دلِ آشوب ♥
ازقلم مائدہ صفدر اعوان
انتساب:-
السلام علیکم، محترم قارئین!
امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے۔
“دلِ آشوب کی پہلی قسط کو آپ سب نے جتنا پیار دیا، اُس کے لیے دل سے شکریہ! یہ رہی دوسری قسط، پڑھنے کے بعد اپنی رائے کمنٹس میں ضرور دیں، میں بےچینی سے آپ کے فیڈبیک کا انتظار کروں گی۔”
_________________
” کیا کہا اُس نے؟ محبت کی راہوں میں فقط خاموشی چلی ہے…!”محبت میں اظہار کے لیے جگرہ چاہیے، الفاظ درکار ہوتے ہیں، آنکھوں میں سچائی، دل میں اخلاص… اور یہ سب کچھ اُس کے پاس تھا۔بارش آہستہ آہستہ تیز ہو رہی تھی، اور میرے قدم وہیں جم سے گئے تھے۔مجھے احساس ہوا کہ میں خود سے بہت بڑی زیادتی کر رہی ہوں۔ کیا میں ایک انسان کی معمولی سی غلطی بھی معاف نہیں کر سکتی؟مجھے سمر کی بات یاد آ گئی، اُس نے کہا تھا:”معاف کرنے والا سب سے بڑا ہوتا ہے!” میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حذیفہ وہیں کھڑا جوں کا توں مجھے تک رہا تھا۔ میں آگے بڑھی اور اُس کے سامنے جا کر رک گئی۔”I’m sorry، میں نے تمہیں غصے میں آ کر تھپڑ مارا۔”میں نے یہ بات اتنی آہستگی سے کہی کہ رافعہ کو سمجھ بھی نہ آئی کہ میں نے کیا کہا۔”میں نے بھی تمہیں معاف کیا۔” بس اتنا کہہ کر میں واپس مڑ گئی اور تیزی سے قدم بڑھانے لگی۔مگر اچانک جب میں نے پیچھے دیکھا… تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔وہ پاگل لڑکا، اس تیز بارش میں، بچوں کی سی اُچھل کود کرتا، عجیب و غریب حرکات کر رہا تھا۔ خوشی سے بےقابو ہو کر وہ دیوانہ لڑکا اِدھر اُدھر ناچ رہا تھا، راہ چلتے بچوں کو اٹھا اٹھا کر گول گول گھما رہا تھا۔ میں اُسے ایک طرف کھڑے ہو کر غور سے دیکھ رہی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے اُس کے چہرے پر جو سنجیدگی اور شرمندگی کے آثار تھے، وہ کہیں اُڑن چھو ہو چکے تھے۔ اُس کی یہ شرارتیں مجھے ہنسنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ لیکن رافعہ کو خاصی بیزاری محسوس ہوئی۔ “باجی، یہ حذیفہ بھائی میں نارمل انسانوں والی کوئی خوبی ہے بھی یا نہیں؟ مجھے تو پورے کے پورے پاگل لگتے ہیں!”رافعہ نے عجیب سی شکل بنائی۔ “میں تو جا رہی ہوں باجی، آپ نے دیکھنا ہے یہ سرکس شو تو دیکھ لیں، میں تو چلی!” یہ کہہ کر وہ کچھ اس انداز میں غائب ہوئی کہ میرا دھیان ہی نہ گیا۔اور میں… میں تو پلکیں جھپکائے بغیر حذیفہ کو دیکھ رہی تھی… کہ کب یہ بے دھیانی میں پھسلے گا، اور میرے کلیجے کو ٹھنڈ پڑے گی… مگر اب…اُس کی یہ بچگانہ حرکتیں،مجھے بُری نہیں لگ رہی تھیں۔میرے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آ گئی۔ وہ مجھے مسکراتا دیکھ کر میرے قریب آیا، اور بولا:”دیکھو… چڑیل رانی… پہلے تم ناراض ہوئیں، پھر میں مناتا گیا، اور تم مانتی گئیں…اب اگر میں اپنی محبت کا اظہار نہ کروں… تو مجھ سے بڑا بےوقوف کوئی نہ ہو گا۔”میں دونوں بازو باندھ کر اُس کی باتیں سنتی رہی…”سنو…” “شاید تم نے اس جذبے کو پہلے ہی محسوس کر لیا ہو، لیکن آج، میں خود اپنے لبوں سے وہ بات کہنے جا رہا ہوں، جو مدتوں سے میرے دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے…””مجھے تم سے محبت ہے۔ وہ محبت جو دن کے ہنگاموں میں بھی صرف تمھارا نام سننا چاہتی ہے، اور رات کی خاموشی میں صرف تمہارے ہی تصور میں کھوئی رہتی ہے۔میں چاہتا ہوں کہ تم میری زندگی کا وہ سب سے حسین اور روشن پہلو بن جاؤ، جو ہر اندھیرے میں روشنی کی مانند چمکے، ہر تھکن میں سکون بن جائے۔تمھاری ہنسی، تمھاری باتیں، حتیٰ کہ تمھاری خاموشی تک مجھے اپنی سی لگتی ہے، جیسے میری روح میں پیوست ہو گئی ہو۔ آج میں خود کو تمھارے سامنے رکھ رہا ہوں — بغیر کسی نقاب کے، بغیر کسی دعوے یا لبادے کے۔ صرف سچائی کے ساتھ، فقط دل کی زبان میں۔میں چاہتا ہوں کہ تم جانو … کہ تم ہی میری پہلی اور آخری محبت ہو۔کیا تم میری زندگی بننا قبول کرو گی؟ کیا تم مجھے اس محبت کے ساتھ، تمام تر خامیوں اور سچائیوں سمیت، قبول کرو گی؟” میں ایک دھیمی، شرمیلی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے آہستگی سے پلٹ گئی۔ وہ وہیں کھڑا، میرے جواب کے انتظار میں، امیدوں بھری نگاہوں سے میری جانب تک رہا تھا۔ سچ کہوں تو اُس کی جرأت کو داد دینا پڑے گی۔
کاش… کاش مجھ میں بھی اتنی ہمت ہوتی کہ میں بھی یوں بے باکی سے اپنی محبت کا اعتراف کر پاتی—بِن جھجک، بِن ڈر کے۔مگر میرے پاس الفاظ نہیں تھے، جذبات تھے مگر زبان گونگی ہو گئی تھی۔ سو میں بغیر کچھ کہے، چپ چاپ پلٹ گئی۔ ہولے ہولے قدم بڑھاتی ہوئی اُس راہ پر چلنے لگی جہاں میرا دل ہلکا ہوتا جاتا تھا، اور ذہن بھاری۔بارش اب تھم چکی تھی۔ لیکن اُس کی جگہ تیز ہوا نے لے لی تھی، جو اب اپنی شرارتوں سے فضا میں جادو بکھیرنے لگی تھی۔”ارے او میری کترینا! میری عالیہ! میری انوشکا! یوں مت جاؤ، کم از کم کوئی جواب تو دیتی جاؤ!” اُس کی آواز ہوا میں تیرتی ہوئی میرے پیچھے آتی رہی۔”ارے… ادھر تو دیکھو !” میں نے بنا پیچھے دیکھے، اپنے قدموں کی رفتار تیز کر دی۔ پھر باقاعدہ دوڑنے لگی۔ اس سے پہلے کہ اُس کی کوئی اور بےتُکی بات میرے کانوں تک پہنچے، میں وہاں سے چھپک کر نکل گئی۔گھر پہنچی تو سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ جسم پر جیسے سکت باقی نہ رہی ہو۔ چکر سا محسوس ہوا تو پاس رکھی کرسی پر لڑکھڑا کر بیٹھ گئی۔ بےاختیار سی کیفیت طاری ہو چکی تھی، جیسے ہوش و حواس لمحہ بھر کو میرا ساتھ چھوڑ چکے ہوں۔ سامنے بیٹھا ہوا وہ شخص، میری حالت دیکھ کر فوراً متوجہ ہوا۔ کرسی گھسیٹ کر میرے قریب آ بیٹھا۔”تم ٹھیک ہو؟” اُس نے نرمی اور پریشانی سے پوچھا — وہ سمر تھا۔”ہاں… ہاں میں ٹھیک ہوں۔” میں ابھی بھی لمبے لمبے سانسیں لے رہی تھی، جیسے جان میں جان آ رہی ہو۔”تم بھاگ کر آئی ہو کیا؟ اور یہ حالت؟ کہی گلی کے کتے تو پیچھے نہیں لگ گئے؟””نہیں… ایک ہی کافی تھا!” میں ہنستے ہوئے بولی۔”کیا مطلب؟” وہ میری بات کا مفہوم سمجھ نہ سکا۔”کچھ نہیں۔”میں مسکرا کر بولی۔”میں کمرے میں جا رہی ہوں، شام کو ملاقات ہو گی۔”میں اٹھ کھڑی ہوئی اور تھوڑا لنگڑاتے ہوئے اندر کی طرف چل دی۔ وہ کندھے اچکا کر پھر اپنے کام میں مگن ہو گیا۔ میں کمرے میں آئی تو ہونٹوں پر اک عجیب سی مسکراہٹ رقصاں تھی، جو کافی دیر تک میرا تعاقب کرتی رہی۔”پاگل!” میں نے سر جھٹکتے ہوئے خود سے کہا اور کپڑے بدلنے کے لیے واش روم کا رخ کیا۔کچھ دیر بعد جب میں واپس آئی تو رافیہ بیڈ پر چوکڑی مارے بیٹھی تھی۔ ایک بازو کی کہنی اپنے گھٹنے پر ٹکائے، اُس کی نظریں واش روم کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں — گویا وہ میرے باہر آنے کا ہی انتظار کر رہی ہو۔”تُم… تم کب آئیں؟”میں نے تھوڑا ہڑبڑا کر پوچھا۔”بس تھوڑی دیر ہوئی ہے!” وہ اچھل کر میرے قریب آ گئی۔”باجی! بتائیں نا، کیا ہوا؟” وہ شرارت بھری نگاہوں سے پوچھنے لگی۔میں اُسے اپنے ساتھ بیڈ پر لے آئی۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہو کر بیٹھ گئیں۔”بتائیں بھی باجی! آخر اتنی خوشی کی وجہ کیا ہے؟” رافعہ نے تجسس بھری نظروں سے پوچھا۔”اُس نے… مجھے…”میں کچھ جھجھکنے لگی۔”کیا؟”رافعہ نے بےقراری سے پوچھا۔”رافعہ… حُذَیفہ نے مجھے پرپوز کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔”میں نے آہستگی اور اطمینان سے اُسے پوری بات بتا دی۔”واقعی؟” رافعہ کو حیرت کا جھٹکا سا لگا۔”ہاں، واقعی میں!””اور آپ؟ کیا آپ بھی حذیفہ بھائی سے…؟” اُس نے میری رضامندی جاننے کی کوشش کی۔”ہاں… شاید میں بھی… کہیں نہ کہیں اُسے چاہنے لگی ہوں۔””سچ؟… مطلب پلان کامیاب ہو گیا! ہاہاہا!” رافعہ نے جوش و خروش سے قہقہہ لگایا۔”کیا مطلب؟ کون سا پلان؟” میں نے اُسے حیرت سے دیکھا۔
“حذیفہ بھائی نے ہی پلان بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو کسی بہانے سے گھر سے باہر لے جاؤں، تاکہ وہ آپ سے اپنے دل کی بات کر سکیں۔” وہ خوشی سے بولی، جیسے کسی عظیم کارنامے کی تکمیل کا اعلان کر رہی ہو۔”اچھااااا… تو چالاکو ماسی! تم بھی اُس لنگور کے ساتھ ملی ہوئی تھیں؟”میں نے اُس کے سر پر ہلکی سی چپت لگا دی۔”ہاہاہا! بس دیکھ لیں، میری وجہ سے ہی تو یہ ممکن ہوا! اگر میں نہ مانتی، تو آپ دونوں کی خاموش محبت کا راز کب افشا ہوتا؟ ہاہاہاہا!”وہ مزے سے بول رہی تھی — اور میں اُس کی باتوں پر کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔اور باہر کھڑا ایک شخص، جیسے اپنے وجود سے روح نکلتی محسوس کر رہا تھا۔ اُس کے قدم اب کمزور پڑ چکے تھے، اور آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔ وہ پہلے بھی خاموش تھا، مگر اب جیسے زندگی نے اُسے مزید خاموش کر دیا تھا۔”ہائے افسوس! کاش میرے کان یہ سب نہ سنتے…””کاش میرا دل اس بات سے انجان ہی رہتا…””ہائے افسوس، صد افسوس!”سمر کا دل چاہا کہ وہ اپنا ہاتھ دیوار پر دے مارے، زور سے… اتنا کہ کوئی زخم رہ جائے، کوئی درد، جو اندر کے سناٹے سے توجہ ہٹا سکے۔ مگر اُس کا جسم تو اب بے جان ہو چکا تھا۔ اُس میں یہ سکت بھی باقی نہ رہی تھی کہ وہ خود کو کوئی نقصان پہنچا پاتا۔وہ، نڈھال قدموں کے سہارے اُٹھا… اور آہستہ آہستہ، جیسے روح گھسیٹتا ہوا، اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی، بستر کے قریب زمین پر گرا، سر ٹکا کر بیٹھ گیا۔کہتے ہیں ہر چیز کی ایک انتہا ہوتی ہے۔ تو پھر یہ محبت کسی کے لیے بے انتہا کیوں ہوتی ہے؟ اب اُس کی آنکھوں سے باقاعدہ آنسو چھلکنے لگے تھے، جو اُس کی قمیض میں جذب ہو رہے تھے۔ وہ بس یہی چاہتا تھا… “کاش وہ آ جائے، چپکے سے… بس اتنا کہہ دے…”مجھے تم سے ہی محبت ہے، سمر…”وہ دروازے کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا۔ دل میں امید کا دیا جھلملایا… شاید وہ آ جائے؟ مگر وہ کیوں آتی؟ اُسے تو چھین لیا گیا، ایک ہی پل میں کسی نے اُسے اُس سے جدا کر دیا تھا۔ اور وہ… وہ ایک لمحے میں سب کچھ کھو بیٹھا تھا۔”تیرے بغیر میری دنیا سنسان ہو گئی…””پر تُو میری حالت سے انجان ہو گئی…”باہر بارش زور و شور سے برس رہی تھی، اور اندر ایک وجود، دبی دبی سسکیوں کے ساتھ آنسو بہا رہا تھا۔ وہ کچھ پل یونہی نڈھال بیٹھا رہا، جیسے خود سے ہار چکا ہو۔اور پھر… اُسی حال میں، اُس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔صبح کے وقت میں دو تین بار سمر کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا چکی تھی، مگر اندر سے کوئی آہٹ تک نہ آئی۔ مجھے حیرت ہوئی—پہلے تو وہ کبھی اتنی دیر تک نہیں سوتا تھا۔ آخرکار، میں خود ہی ناشتے کی میز تک آ گئی۔خالہ نے جب سمر کے متعلق پوچھا تو میں نے کہا،”وہ سو رہا ہے۔”خالہ بھی چونکیں، جیسے بات ان کے لیے بھی غیر معمولی ہو۔اس بار خالہ خود اُس کے کمرے تک گئیں۔ سمر نے دروازہ کھولا،بال بکھرے ہوئے، آنکھوں کے کناروں پر آنسوؤں کی خشک لکیر سی ابھری ہوئی، چہرے پر تھکن کی ایک گہری تہہ۔ سمر دروازہ کھول کر فوراً پلٹ کر اپنے بستر پر بیٹھ گیا۔”سمر، کیا ہوا ہے؟ یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے؟ تمہیں پتہ ہے ناشتے کا وقت ہو چکا ہے” خالہ نے اُس کی بکھری حالت کو دیکھ کر ناراضی سے پوچھا۔”امی، میرا دل نہیں ہے ناشتے کا… براہِ مہربانی، مجھے ڈسٹرب مت کریں۔”سمر نے بیزاری سے جواب دیا۔”ہاں، لیکن ہوا کیا ہے؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟” خالہ نے پریشانی سے اُس کا ماتھا چھوا۔”تمہیں تو بخار ہے! اللہ خیر کرے…” خالہ کو یکایک تشویش نے گھیر لیا۔”میرا بچہ، ناشتہ کرلو، پھر اسپتال چلتے ہیں۔” خالہ نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے نرمی سے کہا۔”نہیں امی، ابھی مجھے بھوک نہیں ہے۔””ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ بخار ہے، کہیں اور نہ بڑھ جائے. بخار.. چلو، شاباش، میرا بچہ، اُٹھو، آؤ ناشتہ کرو، پھر دوا لے لینا۔” یہ کہتے ہوئے خالہ کمرے سے چلی گئیں۔البتہ، میں وہیں دروازے کے قریب کھڑی، اُسے یوں بیٹھے ہوئے دیکھتی رہی۔اچانک اُس نے سر اُٹھا کر میری جانب دیکھا، تو میں نظریں چراتی ہوئی باہر نکل آئی۔مجھے کیا معلوم تھا کہ ایک رات میں سمر کی یہ حالت ہو جائے گی…
وہ پہلے سے کہیں زیادہ کمزور لگ رہا تھا، جیسے دل کی زمین بنجر ہو چکی ہو۔ پہلے کی طرح اس نے باتیں کرنا چھوڑ دیں تھی، کچھ دنوں سے وہ سٹڈی بھی نہیں جارہا تھا۔شام کو جب میں اُسے چائے کے لیے بلانے اُس کے کمرے میں گئی، تو کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔کھڑکیاں بند تھیں… نہ باہر سے کوئی روشنی اندر آ رہی تھی، نہ ہی اُس نے کوئی لائٹ جلا رکھی تھی۔میں سوئچ بورڈ ڈھونڈنے لگی تاکہ لائٹ جلا سکوں، کہ اچانک میرا پاؤں وہاں رکھے صوفے کے پائے سے ٹکرا گیا۔ درد کی تیز لہر اٹھی، میری انگلی کا ناخن چٹخ گیا، اور انگلی زخمی ہو گئی۔میں کراہ اُٹھی… میری آواز سن کر سمر جاگ گیا۔”کون ہے؟”سمر نے گھبرا کر پوچھا۔”میں ہوں، سمر… رشنا ” وہ اٹھا اور لائٹ آن کی۔”یہ کیسے ہوا ؟” وہ میرے زخم کو دیکھ کر چونکا۔”اندھیرا تھا، نظر نہیں آیا۔” میں نے تکلیف میں کہا۔”اچھا رُکو۔” وہ اٹھا اور دراز سے فرسٹ ایڈ باکس نکالا، اُس میں سے پالیفیکس نکال کر میری زخمی انگلی پر لگایا۔ پھر اٹھ کر فرسٹ ایڈ باکس کو واپس اُس کی جگہ پر رکھ آیا۔”چائے کے لیے بلانے آئی تھی تمہیں، آؤ ساتھ بیٹھ کر پی لیتے ہیں۔””نہیں، میرا موڈ نہیں ہے، تم لوگ پی لو۔” وہ کہتے ہوئے دوبارہ اپنے بستر پر لیٹ گیا۔”کیا ہوا ہے تمہیں؟ اچانک… کل تک تو سب ٹھیک تھا؟”میں نے اُس کی حالت دیکھ کر پریشانی سے پوچھا۔”لائٹ آف کر دو۔ جب میری طبیعت ٹھیک ہو گی، تو خود آ جاؤں گا باہر… پلیز، تم بار بار میرے کمرے میں مت آنا۔”اُس کا یہ لہجہ میرے لیے بالکل نیا اور اجنبی تھا۔میں کچھ نہ سمجھ پائی—وہ مجھ سے اس طرح بات کیوں کر رہا تھا؟ پہلے تو اُس نے کبھی مجھے آنے سے نہیں روکا تھا، تو اب کیوں؟”ٹھیک ہے… نہیں آؤں گی اب!” میں خاموشی سے پلٹی اور کمرے سے نکل آئی۔کچھ ٹوٹ کر بکھرا تھا میرے اندر… شاید دل! میں لان میں آ گئی، وہاں خالہ اور رافعہ بیٹھی تھیں۔”کیا ہوا؟” خالہ نے مجھے تنہا آتے دیکھ کر فوراً پوچھا۔”جی، وہ سو رہا ہے۔ طبیعت ٹھیک ہو گی تو خود آ جائے گا…” میں کہتی ہوئی اُن کے پاس بیٹھ گئی۔ مگر اب میرے دل سے بھی چائے کی طلب رخصت ہو چکی تھی۔بس دو چار گھونٹ لیے اور چپ چاپ واپس اپنے کمرے کی طرف لوٹ آئی۔اچانک میرے موبائل پر ایک اجنبی نمبر سے کال موصول ہوئی۔ پہلے پہل تو میں نے کال منقطع کر دی، مگر جب دوبارہ کال آئی تو مجھے مجبوراً اٹھانا پڑی۔”السلام علیکم!”دوسری طرف سے وہ آواز سنائی دی جو میں بخوبی پہچان سکتی تھی، لیکن ظاہر ہے، تھوڑی سی اداکاری بھی تو ضروری تھی۔”وعلیکم السلام… جی کون؟” میں نے ایک آنکھ دبا کر شرارت بھرے انداز میں جواب دیا۔”محترمہ! بڑی جلدی بھول گئیں آپ مجھے!” وہ بھی خاصا چالاک تھا، فوراً اندازہ لگا چکا تھا کہ میں محض مذاق کر رہی ہوں۔”میرا نمبر تمھارے پاس کیسے آیا ؟” میں نے شک بھرے انداز میں دریافت کیا۔”میرے لیے یہ بالکل مشکل نہیں تھا، تمھارا نمبر حاصل کرنا۔” اُس نے ایسے کہا جیسے کسی کا نمبر لینا بچوں کا کھیل ہو۔”اف یہ رافعہ بھی نہ ” میں نے دل ہی دل میں رافعہ کو کوسا”۔”تم نے اُس روز کوئی جواب نہ دیا، تو سوچا خود ہی کال کرکے پوچھ لوں۔ اس دن تم شرما کر بھاگ جو گئ تھی .. اس لیے اب تو بتا دو؟””کیا بتاؤں؟” میں نے ایک بار پھر کمال کی اداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصومیت سے کہا۔”ارے بی بی! اس صورتحال میں تم سے نیوٹن کے قوانینِ تو پوچھنے سے رہا… اور ایک بات بتاؤ، اتنا شرما کیوں رہی ہو؟ میرے نرم و نازک گال پر سب کے سامنے تھپڑ رسید کرنے میں تو تمہیں کوئی شرم محسوس نہ ہوئی تھی۔ ناراض تو مجھے ہونا چاہیے تھا، اور منانے کی ذمہ داری تم پر عائد ہوتی تھی۔ خیر… کیا فرق پڑتا ہے؟ اب تو یہ بتا دو کہ ماں جی کو کب بھیجوں تمہارے گھر؟”وہ نہایت ہی دل جلے انداز میں گویا ہوا۔”ہمم… بتا دوں گی بعد میں۔ فی الحال یہ میری خالہ کا گھر ہے، اور میرے والدین اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ اس لیے پہلے مجھے اُن سے مشورہ کرنا ہوگا، پھر ہی کوئی جواب دے سکوں گی۔” میں نے کچھ توقف کے بعد سنجیدگی سے کہا۔
“یعنی انتظار کی گھڑیاں مزید طویل ہو گئیں۔” اس نے ایک ہاتھ سر کے پیچھے رکھ کر بیزاری سے آہ بھری۔”جی بالکل… اور اب بار بار مجھے کال نہ کرنا، اللہ حافظ!” یہ کہتے ہوئے میں نے کال منقطع کر دی اور موبائل ایک طرف رکھ دیا۔اچانک میرے ذہن میں سمر کا خیال آیا۔ اس کا بدلا ہوا رویہ، وہ سرد مہری… سب کچھ میری فکرمندی میں اضافہ کر رہا تھا۔ آنے والے مہینے میں مجھے واپس جانا تھا، اور میں چاہتی تھی کہ اس محدود وقت میں سمر اور رافعہ کے ساتھ کھل کر لطف اندوز ہو سکوں… کیونکہ واپسی کے بعد ایک بار پھر امّاں کے وہی پرانے طعنے میرے منتظر تھے۔ میں دبے پاؤں سمر کے کمرے کے دروازے تک پہنچی، مگر اندر داخل ہونے کی ہمت نہ کر سکی۔ ڈر تھا کہ کہیں میرا یونہی آ جانا اُسے مزید خفا نہ کر دے۔چند لمحے تذبذب میں گزارنے کے بعد میں نے رافعہ سے کہا،”سنو، سمر کو باہر بلا لو، مل کر لُڈو کھیلتے ہیں۔”رافیہ خوشی خوشی گئی، مگر تھوڑی دیر بعد مایوس لوٹی۔ “بھائی نے کمرہ بند کر رکھا ہے… اور کوئی آواز بھی نہیں آ رہی۔” اُس کے چہرے پر مایوسی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات تھے۔”ہممم… تو میرے پاس ایک منصوبہ ہے ۔” میں نے شرارت سے اپنی شہادت کی انگلی کنپٹی پر رکھتے ہوئے کہا۔”سمر کی من پسند کچوریاں!” اچانک میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کی مانند کوندا۔آلو اور قیمے کی کچوریاں سمر کو بے حد پسند تھیں۔ ہم دونوں نے فوراً باورچی خانے کا رخ کیا۔ سب سے پہلے ہم نے میدہ گوندھا۔ میں نے آلو کا مصالحہ تیار کیا اور رافعہ نے فریج سے قیمہ نکال کر رکھ دیا۔ پھر اُس نے مہارت سے میدے کی چھوٹی چھوٹی گول گول روٹیاں بیلیں۔ میں اُن میں مصالحہ بھرتی گئی اور کچوریاں بند کر کے اُنہیں ایک پُوٹلی کی شکل دیتی گئی۔ دوسری طرف، ایک پتیلے میں گھی گرم کیا۔ اس میں قیمہ، ادرک، لہسن، کالی مرچ، لال مرچ شامل کر کے کچھ دیر بھونا، پھر اُسے ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھ دیا۔ جب تک قیمہ ٹھنڈا ہوتا، رافعہ آلو کی کچوریاں تل تل کر رکھتی گئی۔ میں نے قیمے میں ہرا دھنیا اور زیرہ شامل کیا، خوب بھونا، پھر اُسے بھی روٹیوں میں بھرا اور آلو والی کچوریوں کی مانند بند کر دیا۔ جب سب تیار ہو گیا تو ہم نے تمام کچوریاں تل کر ایک پلیٹ میں رکھیں اور ساتھ چائے بھی بنا لی۔کچھ کچوریاں خالہ جان کو دینا تھیں، باقی ہم سمر کے کمرے کے دروازے تک لے گئے — امید تھی کہ شاید کچوریوں کی خوشبو ہی اُسے باہر کھینچ لائے۔میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ دوسری مرتبہ میں نے دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو دروازہ دھیرے سے کھل گیا۔ سمر نے ہمیں اوپر سے نیچے تک دیکھا، نگاہ میں ایک لمحے کو ٹھہراؤ آیا، پھر اُس نے میرے ہاتھ سے پلیٹ لی، ہولے سے “تھینک یو” کہا، اور ایک جھٹکے سے دروازہ بند کر دیا۔ میں اُس کی اس حرکت پر گنگ رہ گئی۔”بھائی کو کیا ہو گیا ہے؟ وہ ایسا رویہ کیوں اختیار کر رہے ہیں؟”رافعہ منہ بناتے ہوئے گویا ہوئی، “اتنے پیار سے بنائی تھیں… ہمیں بھی صلح مار لیتے۔” “کوئی بات نہیں… شکر ہے، میرے ہاتھ کی کچوریاں تو قبول کیں۔”میں نے قدرے سکون سے کہا۔”ہاں، کیسے نہ کرتے؟ اُن کی پسندیدہ جو تھیں۔ موڈ جیسا بھی ہو، کچوریوں پر کوئی سمجھوتا نہیں۔” رافعہ کی بات پر میں بےاختیار ہنس پڑی،لیکن دل کے کسی کونے میں اُس کی فکر ابھی بھی تھی۔دن یوں ہی گزرتے چلے گئے، مگر میں سمر کی خفگی اور ناراضگی کی اصل وجہ جاننے سے قاصر رہی۔ کئی بار میں نے اُس سے پوچھا کہ آخر کس بات پر ناراض ہے، لیکن وہ ہر بار یہی کہہ کر بات ٹال دیتا کہ طبیعت کی ناسازی کے سبب چڑچڑا پن محسوس ہو رہا ہے۔ سچ کہوں تو، یہ پہلا موقع تھا جب وہ مجھ سے اس طرح روٹھا ہو اور میں اُس کے ناراض ہونے کی وجہ نہ جان سکی ہوں۔خیر، میں نے واپسی کے لیے تیاری شروع کی۔ چونکہ میں یہاں زیادہ سامان لے کر نہیں آئی تھی، ایک چھوٹا سا بیگ اور ایک ہینڈ بیگ ہی کافی تھا۔ میں نے اپنا سامان ترتیب دیا اور خالہ کے کمرے کی جانب رخ کیا۔ وہ اپنے سر کی مالش کر رہی تھیں۔ میں اندر داخل ہوئی اور اُن کے ہاتھ سے تیل کی بوتل لے کر خود اُن کے سر کی مالش کرنے لگی۔”خالہ، یہ سمر کو کیا ہو گیا ہے؟ بہت اُکھڑا اُکھڑا سا لگ رہا ہے۔ سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا۔” میں نے تیل لگاتے ہوئے نرمی سے دریافت کیا۔خالہ نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، “پتہ نہیں بیٹا، میں خود پریشان ہوں کہ اچانک اسے کیا ہو گیا ہے۔””خالہ، آپ خود اُس سے پیار سے پوچھیں، آپ سے تو بتا دے گا کہ آخر بات کیا ہے۔”میں نے بوتل کا ڈھکن بند کرتے ہوئے نرمی سے کہا اور بوتل میز پر رکھ دی۔”ہاں، میں بات کروں گی اُس سے…” خالہ نے ہولے سے سر ہلایا،پھر پوچھا، “تم نے کب جانا ہے واپس؟””پرسوں چلی جاؤں گی۔ ابھی کچھ سامان بیگ میں رکھ لیا ہے، باقی کل رکھوں گی۔” میں نے جواب دیا۔”ٹھیک ہے بیٹا، اب تم آرام کرو، تھک گئی ہوگی۔” خالہ نے اُٹھتے ہوئے کہا۔میں بھی اُٹھی اور اپنے کمرے میں چلی آئی۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، چنانچہ سوچا ابا کو کال کر کے اطلاع دے دوں کہ پرسوں صبح واپسی کا ارادہ ہے۔ کال ملاتے ہی اُن سے باتوں میں ایسی مشغول ہوئی کہ وقت کا احساس ہی نہ رہا۔
صبح حسبِ معمول میں تازہ ہوا لینے چھت پر چلی گئی۔ صبح کی ٹھنڈی ہوا اور چڑیوں کی چہچہاہٹ نے ذہن کو کچھ راحت بخشی۔ سامنے والے مکان کی چھت پر نظر گئی تو وہاں کوئی شخص پنکھے کے سامنے کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھنے میں مشغول تھا، ساتھ ہی میز پر چائے کا بھاپ اُڑاتا ہوا کپ رکھا تھا۔ اُس شخص نے جیسے ہی اخبار کا کونہ پلٹا، اُس کی نظر مجھ پر پڑی۔ وہ شیراز بھائی تھے، حُذیفہ کے بڑے بھائی، جن کی حال ہی میں شادی ہوئی تھی۔ اُنہوں نے مجھے دیکھتے ہی اخبار میز پر رکھا، چائے کا کپ اُٹھایا اور نیچے چلے گئے۔ میں نے کندھے اُچکائے اور دوبارہ موسم کے مزے لینے لگی۔”امی… امی… میری پیاری امی… نرالی امی، دنیا کی سب سے اچھی امی…” یہ حُذیفہ تھا، جو کچن میں کام کرتی فریدہ بیگم کے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا اور اب تعریف و توصیف کے کلمات سے اُنہیں اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔فریدہ بیگم نے مڑ کر اپنے لعل کو دیکھا اور جھنجھلا کر بولیں، “اب کیا کام پڑ گیا؟ دیکھ بھی رہا ہے کہ کچن میں مصروف ہوں۔””ارے میری پیاری امی جان، آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ چلیے نا کمرے میں۔” وہ اُن کا ہاتھ تھام کر لے جانے لگا۔”اچھا اچھا، صبر کر! پہلے گیس تو بند کرنے دے۔” فریدہ بیگم نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور گیس کا والو بند کیا۔ پھر وہ کمرے میں آئے، پیچھے پیچھے فریدہ بیگم۔”بول، کیا بات ہے؟” فریدہ بیگم نے تھکے تھکے انداز میں پوچھا۔”ارے امی جان، پہلے بیٹھیں تو سہی ” اُس نے اپنی والدہ کو محبت سے کندھے سے پکڑ کر بٹھایا اور خود بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔”امی، مجھے آپ کی بہو مل گئی!” حُذیفہ نے جوش سے کہا۔”ایک کھینچ کے اُلٹے ہاتھ کی دے ماروں گی” فریدہ بیگم نے ہاتھ اُٹھا کر پیچھے لے جاتے ہوئے دھمکایا۔”امی… امی کنٹرول! میرا مطلب یہ ہے کہ مجھے ایک لڑکی پسند آ گئی ہے۔ اور وہ لڑکی آپ کے بیٹے کو اپنا دیوانہ بنا چکی ہے۔ بولیے تو بس اُسی کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔””لگتا ہے بہت دن ہو گئے ہیں میرے ہاتھ کے چمٹے کی مار کھائے ہوئے، رُک ذرا…” فریدہ بیگم نے تیور بدلے۔”امی… امی… میری پیاری امی، کیا ہر وقت آپ کے اندر ہٹلر کی رُوح سما جاتی ہے؟ میری بات تو سُنیں۔””بالکل نہیں! اِس سے آگے ایک لفظ مت بول۔ پہلے میری بات کا جواب دے”فریدہ بیگم نے انگلی اُٹھا کر اُسے خاموش رہنے کا اشارہ دیا۔”کون ہے وہ لڑکی؟””ہاں! ویری گڈ کوئسچن!” حُذیفہ نے خوشی سے کہا۔”امی، اُس لڑکی کو آپ بھی جانتی ہیں۔ بلکہ سب جانتے ہیں۔””ہیں؟ میں جانتی ہوں؟” فریدہ بیگم حیرت میں پڑ گئیں۔”ہاں امی! آپ بالکل اُسی کے ٹکر کی ہیں۔” اُس نے شوخی سے جواب دیا۔”اچھا؟ لیکن ہے کون وہ؟””رشنا ہے وہ” حُذیفہ نے آنکھیں مٹکا کر جواب دیا۔”ہرگز نہیں!” اصل ہٹلر کی روح تو اب فریدہ بیگم میں اُتری تھی۔”میں کہہ رہی ہوں حُذیفہ، اِس چڑیل نے تجھ پر کوئی جادو کیا ہے، ارے بھول گیا کیسے سب کے سامنے تھپڑ مارا تھا تجھے؟ حد ہو گئی! یہ لڑکی تو میری سوچ سے بھی زیادہ چلاک نکلی۔ خبر دار، حُذیفہ! دُور رہ اُس لڑکی سے۔ میں بتا رہی ہوں، بہت چالاک ہے وہ۔” فریدہ بیگم نے خشمگین نگاہوں سے اُسے گھورا۔”ارے امی! اُس وقت جو کچھ بھی ہوا وہ میری غلطی تھی۔ اُس بیچاری کا کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ پٹاخے میں نے رکھے تھے، وہ تو ڈر گئی تھی۔””دیکھ حُذیفہ، اب اُس لڑکی کی طرفداری مت کر۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں ایسی لڑکیوں کو۔ میں جیتے جی اُس کے گھر تیرا رشتہ لے کر نہیں جاؤں گی۔ میں نے کہہ دیا تو کہہ دیا۔” (فریدہ بیگم نے دونوں ہاتھ جوڑ کر گویا قصّے کو نمٹا دیا۔)
“کیسی ماں ہیں آپ؟ اپنے بیٹے کی خوشی میں خوش نہیں ہو سکتیں؟ اور سُن لیں، میں بھی رشنا کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گا۔” حُذیفہ نے بھی گویا پتھر پر رشنا کا نام لکھ دیا، جسے اب کوئی بھی مٹا نہیں سکتا تھا۔”ایک چھٹانک بھر کی لڑکی کے لیے تُو اپنی ماں سے بغاوت پر اُتر آیا ہے؟ چل، میں بھی دیکھتی ہوں کہ کیسے کرتا ہے تُو اُس چڑیل سے شادی۔” فریدہ بیگم بھی جم گئیں۔یوں ماں بیٹے کے درمیان اعلانِ جنگ ہو چکا تھا…حُذیفہ بمقابلہ فریدہ بیگمناظرین! آج کی تازہ خبر: ایک نادان لڑکا جو ایک چھٹانک بھر کی لڑکی کی محبت میں مبتلا ہو گیا ہے… اور دوسری طرف اُس کی ماں، فریدہ بیگم، اپنے مشہورِ زمانہ چمٹے کے ساتھ میدان میں آ چکی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فتح کس کے حصے میں آتی ہے…خالہ جب سمر کے کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ حسبِ معمول لیپ ٹاپ کے سامنے خاموش بیٹھا تھا۔ خالہ کی آمد پر اس نے یکدم لیپ ٹاپ بند کیا اور ایک طرف رکھ دیا۔”کیسی طبیعت ہے میرے بیٹے کی؟” خالہ نے نرمی اور شفقت سے استفسار کیا۔”جی امی، کچھ بہتر ہے پہلے سے۔” سمر نے تکیے سے ٹیک لگاتے ہوئے مدھم لہجے میں کہا۔”چلو شکر ہے اللہ کا، طبیعت میں کچھ افاقہ ہوا۔ باہر موسم بہت خوشگوار ہے، آؤ چائے ساتھ پیتے ہیں۔” خالہ نے مسکراتے ہوئے تجویز دی۔”نہیں امی، میرا موڈ نہیں ہے۔””کیا بات ہے؟” سمر نے بیزاری سے کہا تو خالہ کی پیشانی پر فکرمندی کی لکیریں ابھریں۔”سارا دن تم نے کمرے میں گزار دیا ہے۔ کیا ہوا ہے تمہیں؟ کس بات سے ناراض ہو؟ پہلے بھی تمہاری طبیعت خراب ہوتی تھی لیکن کبھی اس طرح خود کو کمرے میں بند نہیں کیا۔”سمر خاموش رہا۔”سمر! میں تمہاری ماں ہوں، یہ مت سمجھنا کہ اگر تم نہ بتاؤ گے تو مجھے کچھ علم نہ ہوگا۔ جو کچھ تمہارے دل میں ہے، وہ سب کچھ میری نگاہوں سے چھپا نہیں۔ ماں اولاد کی ہر پریشانی کو بخوبی سمجھتی ہے۔ کب تک چھپاؤ گے اس اداسی کی وجہ کو؟”سمر نے نظریں پھیر لیں، جیسے ڈر ہو کہ کہیں ماں اس کی آنکھوں میں سچ نہ پڑھ لیں۔”کچھ نہیں ہوا امی، بس تھوڑا آرام کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے موضوع بدلنے یا شاید ساری بات ہی ختم کر دینے کی کوشش کی۔”آج میں وجہ جان کر ہی رہوں گی سمر۔ کیوں اپنا رویہ بدل رہے ہو؟ خود کو اذیت دے کر مجھے بھی پریشان کر رہے ہو۔”خالہ کا لہجہ سخت ہونے لگا۔”اپنی طبیعت سنبھالو، سمر۔ کل تمہیں رُشنا کو چھوڑنے جانا ہے۔””کہہ دیں وہ ڈرائیور کے ساتھ چلی جائے۔” سمر نے بے نیازی سے کہا۔”ڈرائیور کے ساتھ کیوں جائے گی؟ تم کیوں نہیں جاؤ گے؟” خالہ کا صبر جواب دے گیا۔”کیونکہ اب اُسے میری ضرورت نہیں ہے۔ “سمر نے جلدی سے کہا اور بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔”تم رُشنا سے ناراض ہو؟” خالہ نے اندازے سے پوچھا۔”ناراض؟” سمر کی ہنسی میں ایک عجیب سی اداسی چھپی تھی۔ “میں کون ہوتا ہوں ناراض ہونے والا؟””تمہارا رویہ بتا رہا ہے کہ تم ناراض ہو اُس سے۔ لیکن کس بات پر؟ میں اب تک سمجھ نہیں پائی۔ اب تم اپنی ماں سے باتیں بھی چھپاؤ گے؟”خالہ کی آواز تھوڑی بلند ہوگئی۔”مجھے معلوم ہے تم بچے نہیں رہے، لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ اب میں تمہاری منتیں کروں۔ سمر، بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے؟ کیوں اتنے خفا ہو؟ نہ مجھ سے بات کر رہے ہو نہ رُشنا سے۔ ایسے نہیں چلے گا بیٹا، رحم کرو اپنی بوڑھی ماں پر۔ نہیں دیکھ سکتی میں تمہیں اس حال میں۔”سمر نے پلٹ کر خالہ کی طرف دیکھا، اُن کے چہرے پر چھائے تاثرات نے اُسے بے چین کر دیا۔ وہ فوراً اُن کے قریب آیا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر بولا:”آپ وعدہ کریں کہ میرا ساتھ دیں گی؟””میرا بچہ، میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔” خالہ نے فوراً کہا۔”امی، مجھے… مجھے رُشنا اچھی لگتی ہے۔ میں اُسے پسند کرنے لگا ہوں، میرا مطلب ہے کہ میں اُسے پہلے سے ہی پسند کرتا آیا ہوں۔ آپ میرے لیے رُشنا کا ہاتھ مانگیں۔”خالہ نے یہ بات سنی تو خوشی سے اُن کا چہرہ کھِل اٹھا۔”ارے تو مجھے پہلے بتاتے نا! اور یہ کوئی بات ہوئی بھلا، جس کی وجہ سے تم نے یہ حال کر لیا اپنا؟ مجھے تو شروع سے ہی رُشنا اپنی بہو کے طور پر پسند تھی۔””اور اب تو وہ تمہاری پسند بھی ہے۔ ظاہر ہے، اپنے ہی گھر کی بچی ہے۔ بچپن سے تمہارے ساتھ پلی بڑھی ہے۔ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔””ہاں، لیکن رُشنا کو اعتراض ضرور ہے…” سمر کے لہجے میں دکھ جھلکنے لگا۔”رُشنا کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے بھلا؟” خالہ نے حیرانی سے پوچھا۔ “تمہاری بات ہوئی ہے اس سے اس سلسلے میں؟””نہیں، میری بات نہیں ہوئی، اور آپ بھی ابھی اس سے بات مت کیجیے گا۔ ویسے بھی وہ کل چلی جائے گی۔ کہیں آپ کی باتوں سے ناراض نہ ہو جائے۔” سمر نے فوراً روک دیا۔”ٹھیک ہے، میں ابھی کچھ نہیں کہوں گی۔ لیکن خدا کے واسطے اپنا حال درست کرو۔ تمہیں دیکھ کر مجھے کچھ ہو رہا ہے۔” خالہ یہ کہہ کر آہستگی سے کمرے سے باہر نکل گئیں۔شام کے قریب پانچ بجے میں اسلام آباد پہنچی تھی۔ گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے اپنے بھتیجے اور بھتیجی سے ملاقات کی، جو ہو بہو اپنی بھابھی پر گئے تھے۔ بھابھی سے مل کر بھی دل کو خاصی خوشی محسوس ہوئی۔ میں نے تو بھائی سے صاف کہہ دیا تھا کہ اِس بار دو تین مہینے سکون سے یہیں گزار لیں، مگر حسبِ معمول اُنہوں نے صرف “دیکھیں گے” کہہ کر بات کو ٹالنے کی کوشش کی۔ لیکن میں بھی اپنی بات پر اَٹل تھی۔ بھابھی سے علیحدگی میں بات کی کہ وہ بھائی کو منانے کی کوشش کریں۔ رات کو ہم سب نے مل کر باہر جانے کا پروگرام بنایا۔ کھانا بھی ہم نے باہر ہی کیا، اور کھانے کے بعد آئس کریم ۔ آج تو بھائی کی جیب مکمل طور پر خالی کروائی گئی، اور وہ بیچارہ صرف مسکرا کر رہ گیا۔ رات جب واپس گھر آئی تو اُلٹے پاؤں میں اس قدر درد تھا کہ زمین پر رکھنا بھی دوبھر ہو گیا۔ تھکن کا بھی شدید احساس ہو رہا تھا، چنانچہ کمرے میں جاتے ساتھ ہی لباس تبدیل کیا اور فوراً بستر پر جا گری۔ صبح ناشتے کی میز پر اماں نے بتایا کہ خالہ کی کال آئی تھی، وہ میرا پوچھ رہی تھیں۔ میں خاموشی سے سنتی رہی۔”تمھاری خالہ سمر کے لیے تمہارا ہاتھ مانگ رہی ہیں۔”اماں کی اِس بات نے مجھے گویا جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔اوپر سے، گرم گرم چائے نے میری زبان بھی جلا دی۔میں اماں کی طرف حیرت سے دیکھنے لگی۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ خالہ سمر کے لیے میرا رشتہ مانگ رہی ہیں جبکہ میں تو کسی اور کو اپنا ہمسفر بنانے کے خواب دیکھ رہی ہوں۔ میں اُٹھی اور آدھی چائے چھوڑ کر سیدھی اپنے کمرے میں آئی اور فوراً رافعہ کو کال ملائی۔”رافعہ کیسی ہو؟” سلام کے بعد میں نے پوچھا۔”میں ٹھیک ہوں باجی، آپ کیسی ہیں؟””میں بھی خیریت سے ہوں۔ ایک بات پوچھنی ہے۔””جی باجی، پوچھیں۔””کیا تم نے سمر کو میرے اور حذیفہ کے بارے میں کچھ بتایا؟”
“مجھے کچھ کہنے کی نوبت ہی نہ آئی باجی۔ اُس دن اُنہوں نے خود ہی ہماری گفتگو سن لی تھی۔” لیکن میں نے یہ بات نہیں بتائی اپ کو کہ اُنہوں نے سب کچھ سن لیا ہے…”رافعہ نے بےفکری سے گویا حیرانی کی انتہا کر دی تھی۔تو سمر سب کچھ جانتا تھا؟ تب بھی اُس نے رشتہ بھیجنے سے پہلے مجھ سے کوئی بات نہ کی، یہ تو بے حد عجیب تھا۔”یہ تو آپ بھائی سے پوچھیں…” رافعہ نے کندھے اچکاتے ہوئے لاپروائی سے جواب دیا۔میں نے فون بند کیا اور فوراً سمر کا نمبر ملایا، لیکن مسلسل مصروف جا رہا تھا۔”کہاں پھنس گئی ہوں میں…”میں خود سے بڑبڑانے لگی۔”سمر! یہ کیا کیا تم نے؟ اماں تو اب اِس رشتے سے پیچھے ہٹنے والی نہیں، اور اگر میں نے انکار کیا، تو خالہ یقینا ناراض ہو جائیں گی۔” “اور… اور حذیفہ؟””اُسے کیا کہوں گی میں؟’’یا اللہ، میرے لیے آسانی پیدا فرما… مجھے اس امتحان سے نکال دے…‘‘ میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ اچانک میرے فون کی سکرین پر ’سمر‘ کا نام جگمگایا۔ دل میں ایک مدھم سی امید نے جنم لیا۔ میں نے تیزی سے کال اٹھائی۔’’ہیلو، سمر؟‘‘’’ہیلو، کیسی ہو؟‘‘ اُس کی آواز میں عجیب سی نرمی تھی، جو میرے دل کے زخموں پر آہستہ آہستہ مرہم رکھ رہی تھی۔’’میں… میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسے ہو؟‘‘ میری آواز تھرّا رہی تھی، جیسے الفاظ دل سے نہیں، کسی گہرے دکھ کی تہہ سے نکل رہے ہوں۔’’میں بھی ٹھیک ہوں۔ بلکہ اب تو کافی بہتر محسوس کر رہا ہوں۔‘‘ اُس نے سادگی سے جواب دیا۔’’شکر ہے…‘‘ ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی۔ پھر میں نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا، ’’کیا میں تم سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں؟‘‘’’ضرور، پوچھو۔‘‘’’تمہیں سب کچھ معلوم تھا، پھر بھی تم نے خالہ سے میرے رشتے کی بات کیوں کی؟‘‘سمر نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا، ’’رشنا، میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ جو مجھے درست لگا، وہی قدم اٹھایا۔‘‘’’یہی تمہیں درست لگا؟ تمہیں میری پسند ناپسند کی کوئی پرواہ نہیں رہی؟‘‘ میں نے گلہ کرتے ہوئے سوال کیا۔’’تو کیا تم مجھے پسند نہیں کرتیں؟‘‘ وہ سوال داغ بیٹھا۔میں ایک لمحے کو خاموش رہی، پھر بمشکل کہا، ’’سمر، دیکھو ایسی بات نہیں ہے۔ ہم بچپن سے ساتھ ہیں، ایک دوسرے کو خوب سمجھتے ہیں… لیکن میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ تم ہی میرے ہمسفر بنو گے۔‘‘ میری آواز لرزنے لگی، جذبات قابو سے باہر ہو رہے تھے۔’’میں جانتا ہوں، تم وہ محسوس نہیں کرتیں جو میں تمہارے لیے کرتا ہوں… لیکن رشنا، میں نے ہمیشہ تمہیں ایک سچے دوست کی حیثیت سے چاہا ہے۔‘‘’’کیا وہ شخص، جسے تم چاہتی ہو، تمہیں مجھ سے زیادہ خوش رکھ سکے گا؟‘‘ سمر نے اچانک میری بات کاٹ دی۔’’سمر، تم جانتے ہو کہ تم اور وہ بالکل مختلف ہو۔ تمہاری ویلیوز اور ہیں، اُس کی اور…‘‘ میں نے نرمی سے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔’’کیا وہ میری طرح خیال رکھ سکے گا تمہارا؟‘‘اس بار میں خاموش ہو گئی۔ سچ یہ تھا کہ اگر میں کہہ بھی دیتی کہ ہاں، تو یہ سمر کے ساتھ ناانصافی ہوتی۔ وہ شخص تھا جو ہر مشکل میں میرے ساتھ کھڑا رہا، ہر درد کو خود پر طاری کر کے مجھے ہر پریشانی اور مشکل سے دور رکھتا تھا۔’’کیا وہ مجھ سے زیادہ تم سے محبت کرے گا؟‘‘ اُس نے پھر پوچھا۔ میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ لفظ جیسے ہونٹوں پر آ کر منجمد ہو گئے۔’’تمہاری خاموشی ہی تمہارا جواب ہے، رشنا…‘‘ سمر کے لہجے میں کوئی شکوہ نہ تھا، صرف ایک سچائی کا کڑوا گھونٹ تھا جو اُس نے سکون سے پی لیا۔’’میری دعا ہے کہ تم ہمیشہ خوش رہو۔ کوئی تکلیف، کوئی دُکھ، تمہارے قریب بھی نہ آئے۔‘‘ اور پھر وہ چپ ہو گیا۔ لیکن اُس کی اگلی بات نے میرے دل کی دیواروں پر ایک نئی تحریر ثبت کر دی۔شکایت کیا کریں اُس چاندنی رات کی ہمجب سایہ کوئی درمیان آ گیا تھامحبت تو خالص تھی، بے غرض تھی، مگرکسی کی طلب میں زہر گھول گیا تھاہم نے تو ہر درد کو راہب بنا لیاہر فراق کو بھی مصلح سمجھا لیاجو چھین لے خوشی، وہی دے درسِ صبرجو ٹوٹ جائے، وہی سچ دکھا گیاسوچا تھا عشق اک مقدس عبادت ہےپر دنیا نے اُسے سودا بنا دیاہم رہ گئے سوالوں کی بھیڑ میں کہیںاور وہ خاموشی سے خواب چرا گیا…
“امی، بھائی بالکل درست کہہ رہے ہیں۔ اُس دن جو کچھ بھی ہوا، وہ صرف بھائی کی غلطی تھی۔ رشنیٰ آپی تو بےقصور ہیں۔” عرشیا کھڑی ہو کر حزیفہ کی حمایت میں فریدہ بیگم سے مخاطب ہوئی۔”ہاں بھئی، اب تو دونوں بہن بھائی اُس لڑکی کے گُن گانے لگے ہیں۔ ” فریدہ بیگم نے حسبِ معمول اپنے مخصوص انداز میں چمٹا بجا کر کہا، “حد ہو گئی، کیا مجھے بالکل ہی بےوقوف سمجھ رکھا ہے تم دونوں نے؟””ہاں، میرا مطلب ہے نہیں.. بالکل بھی نہیں۔” سمر نے فوراً خود کو سنبھالتے ہوئے اپنی زبان کو قابو میں کیا۔”امی، پلیز مان جائیں۔ سچ میں اُس دن جو کچھ بھی ہوا، وہ صرف بھائی کی کوتاہی تھی، آپی کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ انہیں معاف کر دیں، پلیز۔”یہ کہتے ہوئے عرشیا ان کے قدموں میں بیٹھ گئی اور پیچھے کھڑے حزیفہ کو انگوٹھے سے اشارہ کیا۔ حزیفہ نے بھی شرارتی انداز میں ایک آنکھ دبا کر جواب دیا۔”امی، مان جائیں نا۔ دیکھیں، بیٹے کی خوشی سے بڑھ کر اور کوئی خوشی ہو سکتی ہے کیا؟”اسی اثناء میں شیراز بھائی کمرے میں داخل ہو گئے۔”ہاں بھئی، کیا چل رہا ہے؟ دیکھ رہا ہوں آج کل تم دونوں امی کے پیچھے دم ہلاتے پھر رہے ہو!” شیراز نے حسبِ عادت طنزیہ انداز میں بات کی۔”بس، یہی رہ گئے تھے۔” حزیفہ نے دل ہی دل میں جھنجھلا کر کہا۔”نہیں بھائی، وہ تو ہم… بس ویسے ہی۔ ہاہا…” عرشیا نے ہنستے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔”عشق کا بھوت سوار ہو گیا ہے تمہارے بھائی کو، اور کیا۔” فریدہ بیگم نے اصل مدعا کہنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کی۔”ہاں تو امی، جوانی میں عشق کا بھوت نہیں چڑھے گا تو کیا بڑھاپے میں چڑھے گا؟ ہاں بھائی، کس کے عشق میں مبتلا ہو گئے ہو؟” شیراز نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔”بھائی… وہ میں… رشنا کو پسند کرتا ہوں۔””کون رشنا؟””لو بھلا، کون رشنا کیا مطلب؟ ارے وہی چھٹانک بھر کی لڑکی، جس نے شادی میں پورے خاندان کے سامنے ہماری ناک کٹوا دی تھی۔” فریدہ بیگم کا لہجہ طنز سے بھرپور تھا۔”نہ کوئی جان نہ پہچان، بس میرے معصوم بیٹے ہی ملا تھا اسے نشانے پر رکھنے کے لیے۔ “”رہنے دیں اماں، معصوم یہ بھی نہیں ہے۔ اور سر پر چڑھائیں گے تو پھر بیٹھ کر رونا پڑے گا کہ بیٹا ہاتھ سے نکل گیا۔ اور اگر اس کا اتنا ہی دل کر رہا ہے پھر سے اُس لڑکی کے ہاتھ کی کراری چپیڑ کھانے کا، تو کھائے، ہم کیا کریں؟” شیراز نے لاپروائی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔”لو جی، شیراز نے تو سارے معاملے سے اپنا ہاتھ ہی کھینچ لیا۔ میں تو ہوں ہی نہیں اس سارے قصے میں۔ آپ جانیں اور آپ کا بیٹا”یہ کہتے ہی وہ پلٹے اور کمرے سے باہر نکل گئے۔”چل بھائی… حذیفہ ہے جذبہ و جنون، تو ہمت نہ ہار! میں یہ پیار کی جنگ آخری سانس تک لڑوں گا، ان شاء اللہ… ان شاء اللہ!”وہ واش روم سے منہ دھو کر نکلا، عزم سے لبریز آنکھیں، چہرے پر تازہ پانی کی چمک اور ارادوں میں بلا کی سختی۔ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا، فوراً کانٹیکٹس کھولے اور ایک مخصوص نمبر تلاش کر کے کال ملائی۔دوسری جانب سے کال فوراً اٹھا لی گئی۔”ارے واہ! جس رفتار سے تم نے میری کال اٹھائی ہے، اس سے تو اندازہ ہو گیا کہ تم نے میرا نمبر محفوظ کر لیا ہے… وہ حسبِ عادت شوخی پر اتر آیا۔” تمہیں کیا لگتا ہے؟ میں اتنی فارغ ہوں؟ خیر، بتاؤ… کیوں کال کی ہے؟”دوسری جانب سے روایتی سرد مہری کے ساتھ جواب ملا۔”دیکھو ذرا… میڈم کا ایٹی ٹیوڈ! ساری ذمے داری میرے کندھوں پر ڈال کر خود یہاں سے رفوچکر ہو گئی ہو۔ پتا بھی ہے، کتنا ذلیل ہونا پڑ رہا ہے مجھے”حذیفہ نے بھرپور اداکاری کے ساتھ رونے کی نقل کی۔”تو میں کیا کروں؟ ظاہر ہے، اپنی امی کو تو تم ہی مناؤ گے نا؟ ویسے بھی تم لاکھ کوشش کر لو، اب وہ مجھے بہو کے روپ میں قبول کرنے والی نہیں ہیں!” میں نے بھی صاف صاف اپنا دامن جھاڑتے ہوئے کہا۔”قسم سے، خدا نے شکل اتنی اچھی دی ہے تو بات بھی اچھی کر لیا کرو۔ میں جو اتنے پاپڑ بیل رہا ہوں، وہ یونہی نہیں بیل رہا۔ لیکن یار، صبح سے امی کے پیچھے لگا ہوا ہوں، مگر امی ہیں کہ ماننے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔” سمر نے مایوسی سے کہا۔”ہاں تو نہیں چھوڑنے تھے نا پٹاخے؟ اب پتا چلا؟” میں نے مزے لیتے ہوئے طنز کیا۔رشنا، مجھے اکیلا کیوں چھوڑ رہی ہو؟ اب دیکھو نا، اگر ہم دونوں مل کر اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں تو ہو سکتا ہے کہ کامیاب ہو جائیں۔” وہ بڑی سنجیدگی سے بولا۔”ٹھیک ہے، فی الحال مجھے نیند آ رہی ہے… میں سونے لگی ہوں۔ خداحافظ۔””ارے… چُڑیل رانی! بات تو سنو…”لیکن لائن بند ہو چکی تھی۔حذیفہ نے بے بسی سے موبائل اسکرین کو دیکھا اور دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگا۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے وہاں کیوں بلایا گیا ہے۔ بس یوں ہی روانی سے چلتا ہوا، ایک گوشے میں رکھے میز کے قریب آ کر رکا اور بیٹھ گیا۔ اس کی نگاہیں کبھی گھڑی کی سوئیوں پر ٹھہرتیں، کبھی ریستوران کے دروازے پر جا ٹکتیں۔ وقت جیسے جامد ہوتا جا رہا تھا۔ آخر کار اُس نے جیب سے فون نکالا اور وہ پیغام دوبارہ کھولا جو اُسے تھوڑی دیر قبل ایک نامعلوم نمبر سے موصول ہوا تھا:”کمال کی بات ہے، ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو کر ہم کبھی ایک دوسرے سے ملے نہیں۔ چلو، آج موقع بھی ہے، دستور بھی۔”پیغام کے نیچے اسی ریستوران کا پتہ درج تھا۔وہ پیغام حزیفہ بیس سے زائد مرتبہ پڑھ چکا تھا، مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ بھیجا کس نے ہے۔کچھ دیر بعد ریستوران کا دروازہ کھلا اور سمر اندر داخل ہوا۔ وہ سیدھا اُسی میز کی طرف بڑھا جہاں حزیفہ بیٹھا تھا، اور اُس کے سامنے والی کرسی پر براجمان ہوگیا۔ رسمی سلام و دعا کے بعد، سمر نے گفتگو کا آغاز کیا:”مجھے تو تم جانتے ہی ہوگے… میں… رُشنا کا کزن ہوں۔””ہاں، جانتا ہوں تمہیں۔” حذیفہ نے مختصراً سر ہلا کر تصدیق کی۔”لیکن بہت کچھ ایسا بھی ہے جو تم نہیں جانتے… میرے اور رُشنا کے رشتے کے بارے میں۔”سمر کی ہلکی سی مسکراہٹ اُبھری، جو فوراً ہی غائب ہوگئی۔”مجھے تم دونوں کے تعلق سے کوئی غرض نہیں۔ میں بس اُسے پسند کرتا ہوں۔”حزیفہ نے گہری سانس لے کر حقیقت بیان کی۔”مبارک ہو، میں بھی رُشنا کو پسند کرتا ہوں۔” سمر نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔یہ سن کر حزیفہ خاموش ہوگیا۔ یہ خاموشی بیس سے پچیس منٹ طویل رہی۔”تو کیا تم نے مجھے یہاں صرف یہ کہنے کے لیے بلایا ہے کہ میں رُشنا کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل جاؤں؟” حزیفہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔”ارادہ تو یہی تھا… لیکن میں اتنا ظالم نہیں ہوں۔” سمر نے اپنی عینک کو درست کرتے ہوئے کہا، پھر خاموش ہوگیا۔حزیفہ منتظر نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا کہ وہ اب کیا کہے گا۔”رُشنا اور میں بچپن سے ایک ساتھ ہیں۔ میں نے پہلے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اس لڑکی سے محبت کر بیٹھوں گا۔ شروع میں تو مجھے لگا کہ تم میرے اور رُشنا کے درمیان آ کھڑے ہوئے ہو… اگر وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہوتی، تو تم دونوں کی زبردستی اُسے مجھ سے چھیننے کی کوشش پر، میں تمہیں کسی ویرانے میں لے جا کر ایک لمحے میں خاک کر دیتا…” سمر کے الفاظ میں سرد مہری تھی، جیسے یہ سب کہنا اس کے لیے کوئی بڑا کام نہ ہو۔حزیفہ نے ایک بھنویں اُچکائیں، اور پھر قہقہہ لگا کر ہنسا۔”تم نے تو ڈرا ہی دیا، ہاہاہا… واقعی تمہیں لگتا ہے میں تمہاری باتوں سے ڈر جاؤں گا یا پیچھے ہٹ جاؤں گا؟””میں نہ تمہیں ڈرانے آیا ہوں، نہ دھمکانے، اور نہ یہ کہنے آیا ہوں کہ رُشنا کا پیچھا چھوڑ دو۔” سمر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔”تو؟ آم لینے آئے ہو کیا؟” حزیفہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔”میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ رُشنا میرے لیے بہت خاص ہے، بہت انمول ہے۔ اگر اُسے کانٹا بھی چُبھ جائے تو میں برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ اس لیے نہیں کہ وہ میری محبت ہے، میرا جنون ہے… بلکہ اس لیے کہ اُس کی وجہ سے مجھے ایک نئی زندگی ملی تھی۔ میں ہنسنے، کھیلنے کے قابل ہوا۔ وہ میری زندگی کا اہم ترین حصہ ہے…”سمر کا لہجہ اب گواہی دے رہا تھا کہ وہ دل کی گہرائیوں سے بات کر رہا ہے۔”اور رُشنا میری پوری زندگی ہے۔”اب کی بار حزیفہ نے کہا، اور سمر خاموش ہوگیا۔”تم نے صرف محبت دیکھی ہے نا… لیکن کیا تم جانتے ہو میں نے کیا دیکھا ہے؟ میں نے اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت بھی دیکھی ہے، اور محبت بھی۔ اور شاید یہی زندگی ہے — جہاں جذبات کے دریا بہتے ہیں، کبھی لہریں تھپکیاں دیتی ہیں، اور کبھی ڈبوتی ہیں۔ لیکن میں نے اُس کی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھا ہے۔ اور یہ جان کر مجھے سکون ملا ہے کہ چاہے لمحے جیسے بھی ہوں، اُس نے مجھے محسوس ضرور کیا ہے۔کبھی کبھی محبت کا اصل رنگ تب ظاہر ہوتا ہے، جب وہ نفرت کی چادر میں لپٹی ہو۔ کیونکہ جو دل تم سے نفرت کرتا ہے، وہ تمہیں کبھی بےخبر نہیں رہنے دیتا۔ اور یہی احساس میرے دل میں ایک عجب سی روشنی جلا گیا ہے کہ اُس کی بےرُخی میں بھی میرا ذکر ہے۔میں نے اُسے ہر انداز میں اپنایا… غصے میں بھی، نفرت میں بھی، محبت میں بھی…”حزیفہ نے چند لمحے توقف کیا، پھر اُس کی طرف نظریں جما کر سوال کیا:”کیا تم اس کی نفرت برداشت کر سکتے ہو؟” یہ کہہ کر حزیفہ خاموشی سے اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ سمر کی نظریں اس پر جمی تھیں۔ حزیفہ کرسی سے اٹھا، شرٹ کو درست کیا، اور جانے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ سمر نے اسے آواز دی:”میری رُشنا کا خیال رکھنا…” ایک آنسو اُس کی پلکوں سے لڑھک کر گرا”تم ٹھیک کہہ رہے ہو… میں نے صرف اُس کی محبت دیکھی ہے، نفرت نہیں۔ اور میں اُس کی نفرت سہہ بھی نہیں سکتا۔ وہ ہمیشہ سے میرے لیے کھلتے ہوئے گلاب کی مانند رہی ہے۔ میں نے اُسے کبھی مرجھایا ہوا نہیں دیکھا۔تم میرے اُس گلاب کا مجھ سے بھی زیادہ خیال رکھنا… کہ یہ کبھی غلطی سے بھی مرجھا نہ جائے۔ میں اپنی محبت تمہیں سونپ رہا ہوں… ایک چٹان جیسا پتھر اپنے دل پر رکھ کر۔”یہ کہتے ہوئے سمر چاہ کر بھی اپنے آنسو نہ چھپا سکاحزیفہ لپک کر آگے بڑھا اور سمر کو گلے سے لگا لیا: “تم نے مجھ پر احسان کیا ہے… میں یہ کبھی نہیں بھولوں گا۔ تم بےفکر رہو، میں رُشنا کی حفاظت اپنی سانسوں سے بڑھ کر کروں گا۔”وہ اُس سے جدا ہوا اور اُس کے چہرے پر ایک زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اُبھری۔
سمر دھیمے قدموں سے گھر میں داخل ہوا۔ تھکن اس کے وجود سے صاف چھلک رہی تھی۔ خاموشی سے اپنے کمرے میں آیا اور دروازہ بند کر کے کرسی پر بیٹھ گیا۔ نیند تو جیسے اس کی آنکھوں سے روٹھ چکی تھی۔ رات بھر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ آہستگی سے الماری کھولی اور اس میں رکھی ایک بڑی سائز کی البم نکالی، جو اس کے اور رُشنا کے بچپن کی یادوں سے بھرپور تھی۔وہ خاموشی سے البم کے ورق پلٹنے لگا۔ ایک ایک تصویر پر اس کی انگلی رُکتی، جیسے ہر تصویر میں چھپی کہانی کو محسوس کرنا چاہتا ہو۔ کبھی دھیرے سے مسکرا دیتا، تو کبھی آنکھیں نم کر کے نظریں چرا لیتا۔ مگر آج، آنسو چھپانا اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا۔اچانک ایک لمحہ یادوں کے جھروکوں سے نکل کر سامنے آیا—جب رُشنا نے اس سے پوچھا تھا:”تمہیں کس چیز سے سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے؟”اور سمر نے بے ساختہ کہا تھا:”مجھے تو بس اس بات سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم مجھے اپنی غار میں تنہا نہ چھوڑ دو۔۔۔”اس نے کبھی اندھیرے سے خوف نہیں کھایا تھا، نہ روشنی سے۔ مگر اب وہ ایک ایسے اندیشے سے لرزاں تھا، جو جدائی کے سائے میں لپٹا ہوا تھا۔”کاش تم اسی پل سمجھ لیتیں، رُشنا۔۔۔ کاش۔۔۔”سمر نے نم آنکھوں سے البم میں چسپاں ان تصویروں کو دیکھا، جن میں وہ اور رُشنا بچپن کے معصوم لمحوں کو قید کیے بیٹھے تھے۔دل کے نہاں خانوں میں چھپی کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں، جو وقت کے ساتھ دھندلی نہیں ہوتیں۔ انسان لاکھ چاہے کہ انہیں بھلا دے، مگر وہ یادیں، دل کی دیواروں پر نقش ہو جاتی ہیں—نا مٹنے والے نقوش کی مانند۔ دردِ دل کے سوا محبت کچھ بھی نہیںتیرے چہرے کے سوا محبت کچھ بھی نہیں تجھے چاہا تو ٹوٹ کے چاہا پر تیرے لیےدیوانگی، چاہت، وفا، محبت کچھ بھی نہیں کسی کو چاہو تو بے سبب چاہو، چاہنے والوصلہ جو مانگو گے تو محبت کچھ بھی نہیںپچھلی مرتبہ بھی جب ابا میرے کمرے میں آئے تھے، میں سو رہی تھی۔ انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ مجھے جگائیں۔ گزشتہ چند دنوں سے میں سخت ذہنی الجھن کا شکار تھی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سمر کو کیسے سمجھاؤں؟ اور اگر اس رشتے سے انکار کروں، تو کس انداز میں؟ اگر انکار کر دیا تو خالہ ناراض ہو جائیں گی، اور اگر مان گئی تو… حُذیفہ؟کتنی بار خود کو تسلی دی تھی کہ جو اللہ کرے گا، وہ میرے حق میں بہتر ہوگا۔ مگر دل کا بوجھ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔ میں اپنے کمرے سے ملحق ایک چھوٹے سے کوریڈور میں کھڑی، قطار سے سجے ہوئے ننھے منے پودوں کو دیکھ رہی تھی۔ جب میں یہاں نہیں ہوتی تھی، تو ان کا خیال ابا رکھا کرتے تھے۔اتنے میں دروازے کی ہلکی سی آواز سنائی دی۔ میں چونک کر پیچھے مڑی تو ابا کو مسکراتے ہوئے دروازے کے کنارے کھڑے پایا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے آگے بڑھے اور کوریڈور میں رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں بھی ان کے برابر والی کرسی پر جا بیٹھی۔مجھے معلوم تھا، ابا ضرور میری بےچینی کی وجہ پوچھیں گے۔آج دل چاہا کہ سب کچھ کھول کر ابا کے سامنے رکھ دوں۔ کہہ دوں کہ میں سمر سے نہیں، بلکہ حُذیفہ سے نکاح پر رضامند ہوں۔ اور سمر کا رشتہ میرے دل و دماغ کو ایک ایسی کشمکش میں مبتلا کر چکا ہے، جس سے نکلنا میرے لیے آسان نہیں رہا۔ابا نے میری طرف محبت بھری نظروں سے دیکھا اور نہایت شفقت سے گویا ہوئے:”بیٹا، تم پریشان مت ہو۔ تم پڑھی لکھی، باشعور لڑکی ہو۔ کسی کے دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرو۔ میں نے تمہیں اس دن کے لیے نہیں پڑھایا تھا کہ تم اپنے فیصلے دوسروں کی مرضی سے کرو۔ بیٹا، تم بالغ ہو۔میں جانتا ہوں، انسان اپنے خون کے رشتوں کو ناراض کرنا نہیں چاہتا۔ مگر جہاں دل نہ مانے، وہاں اگر کوئی تمہارا ہاتھ پکڑ کر بھی لے جائے، تو مت جانا۔ انسان کا ایک غلط فیصلہ اُس کی پوری زندگی کو تباہ کر دیتا ہے۔” ابا کے الفاظ میرے دل میں اترتے چلے گئے۔ ان کی شفقت، ان کی دانائی، اور ان کا بے مثال اعتماد مجھے حوصلہ دے رہا تھا۔میں نے آہستگی سے ان کی طرف دیکھا اور نرمی سے کہا: “ابا… سمر سے نکاح میرے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیں ہے۔ مگر میں نے اُسے کبھی اُس نظر سے نہیں دیکھا… کبھی اُس زاویے سے سوچا ہی نہیں۔”ابا نے اثبات میں سر ہلایا اور تھوڑا سا جھک کر میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔”تو پھر، بیٹا، یہ تمہاری مرضی ہے۔ تم جس کا بھی انتخاب کرو، سوچ سمجھ کر کرنا۔یہ فیصلے عمر بھر کے ہوتے ہیں۔ ماں یا خالہ کے دباؤ میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔میں خود بات کروں گا تمہاری امی سے، اور خالہ سے بھی۔”ان کی باتوں نے دل کو سکون دے دیا۔ پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ شاید اب یہ الجھن سلجھنے کے قریب ہے۔
خالہ کو منانا میرے لیے اتنا مشکل نہیں تھا۔ اصل پریشانی مجھے سمر کی تھی۔ وہ بیچارہ تو اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ کہیں وہ مجھ سے شکوہ نہ کرے، کہیں اُسے یہ گمان نہ ہو کہ میں نے اس کے جذبات کی قدر نہیں کی۔ بس یہی ایک خیال تھا جو میرے دل کو بےچین رکھے ہوئے تھا۔ اسی دوران خالہ کی کال آئی۔ میں امی کے پاس بیٹھی تھی۔ امی نے کال ریسیو کی اور فوراً اسپیکر پر لگا دی۔خالہ کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی، وہ کہہ رہی تھیں: “سمر خود اس رشتے سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔”یہ جملہ سنتے ہی مجھے سخت حیرت ہوئی۔ وہی سمر، جس نے خود اس رشتے کی پہل کی تھی، اب خود ہی پیچھے ہٹ رہا تھا؟ میرے دل میں عجیب سی خلش اُبھری۔ کیا وہ یہ سب میرے لیے کر رہا ہے؟ کیا وہ میری خواہش کی پاسداری کر رہا ہے؟کال ختم ہونے کے بعد میں بنا کچھ کہے اپنے کمرے میں آ گئی۔ دل بےقراری سے بھرا ہوا تھا۔میں نے فوراً سمر کو کال ملائی۔ اس نے پہلی ہی بیل پر فون اٹھا لیا۔”تم نے رشتے سے انکار کر دیا؟” میں نے بنا تمہید کے سوال کیا۔”ہاں؟” اس نے مختصر سا جواب دیا۔”کیوں؟” میں نے بےچینی سے وجہ جاننی چاہی۔وہ لمحہ بھر کو خاموش رہا، پھر بہت دھیمے اور تھکے ہوئے لہجے میں بولا:”یہ سوال کرنے کا اب کیا فائدہ؟ میں بچپن سے لے کر آج تک تمہاری ہر خواہش پوری کرتا آیا ہوں۔ تم یہ جانتی ہو۔”میرے دل میں ایک اور سوال اُبھرا۔ “تو پھر… پروپوزل کیوں بھیجا تھا؟” اس کی جانب سے رشتہ بھیجنے کی بات مجھے ابتدا ہی سے حیران کر رہی تھی۔کچھ لمحے خاموشی رہی، پھر وہ گویا ہوا:”تاکہ تم بھی اسی کیفیت سے گزرو، جس کیفیت سے میں گزر رہا ہوں۔”میرے حواس پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ لفظوں کی کاٹ نے دل کو چھلنی کر دیا۔اگلے ہی لمحے اُس نے کال منقطع کر دی، اور میں… اب تک فون کان سے لگائے، خاموش و ساکت، وہیں کھڑی رہ گئی۔”اماں، جو مرضی کرلو۔ اپنے چمٹے سے میری کمر سُوکھا دو، یا پھر ڈیڑھ سو جوتے رسید کر دو، یا تین دن بھوکا رکھ لو مجھے… مگر میں تو بس رُشنا سے ہی نکاح کروں گا! بس!”حذیفہ گھر کی سب سے اونچی سیڑھی پر چڑھ کر اس انداز میں گویا ہوا گویا سلطنتِ روم کا شہنشاہ کوئی فرمان جاری کر رہا ہو۔”ٹھہر جا! ابھی بتاتی ہوں تجھے!”کچن سے فرزانہ بیگم برآمد ہوئیں۔ ہاتھ میں سیاہ چمکتا ہوا چمٹا تھا جو دیکھتے ہی حذیفہ کے رنگ فق ہو گئے۔”ارے ہاہاہا اماں! میں تو مذاق کر رہا تھا! آپ تو فوراً سنجیدہ ہو گئیں!”وہ فوراً پیچھے ہٹا، جیسے چمٹا ابھی فضا میں اُڑ کر اُس کی کمر پر نشان چھوڑنے والا ہو۔”نیچے آ، شرافت سے! تیرے سر سے عشق و عاشقی کا بھوت اُتاروں!”فرزانہ بیگم نے چمٹے کو ہوا میں لہراتے ہوئے دھاڑ لگائی۔”نہیں اماں! ہرگز نیچے نہیں آؤں گا! پہلے میری شادی رُشنا سے کراؤ، ورنہ مجھے ٹھنڈی ریت میں دفنا دو!” حذیفہ نے دونوں ہاتھ بلند کر کے ایک عظیم قربانی دینے والے عاشق کا منظر پیش کیا۔ اتنے میں بھابھی بھی کچن سے باہر آئیں۔”بھابھی مجھے بچا لیں!”حذیفہ نے ہاتھ پھیلا کر ان کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھا۔ مگر بھابھی نے بھی اُسے ہری جھنڈی دکھائی اور خاموشی سے واپس کچن کی جانب لوٹ گئیں۔”لے بھائی! یہاں تو کوئی بھی تیرا نہیں رہا”فرزانہ بیگم کا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا۔ وہ طنزیہ لہجے میں گویا ہوئیں:”حذیفہ! میری بات کان کھول کر سن لے،خبردار، آج کے بعد اُس لڑکی کا نام بھی لیا تو نے ، میں کبھی بھی اُس بدلحاظ، زبان دراز لڑکی کو اپنی بہو کی صورت میں قبول نہیں کروں گی۔ نہیں مانی میری بات؟ تو اپنا سامان اُٹھا اور چلا جا اپنی معشوقہ کے پاس ،دوبارہ اس گھر میں قدم نہ رکھنا۔”ماحول میں جیسے خاموشی چھا گئی تھی… لیکن حذیفہ کہاں خاموش بیٹھنے والا تھا؟اس نے ایک ہاتھ ماتھے پر اور دوسرا کمر پر رکھا، جیسے کوئی فلمی ہیرو ہو، اور بلند آواز میں اعلان کیا:”پیار کیا تو ڈرنا کیا، جب۔۔پیار کیا تو ڈرنا کیا ، پیار کیا ہے، کوئی چوری نہیں کی!”فرزانہ بیگم کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اچانک ایک فلائنگ چپل فضا میں اُڑتی ہوئی آئی اور سیدھا حذیفہ کی کمر پر آ کر لگی۔ وہ کراہتے ہوئے کمر سہلانے لگا۔”کیسی ماں ہیں آپ؟ اپنے بچے کی اتنی سی مراد بھی پوری نہیں کر سکتیں۔”اس نے شہادت کی انگلی اور انگوٹھے کے درمیان معمولی سا فاصلہ رکھ کر معصومیت سے کہا۔”یہ عشق نہیں آساں، آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے… ہائے!”اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر ایک ادا سے “ہائے” کہا، گویا ابھی دل کا دورہ پڑنے والا ہو۔پھر وہ شکست خوردہ قدموں سے نیچے اترا، اور سیڑھی کے آخری زینے پر بیٹھ کر ایسے گانے لگا، جیسے کوئی بے سہارا بیوہ ہو:”جے تُو اکھیاں دے سامنے نئیں رہنا، او بیبا! ساڈا دل موڑ دے…آہہہ… بیبا! ساڈا دل… ساڈا دل موڑ دے…”فرزانہ بیگم کا پارہ اب مزید بلند ہو چکا تھا۔ انہوں نے دوسرا جوتا بھی اتارا اور نشانہ لیا، مگر خوش قسمتی سے حذیفہ موقع پر جان بچا کر باہر کی جانب دوڑ گیا۔”واپس نہ آنا، بےغیرت انسان!” فرزانہ بیگم کی آواز گونجی، اور جب تک وہ منظرِ عام سے غائب نہ ہوا، ان کی بولتی بند نہ ہوئی۔ “اس لڑکے نے تو ناک میں دم کر دیا ہے۔کیا کروں میں؟”انہوں نے خفگی سے سر جھٹکا۔اتنے میں بھابھی چائے لے کر آئیں۔ چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہنے لگیں:”امّی! کیوں پیچھے پڑی رہتی ہیں حذیفہ کے؟ جہاں کہتا ہے، کر دیں اس کی شادی۔ شیراز بھی یہی کہہ رہے تھے کہ ایسے بحث کرنے کا کیا فائدہ…””ہرگز نہیں! ہرگز نہیں! میں اُس بدتمیز اور بدلحاظ لڑکی کو اپنے گھر کی بہو بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتی!” فرزانہ بیگم کی بات سن کر بھابھی خاموش ہو گئیں، کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ اب سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
بچے بےحد خوش تھے اور میں بھی ان کے ساتھ کھیلنے میں اس قدر محو ہو جاتی کہ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا۔ سارا دن ان کے ہمراہ کھیلتے، ہنستے اور خوشیاں بانٹتے گزر جاتا۔ بھائی کے معصوم بچوں نے کبھی مجھے تنگ نہیں کیا تھا، ان کی معصوم مسکراہٹیں اور بھولی بھالی باتیں دل کو بہلانے کا سامان بن جاتی تھیں۔ بھابھی کے ساتھ بھی دل لگا ہوا تھا، اُن کی محبت اور اپنائیت میں عجیب سی انسیت تھی۔ امی بھی خوش نظر آتی تھیں، جیسے ان کے دل کی ویرانی کو ان بچوں کی موجودگی نے رونق بخش دی ہو۔ برسوں بعد گھر میں ایک زندگی سی لوٹ آئی تھی۔چائے کی پیالیوں سے اٹھتی بھاپ کے درمیان باتوں کا رخ اچانک میری طرف مڑ گیا۔”امی، رُشنا کے رشتے کے بارے میں کیا سوچا آپ نے؟” بھابھی نے نرمی سے استفسار کیا، جو اُس وقت امی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔امی نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور ذرا سی ناراضی کے عالم میں بولیں،”بیٹا، میری تو کب سے خواہش ہے کہ اپنی بیٹی کو اُس کے گھر کا کر دوں، لیکن وہ مانے تب نا! اب دیکھو، سمر کے رشتے کو بھی انکار کر دیا۔””امی، آپ رُشنا سے بھی تو پوچھیں۔ کیا پتا اُسے کوئی اور پسند ہو؟” بھابھی نے دھیرے سے مشورہ دیا، لہجہ مصلحت آمیز اور نرم تھا۔ اسی اثناء میں نعمان بھائی اور ابا بھی باہر سے لوٹ آئے۔”ہاں بھئی، کیا باتیں ہو رہی ہیں؟” ابا نے آتے ہی سوال داغا۔بھابھی فوراً چائے بنانے کے لیے اٹھ گئیں، اور امی نے ابا کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا، “تمہاری بیٹی کے رشتے کی بات ہو رہی ہے۔”ابا نے سکون سے چائے کا پہلا گھونٹ لیا اور گویا ہوئے،”ارے، تم نے کیوں اتنی مشکل پیدا کر دی ہے؟ شادی ہی کرنی ہے نا بیٹی کی، تو اتنی جلدبازی کیوں؟ سوچ سمجھ کر ہی تو بیٹی دیں گے کسی کو۔ ابھی کیا ہرج ہے کچھ وقت لگ جائے۔”بھائی بھی اس موقع پر خاموش نہ رہ سکے،”امی، ابا ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اتنی جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔ ابھی اُسے آرام سے سوچنے دیں، فیصلہ کر لینے دیں۔”امی نے ایک گہری سانس لی اور مایوسی سے بولیں،”ہاں بھئی، اب تم ہی جانو۔ اب میں کچھ نہیں کہوں گی۔ تھک گئی ہوں میں تو اس لڑکی کے پیچھے لگ لگ کر۔”ابا نے نرمی سے اُن کا ہاتھ تھاما اور محبت بھرے لہجے میں کہا،”بیگم، اب ناراض نہ ہو۔ ہماری بیٹی سمجھدار ہے، باشعور ہے۔ ان شاء اللہ اپنے لیے بہتر ہی فیصلہ کرے گی۔””ان شاء اللہ!” بھائی اور بھابھی نے یک زبان ہو کر ابا کی بات سے اتفاق کیا۔بائیک پوری رفتار کے ساتھ شہر کی ایک معروف سڑک پر گامزن تھی۔ بائیک کی رفتار جیسے بجلی کی تیزی کو چھو رہی ہو۔ حذیفہ پورے جوش و خروش سے بائیک دوڑاتا جا رہا تھا۔ نہ آگے آنے والی ٹریفک کی پرواہ تھی، نہ پیچھے سے آتی گاڑیوں کی فکر۔ ٹریفک سگنل کو توڑ کر، گاڑیوں کے درمیان سے گزرتا، وہ یوں لگ رہا تھا جیسے ہواؤں سے باتیں کرنے نکلا ہو۔ پیچھے سے آتی گالیوں کی بوچھاڑ کو مکمل طور پر نظرانداز کرتا وہ جیسے ہی ایک تیز رفتاری سے دائیں طرف مڑا، ایک گاڑی جو اپنی معمول کی رفتار سے چل رہی تھی، اچانک اس کی بائیک سے ٹکرا گئی۔ گاڑی کے ڈرائیور نے گھبرا کر اسٹیئرنگ کو زور سے بائیں جانب گھمایا، لیکن تب تک حذیفہ اپنی بائیک سمیت سڑک پر منہ کے بل گر چکا تھا۔ گاڑی سے ایک ادھیڑ عمر شخص باہر نکلا، تیزی سے آگے بڑھا، حذیفہ کے اوپر سے بائیک ہٹائی اور اُسے سیدھا کر کے سہارا دے کر کھڑا کیا۔ حذیفہ کا سر پھٹ چکا تھا، بازوؤں اور ٹانگوں پر گہری چوٹیں آئیں تھیں۔وہ شخص اُسے سہارا دیتا ہوا اپنی گاڑی کی طرف لے گیا۔ ادھر دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی بھیڑ اکٹھی ہو گئی، مگر کوئی نہ جان سکا کہ زخمی ہونے والا لڑکا کون ہے۔ حذیفہ کو فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا۔ اس کے موبائل کی اسکرین پر خراشیں آ چکی تھیں، لیکن قدرت کا کرم یہ ہوا کہ موبائل کا سسٹم صحیح سلامت رہا۔ اسی فون سے ایک نمبر نکالا گیا اور کال کی گئی۔ یہ کال شیراز بھائی کے نمبر پر تھی۔ پہلی ہی بیل پر کال اٹھا لی گئی۔ دوسری جانب سے ایک اجنبی مرد کی آواز سن کر شیراز کے اعصاب کھنچ گئے۔”کون بات کر رہا ہے؟””جی میں فلاں اسپتال سے بول رہا ہوں۔ آپ کے لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، براہِ کرم فوراً اسپتال پہنچیں۔”شیراز بھائی نے خود پر قابو پاتے ہوئے فون بند کیا اور کمرے سے نکل کر ہال کی جانب آئے۔ آواز مدہم تھی مگر پیغام میں اضطراب چھپا نہ تھا۔”حذیفہ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، میں ہسپتال جا رہا ہوں۔” زمان صاحب یہ سنتے ہی جلدی سے اٹھے اور شیراز کے ساتھ ہو لئے۔”کیا کہہ رہے ہو؟ کیا ہوا ہے حذیفہ کو؟” فریدہ بیگم نے گھبرا کر پوچھا۔”امی، بس معمولی سا حادثہ ہوا ہے۔ میں اور ابا ہسپتال جا رہے ہیں، آپ سب دعا کریں، ان شاء اللہ خیر ہوگی۔” شیراز نے بات مکمل کرتے ہوئے باہر جا کر گاڑی اسٹارٹ کی۔”ارے کیسے ہو گیا حادثہ؟ ہائے میرا بچہ! اللہ میرے بیٹے کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔” فریدہ بیگم پریشان ہو کر بولیں۔
“امی، وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گا، آپ نماز پڑھ کر دعا کریں۔” قرأت نے فریدہ بیگم کو دلاسہ دیا۔”یا اللہ میرے بیٹے پر رحم فرما، اُسے اپنی حفاظت میں رکھ… ہائے، نہ جانے کس حال میں ہو گا وہ۔” فریدہ بیگم روتے روتے التجائیں کرنے لگیں۔ قرأت نے وضو کر کے جائے نماز بچھائی اور نفل نماز ادا کرنے لگی۔ فریدہ بیگم بھی وضو کے لیے چلی گئیں، مگر وضو کے دوران بھی روتی رہیں اور گڑگڑا کر دعائیں کرتی رہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد شیراز اور زمان صاحب ہسپتال پہنچے اور اُس کمرے میں گئے جہاں حذیفہ داخل تھا۔وہ بیڈ پر بےسکت دم سادھے پڑا جگہ جگہ سے پٹیوں کی لپیٹ میں تھا ۔ سر پر پٹی چڑھا رکھی تھی، بازو پر پلاسٹر لگایا ہوا تھا اور ایک ٹانگ کو بھی پٹیوں سے لپیٹا ہوا تھا۔ چہرے پر رگڑ اور چوٹ کے نشان اس بات کے گواہ تھے کہ قسمت کو حزیفہ پر رتی برابر بھی ترس نہیں آیا۔شیراز نے فریدہ بیگم کو کال کی اور آہستہ اور سنجیدہ لہجے میں کہا: “امی… آپ جلدی سے اسپتال آ جائیں۔”فریدہ بیگم، جو پہلے ہی روتے روتے نڈھال ہو چکی تھیں، بےقراری کے عالم میں بولیں: “کیا ہوا ہے؟ کیسا ہے میرا بیٹا؟ شیراز، مجھے بتاؤ کہ حذیفہ کیسا ہے؟”شیراز نے دھیمے لہجے میں کہا: “امی، وہ… ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ… حذیفہ کے بچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ آپ آ کر آخری بار مل لیں۔” یہ کہتے ہوئے شیراز نے فون بند کر دیا۔ فریدہ بیگم کے پیروں تلے زمین کھسک گئ۔ “ہاۓ میرا لعل۔۔۔، ہاۓ میرے جگر کا ٹکڑا۔۔۔، ہاۓ قرات سمبھال مجھے۔۔۔، ہاۓ میرا بیٹا ہسپتال میں پڑا ہے ، او جلدی ڈرائیور کو بول کے گاڑی نکالے۔۔۔ ” فریدہ بیگم گلا پھاڑے پورے گھر میں چلاتی پھر رہی تھیں۔ قرات باہر کی طرف بھاگی اور ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا حکم دیتی تیز رفتار سے واپس اندر کی طرف گئ اور فریدہ بیگم کو سہارا دے کر اٹھایا اور باہر لے گئ۔ تھوڑی ہی دیر میں فریدہ بیگم، قرأت بھابھی اور عرشیا ڈرائیور کے ہمراہ اسپتال پہنچ گئیں۔ کمرے میں ایک گھمبیر سکوت چھایا ہوا تھا۔ شیراز حزیفہ کے چہرے کو چادر سے ڈھانپ رہے تھے۔ اور زمان صاحب اس کے قریب بیٹھے روتے ہوۓ کلمہ طیبہ کا ورد کرنے میں لگے ہوۓ تھے۔ حذیفہ کی حالت دیکھ کر فریدہ بیگم وہیں گرنے کو ہو گئیں۔”ارے میرے بچے کو کیا ہو گیا! حذیفہ! اُٹھ… میرا پیارا بیٹا… اماں کا لاڈلا، اُٹھ جا، دیکھ تیری ماں آئی ہے… حذیفہ… میرے بچے، رحم کر اس بوڑھی جان پر۔” وہ حذیفہ کے قریب بیٹھ گئیں اور گڑگڑا کر اسے پکارنے لگیں۔ باقی سب بھی فریدہ بیگم کو اس حالت میں دیکھ کر سکتے میں کھڑے تھے۔۱۰ منٹ۔۔۔۔۔۔ ۱۵ منٹ۔۔۔۔ پورے ۳۰ منٹ۔۔۔۔۔ ۱ گھنٹااسے اس حالت میں پڑے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت ہوچکا تھا۔ اماں صبر رکھیں۔۔ جو اللہ کو منظور۔۔ حزیفہ کی بخشش کے لیے دعا کریں۔۔ قرات نے فریدہ بیگم کو تسلی دی لیکن ایک ماں کے دل پر کیا گزر رہی تھی یہ وہی جانتی تھیں۔”میرے بچے… میری جان… جو تجھے چاہیے تیری ماں لا کر دے گی، آنکھیں کھول… ایسے ماں سے ناراض نہیں ہوتے، دیکھ، میں تیری رشنا سے شادی کرا دوں گی، جو تو کہے گا ویسا ہو گا… بس آنکھیں کھول، ورنہ تیری ماں جیتے جی مر جائے گی… حذیفہ…!””ہیں سچی؟ “وہ دھڑلے سے اٹھ کر بولا جیسے مرے مردے میں اچانک جان آگئ ہو ، قرات اور ارشیا کی تو چیخیں نکل گئیں، “بھائ کی لاش زندہ ہوگئ، بھائ کی آتما آگئ،۔۔ ” ارشیا نے چلاتے ہوئے کہا، یہ حقیقت کم اور کسی ڈراؤنی فلم کا سین زیادہ لگ رہا تھا۔وہ فریدہ بیگم کے گلے لگ کر بولا: “تھینک یو امی جان… کتنی اچھی ہیں آپ… میری پیاری امی… تھینک یو سو مچ… مجھے یقین نہیں آ رہا کہ آپ رشنا کو اپنی بہو ماننے پر راضی ہو گئیں۔”وہاں کھڑی قرأت اور عرشیا کو تو جیسے 240 وولٹ کا جھٹکا لگا۔” بھائ کی آتما تو بول بھی رہی ہے۔” ارشیا نے ہکا بکا ہو کر سب کو دیکھ کر کہا۔ جب کہیں سے بھی کوئ آواز نہ تو پیاری سمجھ گئ۔”بھائییییی! آپ زندہ ہیں؟” عرشیا نے حیرت سے چیختے ہوئے کہا۔”ہاں! تمہیں کیا لگا اتنی آسانی سے جان چھوٹ جائے گی؟ ہاہا۔”قرأت نے شیراز کی طرف دیکھا تو اس نے آنکھ دبا کر مسکرا دیا۔ قرأت فوراً سمجھ گئی کہ یہ سب مکمل پلاننگ کے ساتھ کیا گیا ڈرامہ تھا۔ مطلب شیراز بھائی، زمان انکل اور حتی کہ ڈاکٹرز بھی، کیا دماغ لگایا دیور نے۔۔فریدہ بیگم نے حذیفہ کے گال کو چھو کر محسوس کیا کہ وہ واقعی زندہ ہے یا یہ اُن کا وہم ہے۔ حذیفہ دوبارہ اُن کے گلے لگ چکا تھا۔”اماں! میں بہت خوش ہوں… شکر ہے آپ مان گئیں… اب میں سکون سے مر سکوں گا۔” یہ کہتے ہوئے حذیفہ نے اپنا سر تکیے پر گرا دیا، جس پر سب کے قہقہے بلند ہو گئے۔”ارے جا، پرے ہٹ… شرم نہیں آئی ماں کے ساتھ ایسا گھٹیا مذاق کرتے ہوئے… پتا ہے کیسی حالت ہو گئی تھی میری… جان ہی نکال دی تُو نے… بےغیرت! ایسا کوئی کرتا ہے اپنی ماں کے ساتھ؟” فریدہ بیگم غصے میں آئیں اور دو تین مکے اس کی کمر پر جڑ دئیے۔”ارے امی جان، چھوڑیں نا… جو ہوا، اگر میں اسپتال کے بستر پر نہ پڑا ہوتا تو آپ رشنا سے شادی کے لیے کبھی نہ مانتیں، اس لیے مجھے یہ سب کرنا پڑا۔” حذیفہ مزے سے پوری کارروائی سنانے لگا۔”تو بھائی، ایکسیڈنٹ بھی خود ہی کروایا تم نے؟” عرشیا نے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔”ارے نہیں، وہ تو قدرت نے میرا ساتھ دیا۔” حذیفہ ہنستے ہوئے بولا۔”مجھے پتا ہے، گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی ہی پڑتی ہے۔” حذیفہ نے محاورہ سنایا۔ سب لوگ اس پوری فلم کو انجوائے کر رہے تھے، بس فریدہ بیگم ناراض بیٹھی تھیں۔
اسی لمحے کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک نسوانی وجود اندر آیا۔ وہ میں تھی، رشنا۔ میری اچانک آمد پر سب چونک کر میری طرف دیکھنے لگے۔ حذیفہ تو صدمے کی حالت میں آ گیا کہ اس وقت میں یہاں کیا کر رہی ہوں۔ میں نے سلام کیا اور پیچھے پیچھے سمر بھی کمرے میں داخل ہوا۔سب نے سلام کا جواب دیا اور زمان انکل نے میرے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔میں تھوڑا جھجکتے ہوئے بولی: “آپ سب لوگ میری اچانک آمد پر حیران ہوں گے… سمر نے مجھے بتایا کہ حذیفہ کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے، اس لیے میں اور سمر اُسے دیکھنے آ گئے۔”فریدہ بیگم نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔میں چلتی ہوئی ان کے قریب آئی، نیچے بیٹھ گئی اور اپنا ہاتھ اُن کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ حذیفہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگا۔میں آہستہ سے بولی: “آنٹی، میں مانتی ہوں آپ مجھ سے بہت ناراض ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔ آپ عمر میں مجھ سے بڑی ہیں، میرے دل میں آپ کا بے حد احترام ہے۔ آپ میری ماں جیسی ہیں اور جتنی محبت میں اپنی ماں سے کرتی ہوں، اتنی ہی آپ سے بھی کرتی ہوں۔ کیونکہ جب میں پہلی بار آپ کے گھر آئی تھی، آپ نے جس اپنائیت سے مجھے اپنے پاس بٹھایا، مجھے لگا ہی نہیں کہ میں اجنبیوں کے درمیان ہوں۔ وہ ایک ماں جیسا احساس تھا۔آنٹی، مجھے بہت افسوس ہے، اُس دن جو کچھ بھی ہوا، مجھے حذیفہ پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ کہنے کو یہ بات حذیفہ کے لیے شاید چھوٹی ہو، لیکن آپ کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ مجھے احساس ہو گیا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوئی… مجھے معاف کر دیں۔” میں ہاتھ جوڑے زمین پر بیٹھی تھی اور فریدہ بیگم سے اپنے کیے کی معافی مانگ رہی تھی۔ انہوں نے ایک نظر میری آنکھوں میں جھانکی اور میرے آنسو دیکھ کر مجھے دونوں ہاتھوں سے اٹھایا۔”بیٹیاں روتی ہوئی اچھی نہیں لگتیں،” یہ کہہ کر فریدہ آنٹی نے میرے آنسو صاف کیے اور مجھے سینے سے لگا لیا۔حذیفہ یہ منظر اپنے فون میں محفوظ کرنا چاہتا تھا لیکن اُسے یاد آیا کہ اُس کا فون تو شائد اپنی آخری سانسیں لے رہا ہوگا۔فریدہ بیگم بولیں: “مجھے بھی معاف کر دو بیٹا، عمر میں بڑی ہوں لیکن اُس دن مجھے بھی کچھ لحاظ کرنا چاہیے تھا۔ غصے میں نہ جانے تمہیں کیا کچھ کہہ دیا، مجھے بھی معاف کر دو۔””آنٹی، آپ سوری کہہ کر مجھے شرمندہ نہ کریں، آپ بڑی ہیں مجھ سے۔”ماحول ایک دم سنجیدہ اور پرسکون ہو چکا تھا۔ وہاں موجود تمام لوگ ناممکن کو ممکن ہوتا دیکھ رہے تھے۔تب ہی حذیفہ بولا: “چلو اب ہونے والی ساس بہو میں صلح ہو گئی، تو کوئی میری طرف بھی دھیان دے… کب سے یہ جذباتی سین دیکھ رہا ہوں، نہ آنسو نکل رہے ہیں، نہ شرمندگی ہو رہی ہے، سب روئے جا رہے ہیں، اور میں ایک اکیلا، بےچارہ سب کی شکلیں دیکھ رہا ہوں۔””تو گھر چل پتر، پھر تجھے بتاؤں گی،” فریدہ بیگم اپنی پرانی ٹون میں واپس آ گئی تھیں۔”نہیں امی، اب آپ کی بہو آئے گی اور مجھے آپ کے چمٹے سے بچائے گی۔ کیا خیال ہے، رشنا؟” حذیفہ نے شرارت سے ایک بھنویں اٹھا کر کہا۔”بالکل نہیں، میں تو آنٹی کی سائیڈ پر ہوں، اب ایک نہیں دو دو چمٹے لگیں گے تمہیں۔” میں نے ہنستے ہوئے دو انگلیاں دکھا کر کہا۔”مر گئے…” حذیفہ نے دونوں ہاتھ سر کے پیچھے لے جا کر کہا، جس پر سب کا قہقہہ بلند ہوا۔فریدہ آنٹی نے مجھے گلے سے لگایا اور پیار کیا۔”بھائی، اب اگر گلے شلے مل لیے ہوں تو باقی معاملات بھی طے کر لیں،” حذیفہ نے جوش سے کہا۔”شرم کرو بھائی، موت کے منہ سے نکل آئے ہو، شکر کرو جان بچ گئی تمہاری،” عرشیا نے منہ بنا کر کہا۔”تمہیں تو بہت برا لگ رہا ہو گا چھوٹی چڑیل، کہ میں زندہ کیوں بچ گیا نا؟ اب ایسا منہ کیوں بنا رہی ہو؟” حذیفہ نے عرشیا کی نقل اتارتے ہوئے کہا۔سب خوش گپیوں میں مصروف تھے، میں فریدہ آنٹی کے ساتھ ہلکی پھلکی باتیں کر رہی تھی۔ تب ہی آنٹی نے اپنی انگلی سے انگوٹھی نکالی اور میری انگلی میں آرام سے پہنا دی۔”ابھی فی الحال یہ انگوٹھی میری طرف سے ایک چھوٹا سا تحفہ ہے، بعد میں پوری تیاری کے ساتھ رشتہ لے کر جاؤں گی تمہارے گھر، تمہاری امی ابو سے ملنے… اور پھر بہت جلد تمہیں اپنی بیٹی بنا کر لاؤں گی، ان شاء اللہ۔”میں آنٹی کی دی ہوئی انگوٹھی کو دیکھنے لگی، وہ میرے لیے کوئی معمولی تحفہ نہ تھا، آنٹی نے بڑی محبت سے حذیفہ کے نام کی انگوٹھی میری انگلی میں پہنائی تھی۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھی کہ اچانک نظر سمر پر پڑی، جو کونے میں کھڑا سب کو دیکھ رہا تھا۔ میں اُٹھ کر اُس کے قریب گئی۔”تھینک یو، سمر۔” میں نے مسکرا کر کہا۔”کس لیے؟” اُس نے سوالیہ نگاہوں سے پوچھا۔”میری خواہش کی قدر کرنے کے لیے۔”سمر کچھ لمحے مجھے دیکھتا رہا، پھر ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بولا:”خوش رہو، ہمیشہ۔”یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر چلا گیا اور میں وہیں کھڑی اُسے جاتا دیکھتی رہی۔وہاں سب خوش تھے، میں، حذیفہ، فریدہ آنٹی، زمان انکل، عرشیا، شیراز بھائی، قرأت بھابھی… لیکن کوئی اندر ہی اندر اُداس تھا۔وہ جا چکا تھا، اور میں اب بھی اُسی کو سوچ رہی تھی۔ پھر میری نظر حذیفہ پر پڑی، جو اپنی بہن عرشیا کو بات بات پر چھیڑ رہا تھا اور جب وہ چِڑ جاتی، تو آگے سے ہنستا۔میں نے ایک انسان کی خوشیوں کی خاطر دوسرے انسان کی خوشیاں … سمر آج بھی میرے ساتھ کھڑا تھا اور اُس کا وعدہ تھا کہ وہ مستقبل میں بھی میرا ساتھی رہے گا، ہمیشہ… لیکن حذیفہ… وہ سراپا شرارت، نٹ کھٹ، پاگل سا انسان… ساری دنیا سے الگ، اپنی ایک دنیا میں مگن… وہ سمر سے مختلف تھا۔ اُس کی عادات، اس کا انداز، سب کچھ سمر سے مختلف تھا۔”لیکن سمر جیسا دوست کوئی نہیں۔”وہ میرا ساتھی، میرا ہمراز، محض ایک دوست نہیں بلکہ ایک ایسا رفیقِ جاں تھا جو دل کی ہر دھڑکن سے واقف، ہر احساس سے آشنا تھا۔ اور وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا…کاش وہ بھی ایک دن کھل کر مسکرائے، بے جھجک قہقہہ لگائے اور میرے سامنے بیٹھ کر کہے:”رُشنا! تم نے حذیفہ کو چاہا… اور میں نے تمہیں۔”اور میں، ہنستے ہوئے کہوں:”سمر، تم نے بہت دیر کر دی۔”میں تو کب کی حذیفہ کے رنگ میں ڈھل چکی ہوں…اور وہ، ایک نرم سی مسکراہٹ لبوں پر سجا کر، ہولے سے کہے:”مبارک ہو! تمہاری محبت جیت گئی…”
ختم شدہ
