dil ya dhrkan

Dil ya dharkan Episode 1 Written by siddiqui

دِل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۱

“تمہیں کیا لگا؟ مجھے پتہ نہیں چلے گا؟”
کمرے میں مدھم سی پیلی روشنی تھی، جو دیوار پر پڑی ہوئی پرچھائیوں کو اور زیادہ خوفناک بنا رہی تھی۔ ایک جھولتا ہوا بلب بار بار اپنی شدت کھوتا، پھر جھپک کر واپس آتا — جیسے کمرے کی سانسیں اسی بلب سے جُڑی ہوں۔ دیواروں پر پڑی ہوئی پرچھائیاں صدیوں پرانے گناہوں کی خاموش گواہی دے رہی تھیں۔

کمرے کے بیچوں بیچ ایک لکڑی کی پرانی کرسی پر وہ شخص بندھا بیٹھا تھا۔ رسیوں نے اس کے ہاتھ، پیر اور کمر کو اس طرح جکڑ رکھا تھا جیسے قید محض جسم کی نہیں، روح کی بھی ہو۔ اس کی سانسیں بے ترتیب تھیں، ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں اس کے خوف کی گواہی دے رہی تھیں۔ وہ بار بار اپنی گردن موڑ کر اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کرتا، مگر سامنے کھڑی سائے جیسی شبیہہ سے نگاہ نہیں چرا سکتا تھا۔

کمرے کے بیچوں بیچ ایک لکڑی کی پرانی کرسی پر وہ شخص بندھا ہوا بیٹھا تھا۔ رسیوں نے اس کے ہاتھ، پاؤں اور کمر کو اس طرح جکڑ رکھا تھا جیسے قید محض جسم کی نہیں، روح کی بھی تھی۔ اس کی سانسیں بے ترتیب تھیں، ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں اس کے خوف کی گواہی دے رہی تھیں۔ وہ بار بار اپنی گردن موڑ کر اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کرتا، مگر سامنے کھڑی سائے جیسی شبیہ سے نگاہ نہیں چرا سکتا تھا۔

وہ نوجوان اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا — آنکھوں میں وحشت، نفرت اور ایک جلتا ہوا انتقام۔ اس کا چہرہ تناؤ سے سخت، آنکھیں سرخ، جبڑے بھنچے ہوئے، اور مٹھی میں دبی انگلیاں اُس طوفان کی خبر دے رہی تھیں جو اس کے اندر پنپ رہا تھا۔ ایسا غصہ جو صرف بدلہ نہیں، کچھ چھین لینے کی خواہش رکھتا تھا۔

“تمہیں کیا لگا؟ مجھے پتہ نہیں چلے گا؟”
اس کی آواز گہری تھی — پر اتنی مدھم نہیں کہ اس میں چھپی آگ محسوس نہ ہو۔ وہ دھیرے سے بولا، مگر ہر لفظ، ہر لہجہ قیدی کے دل میں کیل کی طرح پیوست ہو گیا۔

قیدی نے تھوڑا سا سر اٹھایا۔ اس کی آنکھوں میں صرف خوف نہیں، شرمندگی بھی تھی۔
“یار… دیکھ، معاف کر دے… میں… میں تیرا دوست ہوں ناں؟”
اس کی آواز کانپ رہی تھی، آنکھوں میں عاجزی، لبوں پر لرزش۔ لیکن اس نوجوان کی آنکھوں میں کوئی نرمی نہ تھی۔

“دوست؟”
وہ دھاڑا۔ کمرے کی خاموشی چیرتی آواز میں ایسی لرزش تھی کہ قیدی کی ریڑھ کی ہڈی تک سُن ہو گئی۔
نوجوان نے اپنی انگلی اپنی چھاتی پر رکھی۔ “دوست ہوتا تو یہاں سینے پر وار نہ کرتا!”

قیدی نے ہونٹ کھولے مگر الفاظ اندر ہی کہیں جم گئے۔ اس کے حلق سے کچھ نہ نکل سکا۔ وہ جانتا تھا، جو کچھ وہ کہنا چاہتا تھا، وہ اب کسی قیمت پر سُنا نہیں جائے گا۔

“یہ سب کرتے وقت تُجھے خوف نہیں آیا؟ میری جان بستی ہے اُس میں۔ وہ میرا بھائی … میرا دل، میری دھڑکن، میری زندگی… میری جینے کی وجہ۔ سب کچھ ہے “
نوجوان کی آواز کانپ رہی تھی، مگر وہ کمزوری نہیں تھی۔ وہ خاموش طوفان تھا، جو اب شدت اختیار کر چکا تھا۔
پھر وہ ایک دم آگے بڑھا — قیدی کی گردن کو دبوچ لیا۔ اس کی انگلیاں گوشت میں پیوست ہو گئیں۔

قیدی کے چہرے پر گھبراہٹ، درد اور اذیت کی چادر پھیل گئی۔

“اور تو یہ سب جانتا تھا۔ ہے نا؟
تُجھے خوف نہیں آیا مُجھے سے؟ بول نہیں آیا نہ خوف۔۔۔۔
خیر اُس وقت نہ سہی لیکن اب اب تو آرہا ہوگا نہ …”
پھر جیسے اسے خود پر قابو آیا — اس نے جھٹکے سے ہاتھ چھوڑ دیا۔ قیدی ایک لمحے کو ہانپتا رہا۔ نوجوان کچھ قدم پیچھے ہٹا، گہری سانس لی اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
 کمرے میں ایک پل  کے لیے خاموشی چھا گئی۔
پھر ۔۔۔۔
چٹاخ!
ایک زوردار تھپڑ کی گونج — دیواروں سے ٹکرا کر واپس آئی۔
قیدی کی چیخ نکل گئی۔
وہ سمجھ نہ سکا کہ یہ کس کا ہاتھ تھا، لیکن جلد ہی اسے احساس ہو گیا — یہ نوجوان کا ہاتھ نہیں تھا۔
چٹاخ!
ایک اور تھپڑ۔
“آہ ہ ہ ہ!” اس نے کراہ کر کہا، اور سسکنے لگا۔
“دیکھ، بس ایک بار غلطی ہوئی تھی، بار بار نہیں ہوگا…” وہ انتہائی خوف کے ساتھ بولا، جیسے کسی چھوٹے بچے کی طرح معافی کی تلاش میں ہو۔
مگر نوجوان کا چہرہ سنگلاخ تھا، آنکھوں میں جلن تھی، اور اس کے لہجے میں ایسی شدت تھی کہ جیسے وہ بس اسے ابھی ہی ختم کر دے۔
“میں تُجھے دوبارہ یہ کام کرنے دوں گا، تو تُو کرے گا نہ، میں تُجھے زندہ ہی نہیں چھوڑوں گا!”
نوجوان کی آنکھوں میں سرخی اور گہری بے رحمی جھلک رہی تھی۔
“ایسا نہ کرو… پلیز ایسا نہ کرو… خدا کا واسطہ ہے، میری فیملی ہے، میرا بھا…” اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہہ پاتا، ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر لگا،
“آہ!” اس کی گہری سانس نکل گئی، مگر اس کی آواز بتا رہی تھی کہ یہ ہاتھ اب بھی  اُس کے نہیں تھے  اور یہ خیال اس کے اندر مزید خوف کا بیج بوتا جارہا تھا۔
اُس نے ایک زہر زبانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “تمہارا بھائی… جانتا ہوں میں، کہ تم اپنے بھائی سے کتنی محبت کرتے ہو…”
اس کا لہجہ اب اور بھی تلخ ہو گیا تھا، جیسے وہ اس درد کو اور بڑھا رہا ہو۔
“اور میرا بھائی غلطی سے بھی اپنے بھائی کو میرے بھائی سے کمپیئر مت کرو …..”  یہ الفاظ جیسے اس کے غصے کو اور ہوا دے گئے تھے، جیسے وہ آگ کے شعلوں میں مزید جل رہا ہو۔ قیدی نے ڈر کے مارے اپنی آنکھیں بند کر لیں، لیکن نوجوان کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا، اور وہ جانتا تھا کہ اب بچنے کی کوئی صورت نہیں۔
“نہیں، نہیں، میرا وہ مطلب نہیں تھا، وہ… میرا مطلب-” اس کی آواز خوف سے کانپ رہی تھی، اور ہر لفظ کے ساتھ اس کی حالت اور بگڑتی جا رہی تھی۔ وہ جیسے جتنے بھی الفاظ نکالتا، اتنی ہی گہری کھائی میں گر رہا تھا۔
“میں تو بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میری بھی ایک فیملی ہے، وہ… وہ اُنہیں میری ضرورت ہے!” اس کے چہرے پر ایک گہرا کرب تھا، جیسے وہ اپنی زندگی کی آخری امیدیں بیان کر رہا ہو۔ وہ جانتا تھا کہ اس وقت کوئی بھی لفظ اس کے لئے کافی نہیں ہوگا، لیکن پھر بھی وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔
اُس کا چہرہ بے حس تھا، اس کی آنکھوں میں ایک خاموش اور بے رحمانہ عزم تھا۔ قیدی کی حالت اور زیادہ بگڑ چکی تھی۔ اس کی سانسیں تیز اور بے ترتیب ہو گئی تھیں، اور اس کے جسم پر تھوڑی تھوڑی لرزش محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے دل میں ایک ہی خیال تھا- موت کا سامنا اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہیں تھی۔
وہ جان چکا تھا کہ یہاں سے بھاگنا ممکن نہیں۔ یہاں سے اگر وہ کہیں بھی بھاگنے کی کوشش کرتا تو یہ  دوبارہ اسے پکڑ لے گا۔ اور اس سے بچ کر کہیں بھی جانا ممکن نہیں تھا۔ وہ اس کی ہر حرکت کو جانتا تھا، اس کا ہر راز اور اس کی ہر کمزوری کو وہ بڑی آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔
یہ ، اس کا غصہ، اس کی شدت، وہ سب کچھ وہ جانتا تھا۔ اس کی محبت اور نفرت کا جو ایندھن تھا، وہ اس کے لیے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح تھا۔ وہ نہیں بچ سکتا تھا- اس کی تقدیر اب اس کے ہاتھ میں تھی، اور وہ ہر قیمت پر اس کو سزا دے کے رہے گا ۔۔
“میں۔۔۔۔۔ میں اُسے سب بتا دونگا سب سچ۔۔۔ سچ
وہ سمجھ جائے گا اور مُجھے معاف کر دے گا وہ بہت اچھا ہے وہ معاف کر دے گا مُجھے تم ۔۔۔۔ تم بھی معاف کردو ” اِسے جیسے بھی کر کے بس اپنی جان بچانی تھی اس بھیڑیے سے۔۔۔
” اچھا وہ معاف کر دے گا۔۔۔۔” ہا ہا ہا!” وہ ہنسا اور ایک دم سے پھر سے  غصّہ میں  آکربولا ”  تمہیں اپنا کیا معاف نہیں کرونگا بھائی کے ساتھ کیا وہ تو مر کر بھی معاف نہیں کرو گا۔۔۔۔ پہلے تم مُجھے دھوکا دینے کی سزا کاٹو گے پھر میرے بھائی کو دھوکا دینے کی۔۔۔  میرے ٹائم تم بچ بھی جاؤ لیکن جب بھائی کی باری آئے گی تب تو تم ہرگز نہیں بچوگے ۔۔۔۔”
اسے اب ایک دم سے اور خوف آنے لگا تھا اسے اب ایک دم سے احساس ہورہا تھا کے اس نے غلط جگہ غلط انسان سے  پنگا لے لیا تھا
وہ اپنی جگہ سے اٹھا، اور ایک اشارہ کیا۔
اندھیرے سے پانچ چھ لڑکے نمودار ہوئے — عام سے لڑکے، جن کے چہرے معصوم تھے، لباس سادہ تھا، جیسے اسکول یا کالج کے اسٹوڈنٹس ہوں۔ نہ کوئی ہتھیار، نہ خوفناک حلیہ۔ مگر ان کی آنکھوں میں ایسی لگن تھی، جیسے وہ کسی بڑے مقصد کے لیے کھڑے ہوں۔

ان میں سے ایک آگے بڑھا، اور قیدی کے ہاتھ پیر کھول دیے۔
قیدی کو جیسے یقین نہ آیا۔
نوجوان اب پاؤں پر پاؤں رکھے، بازو صوفے کے پشت پر پھیلائے، فاتحانہ انداز میں بیٹھا۔۔۔
“چلو، تم میرے دوست تھے، اس لیے ایک موقع دے رہا ہوں۔ اگر تم اپنی جان بچا سکتے ہو تو بچالو  ۔”
قیدی کی آنکھوں میں لمحے بھر کو امید کی چمک لہرائی۔
“تمہیں ان لڑکوں سے لڑنا ہے ۔۔۔ اگر ان میں سے کسی کے جسم سے یا منہ سے خون نکل آیا، تو میں تمہیں جیتا ہوا مانوں گا، اور تم جیت جاؤ گے۔” وہ شخص مسکراتے ہوئے بولا۔ “تمہیں آزادی مل جائے گی، تمہیں معاف کردوں گا، اور تمہیں جانے دوں گا۔”
 “لیکن میں… میں کیسے؟” وہ اس حالت میں کیسے لڑ سکتا تھا
“میں نے تم سے اجازت نہیں مانگی — تم اس کھیل کا حصہ بن چکے ہو۔ غلطی کر کے چلو اب شروع ہوجاؤ۔”
نوجوان نے لڑکوں کی طرف دیکھا اور بولا،

“لیٹس گو بوائز”
“اور یاد رکھو، اگر تم ہار گئے تو تمہیں جو چیز چاہیے… وہ کبھی نہیں ملے گی۔” وہ نوجوان اُن لڑکوں سے مخاطب ہُوا
“ایسا نہیں ہوگا!” سب لڑکوں نے پُرجوش انداز میں کہا۔
قیدی کی نظر اب ان لڑکوں پر تھی — اور اپنے کمزور، بھوکے، لاغر جسم پر۔ تین دن کا بھوکا، مار کھایا ہوا، زخموں سے چور، وہ کیا ان سے لڑے گا؟
لیکن مرنا تو اب بھی تھا اور ویسے بھی۔
تو کیوں نہ رسک لے لیا جائے؟
شاید اللہ ابھی مہربان ہو جائے… شاید اس کی تقدیر میں ابھی کچھ دن باقی ہوں…

+++++++++++++

کمرے میں مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی، کمپیوٹر اسکرین پر نیلی روشنی لرز رہی تھی، اور کی بورڈ کی مسلسل ٹک ٹک خاموشی کو توڑ رہی تھی۔ وہ اپنے کام میں مکمل طور پر مگن تھا جب دروازہ دھڑام سے کھلا اور کوئی تیزی سے اندر داخل ہوا۔

“اوئے سن… سن… سن!”

حارث ہمیشہ کی طرح بے تکلفی سے اندر گھس آیا تھا۔ اس کی آواز میں جوش تھا، جیسے کوئی بڑی خبر لایا ہو ۔۔

وہ ذرا سا چونکا، مگر فوراً خود کو سنبھالتے ہوئے نظریں اسکرین پر رکھتے ہوئے بولا، “ہاں، بول؟”

حارث کے ہونٹوں پر ایک شریر سی مسکراہٹ تھی۔ وہ بے تابی سے بولا، “ماہی کا یونیورسٹی ٹرانسفر ہو گیا ہے، اور وہ اب ہماری یونیورسٹی آ رہی ہے!”

کی بورڈ پر چلتی انگلیاں اچانک رک گئیں۔ اس کی نظریں ایک لمحے کو اسکرین پر جمی رہیں، پھر وہ آہستہ سے گردن گھما کر حارث کو دیکھنے لگا۔

“کیا…؟” ایک لمحے کے لیے حیرت اس کے چہرے پر ابھری، مگر وہ فوراً خود پر قابو پاتے ہوئے معمولی بے نیازی سے بولا، “اچھا… صحیح ہے۔”

حارث نے اسے غور سے دیکھا، پھر مزید جوش سے بولا، “ہاں بے، اور اب وہ ہمارے شہر میں شفٹ ہو رہی ہے!”

اس بار وہ واقعی سنبھل نہ پایا۔ “کیا… اب ہمارے شہر میں ہی رہے گی؟” اس کے لہجے میں حیرت واضح تھی۔

حارث نے جیسے آخری بم پھوڑ دیا، “صرف شہر میں نہیں، بلکہ اب وہ ہمارے گھر میں بھی رہے گی!”

“کیا ” یہ سنتے ہی وہ کرسی پر بیٹھا نہیں رہ سکا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا، جیسے کسی نے زمین اس کے قدموں تلے سے کھینچ لی ہو

+++++++++++

کمرے کے بیڈ پر وہ بیٹھی تھی، آنکھوں میں ایک عجیب سی نمی تھی مگر لبوں پر زبردستی کی مسکراہٹ۔ کرن نے اس کی طرف دیکھا اور دھیرے سے کہا
“یار، میں تجھے بہت مس کروں گی۔”

ماہی خاموشی سے بیگ میں کپڑے تہہ کرتی جا رہی تھی۔ کرن کی آواز سن کر محض “ہمم” کہہ کر رہ گئی۔

کرن کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔
“تو ہمیں مس کرے گی؟”

ماہی کے ہاتھ ایک لمحے کو رکے، پھر ویسے ہی چلنے لگے جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ ایک اور “ہمم” اس کے لبوں سے نکلا جو نہ ہاں تھا نہ ناں۔

“اپنا فون تو لے کر جا رہی ہو نا؟ ہم سے رابطہ رکھنا۔۔”

“ہمم۔۔۔”

کرن کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ اُس نے بےچینی سے ماہی کے چہرے کی طرف دیکھا۔

“کیا کب سے ہمم ہمم لگا رکھا ہے! کچھ بولو بھی۔ کیا تم ہم سے ناراض ہو ؟”

ماہی نے سکون سے سانس لی، جیسے طوفان کو خود میں سمیٹ لیا ہو۔
“نہیں، میں کیوں ناراض ہوں گی تم لوگوں سے؟”

کرن کے لب کانپ گئے۔ وہ آنکھوں میں کچھ سوال لے کر بولی
“وہ جو ہم سب نے تمہارے ساتھ نہیں دیا۔۔۔”

ماہی نے نظریں ملائے بغیر، ہلکے لہجے میں جواب دیا
“مجھے کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اکیلی ہی کافی ہوں۔”

دروازہ یکایک کھلا۔ دودھ جیسی رنگت اور سفید لباس میں ملبوس سٹیلا کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس کی آنکھوں میں غصہ اور لبوں پر طنز تھا۔
“دیکھ لو، دیکھ لو اسے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا اسے۔ ہم فالتو میں اپنا ٹائم ضائع کر رہے ہیں اس کے پیچھے۔”

ماہی نے بیگانگی سے سر ہلایا۔
“ہاں، جب فرق نہیں پڑتا تو نہیں پڑتا نا۔”

کرن نے بےچینی سے سٹیلا کی طرف دیکھا
“یہ جا رہی ہے، سٹیلا۔ آج تو کچھ خیال کر لو اس کا۔۔۔”

سٹیلا نے آنکھیں گھمائیں “سارے خیال میں ہی کیوں کروں؟ اسے بھی تو بولو نا کہ جا رہی ہے تو کم از کم اچھے سے الوداع کر کے جائے۔”

ماہی کی آواز جیسے برف سے ٹھٹھری ہو “مجھ سے نہیں ہوتا جھوٹ موٹ کا اچھا بننے کا ناٹک۔”

سٹیلا نے ہنکارا بھرا، اب کی بار اُس کی آواز میں زہر گھلا تھا
“تمہارے اسی ایٹیٹیوڈ کی وجہ سے نہ کوئی تم سے بات کرتا ہے، نہ دوستی کرتا ہے۔”

ماہی نے بے نیازی سے کہا “ہاں تو، ماہی کو دوستوں کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ماہی ایسے ہی بہت خوش ہے۔”

کرن نے دونوں کی تلخی دیکھ کر بےبسی سے سر جھٹکا “اُف، بس کردو تم دونوں!”

اتنے میں دروازہ دوبارہ کھلا۔ ایک ہلکی سی خوشبو کے ساتھ، چھوٹے اسکرٹ اور ہاف بندھے بالوں میں مینی اندر داخل ہوئی۔ اُس کے چہرے پر وہی پیار بھری مسکراہٹ تھی، جسے ماہی ہمیشہ اپنے دل میں محفوظ رکھتی تھی۔

آتے ہی ماہی سے لپٹ گئی

“میں تجھے بہت مس کروں گی، ماہی! اگر ہو سکے تو میں بھی اپنا ٹرانسفر کرا لوں، تیرے کیمپس میں آجاؤں گی۔”

ماہی نے مسکرا کر اُسے دیکھا، پہلی بار اُس کی آواز میں تھوڑا رنگ آیا “ہاں، مُجھے  سے مار کھانے آؤ گی نا وہاں؟”

مینی نے شوخی سے ہنستے ہوئے کہا “نہیں مار کھانے نہیں۔۔۔ سب کو مار کھلوانے آؤں گی!”

ماہی نے آنکھیں مٹکائیں “اچھا، اگر اوور ایکٹنگ ختم ہوگئی ہو تو  سامان پیک کر میرے ساتھ۔۔۔”

مینی قہقہہ لگا کر بولی “یہ نہ ہو پائے گا آپ سے، لائیے ہم ہی کر دیتے ہیں!”

بیگ کے زِپ کی آواز میں کچھ رشتے بند ہو رہے تھے اور کچھ یادیں ہمیشہ کے لیے اس بریف کیس میں رکھ دی جا رہی تھیں۔

++++++++++++

حارث نے اس کے چہرے کے اترتے رنگ دیکھے تو حیرت سے بولا، “ارے، کیا ہوا؟”

وہ گہری سانس لے کر رخ موڑ گیا اور سرد لہجے میں بولا، “کچھ نہیں… جا، میں کام کر رہا ہوں۔ مجھے کام کرنے دے۔”

حارث نے کندھے اچکائے، “جا، کرتے رہ کام… کام کرتے کرتے مر جا!” وہ چہکتا ہوا دروازے سے نکل گیا، مگر وہ وہیں کھڑا رہا، جیسے کچھ دیر پہلے کی خبر نے اس کے اندر طوفان کھڑا کر دیا ہو۔

چند لمحے گزرے، پھر جیسے کوئی خیال ذہن میں بجلی کی طرح لپکا۔

“اوئے سن سن… ماہی کا ٹرانسفر ہوا کیوں؟”

وہ تیزی سے دروازے کی طرف لپکا اور بلند آواز میں حارث کو آواز دی۔

حارث تب تک دروازے سے باہر جا چکا تھا، مگر اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ وہ رک گیا۔

“مجھے کیا پتہ… وہ جب آئے تو خود پوچھ لینا!”

حارث کا جواب آتے ہی وہ وہیں رک گیا، مگر اس کے اندر بےچینی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔

+++++++++++

کمرے میں خاموشی تھی، مگر ماحول میں تناؤ کی لہر واضح تھی۔ سٹیلا کے چہرے پر غصہ تھا، جبکہ کرن اسے منانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔

“یہ ماہی تو ہے ہی پاگل، اب تو بھی اس کے ساتھ پاگل بن رہی ہو! ٹرانسفر کروا لوں گی میں، مم ایسے ہی کسی کا بھی ٹرانسفر نہیں کر دینے گی!” سٹیلا نے مینی کو گھورتے ہوئے کہا۔

مینی نے کندھے اچکائے، جیسے اسے اس بحث میں کوئی دلچسپی نہ ہو۔

“یہ سب فضول کام کرنے سے بہتر ہے کہ اس کو بولو کہ مم سے اور اس لڑکے سے معافی مانگ لے، سب ٹھیک ہو جائے گا، اور پھر یہ یہاں سے جائے گی بھی نہیں!”

“ہاں ماہی، یار! معافی مانگ لے نہ ہمارے لیے، پھر تو ہمارے ساتھ ہی رہے گی یہاں…” کرن بھی سٹیلا کی بات کی تائید میں بولی۔

ماہی، جو خاموشی سے اپنا سامان پیک کر رہی تھی، ایک پل کو رکی، مگر پھر سر جھٹک کر دوبارہ اپنا کام کرنے لگی۔ “مم سے تو معافی میں مان لوں، لیکن اس سے؟ کبھی نہیں!”

سٹیلا جھنجھلا کر بولی، “کتنی ضدی ہو تم! ایک سوری ہی تو بولنا ہے، ہمارے لیے ہی بول دو!”

“تم لوگوں کے لیے؟” ماہی نے سر اٹھایا، آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ “ماہی کبھی اپنے لیے سوری نہیں بولی، تم لوگوں کے لیے کیا بولے گی؟”

“ایسا مت کر ماہی، دیکھ… ہماری دوستی، ہمارا اسکواڈ…”

“بھاڑ میں گیا اسکواڈ! لیکن ماہی معافی نہیں مانگے گی!” ماہی کی آواز میں حتمی فیصلہ تھا۔

سٹیلا کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، “مر جا ماہی، تُو مر جا!” وہ غصے میں بڑبڑائی۔

کرن نے بےبسی سے مینی کی طرف دیکھا، “یار مینی، تو ہی بول دے! اسے سمجھا دے کہ معافی مانگ لے، پھر یہ کہیں بھی نہیں جائے گی۔ تُو تو جانتی ہے یہ تیری بات مانتی ہے، نا؟”

مینی، جو اب تک خاموش کھڑی تھی، ایک گہری سانس لے کر بولی، “نہیں… میں نہیں بول رہی۔ میں اس معاملے میں کچھ نہیں کہنا چاہتی۔ جیسے میں اُس وقت وہاں نہیں تھی، ایسے ہی سمجھو کہ میں یہاں بھی نہیں ہوں۔”

ماہی، جو بیگ میں اپنا فون چارجر رکھ رہی تھی، یہ سن کر ہلکا سا مسکرائی، مگر اس نے نظر اٹھا کر کسی کو نہیں دیکھا۔

سٹیلا کا غصہ اس کی برداشت سے باہر ہونے لگا۔ وہ زور سے دروازے پر ہاتھ مار کر چلائی، “دفعہ ہو جاؤ تم لوگ!” اور تیزی سے باہر نکل گئی۔

ماہی نے بیگ کا زپ بند کیا اور ایک نظر کرن اور مینی پر ڈالی، پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی، “چلو، میرا سامان پیک ہو گیا ہے، گاڑی بھی آنے والی ہوگی۔ نیچے چلتے ہیں۔”

مینی نے سر ہلایا، “ہاں، میں میٹرو ٹرین تک تیرے ساتھ جاؤں گی۔”

ماہی نے حیرت سے اسے دیکھا، “ہاں؟ تیرے پاس اتنا فضول ٹائم ہے؟”

مینی ہنسی، “بہت زیادہ! دیکھ، ساتھ جانے کے لیے تیار بھی ہوں!”

ماہی بھی ہنس پڑی، “پاگل!”

وہ اپنا بیگ کندھے پر ڈال کر دروازے کی طرف بڑھی، مینی اس کے ساتھ ساتھ چل دی، اور کرن خاموشی سے ان کے پیچھے ہو لی۔

++++++++++++

کمرے میں خاموشی تھی، لیکن فون کی اسکرین پر ایک نیا کال کا نوٹیفیکیشن آیا۔ پرنسپل مم نے فون اٹھایا، اور جیسے ہی کال کنیکٹ ہوئی، ایک مردانہ آواز گونج اٹھی، “اسلام علیکم۔۔۔”

“وعلیکم سلام، کون بات کر رہا ہے؟ اور میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟” پرنسپل مم نے رسمی انداز میں پوچھا،

“میں ماہی کا والد بات کر رہا ہوں۔ کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ میری بیٹی ماہی کا ٹرانسفر دوسرے کیمپس میں کیوں کروایا گیا؟” اس کی آواز میں بے چینی اور پریشانی تھی۔

“اوہ، تو آپ ہیں ماہی کے والد؟ میں نے آپ کو ای میل کر دیا تھا اور ساری صورتحال بھی بتا دی تھی۔” پرنسپل مم نے ایک لمحے کے لیے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

اس نے ایک گہری سانس لی، اور پھر شکایتی انداز میں بولے، “معذرت، لیکن مجھے تو ایسی کوئی ای میل نہیں ملی “

پرنسپل کی بھنویں تن گئیں۔ انہوں نے اپنی انگلیاں ٹیبل پر رکھتے ہوئے ہلکے سے انگلیوں سے ٹیپ کیا، پھر تحمل سے بولیں، “ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے خود ای میل بھیجی تھی۔”

دوسری طرف سے جھنجھلائی ہوئی آواز آئی، “کوئی پروبلم ہو گئی ہوگی شاید میرے لیپ ٹاپ میں۔ اسی وجہ سے میرے پاس آپ کا ای میل نہیں آیا “

“ہاں ہوسکتا ہے اچھا چھوڑے میں آپکو بتاتی ہوں آپکی بیٹی کے کارنامے ۔۔۔۔” پرنسپل مم اُن کی بات  سمجھتی کہنا شروع کیا

“آپ کی بیٹی ماہی نے یونیورسٹی میں کچھ ایسی حرکتیں کی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ آئے دن یہاں کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے، لیکن بات اس حد تک نہیں پہنچی تھی کہ مجھے مداخلت کرنی پڑتی۔ اس کے اساتذہ معاملات سنبھال لیتے تھے۔”

وہ لمحہ بھر کو رُکیں، جیسے الفاظ چُن رہی ہوں۔ پھر انہوں نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسایا اور کہا،

“مگر اس بار اس نے حد کر دی ہے۔”

دوسری طرف جیسے سانس رک سی گئی ہو۔

“کیا مطلب؟” اِس کی آواز میں اب بےچینی تھی۔

“آپ کی بیٹی نے ایک سینئر اسٹوڈنٹ کے ساتھ نہ صرف جھگڑا کیا، بلکہ اس کا سر بھی پھاڑ دیا۔” یہ کہتے ہوئے پرنسپل نے آنکھیں بند کر کے ایک گہری سانس لی، جیسے انہیں خود اس واقعے پر یقین نہ

 آ رہا ہو۔ دوسری طرف ایک دم خاموشی چھا گئی۔

“حد ہوتی ہے! آپ کی بیٹی بہت زیادہ ہی بگڑ گئی ہے۔” ان کا لہجہ سخت تھا، آواز میں تھکن بھی تھی اور برہمی بھی۔ “یہ روز یونیورسٹی میں ہنگامہ کرتی ہے، مار پیٹ کرتی ہے۔ آپ نے اسے پڑھنے کے لیے بھیجا تھا یا لڑنے کے لیے؟”

دوسری طرف اب بھی خاموشی تھی۔۔۔

پرنسپل نے گہری سانس لے کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی، پھر مزید سخت لہجے میں بولیں، “آپ شکر کریں کہ میں نے اسے یونیورسٹی سے نکالا نہیں، ورنہ جو کچھ اس نے کیا، اس کے بعد تو یہی ہونا چاہیے تھا!”

دوسری طرف چند لمحے خاموشی رہی، پھر ایک بھاری آواز آئی، “تو پھر نِکلا کیوں نہیں ؟

پرنسپل نے فون کی دوسری طرف سے آنے والے الفاظ سنے تو ان کے چہرے کے تاثرات پل بھر میں بدل گئے۔ وہ کرسی کی پشت سے ہلکا سا پیچھے ہوئیں، فون کو ذرا سا دور کر کے اسے گھورا، جیسے وہ یہ جانچ رہی ہوں کہ واقعی ان کے کانوں نے ٹھیک سنا ہے یا نہیں ۔۔۔۔

ان کے لب ہلکے سے جنبش میں آئے، اور ایک سوچ دل سے نکل کر دماغ میں گونجنے لگی، “جیسی بیٹی ہے، ویسا ہی باپ!”

پرنسپل کرسی پر سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں، ان کے چہرے پر سختی نمایاں ہو گئی تھی۔ فون کی دوسری طرف خاموشی تھی، مگر وہ جانتی تھیں کہ اس خاموشی کے پیچھے بے چینی اور غصہ دونوں موجود تھے۔

انہوں نے ایک گہری سانس لی اور مضبوط لہجے میں کہا،

“آپ اسے میری مہربانی سمجھیں، اور ہاں، آپ کو پتہ بھی ہے کہ جس لڑکے سے ماہی نے لڑائی کی تھی، وہ ہمارے یونیورسٹی کے سب سے اچھے پروفیسر کا بیٹا تھا؟”

یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رکیں، جیسے سامنے والے کے ردِعمل کا انتظار کر رہی ہوں۔ مگر دوسری طرف اب بھی خاموشی تھی۔

انہوں نے ہاتھ میں پکڑے قلم کو میز پر رکھتے ہوئے مزید کہا،

“جانتے ہیں، پروفیسر نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ یا تو وہ یونیورسٹی میں رہے گے یا پھر آپ کی بیٹی۔ اور ہم اپنی یونیورسٹی کے سب سے بہترین پروفیسر کو کھونے کا خطرہ نہیں مول لے سکتے۔”

انہوں نے میز پر انگلیاں ہلکی ہلکی سے بجائیں، جیسے خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

“اسی لیے، میں نے آپ کی بیٹی کا ٹرانسفر کروا دیا۔ اور پروفیسر اور باقی اسٹاف کو یہی بتایا ہے کہ ماہی کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے۔”

انہوں نے ایک لمحے کے لیے توقف کیا، پھر مزید سختی سے کہا،

فون کی دوسری طرف سے آواز اب بھی بھاری اور چبھتی ہوئی تھی، “وہ تو میں جانتا ہوں کہ یہ آپ کی مہربانی نہیں، آپ کی مجبوری تھی۔ آپ اسے یونی سے نکال نہیں سکتی تھیں، کیونکہ آپ لوگ سیمسٹر شروع ہونے سے پہلے ہی فیس لے لیتے ہیں، اور سیمسٹر تو بعد میں شروع ہوتا ہے۔ ماہی کی فیس بھی اس سیمسٹر کے لیے جمع ہو چکی ہے، اسی لیے آپ نے اسے یونی سے نکالا نہیں، بس اس کا ٹرانسفر کر دیا۔”

پرنسپل نے ایک گہری سانس لی، ان کی انگلیاں بے ساختہ میز پر رکھی فائل کے کنارے پر رگڑنے لگیں۔ ان کے ہونٹ سختی سے بھینچ گئے، اور پھر انہوں نے نظریں فون پر جما کر مضبوط لہجے میں کہا،

“ایکسکیوز می! آپ اپنی بیٹی کے کرٹوں پر غور کریں، اور مجھے میری مہربانی یا مجبوری نہ بتائیں۔”

ان کی آواز میں ایک وقار تھا، ایک ایسا وقار جو سالوں کی محنت اور اصولوں کی پاسداری کے بعد آتا ہے۔

“اگر میں چاہوں، تو آپ کی بیٹی کو ابھی اسی لمحے یونیورسٹی سے نکال سکتی ہوں، اور جو فیس جمع ہے، وہ بھی واپس کر سکتی ہوں۔ یہ میرے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ اگر میں اسے یونی سے نکال دوں، تو اس کا کیریئر برباد ہو سکتا ہے۔ اور میں کسی کے مستقبل کو یوں برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔”

ان کی انگلیاں اب میز پر رکھی قلم کو آہستہ آہستہ گھمانے لگیں۔

“لیکن اگر آپ یہی چاہتے ہیں کہ میں اسے یونی سے نکال دوں، تو میں ابھی یہ کر سکتی ہوں!”

دوسری طرف سے کچھ لمحوں تک خاموشی رہی۔ ایک گہری، بوجھل خاموشی، جیسے کوئی اپنے غصے اور حقیقت کے درمیان کشمکش میں مبتلا ہو۔

پھر اچانک، کال کٹ گئی۔

پرنسپل نے چند لمحے فون کی اسکرین کو دیکھا، پھر آہستہ سے فون میز پر رکھا۔ ان کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ ابھری، اور وہ خود سے دھیرے سے بولیں،

“جیسی بیٹی، ویسا ہی باپ!”

جیسے ہی اسکرین پر “Call Ended” کے الفاظ نمودار ہوئے، ایک انجانی بےچینی ان کے دل میں سرایت کرنے لگی۔

ان کا ہاتھ بے اختیار مٹھی کی صورت میں بند ہوگیا۔ پیشانی پر شکنیں گہری ہونے لگیں، اور دل کے کسی کونے سے ایک سرگوشی سی ابھری،

“یہ کیا کر رہے ہو تم؟”

انہوں نے سانس اندر کھینچی، مگر دل کے شور کو دبانے میں ناکام رہے۔

“تم ایسے تو نہیں تھے… کیا تم واقعی ماہی کا کیریئر برباد کر دو گے؟ وہ بھی کسی اور کی وجہ سے نہیں، بلکہ اپنی ضد کی وجہ سے؟”

ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی، انگلیاں بے جان ہو کر ٹیبل پر جا ٹکیں۔ ان کے سامنے رکھے فون کی اسکرین اب بھی روشن تھی، ۔

انہوں نے ایک لمحے کے لیے سر جھکا لیا، جیسے خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ پھر گہری سانس لیتے ہوئے دوبارہ فون اٹھایا اور نمبر ڈائل کر دیا۔

فون کی دوسری طرف کال ریسیو ہوتے ہی انہوں نے جلدی سے بولنا شروع کر دیا، گویا وہ سامنے والے کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اپنا موقف بدل دینا چاہتے ہوں،

“سوری… سوری، وہ غلطی سے کال کٹ گئی تھی۔ آپ بالکل صحیح کہہ رہی تھیں، مجھے اپنی بیٹی پر دھیان دینا چاہیے تھا۔”

پرنسپل ، جو اب بھی پچھلی گفتگو کے اثر میں تھیں، ایک پل کے لیے چونکیں، مگر دوسری طرف کے لہجے میں غیر متوقع نرمی نے انہیں تھوڑا حیران بھی کیا۔

ماِس نے سلسلہ جاری رکھا، “اور آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے میری بیٹی کے بارے میں سوچا، اسے یونی سے نہیں نکالا۔ آپ کے بارے میں بہت سنا تھا کہ فیروزہ شیخ ایک انتہائی انٹیلیجنٹ اور انصاف پسند خاتون ہیں، سب کا خیال رکھتی ہیں، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتیں۔ آج خود دیکھ بھی لیا کہ یہ سب سچ تھا۔”

پرنسپل نے فون کو کان سے لگائے نرمی سے مسکرایا۔ ان کے چہرے پر اب وہ سختی باقی نہیں رہی تھی جو چند لمحے پہلے تک موجود تھی۔

“واقعی، آپ بہت اچھی خاتون ہیں۔” اُن  کی آواز میں ندامت جھلک رہی تھی۔ “میں معذرت چاہتا ہوں، میرا مقصد آپ سے بدتمیزی کرنا نہیں تھا۔ دراصل، مجھے اپنی بیٹی کی حرکتوں پر بہت غصہ تھا، اسی لیے میں نے الٹا سیدھا بول دیا۔ لیکن آپ نے جو کچھ کہا، وہ بالکل درست تھا۔”

پرنسپل نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا،

“It’s okay, I understand.”

دونوں طرف اب ماحول کافی حد تک پرسکون ہو چکا تھا۔ چند مزید اچھی باتوں کا تبادلہ ہوا، پھر کال اختتام

 پذیر ہو گئی۔

پرنسپل نے فون ٹیبل پر رکھتے ہوئے ایک گہری سانس لی اور دھیرے سے خود سے کہا،

“کچھ لوگ وقتی غصے میں اپنی عقل کھو بیٹھتے ہیں، مگر جو اپنی غلطی تسلیم کر لے، وہی اصل میں سمجھدار ہوتا ہے۔”

+++++++++++

ماہی کا نیا سفر : برسٹل سے لندن تک

ماہی یوکے کے شہر برسٹل سٹی میں کووینٹری یونیورسٹی، کیمپس 1 میں اپنی تعلیم مکمل کر رہی تھی، مگر اب اس کا ٹرانسفر لندن سٹی کے کووینٹری یونیورسٹی کیمپس میں ہو چکا تھا۔ یہ تبدیلی اس کے لیے ایک نیا موڑ تھی-نیا شہر، نیا ماحول، اور شاید نئی کہانیوں کا آغاز۔

لندن، صرف یوکے اور انگلینڈ کا سب سے بڑا شہر نہیں، بلکہ برطانیہ کا دارالحکومت بھی ہے۔ یہ شہر انگلینڈ کے جنوب مشرقی علاقے میں دریائے تھیمز کے کنارے واقع ہے، ایک ایسا دریا جو صدیوں سے لندن کی پہچان بنا ہوا ہے۔

لندن کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم اور دلکش ہے جتنا یہ شہر خود۔ اس کی بنیاد رومیوں نے رکھی تھی، اور ابتدا میں اسے “لُنڈینیئم” کہا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نام بدل کر لندن بن گیا، جو آج دنیا کے سب سے مشہور شہروں میں شمار ہوتا ہے۔

یہ شہر ایک یونیورسل سٹی کہلاتا ہے، کیونکہ یہاں دنیا کے ہر کونے سے آئے ہوئے لوگ بستے ہیں۔ مختلف زبانیں، مختلف رنگ، اور مختلف ثقافتیں-یہاں سب کچھ ایک ساتھ مل کر ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جہاں کوئی بھی خود کو اجنبی محسوس نہیں کرتا۔

ماہی برسٹل کے اسٹیشن پر کھڑی تھی، جہاں اس کی آخری سفر کی ابتدا ہو رہی تھی۔ ٹرین کی رفتار میں تیزی آ چکی تھی، اور اس کے ساتھ ہی وہ برسٹل کے آہستہ آہستہ کم ہوتے مناظر کو دیکھ رہی تھی۔ برسٹل کا شہر اپنی منفرد خوبصورتی کے ساتھ پیچھے رہ رہا تھا، اور سامنے لندن کی سرسبز سڑکوں اور بلند عمارتوں کی جھلکیاں آہستہ آہستہ واضح ہونے لگیں۔

ٹرین کی پٹریوں پر موٹر ٹرین کی تیز آواز گونج رہی تھی-“چھک چھک… دھم دھم…”-جو دل میں ایک عجیب سی حرکت پیدا کر رہی تھی۔ ٹرین میں بیٹھے مسافر اپنی اپنی جگہوں پر سکون سے بیٹھے ہوئے تھے، کچھ کتابیں پڑھتے، کچھ موسیقی سن رہے تھے، اور کچھ تو بس کھڑکی سے باہر کے مناظر میں کھو گئے تھے۔

ماہی نے ایک گہری سانس لی اور کھڑکی کے باہر دیکھا، جہاں برسٹل کے روایتی انداز کی عمارتیں تیزی سے گزر رہی تھیں۔ راستے میں سبزہ زار، درختوں کے جھنڈ اور دریا کے کنارے نظر آ رہے تھے۔ برسٹل کا شہر اپنی خوبصورتی میں گم ہوتا جا رہا تھا، اور ٹرین تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی، جیسے ایک نیا شہر، ایک نیا آغاز اس کے سامنے آ رہا ہو۔

اس کے دل میں ایک بےچینی اور جوش تھا-لندن کی زندگی، اس کے امکانات، اور وہ سب کچھ جو اس کا انتظار کر رہا تھا۔ موٹر ٹرین میں سفر کرتے ہوئے وہ اپنی آخری منزل کی طرف بڑھ رہی تھی،

کچھ وقت بعد، ٹرین نے ایک بلند پل کے نیچے سے گزرتے ہوئے دریا کو چھوا۔ پانی کے نیلے دھارے میں سورج کی روشنی چمک رہی تھی، اور یہ منظر کچھ ایسا تھا جیسے لندن کا استقبال کر رہا ہو۔ ماہی نے ایک آخری نظر برسٹل کی طرف ڈالی،

لنڈن جہاں حارث اور ولید رہتا تھا حارث اور ولید ماہی کے خالہ کے بیٹے ہیں ولید اور حارث ٹوینس بھائی ہیں…

ماہی پاکستان سے تھی اور وہ پاکستان سے پڑھنے یوکے آئی تھی ماہی کی فیملی پاکستان میں ہی رہتی تھی ۔۔۔

ماہی کی فیملی میں ماہی کے ابّو اور سوتیلی اماں اور دو سوتیلی بہن ہیں ماہی کی اچھی خاصی فیملی ہے چاچو ہیں چاچی ہیں پھوپو وغیرہ ۔۔

لیکن ماہی کی اُن لوگو سے بنتی نہیں نہ ہی ان کے بچوں سے بنتی ہیں اسی وجہ سے ماہی کی کسی سے بات چیت نہیں ہے….

ماہی کے کزن ، اُن سے بھی ماہی چیرتی ہیں اسی وجہ سے ماہی اپنے کِسی کزن کے ساتھ رابطہ میں بھی نہیں ہے ہاں البتہ ماہی جانتی سب کو ہے….

ماہی کی پوری فیملی میں ماہی بس اپنی پھوپو سے بات کرتی ہے اور کبھی کبھار ماہی کی اپنے والد سے بھی بات ہوجاتی ہے وہ بھی اچھی بات نہیں ہوتی کیوں کے ماہی کی اپنے بابا سے بھی نہیں بنتی تھی

ماہی کی سگی اماں کے انتقال کے بعد ماہی کے والدِ نے دوسری شادی کرلی تھی اور حارث کی ماما ماہی کی سگی خالہ ہے وہ سات سال کی تھی جب اُس کی ماما کا انتقال ہوا۔۔۔

انتقال کے بعد وہ اپنی پھوپو کے پاس ہی رہنے لگی اور پھر کچھ سال بعد ماہی کے والدِ نے دوسری شادی کرلی لیکن پھر بھی ماہی اپنی پھپھو کے پاس ہی رہتی تھی شاید اسی وجہ سے کے اُس کی اُس کے والد کے ساتھ اچھی بائنڈنگ نہیں تھی ۔۔۔

ٹرین کے دروازے کھلتے ہی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ماہی کے چہرے سے ٹکرایا۔ اس نے اپنے بلیک بیک پیک کو مضبوطی سے تھاما اور قدم باہر کی طرف بڑھا دیے۔ لندن کا مصروف اسٹیشن، گاڑیوں کا شور، اور لوگوں کی بھیڑ-یہ سب کچھ اس کے لیے نیا نہیں تھا، مگر پھر بھی دل میں ایک عجیب سا خلا تھا، ایک انجان بےچینی۔

اس نے ایک لمحے کے لیے رک کر گہری سانس لی، پھر آگے بڑھ گئی۔ سڑک کنارے آ کر کھڑی ہوئی تو سامنے ایک قطار میں رکی گاڑیاں نظر آئیں۔ ٹریفک جام نہیں تھا، مگر گاڑیوں کی لائن لمبی تھی۔ سڑک کنارے چلتے ہوئے وہ اردگرد کا جائزہ لینے لگی۔

“تو کیا واقعی مجھے خالہ کے گھر جانا چاہیے؟”

یہ سوال بار بار اس کے ذہن میں گونج رہا تھا۔ اس نے جیب سے فون نکالا اور خالہ کے میسجز دیکھنے لگی۔

“بیٹا، پہنچتے ہی خبر دینا۔ میں انتظار کر رہی ہوں۔ ایڈریس یہ ہے…” ساتھ ہی ایڈریس لکھا تھا۔۔۔

اس نے ایڈریس پر ایک نظر ڈالی، مگر دل میں کوئی خوشی نہیں جاگی۔ نہ ہی کوئی جوش، نہ اپنائیت۔ قدم رک گئے۔

” کیوں جاؤں وہاں؟”

یہ سوال جیسے خود سے کیا تھا، مگر جواب نہ مل سکا۔ وہ سب کو جانتی تھی، مگر کسی کے قریب نہیں تھی۔ نہ چاچو، نہ چاچی، نہ سوتیلی بہنیں، نہ کزنز-سب بس نام کے رشتے تھے۔ وہ واحد شخص جس سے وہ بات کرتی تھی، وہ اس کی پھپھو تھیں، اور کبھی کبھار اپنے والد سے بھی رسمی گفتگو ہو جاتی، جو زیادہ تر تلخ ہی ہوتی۔

” جب سب سے دور رہنا سیکھ لیا ہے، تو اب وہاں جانے کی کیا ضرورت؟”

اس کے پاس سب کچھ تھا-پیسہ، طاقت، آزادی، اور پھپھو کی محبت۔ پھر وہ خالہ کے گھر کیوں جائے؟

” کوئی وجہ؟” وہ خود سے سوال کرنے لگی۔

” دل نہیں مانتا، مگر شاید کوئی وجہ ہی مجھے وہاں لے جائے…”

اچانک دل کی گہرائیوں سے ایک لفظ ابھرا-” دوستی”۔

” دوستی…” وہ خود سے دہرانے لگی۔

یہی تو وہ چیز تھی جو اس کے پاس نہیں تھی۔ اور قسمت کی ستم ظریفی دیکھو، جب بھی اس نے کسی پر بھروسا کیا، بدلے میں صرف دھوکا ملا۔

ماہی نے سر جھٹک دیا۔

” نہیں! میں وہاں نہیں جاؤں گی!”
یادیں جو پیچھے نہیں چھوڑتیں ۔۔۔

وہ تیز قدموں سے سڑک کنارے چلنے لگی۔ کچھ فاصلے پر چند لڑکے ایک کار کے قریب کھڑے تھے، ہاتھ میں ڈرنکس لیے، بے مقصد باتوں میں مصروف۔ ان کی آوازوں میں وہی عام سا انداز تھا، وہی خودپسندی، وہی غرور۔

ماہی نے ان پر ایک سرسری نظر ڈالی اور دل ہی دل میں بڑبڑائی

“یہ سارے لڑکے ایک جیسے ہوتے ہیں-

مگر جیسے ہی وہ آگے بڑھی، دل نے ایک اور سرگوشی کی” نہیں، سارے نہیں…”

اور جیسے ہی یہ خیال آیا، اس کا دماغ سات سال پیچھے چلا گیا۔

سات سال پہلے – اسکول کے باہر

میٹرک کا آخری پرچہ تھا۔ ماہی جیسے ہی اسکول کے گیٹ سے باہر نکلی، شور و غل سنائی دیا۔ کچھ فاصلے پر چند کالج کے لڑکے ایک اسکول کی لڑکی کو تنگ کر رہے تھے۔

ماہی کا خون کھول اٹھا۔ وہ تیزی سے اپنے اسکول کے ایک لڑکے کے پاس پہنچی۔

” اوئے! دیکھ وہاں، وہ لڑکی کو تنگ کر رہے ہیں!”

وہ اپنے اسکول کے ہی ایک لڑکے کے پاس آکر کہا اور اُن لڑکوں کی طرف اشارہ کیا

” پاگل ہو گئی ہو؟ وہ ہم سے بڑے ہیں، چھوڑو، فضول میں پنگا کیوں لینا؟” وہ لڑکا جب اُن کی طرف دیکھا تو وہ کالیج کے بڑے لڑکے تھے جو اس کی اسکول کی ایک لڑکی کو تنگ کر رہے تھے …

“تو کیا ہوا ؟ یہ تیرے اتنے سارے نمونے ہے نہ ہم سب مل کر کچھ تو کر سکتے ہیں!” ماہی نے اس کے دوستوں کو دیکھ کر کہا ۔

” نہیں، ہم ان سے الجھ نہیں سکتے۔ اور اگر تمہیں اتنی ہی فکر ہے، تو خود جا کر دیکھ لو!”

یہ سنتے ہی ماہی کی آنکھوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی، مگر کچھ کہنے بھی نہ پائی تھی کہ پیچھے سے ایک اور آواز آئی۔

” تو ٹینشن کیوں لے رہی ہے؟ تُو تو لڑکی تھوڑی ہے، تُو تو لڑکا ہے نا؟ بس دیکھ اور انجوائے کر ہماری طرح!”

یہ جملہ جیسے بجلی بن کر اس کے ذہن میں گونجا تھا۔ وہ نفرت سے ان سب کو دیکھتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

اسی دن اس نے ایک فیصلہ کیا تھا-اب وہ اکیلی ہر جنگ لڑے گی، کسی سے مدد کی امید نہیں رکھے گی۔

ماہی غصے میں بپھری ہوئی تھی۔ اس نے ان لڑکوں کے قریب جا کر کہا، “تم سب لڑکے ایک جیسے ہوتے ہو… جاہل اور منہوس!”

اس کے الفاظ سنتے ہی وہ سب حیرانی سے اسے دیکھنے لگے، پھر ان میں سے ایک، جو شاید ان کا لیڈر تھا، مسکراتے ہوئے بولا، “ہاں ہاں، بالکل… اور تم سب لڑکیاں ایک جیسی ہوتی ہو، پھول کی طرح نازک اور بیوٹیفل!”

ماہی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، “پھول میں کانٹے بھی ہوتے ہیں!”

یہ کہتے ہی اس نے اپنا جوتے والا پیر اس کے پاؤں پر مارا اور پھر ایک زور دار گھونسہ اس کے پیٹ میں دے مارا۔

“تمہاری اتنی ہمت؟” دوسرا لڑکا غصے میں بولا، “اتنی سی ہو اور ہم سے پنگا لے رہی ہو؟”

اس نے ماہی کے بال پکڑنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا، لیکن ماہی فوراً نیچے جھک گئی۔ اگلے ہی لمحے، اس نے اپنے بیگ سے ایک چمکتا ہوا چاقو نکال لیا۔ “احتیاط علاج سے بہتر ہے!”

چاقو دیکھ کر لڑکوں نے قہقہہ لگایا۔

“یہ اس چاقو سے ہمیں مار لے گی؟ ہاہاہا!” ان میں سے ایک نے مذاق اڑایا، “بچی کیا مذاق کر رہی ہو؟”

وہ سمجھے کہ یہ بس دکھانے کے لیے ہے، مگر ماہی نے لمحہ ضائع کیے بغیر چاقو سیدھا اس لڑکے کے ہاتھ پر چلا دیا، جہاں نسیں تھی۔

“یہ صرف دکھانے کے لیے نہیں، چلانے کے لیے بھی ہے!” وہ مسکراتے ہوئے بولی۔

خون تیزی سے بہنے لگا، اور لڑکا جلدی سے رومال نکال کر اسے روکنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن خون رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ تکلیف کی شدت سے وہ نیچے بیٹھ گیا۔

اسے تکلیف میں دیکھ کر باقی لڑکے بگھر گئے اور ماہی کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔

اب بچ کے دکھاؤ ایک لڑکا غصے میں بولا۔

یہ سب کچھ کچھ فاصلے پر کھڑا ایک اور شخص بھی دیکھ رہا تھا۔

ماہی اب بھی غصے میں تھی۔ اسے احساس نہیں تھا کہ وہ کتنے بڑے خطرے میں تھی

” تم سب سارے کے سارے لڑکے ایک جیسے ہوتے

ہو ” وہ ابھی تک غصے میں تھی۔۔۔

اب ان میں سے ایک لڑکا پیچھے سے آیا اور ماہی کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ وہ جھٹپٹائی مگر وہ مضبوط تھا۔ دوسرا لڑکا آگے بڑھا اور اس کے ہاتھ سے چاقو چھین لیا۔

یہ بہت آسان تھا کیوں کہ ماہی تو اسی لڑنے آگئی تھی ان سب سے اور وہ ٹرینڈ بندی بھی نہیں تھی جو ان کہ مقابلہ آرام سے کر لیتی ۔۔

لیکن ماہی ابھی تک آگ بگولا ہورہی تھی اور اپنے آپکو چھڑوانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔۔
” ماہی تم لوگوں کو زندہ جلا دے گی، چھوڑو مجھے!” وہ دھاڑی ۔۔

اب مزا آئے گا چاقو ہاتھ میں لیے ایک لڑکا اس کے چہرے کے قریب لاتے ہوئے بولا۔
“اب اس کا کیا کرنا ہے ”  وہ لڑکا اب پیچھے موڑ کر اُس لڑکے سے پوچھا جس کے ہاتھ پر چاقو چلایا تھا ماہی نے ۔۔

“پہلے پاؤں… پھر بیٹ… پھر ہاتھ، جیسے اس نے مجھے مارا، ویسے ہی اسے مارو ”  زخمی لڑکا غصے میں بولا۔

جس لمحے وہ لڑکا ماہی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہا تھا، اچانک “ٹھک!” کی زوردار آواز آئی۔ ایک بھاری چیز اس کے سر پر لگی، اور وہ درد سے بلبلا کر ایک طرف لڑکھڑا گیا۔ ماہی نے یہ موقع غنیمت جانا اور فوراً خود کو چھڑا لیا۔

“بھاگو!”
ایک اجنبی آواز اس کے کانوں میں گونجی، اور اس کے ساتھ ہی کسی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
ماہی کو سوچنے کا موقع بھی نہ ملا۔ وہ بس اس مضبوط گرفت کے ساتھ دوڑنے لگی۔ تیز قدموں کی چاپ، پیچھے سے آتی لڑکوں کی گالیاں، اور دل کی دھڑکن-سب کچھ ایک ساتھ گونج رہا تھا۔

کچھ منٹوں بعد وہ ایک سنسان گلی میں پہنچ کر رک گئے۔

ماہی ہانپ رہی تھی، مگر جیسے ہی اس نے اپنے ساتھ کھڑے لڑکے کو دیکھا، اس کی آنکھیں چند لمحے کے لیے ٹھہر گئیں۔

بلیو پینٹ، وائٹ شرٹ، اور بلیو ٹائی۔
بھوری آنکھیں، غیر معمولی طور پر پُرکشش چہرہ۔
وہ لڑکا حد سے زیادہ ہینڈسم تھا-مگر وہ بھی ماہی تھی، وہ جو عام لڑکیوں کی طرح نہیں سوچتی تھی۔
ہاں اگر ماہی کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو پکا وہ اُسے اپنے خوابوں کا شہزادہ تصور کر لیتی لیکن وہ ماہی تھی اُس کی بلا سے سامنے والا جیسا بھی ہو اُسے اُس سے کیا لینا دینا ۔۔۔

” تم کون ہو ؟” ماہی نے سوال کیا۔۔۔

“میں حارث ولی کا بھائی ۔۔” اُس نے آرام سے جواب دیا۔۔۔

“ولی کون ؟” ماہی نے پھر سوال کیا کیوں کہ وہ ولی کو بھی نہیں جانتی تھی۔۔۔

“میرا بھائی ولید ۔۔۔” اُس نے اب کی بار بیزاری سے جواب دیا۔۔۔

“ولید کون ؟” اب ماہی ولید کو بھی نہیں جانتی تھی۔۔

“میرا بھائی۔۔۔” اُس نے ایسے بولا جسے ماہی کو اُس کے اور اُس کے بھائی کے بارے میں سب پتہ ہونا چاہئے۔۔

” تو تم بھی اپنے بھائی کے پاس ہی چلے جاؤ”   اُس کا دماغ سہی میں خراب ہوگیا تھا نہ وہ اس کو جانتی تھی نہ اس کے ولی اور ولید بھائی کو

“ہاں جا رہا ہوں۔۔۔” اس نے اُس کے ایسے غصے پر اور اتنا مختصر سا جواب دیا

ماہی اب اُسے گھورنے لگی عجیب پاگل لڑکا تھا

“اچھا ویسے میں نے یہ کہنا تھا کہ سارے لڑکے ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔۔۔” اُس نے کہا لیکن ماہی ابھی بھی اُسے ویسے ہی گھور رہی تھی اور اسے اُسے جیسے فرق پڑ جانا تھا وہ تو مڑ کر دوڑاتا ہُوا چلا گیا

ماہی بس اُسے جاتے دیکھ رہی تھی نہ بتایا کون تھا کہاں سے آیا تھا ماہی کی مدد کیوں کی اُس نے بس اپنی بات کر کی چلا گیا ۔۔۔

 وہ آپنے خیالوں کی دُنیا سے واپس آتی دوبارہ سے
فون نکل کر واپس سے ایڈریس دیکھنے لگی

“ماہی آرہی ہے حارث ولید ماہی آرہی ہے” وہ مسکراتے ہوئے خود سے مخاطب ہوئی

برسٹل سیٹی نے تو ماہی کو قبول نہیں کیا۔۔
کیا لنڈن سیٹی ماہی کو قبول کرے گا ۔۔۔؟

+++++++++

جاری ہے۔۔۔

Next episode on 8 september 

Insha Allah

دِل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )


قسط نمبر ۱

“تمہیں کیا لگا؟ مجھے پتہ نہیں چلے گا؟”
کمرے میں مدھم سی پیلی روشنی تھی، جو دیوار پر پڑی ہوئی پرچھائیوں کو اور زیادہ خوفناک بنا رہی تھی۔ ایک جھولتا ہوا بلب بار بار اپنی شدت کھوتا، پھر جھپک کر واپس آتا — جیسے کمرے کی سانسیں اسی بلب سے جُڑی ہوں۔ دیواروں پر پڑی ہوئی پرچھائیاں صدیوں پرانے گناہوں کی خاموش گواہی دے رہی تھیں۔

کمرے کے بیچوں بیچ ایک لکڑی کی پرانی کرسی پر وہ شخص بندھا بیٹھا تھا۔ رسیوں نے اس کے ہاتھ، پیر اور کمر کو اس طرح جکڑ رکھا تھا جیسے قید محض جسم کی نہیں، روح کی بھی ہو۔ اس کی سانسیں بے ترتیب تھیں، ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں اس کے خوف کی گواہی دے رہی تھیں۔ وہ بار بار اپنی گردن موڑ کر اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کرتا، مگر سامنے کھڑی سائے جیسی شبیہہ سے نگاہ نہیں چرا سکتا تھا۔

کمرے کے بیچوں بیچ ایک لکڑی کی پرانی کرسی پر وہ شخص بندھا ہوا بیٹھا تھا۔ رسیوں نے اس کے ہاتھ، پاؤں اور کمر کو اس طرح جکڑ رکھا تھا جیسے قید محض جسم کی نہیں، روح کی بھی تھی۔ اس کی سانسیں بے ترتیب تھیں، ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں اس کے خوف کی گواہی دے رہی تھیں۔ وہ بار بار اپنی گردن موڑ کر اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کرتا، مگر سامنے کھڑی سائے جیسی شبیہ سے نگاہ نہیں چرا سکتا تھا۔

وہ نوجوان اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا — آنکھوں میں وحشت، نفرت اور ایک جلتا ہوا انتقام۔ اس کا چہرہ تناؤ سے سخت، آنکھیں سرخ، جبڑے بھنچے ہوئے، اور مٹھی میں دبی انگلیاں اُس طوفان کی خبر دے رہی تھیں جو اس کے اندر پنپ رہا تھا۔ ایسا غصہ جو صرف بدلہ نہیں، کچھ چھین لینے کی خواہش رکھتا تھا۔

“تمہیں کیا لگا؟ مجھے پتہ نہیں چلے گا؟”
اس کی آواز گہری تھی — پر اتنی مدھم نہیں کہ اس میں چھپی آگ محسوس نہ ہو۔ وہ دھیرے سے بولا، مگر ہر لفظ، ہر لہجہ قیدی کے دل میں کیل کی طرح پیوست ہو گیا۔

قیدی نے تھوڑا سا سر اٹھایا۔ اس کی آنکھوں میں صرف خوف نہیں، شرمندگی بھی تھی۔
“یار… دیکھ، معاف کر دے… میں… میں تیرا دوست ہوں ناں؟”
اس کی آواز کانپ رہی تھی، آنکھوں میں عاجزی، لبوں پر لرزش۔ لیکن اس نوجوان کی آنکھوں میں کوئی نرمی نہ تھی۔

“دوست؟”
وہ دھاڑا۔ کمرے کی خاموشی چیرتی آواز میں ایسی لرزش تھی کہ قیدی کی ریڑھ کی ہڈی تک سُن ہو گئی۔
نوجوان نے اپنی انگلی اپنی چھاتی پر رکھی۔ “دوست ہوتا تو یہاں سینے پر وار نہ کرتا!”

قیدی نے ہونٹ کھولے مگر الفاظ اندر ہی کہیں جم گئے۔ اس کے حلق سے کچھ نہ نکل سکا۔ وہ جانتا تھا، جو کچھ وہ کہنا چاہتا تھا، وہ اب کسی قیمت پر سُنا نہیں جائے گا۔

“یہ سب کرتے وقت تُجھے خوف نہیں آیا؟ میری جان بستی ہے اُس میں۔ وہ میرا بھائی … میرا دل، میری دھڑکن، میری زندگی… میری جینے کی وجہ۔ سب کچھ ہے “
نوجوان کی آواز کانپ رہی تھی، مگر وہ کمزوری نہیں تھی۔ وہ خاموش طوفان تھا، جو اب شدت اختیار کر چکا تھا۔
پھر وہ ایک دم آگے بڑھا — قیدی کی گردن کو دبوچ لیا۔ اس کی انگلیاں گوشت میں پیوست ہو گئیں۔

قیدی کے چہرے پر گھبراہٹ، درد اور اذیت کی چادر پھیل گئی۔

“اور تو یہ سب جانتا تھا۔ ہے نا؟
تُجھے خوف نہیں آیا مُجھے سے؟ بول نہیں آیا نہ خوف۔۔۔۔
خیر اُس وقت نہ سہی لیکن اب اب تو آرہا ہوگا نہ …”
پھر جیسے اسے خود پر قابو آیا — اس نے جھٹکے سے ہاتھ چھوڑ دیا۔ قیدی ایک لمحے کو ہانپتا رہا۔ نوجوان کچھ قدم پیچھے ہٹا، گہری سانس لی اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
 کمرے میں ایک پل  کے لیے خاموشی چھا گئی۔
پھر ۔۔۔۔
چٹاخ!
ایک زوردار تھپڑ کی گونج — دیواروں سے ٹکرا کر واپس آئی۔
قیدی کی چیخ نکل گئی۔
وہ سمجھ نہ سکا کہ یہ کس کا ہاتھ تھا، لیکن جلد ہی اسے احساس ہو گیا — یہ نوجوان کا ہاتھ نہیں تھا۔
چٹاخ!
ایک اور تھپڑ۔
“آہ ہ ہ ہ!” اس نے کراہ کر کہا، اور سسکنے لگا۔
“دیکھ، بس ایک بار غلطی ہوئی تھی، بار بار نہیں ہوگا…” وہ انتہائی خوف کے ساتھ بولا، جیسے کسی چھوٹے بچے کی طرح معافی کی تلاش میں ہو۔
مگر نوجوان کا چہرہ سنگلاخ تھا، آنکھوں میں جلن تھی، اور اس کے لہجے میں ایسی شدت تھی کہ جیسے وہ بس اسے ابھی ہی ختم کر دے۔
“میں تُجھے دوبارہ یہ کام کرنے دوں گا، تو تُو کرے گا نہ، میں تُجھے زندہ ہی نہیں چھوڑوں گا!”
نوجوان کی آنکھوں میں سرخی اور گہری بے رحمی جھلک رہی تھی۔
“ایسا نہ کرو… پلیز ایسا نہ کرو… خدا کا واسطہ ہے، میری فیملی ہے، میرا بھا…” اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہہ پاتا، ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر لگا،
“آہ!” اس کی گہری سانس نکل گئی، مگر اس کی آواز بتا رہی تھی کہ یہ ہاتھ اب بھی  اُس کے نہیں تھے  اور یہ خیال اس کے اندر مزید خوف کا بیج بوتا جارہا تھا۔
اُس نے ایک زہر زبانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “تمہارا بھائی… جانتا ہوں میں، کہ تم اپنے بھائی سے کتنی محبت کرتے ہو…”
اس کا لہجہ اب اور بھی تلخ ہو گیا تھا، جیسے وہ اس درد کو اور بڑھا رہا ہو۔
“اور میرا بھائی غلطی سے بھی اپنے بھائی کو میرے بھائی سے کمپیئر مت کرو …..”  یہ الفاظ جیسے اس کے غصے کو اور ہوا دے گئے تھے، جیسے وہ آگ کے شعلوں میں مزید جل رہا ہو۔ قیدی نے ڈر کے مارے اپنی آنکھیں بند کر لیں، لیکن نوجوان کا غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا، اور وہ جانتا تھا کہ اب بچنے کی کوئی صورت نہیں۔
“نہیں، نہیں، میرا وہ مطلب نہیں تھا، وہ… میرا مطلب-” اس کی آواز خوف سے کانپ رہی تھی، اور ہر لفظ کے ساتھ اس کی حالت اور بگڑتی جا رہی تھی۔ وہ جیسے جتنے بھی الفاظ نکالتا، اتنی ہی گہری کھائی میں گر رہا تھا۔
“میں تو بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میری بھی ایک فیملی ہے، وہ… وہ اُنہیں میری ضرورت ہے!” اس کے چہرے پر ایک گہرا کرب تھا، جیسے وہ اپنی زندگی کی آخری امیدیں بیان کر رہا ہو۔ وہ جانتا تھا کہ اس وقت کوئی بھی لفظ اس کے لئے کافی نہیں ہوگا، لیکن پھر بھی وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔
اُس کا چہرہ بے حس تھا، اس کی آنکھوں میں ایک خاموش اور بے رحمانہ عزم تھا۔ قیدی کی حالت اور زیادہ بگڑ چکی تھی۔ اس کی سانسیں تیز اور بے ترتیب ہو گئی تھیں، اور اس کے جسم پر تھوڑی تھوڑی لرزش محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے دل میں ایک ہی خیال تھا- موت کا سامنا اور اس سے بچنے کی کوئی راہ نہیں تھی۔
وہ جان چکا تھا کہ یہاں سے بھاگنا ممکن نہیں۔ یہاں سے اگر وہ کہیں بھی بھاگنے کی کوشش کرتا تو یہ  دوبارہ اسے پکڑ لے گا۔ اور اس سے بچ کر کہیں بھی جانا ممکن نہیں تھا۔ وہ اس کی ہر حرکت کو جانتا تھا، اس کا ہر راز اور اس کی ہر کمزوری کو وہ بڑی آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔
یہ ، اس کا غصہ، اس کی شدت، وہ سب کچھ وہ جانتا تھا۔ اس کی محبت اور نفرت کا جو ایندھن تھا، وہ اس کے لیے ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح تھا۔ وہ نہیں بچ سکتا تھا- اس کی تقدیر اب اس کے ہاتھ میں تھی، اور وہ ہر قیمت پر اس کو سزا دے کے رہے گا ۔۔
“میں۔۔۔۔۔ میں اُسے سب بتا دونگا سب سچ۔۔۔ سچ
وہ سمجھ جائے گا اور مُجھے معاف کر دے گا وہ بہت اچھا ہے وہ معاف کر دے گا مُجھے تم ۔۔۔۔ تم بھی معاف کردو ” اِسے جیسے بھی کر کے بس اپنی جان بچانی تھی اس بھیڑیے سے۔۔۔
” اچھا وہ معاف کر دے گا۔۔۔۔” ہا ہا ہا!” وہ ہنسا اور ایک دم سے پھر سے  غصّہ میں  آکربولا ”  تمہیں اپنا کیا معاف نہیں کرونگا بھائی کے ساتھ کیا وہ تو مر کر بھی معاف نہیں کرو گا۔۔۔۔ پہلے تم مُجھے دھوکا دینے کی سزا کاٹو گے پھر میرے بھائی کو دھوکا دینے کی۔۔۔  میرے ٹائم تم بچ بھی جاؤ لیکن جب بھائی کی باری آئے گی تب تو تم ہرگز نہیں بچوگے ۔۔۔۔”
اسے اب ایک دم سے اور خوف آنے لگا تھا اسے اب ایک دم سے احساس ہورہا تھا کے اس نے غلط جگہ غلط انسان سے  پنگا لے لیا تھا
وہ اپنی جگہ سے اٹھا، اور ایک اشارہ کیا۔
اندھیرے سے پانچ چھ لڑکے نمودار ہوئے — عام سے لڑکے، جن کے چہرے معصوم تھے، لباس سادہ تھا، جیسے اسکول یا کالج کے اسٹوڈنٹس ہوں۔ نہ کوئی ہتھیار، نہ خوفناک حلیہ۔ مگر ان کی آنکھوں میں ایسی لگن تھی، جیسے وہ کسی بڑے مقصد کے لیے کھڑے ہوں۔

ان میں سے ایک آگے بڑھا، اور قیدی کے ہاتھ پیر کھول دیے۔
قیدی کو جیسے یقین نہ آیا۔
نوجوان اب پاؤں پر پاؤں رکھے، بازو صوفے کے پشت پر پھیلائے، فاتحانہ انداز میں بیٹھا۔۔۔
“چلو، تم میرے دوست تھے، اس لیے ایک موقع دے رہا ہوں۔ اگر تم اپنی جان بچا سکتے ہو تو بچالو  ۔”
قیدی کی آنکھوں میں لمحے بھر کو امید کی چمک لہرائی۔
“تمہیں ان لڑکوں سے لڑنا ہے ۔۔۔ اگر ان میں سے کسی کے جسم سے یا منہ سے خون نکل آیا، تو میں تمہیں جیتا ہوا مانوں گا، اور تم جیت جاؤ گے۔” وہ شخص مسکراتے ہوئے بولا۔ “تمہیں آزادی مل جائے گی، تمہیں معاف کردوں گا، اور تمہیں جانے دوں گا۔”
 “لیکن میں… میں کیسے؟” وہ اس حالت میں کیسے لڑ سکتا تھا
“میں نے تم سے اجازت نہیں مانگی — تم اس کھیل کا حصہ بن چکے ہو۔ غلطی کر کے چلو اب شروع ہوجاؤ۔”
نوجوان نے لڑکوں کی طرف دیکھا اور بولا،

“لیٹس گو بوائز”
“اور یاد رکھو، اگر تم ہار گئے تو تمہیں جو چیز چاہیے… وہ کبھی نہیں ملے گی۔” وہ نوجوان اُن لڑکوں سے مخاطب ہُوا
“ایسا نہیں ہوگا!” سب لڑکوں نے پُرجوش انداز میں کہا۔
قیدی کی نظر اب ان لڑکوں پر تھی — اور اپنے کمزور، بھوکے، لاغر جسم پر۔ تین دن کا بھوکا، مار کھایا ہوا، زخموں سے چور، وہ کیا ان سے لڑے گا؟
لیکن مرنا تو اب بھی تھا اور ویسے بھی۔
تو کیوں نہ رسک لے لیا جائے؟
شاید اللہ ابھی مہربان ہو جائے… شاید اس کی تقدیر میں ابھی کچھ دن باقی ہوں…

+++++++++++++

کمرے میں مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی، کمپیوٹر اسکرین پر نیلی روشنی لرز رہی تھی، اور کی بورڈ کی مسلسل ٹک ٹک خاموشی کو توڑ رہی تھی۔ وہ اپنے کام میں مکمل طور پر مگن تھا جب دروازہ دھڑام سے کھلا اور کوئی تیزی سے اندر داخل ہوا۔

“اوئے سن… سن… سن!”

حارث ہمیشہ کی طرح بے تکلفی سے اندر گھس آیا تھا۔ اس کی آواز میں جوش تھا، جیسے کوئی بڑی خبر لایا ہو ۔۔

وہ ذرا سا چونکا، مگر فوراً خود کو سنبھالتے ہوئے نظریں اسکرین پر رکھتے ہوئے بولا، “ہاں، بول؟”

حارث کے ہونٹوں پر ایک شریر سی مسکراہٹ تھی۔ وہ بے تابی سے بولا، “ماہی کا یونیورسٹی ٹرانسفر ہو گیا ہے، اور وہ اب ہماری یونیورسٹی آ رہی ہے!”

کی بورڈ پر چلتی انگلیاں اچانک رک گئیں۔ اس کی نظریں ایک لمحے کو اسکرین پر جمی رہیں، پھر وہ آہستہ سے گردن گھما کر حارث کو دیکھنے لگا۔

“کیا…؟” ایک لمحے کے لیے حیرت اس کے چہرے پر ابھری، مگر وہ فوراً خود پر قابو پاتے ہوئے معمولی بے نیازی سے بولا، “اچھا… صحیح ہے۔”

حارث نے اسے غور سے دیکھا، پھر مزید جوش سے بولا، “ہاں بے، اور اب وہ ہمارے شہر میں شفٹ ہو رہی ہے!”

اس بار وہ واقعی سنبھل نہ پایا۔ “کیا… اب ہمارے شہر میں ہی رہے گی؟” اس کے لہجے میں حیرت واضح تھی۔

حارث نے جیسے آخری بم پھوڑ دیا، “صرف شہر میں نہیں، بلکہ اب وہ ہمارے گھر میں بھی رہے گی!”

“کیا ” یہ سنتے ہی وہ کرسی پر بیٹھا نہیں رہ سکا۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا، جیسے کسی نے زمین اس کے قدموں تلے سے کھینچ لی ہو

+++++++++++

کمرے کے بیڈ پر وہ بیٹھی تھی، آنکھوں میں ایک عجیب سی نمی تھی مگر لبوں پر زبردستی کی مسکراہٹ۔ کرن نے اس کی طرف دیکھا اور دھیرے سے کہا
“یار، میں تجھے بہت مس کروں گی۔”

ماہی خاموشی سے بیگ میں کپڑے تہہ کرتی جا رہی تھی۔ کرن کی آواز سن کر محض “ہمم” کہہ کر رہ گئی۔

کرن کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔
“تو ہمیں مس کرے گی؟”

ماہی کے ہاتھ ایک لمحے کو رکے، پھر ویسے ہی چلنے لگے جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ ایک اور “ہمم” اس کے لبوں سے نکلا جو نہ ہاں تھا نہ ناں۔

“اپنا فون تو لے کر جا رہی ہو نا؟ ہم سے رابطہ رکھنا۔۔”

“ہمم۔۔۔”

کرن کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ اُس نے بےچینی سے ماہی کے چہرے کی طرف دیکھا۔

“کیا کب سے ہمم ہمم لگا رکھا ہے! کچھ بولو بھی۔ کیا تم ہم سے ناراض ہو ؟”

ماہی نے سکون سے سانس لی، جیسے طوفان کو خود میں سمیٹ لیا ہو۔
“نہیں، میں کیوں ناراض ہوں گی تم لوگوں سے؟”

کرن کے لب کانپ گئے۔ وہ آنکھوں میں کچھ سوال لے کر بولی
“وہ جو ہم سب نے تمہارے ساتھ نہیں دیا۔۔۔”

ماہی نے نظریں ملائے بغیر، ہلکے لہجے میں جواب دیا
“مجھے کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اکیلی ہی کافی ہوں۔”

دروازہ یکایک کھلا۔ دودھ جیسی رنگت اور سفید لباس میں ملبوس سٹیلا کمرے میں داخل ہوئی۔ اُس کی آنکھوں میں غصہ اور لبوں پر طنز تھا۔
“دیکھ لو، دیکھ لو اسے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا اسے۔ ہم فالتو میں اپنا ٹائم ضائع کر رہے ہیں اس کے پیچھے۔”

ماہی نے بیگانگی سے سر ہلایا۔
“ہاں، جب فرق نہیں پڑتا تو نہیں پڑتا نا۔”

کرن نے بےچینی سے سٹیلا کی طرف دیکھا
“یہ جا رہی ہے، سٹیلا۔ آج تو کچھ خیال کر لو اس کا۔۔۔”

سٹیلا نے آنکھیں گھمائیں “سارے خیال میں ہی کیوں کروں؟ اسے بھی تو بولو نا کہ جا رہی ہے تو کم از کم اچھے سے الوداع کر کے جائے۔”

ماہی کی آواز جیسے برف سے ٹھٹھری ہو “مجھ سے نہیں ہوتا جھوٹ موٹ کا اچھا بننے کا ناٹک۔”

سٹیلا نے ہنکارا بھرا، اب کی بار اُس کی آواز میں زہر گھلا تھا
“تمہارے اسی ایٹیٹیوڈ کی وجہ سے نہ کوئی تم سے بات کرتا ہے، نہ دوستی کرتا ہے۔”

ماہی نے بے نیازی سے کہا “ہاں تو، ماہی کو دوستوں کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ماہی ایسے ہی بہت خوش ہے۔”

کرن نے دونوں کی تلخی دیکھ کر بےبسی سے سر جھٹکا “اُف، بس کردو تم دونوں!”

اتنے میں دروازہ دوبارہ کھلا۔ ایک ہلکی سی خوشبو کے ساتھ، چھوٹے اسکرٹ اور ہاف بندھے بالوں میں مینی اندر داخل ہوئی۔ اُس کے چہرے پر وہی پیار بھری مسکراہٹ تھی، جسے ماہی ہمیشہ اپنے دل میں محفوظ رکھتی تھی۔

آتے ہی ماہی سے لپٹ گئی

“میں تجھے بہت مس کروں گی، ماہی! اگر ہو سکے تو میں بھی اپنا ٹرانسفر کرا لوں، تیرے کیمپس میں آجاؤں گی۔”

ماہی نے مسکرا کر اُسے دیکھا، پہلی بار اُس کی آواز میں تھوڑا رنگ آیا “ہاں، مُجھے  سے مار کھانے آؤ گی نا وہاں؟”

مینی نے شوخی سے ہنستے ہوئے کہا “نہیں مار کھانے نہیں۔۔۔ سب کو مار کھلوانے آؤں گی!”

ماہی نے آنکھیں مٹکائیں “اچھا، اگر اوور ایکٹنگ ختم ہوگئی ہو تو  سامان پیک کر میرے ساتھ۔۔۔”

مینی قہقہہ لگا کر بولی “یہ نہ ہو پائے گا آپ سے، لائیے ہم ہی کر دیتے ہیں!”

بیگ کے زِپ کی آواز میں کچھ رشتے بند ہو رہے تھے اور کچھ یادیں ہمیشہ کے لیے اس بریف کیس میں رکھ دی جا رہی تھیں۔

++++++++++++

حارث نے اس کے چہرے کے اترتے رنگ دیکھے تو حیرت سے بولا، “ارے، کیا ہوا؟”

وہ گہری سانس لے کر رخ موڑ گیا اور سرد لہجے میں بولا، “کچھ نہیں… جا، میں کام کر رہا ہوں۔ مجھے کام کرنے دے۔”

حارث نے کندھے اچکائے، “جا، کرتے رہ کام… کام کرتے کرتے مر جا!” وہ چہکتا ہوا دروازے سے نکل گیا، مگر وہ وہیں کھڑا رہا، جیسے کچھ دیر پہلے کی خبر نے اس کے اندر طوفان کھڑا کر دیا ہو۔

چند لمحے گزرے، پھر جیسے کوئی خیال ذہن میں بجلی کی طرح لپکا۔

“اوئے سن سن… ماہی کا ٹرانسفر ہوا کیوں؟”

وہ تیزی سے دروازے کی طرف لپکا اور بلند آواز میں حارث کو آواز دی۔

حارث تب تک دروازے سے باہر جا چکا تھا، مگر اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ وہ رک گیا۔

“مجھے کیا پتہ… وہ جب آئے تو خود پوچھ لینا!”

حارث کا جواب آتے ہی وہ وہیں رک گیا، مگر اس کے اندر بےچینی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔

+++++++++++

کمرے میں خاموشی تھی، مگر ماحول میں تناؤ کی لہر واضح تھی۔ سٹیلا کے چہرے پر غصہ تھا، جبکہ کرن اسے منانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔

“یہ ماہی تو ہے ہی پاگل، اب تو بھی اس کے ساتھ پاگل بن رہی ہو! ٹرانسفر کروا لوں گی میں، مم ایسے ہی کسی کا بھی ٹرانسفر نہیں کر دینے گی!” سٹیلا نے مینی کو گھورتے ہوئے کہا۔

مینی نے کندھے اچکائے، جیسے اسے اس بحث میں کوئی دلچسپی نہ ہو۔

“یہ سب فضول کام کرنے سے بہتر ہے کہ اس کو بولو کہ مم سے اور اس لڑکے سے معافی مانگ لے، سب ٹھیک ہو جائے گا، اور پھر یہ یہاں سے جائے گی بھی نہیں!”

“ہاں ماہی، یار! معافی مانگ لے نہ ہمارے لیے، پھر تو ہمارے ساتھ ہی رہے گی یہاں…” کرن بھی سٹیلا کی بات کی تائید میں بولی۔

ماہی، جو خاموشی سے اپنا سامان پیک کر رہی تھی، ایک پل کو رکی، مگر پھر سر جھٹک کر دوبارہ اپنا کام کرنے لگی۔ “مم سے تو معافی میں مان لوں، لیکن اس سے؟ کبھی نہیں!”

سٹیلا جھنجھلا کر بولی، “کتنی ضدی ہو تم! ایک سوری ہی تو بولنا ہے، ہمارے لیے ہی بول دو!”

“تم لوگوں کے لیے؟” ماہی نے سر اٹھایا، آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ “ماہی کبھی اپنے لیے سوری نہیں بولی، تم لوگوں کے لیے کیا بولے گی؟”

“ایسا مت کر ماہی، دیکھ… ہماری دوستی، ہمارا اسکواڈ…”

“بھاڑ میں گیا اسکواڈ! لیکن ماہی معافی نہیں مانگے گی!” ماہی کی آواز میں حتمی فیصلہ تھا۔

سٹیلا کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، “مر جا ماہی، تُو مر جا!” وہ غصے میں بڑبڑائی۔

کرن نے بےبسی سے مینی کی طرف دیکھا، “یار مینی، تو ہی بول دے! اسے سمجھا دے کہ معافی مانگ لے، پھر یہ کہیں بھی نہیں جائے گی۔ تُو تو جانتی ہے یہ تیری بات مانتی ہے، نا؟”

مینی، جو اب تک خاموش کھڑی تھی، ایک گہری سانس لے کر بولی، “نہیں… میں نہیں بول رہی۔ میں اس معاملے میں کچھ نہیں کہنا چاہتی۔ جیسے میں اُس وقت وہاں نہیں تھی، ایسے ہی سمجھو کہ میں یہاں بھی نہیں ہوں۔”

ماہی، جو بیگ میں اپنا فون چارجر رکھ رہی تھی، یہ سن کر ہلکا سا مسکرائی، مگر اس نے نظر اٹھا کر کسی کو نہیں دیکھا۔

سٹیلا کا غصہ اس کی برداشت سے باہر ہونے لگا۔ وہ زور سے دروازے پر ہاتھ مار کر چلائی، “دفعہ ہو جاؤ تم لوگ!” اور تیزی سے باہر نکل گئی۔

ماہی نے بیگ کا زپ بند کیا اور ایک نظر کرن اور مینی پر ڈالی، پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی، “چلو، میرا سامان پیک ہو گیا ہے، گاڑی بھی آنے والی ہوگی۔ نیچے چلتے ہیں۔”

مینی نے سر ہلایا، “ہاں، میں میٹرو ٹرین تک تیرے ساتھ جاؤں گی۔”

ماہی نے حیرت سے اسے دیکھا، “ہاں؟ تیرے پاس اتنا فضول ٹائم ہے؟”

مینی ہنسی، “بہت زیادہ! دیکھ، ساتھ جانے کے لیے تیار بھی ہوں!”

ماہی بھی ہنس پڑی، “پاگل!”

وہ اپنا بیگ کندھے پر ڈال کر دروازے کی طرف بڑھی، مینی اس کے ساتھ ساتھ چل دی، اور کرن خاموشی سے ان کے پیچھے ہو لی۔

++++++++++++

کمرے میں خاموشی تھی، لیکن فون کی اسکرین پر ایک نیا کال کا نوٹیفیکیشن آیا۔ پرنسپل مم نے فون اٹھایا، اور جیسے ہی کال کنیکٹ ہوئی، ایک مردانہ آواز گونج اٹھی، “اسلام علیکم۔۔۔”

“وعلیکم سلام، کون بات کر رہا ہے؟ اور میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟” پرنسپل مم نے رسمی انداز میں پوچھا،

“میں ماہی کا والد بات کر رہا ہوں۔ کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ میری بیٹی ماہی کا ٹرانسفر دوسرے کیمپس میں کیوں کروایا گیا؟” اس کی آواز میں بے چینی اور پریشانی تھی۔

“اوہ، تو آپ ہیں ماہی کے والد؟ میں نے آپ کو ای میل کر دیا تھا اور ساری صورتحال بھی بتا دی تھی۔” پرنسپل مم نے ایک لمحے کے لیے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

اس نے ایک گہری سانس لی، اور پھر شکایتی انداز میں بولے، “معذرت، لیکن مجھے تو ایسی کوئی ای میل نہیں ملی “

پرنسپل کی بھنویں تن گئیں۔ انہوں نے اپنی انگلیاں ٹیبل پر رکھتے ہوئے ہلکے سے انگلیوں سے ٹیپ کیا، پھر تحمل سے بولیں، “ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے خود ای میل بھیجی تھی۔”

دوسری طرف سے جھنجھلائی ہوئی آواز آئی، “کوئی پروبلم ہو گئی ہوگی شاید میرے لیپ ٹاپ میں۔ اسی وجہ سے میرے پاس آپ کا ای میل نہیں آیا “

“ہاں ہوسکتا ہے اچھا چھوڑے میں آپکو بتاتی ہوں آپکی بیٹی کے کارنامے ۔۔۔۔” پرنسپل مم اُن کی بات  سمجھتی کہنا شروع کیا

“آپ کی بیٹی ماہی نے یونیورسٹی میں کچھ ایسی حرکتیں کی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ آئے دن یہاں کوئی نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے، لیکن بات اس حد تک نہیں پہنچی تھی کہ مجھے مداخلت کرنی پڑتی۔ اس کے اساتذہ معاملات سنبھال لیتے تھے۔”

وہ لمحہ بھر کو رُکیں، جیسے الفاظ چُن رہی ہوں۔ پھر انہوں نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسایا اور کہا،

“مگر اس بار اس نے حد کر دی ہے۔”

دوسری طرف جیسے سانس رک سی گئی ہو۔

“کیا مطلب؟” اِس کی آواز میں اب بےچینی تھی۔

“آپ کی بیٹی نے ایک سینئر اسٹوڈنٹ کے ساتھ نہ صرف جھگڑا کیا، بلکہ اس کا سر بھی پھاڑ دیا۔” یہ کہتے ہوئے پرنسپل نے آنکھیں بند کر کے ایک گہری سانس لی، جیسے انہیں خود اس واقعے پر یقین نہ

 آ رہا ہو۔ دوسری طرف ایک دم خاموشی چھا گئی۔

“حد ہوتی ہے! آپ کی بیٹی بہت زیادہ ہی بگڑ گئی ہے۔” ان کا لہجہ سخت تھا، آواز میں تھکن بھی تھی اور برہمی بھی۔ “یہ روز یونیورسٹی میں ہنگامہ کرتی ہے، مار پیٹ کرتی ہے۔ آپ نے اسے پڑھنے کے لیے بھیجا تھا یا لڑنے کے لیے؟”

دوسری طرف اب بھی خاموشی تھی۔۔۔

پرنسپل نے گہری سانس لے کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی، پھر مزید سخت لہجے میں بولیں، “آپ شکر کریں کہ میں نے اسے یونیورسٹی سے نکالا نہیں، ورنہ جو کچھ اس نے کیا، اس کے بعد تو یہی ہونا چاہیے تھا!”

دوسری طرف چند لمحے خاموشی رہی، پھر ایک بھاری آواز آئی، “تو پھر نِکلا کیوں نہیں ؟

پرنسپل نے فون کی دوسری طرف سے آنے والے الفاظ سنے تو ان کے چہرے کے تاثرات پل بھر میں بدل گئے۔ وہ کرسی کی پشت سے ہلکا سا پیچھے ہوئیں، فون کو ذرا سا دور کر کے اسے گھورا، جیسے وہ یہ جانچ رہی ہوں کہ واقعی ان کے کانوں نے ٹھیک سنا ہے یا نہیں ۔۔۔۔

ان کے لب ہلکے سے جنبش میں آئے، اور ایک سوچ دل سے نکل کر دماغ میں گونجنے لگی، “جیسی بیٹی ہے، ویسا ہی باپ!”

پرنسپل کرسی پر سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں، ان کے چہرے پر سختی نمایاں ہو گئی تھی۔ فون کی دوسری طرف خاموشی تھی، مگر وہ جانتی تھیں کہ اس خاموشی کے پیچھے بے چینی اور غصہ دونوں موجود تھے۔

انہوں نے ایک گہری سانس لی اور مضبوط لہجے میں کہا،

“آپ اسے میری مہربانی سمجھیں، اور ہاں، آپ کو پتہ بھی ہے کہ جس لڑکے سے ماہی نے لڑائی کی تھی، وہ ہمارے یونیورسٹی کے سب سے اچھے پروفیسر کا بیٹا تھا؟”

یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رکیں، جیسے سامنے والے کے ردِعمل کا انتظار کر رہی ہوں۔ مگر دوسری طرف اب بھی خاموشی تھی۔

انہوں نے ہاتھ میں پکڑے قلم کو میز پر رکھتے ہوئے مزید کہا،

“جانتے ہیں، پروفیسر نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ یا تو وہ یونیورسٹی میں رہے گے یا پھر آپ کی بیٹی۔ اور ہم اپنی یونیورسٹی کے سب سے بہترین پروفیسر کو کھونے کا خطرہ نہیں مول لے سکتے۔”

انہوں نے میز پر انگلیاں ہلکی ہلکی سے بجائیں، جیسے خود کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔

“اسی لیے، میں نے آپ کی بیٹی کا ٹرانسفر کروا دیا۔ اور پروفیسر اور باقی اسٹاف کو یہی بتایا ہے کہ ماہی کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے۔”

انہوں نے ایک لمحے کے لیے توقف کیا، پھر مزید سختی سے کہا،

فون کی دوسری طرف سے آواز اب بھی بھاری اور چبھتی ہوئی تھی، “وہ تو میں جانتا ہوں کہ یہ آپ کی مہربانی نہیں، آپ کی مجبوری تھی۔ آپ اسے یونی سے نکال نہیں سکتی تھیں، کیونکہ آپ لوگ سیمسٹر شروع ہونے سے پہلے ہی فیس لے لیتے ہیں، اور سیمسٹر تو بعد میں شروع ہوتا ہے۔ ماہی کی فیس بھی اس سیمسٹر کے لیے جمع ہو چکی ہے، اسی لیے آپ نے اسے یونی سے نکالا نہیں، بس اس کا ٹرانسفر کر دیا۔”

پرنسپل نے ایک گہری سانس لی، ان کی انگلیاں بے ساختہ میز پر رکھی فائل کے کنارے پر رگڑنے لگیں۔ ان کے ہونٹ سختی سے بھینچ گئے، اور پھر انہوں نے نظریں فون پر جما کر مضبوط لہجے میں کہا،

“ایکسکیوز می! آپ اپنی بیٹی کے کرتوتوں پر غور کریں، اور مجھے میری مہربانی یا مجبوری نہ بتائیں۔”

ان کی آواز میں ایک وقار تھا، ایک ایسا وقار جو سالوں کی محنت اور اصولوں کی پاسداری کے بعد آتا ہے۔

“اگر میں چاہوں، تو آپ کی بیٹی کو ابھی اسی لمحے یونیورسٹی سے نکال سکتی ہوں، اور جو فیس جمع ہے، وہ بھی واپس کر سکتی ہوں۔ یہ میرے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ اگر میں اسے یونی سے نکال دوں، تو اس کا کیریئر برباد ہو سکتا ہے۔ اور میں کسی کے مستقبل کو یوں برباد ہوتا نہیں دیکھ سکتی۔”

ان کی انگلیاں اب میز پر رکھی قلم کو آہستہ آہستہ گھمانے لگیں۔

“لیکن اگر آپ یہی چاہتے ہیں کہ میں اسے یونی سے نکال دوں، تو میں ابھی یہ کر سکتی ہوں!”

دوسری طرف سے کچھ لمحوں تک خاموشی رہی۔ ایک گہری، بوجھل خاموشی، جیسے کوئی اپنے غصے اور حقیقت کے درمیان کشمکش میں مبتلا ہو۔

پھر اچانک، کال کٹ گئی۔

پرنسپل نے چند لمحے فون کی اسکرین کو دیکھا، پھر آہستہ سے فون میز پر رکھا۔ ان کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ ابھری، اور وہ خود سے دھیرے سے بولیں،

“جیسی بیٹی، ویسا ہی باپ!”

جیسے ہی اسکرین پر “Call Ended” کے الفاظ نمودار ہوئے، ایک انجانی بےچینی ان کے دل میں سرایت کرنے لگی۔

ان کا ہاتھ بے اختیار مٹھی کی صورت میں بند ہوگیا۔ پیشانی پر شکنیں گہری ہونے لگیں، اور دل کے کسی کونے سے ایک سرگوشی سی ابھری،

“یہ کیا کر رہے ہو تم؟”

انہوں نے سانس اندر کھینچی، مگر دل کے شور کو دبانے میں ناکام رہے۔

“تم ایسے تو نہیں تھے… کیا تم واقعی ماہی کا کیریئر برباد کر دو گے؟ وہ بھی کسی اور کی وجہ سے نہیں، بلکہ اپنی ضد کی وجہ سے؟”

ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی، انگلیاں بے جان ہو کر ٹیبل پر جا ٹکیں۔ ان کے سامنے رکھے فون کی اسکرین اب بھی روشن تھی، ۔

انہوں نے ایک لمحے کے لیے سر جھکا لیا، جیسے خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ پھر گہری سانس لیتے ہوئے دوبارہ فون اٹھایا اور نمبر ڈائل کر دیا۔

فون کی دوسری طرف کال ریسیو ہوتے ہی انہوں نے جلدی سے بولنا شروع کر دیا، گویا وہ سامنے والے کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اپنا موقف بدل دینا چاہتے ہوں،

“سوری… سوری، وہ غلطی سے کال کٹ گئی تھی۔ آپ بالکل صحیح کہہ رہی تھیں، مجھے اپنی بیٹی پر دھیان دینا چاہیے تھا۔”

پرنسپل ، جو اب بھی پچھلی گفتگو کے اثر میں تھیں، ایک پل کے لیے چونکیں، مگر دوسری طرف کے لہجے میں غیر متوقع نرمی نے انہیں تھوڑا حیران بھی کیا۔

ماِس نے سلسلہ جاری رکھا، “اور آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے میری بیٹی کے بارے میں سوچا، اسے یونی سے نہیں نکالا۔ آپ کے بارے میں بہت سنا تھا کہ فیروزہ شیخ ایک انتہائی انٹیلیجنٹ اور انصاف پسند خاتون ہیں، سب کا خیال رکھتی ہیں، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتیں۔ آج خود دیکھ بھی لیا کہ یہ سب سچ تھا۔”

پرنسپل نے فون کو کان سے لگائے نرمی سے مسکرایا۔ ان کے چہرے پر اب وہ سختی باقی نہیں رہی تھی جو چند لمحے پہلے تک موجود تھی۔

“واقعی، آپ بہت اچھی خاتون ہیں۔” اُن  کی آواز میں ندامت جھلک رہی تھی۔ “میں معذرت چاہتا ہوں، میرا مقصد آپ سے بدتمیزی کرنا نہیں تھا۔ دراصل، مجھے اپنی بیٹی کی حرکتوں پر بہت غصہ تھا، اسی لیے میں نے الٹا سیدھا بول دیا۔ لیکن آپ نے جو کچھ کہا، وہ بالکل درست تھا۔”

پرنسپل نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا،

“It’s okay, I understand.”

دونوں طرف اب ماحول کافی حد تک پرسکون ہو چکا تھا۔ چند مزید اچھی باتوں کا تبادلہ ہوا، پھر کال اختتام

 پذیر ہو گئی۔

پرنسپل نے فون ٹیبل پر رکھتے ہوئے ایک گہری سانس لی اور دھیرے سے خود سے کہا،

“کچھ لوگ وقتی غصے میں اپنی عقل کھو بیٹھتے ہیں، مگر جو اپنی غلطی تسلیم کر لے، وہی اصل میں سمجھدار ہوتا ہے۔”

+++++++++++

ماہی کا نیا سفر : برسٹل سے لندن تک

ماہی یوکے کے شہر برسٹل سٹی میں کووینٹری یونیورسٹی، کیمپس 1 میں اپنی تعلیم مکمل کر رہی تھی، مگر اب اس کا ٹرانسفر لندن سٹی کے کووینٹری یونیورسٹی کیمپس میں ہو چکا تھا۔ یہ تبدیلی اس کے لیے ایک نیا موڑ تھی-نیا شہر، نیا ماحول، اور شاید نئی کہانیوں کا آغاز۔

لندن، صرف یوکے اور انگلینڈ کا سب سے بڑا شہر نہیں، بلکہ برطانیہ کا دارالحکومت بھی ہے۔ یہ شہر انگلینڈ کے جنوب مشرقی علاقے میں دریائے تھیمز کے کنارے واقع ہے، ایک ایسا دریا جو صدیوں سے لندن کی پہچان بنا ہوا ہے۔

لندن کی تاریخ بھی اتنی ہی قدیم اور دلکش ہے جتنا یہ شہر خود۔ اس کی بنیاد رومیوں نے رکھی تھی، اور ابتدا میں اسے “لُنڈینیئم” کہا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نام بدل کر لندن بن گیا، جو آج دنیا کے سب سے مشہور شہروں میں شمار ہوتا ہے۔

یہ شہر ایک یونیورسل سٹی کہلاتا ہے، کیونکہ یہاں دنیا کے ہر کونے سے آئے ہوئے لوگ بستے ہیں۔ مختلف زبانیں، مختلف رنگ، اور مختلف ثقافتیں-یہاں سب کچھ ایک ساتھ مل کر ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جہاں کوئی بھی خود کو اجنبی محسوس نہیں کرتا۔

ماہی برسٹل کے اسٹیشن پر کھڑی تھی، جہاں اس کی آخری سفر کی ابتدا ہو رہی تھی۔ ٹرین کی رفتار میں تیزی آ چکی تھی، اور اس کے ساتھ ہی وہ برسٹل کے آہستہ آہستہ کم ہوتے مناظر کو دیکھ رہی تھی۔ برسٹل کا شہر اپنی منفرد خوبصورتی کے ساتھ پیچھے رہ رہا تھا، اور سامنے لندن کی سرسبز سڑکوں اور بلند عمارتوں کی جھلکیاں آہستہ آہستہ واضح ہونے لگیں۔

ٹرین کی پٹریوں پر موٹر ٹرین کی تیز آواز گونج رہی تھی-“چھک چھک… دھم دھم…”-جو دل میں ایک عجیب سی حرکت پیدا کر رہی تھی۔ ٹرین میں بیٹھے مسافر اپنی اپنی جگہوں پر سکون سے بیٹھے ہوئے تھے، کچھ کتابیں پڑھتے، کچھ موسیقی سن رہے تھے، اور کچھ تو بس کھڑکی سے باہر کے مناظر میں کھو گئے تھے۔

ماہی نے ایک گہری سانس لی اور کھڑکی کے باہر دیکھا، جہاں برسٹل کے روایتی انداز کی عمارتیں تیزی سے گزر رہی تھیں۔ راستے میں سبزہ زار، درختوں کے جھنڈ اور دریا کے کنارے نظر آ رہے تھے۔ برسٹل کا شہر اپنی خوبصورتی میں گم ہوتا جا رہا تھا، اور ٹرین تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی، جیسے ایک نیا شہر، ایک نیا آغاز اس کے سامنے آ رہا ہو۔

اس کے دل میں ایک بےچینی اور جوش تھا-لندن کی زندگی، اس کے امکانات، اور وہ سب کچھ جو اس کا انتظار کر رہا تھا۔ موٹر ٹرین میں سفر کرتے ہوئے وہ اپنی آخری منزل کی طرف بڑھ رہی تھی،

کچھ وقت بعد، ٹرین نے ایک بلند پل کے نیچے سے گزرتے ہوئے دریا کو چھوا۔ پانی کے نیلے دھارے میں سورج کی روشنی چمک رہی تھی، اور یہ منظر کچھ ایسا تھا جیسے لندن کا استقبال کر رہا ہو۔ ماہی نے ایک آخری نظر برسٹل کی طرف ڈالی،

لنڈن جہاں حارث اور ولید رہتا تھا حارث اور ولید ماہی کے خالہ کے بیٹے ہیں ولید اور حارث ٹوینس بھائی ہیں…

ماہی پاکستان سے تھی اور وہ پاکستان سے پڑھنے یوکے آئی تھی ماہی کی فیملی پاکستان میں ہی رہتی تھی ۔۔۔

ماہی کی فیملی میں ماہی کے ابّو اور سوتیلی اماں اور دو سوتیلی بہن ہیں ماہی کی اچھی خاصی فیملی ہے چاچو ہیں چاچی ہیں پھوپو وغیرہ ۔۔

لیکن ماہی کی اُن لوگو سے بنتی نہیں نہ ہی ان کے بچوں سے بنتی ہیں اسی وجہ سے ماہی کی کسی سے بات چیت نہیں ہے….

ماہی کے کزن ، اُن سے بھی ماہی چیرتی ہیں اسی وجہ سے ماہی اپنے کِسی کزن کے ساتھ رابطہ میں بھی نہیں ہے ہاں البتہ ماہی جانتی سب کو ہے….

ماہی کی پوری فیملی میں ماہی بس اپنی پھوپو سے بات کرتی ہے اور کبھی کبھار ماہی کی اپنے والد سے بھی بات ہوجاتی ہے وہ بھی اچھی بات نہیں ہوتی کیوں کے ماہی کی اپنے بابا سے بھی نہیں بنتی تھی

ماہی کی سگی اماں کے انتقال کے بعد ماہی کے والدِ نے دوسری شادی کرلی تھی اور حارث کی ماما ماہی کی سگی خالہ ہے وہ سات سال کی تھی جب اُس کی ماما کا انتقال ہوا۔۔۔

انتقال کے بعد وہ اپنی پھوپو کے پاس ہی رہنے لگی اور پھر کچھ سال بعد ماہی کے والدِ نے دوسری شادی کرلی لیکن پھر بھی ماہی اپنی پھپھو کے پاس ہی رہتی تھی شاید اسی وجہ سے کے اُس کی اُس کے والد کے ساتھ اچھی بائنڈنگ نہیں تھی ۔۔۔

ٹرین کے دروازے کھلتے ہی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ماہی کے چہرے سے ٹکرایا۔ اس نے اپنے بلیک بیک پیک کو مضبوطی سے تھاما اور قدم باہر کی طرف بڑھا دیے۔ لندن کا مصروف اسٹیشن، گاڑیوں کا شور، اور لوگوں کی بھیڑ-یہ سب کچھ اس کے لیے نیا نہیں تھا، مگر پھر بھی دل میں ایک عجیب سا خلا تھا، ایک انجان بےچینی۔

اس نے ایک لمحے کے لیے رک کر گہری سانس لی، پھر آگے بڑھ گئی۔ سڑک کنارے آ کر کھڑی ہوئی تو سامنے ایک قطار میں رکی گاڑیاں نظر آئیں۔ ٹریفک جام نہیں تھا، مگر گاڑیوں کی لائن لمبی تھی۔ سڑک کنارے چلتے ہوئے وہ اردگرد کا جائزہ لینے لگی۔

“تو کیا واقعی مجھے خالہ کے گھر جانا چاہیے؟”

یہ سوال بار بار اس کے ذہن میں گونج رہا تھا۔ اس نے جیب سے فون نکالا اور خالہ کے میسجز دیکھنے لگی۔

“بیٹا، پہنچتے ہی خبر دینا۔ میں انتظار کر رہی ہوں۔ ایڈریس یہ ہے…” ساتھ ہی ایڈریس لکھا تھا۔۔۔

اس نے ایڈریس پر ایک نظر ڈالی، مگر دل میں کوئی خوشی نہیں جاگی۔ نہ ہی کوئی جوش، نہ اپنائیت۔ قدم رک گئے۔

” کیوں جاؤں وہاں؟”

یہ سوال جیسے خود سے کیا تھا، مگر جواب نہ مل سکا۔ وہ سب کو جانتی تھی، مگر کسی کے قریب نہیں تھی۔ نہ چاچو، نہ چاچی، نہ سوتیلی بہنیں، نہ کزنز-سب بس نام کے رشتے تھے۔ وہ واحد شخص جس سے وہ بات کرتی تھی، وہ اس کی پھپھو تھیں، اور کبھی کبھار اپنے والد سے بھی رسمی گفتگو ہو جاتی، جو زیادہ تر تلخ ہی ہوتی۔

” جب سب سے دور رہنا سیکھ لیا ہے، تو اب وہاں جانے کی کیا ضرورت؟”

اس کے پاس سب کچھ تھا-پیسہ، طاقت، آزادی، اور پھپھو کی محبت۔ پھر وہ خالہ کے گھر کیوں جائے؟

” کوئی وجہ؟” وہ خود سے سوال کرنے لگی۔

” دل نہیں مانتا، مگر شاید کوئی وجہ ہی مجھے وہاں لے جائے…”

اچانک دل کی گہرائیوں سے ایک لفظ ابھرا-” دوستی”۔

” دوستی…” وہ خود سے دہرانے لگی۔

یہی تو وہ چیز تھی جو اس کے پاس نہیں تھی۔ اور قسمت کی ستم ظریفی دیکھو، جب بھی اس نے کسی پر بھروسا کیا، بدلے میں صرف دھوکا ملا۔

ماہی نے سر جھٹک دیا۔

” نہیں! میں وہاں نہیں جاؤں گی!”
یادیں جو پیچھے نہیں چھوڑتیں ۔۔۔

وہ تیز قدموں سے سڑک کنارے چلنے لگی۔ کچھ فاصلے پر چند لڑکے ایک کار کے قریب کھڑے تھے، ہاتھ میں ڈرنکس لیے، بے مقصد باتوں میں مصروف۔ ان کی آوازوں میں وہی عام سا انداز تھا، وہی خودپسندی، وہی غرور۔

ماہی نے ان پر ایک سرسری نظر ڈالی اور دل ہی دل میں بڑبڑائی

“یہ سارے لڑکے ایک جیسے ہوتے ہیں-

مگر جیسے ہی وہ آگے بڑھی، دل نے ایک اور سرگوشی کی” نہیں، سارے نہیں…”

اور جیسے ہی یہ خیال آیا، اس کا دماغ سات سال پیچھے چلا گیا۔

سات سال پہلے – اسکول کے باہر

میٹرک کا آخری پرچہ تھا۔ ماہی جیسے ہی اسکول کے گیٹ سے باہر نکلی، شور و غل سنائی دیا۔ کچھ فاصلے پر چند کالج کے لڑکے ایک اسکول کی لڑکی کو تنگ کر رہے تھے۔

ماہی کا خون کھول اٹھا۔ وہ تیزی سے اپنے اسکول کے ایک لڑکے کے پاس پہنچی۔

” اوئے! دیکھ وہاں، وہ لڑکی کو تنگ کر رہے ہیں!”

وہ اپنے اسکول کے ہی ایک لڑکے کے پاس آکر کہا اور اُن لڑکوں کی طرف اشارہ کیا

” پاگل ہو گئی ہو؟ وہ ہم سے بڑے ہیں، چھوڑو، فضول میں پنگا کیوں لینا؟” وہ لڑکا جب اُن کی طرف دیکھا تو وہ کالیج کے بڑے لڑکے تھے جو اس کی اسکول کی ایک لڑکی کو تنگ کر رہے تھے …

“تو کیا ہوا ؟ یہ تیرے اتنے سارے نمونے ہے نہ ہم سب مل کر کچھ تو کر سکتے ہیں!” ماہی نے اس کے دوستوں کو دیکھ کر کہا ۔

” نہیں، ہم ان سے الجھ نہیں سکتے۔ اور اگر تمہیں اتنی ہی فکر ہے، تو خود جا کر دیکھ لو!”

یہ سنتے ہی ماہی کی آنکھوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی، مگر کچھ کہنے بھی نہ پائی تھی کہ پیچھے سے ایک اور آواز آئی۔

” تو ٹینشن کیوں لے رہی ہے؟ تُو تو لڑکی تھوڑی ہے، تُو تو لڑکا ہے نا؟ بس دیکھ اور انجوائے کر ہماری طرح!”

یہ جملہ جیسے بجلی بن کر اس کے ذہن میں گونجا تھا۔ وہ نفرت سے ان سب کو دیکھتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔

اسی دن اس نے ایک فیصلہ کیا تھا-اب وہ اکیلی ہر جنگ لڑے گی، کسی سے مدد کی امید نہیں رکھے گی۔

ماہی غصے میں بپھری ہوئی تھی۔ اس نے ان لڑکوں کے قریب جا کر کہا، “تم سب لڑکے ایک جیسے ہوتے ہو… جاہل اور منہوس!”

اس کے الفاظ سنتے ہی وہ سب حیرانی سے اسے دیکھنے لگے، پھر ان میں سے ایک، جو شاید ان کا لیڈر تھا، مسکراتے ہوئے بولا، “ہاں ہاں، بالکل… اور تم سب لڑکیاں ایک جیسی ہوتی ہو، پھول کی طرح نازک اور بیوٹیفل!”

ماہی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، “پھول میں کانٹے بھی ہوتے ہیں!”

یہ کہتے ہی اس نے اپنا جوتے والا پیر اس کے پاؤں پر مارا اور پھر ایک زور دار گھونسہ اس کے پیٹ میں دے مارا۔

“تمہاری اتنی ہمت؟” دوسرا لڑکا غصے میں بولا، “اتنی سی ہو اور ہم سے پنگا لے رہی ہو؟”

اس نے ماہی کے بال پکڑنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا، لیکن ماہی فوراً نیچے جھک گئی۔ اگلے ہی لمحے، اس نے اپنے بیگ سے ایک چمکتا ہوا چاقو نکال لیا۔ “احتیاط علاج سے بہتر ہے!”

چاقو دیکھ کر لڑکوں نے قہقہہ لگایا۔

“یہ اس چاقو سے ہمیں مار لے گی؟ ہاہاہا!” ان میں سے ایک نے مذاق اڑایا، “بچی کیا مذاق کر رہی ہو؟”

وہ سمجھے کہ یہ بس دکھانے کے لیے ہے، مگر ماہی نے لمحہ ضائع کیے بغیر چاقو سیدھا اس لڑکے کے ہاتھ پر چلا دیا، جہاں نسیں تھی۔

“یہ صرف دکھانے کے لیے نہیں، چلانے کے لیے بھی ہے!” وہ مسکراتے ہوئے بولی۔

خون تیزی سے بہنے لگا، اور لڑکا جلدی سے رومال نکال کر اسے روکنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن خون رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ تکلیف کی شدت سے وہ نیچے بیٹھ گیا۔

اسے تکلیف میں دیکھ کر باقی لڑکے بگھر گئے اور ماہی کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔

اب بچ کے دکھاؤ ایک لڑکا غصے میں بولا۔

یہ سب کچھ کچھ فاصلے پر کھڑا ایک اور شخص بھی دیکھ رہا تھا۔

ماہی اب بھی غصے میں تھی۔ اسے احساس نہیں تھا کہ وہ کتنے بڑے خطرے میں تھی

” تم سب سارے کے سارے لڑکے ایک جیسے ہوتے

ہو ” وہ ابھی تک غصے میں تھی۔۔۔

اب ان میں سے ایک لڑکا پیچھے سے آیا اور ماہی کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔ وہ جھٹپٹائی مگر وہ مضبوط تھا۔ دوسرا لڑکا آگے بڑھا اور اس کے ہاتھ سے چاقو چھین لیا۔

یہ بہت آسان تھا کیوں کہ ماہی تو اسی لڑنے آگئی تھی ان سب سے اور وہ ٹرینڈ بندی بھی نہیں تھی جو ان کہ مقابلہ آرام سے کر لیتی ۔۔

لیکن ماہی ابھی تک آگ بگولا ہورہی تھی اور اپنے آپکو چھڑوانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ۔۔
” ماہی تم لوگوں کو زندہ جلا دے گی، چھوڑو مجھے!” وہ دھاڑی ۔۔

اب مزا آئے گا چاقو ہاتھ میں لیے ایک لڑکا اس کے چہرے کے قریب لاتے ہوئے بولا۔
“اب اس کا کیا کرنا ہے ”  وہ لڑکا اب پیچھے موڑ کر اُس لڑکے سے پوچھا جس کے ہاتھ پر چاقو چلایا تھا ماہی نے ۔۔

“پہلے پاؤں… پھر بیٹ… پھر ہاتھ، جیسے اس نے مجھے مارا، ویسے ہی اسے مارو ”  زخمی لڑکا غصے میں بولا۔

جس لمحے وہ لڑکا ماہی کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہا تھا، اچانک “ٹھک!” کی زوردار آواز آئی۔ ایک بھاری چیز اس کے سر پر لگی، اور وہ درد سے بلبلا کر ایک طرف لڑکھڑا گیا۔ ماہی نے یہ موقع غنیمت جانا اور فوراً خود کو چھڑا لیا۔

“بھاگو!”
ایک اجنبی آواز اس کے کانوں میں گونجی، اور اس کے ساتھ ہی کسی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
ماہی کو سوچنے کا موقع بھی نہ ملا۔ وہ بس اس مضبوط گرفت کے ساتھ دوڑنے لگی۔ تیز قدموں کی چاپ، پیچھے سے آتی لڑکوں کی گالیاں، اور دل کی دھڑکن-سب کچھ ایک ساتھ گونج رہا تھا۔

کچھ منٹوں بعد وہ ایک سنسان گلی میں پہنچ کر رک گئے۔

ماہی ہانپ رہی تھی، مگر جیسے ہی اس نے اپنے ساتھ کھڑے لڑکے کو دیکھا، اس کی آنکھیں چند لمحے کے لیے ٹھہر گئیں۔

بلیو پینٹ، وائٹ شرٹ، اور بلیو ٹائی۔
بھوری آنکھیں، غیر معمولی طور پر پُرکشش چہرہ۔
وہ لڑکا حد سے زیادہ ہینڈسم تھا-مگر وہ بھی ماہی تھی، وہ جو عام لڑکیوں کی طرح نہیں سوچتی تھی۔
ہاں اگر ماہی کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو پکا وہ اُسے اپنے خوابوں کا شہزادہ تصور کر لیتی لیکن وہ ماہی تھی اُس کی بلا سے سامنے والا جیسا بھی ہو اُسے اُس سے کیا لینا دینا ۔۔۔

” تم کون ہو ؟” ماہی نے سوال کیا۔۔۔

“میں حارث ولی کا بھائی ۔۔” اُس نے آرام سے جواب دیا۔۔۔

“ولی کون ؟” ماہی نے پھر سوال کیا کیوں کہ وہ ولی کو بھی نہیں جانتی تھی۔۔۔

“میرا بھائی ولید ۔۔۔” اُس نے اب کی بار بیزاری سے جواب دیا۔۔۔

“ولید کون ؟” اب ماہی ولید کو بھی نہیں جانتی تھی۔۔

“میرا بھائی۔۔۔” اُس نے ایسے بولا جسے ماہی کو اُس کے اور اُس کے بھائی کے بارے میں سب پتہ ہونا چاہئے۔۔

” تو تم بھی اپنے بھائی کے پاس ہی چلے جاؤ”   اُس کا دماغ سہی میں خراب ہوگیا تھا نہ وہ اس کو جانتی تھی نہ اس کے ولی اور ولید بھائی کو

“ہاں جا رہا ہوں۔۔۔” اس نے اُس کے ایسے غصے پر اور اتنا مختصر سا جواب دیا

ماہی اب اُسے گھورنے لگی عجیب پاگل لڑکا تھا

“اچھا ویسے میں نے یہ کہنا تھا کہ سارے لڑکے ایک جیسے نہیں ہوتے۔۔۔۔۔” اُس نے کہا لیکن ماہی ابھی بھی اُسے ویسے ہی گھور رہی تھی اور اسے اُسے جیسے فرق پڑ جانا تھا وہ تو مڑ کر دوڑاتا ہُوا چلا گیا

ماہی بس اُسے جاتے دیکھ رہی تھی نہ بتایا کون تھا کہاں سے آیا تھا ماہی کی مدد کیوں کی اُس نے بس اپنی بات کر کی چلا گیا ۔۔۔

 وہ آپنے خیالوں کی دُنیا سے واپس آتی دوبارہ سے
فون نکل کر واپس سے ایڈریس دیکھنے لگی

“ماہی آرہی ہے حارث ولید ماہی آرہی ہے” وہ مسکراتے ہوئے خود سے مخاطب ہوئی

برسٹل سیٹی نے تو ماہی کو قبول نہیں کیا۔۔
کیا لنڈن سیٹی ماہی کو قبول کرے گا ۔۔۔؟

+++++++++

جاری ہے۔۔۔

 

 Next Episode on 8th september 

INSHA AllAh 

 

 

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *