انت الحیاۃ ( از قلم صدیقی )
باب اول : تُم میری محبت کی آخری وارث ہو
قسط نمبر ۵
تم بنانا شیک میں گھلتی مسکراہٹ ہو،
میرے سخت لہجے میں چھپی وہ چاہت ہو۔
یوسف اور دانیال ایک دوسرے کو گھورتے ہوئے آہستہ آہستہ صوفے سے ہٹ کر ایک طرف جا کھڑے ہوئے تھے۔ دونوں کے چہروں پر غصہ بھی تھا، حیرانی بھی اور شاید تھوڑی سی خجالت بھی۔
اب بتاؤ، مسئلہ کیا ہے؟
امن نے دونوں کو باری باری دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا۔
بھائی! یہ مجھ پر الزام لگا رہا ہے کہ میں نے اس کا پچیس ہزار کا پرفیوم چرایا ہے۔ دانیال نے دونوں ہاتھوں کو بے بسی سے ہوا میں اٹھاتے ہوئے کہا۔
ہاں بھائی، یہ میرے کمرے میں گھس کر سارا سامان اِدھر اُدھر کرتا ہے۔ اپنا کمرہ تو کباڑ خانہ بنایا ہوا ہے، اب میرے کمرے کے پیچھے پڑ گیا ہے۔
یوسف کی آواز میں بے بسی بھی تھی اور غصہ بھی۔
اوہ، اکسکیوز مے ! اُسے صفائی کہتے ہیں، اور میں تیرے کمرے میں نہیں گھسا! دانیال نے کہا
بھائی، دیکھو دیکھو! تمہارے سامنے بھی جھوٹ بول رہا ہے۔ ہائے میرا پچیس ہزار کا پرفیوم!
وہ یہ کہتے ہوئے صوفے پر ڈرامائی انداز میں گر گیا جیسے بہت بڑا صدمہ پہنچ گیا۔
واہ! کیا ایکٹنگ کر رہاہے! دانیال نے تالی بجاتے ہوئے طنز کیا۔
چپ کر جا، نہیں تو منہ توڑ دوں گا۔۔۔ یوسف دھاڑا۔
ہاں، فری کا آیا ہے نا، تجھے سزائے موت ہو جائے گی اتنا حسین منہ توڑنے کی سزا میں.. دانیال نے اکڑا کر کہا
ہو گیا تم دونوں کا؟
امن نے اُن کی بات کاٹ کر غصے سے کہا۔
ہاں. دانیال کہتا اور کمرے سے جانے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ پیچھے سے ایک سخت گرفت نے اس کی قمیض کو کھینچ لیا۔ وہ ایک پل کو رکا، اور پھر پلٹ کر دیکھا—
کہاں جا رہے ہو؟ امن کی آنکھوں میں وہی سختی تھی جو صرف بڑے بھائیوں کی نگاہوں میں ہوتی تھی
اپنے کمرے میں، اور کہاں؟ دانیال نے بے نیازی سے جواب دیا۔
یوسف کا پرفیوم دو۔ ابھی کے ابھی۔ امن نے سنجیدگی سے کہا
دانیال نے ہونٹ بھینچے۔ بھائی، میرے پاس نہیں ہے۔
یوسف فوراً بولا، جھوٹ بول رہا ہے بھائی! اسی کے پاس ہے۔۔
دانیال، تھپڑ پڑے گا! چپ چاپ پرفیوم واپس کرو۔۔۔ امن نے دانیال کو گھورتے غصے میں کہا۔
بھائی! قسم سے ، نہیں ہے میرے پاس! دانیال نے ہاتھ اٹھا دیے۔
بھائی، ایک نمبر کا جھوٹا ہے جھوٹ بول رہا قسم سے اسی کے پاس ہے۔ یوسف فوراََ بولا۔
یوسف….. امن نے نگاہوں سے چپ کروا دیا۔
دانیال کی آنکھوں میں خلوص تھا، یا اداکاری، یہ کوئی نہ جان سکا۔ پکا نہیں ہے، جا کر میرے کمرے کی تلاشی لے لو!
دانیال اب بھی اپنی بات پر قائم تھا۔
یوسف کی زبان پھر سے چل نکلی،
بھائی، اِسی نے لیا ہے، اپنی گرل فرینڈ کو گفٹ کر دیا ہو گا چوری کر کے…
ابھی تھپڑ ماروں گا تمہیں یوسف… امن دھاڑا۔
سچ ہی تو بول رہا ہوں… یوسف نے معصوم شکل بنایا۔
چپ کر جا! ہر کوئی تیری طرح چپری ، نِکما، نالائق، بے روزگار نہیں ہوتا….
بھائی دیکھو کیا بول رہا ہے میرے کو، جلتا ہے میرے سے… یوسف نے بُرا سا منہ بنایا۔
بس کرو دونوں! اب کسی کے منہ سے ایک آواز بھی نہ نکلے… امن گرجا۔
بھائی میرا پچیس ہزار کا پرفیوم..
یوسف نے رونڈی صورتِ بنایا بولا۔
پانی میں گیا چھپاک…
دانیال نے تالی بجاتے ہوئے مذاق اڑایا۔
بھائی دیکھو میں بول رہا ہوں نہ یہی لیا ہے گنڈا، موالی اور چور ہے ایک نمبر کا… یوسف نے دانیال کی طرف اشارہ کرتے کہا۔
تو لڑکی باز۔۔۔۔ تھڑکی ہے… دانیال نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
بس کرو…
اَمن نے پھر چیخ کر بیچ بچاؤ کیا، کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا، اور آزمائش کی آندھی کی طرح ازلان داخل ہوا۔ یا اللہ! کیا قیامت آ گئی ہے؟ کوئی سکون سے سونے نہیں دیتا اس گھر میں؟
تینوں بھائی ایک ساتھ ازلان کو گھورنے لگے۔
کیاااااا؟ ازلان نے آنکھیں پھاڑیں۔
جا نا، چل نِکل، اپنا کمرہ بند کر کے سو… یوسف نے فوراً چڑ کر کہا۔
کیوں؟ میں کیوں بند کروں؟ تو اپنا منہ بند کر… ازلان چِلایا۔
اوہ بھائی مُجھے نیند آرہی ہے میں جاؤں کیا۔؟؟ دانیال نے آنکھیں چمپکتے ہوئے معصومیت سے کہا۔
جب تک میرا پرفیوم واپس نہیں ملتا، تو ہلے گا بھی نہیں یہاں سے… یوسف نے دانیال کو گھورتے خفکی سے کہا۔
ابے جا…. دانیال نے بے زار ہو کر ہاتھ سے اشارہ کیا۔
یوسف نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا،
کیا میری کوئی عزت ہے بھی اس گھر میں یا نہیں؟
نہیں ہے! اور کچھ؟
ازلان نے بالکل سپاٹ انداز میں جواب دیا۔
چپ کرو تینوں!
امن کا لہجہ سخت ہوا۔ اور دانیال، سچ سچ بتاؤ یوسف کا پرفیوم کہاں ہے؟ ورنہ بہت ماروں گا۔ کسی کی چیز بغیر اجازت نہیں لیتے…
وہی تو….
یوسف پھر فوراََ بولا۔
لو، تم ہی بات کر لو اب…..
امن نے ہاتھ باندھے سنجیدگی سے کہا۔
اچھا نا بھائی، سوری، بولو تم بولو…..
دانیال نے معصومیت سے کہا۔
پہلی بات، میں نے نہیں لیا اس چپڑی کا پرفیوم، اور دوسری بات، کسی کی چیز نہیں لیتے، لیکن بھائی کی چیز لے سکتے ہیں۔
دانیال نے اکڑ کر کہا۔
دیکھو، دیکھو بھائی! اسی کے پاس ہے میرا پرفیوم، اب تو پکا یقین ہو گیا۔ یوسف پھر بولا۔
کیا مر رہا ہے ایک پرفیوم کے لیے، میرے پاس ہے۔ ازلان نے بیزاری سے کہا۔
یوسف حیرت سے بولا، ہیں؟
دیکھا؟ میں جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔ سب مجھ پر چوری کا الزام لگا رہے تھے، بھلا میں چور لگتا ہوں شکل سے؟ دانیال فوراََ بولا۔
لگتا تو ہے…. اذلان نے سنجیدگی سے کہا۔
بھائی، اب بات نہیں کرنا، کوئی میرے سے۔ میں ناراض ہوں۔ دانیال نے منہ بنائے کہا۔
چل نکل، اوور ایکٹنگ نہیں کر! یوسف نے کہا۔
دانیال نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا،
اِدھر، اے بات سن۔
یوسف نے اپنا کان دانیال کے قریب کیا اور پوچھا،
کیا؟؟؟
دانیال نے آہستہ سے کہا، جیسے بہت بڑے راز کی بات بتا رہا ہو
انسان کو ایک ہی زندگی ملتی ہے، اس میں بھی اوور ایکٹنگ نہ کرے تو لعنت ہے….
یوسف نے تھوڑا سر ہلاتے ہوئے کہا،
اچھا۔
دانیال نے گہرا سانس لیا،
ہاں۔
امن نے حیرت سے اذلان کی طرف دیکھ کر پوچھا،
اذلان، یہ کیا حرکت ہے؟
کیا حرکت؟ کھڑا ہونا غلط حرکت ہے کیا؟
لو پھر، میں بیٹھ جاتا ہوں۔
وہ کہتا قریب ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔
امن نے ناراضگی سے اذلان کو گھورتے ہوئے چلا کر کہا،
اذلان….
اچھا بھائی، وہ مجھے اس پرفیوم کی شیشی اچھی لگ رہی تھی، تو میں نے اٹھا لیا۔
امن نے اپنی سیاہ آنکھوں سے اُسے گھورتے ہوئے کہا،
تو تمہیں جو چیز اچھی لگے گی، وہ تم اُٹھا لوگے؟
اذلان نے ہلکا سا کندھے اچکایا،
ہاں۔
تھپڑ پڑے گا۔ امن نے سرد لہجہ میں کہا
اچھا بھائی، ہو گئی غلطی، معاف کر دو، سوری۔
آزلان نے دونوں ہاتھ جوڑ کر، ایک عجیب سی بیزاری سے کہا، جیسے معافی بھی اس پر بوجھ ہو۔
یوسف نے ناک سکیڑتے ہوئے جواب دیا،
ہاں ہاں، معاف کیا۔ چل اب شرافت سے پرفیوم واپس کر
امن نے سکون سے مگر سختی سے کہا،
ہاں، واپس کر دو اس کا پرفیوم۔ مجھے بس اس کی بوتل دکھا دو،
ویسی ہی تمہاری پسند کی پرفیوم کی بوتل ڈیزائن کروا دوں گا۔
امن جنید خان ایک ایسا نام ہے جو صرف پرفیوم بناتا نہیں، پرفیوم کو روح دیتا ہے۔ وہ بھی ایسا، جو صرف اپنے بھائیوں کے لیے—نہ بِکتا ہے، نہ بازار میں آتا ہے۔ اگر آتا بھی، تو قیمت لاکھوں سے کم نہ ہوتی۔
امن کے سارے بھائی اس خوشبو کے دیوانے ہیں۔ ہاں، یوسف اور دانیال تھوڑے الگ ہیں۔ ان کو بھی امن کا پرفیوم پسند ہے، مگر ان کی پسند بدلتی رہتی ہے، موسموں کی طرح۔
یوسف؟ اسے شو بازی کا شوق تھا۔ صرف دکھاوے کے لیے مہنگے مہنگے پرفیوم خریدتا تھا
دانیال؟ اس کی تو کلیکشن ہی الگ تھی جم کا الگ، پارٹی کا الگ، گھر کا الگ۔ جی ہاں، گھر میں بھی پرفیوم لگتا تھا!
اور یوسف تو خیر سے گھر میں بھی مکمل تیار ہو کر رہتا ہے—ایک دم ٹپ ٹاپ۔
اور دانیال؟ وہ دانیال ہے، کچھ بھی کر سکتا ہے، اُس کا کوئی بھروسہ نہیں۔
اور امن وہ تو ہر چیز ایک ہی یوز کرتا تھا اب چاہے پرفیوم ہو کنگی یا پھر بیڈشیٹ امن ایک ہی کمپنی کے یوز کرتا تھا
just bcz of trust issue۔۔
امن خود اپنی کمپنی کا پرفیوم استعمال کرتا تھا، وہ بھی ایسا جو آج تک کوئی بنا نہیں سکا۔ کمپنی نے بھی اس کی ایکسٹرا کاپی کبھی نہیں بنائی۔ بس تھوڑا بہت ملا کر کچھ “ورژن” مارکیٹ میں ڈال دیتی ہے، جو اور بھی مہنگے بکتے ہیں۔
بھائی لیکن…….
ازلان نے کچھ کہتے کہتے زبان روکی۔
لیکن کیا؟؟؟؟؟
یوسف نے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے پوچھا۔
ازلان نے کندھے اچکائے،
تو چپ سے رہ نا…..
یوسف نے ناک چڑھاتے ہوئے تنقید کی،
واہ بھائی! ایک تو چوری، اوپر سے سینہ زوری….
ازلان کا صبر جواب دے گیا۔ وہ تیزی سے سامنے رکھا گلدستہ اٹھا کر بولا،
چپ ہو جا، نہیں تو یہ گلدستہ پھینک کے ماروں گا….
دانیال، جو اب تک تماشائی بنا بیٹھا تھا، قہقہہ لگا کر بولا
ہاں ہاں بھائی! مار دے سالے کو! نہ رہے گا نہ پرفیوم کے لیے روئے گا….
امن غصے سے کڑک دار آواز میں پھر بولا
دانیال، چپ ہو جاؤ اور اپنے کمرے میں جا کر سو جاؤ….
نہیں بھائی، ابھی جھگڑا دیکھ کے ہی جاؤں گا… دانیال نے کہا جیسے کوئی فلم کا آخری سین چھوٹنے نہ پائے۔
امن نے دانیال کو نظر انداز کیا اور گھور کر ازلان کو دیکھا،
ازلان، تم بہت فری نہیں ہو رہے ہو؟
ازلان نے بے نیازی سے جواب دیا
بالکل نہیں۔
امن کا لہجہ سرد ہوتا گیا،
غصہ مت دلاؤ مجھے، اور یوسف کا پرفیوم واپس کرو اُسے….
ازلان نے لاپرواہی سے کہا،
ارے بھائی، نہیں کر سکتا نا…
کیوں؟
وہ اپنا غصہ بمشکل کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔
ازلان نے صاف گوئی سے کہا،
کیونکہ اُس کی خوشبو اچھی نہیں تھی..
امن، ہنوز غصے میں،
تو؟؟؟
ازلان نے معصومیت سے شانہ جھاڑتے ہوئے کہا،
تو میں نے…
امن نے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے دہرایا،
کیا میں نے؟؟
ازلان نے اپنی گردن تھوڑی جھکائی، جیسے اعترافِ جرم کرتے ہوں،
میں نے اُسے کھڑکی کے باہر پھینک دیا… اُڑا کے… سالا اتنا گندہ مہک رہا تھا…
کیااااا؟؟؟؟
دانیال اپنی جگہ سے اچھل پڑا۔
یوسف کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا،
دیکھ تو مذاق کر رہا ہے نا؟ مت کر بھائی! میرا پیارا بھائی ہے نا تُو… لا دے، دے دے میرا پچیس ہزار کا پرفیوم….
امن نے غصے سے بھرے لہجے میں کہا،
جب تمہیں میرے دیے ہوئے پرفیوم کے علاوہ کسی پرفیوم کا خوشبو پسند نہیں آتا، تو کوئی دوسرا پرفیوم اُٹھتے کیوں ہو؟
ازلان نے صاف گوئی سے جواب دیا،
بولا نا… بوتل اچھی لگ رہی تھی اُس کی…
یوسف نے دونوں ہاتھ دل پر رکھے،
بھائی… بھائی… مجھے ہارٹ اٹیک آ رہا ہے… میں… میں بے ہوش ہو رہا ہوں….
اور یہ کہتے ہی وہ ڈرامائی انداز میں صوفے پر گِر پڑا
اوہ بھائی! پچیس ہزار کا پرفیوم… بھائی، پچیس ہزاااااار….
اس کی آواز میں دکھ، صدمہ اور ریاضی کا ماتم شامل تھا
پھر دانیال نے سنجیدگی سے پوچھا، جیسے کائنات کا سب سے بڑا سوال ہو
تمہیں پتہ بھی ہے، پچیس ہزار میں کتنے زیرو ہوتے ہیں؟
ازلان نے فوراً گردن اکڑائی،
تین ہوتے ہیں! اب میں تیری طرح فرے لے کے پاس نہیں ہوا ہوں….
دانیال نے آنکھیں بند کیں، جیسے کوئی روحانی صدمہ سہہ رہا ہو،
پچیس ہزار سن کے ہی دل میں کچھ کچھ ہو رہا ہے…
وہ اپنا سینہ تھام کر وہیں صوفے پر یوسف کے پاس بیٹھ گیا، دونوں اب ‘پرفیوم شہداء’ کی صف میں تھے
تمہارا دماغ تو جگہ پر ہے؟؟؟
وہ دھاڑا، آواز میں ایک ایسا درد تھا جو صرف وہی سمجھ سکتا تھا جو دن رات ایک کر کے کماتا ہو۔۔
امن کے پاس دولت تھی، مگر اس کے دل میں اس دولت کی قدر اُس شخص کی طرح تھی جس نے ہر سکہ پسینے سے کمایا ہو۔ وہ فضول خرچی برداشت نہیں کرتا تھا۔ نہ اس لیے کہ وہ کنجوس تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ چاہتا تھا اس کے بھائی یہ سیکھیں کہ پیسہ صرف خرچ کرنے کی چیز نہیں، بلکہ سمجھ کر استعمال کرنے والی نعمت ہے۔
اچھا نا بھائی، سوری… اذلان نے پھر سے ہاتھ جوڑ لیے۔۔۔
مگر امن کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا،
کیا مطلب ‘سوری’؟ تمہیں اندازہ بھی ہے میں کتنی محنت سے پیسے کماتا ہوں؟ تم لوگوں کے لیے! اور تم لوگ؟
بھائی… میرا پرفیوم…
یوسف صوفے پر نڈھال لیٹا، منہ بسور کر بولا
دانیال نے تالیاں بجاتے ہوئے کہا،
تیرا پرفیوم پانی میں گیا، چھپک…
امن نے سنجیدگی سے فیصلہ سنایا،
یوسف، تم جا کے کل نیا لے لینا۔ اور ازلان، تمہاری سزا یہ ہے کہ ابھی اپنا کریڈٹ کارڈ لا کر دو۔
ازلان نے حیرت سے پوچھا،
کیوں؟؟؟
امن نے سخت لہجے میں کہا،
جتنا کہا ہے اتنا کرو۔
ازلان نے جلد بازی میں کہا،
اچھا اچھا، دے رہا ہوں، غصہ تو مت کرو…
اُس نے جلدی سے اپنے جیب سے اپنا کریڈٹ کارڈ نکل کر اپنا کے سامنے کیا
امن کے سارے بھائی اس کے غصے سے بے حد ڈرتے تھے۔ مگر یہ ڈر وہ نہیں تھا جو کسی جابر کے سامنے ہوتا ہے۔ یہ وہ خاموش سی ہیبت تھی جو صرف ان لوگوں کے لیے محسوس ہوتی ہے جن سے دل واقعی جُڑا ہو۔
ایسا نہیں تھا کہ امن ان پر ظلم کرتا ہو، نہ ہی وہ کبھی اپنی طاقت یا اختیار کا غلط استعمال کرتا۔ اصل میں، وہ ان سے اتنی محبت کرتا تھا کہ ان کے لیے محنت، قربانی، اور ہر وقت حاضر رہنے کو اپنا فرض سمجھتا۔
اسی لیے، جب وہ غصے میں آتا، تو اس کا ہر لفظ بھائیوں کے دل پر اثر کرتا—اس لیے نہیں کہ وہ طاقتور تھا، بلکہ اس لیے کہ وہ ان کے دل کے سب سے قریب تھا۔
اور جہاں تک بات تھی طاقت کی…
امن کے بھائی فولاد تھے، فولاد کسی باڈی بلڈر سے نہ ڈرے… مگر امن کی خفگی سے ضرور لرز جاتے تھے،
کیونکہ محبت جب اصل ہوتی ہے،
تو سب سے بڑا خوف…
کسی اپنے کے دل کو دکھا دینے کا ہوتا ہے۔
اور یہ تمہیں اب دس دن بعد ملے گا۔ تب تک تم ایسی ہی رہو۔ امن نے حکم دیا۔
اذلان حیرانی سے بولا،
ایک منٹ… کیا؟
امن نے سخت لہجے میں کہا،
چلو، اب شرافت سے اچھے بچوں کی طرح اٹھو، تینوں جا کے سو جاؤ۔ اور تُم…
(دانیال کو تھپڑ مارا)
تمہیں کل یونی نہیں جانا، جا کے ابھی سو جاؤ۔
دانیال نے معصوم چہرہ بنا کر بولا،
بھائی، مارو تو نہیں، جا رہا ہوں۔ لیکن بھائی… یہ یوسف بھی تو جائے گا یونی… اِسے بھی بولو سونے!
گائز، اب دس دن تک میں روم سے نہیں نکلوں گا!
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
یوسف نے نڈھال لہجے میں پھر سے کہا،
بھائی… میرا کیا؟
فِلحال جا کے سو جاؤ۔ صبح دیکھیں گے تمہارے پرفیوم کا۔
امن نے سنجیدگی سے کہا
یوسف نے دوبارہ روندی آواز میں کہا،
بھائی…
جاؤ۔ امن نے سرد لہجے میں کہا۔
بھائی، لیکن— وہ معصوم شكل بنائے پھر بولا۔
تم جا رہے ہو یا نہیں؟ اب کی بار امن نے غصے میں کہا۔
اچھا، جا رہا ہوں…
وہ شکست خوردہ سا ہو کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔
دانیال نے نرمی سے پُکارا،
بھائی…
اب کیا ہے؟
میں یہی صوفے پر سو جاؤں؟ اُس نے بڑے ہی معصومیت سے کہا۔
چپ چاپ جاؤ اپنے روم میں۔۔۔
وہ غصے میں گھورتے ہوئے بولا۔
اچھا اچھا، جا رہا ہوں!
یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔
امن نے ایک گہرا سانس لیا اور خود بھی اپنے بستر پر لیٹ گیا۔
اندھیری رات، خاموش کمرہ، مگر امن کا ذہن شور میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ کروٹیں بدل رہا تھا، آنکھیں بند کرتا، پھر کھول دیتا۔
نیند جیسے اُس کے قریب آ کر لوٹ جا رہی تھی۔
حیات اُس کے خیالوں پر سوار تھی۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور، اور دل میں کہیں نہ کہیں یہ خلش بھی تھی کہ شاید حیات کا اُس سے روٹھ جانا بھی اِس بےچینی کی ایک بڑی وجہ ہے…
وقت گزرتا رہا، اور بالآخر اذانِ فجر کی آواز فضا میں گونجی۔ ایک گہرا سانس لے کر وہ اٹھ بیٹھا۔
آہ… صبح ہو گئی۔
وہ آہستہ آہستہ بستر سے نکلا اور کچن کی طرف بڑھا۔ تھکن چہرے پر صاف جھلک رہی تھی، مگر قدم سست نہیں تھے۔ کچن میں پہنچ کر اُس نے بلا تردد کیلے نکالے، دودھ، بادام، شہد سب کچھ بلینڈر میں ڈالا اور اپنی خاص تسکین—بنانا شیک—تیار کرنے لگا۔
یہ اُس کی ایک عادت تھی۔ جب دل بےچین ہوتا، نیند دور بھاگتی، یا ذہن کسی سوچ میں الجھتا، تو یہی شیک اُس کا واحد سہارا بنتا۔
اور سچ تو یہ تھا کہ…
یہ شیک اُس کی دوسری محبت تھا۔
پہلی؟
وہ تو اُس کے بھائی تھے—جن کے لیے وہ سب کچھ تھا، اور جو اُس کا سب کچھ تھے۔
+++++++++++
صبح کے نو بج رہے تھے۔
امن اٹھ چکا تھا، تیار ہو کر ناشتہ کی میز پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔
اسی لمحے جنید صاحب اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے بولے،
حیات آ رہی ہے آفس؟
امن نے بغیر نظریں اٹھائے جواب دیا،
جی، آ رہی ہے۔
پھر سارا بیگم فوراً بولی،
اَے تو اُس سے زیادہ کام نہیں کروانا، آخر کو وہ میری بہو ہے!
ہاں، جیسے میں تو آپ کا کچھ لگتا ہی نہیں ہوں۔ امن نے سنجیدگی سے کہا۔
سارا بیگم کا چہرہ ایک دم سنجیدہ ہو گیا۔
اَے اَے! یہ کیا بک رہا ہے تو؟
کچھ نہیں… میں آفس جا رہا ہوں۔
یہ کہتے ہوئے وہ چپ چاپ اٹھا، اور آفس کے لیے نکل گیا۔
+++++++++++++++
امن آفس کے اندر داخل ہوتے ہی جیسے ہی اپنے کیبن میں آیا تو حیات کو وہاں نہ پا کر کاؤنٹر گرل کو کال ملائی۔
مس حیات کہاں ہیں؟
باس، وہ ابھی تک نہیں آئیں۔
امن نے تھوڑی بےچینی سے کہا،
اچھا، اگر آئیں تو میرے کیبن میں بھیج دینا۔
جی باس۔
کال کٹتے ہی مایا نے زارا سے کہا،
یہ باس کو اُس نیو اسسٹنٹ کی بہت زیادہ ہی پرواہ نہیں ہے۔
زارا نے آہستہ سے کہا،
ہاں، مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔
مایا نے آگے بات بڑھائی،
اتنی پرواہ تو انہوں نے کبھی نتاشہ کی بھی نہیں کی۔
اُن کی سرگوشیوں میں ابھی شدت ہی آئی تھی کہ اچانک ایک دھاڑ سنائی دی۔
تم دونوں کا ہوگیا ہو تو کام بھی کر لیا کرو! نالائق ہو گئی ہو دونوں، دونوں کو فائر کروا دوں گا! جب دیکھو تب خالی بکواس میں لگیں رہتی ہو، کام کرو اپنا!
مایا اور زارا دونوں سہم گئیں۔
ج…جی سر، دونوں نے نظریں جھکا کر کہا۔
زویار نے انگلی اٹھا کر تنبیہ کی،
آئندہ ایسی فضول بکواس کرتے دیکھا، تو سیدھی فائر! یہ میری پہلی اور آخری وارننگ ہے، سمجھی؟
ابھی ماحول میں زویار کی گرج کی بازگشت باقی ہی تھی کہ دروازہ کھلا اور حیات اندر داخل ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ بے حد سنوری ہوئی، جاذبِ نظر لگ رہی تھی۔ آج اُس نے آف وائٹ کلر کی نرم کاٹن شرٹ پہنی تھی، جس کی بازوؤں پر ہلکی سی پف ڈیزائننگ تھی۔ اور اُس کے نیچے پنک فلورل میکسی اسکرٹ تھی، اور ساتھ میں اُس نے ایک ہلکی گلابی رنگ کا اسکارف بھی لے رکھا تھا، اور پاؤں میں اس نے سادہ سفید اسنیکرز اور کلائی پر ایک باریک سی گولڈن بریسلیٹ اور گلے میں ایک نفیس لاکٹ، آفیس کے پہلے دن کی حیات سے یہ دوسرے دِن والی حیات کافی مختلف تھی، جو بھی تھا، وہ خوبصورت تو لگ رہی تھی… لیکن کہیں سے بھی یہ نہیں لگ رہا تھا کہ وہ آفیس کام کرنے آئی ہے ۔
السلام علیکم۔۔۔ اُس نے نرمی سے کہا۔
زارا نے رُوکھے لہجے میں رجسٹر اُس کی طرف بڑھایا،
آپ لیٹ ہیں۔۔۔
ہاں، مجھے پتہ ہے۔
حیات نے دھیرے سے جواب دیا اور رجسٹر پر دستخط کر کے سیدھی امن کے کیبن کی طرف بڑھ گئی۔
اتنے میں نتاشا، امن کے کیبن سے باہر نکل رہی تھی۔ اُس کی نظریں سیدھی حیات پر پڑیں، اور موقع غنیمت جان کر اُس نے کہا،
اوہ میڈم، وقت دیکھا ہے آپ نے؟
حیات نے مٹھاس بھری آواز میں کہا،
جی، دیکھا ہے۔
نتاشا ہنکارا بھرتے ہوئے بولی،
باس تو ویسے ہی غصے میں ہیں۔ ایک ڈیل کینسل ہو گئی ہے، اور اب تو تم گئی، بیٹا۔۔۔
حیات نے ایک پل کو سانس بھرا اور نرمی سے بولی،
کوئی بات نہیں، میں سوری کر لوں گی۔
نتاشا نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا،
ہاں، دیکھ لینا۔
اور یہ کہہ کر وہ اپنے کیبن کی طرف مڑ گئی۔
حیات آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی، چہرے پر ایک خاص سی شرارت سجی ہوئی تھی، اور ہونٹوں پر خود سے باتیں کرنے کی عادت ہمیشہ کی طرح برقرار۔
ہنہ! میں نہیں ڈرتی ان کے باس سے۔۔۔
وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔
امن، جو فائلز میں گم تھا، نظریں اٹھائے بغیر بولا،
ٹائم کیا ہو رہا ہے؟
حیات نے ذرا سا چونک کر جواب دیا،
دس بج رہے ہیں۔
امن نے اب نظریں اس کی طرف اٹھائیں،
آفس کی ٹائمنگ کب کی ہے؟
سات بجے۔۔۔ اُس نے بے نیازی سے جواب دیا۔
امن نے ہنکارا بھرا،
تو۔۔۔؟
حیات نے پلکیں جھپکاتے ہوئے نرم لہجے میں کہا،
مجھ سے اتنی جلدی نہیں اُٹھا جاتا۔۔۔
تو؟ امن نے حیات کو گھورتے ہوئے کہا۔
تو کیا؟ حیات نے لاپروائی سے کہا۔
امن کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا،
میں نو بجے آجاتا ہوں، تو آپ کو مجھ سے پہلے آفس میں ہونا چاہیے۔
حیات نے خوشی سے چمکتے چہرے کے ساتھ پوچھا،
مطلب 8:55 پہ؟
وہ آپ کا مسئلہ ہے۔ امن نے نظریں اُس پر سے ہٹاتے ہوئے کہا۔
حیات نے فوراً بات بدلی،
ٹھیک ہے، آپ کے لیے بلیک کافی لاؤں؟ وہ پرجوش ہو گئی۔
امن نے سر ہلایا،
ابھی نہیں۔
حیات نے ادائیں دکھاتے ہوئے کہا،
ہممم! تو پھر براؤن کافی؟
نہیں۔
حیات نے آنکھیں نچاتے ہوئے کہا،
اُممم! پھر کیا لیں گے کوئی سا شیک؟
شیک؟؟
ہاں کونسا؟؟
بنانا۔
اوکے۔
حیات جیسے ہی اجازت ملی، خوشی سے اچھلتی ہوئی کیبن سے نکلی اور کینٹین کی طرف روانہ ہو گئی۔
+++++++++++++
کینٹین میں۔۔۔
وہ چاروں طرف نظریں دوڑاتی ہوئی بولی،
کینٹین والی آنٹی کہاں ہیں؟
کینٹین میں کئی لوگ موجود تھے، مگر اُس کی نظر ایک مخصوص شخصیت کو ڈھونڈ رہی تھی — ایک عمر رسیدہ خاتون، جنہیں سب “بُوا جی” کہہ کر پکارتے تھے، اور جو صرف امن کے لیے کافی، چائے یا شیک بناتی تھیں۔ کیونکہ امن کسی اور کے ہاتھ کی بنی ہوئی چیز کبھی پیتا ہی نہیں تھا۔
کینٹین والے لڑکے نے جواب دیا،
آنٹی آج نہیں آئیں، طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ انہوں نے باس کو اطلاع دے دی تھی۔
حیات نے ایک لمحہ کے لیے چونک کر سانس اندر کھینچا،
اچھا۔۔۔
پھر دل ہی دل میں خود کو کوستی ہوئی بولی،
مجھے بولنا ہی نہیں چاہیے تھا شیک کا…
چند لمحے سوچ کر اُس نے کہا،
اچھا، تو تم بنا دو، بنانا شیک۔
کینٹین لڑکے نے جلدی سے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا،
نہیں میم، میں نہیں بنا سکتا۔ باس کسی اور کے ہاتھ کا شیک یا کافی نہیں پیتے۔ اور اُنہوں نے منع بھی کر رکھا ہے۔
حیات نے آنکھیں مٹکائیں اور منہ بنا کر بولی،
ہنہ! ایک تو تمہارے باس کے نخرے بھی بہت ہیں!
کینٹین لڑکے نے کہا،
آپ خود بنا لیں۔
حیات چونک کر بولی،
ہاہ! میں؟
جی، آپ۔۔۔ کیونکہ آپ سے پہلے نتاشا میم تھیں، وہ خود بنا کر دیتی تھیں شیک بھی اور کافی بھی۔
حیات نے آنکھیں گھما کر جیسے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا،
یہ تمہاری نتاشا میم نے ہی تمہارے باس کو سر پر چڑھا رکھا ہے!
کینٹین لڑکے نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے معصومیت سے پوچھا،
جی؟
حیات نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
جی جی! لاؤ، کہاں ہیں کیلا اور دودھ وغیرہ؟
چند لمحوں بعد وہ خود کچن میں موجود تھی۔ ہاتھ میں بلینڈر، سامنے تازہ دودھ اور کیلے۔ اس کے چہرے پر عجیب سی سنجیدگی اور آنکھوں میں شوخی چھپی ہوئی تھی۔
ادھر…
امن، جو کیبن میں مسلسل گھڑی پر نظریں ڈال رہا تھا، جب کافی دیر تک حیات واپس نہ آئی، تو خود اُسے دیکھنے کینٹین کی طرف آ نکلا۔
جیسے ہی اُس کی نظر سامنے پڑی، وہ ٹھٹھک گیا۔
حیات بلکل سامنے، شیک بناتی، کبھی ہنستی، کبھی جھنجلاتی، خود میں مگن تھی۔ امن دروازے کے ساتھ ایک دیوار کے پیچھے چھپ کر اُسے دیکھنے لگا۔
اُس کے لبوں پر وہی ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی جو وہ اکثر چھپا لیتا تھا۔
دل میں ایک خیال آیا —
یہ بنانا شیک بھی بنا لیتی ہے…
ایسے میں بڑا سخت لڑکا ہوں۔۔۔ لیکن یہاں پگھل گیا۔۔۔
جیسے ہی امن نے اُسے بنانا شیک کے ساتھ آتے دیکھا، اُس کے چہرے کے تاثرات یکایک بدلے۔ آنکھوں میں ایک انجانی سی بوکھلاہٹ اور قدموں میں جلدی۔ وہ بنا کچھ سوچے، لپکتا ہوا اپنے کیبن کی طرف بڑھا، جیسے اُس سے بچنا چاہتا ہو۔ لیکن قسمت بھی شاید اُس لمحے تھوڑی شوخ ہو گئی تھی—اور یوں وہ سیدھا زا ویار سے ٹکرا گیا
کیا بھائی! تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟ کہاں جا رہے ہو اتنا بھاگتے ہوئے؟ زاویار کی آواز میں غصہ نہیں، حیرت تھی۔ لیکن جب اُس کے ہاتھ میں تھامی فائلیں فضا میں بکھر کر زمین پر گریں، تو غصہ بھی آیا—اور کیسے نہ آتا۔
کچھ نہیں، تم اپنا کام کرو! امن نے جلدی سے رخ موڑا،
ہاں، میں تو اپنا کام ہی کر رہا تھا۔ لیکن تم نے آ کے سب بگاڑ دیا۔ اب اٹھاؤ یہ سارے پیپرز۔۔۔۔
امن نے اپنی ٹائی درست کرتے ہوئے اکڑ کے کہا،
تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟ میں اس آفس کا باس ہوں۔ میں نہیں اٹھا رہا، خود اٹھاؤ۔۔۔۔
زاویار نے نرمی سے ہاتھ جیبوں میں ڈالے، جیسے فیصلہ کر چکا ہو۔ تو پھر ٹھیک ہے۔ میرا کیا ہے؟ بکھرے رہنے دو۔ ویسے بھی نقصان تمہارا ہی ہو گا۔
امن نے اُس پر گھورتے ہوئے حکم دیا، زاویار، پیپرز اٹھاؤ۔۔۔۔
زاویار نے بھی اُس پر نظریں گاڑتے ہوئے جواب دیا،
امن بھائی… پیپرز اٹھاؤ۔۔۔۔
اسی اثنا میں حیات کی آمد ہوئی، اور وہ حسبِ معمول اپنی معصوم شرارت لیے درمیان میں کود پڑی۔ کیا پیپرز کی بارش ہو رہی ہے؟ اُس نے چھت کی جانب دیکھتے ہوئے معصومیت سے کہا، جیسے سچ میں کچھ نہ سمجھ رہی ہو۔
دونوں اُسے گھورنے لگے۔
ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے؟ حیات بے فکری سے بولی، اور زمین پر بکھرے کاغذات کی طرف دیکھ کر ناک سکوڑا۔
زاویار بڑبڑایا، اپنا کام کرو!
نہیں کروں گی، کیا کر لو گے؟ وہ اُس کے کان کے قریب جا کے چہک کر بولی۔
امن نے تھوڑی سختی سے کہا، تم دونوں کا ہوگیا ہو تو یہ فائلز اٹھاؤ اور میرے روم میں لے کر آؤ!
حیات نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا، او ہیلو! اِدھر سنیں۔
زاویار نے فوراً کہا، جس نے گرایا ہے وہی اٹھائے گا۔
حیات نے فوراً ہاں میں ہاں ملائی، ہاں بالکل!
امن نے ناک چڑھا کے پوچھا، تو؟
زاویار نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، تو اٹھاؤ!
حیات نے گردن ہلا کے حامی بھری، ہاں، اٹھائیے!
امن جھنجھلا گیا، میں کیوں اٹھاؤں؟
زاویار نے خالی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، کیونکہ تم نے ہی گرایا ہے!
اب وہ تینوں وہیں کھڑے ہو کر گویا تماشہ بنا رہے تھے، اور شاید بھول چکے تھے کہ وہ ایک آفس میں ہیں، جہاں چاروں طرف لوگ انہیں خاموشی سے مگر غور سے دیکھ رہے تھے۔
Just shut up!
میں نہیں اٹھاؤں گا… میں باس ہوں، کوئی عزت ہے میری! امن کا صبر جواب دے گیا۔
تو میں بھی باس کی پرسنل اسسٹنٹ ہوں، بلکہ… خاص والی۔ میں بھی نہیں اٹھاؤں گی! حیات اکڑ کر بولی۔
زاویار نے آخرکار زچ ہو کر کہا، ہاں، میں تو جیسے سڑک پہ بیٹھ کے مانگنے والا لگتا ہوں؟
اگر کوٹ پینٹ اُتار دو تو وہی لگو گے… وہ جان بوجھ کر بولی، جیسے اِریٹیٹ کرنا اس کا فرض ہو۔ اُس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی، مگر آنکھوں میں شرارت۔
زاویار کا ضبط جیسے آخری دھاگے سے بندھا تھا۔
Just shut up!
تمہارا معاملہ نہیں ہے نا؟ تو جاؤ یہاں سے۔ سر پر کیوں کھڑی ہو فضول کا!
اب کی بار وہ واقعی چلایا تھا۔
حیات نے کندھے اچکا کر کہا، میری مرضی… میں چاہے یہ کروں، چاہے وہ۔
Whatever…
زویار نے بے رخی سے نظریں پھیریں، جیسے اب کوئی جذبات نہیں جتانے۔
ویسے… حیات نے غلط نہیں کہا۔ امن نے سنجیدگی سے کہا۔
بھائی…!
اب کے بار اُس کی آنکھوں میں صرف غصہ نہیں، بے زاری بھی تھی۔
خود ہی اٹھا لو، میں تو ہرگز نہیں اٹھاؤں گا۔ ورنہ پڑے رہنے دو یہی۔۔۔
اور وہ غصے سے بھرے لہجے میں یہ کہتے ہوئے اپنے کیبن میں جا گھسا۔
حیات نے ذرا سی گردن جھٹکی،
Awww…
اب بھاگ گیا نا زویار ، تو خود ہی اٹھائیے سب۔۔۔۔
وہ بھی اُچھلتی ہوئی اپنے کیبن کی طرف چل دی۔
امن اکیلا کھڑا رہ گیا۔ اُس نے ایک گہرا سانس لیا، اور جھک کر فائلیں اُٹھانے لگا۔
ایسا لگتا ہے میں نہیں، یہ دونوں میرے باس ہیں…
وہ بڑبڑایا۔
++++++++++++
کچھ دیر بعد…
آفس کے ماحول میں وہی خاموشی گھل چکی تھی، جب حیات دوبارہ نمودار ہوئی۔ اس بار اُس کے لہجے میں طنز کی مٹھاس تھی۔
ماشاء اللہ، کتنے پیارے لگ رہے ہیں کام کرتے ہوئے۔۔۔۔
اُس نے ایک ادا سے کہا، جیسے تصویر بنا رہی ہو۔
امن نے سر اٹھایا، نظروں سے اُسے ناپا۔
اب کیا کرنے آئی ہو یہاں؟
یہ بتانے آئی ہوں کہ آپ کا بنانا شیک رکھا ہوا ہے، آ کے پی لیجیے۔ اور آدھے گھنٹے بعد آپ کی مسز عنایہ کے ساتھ میٹنگ ہے، تیار رہیے گا۔
تم انہیں کال کر کے آج کی میٹنگ کینسل کر دو۔ امن نے سنجیدگی سے کہا۔
حیات کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
میں…؟
ہاں، تو اور کون ہے یہاں؟ امن نے بےساختہ کہا۔
حیات نے احتجاج کیا،
آپ باس ہیں، آپ خود منع کریں۔
امن نے ایک آہ بھری۔
اہہہ… پاگل! کبھی جاب کی ہوتی تو پتا ہوتا، باس خود کال کر کے میٹنگ کینسل نہیں کرتے، یہ کام اسسٹنٹ کا ہوتا ہے۔
حیات نے مصنوعی سنجیدگی سے موبائل آن کیا۔
اچھا، لائیے پھر… نمبر دیں، ابھی کال کرتی ہوں۔
وہ اُسے گھور کر بولی۔
امن نے اُسے گھورتے ہوئے کہا،
اپنے موبائل سے کرو گی کال؟
حیات نے کندھے اچکا کر کہا،
ہاں تو کیا، گارڈ انکل کے فون سے کروں؟
امن نے فوراً چِڑ کر جواب دیا،
ہاں، جاؤ، کر لو!
حیات نے پلٹ کر اُسے دیکھا،
اچھا جا رہی ہوں، اتنا چِڑ کے کیوں بول رہے ہیں؟
وہ یہ کہتے ہوئے واقعی جانے لگی۔
رُکو، اِدھر آؤ! امن نے بیزاری سے پُکارا۔
حیات نے پلٹ کر مڑتے ہوئے پوچھا،
اب کیا ہے؟
آفس کے فون سے فون کرنا ہے…
تو سیدھا سیدھا نہیں بول سکتے تھے؟ ٹائم ویسٹ کر رہے ہیں کب سے!
وہ کہتے ہوئے پلٹنے لگی، پھر مڑ کر شوخی سے بولی،
اور ہاں، جلدی اٹھائیے یہ سب… یوں ہی سمیٹتے رہیں گے؟
وہ کہتی یہاں سے نکل گئی۔
امن نے غصے میں بڑبڑایا،
عجیب! میں باس ہوں یا یہ لوگ میرے باس ہیں؟
سارے پیپرز سمیٹ کر وہ بھی اپنے کیبن کی طرف چلا گیا۔
+++++++++++++
کیبن کے اندر…
Hello, Miss. Hayat speaking,
حیات نے فون کان سے لگاتے ہوئے خود کو اتنے وقار سے متعارف کروایا جیسے کوئی سی عی او بات کر رہا ہو۔
دوسری جانب سے عنایہ کی اسسٹنٹ نے رسمی لہجے میں کہا، جی؟
وہ نا… آج ہمارے باس کی طبیعت بہت خراب ہے۔ بیچارے نے بہت زیادہ بنانا شیک پی لیا تھا، تو ان کا پیٹ خراب ہو گیا ہے…
ابھی جملہ مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ ایک سایہ جھپٹا، اور فون اس کے ہاتھ سے چھن گیا۔
امن، جو جانے کب پیچھے آ کھڑا ہوا تھا، کال کاٹتے ہوئے دھاڑا،
یہ… یہ کیا کر رہی ہو تم؟!
حیات نے چونک کر پیچھے دیکھا،
آپ نے ہی تو کہا تھا۔۔۔۔
پاگل ہو تم؟ وہ دھاڑا
نتاشا ۔۔۔۔ نتاشا۔۔۔
وہ غصے میں چلاتا نتاشا کو آوازے دینے لگا۔۔۔
جا کے اُسے بلاؤ فوراً! تم کچھ نہیں کر سکتی، مجھ سے ہی غلطی ہو گئی جو تمہیں کام دے دیا۔۔۔
اس بار وہ واقعی غصے سے تمتما رہا تھا۔ آواز بلند، لہجہ سخت، اور آنکھوں میں تپش۔
حیات نے بس مختصراً جی… کہا۔
وہ پلٹی، اور تیز قدموں سے باہر نکل گئی۔
کچھ لمحوں بعد…
جی، باس، آپ نے بلایا؟
نتاشا خوش اخلاقی سے اندر آئی۔
امن، جو اب اپنے جذبات پر قابو پا چکا تھا، نرمی سے بولا،
ہاں، یہ H.S کمپنی میں کال کر کے آج کی میٹنگ کینسل کر دو۔
جی بہتر، میں ابھی کر دیتی ہوں،
نتاشا نے مودبانہ انداز میں سر ہلایا اور باہر چلی گئی۔
امن نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی، اور چھت کو دیکھتے ہوئے ایک گہرا سانس لیا۔ کچھ پل کے لیے وہ شخص، جو سب پر حکم چلاتا تھا، خود سے ہی ہار بیٹھا تھا۔
+++++++++++
امن کی نگاہ غیرارادی طور پر حیات پر جا پڑی۔
وہ حسبِ معمول موبائل میں گم تھی۔ ایک عام سی گیم، ایک عام سا لمحہ… لیکن چہرے کی وہ خاموش جھری، وہ خالی سی نظر… صاف بتا رہی تھی کہ اندر کچھ ٹوٹا تھا۔
امن نے گلا کھنکارا،
اہم… اہم…
حیات نے پلکیں اٹھائے بغیر کہا،
ابھی کافی کا وقت نہیں ہوا۔
تو…؟
کچھ نہیں۔
وہ پھر سے موبائل کی اسکرین میں گم ہو گئی۔
مجھے ابھی کافی چاہیے۔
امن کی آواز میں اب ضد سی تھی۔
اچھا، لا رہی ہوں۔
وہ بنا کوئی بحث کیے، جیسے بوجھ ڈھوتی ہوئی باہر نکل گئی۔
امن نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھاما،
یا اللہ، کہاں پھنس گیا ہوں میں…
+++++++++++
حیات چلتے چلتے بڑبڑا رہی تھی،
کافی لاؤ، یہ کرو، وہ کرو… دماغ خراب! اوپر سے کرو تو غصہ کریں گے۔ جب نتاشا اتنا اچھا کام کرتی ہے تو اُسی کو کہہ دیا کریں یہ سب کچھ کرنے۔ اپنا اور میرا دونوں کا وقت ضائع…
ابھی وہ جملہ مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ اسے یاد آیا،
اوہ… کینٹین والی آنٹی تو آئی ہی نہیں آج!
پھر جیسے ٹھنڈی سانس بھرتی ہوئی واپس پلٹی۔
کیبن میں…
کینٹین والی آنٹی نہیں آئیں۔
وہ دوبارہ کیبن کے اندر داخل ہوتے ہی بولی۔
تو؟
امن نے بے نیازی سے کہا۔
تو مجھے کافی بنانی نہیں آتی۔
یہ میرا مسئلہ تو نہیں ہے۔
میرا بھی نہیں ہے۔
بے نیازی سے جواب دیا۔
ہمم…؟
امن نے سرسری سی نگاہ اس پر ڈالی۔
حیات نے نظریں جھکائے کہا،
آپ نتاشا سے کہہ دیں۔ وہ بھی تو آپ کی ہی اسسٹنٹ ہے۔ وہ بنا دے گی آپ کے لیے کافی۔ مجھے نہیں آتی۔
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد، امن نے سپاٹ لہجے میں کہا،
ٹھیک ہے، تم جا کے اُسے بول دو۔ وہ بنا دے گی۔
حیات نے ہلکی سی “ہمم” کی، اور واپس پلٹ گئی۔
دل کی دیوار پر ایک اور اینٹ لگ چکی تھی۔
++++++++++++
سنو…
حیات نتاشا کے پاس آ کر رُکی، اور اُسے مخاطب کیا۔
ہاں؟
نتاشا نے نظریں اٹھا کر جواب دیا۔
باس کہہ رہے ہیں کہ ان کو کافی بنا کے دو…
نتاشا نے سر ہلایا،
اوہ ہاں، آج تو کینٹین والی آنٹی آئی نہیں۔ اور باس آنٹی اور میرے علاوہ کسی اور کے ہاتھ کی کافی یا شیک پیتے ہی نہیں۔ میں ابھی بنا دیتی ہوں۔
حیات نے فوراً جملہ کاٹا،
ہاں… اور لا کر بھی دینا… کیبن میں۔
لگ رہا تھا جیسے وہ بات کو جلدی ختم کرنا چاہتی ہو۔
ٹھیک ہے۔
ہمم، گڈ۔
کہہ کر وہ ہونٹ بھینچتے ہوئے خاموشی سے پلٹ گئی۔
+++++++++++++
کیبن میں…
تم آ گئی؟
امن نے نظریں اٹھا کر دیکھا،
نظر آرہی ہوں آپ کو؟”
حیات نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
ہاں تو…
تو مطلب آ گئی۔
یہ کہتے ہوئے اُس کی نظر میز پر پڑے بنَانا شیک پر پڑی—جو ابھی تک ویسے کا ویسا رکھا تھا۔
کیوں؟ تم وہاں کھڑی ہو کر نتاشا سے کافی بنانا سیکھ نہیں سکتیں؟
امن کی بات میں طنز نہیں تھا، شاید خواہش تھی۔
میں کیوں سیکھوں؟
کیا مطلب، کیوں سیکھوں؟
کچھ نہیں۔
وہ نظریں چرا گئی، جیسے کوئی پرانا زخم چپکے سے سر اٹھا رہا ہو۔
پھر اچانک بولی،آپ نے یہ بنانا شیک پینا نہیں ہے؟
“ہمم… میں ٹھنڈا بنانا شیک پیتا ہوں۔
اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتا، حیات نے جلدی سے گلاس اٹھایا اور کہا،
ہاں تو ٹھیک ہے، میں خود ہی پی لیتی ہوں یہ پھر۔۔۔
اور لمحوں میں وہ شیک ختم کر گئی جیسے وہ پی نہیں رہی، کوئی جذبہ نگل رہی ہو۔
عجیب…
امن بس اتنا ہی کہہ سکا، ماتھے پر بل لیے۔
میں ایسی ہی ہوں۔
وہ مسکرائی، مگر وہ مسکراہٹ دل کو چبھ گئی۔
جیسے ہی وہ پلٹی، نتاشا ہاتھ میں کافی لیے اندر داخل ہوئی۔
باس؟
ہم؟
وہ… یہ کافی۔
ہاں، رکھ دو یہاں۔
جی۔۔۔۔۔
نتاشا نے کافی میز پر رکھی اور جاتے جاتے کہا،
“باس، پی کے بتائیے گا کہ کافی کیسی بنی ہے؟”
ہمم۔۔۔۔۔
امن نے بس ہونٹ بھینچ لیے۔
مینجر سے 502 فائل لے کر آتی ہوں۔
وہ کہتی باہر کی طرف نکلنے لگی۔۔۔
امن فوراً بولا،
لیکن میں نے تو نہیں کہا!!!
مگر وہ جا چکی تھی۔ ۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔
