dastan e ishq

Dastan e ishq Episode 3 Written by siddiqui

داستانِ عِشق ( از قلم صدیقی)

قسط نمبر ۳

ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا وہ ناشتے میں الجھا ہوا تھا۔ مگر نگاہوں کے کانٹے اسے مسلسل چھب رہے تھے۔
شہزیب صاحب اور بختیار صاحب اپنی کڑوی آنکھوں سے اسے گھورے جا رہے تھے۔

ہمدان نے بےزاری سے چمچ پلیٹ میں پٹخا اور تیز لہجے میں بولا

اب کیا مسئلہ ہے؟

شہزیب صاحب کے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ آئی
تمہیں ذرا بھی ہماری فکر ہے، ہمدان؟

وہ طنزیہ ہنسا، جیسے ساری کڑواہٹ اندر سے باہر نکل آئی ہو
نہیں ہے تو پھر؟ اب کیا کروں میں؟ دماغ خراب کر رکھا ہے آپ لوگوں نے میرا! آپ لوگوں کی وجہ سے اپنا خواب چھوڑ کر یہ آفس سنبھال رہا ہوں، اور اب بھی سکون نہیں ہے؟

وہ غصے سے چمچ ایک طرف پھینک کر کرسی سے اٹھا اور سیدھا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔

چند لمحے سناٹا رہا۔ پھر رُقیہ بیگم نے دھیمی آواز میں کہا:
تمہیں پتا ہے نا، وہ کیسا ہے۔ پھر بھی

سمیرا بیگم نے فوراً لقمہ دیا
ہاں! اور آپ کی وجہ سے ہی تو وہ ایسا چڑچڑا ہو گیا ہے

بختیارصاحب کی بھاری آواز کمرے میں گونجی
ہاں، تم دونوں نے ہی اسے بگاڑ کر رکھ دیا ہے!

رُقیہ بیگم کی آنکھوں میں بجلی سی کوندی
ہم نے نہیں بگاڑا! ہم سنبھال رہے ہیں، اسی لیے تو وہ اب بھی ہمارے ساتھ ہے!

بختیارصاحب نے آنکھیں سکیڑیں
کہنا کیا چاہتی ہو تم؟

رُقیہ بیگم نے تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا

آپ اچھی طرح جانتے ہیں، ہم کیا کہنا چاہتے ہیں۔

ماحول میں تناؤ بڑھنے لگا تو شہزیب صاحب جھنجھلا گئے
اچھا اچھا! آپ دونوں تو لڑنا مت شروع کریں!

رُقیہ بیگم کرسی پیچھے دھکیل کر اٹھ کھڑی ہوئیں
تم سدھر جاؤ تو یہ سب نہ ہو، جب بھی وہ ہمارے ساتھ بیٹھتا ہے، تمہارا شروع ہو جاتا ہے!

یہ کہہ کر وہ تیزی سے کمرے سے نکل گئیں۔

سمیرا نے لب کاٹے اور بڑبڑائی

اب امّاں کو بھی ناراض کر دیا

وہ بھی رُقیہ بیگم کے پیچھے نکل گئی۔
اور شہزیب صاحب اور افتخار صاحب ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے۔

یہ کوئی پہلی بار نہ تھا، اس گھر میں ہر دوسرے دن یہی تماشا ہوتا تھا۔

+++++++++++++

محل کے ہر کونے میں خادِمیں بھاگ بھاگ کر تلاشی لینے لگیں۔
کبھی کمرے، کبھی دالان، کبھی صحن، مگر گلبہار کہیں نہ ملی۔
جہاں آراء بیگم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔
ان کے چہرے کی شفاف سفیدی پر لکیریں ابھر آئیں۔
آنکھوں میں وہ سرخی، جیسے طوفان سمٹ رہا ہو۔

جہاں آراء نے گرجتی آواز میں کہا
ریمل! اگر گلبہار محل کی دیواروں سے باہر گئی ہے نا، تو یاد رکھ… پورے شہر کو آگ لگا دوں گی میں۔ اس لڑکی نے نہ صرف میرے محل کو، بلکہ میرے نام کو بھی رسوا کر دینا ہے!

ریمل نے نظریں جھکا لیں، مگر اندر ہی اندر اس کے دل کی دھڑکن تیز تھی۔
وہ جانتی تھی، گلبہار اس وقت رنگ محل سے کوسوں دور جا چکی ہے۔
اور اگر جہاں آراء کو یہ خبر مل گئی، تو اُن کی پہلی ضرب خادِماؤں پر گرے گی۔

باہر گھنٹوں کی دوری پر ایک اور عالم تھا،
جہاں کوئی خوشبو پہلی بار آزادی کے لمس کو محسوس کر رہی تھی۔

لیکن رنگ محل کے اندر، طوفان کے آثار واضح تھے۔
خادِمیں لرزتی آواز میں بولیں
بیگم صاحبہ، پورا محل چھان مارا، گلبہار کہیں نہیں ہے!

یہ جملہ سنتے ہی تخت پر بیٹھی جہاں آراء بیگم دھاڑ اُٹھیں
عالم کو بلاؤ! سلیم کو بلاؤ! بھیجو ان کو شہر… یا تو گلبہار واپس آئے گی یا اُس کی لاش!

اسی لمحے بھاری دروازہ چرچراتا کھلا۔
اندر سرخ جوڑے میں ایک عورت داخل ہوئی۔
کلائیوں میں سونے کے کنگن، گلے میں بھاری سونے کی زنجیر، ہاتھوں میں سنہری انگوٹھیاں۔
عمر چالیس پینتالیس کے درمیان مگر غرور ایسا جیسے جہان کی مالک ہو۔
جہاں آراء! یہ کیسا شور ہے؟

جہاں آراء بیگم چونک کر اٹھی
تو، تُو یہاں کیسے؟

کام سے آئی ہوں۔ بتا، مسئلہ کیا ہے نور جہاں بیگم جہاں آراء بیگم کے برابر والی تخت پر آبیٹھی

جہاں آراء بیگم نے غصے سے کہا
وہ گلبہار، بھاگ گئی ہے!

نور جہاں بیگم کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آئی
کون گلبہار؟

چھ مہینے پہلے جسے اٹھایا تھا۔

اچھا، وہی شادی والی؟ نور جہاں بیگم سوچتی بولی

ہاں، وہی۔ جہاں آراء بیگم نے تصحیح کی

نور جہاں بیگم کے ماتھے پر بل پڑے
کیسے بھاگ گئی؟

جہاں آراء بیگم نے ریمل کو آواز دی
ریمل! اِدھر آ… بتا، وہ بھاگی کیسے؟

ریمل فوراً حاضر ہوئی
امّاں… کھڑکی سے۔

جہاں آراء بیگم چونک کر بولی 
کھڑکی؟ اُس کے کمرے میں تو کوئی کھڑکی تھی ہی نہیں!

وہ نازو کے کمرے سے بھاگی ہے۔ رات کو، جب ہم سب نیچے تھے، وہ اپنے کمرے سے نکلی، نازو کے کمرے میں گئی، اور وہاں کی کھڑکی سے… ریمل نے پوری بات بتائی

نور جہاں بیگم نے سرد لہجے میں کہا
اور تجھے یہ سب کیسے پتا؟

ریمل نے لرزتی سانس کے ساتھ کہا
دوپٹے سے۔

نور جہاں بیگم نے آنکھیں تنگ کرتے ہوئے کہا
دوپٹے سے؟

نازو تو بھاگنے والی نہیں۔ پھر اُس کی کھڑکی کے پاس دوپٹے سے بنی رسی کیسے ملی؟

نازو وہاں کھڑی تھی، سر جھکائے، رسّی ہاتھ میں دبائے۔

جہاں آراء بیگم نے نازو پر گرجی
اپنا کمرہ بند نہیں رکھ سکتی تھی تُو؟

نور جہاں بیگم نے فوراً ہاتھ اٹھا کر روکا
چھوڑو، کیوں چیخ رہی ہو اس پر؟ اس کی خطا اتنی بڑی نہیں، اصل قصور اُس دروازے کا ہے جو بند ہی نہیں ہوا۔

جہاں آراء بیگم نے سرد لہجے میں کہا
چابی ہمیشہ میرے پاس رہتی ہے۔ صرف ضرورت پر ان کے حوالے کرتی ہوں۔

نور جہاں نے تیِر کی طرح جملہ پھینکتے ہوئے کہا
پھر انہی میں سے کسی نے غفلت برتی ہے۔ خیر، ان کا حساب بعد میں کرنا۔ ابھی میری بات سنو۔

ہاں، بولو۔

مجھے پانچ لڑکیاں چاہییں۔ ابھی۔ وہاں دو نے خودکشی کر لی ہے، رش زیادہ ہے اور لڑکیاں کم۔

یہاں کہاں سے دوں؟ بڑی مشکل سے تو یہ چند ہاتھ آئی ہیں۔ آگے اور لانے میں وقت لگے گا۔

نور جہاں بیگم نے سخت لہجے میں کہا
وقت نہیں لگے گا۔ ویسی ہی دے دے۔ میں بند کرکے رکھ لوں گی۔ اور ویسے بھی، کچھ درندے آتے ہیں میرے پاس، اُن کے حوالے کر دوں گی، اچھا دام ملے گا۔

جہاں آراء بیگم کچھ سوچ کر بولی
اچھا، تو پھر تارا کو لے جا۔ دماغ چاٹ رکھا ہے اس نے۔ نہ مرتی ہے، نہ مانتی ہے۔ اوپر سے اُس کی دھمکیاں…

نور جہاں بیگم نے تجسس سے کہا
تارا؟ کون سی والی؟

جہاں آراء بیگم نے یاد کرتے ہوئے کہا
وہی، جسے شاپنگ مال کے باہر سے اٹھایا تھا۔ مِشّا۔

نور جہاں بیگم ہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ آئی
وہ اب تک ہے تیرے پاس؟ مانی نہیں ابھی تک؟

جہاں آراء بیگم نے نفرت سے کہا
کہاں! تین سال سے دماغ کھا رکھا ہے۔ روز خوراک دیتی ہوں، مگر ایک اثر نہیں ہوتا۔ زہر بھی کھا کر ہنستی ہے۔ مرنے کا نام ہی نہیں لیتی، کمبخت!

نور جہاں بیگم نے شوق سے کہا
چل پھر اُسے ہی دے دے۔

یہ سنتے ہی ریمل کا خون خشک ہوگیا۔ وہ اچانک بول اٹھی
نہیں! آپ اُسے نہیں لے جا سکتیں!

نور جہاں بیگم نے شعلہ بار نگاہوں سے ریمل کو دیکھا
کیا؟ تم مجھے منع کر رہی ہو؟ تم جانتی ہو کس سے بات کر رہی ہو؟

جہاں آراء بیگم نے ہاتھ اٹھا کر روکا
چھوڑو، کچھ مت کہو اسے۔

ریمل نے آہستہ سے کہا
اماں… گستاخی معاف، لیکن میں آپ دونوں کے بھلے کے لیے کہہ رہی ہوں۔ آپ جانتی نہیں وہ کیسی ہے۔ وہ یہاں صرف ضد یا ہٹ دھرمی سے نہیں مان رہی۔ اگر ہم نے اُسے کسی کے حوالے کیا، تو ہو سکتا ہے وہ اُسے نقصان پہنچا دے۔

جہاں آراء بیگم  لمحہ بھر سوچ میں ڈوب گئیں، پھر بولیں
ہاں… یہ سچ ہے۔ تارا کو یہی رہنے دو۔ وہ کئی بار پاگل حرکتیں کر چکی ہے۔ یہاں تو کئی لوگ ہیں سنبھالنے کو، وہاں اکیلا کون قابو پائے گا؟

نور جہاں بیگم نے ناک سکیڑ کر کہا
اچھا… تو پھر کوئی اور پانچ دے دو۔

جہاں آراء بیگم نے ریمل کو دیکھا
ریمل، نام بتا۔

ریمل بیگم نے بمشکل کہا
یاسمین اور جمیلہ۔ یہ دونوں جانے پر راضی ہیں۔

ٹھیک ہے۔ باقی تین زبردستی لے جاؤں گی۔ تم صرف نام بتا دو۔ دیکھو، کوئی نازک سی، پیاری سی ہو۔ ایسی لڑکیوں کی قیمت زیادہ لگتی ہے۔

جہاں آراء بیگم نے مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا
تو پھر گڑیا کو لے جا۔ ایک مہینہ پہلے لائی تھی۔ کیا لڑکی ہے! بالکل حور پری لگتی ہے۔

ریمل چونک اٹھی
اماں! وہ تو صرف اٹھارہ سال کی ہے!

نور جہاں بیگم کی آنکھوں میں لالچ کی روشنی جھلکی
تو کیا ہوا؟ چھوٹی لڑکیوں کی مانگ زیادہ ہے۔ دے دے۔

جہاں آراء بیگم نے سرد لہجے میں کہا
اور رُبی، سونی… یہ بھی ساتھ لے جا۔ یوں ہو گئیں پانچ۔

نور جہاں بیگم کی آنکھوں میں تسلی اتر آئی
ہاں، بس یہی چاہییں تھیں۔

جہاں آراء بیگم نے آخری فیصلہ سنایا
ریمل! جا کر ان سب کو کہہ دے… اپنا سامان باندھیں۔ ان کا ٹھکانہ اب نور حویلی ہے۔

ریمل خاموشی سے پلٹ گئی۔
تارا کو تو بچا لیا تھا، مگر باقی پانچ کو؟
اُنہیں وہ نہیں بچا سکتی تھی۔

+++++++++++++

ریمل نے سخت لہجے میں کہا
چلو! دونوں اپنے اپنے کمرے جا کر سامان پیک کرو۔

یاسمین حیران ہو کر بولی
کیوں؟

ریمل نے اکڑ کر جواب دیا
تم دونوں کا ٹھکانہ اب بڑی حویلی ہے۔ آج تم نور جہاں بیگم کے ساتھ نور حویلی جا رہی ہو۔

جمِیلا کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں
کیا… واقعی؟ سنا ہے وہ حویلی اس حویلی سے زیادہ خوبصورت اور بڑی ہے!

یاسمین نے پرجوش ہو کر کہا
بالکل! اور وہاں یہاں سے زیادہ پیسے بھی ملتے ہیں۔

ریمل نے سختی سے کہا
چلو دونوں سامان پیک کرو!

دونوں لڑکیاں چیختی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چل دیں، لیکن دل ہی دل میں حیران تھیں کہ بڑی حویلی میں زیادہ پیسے کیوں ملتے ہیں۔

ریمل نے اگلی لڑکیوں کی طرف دیکھا
اور روبی، سونی، تم دونوں بھی بڑی حویلی جا رہی ہو!

روبی نے ہچکچاتے ہوئے کہا
کیا؟ نہیں… میں کیوں جاؤں؟ میں نہیں جاؤں گی!

سونی بھی جھک کر بولی
میں بھی نہیں!

ریمل نے غصے سے کہا
سامان پکڑو اور چلو!

ستارہ نے مداخلت کی
چلو! دونوں جاؤ، وہاں یہاں سے زیادہ آرام اور سہولت ملتی ہے۔

روبی نے آنکھیں پھاڑ کر کہا
اوہ، ہیلو! ستارہ، تم کس دنیا میں ہو؟ وہاں… ہمارے سودے ہوتے ہیں، ہماری روح، ہماری ضمیر کی۔ ریمل، دیکھو! تم نے کہا بس راست کرنا ہے، میں مان گئی… لیکن وہاں نہیں بھیجنا، پلیز!

روبی نے زمین پر بیٹھ کر ہاتھ جوڑ لیے، آنکھیں نم ہوگئیں
پلیز، مجھے وہاں نہ بھیجو! میں نہیں جانا چاہتی! ریمل، تم نے جو کہا، وہ میں نے کیا، ریمل پلیز! ہمیں نہ بھیجو وہاں!

اتفاقاً، کمرے سے ایک لڑکی کی چیخ گونجی۔
نازی اور نازو گڑیا کو پکڑ کر لا رہی تھیں۔ وہ چیخ رہی تھی، رو رہی تھی۔

ریمل کے اندر کچھ ٹوٹ گیا، مگر اس نے آواز بلند کی
دیکھو! چپ چاپ مان جاؤ، ورنہ تم دونوں کو بھی ایسے ہی لے جایا جائے گا، جیسے اسے لے جا رہے ہیں!

روبی زمین پر بیٹھ گئی، کانپتی ہوئی آواز میں کہا
پلیز… ریمل! مجھے نہ بھیجو… اتنا ظلم نہ کرو… پلیز!

سونی بھی زمین پر بیٹھی روتی رہی، آنکھیں سرخ، دل خوف کے مارے دھڑک رہا تھا۔

جہاں آراء بیگم کی سرد، کمانڈ والی آواز گونجی
کتنا شور کر رہی ہے یہ؟ اس کا منہ بند کرو!

نور جہاں بیگم نے حکم دیا، جیسے ہوا میں خوف چھا گیا ہو
اسے بے ہوش کر دو اور گاڑی میں ڈال دو!

روبی زمین پر بیٹھ کر روتی رہی، ہاتھ جوڑے، دل دھڑک رہا تھا
پلیز… مجھے نہ بھیجو! میں نہیں جا سکتی، مجھے پر اتنا ظلم نہ دو!

روبی نے ہاتھ جوڑ کر التجا کی
پلیز ریمل!

اس نے ریمل کا ہاتھ پکڑا، مگر ریمل جھک کر کمرے سے نکل گئی۔

++++++++++++++

وہ ہمیشہ کی طرح دو بجے کے قریب گھر آتا تھا، جب تک ارشیان اور ریحان بھی یونیورسٹی سے لوٹ آتے۔ پھر تینوں مل کر کھانے کی میز پر بیٹھتے، کبھی ہنسی مذاق میں، کبھی سنجیدہ گفتگو میں۔ ناشتہ بھی ساتھ کرتے، دوپہر کا کھانا بھی ساتھ، اور رات کا بھی ساتھ ہی کرتے تھے۔

مگر آج وہ ناراضی کی وجہ سے جلدی آ گیا تھا۔ گیٹ پر گاڑی رکی تو گھر کے ملازم بھی حیران رہ گئے۔
ارحان نے مختصر کہا

کھانا لگ دو میرا۔

ملازمہ نے اثبات میں سر ہلایا اور جلدی سے کچن کی طرف بڑھ گئی۔

کھانے کے بعد وہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

دو بجتے ہی ارشیاں اور ریحان کی بائک گھر میں داخل ہوئی۔ بائک کو اپنی جگہ پارک کرتے دونوں جلدی جلدی اندر داخل ہوئے، دونوں نے بیک وقت جوتے اتارے اور سیدھے ملازمہ کی طرف لپکے۔
بھائی آگئے؟؟ ان کی آواز میں ایک ہی تجسس اور بے تابی تھی۔

ملازمہ، جو کچن سے واپس آرہی تھی، ذرا سا رکی اور مسکرا کر بولی
جی، آ چکے ہیں۔

ریحان نے فوراً اگلا سوال داغا
اور کھانا؟

ملازمہ نے ہلکی سی حیرانی سے کہا
کھا چکے ہیں، اور اب اپنے کمرے میں آرام کر رہے ہیں۔

یہ سن کر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے ایک ساتھ دوڑ پڑے۔ ان کے قدموں کی آہٹ سیڑھیوں پر گونجتی رہی۔ دلوں میں ہلکی سی شکایت اور آنکھوں میں چمک لیے وہ سیدھے ارحان کے کمرے کی طرف لپکے۔

دروازہ کھولتے ہی وہ دونوں اندر گھس گئے۔ شکر تھا کہ ارحان نے دروازہ لاک نہیں کیا تھا۔

بیڈ کے بیچ میں ارحان بیٹھا تھا۔ آنکھوں پر عینک چڑھی ہوئی، سامنے لیپ ٹاپ کھلا تھا، انگلیاں کی بورڈ پر تیزی سے چل رہی تھیں۔ کام کے علاوہ جیسے اُسے کچھ کرنا آتا ہی نہیں تھا؛ بس کام، کام، کام۔ آرام کے نام پر بھی وہ بس کام ہی کرتا تھا۔

ریحان اور ارشیان اس کے دائیں بائیں آ کر بیٹھ گئے۔
ریحان بولا
بھائی یار! یہ کیا بدتمیزی ہے؟

جیسے ارحان کے دو پہلو نہیں بلکہ اُس کی اپنی جان کے دو حصے اُس کے قریب آ گئے ہوں۔
اگر ارحان ایک جسم تھا، تو ریحان اور ارشیاں اُس کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون تھے۔

ریحان، جو غصے اور ضد میں بھی ارحان کی آنکھوں کا تارا تھا۔
اور ارشیان، جو معصوم ضد اور مان میں بھی اُس کے دل کی دھڑکن تھا۔

ارشیان نے نرم لہجے میں کہا
ریحان کی بات تو سن لیں ایک دفعہ بھائی۔۔۔

ریحان فوراً بولا
ہاں بھئی! مجرم کو اپنی صفائی دینے کا ایک موقع تو دیں نا!

لیکن ارحان کی انگلیاں کی بورڈ پر مسلسل چلتی رہیں۔ اُس نے نہ اُن کی طرف دیکھا نہ کوئی جواب دیا۔

ریحان نے ذرا جھجکتے ہوئے کہا
بھائی۔۔۔ معاف کر دیں نا!

ارشیان نے بھی سر جھکا کر ساتھ دیا
ہاں، غلطی ہو گئی، سوری نا۔

ریحان ضدی بچے کی طرح بولا
ہماری بات تو سن لیں، کہ ہم نے ایسا کیا کیوں کیا؟

ارشیاں نے آہستہ سے اس کی طرف دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا کہ بول دو، وہ سن تو رہے ہیں۔

ریحان نے گہرا سانس لے کر شروع کیا
وہ سر مجھے فضول میں ذلیل کر رہے تھے۔ بات صرف میری ہوتی تو میں برداشت کر لیتا، لیکن جب انہوں نے کہا کہ تم مجھے کہیں سے بھی ارحان کے بھائی نہیں لگتے، تو میرا خون کھول گیا۔ بھائی! آپ شکر کریں میں نے ان کا منہ نہیں توڑا۔

یہ سن کر ارحان کے ہاتھ رک گئے۔ ٹائپنگ کی ٹک ٹک بند ہو گئی۔ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد اس کی دھیمی سی آواز گونجی:
پوری بات بتاؤ۔

ارحان کے بولتے ہی دونوں بھائیوں کے چہروں پر خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جیسے عدالت کا دروازہ کھل گیا ہو۔

ریحان نے پھر کہنا شروع کیا
وہ مجھے اکثر ڈانٹتے ہیں۔ کبھی اسائنمنٹ پر، کبھی ٹیسٹ پر، کبھی بک نہ لانے پر۔ اور جیسا آپ نے سکھایا ہے، میں خاموشی سے سن لیتا ہوں۔ کچھ نہیں کہتا۔ لیکن، لیکن اس دن ہم دونوں گراؤنڈ میں کھیل رہے تھے۔ بس کھیل ہی رہے تھے، کچھ غلط نہیں کیا تھا۔ پھر بھی وہ آ گئے اور ہمیں سب کے سامنے ذلیل کرنے لگے۔

ارشیان نے بات آگے بڑھائی
ہاں بھائی، وہ سر تو جیسے ہمارے پیچھے ہی پڑے ہیں۔ کلاس میں تو ذلیل کرتے ہی ہیں، اب یونیورسٹی کے ہر کونے میں ہمیں دیکھ لیں تو شروع ہو جاتے ہیں۔ اور ذلیل کرنا اور ڈانٹنا، ان دونوں میں فرق ہوتا ہے، یہ ہمیں پتا ہے۔

ریحان نے دانت پیستے ہوئے کہا
اور سنیں! وہ کہتے ہیں تم بدتمیز ہو، آوارہ ہو، نہ پڑھائی میں دل لگتا ہے نہ کسی ٹیچر کی عزت کرتے ہو۔ پھر کہتے ہیں ارحان کو دیکھو، کتنا قابل اور شریف ہے۔ اور تم، تم تو لگتے ہی نہیں اس کے بھائی۔ پھر تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا، وہ تمہارا سگا بھائی ہے بھی یا نہیں؟ اور یہ کہ ہم صرف آپ کے پیسوں پر عیش کرتے ہیں۔

ارشیان نے ارحان کو دیکھا

بھائی! یہ کیا طریقہ ہے؟ سر ہے تو کیا ہوا؟ اسے یہ حق کس نے دیا کہ ہمارے دوستوں کے سامنے آ کر یوں ذلیل کرے؟

ریحان نے مٹھیاں بھینچیں
بس اسی پر میرا دماغ گھوم گیا!

کمرے میں ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی۔ دونوں بھائی اپنی صفائیاں دے چکے تھے۔ اب فیصلے کی گھڑی ارحان کے لبوں پر تھی۔

مگر ارحان نے صرف ایک سوال کیا
کھانا کھایا تم دونوں نے؟

ریحان اور ارشیان نے بےیقینی سے ایک دوسرے کو دیکھا:
بھائی؟؟

ارحان نے لیپ ٹاپ بند کیے بغیر کہا
اٹھو یہاں سے، جا کے کھانا کھاؤ۔

ریحان نے ضدی لہجے میں کہا
میں نہیں کھا رہا۔ ہماری بات تو سنیں۔

ارحان نے ذرا اونچی آواز میں دہرایا
جا رہے ہو یا نہیں؟

ارشیان نے جھجکتے ہوئے کہا
اچھا بھائی۔۔ جا رہے ہیں۔

جیسے ہی وہ دونوں کمرے سے باہر نکلے، خوشی کے مارے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔
کیوں کہ ان کے بھائی اب مان چکے تھے۔

ریحان جھومتے ہوئے بولا
اب دیکھنا۔ بس کل سے وہ سر ہمیں نظر نہیں آئیں گے۔

ارشیاں نے ذرا فکر مندی سے کہا
ہاں، لیکن اگر بھائی نے خود جا کر سر سے بات کر لی تو؟

ریحان نے بےپرواہ انداز میں کندھے اُچکائے
تو کیا۔۔۔ ہم نے جھوٹ تھوڑی بولا ہے!

یہ کہہ کر اُس نے ارشیاں کے کندھے پر بازو ڈال دیا۔ دونوں ایک دوسرے سے جُڑے، مسکراتے اور شوخی کرتے ہوئے سیڑھیاں اترنے لگے۔
ڈائننگ ٹیبل پر آتے ہی گھر کی خاموش فضا ان کی قہقہوں سے گونج اٹھی۔

++++++++++++++

ریمل خاموش کھڑی تھی۔
وہ صرف دیکھ رہی تھی —
لڑکیاں ایک ایک کر کے زمین سے اٹھائی جا رہیں تھیں اور گاڑی کی طرف لے جائی جا رہیں تھیں۔

روبی کی آنکھوں میں خوف اور بےبسی کی جھلک تھی۔
سونی کی سانسیں تیز اور ہچکچاہٹ سے بھری ہوئی تھیں۔
ستارہ خاموشی سے سب کو ہینڈل کر رہی تھی۔
اور ریمل کی نظریں مسلسل ان پر جمی رہیں۔

وہ نہ بولی، نہ کچھ کر پائی۔
بس ایک کونے میں کھڑی ہو کر سب دیکھتی رہی، جیسے اس کے ہاتھ بندھے ہوں۔

گاڑی کے دروازے کھلے۔
لڑکیاں ایک ایک کر کے اندر بیٹھ گئیں۔

ریمل نے دل ہی دل میں دعا کی، مگر زبان اور جسم خاموش رہا۔

آخرکار گاڑی کے انجن کی بھاری گڑگڑاہٹ سنائی دی۔
روشنی کی طرف، بڑے دروازے کے پار، سب لڑکیاں نور حویلی کی جانب روانہ ہو گئیں۔

ریمل بس دیکھتی رہ گئی۔
خاموشی میں ایک دکھ، اور ذمہ داری کا بوجھ اُس پر لدا رہا۔

اس نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں اور دل کی گہرائی سے کہا
یا اللہ۔۔۔ میں نے آج تک تجھ سے کچھ نہیں مانگا۔
تیری دی ہوئی خوشی پر ہنسی،
تیرے دیے ہوئے دکھ پر روئی۔۔۔
مگر کبھی شکوہ نہیں کیا۔
کبھی کچھ نہیں مانگا۔
مگر آج مانگ رہی ہوں۔
ان کی مدد کے لیے کسی کو بھیج دے۔
تو جانتا ہے میں بےبس ہوں۔
میرے کندھوں سے یہ بوجھ اتار دے، میرے مولا۔۔۔

وہ کھڑی رہی، آنکھیں بند، ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے، امید کے ننھے چراغ کو تھامے۔

وقت نے جو زخم اُس کے حصے میں ڈالے، اُن پر اس نے کبھی دعا نہیں مانگی۔
لیکن آج پہلی بار، لبوں پر دعا خودبخود اتر آئی۔

++++++++++

جاری ہے ۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *