ہیں۔۔۔
ایسا لگتا ہے جیسے آفس میں باس میں نہیں، یہ دونوں ہیں…
خیال اس کے دل میں آیا، مگر زبان تک نہ آیا۔
بولو بھی اب۔۔۔
زاویار نے تنگ آ کر پھر دہرایا۔
سی سائیڈ چلتے ہیں۔۔۔۔ (ایک اَمن اور اُس کی سی سائیڈ سے وابستگی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ جب بھی کہیں گھومنے کی بات ہو، چاہے گھر سے ہو یا آفیس سے، امن کے پاس بس ایک ہی آپشن ہوتا تھا — سی سائیڈ۔ نہ جانے اُسے وہاں کون سا سکون ملتا تھا۔۔۔ امن کو شروع سے ہی ایک ہی چیز پسند آتی ہے، اب چاہے وہ انسان ہو، کھانا ہو، برانڈ ہو یا گھومنے کی کوئی جگہ۔۔۔ وہ ہمیشہ ایک ہی چیز کو ترجیح دیتا تھا۔۔۔)
زاویار نے سر جھٹکا، پتا تھا…
“نہیں، وہاں نہیں جائیں گے… حیات نے دو ٹوک لہجے میں کہا،
وہی جائیں گے... امن نے سنجیدگی سے کہا
نہیں، تو نہیں۔۔۔ حیات نے پلکیں جھپکائیں، اور ہونٹ سختی سے بند کیے — جیسے وہ فیصلہ کر چکی ہو کہ اب چاہے آسمان بھی گر پڑے، وہ قدم نہیں بڑھائے گی۔
بس، ڈن کرو۔۔۔۔ زاویار نے دونوں کی بحث کو کاٹتے ہوئے کہا،
نہیں! حیات نہیں جائے گی۔۔۔
اب کے حیات کا لہجہ بلند ہوا، اور چہرہ ضد سے تپنے لگا۔
زاویار نے گہرا سانس لیا،
تو مت جاؤ۔۔۔۔ وہ بس اتنا ہی بولا — اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
امن نے ایک لمحہ حیات کو دیکھا، اور پھر دھیرے سے بولا،
تم سے کوئی پوچھ نہیں رہا کہ تمہیں جانا ہے یا نہیں… تمہیں جانا پڑے گا، کیونکہ آفس میں تم میری پی اے ہو، دوست یا رشتہ دار نہیں۔
حیات نہیں جائے گی۔ بس… نہیں۔۔۔
وہ بولی اور چہرہ موڑا اور ہونٹوں کو سختی سے بند کیے دروازہ کھولا — اور باہر نکل گئی۔
++++++++++++++
زویار کا کیبن
زویار نے فون کان سے لگایا اور مختصر مگر روایتی سنجیدہ انداز میں بولا،
نتاشا کو میرے روم میں بھیجو۔
مایا نے فوراً جواب دیا،
جی سر، بھیج رہی ہوں۔
چند لمحوں بعد دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
آجاؤ… زاویار کی نظریں فائل پر جمی تھیں،
نتاشا اندر داخل ہوئی، ہاتھ میں نوٹ پیڈ، چہرے پر معمول کی بے نیازی۔
بولو؟ اس نے مختصراً کہا۔
زاویار نے نگاہ اٹھائے بغیر حکم سنایا،
باس نے پکنک کا کہا ہے، جاکے کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ سے نوٹس بنوالو اور سارے اسٹاف میں تقسیم کر دو۔
نتاشا کی حیرت چھپی نہ رہ سکی،
کیا…؟
زاویار نے فوراً سر اٹھا کے گھورا،
بہری ہو کیا؟ ایک بار میں سمجھ نہیں آتا؟
نتاشا نے حیرت سے دوبارہ پوچھا،
سچ میں باس نے ایسا کہا ہے؟
زاویار نے سرد لہجے میں جواب دیا،
تو تمہیں کیا لگتا ہے میں تم سے مذاق کر رہا ہوں؟ کیا ہمارا کوئی مذاق کا رشتہ ہے؟
نتاشا کی پیشانی پر بل آئے،
ہاں ہاں، ٹھیک ہے۔ ایٹیٹیوڈ کس بات کا دکھا رہے ہو؟
زاویار نے کندھے جھٹکے،
میں ایسا ہی ہوں۔ اب جاؤ، میرا دماغ مت کھاؤ۔
نتاشا دانت پیستی ہوئی بولی،
جا رہی ہوں…
اور غصے سے مڑ کر کیبن سے باہر نکل آئی۔
باہر آتے ہی اُس نے دل ہی دل میں سوچا۔۔
یہ کیسے ممکن ہے…؟ اَمن پکنک کے لیے مان گیا؟
ایسا بھی کیا ہے اس حیات میں… جو اَمن اس کی ہر بات مان لیتا ہے؟
پتا نہیں، کون سا جادو کر رہی ہے یہ لڑکی اَمن پر…
++++++++++++++
حیات نے منہ میں بڑبڑاتے ہوئے، فائل ہاتھ میں لیے کہا
عجیب بات ہے… اتنی مشکل سے پکنک کے لیے پلان بنایا، اور وہ بھی کہاں کا؟ سی سائیڈ! مطلب، سچ میں اتنی بورنگ اور فضول جگہ ہے وہ… حیات تو ہرگز نہیں جائے گی۔۔۔۔
وہ کاؤنٹر پر آکر فائل رکھی
یہ لو، باس نے کہا ہے۔ یہ ساری گیسٹ لسٹ ہے، ان کی انٹری رجسٹر میں کر لو، اور جب یہ آئیں تو فوراً باس کو اطلاع دے دینا۔
ٹھیک ہے… زارا نے تشویش سے کہا،
تمہیں کیا ہوا ہے؟ صبح تک تو تم اتنی خوش تھی؟
حیات نے منہ بنا کر کہا،
ہاں، یہ جو تمہارے باس ہیں نا، ان سے میری خوشی دیکھی نہیں جاتی…
زارا نے مسکرا کر پوچھا،
کیوں…؟
حیات نے کندھے اچکا کر کہا،
بس چھوڑو… اب کیا ہی کہہ سکتے ہیں…
(اسی لمحے نتاشا نوٹس لے کر کاؤنٹر پر آئی)
نتاشا نے سخت لہجے میں کہا،
یہ لو…
(نوٹس میز پر رکھی)
مایا نے نوٹس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا،
یہ کیا ہے؟
نتاشا نے جھنجھلا کر کہا،خود پڑھ لو..
حیات نے چبھتے لہجے میں کہا،
کیوں؟ تم بتا دو گی تو کیا یہ آفس کی چھت ہم پر گر جائے گی؟
نتاشا نے تیور بدل کر کہا،
چپ کرو تم! تم سے کسی نے بات نہیں کی ہے…
حیات نے ہنستے ہوئے جواب دیا،
صبح کریلے کا جوس پیا تھا یا سویرے باس کی شکل دیکھ لی تھی؟
اتنا کہنا ہی تھا کہ پیچھے سے اَمن آگیا اور حیات کی بات سن لی۔
اَمن نے آہستہ لیکن سنجیدہ لہجے میں کہا،
کیوں، ایسا بھی کیا ہے میری شکل میں؟
حیات چونکی اور فوراً بات سنبھالتے ہوئے بولی،
کچھ نہیں، میں کہہ رہی تھی کہ ماشاء اللہ سے کتنی حسین شکل ہے، ہے نا زارا؟
زارا نے ہنسی چھپاتے ہوئے فوراً کہا،
جی جی، بالکل….
اَمن نے کہا،
میرے ساتھ چلو، ایک میٹنگ میں جانا ہے۔
حیات نے جلدی سے کہا،
ہاں آپ چلیے، حیات بس یوں گئی اور یوں اپنا بیگ لے کر آئی..
اَمن نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
ہمم… جلدی آؤ، میں گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں۔
یہ کہتے ہوئے اَمن باہر نکل گیا۔
حیات، زارا اور مایا ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھا، جبکہ نتاشا خاموشی سے کھڑی رہی۔
نتاشا نے دل ہی دل میں جل کر کہا،
اب اَمن اس پُھلجھڑی کے لیے ویٹ بھی کرے گا…
اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا، مگر وہ خود پر قابو رکھتے ہوئے خاموش رہی۔
مایا نے نوٹس کو پڑھتے خوشی سے کہا،
ارے! یہ تو پکنک کا نوٹس ہے۔۔۔
زارا نے حیرت سے جھک کر دیکھا،
ہہ؟ سچ میں…؟
مایا نے پرجوش لہجے میں کہا،
ہاں نا! اس پر صاف لکھا ہے — ‘ابھی جو ہمارا فائدہ ہوا ہے، اُس کی خوشی میں سی سائیڈ پر پارٹی ہے۔۔۔
زارا نے دلچسپی سے کہا،
مطلب حیات نے جو کہا تھا، وہ کر کے دکھایا…
مایا نے مسکرا کر کہا،
ہاں یار! دیکھنے میں تو بالکل پاگل لگتی ہے، لیکن کام دیکھو تو… کتنے بڑے بڑے کر جاتی ہے۔۔۔
زارا نے گہری سانس لے کر کہا،
ہمم… دو سال پہلے گئے تھے ہم سی سائیڈ آفس سے۔ اُس کے بعد تو سب نے اتنی کوشش کی باس کو منانے کی، لیکن وہ تو ٹَس سے مَس نہ ہوئے… اور اب اچانک مان بھی گئے پکنک کے لیے؟
نتاشا ان کی باتیں برداشت نہیں کر پاتی۔ وہ چہرے پر غصہ لیے سخت لہجے میں کہا
ہوگیا تم دونوں کا؟ تو اب کام پر دھیان دے لو۔۔۔
یہ کہہ کر وہ تیز قدموں سے وہاں سے نکل گئی۔
زارا نے دھیرے سے کہا،
ہمم… غصہ تو آئے گا ہی انھیں… ان کا غرور جو ٹوٹا ہے…
مایا نے نرمی سے کہا،
ہاں، کیا ہی کہہ سکتے ہیں… چھوڑو…
دونوں ایک دوسرے کو خاموش نظروں سے دیکھتی ہیں، گویا بہت کچھ کہہ کر بھی کچھ نہ کہا ہو۔
++++++++++++
آفیس کی تھکن سے چُور، اَمن جیسے ہی دروازے سے اندر داخل ہوا، سامنے کا منظر دیکھ کر تھوڑا چونکا۔ سب بھائی لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے، اور نظریں ٹی وی پر جمی تھیں۔
اَمن نے حیرت سے کہا
اوہو! سب باہر بیٹھے ہو، آج خیریت تو ہے؟
یوسف نے نگاہ ٹی وی سے ہٹائے بغیر کہا
ہاں بھائی، بس انڈیا پاکستان کا میچ آ رہا ہے۔
اچھا…
اَمن نے مسکرا کر جوتے اتارتے ہوئے صوفے کی طرف بڑھا۔
دانیال نے اچانک بول اٹھا
بھائی یہ پاگل ہے، کچھ بھی بولتا ہے۔ میں بتاتا ہوں اصل بات، ہم لوگ باہر کیوں بیٹھے ہیں۔
اَمن نے دلچسپی سے کہا
ہمم، بتاؤ؟
دانیال نے مصنوعی غصے سے کہا
تمہارا انتظار کر رہے تھے! کھانا کھانا ہے ہمیں۔ کب سے بھوک لگی ہے مجھے، اور تم ہو کہ جیسے دوسروں کا کوئی خیال ہی نہیں…
اَمن نے نرمی سے کہا
میٹنگ تھی، بس اُسی میں دیر ہو گئی…
جو بھی، اب چلو، کھانے کی طرف بڑھو…
اَمن جیسے ہی پلیٹ میں سالن ڈالا، پھر کہا
دو دن بعد میں آفس والوں کو لے کر سی سائیڈ جا رہا ہوں۔
اذلان نے اوور ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا
ارے! جلدی ایمبولینس کو کال کرو، جلدی۔۔۔
ابرار نے اداکاری میں شامل ہوتے ہوئے کہا
ہاں ہاں! کہاں ہے میرا فون؟
اَمن نے سختی سے کہا
ابھی دونوں تھپڑ کھاؤ گے۔۔۔۔
اذلان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
بھائی، اس میں تھپڑ کی کیا بات؟ تم ہی تو بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔۔۔۔
ہمم، اذلان صحیح کہہ رہا ہے… ابرار نے ازلان کا ساتھ دیا۔
بھائی، اور کوئی جگہ نہیں ملتی کیا تمہیں؟ ارحم نے بیزاری سے کہا۔
ہاں، خالی سی سائیڈ… سی سائیڈ! اور کچھ نہیں۔۔۔ ارسل نے بھی بیزاری سے سر جھکایا۔
اَمن نے سنجیدگی سے کہا
میں ابھی بتا رہا ہوں تاکہ بعد میں کوئی ڈرامہ نہ کرے۔۔۔۔
اذلان نے سراپا انکار کیا
میں تو نہیں جاؤں گا۔۔۔۔
ہاں، مجھے بھی کام ہے، میں بھی نہیں جا رہا۔ ابرار نے بھی صاف انکار کردیا۔
بھائی، اگر تم سی سائیڈ کے علاوہ کہیں اور جا رہے ہوتے، تو شاید میں چلتا۔ لیکن چونکہ تم پھر سے سی سائیڈ جا رہے ہو، تو سوری، میں نہیں جا رہا۔ ارحم نے کہا۔
اذلان نے چٹکی لیتے ہوئے کہا
اس میں سوری کی کیا ضرورت ہے بھائی؟ زبردستی تھوڑی لے کر جا رہے ہے، بڑا آیا ‘سوری’ والا۔۔۔
ارسل نے جھنجھلا کر کہا
ابے چپ رہ! تم جیسے بدتمیزوں کو کیا پتا کہ انکار کیسے کرتے ہیں۔۔۔۔
انکار ہی تو کرنا ہے، اس میں تمیز اور بدتمیزی کیا۔۔۔ اذلان نے بیزاری سے کہا۔
ارے تُو جا رے۔۔۔ ارسل نے کہا۔
بھائی، میں بھی نہیں جاؤں گا۔ ارسل نے بھی صاف انکار کیا۔
اَمن نے گہری سانس لے کر کہا
اچھا… صحیح ہے…
دانیال نے منہ بناتے ہوئے کہا
بھائی، میرے سے بھی پوچھو۔۔۔۔
اَمن نے مسکرا کر کہا
ہاں، جیسے میں تم سے پوچھوں اور تم انکار کر دو گے؟ جاؤ گے ہی تم دونوں۔۔۔
یوسف نے خوش ہو کر کہا
یہ ہوئی نا اچھی بات۔۔۔۔
دانیال نے اکڑ کر کہا
ہمم، بھائی تم میرے ساتھ رہ رہ کے سمجھدار ہوتے جا رہے ہو۔۔۔۔
اذلان نے ہنستے ہوئے کہا
گائز، آج کے لیے اتنا کافی ہے، باقی کل دانیال کی اس بات پر ہنسیں گے۔۔۔۔
چپ رہ۔۔۔ دانیال نے فوراً منہ بنایا۔
ابے اب تیری بات مانو میں؟ اتنے بُرے دن بھی نہیں آئے میرے۔۔۔ اذلان نے اکڑ کر کہا۔
ارحم نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا
تم دونوں کو پتا نہیں کیا مزہ آتا ہے آفس کے لوگوں کے ساتھ جانے میں؟ عجیب ہو! اپنے دوستوں کے ساتھ جاؤ نا۔۔۔
اُن لوگوں کے ساتھ بھی تو جاتا ہی ہے یہ۔۔۔ ارسل نے کہا۔
ہم لوگوں کی مرضی ہے۔ جب لے جانے والے کو کوئی مسئلہ نہیں، تو تم لوگوں کو کیوں ہے؟ یوسف نے کہا۔
دانیال نے غصے سے کہا
عجیب! ہڈی میں کباب بنے پھرتے ہیں یہ لوگ۔۔۔
کباب میں ہڈی ہوتا ہے، پاگل۔۔ ابرار نے دانیال کا جملہ درست کیا۔
دانیال نے فوراً کہا
وہی! ایک ہی بات ہے نا۔۔۔
ہاں… تمہارے لیے تو سب ہی ایک بات ہے۔
دانیال نے چونکتے ہوئے کہا
کیا مطلب ہے بھائی تمہارا؟
ابرار نے فوراً بات گھماتے ہوئے کہا
کچھ نہیں، کچھ نہیں…
دانیال نے شک بھری نگاہ سے ابرار کو دیکھتے ہوئے کہا
اچھا…
یوسف نے خوشی سے پوچھا
بھائی! تو پھر کب چلے پکنک پہ؟
اَمن نے پُرسکون انداز میں کہا
ہمم… دو دن بعد۔
ہمم… تم دونوں تیاری کر لینا، اور صبح وقت پہ میرے ساتھ آفس چلنا۔ وہاں سے نکلیں گے پھر۔
دانیال نے پُرجوش انداز میں کہا
اوکے! ڈن کرو۔۔۔۔
اَمن نے سخت لہجے میں کہا
ہمم… ٹائم پہ کا مطلب ٹائم پہ ہوتا ہے… یاد رکھنا۔
یوسف نے ہنستے ہوئے کہا
ارے ہاں ہاں بھائی! سمجھ گئے…
++++++++++++++
حیات، آفیس کے اندرونی ہال میں زارا اور مایہ کے پاس آئی، چہرے پر ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ لیے۔
حیات نے مصنوعی خوشی سے کہا
ہائے ہائے! کیسی ہو تم دونوں؟
زارا نے خوش دلی سے کہا
ہاں ہاں، ہم لوگ ایک دم ٹھیک ہیں! تم سناؤ، فارم پر سائن کروانے کے لیے لائی ہو؟
( پس منظر وضاحت: اَمن نے تمام ینگ اسٹاف کو ایک اجازت نامہ فارم دیا تھا، جس پر والدین یا گارڈین کے سائن لازمی تھے تاکہ اگر سی سائیڈ پر کوئی حادثہ ہو، تو آفیس کی قانونی ذمہ داری نہ ہو۔)
حیات نے نرمی سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا
نہیں… حیات کے پاپا نے سائن نہیں کیے۔ بولے کہ نہیں، تم نہیں جاؤ گی، پانی کی جگہ پر…
زارا نے تھوڑی مایوسی سے کہا
اوہ! تو تم ہمارے ساتھ نہیں آ رہی…
حیات نے آواز کو ہلکا رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
نہیں… نیکسٹ ٹائم۔ تم لوگ جاؤ، انجوائے کرو۔
مایا نے اداسی سے کہا
تم بھی چلتی تو مزا آتا…
حیات نے مسکرا کر، مگر نظریں چراتے ہوئے کہا
کہا نا، نیکسٹ ٹائم…
یہ کہتے ہی وہ پلٹ کر اَمن کے کیبن کی طرف چل پڑی۔
مایا اور زارا خاموشی سے اُسے جاتے دیکھتی رہیں۔
زارا نے دل سے نکلی آہ کے ساتھ کہا
بیچاری حیات… اتنا سب کچھ پلان کروایا، اب خود ہی نہیں جا پائے گی…
مایا نے آہستہ سے کہا
ہمم… لیکن اب اس میں میں یا تم کیا ہی کر سکتے ہیں…
زارا نے سر ہلاتے ہوئے کہا
ہاں، یہ بات بھی ٹھیک ہے…
مایا نے اچانک چونک کر کہا
ہمم… اسی لیے اپنا کام کرو، ورنہ وہ زاویار جَلاّد آ جائے گا اور پھر دس باتیں سنائے گا ہمیں!
زارا نے قہقہہ دباتے ہوئے کہا
ہمم…
+++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔
