antal hyat

Antal hayat Episode 3 written by siddiqui

انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )

باب اول: تُم میری محبت کی آخری وارث ہو

قسط نمبر ۳

صبح کی نرم دھوپ کمرے کی کھڑکی سے اندر جھانک رہی تھی۔ ناشتہ میز پر رکھا تھا، ندیم صاحب اپنا بریف کیس تھامے، آفس جانے کو تیار دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے۔

اچانک، سیڑھیوں سے حیات کی بھاگتی ہوئی آواز سنائی دی۔ سانس چڑھا ہوا، کپکپاتی آواز میں کہا
پاپا… پاپا،  میری بات سنیے

ندیم صاحب نے فوراً رُک کر، فکرمند لہجے میں کہا
آرام سے بولو، کیا ہوا حیات؟ سب خیریت ہے؟

حیات نے موبائل اسکرین اُن کے سامنے کر دی، جہاں امن کی تصویر جگمگا رہی تھی –
یہ کمپنی “دی بلیک روز” کا مالک، امن جنید خان ہے۔
کل رات حیات کے والد نے کمپنی کی تفصیل دی تھی، اور حیات نے جیسے ہی نام گوگل کیا، امن کی تصویر سامنے آگئی، امن کی تصویر دیکھتے ہی اُس کے اندر جیسے طوفان آ گیا تھا۔

حیات نے ناراض لہجے میں کہا
بابا! میں اِس کے آفس نہیں جا رہی!

ندیم صاحب بے ساختہ ہنسے:
لو بھئی، تم نے تصویر بھی نکال لی، ہاں، یہی ہے۔ “دی بلیک روز” کا مالک۔ امن جنید خان۔

حیات نے غصے سے کہا
ابھی کل ہی تو میں نے اس کے رشتے سے انکار کیا ہے آپ سے! اور آپ مجھے اسی کے آفس بھیج رہے ہیں؟ اگر اتنے پسند ہے تو مجھے پہلے ہی بتا دیتے!

اوہ میڈم! تم کس دنیا میں ہو؟ یہ امن جنید خان ہے! اِس کا رشتہ آئے گا تمہارے لیے.. زینب بیگم نے فوراً حیات کو ٹوکا۔

ندیم صاحب نے سنجیدگی سے کہا:
بیٹا، جو تم نے آخر میں کہا، وہ سچ ہے،  ہاں، مجھے یہ لڑکا بہت پسند ہے۔ اِسی لیے تو میں تمہیں اُس کے آفس بھیج رہا ہوں۔ کیونکہ تمہارے معاملے میں میں کسی اور پر بھروسا نہیں کر سکتا۔

ابھی اُن کی بات پوری ہوئی تھی کہ زینب بیگم پھر بول اُٹھی:
اور تمہارے لاکھ لڑکوں کو انکار کرنے کے بعد اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہاری شادی اب ہم اس لڑکے سے ہی کروائیں گے۔ اسی لیے تمہیں اس کے آفس بھیج رہے ہیں۔ زینب بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ابھی حیات کو رخصت کر دے۔

ندیم صاحب نے غصے میں، زینب سے کہا:
میں نے تمہیں منع کیا تھا ابھی یہ سب حیات کو نہ بتاؤ!

What the hell is going on!
یہ سب میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟
وہ رونے لگی، چیخ چیخ کر کہنے لگی کہ وہ امن سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی… شادی؟
No way!

ندیم صاحب پاس آتے ہوئے، نرمی سے بولے:
حیات بیٹا، میری بات سنو

بابا، آپ نے تو کہا تھا لڑکا میری پسند کا ہوگا حیات نے معصومیت سے آنکھوں میں نمی لاتے کہا۔
باپ کی نرمی، محبت بھرے انداز نے حیات کے دل کا سارا غصہ اُڑا دیا۔ وہ جذباتی ہو گئی – کیونکہ وہ تھی ہی ایسی، تھوڑی سی محبت پا کر پگھل جایا کرتی تھی۔

ہاں تو میں کب زبردستی کر رہا ہوں؟ اگر تمہیں اچھا نہ لگے تو ریجیکٹ کر دینا، میں کب کہہ رہا ہوں زبردستی شادی کرو؟

زینب بیگم کچن کی طرف بڑھتے ہوئے بڑبڑائیں:
باپ بیٹی دونوں ہی پاگل ہیں! ساری زندگی گھر بیٹھانے کا ارادہ ہے کیا؟
دل ہی دل میں خود سے کہتی، کیونکہ اب کوئی علاج باقی نہیں..

حیات نے اکڑ کر کہا:
میں ابھی انکار کرتی ہوں، ان کی کمپنی کو بھی اور انہیں بھی، مجھے نہ ان سے شادی کرنی ہے، نہ ان کے آفس جانا ہے!

ندیم صاحب نے صاف لہجے میں کہا:
ٹھیک ہے، پھر کمپنی کا خواب بھی بھول جاؤ۔

حیات نے روٹھے انداز میں کہا:
بابا، یار، کسی اور کمپنی میں بھیج دیں نا! اِس کی کمپنی میں جانا ضروری ہے؟

ندیم صاحب نے سنجیدگی اور نرمی کے امتزاج سے کہا:
دیکھو حیات، پہلی بات، یہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی ہے۔
دوسری بات، یہ میرے اُس دوست کے بیٹے کی کمپنی ہے جس پر میں آنکھ بند کر کے بھروسہ کرتا ہوں،
اور تیسری بات، میں اپنے دوست سے وعدہ کر چکا ہوں۔ ابھی ابھی اُس کا میسج آیا تھا، امن مان گیا ہے۔
ویسے تو وہ اپنے اصولوں کا بہت پکا ہے، کسی کو سفارش پر اپنے آفس میں رکھتا ہی نہیں –
لیکن وہ اپنے بڑوں کی بہت عزت کرتا ہے، تو کیا اب تم مجھے اس عمر میں اپنے دوست اور اُس کے بیٹے کے سامنے شرمندہ کرواؤ گی؟

حیات نے منہ پھیر کر، غصے میں بڑبڑایا:
ہنہ، کچھ زیادہ ہی اچھے نہیں بن رہے، اگر اصولوں پر عمل نہیں کرنا، تو اصول بنائے ہی کیوں؟
پھر ندیم صاحب کی طرف دیکھ کر معصومیت سے کہا:
پاپا! میں اگر وہاں گئی تو وہ میری انسلٹ کریں گے!

ندیم صاحب نے تحمل سے کہا:
وہ ایسا نہیں ہے حیات

حیات نے اداکاری کے فن کی انتہا پر جا کر کہا:
پاپا! آپ کو نہیں پتا، میں مل چکی ہوں اُن سے، وہ مجھے اتنی باتیں سناتے ہیں.
(یہ سب تو حیات کی مہارت ہے، اپنے پاپا کو منانے کا فن۔
ورنہ اگر کوئی اُسے کچھ کہے، تو وہ اُسے چار سنا کر ہی دم لے۔)

ندیم صاحب نے تھوڑی حیرانی سے، پر دھیما لہجہ میں کہا:
تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، وہ ایسا نہیں ہے حیات۔
(یہ پہلی بار تھا کہ حیات کے والد اُس کی کسی بات سے اختلاف کر رہے تھے۔
ورنہ تو اگر حیات جھوٹ بھی کہتی، تو وہ اُسے سچ ہی مانتے، )

حیات نے دل ہی دل میں کہا:
محنوس ،  واہیات انسان! میرے پاپا پر کالا جادو کر رکھا ہے اس نے.!

اب دیکھیے گا، وہ جیسے ہی مجھے دیکھیں گے، آفس سے باہر نکال دیں گے!

ندیم صاحب پُراعتماد لہجے میں بولے:
تو تم واپس آ جانا
(اُنہیں یقین تھا امن ایسا ہرگز نہیں کرے گا۔)

حیات نے چبھتے لہجے میں کہا:
ٹھیک ہے! اگر انہوں نے مجھے آفس سے نکالا، تو یہ اُن کی غلطی ہوگی.
پھر آپ مجھے کسی اور کمپنی میں جانے کا ایک اور موقع دیں گے.

ٹھیک ہے، لیکن اگر تم خود آفس چھوڑ کر آئیں،
تو تمہیں اُسی سے منگنی کرنی پڑے گی،
اور کمپنی کا خواب تو بھول ہی جانا!

ٹھیک ہے!
امن جنید خان، آ رہی ہوں میں تمہاری زندگی جہنم بنانے دل ہی دل میں کہا
تمہیں خود مجھے اپنے آفس سے نکالنا پڑے گا،
ورنہ میں آپ کا جینا حرام کر دوں گی

چلو، اب تیار ہو جاؤ، امن کے آفس جانے کا وقت ہو چکا ہے۔
اور ہاں! یاد رہے، پرفارمنس اچھی ہونی چاہیے.،
اور تمہارے پاس صرف تین مہینے ہیں۔

حیات ناک چڑھاتے ہوئے بولی
ہُممم، اوکے اوکے

++++++++++++

دوپہر کی دھیمی دھوپ نے آفس کی شیشے کی دیواروں کو سنہری رنگ میں رنگ دیا تھا۔ سکون اور مصروفیت کا عجب امتزاج تھا اس ماحول میں۔ ملازمین اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے جب اچانک وہ داخل ہوئی-

سفید پن شرٹ، نیلے جینز، کھلے بال جو کندھوں پر آزاد پرندوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے، گلابی رخسار، سرخ لب، اور کاجل و لائنر سے سجی گہری آنکھیں-ایسی جادوئی، کہ دیکھنے والا سانس لینا بھول جائے۔

اس کی خود اعتمادی سے بھری چال اور پرسکون انداز نے پورے آفس کا دھیان اپنی جانب کھینچ لیا۔

کاؤنٹر کے قریب آ کر اس نے کہا
السلام علیکم، مجھے آپ لوگوں کے باس سے ملنا ہے۔

زارا جو کاؤنٹر پر بیٹھی تھی، کچھ پل کو تو مبہوت رہ گئی، پھر خود کو سنبھال کر بولی
لیکن آپ نے اپائنٹمنٹ لی ہے؟

حیات نے ہنوز مسکرا کر، ذرا سا جھک کر جواب دیا
نہیں، کیونکہ میں یہاں انٹرویو کے لیے آئی ہوں۔
اس کے ہاتھ خالی تھے، سواۓ ایک چھوٹے سے کلچ کے جو اس کی نازک انگلیوں میں تھما ہوا تھا۔ کلچ بھی اتنا مختصر کہ بمشکل اس میں ایک موبائل سما سکے۔

ساتھ بیٹھی مایا نے ماتھے پر بل ڈالے کہا
آج تو انٹرویو کا کوئی دن نہیں، نہ ہی ہمیں کسی امپلائی کی ضرورت ہے، میڈم آپ شاید غلط جگہ آ گئی ہیں۔

حیات نے اپنی آنکھوں میں تیور بھر کر کہا
او ہیلو! میں بالکل صحیح جگہ آئی ہوں، اور میرا انٹرویو آج ہی ہوگا۔ تم اپنے باس کو کہو کہ وہ مجھے بلائیں!

زارا نے جھک کر مایا کے کان میں سرگوشی کی:
یار یہ کیا چیز ہے؟ نہ سی وی ہے، نہ کوئی فائل، اور پرس اتنا چھوٹا جیسے صرف شو آف کے لیے ہو۔ کیا کریں؟ باس کو انفارم کریں؟

مایا نے پلکیں جھپکائیں، نرمی سے مگر طنزیہ لہجے میں کہا:
پاگل ہو کیا؟ باس ناراض ہوں گے، کوئی بہانہ کر کے بھگا دو۔ بول دو کہ وہ بزی ہیں۔

زارا نے نظریں دوڑائیں، پھر دھیرے سے بولی
اگر یہ باس کی کوئی رشتہ دار ہوئی تو؟

مایا نے ہنکارا بھرا
اوہ جسٹ شٹ اپ! یہ اور باس کی رشتہ دار؟ حلیہ دیکھو ذرا! اور تمہیں پتا ہے باس کی نتاشہ کے علاوہ اور کوئی رشتہ دار ملیشیا میں نہیں ہے۔ اور نٹاشا تو یہاں کام کرتی ہے، یہ کوئی رشتہِ دار نہیں ہے بھگا دو!

دونوں ابھی اسی بحث میں الجھی ہوئی تھیں کہ…
ایک نظر نے سب کچھ بدل دیا۔

امن جو اپنے شیشے کے کیبن میں بیٹھا تھا، جس کی دیواریں صرف اندر سے باہر کا منظر دکھاتی تھیں، باہر سے کوئی جھانک نہیں سکتا تھا۔

اس کی نگاہ حیات پر پڑی۔ لمحے بھر کو جیسے اس کے دل کی دھڑکن رک گئی۔
وہ اٹھا، پلکیں جھپکائیں، پھر مسلا… جیسے یقین نہ آ رہا ہو…
یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟
وہ خود سے بولا، حیرت اور الجھن میں ڈوبا ہوا۔
لگتا ہے اس نے منع نہیں کیا،

ایک پل کو لبوں پر کرب سی مسکراہٹ آئی، پھر فوراً فون اٹھایا اور کاؤنٹر پر کال کی۔

جی باس؟ ریسیپشن زارا  نے فوراََ کال اٹھائی
یہ جو لڑکی کھڑی ہے، اُسے میرے آفس میں بھیجو۔
جی باس۔

آمن کا غصہ آفس میں مشہور تھا۔ اس کی نگاہ ہی کسی کی ہمت توڑنے کے لیے کافی ہوتی۔ کسی میں مجال نہ تھی کہ اس سے بحث کرے۔
زارا نے دبی دبی سانسوں کے ساتھ حیات کی طرف اشارہ کیا
مس! وہ سامنے باس کا آفس ہے، آپ جا سکتی ہیں۔

مایا نے جھک کر کہا
کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ باس سے ذلیل ہونے کا ارادہ ہے کیا؟

زارا نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے خاموش رہنے کا اشارہ دیا۔ اور حیات مسکراتی ہوئی، شان سے، غرور کے ساتھ، باس کے آفس کی طرف قدم بڑھا گئی..

دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا  حیات، جو خود ہی خود میں بڑبڑا رہی تھی
افففف اللہ! کہاں پھنس گئی ہوں میں، مجھ سے تو یہ ‘ایٹیٹیوڈ گرل’ بننے کی ایکٹنگ بھی نہیں ہو رہی

وہ دروازہ کھولی جیسے یہ اس کا ذاتی کمرا ہو، بغیر دستک کے اندر داخل ہوگئی

امن اپنی کرسی پر بیٹھا، فائل کے صفحات پلٹتے ہوئے اچانک چونکا پیشانی پر بل پڑے، آنکھوں میں سختی در آئی
یہ کون سا طریقہ ہے؟ دروازے نوک کون کرے گا ؟

حیات نے بے فکری سے شانے اچکاتے ہوئے کہا
میں نے آج تک اپنے گھر کا دروازہ نوک نہیں کیا، تو آپ کے کیبن کا، کیا ہی کروں گی؟

امن ابرو چڑھاتے ہوئے کہا
تمیز؟

حیات مصنوعی معصومیت سے کہا
وہ تو میں نے بیچ کے کھالی

لگ ہی رہا ہے امن نے ناگواری سے کہا

پھر امن سیدھا ہو کر سنجیدگی سے بولا
لاؤ، اپنی سی وی دکھاؤ؟

حیات آنکھیں گھما کر بولی
وہ بھی لانی تھی؟

تو سی وی کے بغیر جاب کیسے ملتی ہے؟

حیات بے ساختہ، جیسے بات ختم ہو گئی ہو
مجھے کیا پتہ؟ آپ اتنا بڑا آفس چلا رہے ہیں، آپ کو پتا ہوگا نا!

امن ایک لمحے کو اپنی سانس روک لی جیسے غصہ اندر ہی کہیں دفن کررہا ہو آنکھیں اس کے چہرے پر جمائی، مگر الفاظ، ضبط کی زنجیر میں بندھے ہوتے تھے
پھر وہ سیدھے لہجے میں، کسی اندرونی فیصلہ کے ساتھ کہا
ٹھیک ہے، آپ آج سے میری اسسٹنٹ کام کریں گی۔ جائیے، وہ سامنے مینیجر کا روم ہے، وہ آپ کو سارا کام سمجھا دیں گے۔

ٹھیک ہے، جا رہی ہوں..
وہ جان بوجھ کر قدم آہستہ کیا، جیسے ہر حرکت امن کو چڑانے کے لیے ہو، ہنوز اس کی آنکھوں میں شوخی رقص کر رہی تھی۔

++++++++++++

وہ مینیجر کے روم کے دروازے پر پہنچی۔ ہلکی سی مسکراہٹ لیے دروازے پر دستک دیتی اندر داخل ہوئی
السلام علیکم! وہ چمکتی ہوئی آواز میں بولی،

مینیجر جلدی سے سیدھا ہوا، اور ایک فائل اس کے سامنے رکھتے ہوئے رسمی لہجے میں بولا
جی، یہ رہی فائل۔ اس میں سارا شیڈول درج ہے کہ آپ کو کب کیا کرنا ہے۔ آپ یہ دیکھ لیجیے گا۔

حیات نے بنا ہلے، حیرت اور مصنوعی غصے سے کہا
ہیں؟ فائل؟؟؟
(پھر جھک کر، جیسے راز کی بات کر رہی ہو)
آپ کی زبان کٹ جائے گی اگر آپ خود اپنی زبان سے یہ سب بتا دیں تو…؟

جی.. وہ یہ کہتا اپنے کام میں مصروف ہوگیا اور حیات ہنہ کرتی وہاں سے نکل آئی۔

دفتر کی راہداری میں حیات دھیرے دھیرے قدم رکھے جا رہی تھی، مگر زبان اُس کی معمول کے مطابق رفتار سے دوگنا تیز چل رہی تھی۔

عجیب، اپنے دادا کی عمر کا مینیجر رکھا ہوا ہے اِنہوں نے۔ پکا خود بھی بُڑھوں میں رہ رہ کے نفسیاتی ہو گئے ہوں گے۔ فائل پکڑا دی، اور بولے اس میں لکھا ہے کیا کرنا ہے! ہائے اللہ۔۔۔ کیسا نظام ہے یہاں کا!

وہ یونہی بڑبڑاتے جا رہی تھی کہ اچانک ایک لڑکی سے ٹکرا گئی

اوہ! سوری!
نتاشا نے بغیر مسکراہٹ کے، نخوت سے کہا

دیکھ کے چلا کرو!

جی ہاں! یہ ہیں نتاشا – امن جنید خان کی بچپن کی دوست، کلاس فیلو، اور سب سے بڑھ کر… کزن۔
امن کے دفتر میں، کام کو “پرفیکشن” کے معیار پر پرکھنے کے لیے ہر کام کے لیے کئی کئی لوگ رکھے گئے تھے۔
نتاشا، امن کی پرسنل اسسٹنٹ بھی ہے اور خود کو امن کی “مستقبل کی بیوی” بھی سمجھتی ہے، بس فرق اتنا ہے کہ یہ بات ابھی امن کو معلوم نہیں

بچپن سے ساتھ تھے، اسکول، کالج، یونیورسٹی، سب ساتھ گزرا۔
امن نے کبھی دل کی بات زبان پر نہ لائی، مگر دل ہی دل میں نتاشا کو پسند ضرور کرتا تھا۔
جب گھر والوں نے شادی کا زور ڈالا، تو امن نے دادی سے نتاشا کی بات کی…
مگر دادی نے سختی سے انکار کر دیا، وجہ صرف ایک —

سوتن کی پوتی ہمارے لاڈلے پوتے کے قابل نہیں

امن دادی سے بہت محبت کرتا تھا، سو اُس نے نتاشا سے فاصلہ رکھنا شروع کر دیا۔
دو سال بعد، نتاشا کو سچ کا علم ہوا… مگر دیر ہو چکی تھی۔
اب امن کا دل کسی اور راستے پر چل پڑا تھا۔
مگر نتاشا ابھی بھی وہیں کھڑی ہے — امن کے انتظار میں… امن کی راہوں میں۔

نتاشا نے آنکھیں تنگ کر کے، انداز میں تحقیر کہا
تم ہو کون؟ پہلے تو تمہیں یہاں نہیں دیکھا!

حیات اپنے بال سنبھالتے ہوئے، شوخی سے کہا
تو اب دیکھ لو، میں ہوں – مِس حیات باس کی نئی اسسٹنٹ!

جیسے ہی اُس نے بال پیچھے کیے، اس کے بال اچانک کسی کے چہرے پر لگے، اور وہ کوئی اور نہیں، بلکہ امن تھا!

امن آہستہ سے حیات کے کان کے قریب جھک کر، بھاری آواز میں کہا
کیا کر رہی ہو ؟

حیات ہڑبڑا کر پیچھے ہٹتی، خوف اور حیرت سے اس کے ہاتھ سے فائل گر گئی
امن نے اُس کو ڈرنے کی کوشش کی تھی، اور وہ ڈر بھی گئی۔

حیات نے غصے سے، رخ موڑتے ہوئے کہا
تمیز نہیں ہے آپ کو؟

امن آبرو اچکاتے ہوئے
آپ کو ہے؟

بدتمیز انسان! کوئی اپنے امپلائی کو اس طرح ڈراتا ہے کیا؟

میرے کیبن میں آؤ! وہ روعب ڈر آواز میں کہتے ہوئے پلٹ گیا

نتاشا نے چونک کر، قدرے حسد سے کہا
تم… کیا باس کو پہلے سے جانتی ہو؟

ہاں، آپس کی بات ہے، وہ واہیات پارانی ہے
یہ کہہ کر وہ امن کے آفس کی طرف بڑھ گئی۔

What?!
یہ کون ہے…؟!
نتاشا زیرِ لب بڑبڑائی

++++++++++++

امن کا کیبن نہایت سادہ مگر پر وقار تھا۔ پورا شیشے کا، مگر اندر کا منظر باہر سے نظر نہیں آتا۔ صرف امن کی اپنے اسٹاف پر مکمل نظر رہتی تھی۔ دائیں طرف دیوار پر بڑا سا آئینہ، بائیں طرف صوفہ، میز، اور اس کے پیچھے ایک مضبوط فولادی کپ بورڈ – جس میں امن کی قیمتی فائلز محفوظ ہیں۔ امن کا میز، دروازے کے بالکل سامنے تھا۔

نوک کر کے آیا کرو۔ حیات کے سیدھا اندر آنے پر امن نے اُسے دوبارہ ٹوکا۔

حیات کے چہرے پر طنز، لہجے میں بغاوت لیے بولی
اور نہ کروں تو؟ آپ فائر کر دیں گے مجھے؟

نہیں، میں آپ کی ایکسپیرینس فائل میں اچھا فیڈبیک نہیں لکھوں گا۔

تو نہ لکھیں! حیات نے لاپروائی سے کہا

امن نے سنجیدگی سے، نظر گاڑتے ہوئے کہا
اور اگر لکھ دوں کہ مس حیات کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتی، نہ نوک کرتی ہے، نہ رولز فالو کرتی ہے، تو آپ کو یہاں تو کیا، کہیں اور بھی نوکری نہیں ملے گی۔ تین مہینے کے بعد، زیرو فیوچر۔

حیات نے اکڑتے ہوئے کہا
تو میں دوسرے مُلک جا کے نوکری کر لوں گی۔

اوہ، تو آپ کو شاید پتا نہیں کہ دی بلیک روز اور اُس کا مالک، یعنی میں، پوری دنیا میں مشہور ہے۔ آپ چاہے پاتال بھی چلی جائیں، اگر میں نے ایک نیگیٹو ریویو ڈال دیا تو.. بائے بائے. گیا آپ کا کیرئیر۔

حیات نے منہ بنا کر کہا
عجیب ! سب فائر کرتے ہیں، اور ان کو دیکھو فیڈبیک خراب دے گے۔

جی جی، اب سکون سے جا کے وہاں بیٹھیں..

Whatever!
حیات اترتے ہوئے صوفے پر جا کر بیٹھی اور جو فائل اُسے مینیجر نے دیا تھا وہ پڑھنے لگی

حیات غصے سے اٹھ کر فائل امن کے سامنے پٹختی
یہ کیا نوکرانیوں والے کام ہیں؟ میں یہ سب نہیں کروں گی! اور ویسے بھی، کون انٹرویو والے دن جواننگ دیتا ہے ؟

نوکرانیوں والے نہیں، پرسنل اسسٹنٹ والے کام ہیں۔ اور رہی بات آج کی جوائننگ کی، تو آپ شاید انٹرویو دینے نہیں آئی تھیں، ورنہ سی وی ساتھ لاتی؟ امن نے سنجیدگی سے کہا

او ہیلو! یہ نوکرانیوں والے ہی کام ہیں! اور میں یہ ہرگز نہیں کروں گی۔

آپ کر ہی نہیں سکتیں. وہ مسکراتے ہوئے بولا

حیات غصے سے لال ہوتی بولی
آپ نے کبھی شہزادیوں کو نوکرانیوں جیسے کام کرتے دیکھا ہے؟

مگر آپ کو یہی کام کرنا پڑے گا، اور آج سے ہی۔

حیات یہ سب نہیں کرے گی، تو نہیں کرے گی۔

تو کوئٹ کر دیں، اور جا کے اپنے پاپا کو بول دیں

حیات نے جھنجلا کر کہا
میں کوئٹ نہیں کروں گی! آپ کے لیے بہتر یہی ہے کہ آپ مجھے فائر کردیں

امن آہستہ سے مسکرا کر بولا
وہ نہیں کر سکتا ہوں.

کیوں؟

امن آہستہ سے، تنزیہ لہجے میں کہا
کیوں کہ مجھے اپنی بہتری پسند نہیں ہے.

تو پھر اپنی اور اس آفس کی تباہی کے لیے تیار ہو جائیں حیات غصے میں بولی

اوہ، سریسلی؟

ہاں! کیونکہ حیات آپ کو سکون سے نہیں جینے دے گی جب تک آپ حیات کو فائر نہیں کر دیتے

بھول مت میرا نام امن ہے

تو ؟؟

نام یاد رکھو – امن ہوں میں۔ ہر حالت میں امن میں رہنا جانتا ہوں۔ تمہارا تباہی پلان… تو فیل

دیکھیے گا، آپ کو حیات کی بددعا لگے گی! بددعا کہ شہزادیوں سے ایسے کام کرواتے ہیں؟ شرم نہیں آتی؟ جہنم میں جائیں آپ، جہنم میں
وہ ٹیبل پر جُھکی امن کو گھورتے کہا

ہاں تمہیں ساتھ لے کر جاؤں گا جہاں بھی جاؤں گا آخری کو تُم میری پرسنل اسسٹنٹ ہو اُس نے طنز کیا

حیات نے اپنی تین اُنگلی امن کے آنکھوں کے سامنے کیے
بس تین مہینے! سمجھ نہ، بس تین مہینے

حیات کے ابّو نے حیات کو صرف تین مہینے امن کے آفس میں جاب کرنے کو کہا تھا۔ اگر تین مہینے میں حیات کی پرفارمنس اچھی ہوئی تو حیات کے ابّو اپنی کمپنی حیات کے سپرد کر دیں گے تاکہ وہ اسے سنبھالے۔

+++++++++++

جاری ہے۔۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *