Dil ya dharkan Ep 17 written by siddiqui

دل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۱۷

ماہی دروازے پر کھڑی اپنے بابا کا انتظار کر رہی تھی۔ آج ہفتہ تھا، اور بابا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس سے ملنے آئیں گے۔ اس کا ننھا سا دل بے چینی سے دھڑک رہا تھا، نظریں بار بار سڑک کی طرف اٹھتیں، لیکن بابا کی کوئی خبر نہ تھی۔

اتنے میں دور سے ایک گاڑی گیٹ کے اندر آتی دکھائی دی۔ ماہی کی آنکھوں میں امید جاگی، مگر جیسے ہی گاڑی قریب آئی، وہ پہچان گئی کہ یہ اس کے بابا کی نہیں، بلکہ ارشد صاحب کی تھی۔

یہاں کیا کر رہی ہو؟ ارشد صاحب نے گاڑی سے اترتے ہی پوچھا۔

بابا کا انتظار کر رہی ہوں۔ اس بار وہ پکا مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے… اگر نہیں لے کر گئے تو میں خود زبردستی چلی جاؤں گی! ماہی نے ضدی لہجے میں کہا، جیسے خود کو یقین دلا رہی ہو۔

ارشد صاحب نے اس کی بات سنی، مگر ان کے چہرے پر ناپسندیدگی کا ہلکا سا سایہ ابھر آیا۔ انہوں نے کچھ لمحے خاموشی سے ماہی کو دیکھا، پھر نظریں چرا کر اندر کی طرف بڑھ گئے۔
ماہی نے ان کے تاثرات کو محسوس کیا، لیکن نظر انداز کر دیا۔
بابا آئیں گے… وہ ضرور آئیں گے… وہ خود سے کہتی رہی، لیکن دل کے کسی کونے میں ایک انجانا خوف سرسرانے لگا تھا۔

کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ماہی تھک کر اندر چلی آئی۔ اس کی آنکھیں مسلسل دروازے پر جمی رہی تھیں، لیکن بابا کی کوئی خبر نہ تھی۔ دل میں عجیب سی بےچینی اور اداسی گھر کر گئی تھی۔

ارشد صاحب صوفے پر بیٹھے فون چلا رہے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے ماہی کو اپنے کمرے کی طرف جاتے دیکھا، تو آواز لگائی
کیا ہوا؟ بابا نہیں آئے؟

ماہی جو ابھی ابھی اندر آئی تھی، ان کے سوال پر جیسے سارا ضبط کھو بیٹھی۔ وہ تیزی سے ان کے پاس آئی، اور تقریباً غصے میں بولی
ایک نمبر کے نالائق بابا ہیں میرے! ماہی کا کوئی خیال نہیں ہے ان کو!
اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے۔ وہ ہونٹ بھینچ کر کھڑی ہوگئی، جیسے خود کو مزید کچھ کہنے سے روک رہی ہو، مگر چہرے کے تاثرات چیخ چیخ کر اس کے دل کا حال بتا رہے تھے۔

ارشد صاحب نے گہری سانس لی اور پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا، مگر ماہی نے چہرہ موڑ لیا۔

بس کر دو ماہی، ایسے بابا کے بارے میں نہیں بولتے… ارشد صاحب نے نرم لہجے میں کہا۔

تو پھر وہ میرے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟ ماہی کی آواز بھیگ گئی تھی، آنکھوں میں بےبسی تھی، جیسے وہ خود کو مضبوط دکھانے کی کوشش کر رہی ہو، مگر اندر سے ٹوٹ رہی ہو۔

ارشد صاحب نے ایک لمحے کے لیے ماہی کی آنکھوں میں جھانکا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ غصہ، یہ نافرمانی، یہ چڑچڑاپن کسی ضد یا بگاڑ کا نتیجہ نہیں تھا — یہ سب ادھوری محبت کی وجہ سے تھا۔
وہ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولے
بیٹا، تمہارے بابا بھی مجبور ہوں گے، ہر کوئی حالات میں پھنسا ہوتا ہے۔ زندگی ہمیشہ ہمارے مطابق نہیں چلتی۔

ماہی نے تیزی سے چہرہ موڑا اور غصے سے بولی:
یہ تو وہی بات ہوئی جو سب کہتے ہیں! کہ بیٹیوں کو نظر انداز کرنے والے باپ مجبور ہوتے ہیں؟ مجھے یہ کہانی مت سنائیں پھوپھا، میں بچی نہیں ہوں! بابا کو اگر میرا خیال ہوتا تو وہ مجھے لینے آتے، وہ میری منتظر آنکھوں کا بوجھ سمجھتے!

ارشد صاحب خاموش ہو گئے۔ وہ جانتے تھے کہ ابھی کچھ بھی کہنا بےکار تھا۔ ماہی کے دل میں جو درد تھا، وہ الفاظ سے کم نہیں ہو سکتا تھا۔

ماہی نے ایک گہری سانس لی، آنکھیں پونچھیں،
بس، ٹھیک ہے۔ اب میں ان کا انتظار نہیں کروں گی۔ جب آئیں گے، تب ہی ملیں گے، ورنہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا!

یہ کہتے ہوئے وہ زبردستی مسکرائی اور تیزی سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
لیکن جیسے ہی دروازہ بند ہوا، وہ دیوار سے لگ کر زمین پر بیٹھ گئی۔
آنکھوں میں ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔
بابا… کیوں؟
وہ خود سے سوال کرتی رہی، مگر جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔۔۔

ماہی کو امید تھی کہ آج کے دن اس کے بابا اسے لینے آئیں گے۔ لیکن جب شام گزر گئی اور وہ نہ آئے، تو اس نے خود کو یقین دلانا شروع کر دیا کہ شاید آج بھی وہ نہیں آئیں گے۔ اس نے اپنے دل کو سخت کرنا چاہا، خود کو سمجھانا چاہا کہ اب اسے اپنے بابا کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، لیکن دل تھا کہ ماننے کو تیار ہی نہ تھا۔
وہ ابھی اپنے کمرے میں بیٹھی تھی کہ باہر گاڑی رکنے کی آواز آئی۔ پہلے تو وہ یہ سوچ کر خاموش رہی کہ شاید پھوپو آئی ہیں لیکن پھوپو تو بہت پہلے گھر آچکی تھی ، لیکن چند لمحے بعد جب دروازہ کھلا اور باہر سے قدموں کی آوازیں سنائی دیں، تو اس کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔
بابا؟
وہ بے اختیار دروازے کی طرف بڑھی، لیکن جیسے ہی دروازے کے قریب پہنچی، باہر سے پھوپھو کی آواز آئی۔
بھائی، آپ آگئے؟ آپ کو شام تک آنا تھا نا؟
ماہی کے قدم وہیں رک گئے۔ تو بابا آ ہی گئے … مگر اتنی دیر سے؟

الیاس صاحب کی تھکی ہوئی آواز سنائی دی۔
ہاں، بس کچھ کام میں پھنس گیا تھا۔
ماہی کے دل میں ایک ٹھنڈی لہر دوڑ گئی۔ پھر وہی بہانے؟ پھر وہی لاپروائی؟
وہ دروازے کے پیچھے کھڑی سنتی رہی۔

ماہی سو گئی کیا؟
یہ سوال سن کر اس کے اندر امید کی ایک کرن جاگی، مگر سونیا کی بات نے وہ کرن بجھا دی۔
پتا نہیں، شاید جاگ رہی ہو۔ میں دیکھتی ہوں۔
سونیا دروازے کی طرف بڑھیں، مگر ماہی نے جلدی سے لائٹ بند کر دی اور بستر پر لیٹ گئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن اس نے انہیں گرنے نہیں دیا۔
اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا بابا، اب میں آپ کا انتظار نہیں کروں گی۔
یہ سوچتے ہوئے اس نے اپنی آنکھیں اور سے بند کر لیں، مگر دل کے کسی نہ کسی کونے میں ابھی بھی امید باقی تھی…

سونیا نے دروازہ کھولا اور ماہی کو بستر پر لیٹا دیکھا تو دھیرے سے مسکرا کر واپس مڑ گئیں۔
لگتا ہے سو گئی ہے، انہوں نے الیاس صاحب سے کہا۔

الیاس صاحب نے ایک گہری سانس لی اور صوفے پر بیٹھ گئے۔
ہمم… ٹھیک ہے، میں صبح مل لوں گا۔

یہ سن کر ماہی کی مٹھی سختی سے بند ہو گئی۔
صبح؟ انہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ وہ سارا دن ان کا انتظار کرتی رہی، دروازے پر بیٹھی رہی، شام سے رات ہو گئی اور وہ نہیں آئے۔
اور اب وہ کہہ رہے تھے کہ صبح مل لیں گے؟
جیسے کوئی عام بات ہو، جیسے وہ ان کے لیے بس ایک ذمہ داری ہو جسے کسی بھی وقت پورا کیا جا سکتا ہے۔
ماہی نے تکیے میں اپنا چہرہ چھپا لیا، مگر آنکھوں سے بہنے والے آنسو نہ رک سکے۔
اب میں واقعی آپ کا انتظار نہیں کروں گی، بابا۔ اب میں واقعی بدل جاؤں گی۔

اگلی صبح جب ماہی کی آنکھ کھلی، تو وہ خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط محسوس کر رہی تھی۔
وہ کسی سے شکوہ نہیں کرے گی، کسی سے امید نہیں لگائے گی۔
وہ تیار ہو کر ناشتے کے لیے نیچے آئی، جہاں پھوپھو اور پھوپھا ناشتہ کر رہے تھے۔
الیاس صاحب بھی وہیں بیٹھے تھے، اخبار میں مصروف۔
اچھا، جاگ گئی میری بیٹی؟
انہوں نے جیسے ہی اسے دیکھا، مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

ماہی نے ایک نظر ان پر ڈالی، اور پھر ناشتہ کرنے بیٹھ گئی۔

کیسی ہو؟ انہوں نے پوچھا، مگر ماہی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
وہ بس خاموشی سے ناشتہ کرتی رہی، جیسے وہاں کوئی ہو ہی نہ۔

سونیا نے حیرانی سے اسے دیکھا، پھر الیاس صاحب کی طرف دیکھا، جو اپنی بیٹی کے بدلے ہوئے انداز پر الجھن میں پڑ گئے تھے۔

ماہی، میں تم سے بات کر رہا ہوں۔

ماہی نے ناشتہ ختم کیا، ہاتھ صاف کیے، اور بغیر کچھ کہے وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
الیاس صاحب نے حیرانی اور ناراضگی سے اس کی طرف دیکھا۔

یہ اسے کیا ہو گیا ہے؟

پھر ناراض ہوگئی ہے اور کیا۔ آپ جو وقت اسے بتایا کریں، اسی وقت آیا کریں، ورنہ نہ آیا کریں۔ آپ کو پتہ تو ہے اس کا۔۔۔
سونیا نے ناراضی سے اپنے بھائی کی طرف دیکھا۔ وہ ماہی کے معاملے میں اپنے بھائی تک سے لڑنے کو تیار تھی۔

الیاس صاحب نے ناگواری سے ایک گہری سانس لی۔
بس اب اس کی ہر بات ماننا بھی ضروری ہو گیا؟ میں مصروف تھا، اسی لیے دیر ہو گئی۔ اِسی کی وجہ سے آج رات میں یہاں روکا بھی ہوں۔
وہ قدرے خفگی سے بولے۔

سونیا نے ان کی بات پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا۔

ہاں، مصروف تو آپ ہمیشہ ہی ہوتے ہیں، لیکن شاید آپ بھول رہے ہیں کہ وہ اب بڑی ہو رہی ہے… اور چیزوں کو سمجھنے لگی ہے۔ آپ نے اس سے ایک وعدہ کیا تھا، اور آپ ہی نے توڑ دیا۔

الیاس صاحب نے ایک پل کو خاموشی اختیار کی، مگر پھر کندھے اچکاتے ہوئے بولے،
بچوں کو اتنا ضدی نہیں بنانا چاہیے، میں اسے سمجھا دوں گا۔

سونیا نے گہری سانس لی اور نرمی سے کہا،
بچے ضدی نہیں بنتے، انہیں حالات ضدی بنا دیتے ہیں، بھائی۔ اور یہ تو آپ کی اپنی بیٹی ہے… اگر آج آپ نے اسے نہیں سمجھا، تو کل وہ آپ کو سننا بھی چھوڑ دے گی۔

یہ کہہ کر وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئیں، جبکہ الیاس صاحب سوچ میں پڑ گئے۔
انہیں معلوم تھا کہ ماہی کی ناراضگی وقتی نہیں تھی۔۔
اس کی آنکھوں میں جو بے اعتباری تھی،
وہ اتنی آسانی سے ختم نہیں ہو سکتی تھی۔

دوسری طرف ماہی اپنے کمرے میں کھڑکی کے پاس کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔
اس کے اندر ایک عجیب سی ویرانی تھی، ایک خالی پن، جیسے کسی نے اس کے دل میں دھیرے دھیرے محبت کی جگہ تلخی بھر دی ہو۔

اب میں کسی سے امید نہیں لگاؤں گی، اس نے خود سے عہد کیا۔
کسی سے کچھ بھی توقع نہیں رکھوں گی… کیونکہ جتنا کوئی اپنا لگتا ہے، اتنی ہی تکلیف دیتا ہے۔

یہ وہ لمحہ تھا جب ماہی بدل گئی تھی…
یا شاید یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ یہ وہ لمحہ تھا جب ماہی کو واقعی احساس ہو گیا کہ اب اسے خود کو سنبھالنا ہے، خود کو مضبوط کرنا ہے،
کیونکہ دنیا میں کسی کو بھی اس کے جذبات کی پرواہ نہیں تھی۔

سونیا جیسے ہی کچن میں گئی، ارشد صاحب نے الیاس کی طرف دیکھا اور نرمی سے بولے،
آپ اس کی باتوں کو دل پر مت لیجیے گا، آپ تو جانتے ہیں نا کہ وہ ماہی کے معاملے میں کتنی حساس ہے…

الیاس نے ایک گہری سانس لی اور جیسے خود کو کسی بڑے فیصلے کے لیے تیار کر لیا۔
میں سوچ رہا ہوں کہ میں شادی کر لوں…

ارشد صاحب نے چونک کر انہیں دیکھا،
دوسری شادی؟

ہاں، دوسری شادی۔

ارشد صاحب نے حیرانی سے پوچھا،
پر کس لیے؟

الیاس کی نظریں خلا میں کہیں جمی ہوئی تھیں، جیسے اپنے اندر کسی کشمکش میں مبتلا ہوں۔
ماہی کے لیے…

یہ سن کر ارشد صاحب مزید الجھ گئے،
ماہی کے لیے؟

میں سونیا سے کہوں گا کہ وہ میرے لیے کوئی اچھی عورت تلاش کرے، جو میرے لیے ایک اچھی بیوی اور ماہی کے لیے ایک اچھی ماں ثابت ہو۔ میں ماہی کو اب یوں نہیں دیکھ سکتا، وہ بار بار کہتی ہے کہ میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں۔ میں اسے اکیلے گھر پر بھی نہیں رکھ سکتا۔ اگر میں شادی کر لوں تو اسے ماں کی کمی محسوس نہیں ہوگی… اور ابھی وہ چھوٹی بھی ہے، آہستہ آہستہ ایڈجسٹ بھی کر لے گی۔

ارشد صاحب نے بغور الیاس کو دیکھا، ان کی آنکھوں میں کچھ ہلچل تھی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ بولے،
لیکن ضروری نہیں کہ آنے والی عورت ماہی کو ویسے ہی چاہے جیسے اس کی حقیقی ماں چاہتی تھی…

الیاس نے سر ہلایا، جیسے وہ خود بھی اس خدشے سے بے خبر نہ ہو۔
اسی لیے میں چاہوں گا کہ شادی کسی ایسی عورت سے ہو جس کا پہلے سے ایک بچہ ہو، جو ماہی کی صورتحال کو سمجھ سکے۔ جو خود بھی ماں ہو، اور ماہی کے جذبات کو محسوس کر سکے۔

ارشد صاحب نے اس بار کچھ سوچتے ہوئے سر ہلایا، جیسے انہیں یہ فیصلہ کسی حد تک مناسب لگا ہو۔
ہاں، یہ بہتر فیصلہ ہوگا… چلو، اب سونیا آتی ہے تو اس سے بات کرتے ہیں۔ وہ یقیناً کوئی اچھی عورت ڈھونڈ لے گی۔

الیاس نے گہری سانس لی۔
یہ فیصلہ آسان نہیں تھا، مگر اسے لگتا تھا کہ شاید یہی ایک راستہ بچا تھا، جو ماہی کو اس کی محرومیوں سے بچا سکتا تھا۔
مگر کیا واقعی؟
یہ سوال ابھی باقی تھا…

الیاس صاحب کے چار بھائی تھے، اور وہ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، مگر بہن صرف ایک تھی-سونیا۔ پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن، اور سب سے چھوٹی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ گھر میں سب کی لاڈلی تھی،

جب وہ یونیورسٹی میں تھی، تب ماں اور باپ دونوں کا انتقال ہوگیا۔ اس سانحے نے پورے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا۔ بھائی ایک دوسرے سے الگ ہو گئے، ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف ہوگیا، مگر سونیا… وہ سب سے زیادہ اپنے سب سے چھوٹے بھائی، الیاس کے قریب تھی، اس لیے وہ انہی کے پاس رہنے لگی۔ الیاس نے بھی کبھی اسے خود سے الگ نہیں ہونے دیا۔ ماں اور باپ کے بعد، وہی اس کی دنیا تھی۔۔

وقت گزرتا گیا، اور بالآخر ایک دن سونیا کی شادی ارشد سے ہوگئی۔ یہ شادی آسانی سے نہیں ہوئی تھی، کیونکہ سونیا شادی کے نام سے ہی بھاگتی تھی۔
سونیا ہمیشہ ایک خودمختار، آزاد خیال لڑکی تھی، جو اپنی زندگی اپنے اصولوں پر جینا چاہتی تھی۔ جب اس نے یونیورسٹی مکمل کی تو فوراً ایک اچھی نوکری ڈھونڈ لی، اور پھر اسی نوکری میں اتنی مگن ہوگئی کہ شادی جیسے خیال کو ذہن میں جگہ ہی نہ دی۔
وہ ارشد صاحب کے آفس میں جاب کرتی تھی، اور وہیں سے ان کی کہانی شروع ہوئی۔ ارشد صاحب ایک سنجیدہ، باوقار شخصیت کے مالک تھے، اور جب سے سونیا نے آفس جوائن کیا تھا، تب سے وہ اسے پسند کرنے لگے تھے۔۔۔

مگر سونیا… وہ تو شادی کے خیال سے ہی کوسوں دور بھاگتی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ شادی اس کی آزادی چھین لے گی، اسے کسی کے تابع کر دے گی، اور وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود نہیں کر سکے گی۔
ارشد صاحب کو سونیا کو منانے میں بہت وقت لگا۔ انہوں نے کبھی زبردستی نہیں کی، کبھی جذباتی دباؤ نہیں ڈالا، بلکہ ہمیشہ سونیا کو خود فیصلہ کرنے دیا۔ وہ جانتے تھے کہ سونیا کو جیتنے کے لیے صبر اور محبت کی ضرورت ہے، اور یہی انہوں نے کیا۔
رفتہ رفتہ، وقت نے سونیا کو بدلنا شروع کر دیا۔ اس نے ارشد کی سنجیدگی، اس کا خیال رکھنے والا مزاج اور سب سے بڑھ کر، اس کی غیر مشروط محبت کو محسوس کرنا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ، وہ یہ سمجھنے لگی کہ شادی صرف پابندی نہیں، بلکہ محبت اور تحفظ کا دوسرا نام بھی ہے۔
اور پھر ایک دن… آخرکار، اس نے ہاں کر دی۔
یوں سونیا، جو شادی کے نام سے بھاگتی تھی، ارشد صاحب کی زندگی کا حصہ بن گئی۔
۔۔۔۔

سونیا جیسے ہی کچن سے باہر آئی، الیاس صاحب نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا اور کہا:

میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔

سونیا کے قدم وہیں رک گئے۔ اس نے حیرانی سے اپنے بھائی کو دیکھا، جیسے یقین نہ آیا ہو کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔

پر بھائی، اس کی کیا ضرورت ہے؟ وہ بےاختیار بولی۔

الیاس صاحب نے گہری سانس لی، جیسے خود کو مضبوط کر رہے ہوں۔
مجھے ضرورت ہے، سونیا۔
ان کی آواز میں ایک عجیب سی سنجیدگی تھی، جس میں کچھ مایوسی، کچھ دکھ اور شاید کچھ امید بھی تھی۔

سونیا خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔

تم بس کوئی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت دیکھو، اور مجھے بتاؤ…

ماہی نے غصے میں زمین پر پیر مارا اور ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں شدید غصہ تھا، چہرہ سرخ ہوچکا تھا، اور سانسیں بےترتیب ہو رہی تھیں۔

کچھ دیر پہلے وہ خود کو پرسکون کرنے کے بعد نیچے آئی تھی، اپنے بابا سے بات کرنے کے ارادے سے،
مگر جیسے ہی اس نے سونیا اور الیاس صاحب کی گفتگو سنی، اس کا صبر جواب دے گیا۔

ہاں، اب آپ شادی کریں…!
ماہی نے طنزیہ انداز میں کہا، اس کی آواز میں تلخی واضح تھی۔

سونیا اور الیاس صاحب دونوں نے چونک کر ماہی کو دیکھا، جو اب پوری طرح غصے میں بپھری ہوئی تھی۔

جو کرنا ہے وہ کریں، اور میرے گھر سے بھی چلے جائیں! اور دوبارہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے!
ماہی کی آواز بلند ہوگئی، وہ ضبط کی آخری حد پر تھی۔

الیاس صاحب نے سختی سے ماہی کو دیکھا، مگر وہ بدستور اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔

اور پھوپو، آپ نہیں ڈھونڈیں گی لڑکی! جا کر خود ڈھونڈیں، جہاں مرضی کریں!
اس نے غصے سے کہا اور رخ موڑ کر چلنے لگی۔

سونیا جلدی سے آگے بڑھی،
کیا ہوگیا ماہی۔۔۔ ؟

یہ تُم کیسے بات کر رہی ہو اپنے بابا سے۔۔ ؟ الیاس صاحب نے ناگواری سے ماہی کی طرف دیکھ کر کہا۔

ماہی ایسی ہی بات کرتی ہے، کوئی مسئلہ ہے آپ کو؟
وہ رک کر پیچھے مڑی اور اپنے بابا کی طرف دیکھا، جن کے چہرے پر سختی اور بے زاری تھی۔

آپ جائیں، شادی کریں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ماہی نے ایک طنزیہ ہنسی دی، پھر اپنے بیگ کی طرف بڑھی۔

پھوپو، میں اسکول جا رہی ہوں۔
وہ کہتی ہوئی تیزی سے باہر نکل گئی، جہاں اس کا ڈرائیور ہمیشہ کی طرح تیار کھڑا تھا۔

الیاس صاحب نے غصے سے لمبی سانس لی، پھر سونیا کی طرف دیکھا۔
یہ لڑکی ہر وقت جذبات میں آجاتی ہے…! ایک تو میں اس کے لیے رات بھر یہاں روکا ہوں۔۔۔ خیر اب میں بھی چلتا ہوں۔
وہ سخت لہجے میں بولے اور دروازے کی طرف بڑھ گئے۔

لیکن جانے سے پہلے وہ رک کر ایک لمحے کے لیے پلٹے اور سونیا سے کہا،
اور سنو، تم لڑکی ڈھونڈ لو، ورنہ میں بھابھی سے کہہ دوں گا!

یہ کہتے ہی وہ بنا سونیا کی کوئی بات سنے گھر سے نکل گئے، اور سونیا بس بےبس کھڑی رہ گئی۔

سونیا غصے سے ہاتھ باندھے کھڑی تھی، چہرہ سختی سے تن گیا تھا۔
دیکھ رہے ہیں آپ؟ یہ بھائی کو دن بدن کیا ہوتا جا رہا ہے؟ میں بتا رہی ہوں، میں نہیں ڈھونڈ رہی ان کے لیے لڑکی! خود ڈھونڈ لیں، ورنہ ان کی اتنی ساری بھابھیاں تو ہیں ہی!

ارشد صاحب نے نرمی سے مسکرا کر اس کا چہرہ دیکھا اور آرام سے بولے،
دیکھو تو ذرا، بالکل ماہی کی طرح غصہ کر رہی ہو! وہ بھی ابھی ایسا ہی ری ایکٹ کر کے گئی ہے۔ یہی میں سوچ رہا تھا کہ ماہی اتنی جذباتی اور ضدی کیوں ہے، پہلے لگا بھائی صاحب پر گئی ہوگی، لیکن نہیں… وہ تو پوری کی پوری تم پر گئی ہے!

سونیا نے غصے سے گھور کر ارشد کو دیکھا،
ارشد، یہ کوئی وقت ہے مذاق کرنے کا؟

ارشد نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا،
مذاق کہاں کر رہا ہوں، سچ کہہ رہا ہوں! دیکھو، ذرا سی بات پر کیسے ناک پر غصہ آ چکا ہے۔۔۔

سونیا کچھ دیر خاموش رہی، پھر آہستہ سے چلتی ہوئی ارشد کے پاس آئی اور اس کے ساتھ بیٹھ گئی، نرمی سے بولی،
کیا واقعی ماہی مجھ پر گئی ہے؟

ارشد نے ان کے ہاتھ تھام لیے اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا،
ہاں نا! ابھی دیکھو، تم پوری بات سنے بغیر بھڑک گئیں۔۔

سونیا نے ایک گہرا سانس لیا،
وہ تو ماہی کی وجہ سے… یہ بھائی صاحب کو اس کی کیفیت سمجھ ہی نہیں آتی۔۔

ارشد نے سنجیدگی سے کہا،
دیکھو، وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ تم ایک اچھی سی لڑکی دیکھو اور ان کی شادی کروا دو۔ وہ اکیلے رہ کر بہت چڑچڑے ہو گئے ہیں، تبھی ماہی کو سمجھ بھی نہیں پا رہے۔ شادی ہو جائے گی تو ان کا اکیلا پن بھی دور ہو جائے گا، اور ہو سکتا ہے وہ نارمل ہو جائیں۔ پھر ماہی تو ان کی بیٹی ہے، ابھی چھوٹی ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب وہ ٹھیک ہو جائیں گے، تو ماہی بھی ٹھیک ہو جائے گی۔ اور پھر، انہوں نے کہا ہے کہ کوئی ایسی لڑکی دیکھو جو ماں بھی ہو، تاکہ وہ ماہی کو سمجھے… ہوسکتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔

سونیا کچھ لمحے سوچتی رہی، پھر آہستہ سے بولی،
تو وہ چاہتے ہیں کہ ماہی کو اپنے ساتھ رکھیں، اسی لیے دوسری شادی کا سوچ رہے ہیں؟

ہاں، تاکہ جب وہ گھر پر نہ ہوں، تو ماہی کا خیال رکھنے کے لیے کوئی ہو۔

سونیا نے سر ہلایا،
ہاں، یہ تو اچھی بات ہے… لیکن پھر ماہی یہاں سے چلی جائے گی…
یہ سوچ کر اس کے لہجے میں اداسی اتر آئی تھی۔

خیر کوئی نہیں اس میں ماہی کی ہی بھلائی ہے۔۔ میں اب بھائی کے لیے اچھی سے لڑکی دیکھوں گی۔۔
وہ خوشی سے کہتی آفس کے لیے تیار ہونے اپنے روم کی طرف بڑھ گئی

جائیگی تو تب جب میں اسے یہاں سے جانے دوں گا۔۔۔
وہ سونیا کو جاتا دیکھ مسکرا کر بولے۔
تم فکر مت کرو، سویٹ ہارٹ، وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہی رہے گی۔۔۔

ماہی کو کوئی سمجھے نہ سمجھے لیکن ارشد صاحب ماہی کو اچھے سے سمجھ چُکے تھے۔۔ اور اب وہ اپنے مطلب کا گیم چلنے والے تھے۔۔۔

+++++++++++++

ماہی اسکول سے واپس آتے ہی گھر میں داخل ہوئی۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی لیکن پھوپو کہیں دکھائی نہیں دیں، البتہ ارشد صاحب لاؤنج میں موجود تھے۔ ماہی نے بیگ ایک طرف رکھا اور سیدھا ان کے پاس جا کھڑی ہوئی۔

یہ آپ دونوں کا کیا چلتا رہتا ہے۔۔۔؟
وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولی۔

ارشد صاحب نے اخبار سے نظریں ہٹائیں اور حیرانی سے پوچھا،
کیا؟

کبھی آپ گھر پر ہوتے ہیں، کبھی پھوپو۔۔۔ ایک ساتھ دونوں کا آفس میں دل نہیں لگتا یا لڑائی ہوتی ہے آپس میں بہت زیادہ؟
ماہی نے مشکوک نظروں سے انہیں دیکھا۔

ارشد صاحب مسکرائے اور صوفے پر ذرا آرام سے بیٹھے،
ہم تمہاری وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔۔۔ تمہیں گھر میں اکیلا تھوڑی نہ چھوڑ سکتے۔۔۔ ہمیں پتہ ہوتا ہے اس وقت تُمہارے اسکول سے آنے کا وقت ہوتا ہے، تو کوئی نہ کوئی گھر پر موجود ہوتا ہے۔ تُمہاری پھوپو بس آج مصروف تھی، اسی لیے میں آگیا۔

ماہی نے آنکھیں سکیڑیں،
ماہی بچی تھوڑی ہے۔۔۔

ارشد صاحب نے ہلکا سا قہقہہ لگایا،
ہاں، معلوم ہے۔

پھر؟
ماہی نے ہنوز شک بھرے انداز میں پوچھا۔

ہمیں تُمہاری پروا ہے۔۔۔ اسی لیے ایسا کرتے ہیں۔
انہوں نے نرمی سے کہا۔

ماہی کے چہرے پر ایک لمحے کو تاثرات بدلے، مگر وہ فوراً کندھے اچکاتی صوفے پر گر گئی،
پھر بھی کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے مجھے۔۔۔
وہ بڑبڑائی، لیکن ارشد صاحب محض مسکرا دیے۔

اچھا یہ بتائیں، بابا کو کوئی فرق پڑا تھا؟ میرے جانے کے بعد؟
ماہی نے گہری نظروں سے ارشد صاحب کو دیکھا۔

ارشد صاحب نے ایک پل کو خاموشی اختیار کی، جیسے الفاظ چُن رہے ہوں، پھر ہلکے سے سر ہلاتے ہوئے کہا،
نہیں۔۔۔

ماہی کے چہرے پر ایک تلخ سی مسکراہٹ ابھری،
پتہ تھا، یہ نہ ایسے ہی ہیں۔۔۔
اس نے ہلکے سے سر جھٹک دیا، جیسے دل کو سمجھا رہی ہو کہ جو سچائی اس نے ہمیشہ سے محسوس کی تھی، وہی حقیقت تھی۔

جب انہیں تمہاری پروا نہیں تو تم کیوں سوچ رہی ہو ان کے بارے میں؟ چھوڑ دو، کرنے دو جو کرنا چاہتے ہیں، دوسری شادی کرنی ہے تو کرنے دو۔۔۔
ارشد صاحب نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا۔

ماہی نے ایک گہری سانس لی، آنکھوں میں عجیب سی سختی تھی۔
ہاں، میری بلا سے! بھاڑ میں جائیں… ماہی کو کوئی پروا نہیں ہے!
اس نے خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن اس کی آواز میں کہیں نہ کہیں ٹوٹنے کا احساس جھلک رہا تھا۔

یہ کہہ کر وہ صوفے سے اٹھی اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں چلی گئی، جبکہ ارشد صاحب پیچھے سے بس اسے جاتے دیکھتے رہ گئے۔

اور ایسے ماہی کے دل میں بدگمانی کا بیج بویا جانے لگا۔ بابا کے رویے نے، ان کی لاپرواہی نے، اور پھر ان کی دوسری شادی کی بات نے ماہی کے دل میں عجیب سی بے چینی بھر دی تھی۔ وہ پہلے ہی خود کو غیر اہم محسوس کرتی تھی، اور اب یہ سب کچھ اس کے اندر مزید تلخی پیدا کر رہا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ زیادہ حساس ہوتی جا رہی تھی، ہر چھوٹی بات پر دل میں وہم پالنے لگی تھی۔ اُسے لگنے لگا کہ شاید وہ واقعی غیر ضروری ہے، شاید وہ بس ایک بوجھ ہے جسے سب نے برداشت کیا ہوا ہے۔ یہی بدگمانی اسے اندر ہی اندر کھا رہی تھی، اور آہستہ آہستہ اس کا رویہ سب کے لیے بدلنے لگا۔

ایسے ہی چلتے چلتے، الیاس صاحب نے بھی دوسری شادی کر لی تھی۔ یہ خبر جب ماہی کو ملی، تو وہ بے حد خاموش ہو گئی۔ نہ کوئی چیخ و پکار، نہ کوئی احتجاج۔ بس ایک گہری خاموشی، جو کسی طوفان سے کم نہیں تھی۔

اسے یاد آیا، وہ دن جب اس نے اپنے بابا سے کہا تھا کہ اگر وہ دوسری شادی کریں گے تو اسے کبھی اپنا چہرہ نہیں دکھائیں گے۔ اور آج، بابا نے واقعی اپنی نئی زندگی شروع کر لی تھی، بغیر اس کی پرواہ کیے۔

ماہی نے خود کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ اب اس کی زندگی میں بابا کی کوئی جگہ نہیں، لیکن دل تھا کہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ ہر لمحہ ایک نیا سوال جنم لے رہا تھا۔

کیا واقعی میں غیر ضروری تھی؟
کیا بابا کو میری ضرورت نہیں رہی؟
یا شاید… کبھی تھی ہی نہیں؟

یہی بدگمانی، یہی زخم ماہی کے دل میں اور گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ بدگمانی زہر کی طرح ہوتی ہے، آہستہ آہستہ روح میں سرایت کر جاتی ہے۔ پہلے صرف ایک خیال کی طرح آتی ہے، پھر دل و دماغ پر چھا جاتی ہے، اور آخر میں انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔

ماہی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا۔ بابا کی شادی کی خبر نے اس کے اندر ایک ایسا لاوا بھر دیا تھا، جو بظاہر تو خاموش تھا، مگر اندر ہی اندر سب کچھ جلا رہا تھا۔

شاید بابا کبھی میرے تھے ہی نہیں…
یہ سوچیں اس کے دل کو زہر آلود کر رہی تھیں۔ پہلے وہ لڑنا جانتی تھی، مگر اب دل نے ہی ہار مان لی تھی۔ یہ زہر صرف رشتوں کو ختم نہیں کرتا، بلکہ انسان کو خود سے بھی دور کر دیتا ہے۔
++++++++++++

ماہی اسکول سے واپس آتے ہی گھر میں داخل ہوئی۔ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی لیکن پھوپو کہیں دکھائی نہیں دیں، البتہ ارشد صاحب لاؤنج میں موجود تھے۔ ماہی نے بیگ ایک طرف رکھا اور سیدھا ان کے پاس جا کھڑی ہوئی۔

یہ آپ دونوں کا کیا چلتا رہتا ہے۔۔۔؟
وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولی۔

ارشد صاحب نے اخبار سے نظریں ہٹائیں اور حیرانی سے پوچھا،
کیا؟

کبھی آپ گھر پر ہوتے ہیں، کبھی پھوپو۔۔۔ ایک ساتھ دونوں کا آفس میں دل نہیں لگتا یا لڑائی ہوتی ہے آپس میں بہت زیادہ؟
ماہی نے مشکوک نظروں سے انہیں دیکھا۔

ارشد صاحب مسکرائے اور صوفے پر ذرا آرام سے بیٹھے،
ہم تمہاری وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔۔۔ تمہیں گھر میں اکیلا تھوڑی نہ چھوڑ سکتے۔۔۔ ہمیں پتہ ہوتا ہے اس وقت تُمہارے اسکول سے آنے کا وقت ہوتا ہے، تو کوئی نہ کوئی گھر پر موجود ہوتا ہے۔ تُمہاری پھوپو بس آج مصروف تھی، اسی لیے میں آگیا۔

ماہی نے آنکھیں سکیڑیں،
ماہی بچی تھوڑی ہے۔۔۔

ارشد صاحب نے ہلکا سا قہقہہ لگایا،
ہاں، معلوم ہے۔

پھر؟
ماہی نے ہنوز شک بھرے انداز میں پوچھا۔

ہمیں تُمہاری پروا ہے۔۔۔ اسی لیے ایسا کرتے ہیں۔
انہوں نے نرمی سے کہا۔

ماہی کے چہرے پر ایک لمحے کو تاثرات بدلے، مگر وہ فوراً کندھے اچکاتی صوفے پر گر گئی،
پھر بھی کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے مجھے۔۔۔
وہ بڑبڑائی، لیکن ارشد صاحب محض مسکرا دیے۔

اچھا یہ بتائیں، بابا کو کوئی فرق پڑا تھا؟ میرے جانے کے بعد؟
ماہی نے گہری نظروں سے ارشد صاحب کو دیکھا۔

ارشد صاحب نے ایک پل کو خاموشی اختیار کی، جیسے الفاظ چُن رہے ہوں، پھر ہلکے سے سر ہلاتے ہوئے کہا،
نہیں۔۔۔

ماہی کے چہرے پر ایک تلخ سی مسکراہٹ ابھری،
پتہ تھا، یہ نہ ایسے ہی ہیں۔۔۔
اس نے ہلکے سے سر جھٹک دیا، جیسے دل کو سمجھا رہی ہو کہ جو سچائی اس نے ہمیشہ سے محسوس کی تھی، وہی حقیقت تھی۔

جب انہیں تمہاری پروا نہیں تو تم کیوں سوچ رہی ہو ان کے بارے میں؟ چھوڑ دو، کرنے دو جو کرنا چاہتے ہیں، دوسری شادی کرنی ہے تو کرنے دو۔۔۔
ارشد صاحب نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا۔

ماہی نے ایک گہری سانس لی، آنکھوں میں عجیب سی سختی تھی۔
ہاں، میری بلا سے! بھاڑ میں جائیں… ماہی کو کوئی پروا نہیں ہے!
اس نے خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن اس کی آواز میں کہیں نہ کہیں ٹوٹنے کا احساس جھلک رہا تھا۔

یہ کہہ کر وہ صوفے سے اٹھی اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں چلی گئی، جبکہ ارشد صاحب پیچھے سے بس اسے جاتے دیکھتے رہ گئے۔

اور ایسے ماہی کے دل میں بدگمانی کا بیج بویا جانے لگا۔ بابا کے رویے نے، ان کی لاپرواہی نے، اور پھر ان کی دوسری شادی کی بات نے ماہی کے دل میں عجیب سی بے چینی بھر دی تھی۔ وہ پہلے ہی خود کو غیر اہم محسوس کرتی تھی، اور اب یہ سب کچھ اس کے اندر مزید تلخی پیدا کر رہا تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ زیادہ حساس ہوتی جا رہی تھی، ہر چھوٹی بات پر دل میں وہم پالنے لگی تھی۔ اُسے لگنے لگا کہ شاید وہ واقعی غیر ضروری ہے، شاید وہ بس ایک بوجھ ہے جسے سب نے برداشت کیا ہوا ہے۔ یہی بدگمانی اسے اندر ہی اندر کھا رہی تھی، اور آہستہ آہستہ اس کا رویہ سب کے لیے بدلنے لگا۔

ایسے ہی چلتے چلتے، الیاس صاحب نے بھی دوسری شادی کر لی تھی۔ یہ خبر جب ماہی کو ملی، تو وہ بے حد خاموش ہو گئی۔ نہ کوئی چیخ و پکار، نہ کوئی احتجاج۔ بس ایک گہری خاموشی، جو کسی طوفان سے کم نہیں تھی۔

اسے یاد آیا، وہ دن جب اس نے اپنے بابا سے کہا تھا کہ اگر وہ دوسری شادی کریں گے تو اسے کبھی اپنا چہرہ نہیں دکھائیں گے۔ اور آج، بابا نے واقعی اپنی نئی زندگی شروع کر لی تھی، بغیر اس کی پرواہ کیے۔

ماہی نے خود کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ اب اس کی زندگی میں بابا کی کوئی جگہ نہیں، لیکن دل تھا کہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا۔ ہر لمحہ ایک نیا سوال جنم لے رہا تھا۔

کیا واقعی میں غیر ضروری تھی؟
کیا بابا کو میری ضرورت نہیں رہی؟
یا شاید… کبھی تھی ہی نہیں؟

یہی بدگمانی، یہی زخم ماہی کے دل میں اور گہرے ہوتے جا رہے تھے۔ بدگمانی زہر کی طرح ہوتی ہے، آہستہ آہستہ روح میں سرایت کر جاتی ہے۔ پہلے صرف ایک خیال کی طرح آتی ہے، پھر دل و دماغ پر چھا جاتی ہے، اور آخر میں انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔

ماہی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا۔ بابا کی شادی کی خبر نے اس کے اندر ایک ایسا لاوا بھر دیا تھا، جو بظاہر تو خاموش تھا، مگر اندر ہی اندر سب کچھ جلا رہا تھا۔

شاید بابا کبھی میرے تھے ہی نہیں…

یہ سوچیں اس کے دل کو زہر آلود کر رہی تھیں۔ پہلے وہ لڑنا جانتی تھی، مگر اب دل نے ہی ہار مان لی تھی۔ یہ زہر صرف رشتوں کو ختم نہیں کرتا، بلکہ انسان کو خود سے بھی دور کر دیتا ہے۔

یہ لو ماہی، تمہارے ڈیڈ کی کال آئی ہے، بات کرنی ہے؟
ارشد صاحب نے اپنا فون ماہی کی طرف بڑھایا۔

ماہی نے چونک کر فون کی طرف دیکھا، دل کی دھڑکن ایک پل کو تیز ہوئی، الیاس صاحب کی شادی کے بعد یہ پہلی کال تھی جو انہوں نے کی تھی۔ لیکن جیسے ہی وہ فون لینے کے لیے ہاتھ بڑھانے لگی، ارشد صاحب نے کال کاٹ دی۔

ماہی کی آنکھوں میں حیرانی اور غصہ بیک وقت ابھرا۔
یہ آپ نے کیا کر دیا؟
وہ سخت لہجے میں بولی۔

ارشد صاحب نے سکون سے فون جیب میں رکھتے ہوئے کہا،
تم ایسی شکایتی آواز میں اس شخص سے بات کرنا چاہتی تھیں جسے تمہاری کوئی فکر ہی نہیں؟

ماہی کی آنکھیں نم ہونے لگیں،
مگر بابا ہیں وہ میرے۔۔۔

ارشد صاحب کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، مگر لہجہ سخت تھا،
ایسا باپ جو تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکے؟ کیوں کہ انہیں دوسری شادی کرنی تھی۔۔۔ تم ابھی چھوٹی ہو، تمہیں سمجھ نہیں آئے گا، لیکن میں تمہیں سچ بتا دیتا ہوں۔ تمہارے بابا نے اپنی مرضی سے تمہیں چھوڑا ہے، کیونکہ اگر تم پاس ہوتیں تو بھلا کوئی ان سے شادی کرتا؟

ماہی کی آنکھوں میں بے یقینی تھی، اس کے لب لرزے، لیکن وہ کچھ بول نہ سکی۔

ایک تو نہ انہیں تمہاری ماں سے محبت تھی، نہ تم سے۔۔۔
ارشد صاحب نے گہری سانس لی اور ماہی کے کندھے پر ہاتھ رکھا،
بھلا کوئی ایسا باپ ہو سکتا ہے جو اپنی اکلوتی بیٹی کو اپنے پاس نہ رکھے؟ تمہاری ماں بھی نہیں رہی اور پھر بھی انہوں نے تمہیں نہیں سنبھالا۔

یہ سن کر ماہی کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے، دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔

ارشد صاحب نے نرمی سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا،
ارے، تم رونا مت، میں تو تمہیں رلانا نہیں چاہتا تھا۔

ماہی نے رخ موڑ لیا، آنسو پونچھنے لگی۔

تمہاری پھوپو تم سے بہت محبت کرتی ہیں، اتنی کہ شاید مجھ سے بھی زیادہ۔ ہم دونوں تمہارے ساتھ ہیں، تمہارے بابا نہ سہی، ہم تو ہیں نا؟

اتنے میں سونیا کچن سے نکل کر آئی۔ جیسے ہی اس نے ماہی کو روتے دیکھا، وہ تیزی سے اس کے پاس آئی،
ارے میری شیرنی کو کیا ہوا؟

سونیا اس کے پاس بیٹھ گئی، اس کے ہاتھ تھام لیے،
بابا کی یاد آ رہی ہے؟

ماہی نے جھٹکے سے سر نفی میں ہلایا اور غصے سے آنسو پونچھنے لگی،
نہیں! مجھے ان سے کوئی بات نہیں کرنی!

سونیا نے حیرانی سے پوچھا،
پر کیوں؟ کیا ہوا؟ بابا نے کچھ کہا ہے؟

ارشد صاحب نے سونیا کی طرف دیکھا اور سر ہلایا،
چھوڑو اسے، جب اس کا دل نہیں کر رہا تو زبردستی مت کرو۔

سونیا نے ماہی کے گال تھپتھپائے،
ہاں، نہیں کریں گے زبردستی۔۔۔ بس تم رونا بند کرو۔

ارشد صاحب نے مسکرا کر کہا،
ہاں، تم تو ہماری شیرنی ہو، اور شیرنیاں روتی نہیں، رلاتی ہیں!

اب میں بابا سے کبھی بات نہیں کروں گی۔۔۔ اور نہ بابا یہاں آئیں گے نہیں تو پھوپو میں بتا رہی ہوں ماہی گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔۔۔
وہ روتے روتے کہتی۔

اچھا اچھا رونا بند کرو میری جان۔۔۔ جیسا ماہی بولے گی ویسا ہی ہوگا۔۔۔
سونیا اُسے پیار سے گلے لگاتی کہتی۔

دوسری طرف، ارشد صاحب کے دل میں ایک اور سوچ پنپ رہی تھی۔

ماہی، میں معذرت چاہتا ہوں، مگر مجھے یہ کرنا ہوگا۔ اگر میں تمہیں تمہارے باپ سے بدگمان اور دور نہیں کروں گا تو ایک دن تم اُن کے پاس واپس چلی جاؤ گی۔۔۔ اور میں یہ ہونے نہیں دوں گا۔ کیونکہ مسز ارشد جبیل کو ماہی سے محبت ہے، اور ارشد جبیل کو مسز ارشد جبیل سے۔۔۔
+++++++++++++

اگلے دن سہ پہر کے وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ ملازم نے دروازہ کھولا تو سامنے الیاس صاحب کھڑے تھے۔ سفید شلوار قمیض میں ملبوس، ہشاش بشاش ترو تازہ۔۔۔

سونیا نے جیسے ہی دروازے پر انہیں دیکھا، حیرانی اور بے چینی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ آگے بڑھیں۔
آپ یہاں؟
ان کے لہجے میں نرمی کم اور حیرت زیادہ تھی۔

ہاں، ماہی سے ملنے آیا ہوں۔

سونیا کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔ وہ انہیں اندر آنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولیں،
آئیے۔

لونگ روم میں پہنچ کر سونیا نے ایک ملازم کو اشارہ کیا،
ماہی کو بلا کر لاؤ۔

الیاس صاحب گہری سانس لے کر صوفے پر بیٹھ گئے اور دھیمے لہجے میں بولے،
میں فون کرتا ہوں، مگر اب تو وہ مجھ سے بات تک نہیں کرتی۔۔۔ اُس دن بھی جب میں نے ارشد کے فون پر کال کی تھی، میرا سنتے ہی اس نے کال کاٹ دی۔

سونیا نے ہلکی سی آہ بھری اور جواب دیا،
ہاں، ناراض ہے۔۔۔ اور بجا ہے۔

الیاس صاحب نے تھکے ہوئے انداز میں سر جھٹکا،
میں جانتا ہوں، مگر آج میں اُسے منا کر جاؤں گا۔ نہیں، میں اُسے منا کر اپنے ساتھ ہی لے جاؤں گا!

سونیا نے حیرت سے انہیں دیکھا، مگر کچھ کہنے کے بجائے ماہی کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔

سونیا ماہی کے کمرے کی طرف بڑھیں تو اندر سے سرخ آنکھوں والی ماہی کو نکلتے دیکھا۔ وہ شاید پہلے ہی سب کچھ سن چکی تھی۔
بابا آئے ہیں، تم سے ملنا چاہتے ہیں۔
سونیا نے دھیمے لہجے میں کہا۔

ماہی کے قدم وہیں رک گئے، اس کی آنکھوں میں کئی جذبات ایک ساتھ ابھر آئے۔ حیرت، دکھ، غصہ، اور کہیں نہ کہیں ایک چھپی ہوئی امید۔ مگر فوراً ہی اس نے خود کو سنبھالا، چہرے پر سرد تاثرات سجائے اور آگے بڑھ گئی۔

لونگ روم میں قدم رکھتے ہی اس کی نظریں سیدھا الیاس صاحب سے ٹکرائیں۔ وہ پہلے سے ہی ماہی کی راہ دیکھ رہے تھے۔ جیسے ہی ماہی ان کے سامنے آئی، انہوں نے مسکراتے ہوئے ہاتھ بڑھایا،
ماہی!

ماہی نے ایک پل کے لیے ان کی طرف دیکھا، مگر پھر جیسے اپنی تمام تر نرم دلی کو پیچھے دھکیل کر سخت لہجے میں بولی،
آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟

الیاس صاحب کے چہرے پر اس کے رویے سے دکھ سا ابھرا، مگر وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولے،
بیٹا، تمہیں لینے آیا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ چلو۔

ماہی ہلکے سے ہنسی، مگر وہ ہنسی زہر آلود تھی۔
اور جب میں چاہتی تھی آپ کے ساتھ جانا۔۔۔؟

الیاس صاحب نے بے بسی سے کہا،
اُس وقت میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں لے کر جا سکتا تھا۔۔۔

اب ماہی آپ کے ساتھ نہیں جا سکتی۔۔۔
ماہی نے سختی سے جواب دیا،
شادی بہت مبارک ہو…

ماہی کی آواز میں ایک عجیب سی سختی تھی، جو شاید پہلی بار الیاس صاحب نے محسوس کی۔ وہ چند لمحے خاموشی سے اُسے دیکھتے رہے، جیسے ان الفاظ کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

اب آپ یہاں دوبارہ کبھی مت آئیے گا… نہیں تو ماہی گھر چھوڑ کر چلی جائے گی!

ماہی کے الفاظ کسی دھماکے کی طرح گونجے۔

الیاس صاحب کے قدم جیسے وہیں جم گئے۔ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی بے بسی ابھری، ماتھے پر گہری شکنیں پڑ گئیں۔ وہ بے یقین نظروں سے ماہی کو دیکھ رہے تھے، جیسے ان کے کانوں نے غلط سنا ہو۔

ماہی نے کبھی ایسا نہیں کہا تھا۔ ان دو سالوں میں کتنی ہی تلخ باتیں ہوئیں، کتنی بار غصہ آیا، ناراضگی ہوئی، لیکن کبھی اس نے اس رشتے کو ختم کرنے کی بات نہیں کی تھی۔ مگر آج… آج وہ خود یہ کہہ رہی تھی، اور اُس کے لہجے میں کوئی جھجک، کوئی کمزوری نہیں تھی۔

ماہی کی بات پر یقین نہیں آ رہا تو آزما کر دیکھ لیجیے گا…

یہ ایک وارننگ تھی، جو بالکل واضح تھی۔ وہ ایسا کر گزرے گی، اور اس میں کوئی شبہ نہیں تھا۔

الیاس صاحب کے لب ہلکے سے کپکپائے، جیسے وہ کچھ کہنا چاہتے تھے، مگر الفاظ ساتھ چھوڑ گئے تھے۔

ماہی کی نظریں ان پر جمی رہیں، مگر ان میں اب وہ معصومیت نہیں تھی جو ایک وقت میں ہوا کرتی تھی۔ ان آنکھوں میں صرف ایک فیصلہ تھا — ایک ایسا فیصلہ جسے کوئی نہیں توڑ سکتا تھا۔

آج سے ماہی اور آپ کا تعلق ختم…

یہ آخری جملہ تھا، جو جیسے دروازے پر ایک مہر بن کر ثبت ہوگیا۔

اور پھر…
ماہی پلٹی، تیزی سے اندر کی طرف بھاگی۔

اس کے قدموں کی آواز سیڑھیوں میں گونجی، دروازہ زور سے بند ہوا، اور ایک رشتہ ہمیشہ کے لیے خاموشی میں دفن ہوگیا۔

الیاس صاحب وہیں کھڑے رہے، ان کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔

کیا واقعی…?
کیا واقعی سب ختم ہوگیا تھا؟
کیا واقعی ماہی کے دل میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں بچا تھا؟

وہ ایک نظر سونیا کو دیکھتے ہیں، وہ بھی حیران پریشان کھڑی تھی۔۔۔

یہ سب سچ تھا۔

ماہی جا چکی تھی، مگر اس کے الفاظ، اس کی وہ سرد نظریں، اس کا وہ آخری فیصلہ — یہ سب وہیں رہ گیا تھا، جیسے کوئی گھاؤ جو کبھی بھرنے والا نہیں تھا۔

+++++++++++++

پاکستان — کراچی ایئرپورٹ —

ماہی ایئرپورٹ کے روڈ سائیڈ ایک ٹیبل پر بیٹھی یہی سب سوچ رہی تھی…
وہ کیسے جائے گی؟ اور وہ کیوں جائے؟

سب سے پہلے تم اللہ کا شکر ادا کرو گی!

آہہہ…!
ماہی نے گہری سانس لی۔ سب سے پہلے تو ولید نے اسے شکر ادا کرنے کو کہا تھا، اور وہ پہلی بات ہی چھوڑ کر دوسری کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اچانک اسے یاد آیا۔

اچھا، یہ پہلی بات تو ماہی آسانی سے مان سکتی ہے، اس میں تو کوئی تکلیف، کوئی درد نہیں تھا۔

وہ آسمان کی طرف دیکھنے لگی، پھر اپنے آگے پیچھے نظر دوڑائی اور دوبارہ آسمان کو تکنے لگی۔

یا اللہ… ماہی جس سے پوری دنیا میں سب سے زیادہ نفرت کرتی ہے… کیا وہی شخص تجھے پوری دنیا میں ماہی کے لیے مشکل وقت میں مدد کے لیے سب سے بہتر لگا؟
شاید وہ لڑکا تجھے بہت زیادہ پسند آیا ہے، ہے نا؟ تبھی تو تُو نے اسے ماہی کی مدد کے لیے چنا!
خیر، ماہی بغیر ناشکری کیے تیرا شکر ادا کرتی ہے کہ تُو نے ایک بار پھر اسے بچا لیا… اور ولید کے لیے بھی۔

ابھی وہ اللہ سے باتیں کر رہی تھی کہ اچانک کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی… کوئی اس کے پاس آ رہا تھا۔

ہیلو ماہی…! تم ماہی ہو نا؟

ماہی نے سامنے کھڑی لڑکی کو پہچاننے کی کوشش کی، مگر چہرہ بالکل اجنبی لگا۔ وہ بے زاری سے بولی،
تم کون؟

لڑکی پرجوش لہجے میں بولی،
میں مسکان ہوں یار! تمہاری اسکول فرینڈ! بھول گئی کیا؟

ماہی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرا۔ وہ اتنی سرد مہری سے بولی جیسے کوئی دلچسپی ہی نہ ہو،
نہیں، یاد نہیں۔

مسکان کے چہرے پر حیرت کے ساتھ ہلکی سی مایوسی بھی ابھری،
تمہیں خوشی نہیں ہوئی مجھ سے مل کر؟

ماہی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور کندھے اچکاتے ہوئے بولی،
نہیں۔
پھر وہ اٹھ کر چلنے لگی۔

مسکان نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکا،
ارے سنو! رکو تو… تم یہاں کیا کر رہی ہو؟

ماہی نے ناگواری سے اسے گھورا،
بولو، کیا ہے؟

مسکان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، جیسے کوئی دلچسپ بات یاد آگئی ہو،
تم یو کے سے آئی ہو نا؟

ماہی نے آنکھیں گھمائیں،
ہاں تو؟

مسکان نے خوشی سے کہا،
اچھا، مجھے تمہیں ایک بات بتانی تھی! میں تمہاری بہن سے ملی ہوں، کافی اچھی ہے وہ، بلکہ میری تو اس سے دوستی بھی ہو گئی ہے۔

ماہی، جو پہلے ہی بے زار ہو رہی تھی، اب پوری طرح غصے میں آگئی۔ اس نے سخت لہجے میں کہا،
سن لو! ماہی کی کوئی بہن نہیں ہے، وہ اکلوتی ہے! ہاں آئی بات سمجھ میں؟ اب نکلو یہاں سے، نہیں تو دو تین گھونسے یہیں کھا جاؤ گی!

مسکان کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے، لیکن ماہی مزید کچھ کہے بغیر اس کا راستہ ہٹاتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

مسکان نے ایک پل کے لیے الجھن سے ماہی کو جاتے دیکھا، پھر جلدی سے جیب سے فون نکالا اور کسی کو میسج ٹائپ کرنے لگی۔

ماہی آ گئی ہے… ماہی یو کے سے پاکستان واپس آ گئی ہے…

+++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *