“آرٹیکل : “آپ نے ہمیں پیدا کیا ہے
از قلم : فضائلہ شاہنواز
ہماری تہذیب اور روایت میں والدین اور اولاد کا رشتہ سب مضبوط، گہرا اور مقدس سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آج کے دور میں اکثر اولاد اپنے والدین پر یہ سخت جملہ کستے ہیں کہ ” آپ نے ہمیں پیدا کیا ہے” اس دنیا میں آنے کا ہمارا فیصلہ تو نہیں تھا۔ بظاہر یہ ایک ناپسندیدہ اور گستاخانہ بات لگتی ہے۔ مگر اس کا زہر سماعتوں کے ذريعے پورے جسم میں سرایت کرتا ہے۔ اگر اس کے پیچھے چھپی سوچ اور خیالات و احساسات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو حقیقت کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔
” آپ نے ہمیں پیدا کیا ہے”
اس جملے پر ہمیں غور و فکر اور توجہ مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج ہم اس موضوع میں “والدین اور اولاد” دونوں کی خوبیوں خامیوں اور ذمہ داریوں کا جائزہ لیں گے۔ تاکہ اس تلخیت میں شرابور جملے میں پوشیدہ حقیقت سے آشکار ہو سکے۔
خدا کے حکم سے بذریعۂ والدین ہم اس دنیا میں آئے۔ والدین ہی وہ ہستی ہے جو اپنی خواہشات ، ضروریات، دن کا سکون، رات کی نیند کو اپنی اولاد کی پرورش کے لیے قربان کر دیتے ہیں۔ والدین ہی ہے جو ہمیشہ اپنی اولاد کو شاد و آباد، کامیاب اور عزت و شہرت کے ساتھ اس دنیا میں دیکھنا چاہتے ہے۔ ہمیں لیکر ان کے جذبات اور احساس کبھی ماند نہیں پڑتے۔ انکی محبت بے لوث و بے غرض ہوتی ہے۔ مگر کچھ والدین اس کے برعکس ہوتے ہے۔ وہ اپنی اولاد کو اپنی ملکیت سمجھ کر ان پر اپنی مرضی، اپنے خواب، اپنی خواہشات کو زبردستی مسلط کرتے ہیں۔ ان کے جذبات کو یہ کہہ کر نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ” ہمیں زندگی
کا تجربہ تم سے زیادہ ہے”۔ انکی رائے اور خیالات کو اپنے غصیلے رویے تلے روند دیتے ہیں۔ “ہم نے تمہں پیدا کیا ہے” بعض دفعہ اس جملے کا استعمال والدین بھی کرتے ہیں۔ شاید اولاد کو کھلاونے کی طرح اشاروں پر نچانے کیلیے مگر اسی فعل کے اثر میں بچہ والدین سے باغی ہو جاتا ہے۔
آج کا نوجوان باشعور ہے وہ صرف جینا نہیں چاہتا بلکہ معنی خیز زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے احساسات، ذہنی دباؤ، معاشرتی چیلنجز پر بات کرتا ہے جسے پہلے ممنوع قرار دیا جاتا تھا۔اپنی قابلیت و صلاحيت سے اس دنیا کو نئی سوچ اور خیالات فراہم کرنا چاہتا ہے۔ مگر اسی جذباتی بہاؤ میں اکثر اولاد بدتميزی کے زینے چڑھ کر والدین کی قربانیوں کو “فرض” سمجھ بیٹھتے ہیں “حقوق” کی بات کرتے ہیں “فرائض” بھول جاتے ہیں۔ صبر، شکر اور تحمل کے باندھ ٹوٹ جاتے ہیں۔
:یہ جملہ
“آپ نے ہمیں پیدا کیا ہے”
اکثر اس وقت سامنے آتا ہے جب بچہ خود کو تنہا، کمزور، غیر سمجھے، حد سے زیادہ سڑیس میں ہو۔ جب اپنی سوچ میں الجھ پڑے اور کہی سے جواب موصول نہ ہو۔ جب والدین اپنی زندگی میں مگن ہو۔ اور ان پر وقتاً فوقتاً صرف اپنا حکم مسلط کرتے رہے۔ جب انکی رائے کو کوئی اہمیت نہ ملے۔ تب یہ جملہ انکے دل و دماغ میں اپنی چھاپ چھوڑ جاتا ہے۔ اس وقت اس جملے کی ادائیگی دراصل ایک فریاد ہوتی ہے بغاوت نہیں۔والدین کو چاہیئے کہ وہ صرف اولاد کو سنبھالیں نہیں بلکہ ان کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کریں۔ ان کے جذبات و احساسات کی قدر کریں۔ انکی رائے کو اہمیت دیں۔ انکی قابلیت و صلاحيت کو سراہیں۔ مشکلات و پریشانی میں شفقت بھرے ہاتھوں سے سایہ دیں۔
لیکن میرے خیال سے اس پہلو پر خاص توجہ کی ضرورت اولاد کو ہے۔ جو اس فریبی دنیا میں ایسا گم ہوئے ہیں کہ دنیا کے سب سے معتبر اور خالص رشتے پر اپنی زبان سے طنز کا تیر چلاتے ہیں کہ ” آپ نے ہمیں پیدا کیا ہے” یعنی ہماری مرضی کے بغیر ہمیں اس دنیا میں لائیں۔ ایسے جملے استعمال کرکے آج کی اولاد والدین کی قربانی، محنت، مشقت، محبت، رفاقت اور ان کے عظیم تر احسانوں کو فراموش کر رہی ہے۔ والدین کی عظمت سے بے خبر ہے۔ علم ہی نہیں کی اس مرتبے کی شان کو رب تعالی نے قرآن و احادیث میں کتنے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے۔
اولاد کو چاہیئے کہ ان پر کوئی بھی جملہ کسنے سے پہلے ان کی عظمت و بزرگی کا ورد کر لے۔ لاکھ اختلاف ہو مگر ادب کے دائرے میں رہ کر گفتگو کریں۔ والدین کی نیت پر شک کرنے کے بجائے ان کی قربانی رفاقت اور عطا کردہ زندگی کو ضرور یاد رکھیں۔ جذباتیت کے اظہارِ خیال میں حدیں عبور کرنے سے محتاط رہیں۔
“آپ نے ہمیں پیدا کیا ہے” ایک تلخ جملہ ہے مگر افہام و تفہیم، ہمدردی، خلوص، اور کھلی گفتار سے رشتے میں سرایت ہوئی کڑواهٹ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
:یاد رکھیں
رشتے ایک دن میں نہیں ٹوٹتے۔۔۔۔ مگر انہیں جوڑنے کے لیے صرف حوصلہ ایک جملہ اور ایک قدم ہی کافی ہوتا ہے۔
ختم شد
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

1 Comment
Masha Allah
Writer sahiba bht acha likha h ap n
Kaash aj k jawan is BT ko smjh jyn.
Allah pak ap k qalam m barkat dale…….
Ameen