dastan e ishq

Dastan-e-ishq “Trailer” written by siddiqui

 

داستانِ عشق

از قلم صدیقی


ٹریلر ۔۔۔

اُس لڑکی نے اپنی سیاہ آنکھیں اٹھا کر ریمل کو دیکھا
“میں مر جاؤں گی، لیکن وہ کام نہیں کروں گی جو تم لوگ چاہتے ہو۔”
“دیکھ، تجھے میں ہزار بار یہاں سے بھگا چکی ہوں، ایک بار اور بھگا رہی ہوں۔”
پھر اُس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے: “خدا کا واسطہ ہے، اب واپس مت آنا، بھاگ جانا۔۔۔ ہر بار ریمل جہاں آرا تجھے یہاں سے نہیں بھگائے گی۔”
اور ریمل جہاں آرا دروازہ ہلکا سا کھول کر باہر نکل گئی۔ آگے کا راستہ وہ لڑکی اچھی طرح جانتی تھی۔

++++++++++

پوری بستی چپ تھی… جیسے زبانیں کٹ گئی ہوں، جیسے ضمیر مردہ ہو چکے ہوں۔
درندوں کا رقص جاری تھا، اور وہ لڑکا…!
ہاں وہ لڑکا جس کے ہاتھ بندھے نہ تھے، مگر جسم لہو میں بھیگا ہوا تھا… جسے دو وحشیوں نے گھسیٹ کر زمین پر پٹخا تھا، اور پھر مارنے لگے تھے — جیسے وہ انسان نہیں، کوئی بے جان شے ہو۔
پورا گاؤں تماش بین بنا کھڑا تھا۔
آنکھیں تھیں مگر بینائی سے خالی۔
دل تھے مگر احساس سے عاری۔
کوئی نہ بولا، کوئی آگے نہ بڑھا۔ سب تماشہ دیکھتے رہے۔
وہ لڑکی جو کچھ گھنٹے پہلے اُس کی دلہن بنی تھی، اب دو درندوں کے درمیان قید تھی۔
اس کے ہاتھ جھٹکتے، وہ چلاتی، وہ گرتی، وہ گڑگڑاتی…
“خدا کے واسطے! مجھے لے جاؤ، میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ… بس اسے چھوڑ دو!”
اس کی آواز میں وہ فریاد تھی جو دل کو چیر ڈالے۔
آنکھوں سے بہنے والے آنسو جیسے خون کے قطرے ہوں۔
مگر اُن درندوں کے سینے میں دل نہیں تھے۔
وہ لڑکی ہر بار اپنے شوہر کی طرف بھاگتی… اور وہ درندے پھر سے اُسے پیچھے دھکیل دیتے۔
“میں چل رہی ہوں ناں تم لوگوں کے ساتھ… پلیز! پلیز اسے چھوڑ دو!”
وہ لڑکا چیخا تھا،
“مار دو مجھے…! اگر میں زندہ بچ گیا… تو تم سب کو چھوڑوں گا نہیں!”
خون اُس کی پیشانی سے بہتا جا رہا تھا، اور زمین اُسے اپنے اندر سمیٹنے کو بےتاب تھی۔
اور وہ… وہ لڑکی، بس رو دی تھی۔
زمین پر گھٹنوں کے بل گرتی، اُس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر سسکی:
“چپ ہو جاؤ… کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ پاگل ہو گئے ہو؟
تمہیں کچھ ہو گیا تو… تو میرا کیا ہوگا…؟”
یہ کیسا رشتہ تھا جو چند گھنٹے پہلے بندھا تھا…؟
یہ محبت کہاں سے آ گئی تھی جس نے اُسے توڑ کر رکھ دیا تھا؟
کیا صرف ایک دن کے نکاح نے اُسے اُس کے بغیر جینے کے قابل نہ چھوڑا تھا؟
وہ لڑکا اب ہانپتے ہوئے بولا:
“تم دعا کرنا کہ میں بچ جاؤں…
اگر میں بچ گیا… تو تمہیں اُس جہنم سے نکال لاؤں گا…
اگر میں زندہ رہا… تو…”
اور جملہ ادھورا رہ گیا… اُس کی آنکھیں بند ہوگئی
” تمہیں کچھ نہیں ہوگا تمہیں کچھ نہیں ہوگا “
وہ بولی آنسو گرتے گئے۔ دعا بہتی رہی۔

++++++++++

رات آہستہ آہستہ اتر رہی تھی، جیسے اندھیرا خامشی سے زمین پر پیر رکھ رہا ہو۔ اور کوٹھے کی دیواروں پر لگی رنگین لائٹیں جل چکی تھیں۔
ہر رنگ — نیلا، سبز، لال —
نیچے گلی میں رکشوں کی قطار تھی۔ مردوں کی نظریں اوپر کھڑکیوں کی طرف اٹھتی تھیں، اور نیچے سرکتے ہوئے لب مسکرا کر پیغام دیتے تھے:
“بس چند سیڑھیاں، اور دنیا بھول جاؤ…”
اوپر  کوٹھے پر ساز بج رہا تھا — سست، بوجھل، اور جانا پہچانا۔
ساگر جیسے ہر رات اسی دُھن پر کوئی دل ڈوبتا ہو۔
فرش پر بچھا سرخ قالین اب ماند پڑ چکا تھا، لیکن اس کی بوسیدہ مہک میں وقت کی گواہی تھی۔
دیواروں پر لگے آئینے جیسے روز نئی چہروں کی بےبسی دیکھ کر چپ ہو چکے تھے۔
اور وسط میں کھڑی وہ لڑکی…
ہاں، وہی! جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی، مگر آنکھوں میں نمی…
جس کے جھمکے ہر جنبش پر چھنک رہے تھے، اور دل ہر سانس پر بوجھل ہو رہا تھا۔
مہمان آ چکے تھے۔
“رقص کرو…”
پیشکار نے آہستہ سے اس کے کان میں کہا، جیسے کوئی حکم نہ ہو، بس ایک یاد دہانی ہو۔
اور وہ لڑکی…
جس کا نام شاید نازو تھا، یا شبو، یا پھر صرف ’چیز‘
وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی صوفے کے سامنے آئی۔
کمر سیدھی، آنکھوں میں بےنیازی، اور دل میں زنجیروں کی جھنکار لیے، اُس نے پہلا قدم رکھا۔
موسیقی کی لے تیز ہوئی… اور کوٹھا سانس لینے لگا۔
کسی کونے میں بیٹھی بوڑھی مائی نے پان چباتے ہوئے کہا:
“یہ جو چمک تمہیں نظر آتی ہے نا… اس کے نیچے قبریں کھدی ہیں… اور ہر قبر میں ایک زندہ عورت دفن ہے۔”
اور پھر جیسے ہر آواز خاموش ہو گئی۔
صرف گھنگھرو بجے… اور آنکھوں نے وہ دکھ دیکھا، جو زبان کبھی بیان نہیں کر سکتی۔

+++++++++++

“کون ہو تم؟”
وہ اچانک کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا تھا… جیسے کئی لمحوں سے وہاں موجود ہو… جیسے ہر چیز دیکھ رہا ہو، سن رہا ہو۔
“تمہیں اجازت کس نے دی… میرے کمرے میں یوں بغیر دستک دیے داخل ہونے کی؟”
اس کی آواز کانپ رہی تھی… اور آنکھیں— وہ آنکھیں جنہیں دیکھ کر وہ اکثر الجھ جایا کرتا تھا— آج غصے سے دہک رہی تھیں۔
لڑکا خاموش کھڑا رہا… بس اُسے تکے جا رہا تھا… ایک ایسی نظروں سے، جیسے وہ پہلی بار اسے دیکھ رہا ہو… یا شاید… آخری بار۔
پھر اُس نے کہا، بہت آہستہ سے
“اتنا بڑا جھوٹ… اتنا بڑا دھوکہ…”
وہ لرز گئی۔
“ک-کون سا دھوکہ؟”
اس نے چیخ کر کہا…
“تم نے سب کو دھوکہ دیا… ہر ایک کو……”
“میں کیوں دوں گی کسی کو دھوکہ؟”
وہ چیخی ۔۔۔

+++++++++

رات اپنی کالی چادر اوڑھ چکی تھی، اور کُھوٹے پر زندگی ایک بار پھر تماشہ بن چکی تھی۔
ہر کمرہ، ہر دروازہ، ہر کھڑکی… جیسے انسانوں کی نہیں، مجبوریوں کی قید خانہ ہو۔
وہ لڑکی — زہرہ — کل شام تک اسکول کے یونیفورم میں تھی۔
آج سرخ لپ اسٹک، بھاری جھمکے اور نم آنکھوں کے ساتھ دروازے کے پاس بیٹھی تھی۔
“یہ سب تمہاری مرضی سے ہو رہا ہے؟”
کسی نے پوچھا۔
اس نے سر اُٹھایا، اور نہایت دھیمی آواز میں کہا:
“مرضی تو اُس دن چھن گئی تھی، جب میرے باپ نے قرض کے بدلے میرے وجود کو رسید بنا دیا تھا…”
باہر گلی میں قہقہے تھے…
اندر کمرے میں سسکیاں۔
خاتونِ خانہ، جو خود ایک وقت میں زہرہ جیسی تھی، دروازے پر کھڑی سب دیکھ رہی تھی…
“پہلی رات ہمیشہ خاموش ہوتی ہے۔ شور بعد میں آتا ہے، جب رونا بھی بےمعنی ہو جاتا ہے۔”
زہرہ کے چہرے پر اب صرف ایک سوال تھا:
“کیا میں اب بھی انسان ہوں… یا محض ایک قیمت…؟”
رات بڑھتی گئی…
اور کُھوٹے پر ایک اور چراغ جل گیا… وہ چراغ جس کی روشنی کسی کے نصیب میں نہیں، بس گناہ گاروں کی عارضی راہ میں رکھی گئی ایک شمع تھی۔

++++++++++++

رنگ محل باہر سے دیکھنے والوں کے لیے خواب جیسا تھا۔
چمکتے فانوس، جھومتے پردے، مہکتے عطر کی خوشبو، اور رنگین چوڑیوں کی چھنکار…
مگر اندر…
اندر وہ حور قید تھی — صرف جسم نہیں، روح بھی۔
وہ حور… جو بچپن میں تتلیاں پکڑتی تھی، اب خود کسی کے پنجرے میں قید تتلی بن چکی تھی۔
وہ جب ہنستی تھی، سب کہتے: “کتنا خوش رہتی ہے!”
کسی نے اُس ہنسی کے پیچھے چھپی چیخ نہیں سنی تھی۔
وہ جب رقص کرتی تھی، محفل میں تالیاں گونجتی۔
مگر اس کی ایڑیاں ہر بار چیختی تھیں:
“مجھے آزاد کرو!”
“رنگ محل تو قسمت والوں کو ملتا ہے، ہے نا؟”
کسی نے طنز کیا۔
اس نے سر جھکا کر بس اتنا کہا:
“ہاں، مگر یہاں قسمت نہیں… صرف سودا ہوتا ہے… خوابوں کا، آوازوں کا، اور عورت کے وجود کا۔”
وہ ہنستی تھی… زبردستی۔
وہ کھیلتی تھی… مجبوری سے۔
اور رنگ محل؟
وہ آج بھی جگمگا رہا تھا…
ایک اور حور کی قید کے ساتھ۔

++++++++++++

“مجھے ایک کنیز چاہیے…”
وہ نوجوان دھیمے لہجے میں بولا،
صوفے پر بیٹھی عورت نے دھیرے سے پاندان بند کیا۔ اس کے لب پان سے سرخ تھے،
اس نے نوجوان کو غور سے دیکھا — سانولا مگر دلکش چہرہ، آنکھوں میں کوئی چھپی ہوئی جنگ، اور لہجے میں وہ ٹھہراؤ جو کسی خود ساختہ بادشاہ کے لہجے میں ہوتا ہے۔
“کنیز؟”
وہ عورت ہنسی — وہ ہنسی جو طنز سے زیادہ حقیقت سے لبریز ہوتی ہے۔
“کنیزیں تو پرانے وقتوں میں ہوتی تھیں، بادشاہوں کے حرم میں۔ تمہیں آج کے دور میں کنیز چاہیے؟”
لڑکے نے ایک آہستہ سی مسکراہٹ لبوں پر سجائی —
“کنیزیں کبھی ختم نہیں ہوتیں، بی بی…”
اس نے نرمی سے کہا،
“بس دور بدلتے ہیں، نام بدل جاتے ہیں… الفاظ کی جگہ نئے الفاظ آ جاتے ہیں۔ آج بھی کنیزیں ہیں، بس ہم انہیں ‘جی۔ایف’ کہہ کر بلاتے ہیں…”
“جی۔ایف؟ یعنی گرل فرینڈ؟”
عورت نے حیرت سے پوچھا۔
“ہاں… گرل فرینڈ۔ آج کے دور کی کنیز۔
کبھی دو تعریفی جملوں پر، کبھی کسی مہنگے کھانے پر، اور کبھی صرف تنہائی کا سہارا بن کر… بس چھو لی جاتیں ہیں۔
پھر جب تک دل چاہے، رکھی جاتی ہے۔
جب وہ سوال کرتی ہے — ‘میرا مقام کیا ہے؟’ —
تو یا تو تعلق ختم کر دیا جاتا ہے…
یا نکاح کر کے طلاق کی دھمکیاں دے دی جاتی ہیں۔”
” وہ تو… محبت ہوتی ہے… رشتہ…”
“محبت اگر احترام کے بغیر ہو، تو وہ رشتہ نہیں ہوتا… سودا ہوتا ہے۔
اور کنیز…
کبھی اپنی مرضی سے محل میں نہیں آتی تھی۔ آج کے دور میں آتی ہیں —
خود چل کر، خواب دیکھ کر، خوابوں کی مارکیٹنگ سے مرعوب ہو کر…
اور باہر نکلنے کی ہمت نہیں رکھتی۔”
“بادشاہ کبھی کنیز سے نکاح نہیں کرتا تھا، جانتی ہو کیوں؟”
اس نے گردن ذرا جھکا کر کہا،
“کیونکہ نکاح، حیثیت دیتا ہے… اور حیثیت، طاقت چھین لیتی ہے۔
اور طاقت…
مرد کا آخری ہتھیار ہے۔”
عورت کی آنکھوں میں ایک سایہ لہرایا۔
“اور اگر کنیز… رانی بننے کا خواب دیکھ لے؟”
اس کی آواز دھیمی تھی، مگر اثر گہرا۔
لڑکے کی مسکراہٹ یکایک غائب ہو گئی۔
اُس کی آنکھوں میں لمحہ بھر کو ایک دھند سی چھا گئی تھی — کوئی یاد… کوئی خسارہ… کوئی وہ جو چلی گئی ہو۔
“پھر… پھر وہ اس دور میں جلا دی جاتی ہے۔
جیسے پچھلے دور میں بھی جلا دی جاتی تھی…
فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت آگ لکڑی سے جلائی جاتی تھی،
اور آج لفظوں، الزامات، اور خاموشیوں سے۔”
وہ اٹھا، سلوٹیں درست کیں، اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔
دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ رُکا۔
“تمہیں لگا محبت میں عزت ہوتی ہے؟”
اس نے سر جھکا کر کہا،
“محبت صرف تب تک قائم رہتی ہے، جب تک کنیز… کنیز بنی رہے۔
رانی بننے کی خواہش کرے، تو تخت بھی چھن جاتا ہے…
اور سر بھی۔”
یہ “داستانِ عشق” ہے…
مگر یہاں شہزادہ دیر سے آتا ہے،
اور جب آتا ہے…
تو سوال صرف یہ ہوتا ہے
کیا وہ بچ بھی پائے گا…؟ یا خود بھی بکھر جائے گا؟

🌑 داستانِ عشق

✍️ ایک ناول… جو آپ کا سکون چرا لے گا۔

📚 ……جلد آ رہا ہے

The first episode is coming on September 6th

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *