داستانِ عِشق ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۵
گاڑی کا پہیہ ایک جھٹکے سے سائیڈ پر رکا۔ دروازہ کھلا اور وہ تیز قدموں سے آگے بڑھا۔ جیسے ہی سامنے پہنچا، اُس کی آنکھوں کی چمک یکایک بجھ سی گئی۔
یہ… یہ وہ لڑکی نہیں تھی…!
وہ جس کے خیال نے کئی راتوں سے اُس کی نیند چھین رکھی تھی، جس کی پرچھائیاں اُس کے ذہن میں جاگتی آنکھوں کے خواب بن چکی تھیں… یہ وہ نہیں تھی۔
یہ تو کوئی اور تھی۔
لیکن یہ حلیہ؟ یہ چہرہ؟ سانسوں کی بے ترتیبی، کپڑوں کی بکھری ہوئی حالت… جیسے وہ کسی کرب سے گزر کر آئی ہو۔
وہ چند لمحے بس دیکھتا رہا۔ پھر ضبط توڑ کر سخت لہجے میں پوچھ بیٹھا
کہاں جا رہی ہو؟
لڑکی کی آنکھوں میں خوف کی چمک ابھری، ہونٹ کپکپائے۔
پھر وہ اچانک پھٹ پڑی، جیسے سینے میں قید ہوا لاوا باہر نکل آیا ہو۔
جہنّم میں…!
وہ ساکت کھڑا اُسے دیکھتا رہ گیا۔
یہ کون تھی؟ کہاں سے آئی تھی؟ اور یہ کس جہنّم کی دہلیز پر جا رہی تھی…؟
وہ لمحے بھر کو خاموش رہا، مگر اس کی آنکھوں میں سوال بھڑک اٹھا۔
کون سا جہنّم؟
اس نے دھیمے مگر کاٹ دار لہجے میں پوچھا۔
لڑکی کے قدم یکدم رُکے، جیسے کسی نے اُس کے تلووں کو زنجیر سے جکڑ دیا ہو۔
اُس کی نظریں زمین پر جمی رہیں، سانسیں تیز ہو گئیں۔
وہ جہنّم…! لڑکی کی آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔
وہ جہنّم، جو آپ جیسے درندوں کے لیے جنت ہے!
حمدان کے قدم لمحہ بھر کو جیسے زمین سے جڑ گئے۔
کیا… بک رہی ہو تم؟ اُس نے حیرانی اور غصّے کے امتزاج سے کہا۔
لیکن اُس کے جواب دینے سے پہلے ہی لڑکی آگے بڑھی۔
ایک جھٹکے میں اُس کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا۔
اس اچانک حرکت نے سب لمحے کے لیے ساکت کر دیا۔
“ہاں!” وہ چیخی۔ آپ جیسے درندوں کی وجہ سے ہم جیسی معصوم لڑکیاں رسوا ہو جاتی ہیں۔
آپ جیسے مردوں کی ہوس کی آگ میں ہم لڑکیاں جل کر راکھ ہو جاتی ہیں… ہماری عزت، ہمارے خواب، سب خاکستر ہو جاتے ہیں۔
حمدان نے پہلی بار اُس کی آنکھوں میں سیدھا دیکھا۔
وہاں خوف نہیں تھا، بس غصّہ تھا، بے بسی تھی، اور ایک ایسی اذیّت تھی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا تھا۔
کیا کر رہی ہو لڑکی؟ حمدان غرّایا۔
اُس کی آواز میں وہ رعب تھا جس سے بڑے بڑے بدمعاش کانپ اٹھتے تھے۔
لیکن یہ لڑکی… وہ نہ کانپی، نہ رُکی۔
بس اُس کے گریبان کو اور زور سے پکڑ لیا۔
حمدان کی برداشت کی حد ختم ہوئی۔
ایک جھٹکے سے اُس نے اپنا گریبان اُس کے ہاتھوں سے چھڑایا اور غصّے میں اُسے زور کا دھکّا دیا۔
لڑکی پیچھے کی طرف جا کر زمین پر زور سے گری۔
اس کا بازو چھل گیا، آنکھوں میں آنسو بھر آئے… لیکن وہ رونے کے بجائے اور بھی زیادہ چیخ پڑی۔
ہاں! دھکّا دے دو! اُس نے زمین پر بیٹھے بیٹھے کہا۔
مار دو، کچل دو، یہی تو تم مردوں کا طریقہ ہے نا؟
ہم لڑکیاں چیخ چیخ کر تھک جاتی ہیں… لیکن کبھی کوئی ہماری بات نہیں سنتا۔
کبھی کوئی ہم پر بھروسہ نہیں کرتا۔
کبھی تو کوئی ہمیں سمجھے!
لو… تھپڑ مارو! ہاتھ اٹھاؤ! ذلیل کرو! اور پھر بیچ سڑک پر چھوڑ دو۔
اس نے شکستہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا، ہم لڑکیاں تو بنی ہی اسی لیے ہیں… ذلیل ہونے کے لیے، روندے جانے کے لیے، برباد ہونے کے لیے….
حمدان کے ماتھے پر شکنیں گہری ہو گئیں۔
وہ چند لمحے کے لیے اُس کی طرف دیکھتا رہا۔
پاگل! جاؤ جہاں جا رہی تھی….
حمدان نے غصے سے کہا اور تیز قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
گاڑی کے دروازے تک پہنچ کر اُس نے ایک لمحے کے لیے رک کر پیچھے دیکھا۔
وہ لڑکی اب بھی وہیں زمین پر بیٹھی تھی، بال بکھرے ہوئے، آنکھوں میں نمی، اور چہرے پر ایسی تھکن جیسے صدیوں کی مسافت طے کی ہو۔
حمدان نے اندر ہی اندر خود کو ڈانٹا،
کیوں دیکھ رہا ہے تُو؟ تجھے کیا ضرورت ہے اس کے دکھ سننے کی؟ یہ کوئی تیرا مسئلہ نہیں….
لیکن پھر بھی اُس کے دل کے کسی کونے نے سرگوشی کی—
مسئلہ تیرا نہ سہی… پر یہ لڑکی اکیلی ہے۔ اور اکیلا پن کبھی بھی معمولی چیز نہیں ہوتا۔
اس نے جھٹکے سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور بیٹھتے ہوئے آخری بار زیرِ لب بڑبڑایا،
پاگل عورت…
ایک دم سے جیسے اُس کے خیالوں کو جھٹکا لگا۔
وہی لڑکی…!
آنکھوں میں پانی، لب کپکپاتے ہوئے سُرخ لہنگے میں حمدان کے سامنے کھڑی تھی۔ اور اُس کا وہی جملہ:
پلیز… میری مدد کریں۔
حمدان کے کار اسٹارٹ کرتا ہاتھ ایک دم روک گیا
دماغ نے فوراً ڈانٹ دیا
نہیں! یہ وہ لڑکی نہیں جس کی وجہ سے تُو کئی راتوں سے بے چین ہے۔ یہ کوئی اور ہے… ایک عجیب، پاگل عورت….
اُس نے بے نیازی سے نظریں پھیر لیں۔
دل نے کہا رک جا… ہاتھ بڑھا دے…
لیکن عقل غرائی کیوں؟ کیوں کرے گا تُو مدد؟ جب یہ خود تجھے درندہ کہہ رہی تھی؟ جب تیرے کالر کو نوچ رہی تھی؟
حمدان نے سختی سے کہا
میں دوبارہ اس کے پاس نہیں جاؤں گا… ہرگز نہیں۔ یہ میری ذمے داری نہیں… یہ عورت پاگل ہے، بالکل پاگل…
لیکن جب گاڑی اسٹارٹ ہوئی، اُس کے کانوں میں پھر وہی لرزتی ہوئی آواز گونجی
پلیز… میری مدد کریں…
اور حمدان کو لگا جیسے اب وہ زندگی بھر اس لڑکی کی آواز سے اپنی جان نہیں چروا سکتا
حمدان نے غصے سے گاڑی کا دروازہ زور سے بند کیا اور دوبارہ باہر آیا۔
اس کی نظریں فوراً اُس لڑکی پر جا ٹکیں—وہی لڑکی، وہی پریشان قدم، وہی بے تابی سے اِدھر اُدھر دیکھنا، اور پھر ایسے بھاگنا جیسے پیچھے قیامت آ رہی ہو۔
یہ جا کہاں رہی ہے؟ حمدان نے خود کلامی میں کہا اور لمبے ڈگ بھرتے ہوئے اُس کے پیچھے چل پڑا۔
لڑکی کے قدم ڈگمگا رہے تھے، لیکن رفتار تیز تھی۔
کبھی وہ دائیں دیکھتی، کبھی بائیں، جیسے کسی سے بچنے کی کوشش کر رہی ہو۔
اُس کی سانسوں کی آواز دور سے بھی صاف سنائی دے رہی تھی۔
حمدان کے دل میں ایک عجیب سا خلش پیدا ہوئی۔
کیا واقعی یہ کسی مصیبت میں ہے؟ یا محض ڈرامہ کر رہی ہے؟
لیکن وہ مانے یا نہ مانے، اُس کے قدم خود بخود تیز ہو گئے۔
اب وہ لڑکی چند ہی قدم کے فاصلے پر تھی۔
حمدان اب خاموشی سے اس کا پیچھا کرنے لگا۔۔۔آخری کہاں جانا چاہتی ہے وہ ؟
کچھ ہی فاصلے پر حمدان کے قدم رک گئے۔
اُس کی نظریں ایک شان دار، جگمگاتی عمارت پر جا اٹکیں—
رنگ محل!
بلند دیواریں شوخ روشنیوں میں نہا رہی تھیں۔
ہر کونے پر رنگ برنگی لائٹس جگمگا رہی تھیں جیسے کسی میلے کا سماں ہو۔
مین گیٹ پر سیاہ رنگ کی اونچی آہنی سلاخوں والا دروازہ تھا، جس پر سونے جیسے چمکتے حروف میں لکھا تھا
دنیا کی چھوٹی سی جنت
دروازے کے دونوں طرف دو قوی ہیکل پہرے دار کھڑے تھے، کالے کوٹ، کانوں میں وائرلیس اور آنکھوں میں اجنبی سختی۔
اوپر کی منزلوں کی کھڑکیوں میں رنگین پردے جھول رہے تھے، اور کہیں کہیں سے ہنسی کی تیز گونج فضا میں پھیلتی۔
یہ منظر پہلی نظر میں واقعی جنت جیسا لگتا تھا، لیکن حمدان کو لگا جیسے یہ جنت نہیں،
حمدان نے آنکھیں تنگ کر کے دیکھا۔
وہی لڑکی ہانپتی ہوئی بھاگ رہی تھی، اور اب رنگ محل کے بڑے دروازے کی طرف لپک رہی تھی۔
ایسے جیسے اس کی زندگی کی آخری پناہ یہی ہو۔
حمدان کے دل میں بے شمار سوالات جاگ اٹھے۔
کیا یہ اس کا گھر ہے….
وہ لڑکی بھاگتی بھاگتی گیٹ تک پہنچی۔
گارڈ نے محض ایک نظر اس پر ڈالی، جیسے وہ پہلے ہی اسے پہچانتا ہو، پھر بغیر کچھ پوچھے ہاتھ کے اشارے سے اندر کی طرف بھیج دیا۔
لڑکی لمحوں میں رنگ محل کی دیواروں کے پیچھے غائب ہو گئی۔
ہمدان کے قدم خود بخود تیز ہو گئے۔
وہ بھی لمحوں میں مین دروازے تک جا پہنچا۔
ابھی سانس سنبھالا ہی تھا کہ اسے اپنی ہی بے وقوفی کا احساس ہوا۔
یہ کہاں آ نکلا ہے؟ یہاں پہرے دار کھڑے ہیں، ہتھیار بند لوگ ہیں… پتہ نہیں کس کا گھر ہے ؟ وہ کیا بولے گا لڑکی کے پیچھے آیا ہے ؟؟؟
لیکن عجب بات یہ تھی کہ دل میں ذرا سا بھی خوف نہ تھا۔ حمدان ملک ڈرتا کب کس چیز سے تھا؟
گارڈ نے سخت نظروں سے اسے گھورا۔
کیا نام ہے تمہارا؟
حمدان… حمدان ملک۔ اس کے ہونٹوں سے بے اختیار نکلا۔
گارڈ کے لبوں پر ایک عجیب سا طنزیہ تبسم آیا۔
جنت دیکھنے آئے ہو؟
حمدان کے کان جیسے سن ہونا شروع ہو گئے۔
جنت… یہ لفظ اس کے دل پر بوجھ کی طرح گرا۔
بے خیالی میں اس کے لبوں سے نکلا
ہاں۔
اور اگلے ہی لمحے وہ حیران رہ گیا،
کیونکہ گارڈ نے بغیر کسی رکاوٹ، بغیر کوئی سوال کیے، گیٹ کھول دیا۔
جاؤ… جنت کے نظارے دیکھ لو۔
++++++++++++
رنگ محل کی راہداریوں میں وہی شاندار فانوس جل رہے تھے، لیکن اندر کا ماحول بجھا بجھا تھا۔
آج گل بہار جہاں آرا بیگم کے سامنے کھڑی تھی۔
جہاں آرا بیگم کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
ہاتھ میں پکڑی چوڑیوں سے بھری کلائی بار بار اوپر اٹھتی اور گل بہار کے رخسار پر بجلی کی طرح گرتی۔
چماتوں کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی، مگر گل بہار…
وہ خاموش کھڑی تھی۔
نہ کوئی چیخ، نہ کوئی احتجاج، نہ آنسو…
جیسے اُس نے درد محسوس کرنے سے انکار کر دیا ہو۔
ریمل دور کونے میں کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔
اس کے دل میں سوالوں کا طوفان مچ رہا تھا۔
یہ واپس کیوں آگئی؟ یہ تو بھاگ گئی تھی… آزادی کے دروازے تک پہنچ گئی تھی… پھر کیوں لوٹ آئی؟
جہاں آرا بیگم کے ہونٹ غصے سے لرزے۔
وہ چلائی
کہاں گئی تھی کَم بَخت؟ کون سا جہنم تلاشنے نکلی تھی تُو؟
جہاں آرا بیگم کی آنکھیں سرخ شعلوں کی طرح جل رہی تھیں۔
اس کے نتھنے غصے سے پھڑک رہے تھے، آواز ایسی گونج رہی تھی جیسے پورا کمرہ لرز اٹھے۔
زبان کیوں نہیں کھولتی؟ وہ دھاڑ کر بولی۔
کیا گونگی ہوگئی ہے تُو؟
اس نے جھٹکے سے گل بہار کے بال مٹھی میں جکڑ لیے، سر پیچھے کو کھینچا اور زہر بھرے لہجے میں کہا:
بتا! کہاں گئی تھی تُو؟
چانٹے پر چانٹا پڑ رہا تھا، لیکن گل بہار کی خاموشی اُس کے غصے کو اور بھڑکا رہی تھی۔
حرام زادی….جہاں آرا بیگم کے منہ سے لفظ انگاروں کی طرح نکلے۔
کیا سمجھتی ہے تُو؟ تجھے یہاں سے بھاگنے کا اختیار ہے؟ یہ رنگ محل ہے… یہاں سے نکلنے والی لڑکی یا تو قبر میں جاتی ہے یا پھر واپسی پر میری چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو کر معافی مانگتی ہے….
ریمل کا دل کانپ اٹھا۔
بیگم کی آواز، اُس کا غرور، اُس کی سفاکی—سب کچھ اس پر بجلی کی طرح گر رہا تھا۔
لیکن سب سے زیادہ اس کو گل بہار کی خاموشی چبھ رہی تھی۔
کیوں کچھ نہیں کہتی؟ کیوں سہ رہی ہے سب کچھ؟ آخر اس کے پیچھے راز کیا ہے؟
جہاں آرا بیگم نے پھر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا اور غرائی
میں زبان کھلوانا جانتی ہوں… اگر آج نہ بولی تو کل بولے گی، اور اُس دن تیری زبان تجھے ہی لعنت کرے گی….
جہاں آرا بیگم کے ہاتھ کا ایک اور زور دار تھپڑ گل بہار کے رخسار پر بجا۔
کمرہ گونج اٹھا، اور اس بار گل بہار کا جسم لرز کر ڈگمگا گیا۔
ریمل نے بےاختیار ایک قدم آگے بڑھایا، لیکن بیگم کی دہاڑ نے اسے وہیں جما دیا۔
کوئی آگے نہ بڑھے! یہ سزا کی حق دار ہے۔
گل بہار کے لب اب بھی سیے ہوئے تھے۔
آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں، جیسے ان میں برسوں کا دکھ اور تھکن اتر آیا ہو۔
بتا… تُو بھاگی کیسے یہاں سے ؟؟ اتنی ہمت آئی کہاں سے تیرے اندر….
جہاں آرا بیگم کے الفاظ تیز خنجر کی طرح گونج رہے تھے۔
اچانک ڈھیلا اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا، آنکھیں بند ہوئیں اور وہ زمین پر گر گئی۔۔
کمرے میں ایک لمحے کو سکتہ طاری ہو گیا۔
جہاں آرا بیگم کا سانس بھاری ہو گیا، ریمل کا دل حلق میں آ گیا۔
بی… بیگم… وہ تو بےہوش ہوگئی ہے! کسی خادمہ نے ہمت کر کے کہا۔
جہاں آرا بیگم کے چہرے پر لمحہ بھر کے لیے حیرت کی جھلک آئی، مگر فوراً ہی اس نے سختی سے گردن اونچی کی۔
ٹھیک ہے… اسے ہوش میں لاؤ۔ پھر دیکھتی ہوں یہ زبان کیسے بند رکھتی ہے!
ریمل نے دھڑکتے دل کے ساتھ زمین پر گری گل بہار کو دیکھا۔
یا اللہ… یہ آخر کس بھٹی میں جل رہی ہے؟ اور یہ کیوں واپس آئی ہے؟
+++++++++++++
وہ اندر داخل ہوا تو سامنے ایک چھوٹی سی راہداری تھی۔ دائیں اور بائیں دو دروازے بند پڑے تھے۔ سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ جس لڑکی کے پیچھے وہ ابھی ابھی آیا تھا… وہ یہاں کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔
حمدان کی نظریں الجھ گئیں۔ سامنے کھڑی لڑکی سفید اور سنہری کام والا لمبا سا فراک، جس پر بھاری دوپٹہ شان سے اوڑھا ہوا تھا۔ گویا وہ کسی بڑی بارات کی دلہن بنی کھڑی ہو۔ مگر آنکھوں میں عجب سکون اور ایک ناقابلِ فہم اسرار تھا۔
سر، اس طرف۔۔۔ لڑکی نے دائیں جانب اشارہ کیا۔
حمدان نے فوراً کہا میں بائیں طرف جاؤں گا۔
لڑکی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری، جیسے وہ اس ضد کی پیش بندی پہلے سے جانتی ہو۔
لیکن آپ کی پہلی منزل… بائیں طرف سے نہیں، دائیں طرف سے ہے۔..
پہلی منزل؟ حمدان کی آواز میں حیرت اور قدرے جھنجھلاہٹ شامل تھی۔
لڑکی نے نظریں جھکا کر آہستگی سے کہا
جی ہاں۔ پہلے دائیں طرف جائیں۔ پھر بائیں طرف کا راستہ خود آپ کے لیے کھل جائے گا… اگر آپ چاہیں گے تو۔
حمدان کی آنکھوں میں بےچینی صاف جھلک رہی تھی۔
حمادان نے تیز لہجے میں پوچھا
وہ لڑکی کہاں گئی؟ جو ابھی اندر آئی تھی؟
سامنے کھڑی دلہن نما لڑکی نے پرسکون لہجے میں جواب دیا
آپ کو اُس سے ملنا ہے؟
حمدان کا ماتھا شکن آلود ہوا۔
ہاں… وہ لڑکی یہاں رہتی ہے؟
لڑکی نے نگاہیں جھکائیں، پھر آہستگی سے بولی
جی بالکل۔ اگر آپ اُس لڑکی سے ملنا چاہتے ہیں… تو دائیں طرف جائیں۔
حمدان کی آنکھوں میں حیرت مزید گہری ہوئی۔
وہ دائیں طرف گئی ہے؟
لڑکی کے ہونٹوں پر ایک اسرار بھری مسکراہٹ ابھری۔
نہیں… لیکن وہ ملے گی آپ کو… دائیں طرف سے ہی۔
حمدان کے دل میں عجیب سا کھٹکا پیدا ہوا، لیکن اگلے ہی لمحے اس نے گردن اکڑائی اور سختی سے کہا
اچھا…
اور پھر اس نے دائیں طرف کے دروازے کی جانب قدم بڑھا دیے۔
دروازے کے ہلتے ہی گویا ایک نامعلوم دنیا اُس کے سامنے کھلنے والی تھی۔
++++++++++++++++
وہ رات کے اس پہر، کمرے کی مدھم روشنی میں لیپ ٹاپ کے سامنے جھکا، تیزی سے انگلیاں کی بورڈ پر چلا رہا تھا۔ آنکھوں میں غیرمعمولی توجہ، اور پیشانی پر ہلکی سی تھکن۔
اچانک فون کی تیز رِنگ ٹون نے خاموشی کو چیر ڈالا۔
اس نے جھنجھلا کر فون اٹھایا، کان سے لگایا۔
ہیلو… کون؟
دوسری طرف سناٹا تھا۔
وہ پھر بولا، اب کے لہجہ قدرے سخت تھا
ہیلو! کون ہے؟
اس نے پھر سخت لہجے میں کہا
ہیللو؟ کون ہے؟ بار بار کال کر کے تنگ کون کر رہا ہے؟ بول بھی! ابھی اگر تو نہیں بولا نہ، تو تیرے گھر میں گھس کر تیرے کو ماروں گا میں…..
اُس کا دل کیا کے نمبر بلاک کر دے لیکن وہ بلاک نہیں کر سکتا تھا۔۔۔کیوں کہ اُس کو یقین تھا دوسری طرف کوئی اُس کا دوست ہی ہوگا۔۔۔
اور دوست بھی تو اُس کے کم کہاں تھے؟
کتنا ہی بے تمیز، منہ پھٹ اور ضدی کیوں نہ ہو۔۔۔ ریحان کی عادت ہی ایسی تھی کہ جس گلی سے گزرتا، اُسی گلی میں کسی نہ کسی کو دوست بنا لیتا۔
پھر اُس پر بھولنے کی بیماری بھی تھی۔ جس دوست سے ایک ہفتہ بات نہ ہوتی، اگلے ہفتے وہ چہرہ اُس کی یادداشت سے ایسے غائب ہوجاتا جیسے کبھی ملا ہی نہ ہو۔
اب کی بار بھی وہاں خاموشی تھی۔ ایک ایسی خاموشی جو کان پھاڑتی تھی۔ وہ بھنویں سکیڑ کر فون بند کرنے ہی والا تھا کہ…
اچانک دوسری طرف سے ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی۔
چُڑیوں کی چھن چھن… جیسے کوئی لڑکی اپنے ہاتھ حرکت میں لا رہی ہو۔
ریحان کی آنکھیں سکڑ گئیں۔
لڑکی ؟؟؟ دوسری طرف کوئی لڑکی ہے ؟ وہ جو کب سے سمجھ رہا تھا کہ اُس کا کوئی پرانا دوست ہے۔۔ لیکن دوسری طرف کوئی لڑکی تھی ؟
++++++++++++
جیسے ہی ہمدان نے بائیں طرف کا دروازہ کھولا،
سامنے ہی ایک چھوٹا سا کاؤنٹر بنا ہوا تھا، جس پر ایک لڑکی بیٹھی تھی۔
شکر تھا کہ وہ باقی لڑکیوں کی طرح دلہنوں کے حلیے میں نہ تھی۔
پینٹ شرٹ پہنے، جدید تراش خراش میں وہ عام سی نظر آ رہی تھی۔
مگر چہرہ۔۔۔ چہرہ ضرورت سے زیادہ میک اپ کے بوجھ تلے دبا ہوا۔
حمدان اُس کے قریب گیا۔
لڑکی نے اُس کی طرف ایک بڑی سی مسکراہٹ اچھالی۔
ایسی مسکراہٹ جس نے ہمدان کا سارا موڈ برباد کر دیا۔
دل چاہا یہیں اُس کے چہرے سے وہ مصنوعی مسکراہٹ نوچ ڈالے، مگر ابھی وہ اندر داخل ہی ہوا تھا، اسے اپنا غصہ قابو میں رکھنا تھا۔ابھی اُسے جاننا تھا کہ یہ رنگ محل کا چکر کیا تھا؟ اور اُس لڑکی کا بھی۔۔؟
السلام علیکم! کیا جیب بھاری ہے آپ کی؟
لڑکی نے شوخی سے سوال داغا۔
ہمدان نے ناگواری سے بھنویں چڑھائیں۔
بہت بھاری ہے جیب جھاڑوں تو ایک دو کروڑ ویسے ہی گر جائیں گے۔
لڑکی نے معنی خیز مسکراہٹ دبائی اور اُس کے سامنے تین رجسٹر سرکا دیے۔
ایک سرخ رنگ کا، دوسرا نیلا اور تیسرا ہرا۔
ہمدان نے تیکھے لہجے میں پوچھا
یہ کیا ہے؟
لڑکی نے نرمی سے وضاحت کی۔
یہی تو جیب کا فیصلہ ہے، آپ نے کس رنگ میں سے چُننا ہے۔۔۔ سرخ، نیلا یا ہرا۔.
ہمدان کے ماتھے پر شکنیں گہری ہو گئیں۔
مطلب؟؟
لڑکی نے بڑے سکون سے سرخ رجسٹر پر ہاتھ رکھا۔
یہ۔۔۔ پچاس ہزار۔
پھر نیلے پر انگلی رکھی۔
یہ۔۔۔ پچیس ہزار۔
اور آخر میں ہرے پر ہاتھ رکھا۔
یہ۔۔۔ پندرہ ہزار۔
ہمدان کی نظریں تینوں رجسٹروں پر جمی رہیں۔
چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔
یہ کیا بکواس ہے؟ جیب کا فیصلہ؟ رنگوں کی آڑ میں لُٹ مار؟
لڑکی ہنسی، لیکن وہ ہنسی خالی تھی۔
یہ کھیل نہیں ہے، صاحب۔ یہ قانون ہے۔۔۔ رنگ محل کا قانون۔
ہمدان نے آنکھیں تنگ کیں۔
کیا مطلب؟
لڑکی نے چہرے پر مصنوعی سنجیدگی سجا لی اور مدھم آواز میں بولی
یہ کاغذی رجسٹر نہیں ہیں۔۔۔ یہ دراصل راستے ہیں۔
ہر رنگ ایک کمرہ ہے۔۔۔ اور ہر کمرے کے اندر الگ دنیا۔ الگ جنت….
ہمدان نے بھنویں سکیڑ کر دیکھا۔
اور وہاں کیا ہے؟
لڑکی نے دھیرے سے کہا
وہاں دوشیزہ لڑکیاں ہیں… حُسن کی ملکہ، جن کی ایک نگاہ بھی دلوں کو اسیر بنا لیتی ہے۔
ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ وہ پھر بولی
سرخ رجسٹر والے کمرے میں۔۔۔ وہ دوشیزہ لڑکیاں ہیں، جو ہمیشہ خوشبو اور شور میں ڈوبی رہتی ہیں۔
رقص کرتی ہیں، ہنستی ہیں، اپنی ہنسی کی چھنکار سے فضا کو جگمگاتی ہیں۔
آپ چاہیں تو اُن سے بات کر سکتے ہیں۔۔۔
یا شاید وہی آپ کو اپنی شوخی میں الجھا لیں۔
وہ لمحہ بھر کو رکی۔ پھر بولی
نیلے رجسٹر کے کمرے میں وہ ہیں۔۔۔ جن کی آنکھوں میں سمندر کی طرح گہری خاموشی ہے۔ جو بولتی نہیں، بس رقص سے سب کو اپنا دیوانہ بنا لیتی ہیں
آپ اُن سے باتیں نہیں کر سکتے۔۔۔
اب بس اُن کی آنکھیں پڑھ سکتے ہیں۔
اب اُس نے ہرے رجسٹر کی طرف اشارہ کیا۔
اور یہ سب سے سستا ہے۔۔۔ مگر سب سے خطرناک بھی۔
یہاں صرف ایک جھلک، ایک رقص کافی ہے۔۔۔
پھر آدمی واپس نہیں جا پاتا۔
یہ لڑکیاں مسکراتی کم ہیں، مگر اُن کے اشارے جان لیوا ہیں۔
ایک نظر میں دل چھین لیتی ہیں اور ایک رقص میں روح قید کر لیتی ہیں۔
یہاں داخل ہونا آسان ہے، مگر نکلنا۔۔۔ تقریباً ناممکن۔
ہمدان کے وجود میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔
یہ “رجسٹرز” دراصل چابیاں تھیں، جو رنگ محل کے مختلف “کوتھوں” کے دروازے کھولتی تھیں۔
ہر کوٹھے کے پیچھے ایک الگ رنگ کی دنیا آباد تھی۔۔۔
کہیں سرخ شوخی کی آگ جلتی تھی،
کہیں نیلی خاموشی سمندر کی طرح پھیلی ہوئی تھی،
اور کہیں ہری پراسراریت کے جال میں روح قید کی جاتی تھی۔
اُس کا دماغ اب صحیح میں گھوم چُکا تھا وہ ایک کوٹھے میں آچکا تھا یا خدا۔۔۔۔ یہ کیا غضب ہُوا تھا
اُسے لگا جیسے زمین اُس کے قدموں کے نیچے سے سرک رہی ہو۔
یہ کوئی عام محل نہیں تھا، یہ عورتوں کا جال تھا۔۔۔ ریشمی دھاگوں میں لپٹا ہوا قفس۔
وہ جسے باہر سے “دُنیا کی چھوٹی سی جنت” لکھا گیا تھا،
یہ کوٹھ مردوں کے لیے واقعی جنت تھا۔۔۔
لیکن اُس جیسے مرد کے لیے نہیں۔
ہمدان کی آنکھوں میں نفرت تیرنے لگی۔
وہ جانتا تھا کہ باہر کی دنیا کے کئی رئیس، کئی بظاہر عزت دار لوگ، اس جگہ کو “آرام گاہ” سمجھ کر آتے ہیں۔
لیکن اُس کے لیے یہ جنت نہیں۔۔۔ گناہ کا اڈہ تھا، اور عورتوں کی مجبوریوں پر کھڑا ہوا ایک بازار۔
ہمدان کا دل چاہا کہ لپک کر رجسٹرز پھاڑ ڈالے، اُس میز کو اُلٹ دے، اُس لڑکی کا گلا دبا دے۔۔۔ لیکن وہ جانتا تھا، ابھی اُسے جذباتی ہو کر کچھ نہیں کرنا تھا۔
ایک دم سے اُس کی آنکھوں کے سامنے دوبارہ وہیں لڑکی گھومی اور اُس کی اِلتجا کرتی آواز
پلز میری مدد کریں۔۔۔
اُسی لمحہ سامنے بیٹھی لڑکی دوبارہ بولی
تو اب آپ فیصلہ کریں۔۔۔
لڑکی نے دھیرے سے کہا۔
سرخ۔۔۔ نیلا۔۔۔ یا ہرا؟
++++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔
