antal hyat

Antal hayat trailer written by siddiqui

انت الحیاۃ

از قلم صدیقی

ٹریلر

 

ایک شوخ سی لڑکی، ایک خاموش سا راز،
جیسے چاند سے لڑے، جیسے ہو آواز۔

دل میں بغاوت، آنکھوں میں غرور،
لفظوں میں شوخی، لہجے میں دستور۔

“میں نہیں جھکوں گی!” اُس نے کہا،
“پھر ٹھیک ہے، لڑنا سیکھ لو!” اُس نے کہا۔

اک لمحہ نفرت، اگلا پل پیار،
کبھی تلخ جملے، کبھی خوابوں کے وار۔

شہزادی جو بن کے آئی تھی لڑنے،
خود دل ہار کے بیٹھ گئی تھی مرنے۔

وہ لڑکا جو خود میں مکمل تھا،
ایک پل میں اُس کی قید میں بدل گیا تھا۔

نہ وہ کہہ سکی، نہ وہ سن سکا،
بس خاموشیوں میں سب کچھ بَس سکا۔

جب لفظ کم پڑنے لگیں،
تو نظریں بات کرنے لگیں۔

یوں ایک عام سی لڑکی کسی
عام سے لڑکے کی انت الحیاۃ بنی ۔۔۔


وہ ریسٹورانٹ سے نکل کر اپنی گاڑی میں بیٹھا ہی تھا کہ جنید صاحب کی کال آ گئی۔
امن فون اٹھاتے ہوئے “بولیے دادا؟”
“ہاں، مل لیا لڑکی سے؟”
“جی دادا، اسی لیے تو گیا تھا۔۔۔
“کیسی لگی؟”
“جیسی لڑکیاں ہوتی ہیں، ویسی ہی لگی۔۔۔”


” میں یہ سب کام نہیں کروں گی۔ آپ نے دیکھا ہے کبھی شہزادیوں کو نوکرانیوں والے کام کرتے ہوئے؟”

” لیکن تمہیں یہی کام کرنا پڑے گا۔”

” حیات یہ سب کام نہیں کرے گی تو نہیں کرے گی۔”

“تو چھوڑ دو اور جا کے اپنے ابو کو بول دو۔”

” میں نہیں چھوڑ رہی، آپ کے لیے بہتر ہے، مجھے فائر کر دیں۔”

” وہ تو میں بھی نہیں کر سکتا۔”

“کیوں؟؟؟”

“وہ کیا ہے نا، مجھے اپنی بہتری پسند نہیں ہے۔”

” تو پھر اپنی اور اس آفس کی بربادی کے لیے تیار ہو جائیے۔”

” اوہ سیریسلی؟”

” ہاں، کیونکہ میں آپ کو سکون سے نہیں رہنے دوں گی جب تک آپ مجھے فائر نہیں کر دیتے۔”


وہ کھانے کے بعد فریش ہو کر اپنے کمرے میں لیٹا تھا،
“لیپ ٹاپ اُس کی گود میں کھلا تھا آنکھیں اسکرین پر جمی ہوئیں۔
دن لمبا تھا، لیکن کام کی فہرست لمبی تر۔
اچانک کمرے کا دروازہ کھلا—دانیال، حواس باختہ حالت میں اندر گھسا اور سیدھا امن کے بیڈ پر چڑھ گیا۔
“بھائی دیکھو اس کو، دماغ خراب کر رہا ہے! قسم سے، مار دوں گا میں اسے آج!”
وہ چلا رہا تھا جیسے میدانِ جنگ میں فتح کا اعلان کر رہا ہو۔
پیچھے پیچھے یوسف بھی ہاتھ میں بیٹ لیے داخل ہوا، جیسے ایک فلمی ولن ہو۔
“ہٹ جاؤ بھائی، چھوڑوں گا نہیں آج اس کو!”
یوسف کی آنکھوں میں چنگاریاں تھیں۔
امن نے لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھا۔
“ارے ہوا کیا ہے؟”
لیکن… کوئی سننے والا نہیں تھا۔
دانیال نے چھلانگ مار کر اب امن کے صوفے پر قبضہ جما لیا۔
“آ آ کے مار! ہمت ہے تو، مار کے دکھا!”
لڑاکا انداز، جیسے WWE کی رِنگ ہو۔
یوسف نے بھی کچھ کم نہ کیا، وہ بیڈ پر چڑھ کر صوفے کی طرف باؤنس مارنے والا تھا۔
“بس کرو، دونوں!”
امن کا صبر اب لبریز ہو چکا تھا۔
“ورنہ ایک کان کے نیچے لگاؤں گا !” امن غصے سے چلایا ۔۔۔
دونوں ایک لمحے کو رُک گئے، یوسف نے بیٹ نیچے رکھا، دانیال نے صوفے سے چھلانگ لگا کر خود کو بچایا۔


“میں آپ کی زندگی حرام کر دوں گی۔”

” وہ ویسے بھی ہو ہی چکی ہے۔”

“مُجھے فائر کر دیں، ورنہ آپ خود سڑک پر آ جائیں گے۔”

“ٹھیک ہے، پھر دونوں مل کے سگنل پر بھیک مانگیں گے۔”

“کبھی اتنی حسین لڑکی کو بھیک مانگتے دیکھا ہے؟؟؟”

“میں نے تمہارے سوا کسی لڑکی کو دیکھا ہی نہیں…”

“کیا مطلب؟”

” مطلب کچھ نہیں، اپنا کام خود کرو۔”

” ائے بڑے انگریز کی اولاد!”

” شٹ آپ !”

” یو جست شٹ اپ اینڈ لوک یور ماؤتھ ویٹ تالا اینڈ چپی “


کچھ غیر معمولی، کچھ پرسرار۔
جیسے کوئی سایا تھا جو اُس کی سانسوں کا تعاقب کر رہا ہو۔
Black mafia-looking car…
ایک سایہ، ایک دھڑکن کے ساتھ ساتھ چلتا دھڑکا۔
وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتی، اور گاڑی وہیں… ویسے ہی پیچھے۔
“یا اللہ خیر!”
دل بے قابو ہونے لگا، ہاتھ سرد پڑنے لگے۔
دماغ میں وہی سوال گونجنے لگا:
“یہ کون ہے؟ پیچھا کیوں کر رہا ہے؟ اغوا؟ قتل؟ بدلہ؟”
وہ دھیرے سے زیرِ لب آیت الکرسی پڑھنے لگی۔
دھڑکتے دل اور لرزتے لبوں سے، اُس نے جیسے رب کو آواز دی
“یا اللہ! حفاظت فرما، جیسے سنا ہے، ویسے ہی فرشتے بھیج دے!”


امن نے اپنی سیاہ آنکھوں سے اُسے گھورتے ہوئے کہا،
“تو تمہیں جو چیز اچھی لگے گی، وہ تم اُٹھا لوگے؟”
اذلان نے ہلکا سا کندھے اچکایا، “ہاں تو…”
“تھپڑ پڑے گا۔” امن نے سرد لہجہ میں کہا
“اچھا بھائی، ہو گئی غلطی، معاف کر دو، سوری۔”
آزلان نے دونوں ہاتھ جوڑ کر، ایک عجیب سی بیزاری سے کہا، جیسے معافی بھی اس پر بوجھ ہو۔


دوپہر کی دھیمی روشنی میں، جیسے ہی گھڑی نے بارہ بجائے، آفیس کے باہر اچانک ایک  کار آکر روکی ۔۔۔ سیاہ رنگ کی، چمکتی ہوئی، نفاست سے آراستہ وہ کار اپنے اندر نہ صرف دولت بلکہ وقار اور اختیار کا ایک مکمل مظہر لگ رہی تھی۔ مگر اصل حیرت تو تب ہوئی جب اس کے پیچھے دو اور گاڑیاں آ کر رکیں-وہ بھی ڈبل ڈور، اندھیرے شیشوں والی، جن میں سے دو محافظ نکلے۔
پہلی کار کا دروازہ کھلا، اور وہ نکلا۔
نہیں، وہ “چلا آیا” کہنا توہین ہوگی۔ وہ تو جیسے فضا میں موجود خلا کو چیرتا ہوا باہر آیا تھا۔ وہ مرد، جو اپنی ہی کار سے زیادہ دلکش، زیادہ جاذبِ نظر اور زیادہ پر اثر دکھائی دے رہا تھا۔لمبہ، قدآور، وجیہہ چہرہ، گہری آنکھیں، کالی عینک، اور سلیقے سے کٹا ہوا داڑھی کا اسٹائل۔
مہنگے تھری پیس سوٹ میں، ہاتھ میں سادہ مگر قیمتی گھڑی۔
وہ شخص اتنا پُروقار تھا کہ جیسے اُس کی گاڑی بھی اُس کے سامنے معمولی لگ رہی تھی۔ اس کی موجودگی ایسی تھی جیسے ہواؤں نے اپنا رخ بدل لیا ہو، جیسے فضاؤں پر اس کا اختیار ہو۔
محافظ بھی فوراً ساتھ اترے، مگر اُس نے ایک خفیف سا اشارہ کیا-اور وہیں رک گئے۔ شاید انہیں بھی معلوم تھا کہ اس شخص کو کسی محافظ کی ضرورت نہیں۔۔۔
وہ خود آگے بڑھا… لمبے قدم، سیدھی کمر، اور ایک ایسا رُعب جس نے ریسپشن ایریا کی فضا کو یخ بستہ کر دیا۔
کیسا رُعب تھا اُس کی چال میں! کیسی خاموش دھمکی تھی اُس کی موجودگی میں!
آخر کون تھا یہ ؟؟


“اک شوخ سی لڑکی، اصولوں سے الجھتی رہی،
اک خاموش سا دل، ہر طنز پر مسکراتا رہا!”
زینب بیگم نے چونک کر کہا
“لڑکا؟ مطلب؟”
ندیم صاحب نے مسکرا کر کہا
“ہاں۔ اگر میں بھی اسے عام لڑکوں کی طرح کسی سے ملواتا، تو یہ حسبِ معمول کوئی بہانہ بنا کر انکار کر دیتی۔ اور تم اچھی طرح جانتی ہو جب یہ کچھ کہتی ہے تو میں چاہ کر بھی اسے منع نہیں کر پاتا۔”
زینب بیگم نےحیرت سے کہا
“کیا مطلب؟”
“جس لڑکے کی یہ بُرائیاں کر رہی تھی نا، اُس سے تو یہ ملی ہی نہیں۔”
زینب بیگم نے حیرت اور غصے کے ملے جلے لہجے میں کہا
“کیا؟!”
“ہاں، اُس لڑکے کا میسج آیا مجھے۔ کہہ رہا تھا، ‘سوری، مجھے تھوڑا لیٹ ہوگیا، لیکن میں اب بھی وہیں ریسٹورنٹ پر ہوں اور لگتا ہے مس حیات جا چکی ہیں۔”
زینب بیگم آہ بھرتے ہوئے کہا
“دیکھ لیا آپ نے اپنی لالڈ پیار کا نتیجہ؟!”
ندیم صاحب سنجیدگی سے کہا
“اسی لیے میں اسے پہلے لڑکے کو جاننے کا موقع دونگا اور وہ لڑکا ایسا ہے جیسے یہ جاننے کے بعد کبھی انکار نہیں کر پائے گی۔۔۔”
زینب بیگم نے شک بھرے لہجے میں کہا
“ایسا بھی کون سا لڑکا پیدا ہوگیا ہے؟ یہ حیات ہے، مجھے نہیں لگتا اُسے کوئی لڑکا پسند آنے والا ہے۔ اب تو شاید ہمیں زبردستی ہی کرنی پڑے گی۔”
ندیم صاحب رازدارانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا
“ہے نا ایسا لڑکا۔۔۔”
زینب بیگم نے تجسس سے کہا
“کون؟”
“اَمن جُنید خان۔”


“مجھے نہیں پتا، مجھے یہاں نہیں رہنا… مجھے گھر جانا ہے!” (وہ سسکیاں بھرتے ہوئے بولی )

“میں ہوں نا یہاں… تمہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں سب کو سنبھال لوں گا۔”

“نہیں، مجھے نہیں پتا… مجھے یہاں نہیں رہنا!” (وہ مسلسل روتی جا رہی تھی)

اُس نے اس کا ہاتھ تھاما
“میں ہوں نا تمہارے پاس… کچھ نہیں ہوگا تمہیں۔ Trust me!”
“پہلے تم رونا بند کرو…”
(اس کے لہجے میں ایسی بے چینی تھی جیسے اسے خود اس کے رونے سے تکلیف ہو رہی ہو)

لڑکی نے گھبرا کر کہا
“وہ… وہ دیکھیں، وہ میرے پاس آ رہا ہے… مجھے نہیں پتا، مجھے نہیں رہنا یہاں۔ آپ… آپ مجھے گھر چھوڑ دیں۔”

لڑکا نے تھوڑا الجھن میں، مگر نرمی سے کہا
“ابھی میں تمہیں کیسے گھر چھوڑ دوں؟ اور اگر چھوڑ بھی دوں، تو باقی سب کو کیا کہوں گا؟”

“میری بات مانو، اٹھو یہاں سے… اور رونا بند کرو۔ میں ہوں نا تمہارے پاس۔ کوئی کچھ نہیں کرے گا تمہیں۔”


“اس نے آج تک اپنے بھائیوں کے علاوہ کسی اور کی یوں پرواہ نہیں کی تھی…”


آٹھ تھے، پر ایک تھے…نہ خون سے، نہ نام سے،
ہم جڑے تھے کسی اور مقام سے۔
ایک وعدہ، ایک چھت، ایک وقت کا سہارا،
ہم سب تھے تیشے… اور وقت تھا ہمارا۔

کبھی آواز بنے، کبھی خاموشی،
کبھی جنگ، کبھی سادگئ۔
کوئی ہنستا تھا، تو کوئی چپ،
کوئی بگڑتا، تو سب سنبھل جاتے۔

نہ سب اچھے تھے، نہ سب برے،
پر جب کوئی گرتا، سب کھڑے۔
وفا کا رنگ الگ تھا، دشمنی کا ڈھنگ الگ،
پر دل ایک تھا… دھڑکن الگ الگ۔

کبھی قسمت کی مار، کبھی اپنوں کی وار،
مگر ہم آٹھوں نے، خود کو کبھی چھوڑا نہیں۔

کیونکہ…

ہم بھائی تھے — دشمنوں سے نہیں،
قسمت سے لڑنے والے۔
اور جب ہم ساتھ ہوں…

تو دنیا کے لیے صرف ایک لفظ بچتا ہے:
احتیاط۔

“انت الحیاۃ “
اک ایسی کہانی جو آپ کے دل پر دستک دے گی۔

The first episode is coming on September 6th

 

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *