دِل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۱۰
رات تو کسی نہ کسی طرح گزر گئی تھی، لیکن صبح… صبح جیسے ایک طوفان کے ساتھ آئی تھی۔
ماہی کی آنکھ کھلی، لیکن ذہن جیسے ابھی تک نیند سے بوجھل تھا۔ اس نے بے خیالی میں چھت کی طرف دیکھا، دھندلی آنکھوں سے اردگرد کا جائزہ لیا، مگر جیسے ہی حقیقت کا احساس ہوا، رات کی ساری باتیں، سارا غصہ، ساری تلخی ایک دم ذہن میں گھوم گئی۔
ولید!
اس کی ساری باتیں… اس کا وہ انداز… وہ لہجہ… جیسے سب کچھ آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگا۔
بس یہی فرق ہے ماہی۔ تم صرف اپنی کہانی کا ایک رخ دیکھتی ہو، تُم نے ایک دفعہ جس سے نفرت کرلیا سو کرلیا ۔۔۔ کبھی جانے کی کوشش نہیں کرتی کے اگلہ بندہ بھی ٹھیک ہوسکتا ہے۔۔۔
ولید نے سنجیدگی سے کہا، ہاں، اور تمہارے والد… وہ جیسے بھی ہیں، تمہارے والد ہیں۔ اور تمہیں کیا لگتا ہے؟ اگر تم انہیں کچھ نہیں بتاتیں تو انہیں تمہارے بارے میں کچھ نہیں معلوم؟
اسے لگا جیسے ماہی سکون سے بیٹھی اس کی باتیں سن رہی ہو، جیسے وہ واقعی اس کی بات سمجھ رہی ہو۔ مگر اس کی اگلی بات پر ماہی کا چہرہ سخت ہو گیا۔
کیا مطلب؟ ماہی نے ماتھے پر بل ڈالے۔
ولید نے کرسی پر کہنی ٹکاتے ہوئے کہا، ہمارے والدین کی صرف ایک ہی کمی ہوتی ہے… وہ ہمیں ہمیشہ نہیں سمجھ پاتے۔ لیکن اس کے علاوہ ان میں کوئی اور کمی نہیں ہوتی۔ وہ ہم سے بے حد محبت کرتے ہیں، بس اکثر وہ اس محبت کا اظہار نہیں کر پاتے۔ اگر وہ ہمیں نہیں سمجھتے، تو ہمیں ہی انہیں سمجھ لینا چاہیے۔
تم کہنا چاہتے ہو کہ میرے ابو مجھ سے ملنا نہیں چاہتے، کیونکہ میں خود ان سے ملنا نہیں چاہتی؟ ماہی کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ آگئی۔
ولید نے اثبات میں سر ہلایا، ہاں، انہیں لگتا ہوگا کہ تم ان کے بغیر خوش ہو، اس لیے وہ زبردستی تم پر اپنی موجودگی مسلط نہیں کرتے۔
ماہی نے بے یقینی سے ہنسی، یہ تم کہہ رہے ہو یا وہ خود آکر کہہ گئے ہیں؟
ولید نظر انداز کرتے ہوئے بولا، تمہیں لگتا ہے کہ تم نے منع کر دیا تو تمہاری پھوپھو نے تمہارے ابّو کو کچھ نہیں بتایا ہوگا؟ تمہاری پھوپھو تمہارے ابّو کی بہن ہیں، اور بہن کبھی بھائی سے کچھ نہیں چھپاتی۔
تو؟ ماہی نے بے زاری سے کندھے اچکائے۔
تو یہ کہ تمہیں کیا لگتا ہے، تمہاری پھوپھو نے تمہیں یہاں اکیلے بھیج دیا اور تمہارا سارا خرچہ خود اٹھا رہی ہیں؟
ہاں، وہ خود ہی سب سنبھال رہی ہیں۔ ماہی نے ضدی انداز میں کہا۔
ولید نے افسوس سے سر ہلایا، کتنا کما لیتی ہیں تمہاری پھوپھو؟ کہ اپنا گھر بھی چلا رہی ہیں، اور لندن جیسے مہنگے شہر میں تمہیں پڑھنے کے لیے بھی بھیج دیا؟
ماہی ایک دم خاموش ہوگئی۔
ولید نے اس کے تاثرات دیکھ کر بات جاری رکھی، یہ تم بھی جانتی ہو کہ لندن کوئی عام جگہ نہیں، یہ دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہاں رہنا، پڑھنا، سب آسان نہیں۔ اور تم واقعی یہ سمجھتی ہو کہ تمہارے ابّو نے کبھی تمہاری فکر نہیں کی؟
ماہی کی انگلیاں بے چینی سے چادر کو مسلنے لگیں۔ وہ نظریں چرا رہی تھی، جیسے یہ بات سننے کو تیار نہ ہو۔
ماہی، تم ایک بار اپنے ابّو سے کھل کر بات کر کے تو دیکھو.. ولید نے نرمی سے کہا۔
ماہی نے تڑپ کر اسے دیکھا، اور اگر وہ واقعی ویسے ہی نکلے جیسے میں سمجھتی ہوں تو؟
ولید نے سکون سے جواب دیا، تو کم از کم تمہیں عمر بھر یہ خلش نہیں رہے گی کہ تم نے کوشش نہیں کی۔
ماہی کی آنکھوں میں ایک پل کو الجھن چمکی۔ ولید نے آخری وار کیا، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت والدین ہیں… اگر تم ہی اپنے والدین کے بارے میں بدگمان ہو جاؤ گی، تو تمہارے پاس بچے گا کیا؟
ماہی نے لب بھینچ لیے، وہ کچھ بھی کہنے سے قاصر تھی۔
اور باپ کے بارے میں تو مت پوچھو،
ولید نے گہری سانس لی،وفا کا دوسرا نام باپ ہوتا ہے۔
یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا، مگر ماہی کے اندر ایک طوفان برپا ہو چکا تھا۔
اور تمہیں اپنے رشتے داروں، اپنی فیملی سے بھی اس طرح قطع تعلق نہیں کرنا چاہیے.. ولید نے سنجیدگی سے کہا۔
ماہی نے فوراً اس کی طرف دیکھا، جیسے وہ اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو، یا شاید اس پر غصہ کرنا چاہتی ہو۔
اچھا؟ اور تمہیں کیسے پتہ کہ مجھے کس سے تعلق رکھنا چاہیے اور کس سے نہیں؟ اس نے سخت لہجے میں کہا۔
ولید نے کندھے اچکائے، مجھے نہیں پتہ، لیکن تمہیں خود بھی تو نہیں پتہ، ہے نا؟
رشتے ہمیشہ پرفیکٹ نہیں ہوتے، ماہی۔ کبھی کبھی وہ بہت خراب بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ان سے مکمل طور پر بھاگ جانا، یا خود کو الگ کر لینا، یہ ہمیشہ صحیح فیصلہ نہیں ہوتا۔ ولید نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
ماہی نے ہلکی سی ہنسی میں کہا، تو پھر تم بھی تو اپنے ابو سے الگ ہو، تم کیوں نہیں ان سے جا کر گلے لگتے؟
ولید نے ایک پل کے لیے گہری سانس لی، میں بھی غلط ہو سکتا ہوں، ماہی۔
یہ جواب ماہی کو حیران کر گیا۔
لیکن اگر میں غلط ہوں، تو میں اپنی غلطی کو ماننے کے لیے تیار ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا تم بھی تیار ہو؟
+++++++++++
صبح کا وقت تھا، لیکن گھر میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سب ابھی سو رہے تھے، اور باہر ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ولید اور اس کے والد لاؤنج میں بیٹھے تھے، ہاتھ میں کافی کے کپ، لیے ۔۔۔
ولید کے چہرے پر سنجیدگی تھی، جیسے کوئی الجھن اس کے دماغ میں چل رہی ہو۔ اس کی نظریں خلا میں تھیں، مگر دماغ میں بس ایک ہی نام گونج رہا تھا- ماہی۔۔
ہاں بھئی، سمجھ آئی ماہی کی؟
احمد صاحب نے مسکراتے ہوئے سوال کیا، مگر ان کی نظریں بیٹے کے چہرے کے تاثرات کو پڑھنے میں مصروف تھیں۔
ولید نے ایک گہری سانس لی اور کندھے جھٹک دیے۔
نہیں… وہی عادت، غصہ کر کے چلی گئی۔۔۔
تمہیں اگر چاہتے ہو کہ وہ تمہاری بات سمجھے، تو پہلے اس کے قریب ہونا پڑے گا۔ پہلے اسے سمجھنا پڑے گا۔
لیکن وہ کسی سے اس بارے میں بات ہی نہیں کرتی۔۔ ولید کی آواز میں بے بسی تھی۔
احمد صاحب نے ایک لمحے کے لیے غور سے ولید کو دیکھا، پھر ہلکے سے بولے،
کیوں کرے؟ جب اسے کبھی ایسا لگا ہی نہیں کہ کوئی اس کا اپنا ہے۔۔۔
یہ جملہ جیسے کسی نے سیدھا اس کے دل پر مارا ہو۔
ولید کے ہاتھ میں پکڑا کافی کا کپ ہلکا سا لرزا، اس کی گرفت سخت ہو گئی۔
تو میں کیا کروں؟ اس نے آہستہ سے پوچھا، جیسے یہ سوال خود سے کر رہا ہو۔
پھر چھوڑ دو اسے، اس کے حال پر۔ احمد صاحب نے نرمی سے کہا، مگر ان کی بات میں وزن تھا۔
وہی تو نہیں کر سکتا۔۔۔
یہ وہی بات تھی جو اس نے کچھ دن پہلے اپنی ماں سے بھی پوچھی تھی، اور جواب وہی ملا تھا- ماہی کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔۔۔
لیکن وہ نہیں چھوڑ سکتا تھا۔۔۔
یہ بس ایک ضد نہیں تھی، یہ بس ایک انا کی بات نہیں تھی۔ یہ… کچھ اور تھا، کچھ گہرا، کچھ ایسا جو ولید خود بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔
پاپا، میں ماہی سے گیو اپ نہیں کر سکتا۔۔۔
یہ الفاظ اس کے دل سے نکلے تھے، اور اس کے چہرے پر ایسا عزم تھا، جیسے کسی نے فیصلہ کر لیا ہو کہ وہ سمندر کے مخالف بھی تیر سکتا ہے۔
++++++++++++
گھر کا ماحول ہمیشہ کی طرح خوشگوار تھا۔ سب ناشتہ کر رہے تھے، ہنسی مذاق چل رہا تھا، مختلف موضوعات پر بات ہو رہی تھی۔ مگر ماہی اور ولید کے درمیان اب بھی وہی خاموشی حائل تھی۔
ولید نے ایک بار کن اکھیوں سے ماہی کی طرف دیکھا، مگر وہ جیسے پوری طرح نظر انداز کر رہی تھی۔ بس اپنے کھانے پر دھیان دے رہی تھی، جیسے کسی سے کوئی سروکار ہی نہ ہو۔
اچانک، مہر نے فون کی اسکرین پر نظریں جما کر کہا، ماما، یہ دیکھیں نیوز….
اب کیا ایم ڈی کا کونسا ناک ہاتھ ریویل ہُوا ہے؟ حارث نے مزاحیہ انداز میں کہا،
مہر نے جلدی سے جواب دیا،نہیں، اس بار تو بم دھماکہ ہوا ہے… ساؤتھال مارکیٹ میں۔۔۔
کیا؟ ولید نے چونک کر پوچھا، جیسے یہ خبر سن کر ایک دم الرٹ ہو گیا ہو۔
ہاں بھائی، دیکھیں یہ۔۔۔ مہر نے فون سب کے سامنے کر دیا، اور اسکرین پر دھماکے کی تباہی کے مناظر چلنے لگے-دھواں، چیخیں، پولیس کی گاڑیاں، اور ملبے میں دبی ہوئی دوکانیں۔اور کہی لوگوں کی موت ۔۔۔
ماہی نے بے اختیار فون کی طرف دیکھا،
ساؤتھال مارکیٹ… وہ سرگوشی میں بولی، اور اگلے ہی لمحے اس کا رنگ فق ہو گیا۔
یہ وہی جگہ ہے… جہاں میں نے بم چینج کیا تھا۔۔۔۔
دماغ میں جیسے طوفان آگیا۔ ایک خوف، ایک الجھن، اور سب سے بڑھ کر… ایک ناقابل یقین حقیقت۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے تو بم چینج کیا تھا، پھر دھماکہ کیسے ہوا؟
اسے لگا جیسے اردگرد کی آوازیں مدھم پڑ گئی ہوں، جیسے کمرے میں سب کچھ دھندلا سا ہو گیا ہو۔
ہائے اللہ، ماہی! کل تو تم بھی وہیں گئی تھی، شکر ہے اللہ کا کہ تم خیریت سے واپس آگئی۔
خالہ کی آواز پر ماہی نے نظریں اٹھا کر دیکھا، سب کی توجہ اب اس پر تھی۔
مہر نے حیرانی سے پوچھاہاں ماہی، تم کب گئی تھی وہاں؟
شام کو… شاپنگ کرنے گئی تھی۔ اس نے آرام سے کہا
دیکھو، لندن کے حالات کتنے خراب ہو رہے ہیں۔۔۔ احمد صاحب نے سخت لہجے میں کہا، اب جب بھی گھر سے نکلا کرو، آیت الکرسی پڑھ کر نکلا کرو۔
ہاں، آیت الکرسی ہر بری بلا کو کاٹ دیتی ہے۔خالہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
ماہی خاموش تھی، بس سر جھکائے ناشتہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر اندر ہی اندر اس کا دماغ تیزی سے سوالات میں الجھ رہا تھا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے تو سب کچھ پلان کے مطابق کیا تھا… پھر یہ دھماکہ کیوں ہوا؟ کہیں کچھ… غلط تو نہیں ہو گیا؟
ناشتے کے بعد سب اپنے کمروں کی طرف جانے لگے۔ معمول کے مطابق سب اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف ہو گئے، لیکن ماہی کے دماغ سخت اُلجھا ہُوا تھا۔۔۔
وہ جلدی سے کمرے سے نکلی اور سیدھا حارث کے پاس گئی، جو ابھی اپنے موبائل پر کسی سے بات کر رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے ماہی کو اپنی طرف آتے دیکھا، اس نے فون سائیڈ پر رکھ دیا۔
کیا ہوا ماہی؟ کچھ کہنا ہے؟
ماہی نے بغیر کسی تمہید کے کہا، تم مجھے روزانہ یونی لے کر جاؤ گے۔ اور لے کر اؤ گے اگر کسی دن نہیں لے کر گئے، تو میں یونی نہیں جاؤں گی۔۔۔۔
اوہ! پرسنل ملازم رکھا ہے کیا اپنے مُجھے۔۔۔؟ حارث نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا، آنکھوں میں شرارت تھی۔
ماہی نے خفگی سے حارث کو گھورا۔ہاں، بالکل! تم میرے پرسنل ڈرائیور ہو۔ اور اگر کوئی مسئلہ ہے تو ابھی بتا دو۔۔۔ اس کی آواز میں ضد اور حکم دونوں تھے۔
حارث نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکائے۔ مسئلہ؟ نہیں بھئی، مسئلہ تو کوئی نہیں۔ بس یہ بتاؤ کہ تنخواہ کتنی دو گی؟
ماہی نے ہونٹ بھینچ لیے۔ تمہیں یونی لے جانے کی اجازت دینا ہی سب سے بڑی تنخواہ ہے، زیادہ باتیں مت بناؤ۔۔۔۔
حارث نے سر ہلایا۔اچھا جی! یعنی عزت افزائی میں ہی تنخواہ شامل ہے؟ چلیں، پھر حکم کی تعمیل کرنی ہی پڑے گی۔
ماہی نے ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ گردن اکڑائی، جیسے کوئی بڑی جنگ جیت لی ہو۔ بالکل! اور ابھی فوراََ نو بجے تیار رہنا، میں دیر برداشت نہیں کروں گی۔
حارث نے ہاتھ سینے پر باندھے اور اسے غور سے دیکھا۔ نو بجے؟ یعنی تمہیں ایک منٹ کی بھی تاخیر برداشت نہیں؟
بالکل نہیں۔۔ماہی نے دوٹوک جواب دیا۔
اچھا، پھر ایک معاہدہ کرتے ہیں۔ حارث نے سنجیدگی اختیار کر لی، مگر آنکھوں میں چمک برقرار تھی۔
ماہی نے بھنویں چڑھائیں۔کیسا معاہدہ؟
حارث نے انگلی اٹھا کر اشارہ کیا۔ اگر میں تمہیں وقت پر یونی پہنچاؤں گا، تو واپسی پر تمہیں میری پسند کی جگہ جانا ہوگا، بغیر کسی اعتراض کے۔۔۔۔
ماہی نے ہونٹ بھینچ لیے، جیسے کچھ سوچ رہی ہو۔ پھر اس نے تیزی سے پوچھا، کہاں جانا ہوگا؟
یہ تو میں ہر روز طے کروں گا۔۔۔ حارث نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔
ماہی نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا۔ اگر مجھے کوئی جگہ پسند نہ آئی تو؟
حارث نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔ تب بھی تمہیں جانا ہوگا، کیونکہ میں بھی تمہاری ہر بات مان رہا ہوں۔ پھر ڈیل؟
نہیں۔۔۔۔ماہی نے ڈوکو مانا کردیا۔۔۔
ٹھیک ہے پھر میں نہیں لے کر جارہا ولید کے ساتھ چلی جاؤ۔۔۔ حارث نے ناگواری سے کہا
اچھا ٹھیک ہے، مان لی تُمہاری شرٹ۔۔۔ ماہی نے فوراََ کہا حارث کو حیرانی ہوئی
حارث نے حیرانی سے ماہی کو دیکھا۔ یہ اتنی آسانی سے مان کیسے گئی؟ ہلکے ولید کے ساتھ جانے میں تو ماہی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔۔۔ نہ ولید حارث کی طرح اتنے ڈرامے کرتا۔۔ اوپر سے حارث بھی جانتا تھا ماہی کو کسی بھی بات کے لیے منوانا آسان نہیں تھا چاہے وہ بڑی سی بڑی بات ہو یا چھوٹی سے چھوٹی۔۔۔ حارث کو اپنی بات منوانے کے لیے ہمیشہ اُسے دھمکی دینی پڑتی۔۔ ورنہ اُس کے گمان میں تھا کہ ابھی ماہی یہ بول کر نکل جائے گی۔۔۔کہ ہاں ٹھیک ہے چلی جائوں گی ولید کے ساتھ ۔۔
حارث نے بازو سینے پر باندھے اور غور سے اسے دیکھا۔ یہ اچانک اتنی فرمانبردار کیسے بن گئی ہو؟
اس کی آنکھوں میں مشکوک سی چمک تھی۔
ماہی نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔ کیا مطلب؟ تم نے شرط رکھی، میں نے مان لی، اب مسئلہ کیا ہے؟
حارث نے نظریں تیکھی کیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ تم کبھی اتنی آسانی سے کسی کی بات نہیں مانتیں، خاص طور پر میری تو بالکل نہیں۔ اور آج بغیر کسی بحث کے ہاں کر دی؟
ماہی نے ہلکا سا مسکرائی اور کہا، حارث، تم مجھے اتنی بھی ظالم نہ سمجھو، میں ضدی ہوں لیکن بےوقوف نہیں۔ اگر میں نے تمہاری بات مان لی تو اس میں کوئی خاص وجہ ہوگی، تمہیں اتنی تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں۔
حارث نے بھنویں چڑھائیں۔ کہیں یہ وجہ ولید تو نہیں؟
ماہی کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے سایہ سا لہرایا، مگر وہ فوراً خود کو سنبھال کر بولی، حد ہے! ہر بات میں ولید کو کیوں گھسیٹ رہے ہو؟
حارث نے طنزیہ انداز میں سر ہلایا۔ اس لیے کیونکہ جیسے ہی میں نے ولید کا نام لیا، تم فوراً مان گئیں۔ اگر میں کہتا کہ کوئی اور طریقہ اپناؤ، تو یقیناً تم ضد پکڑ لیتیں، مگر ولید کے نام پر تم نے فوراً فیصلہ کر لیا؟
ماہی نے ایک لمحے کے لیے نظریں چرائیں، جیسے کسی الجھن میں ہو۔ پھر بولی، بس، مجھے اس پر کوئی بات نہیں کرنی۔ اگر تمہیں مجھے یونی لے جانا ہے تو ٹھیک، ورنہ میں واقعی ولید کے ساتھ چلی جاؤں گی۔۔
اُس نے بس اوپر اوپر سے کہا ورنہ تو وہ اب مر کر بھی ولید کے پاس نہ جائے۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے، میرے ساتھ چلو۔۔۔
اُس نے سوچا کہ وہ اسی فضول کا کچھ زیادہ ہی سوچ رہا ہے ولید اور ماہی کے درمیان کیا ہونا تھا۔۔۔اگر کچھ ہُوا بھی تو وہ خود ہی اُس کے سامنے آجائے گا اُسے اتنا فضول فضول سوچ کر ٹائم ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔
+++++++++++++
وہ کلاس میں بیٹھی تھی، لیکن ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا۔ لیکچر کی آواز پس منظر میں مدھم سی گونج رہی تھی، جیسے کسی دور دراز وادی میں ہوا سرگوشی کر رہی ہو۔ نظریں کتاب پر تھیں، مگر انگلیاں بے اختیار فون کی سکرین پر رقص کر رہی تھیں۔
ساتھ والی کرسی پر حارث بھی کچھ کم نہ تھا۔ وہ بھی فون میں محو تھا، جیسے کلاس میں بیٹھنے کا واحد مقصد یہی ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے وجود سے باخبر تھے، مگر توجہ کا مرکز ایک جیسا تھا- فون کی چمکتی سکرین۔۔
اور پھر…
فون کی سکرین پر ایک نیا پیغام نمودار ہوا- نائلہ کا میسج!
اور ایک نئی جگہ اور ایک نیا پلان۔۔۔۔۔۔
ماہی نے فوراً حارث کی طرف دیکھا، اس کی نظریں بھی فون کی سکرین پر جم چکی تھیں۔ ایک لمحے کے لیے دونوں کی نظریں ملیں، اس سے پہلے کے وہ نائلہ کا میسیج کھولتی حارث نے کہا
فون رکھ دو ماہی… اور لیکچر سنو، وہ خود بھی اب فون رکھ چکا تھا۔
بورنگ ہے… ماہی نے بے زاری سے کہا۔
حارث ہلکا سا مسکرایا، اسٹڈی ویسے بھی بورنگ ہی ہوتی ہے… لیکن تم دیکھ رہی ہو، سامنے بیٹھے ولید کو؟ سر سے زیادہ اسے مسئلہ ہے، کب سے گھور رہا ہے ہمیں۔ اور دیکھو، اس کا میسج بھی آیا ہے…
حارث نے فون کی اسکرین ماہی کے سامنے کردی جہاں ولید کا غصے سے بھرا ہوا میسج جگمگا رہا تھا
فون رکھ کر کلاس پر دھیان دو… نہیں تو اچھا نہیں ہوگا….
ماہی نے حیرت اور ناگواری سے میسج پڑھا، پھر ولید کی طرف دیکھا… مگر ولید کی نظریں ان پر نہیں، بلکہ سیدھا سر پر جمی ہوئی تھیں، جیسے وہ پوری توجہ سے لیکچر سن رہا ہو۔۔۔۔
یہ کیا دھمکی دے رہا ہے؟ ماہی نے غصے سے لب بھینچتے ہوئے کہا۔
ہاں، دے تو رہا ہے… اور میں تو اب فون اٹھانے کی جرات بھی نہیں کر سکتا… حارث نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا، مگر اس کے لہجے میں بھی بے زاری تھی۔
ماہی نے ایک نظر پھر ولید پر ڈالی، جو اب بھی ان کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ خود دھیان دے نہ کلاس پر، ہمیں کیوں تنگ کر رہا ہے…. وہ چڑ کر بولی۔
ماہی نے حارث کے ہاتھ سے فون جھپٹا اور تیزی سے میسج ٹائپ کرنے لگی۔
کیا کر رہی ہو؟ حارث نے حیرت سے پوچھا۔
اُسے اس کی اوقات دکھا رہی ہوں… ماہی نے بغیر نظریں ہٹائے جواب دیا۔
نہیں رکھ رہی جو کرنا ہے کرلو۔۔۔ ماہی نے فوراً مسیج ٹائپ کرتے سینڈ کردیا ۔۔
اور تم… تم اس سے ڈر رہے ہو؟ ماہی نے ناگواری سے حارث کی طرف دیکھا۔۔۔جو ولید کے ایک مسیج دیکھا فون رکھ چُکا تھا۔۔۔
بھائی ہے میرا… ڈرنا پڑتا ہے، یار… حارث نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔
ماہی نے اسے گھورا، بھائی ہے، یا کوئی ڈان؟
حارث نے کندھے اچکائے، ڈان نہ سہی، مگر اگر غصہ آیا تو اگلا پورا ہفتہ میری شامت پکی ہے…
تُم کب سے ڈرنے لگے اُس کے غصے سے؟ جہاں تک مجھے یاد ہے، تُم وہی حارث زیان ہو جو کسی سے نہیں ڈرتا، جس کے آگے کسی کی نہیں چلتی… ماہی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
حارث نے مسکرا کر گہری سانس لی، لیکن اُس کی چلتی ہے… کیا ہے نا، وہ میرا پسندیدہ مرد ہے… اور مجھے اُس سے بے پناہ محبت ہے۔ اور جہاں محبت ہو، وہاں ڈرنا پڑتا ہے، یار…
ماہی نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا، پسندیدہ مرد؟
ہاں، بالکل! اور تمہیں بھی تو محبت ہوئی ہوگی نا؟ تمہارا بھی تو کوئی پسندیدہ مرد ہوگا… بتاؤ کون ہے وہ؟ جس کے آگے شیرنی ماہی کی بھی نہیں چلتی؟
یہ سنتے ہی ماہی کا دل بے اختیار زور سے دھڑکا۔ وہ چند لمحے خاموش رہی، نظریں چراتی رہی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔
ایسا کوئی نہیں ہے… اس نے مدھم آواز میں کہا، مگر اس کے انداز میں خود اعتمادی کی کمی تھی۔
حارث نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا، سچ میں؟
ماہی نے گہری سانس لی اور زبردستی مسکراتے ہوئے کہا، بالکل سچ… مگر اندر کہیں کچھ تھا جو بار بار حارث کی باتوں کو دہرا رہا تھا… شاید کوئی ایسا احساس، جسے وہ خود بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں پارہی تھی۔
اوہ ہاں، یاد آیا! تمہیں تو لڑکوں سے سخت نفرت ہے، تمہیں تو سارے لڑکے ایک جیسے لگتے ہیں… کچھ یاد آتے حارث نے شرارت سے کہا، آنکھوں میں ایک مخصوص چمک لیے۔
سارے نہیں ہوتے… اس کے دل نے دھیرے سے سرگوشی کی… اس سے پہلے کے وہ کچھ اور سوچتی یا بولتی ولید کا مسیج سکرین پر چمکنے لگا۔۔۔۔
چلائیں فون۔۔۔ لیکن دھیان سے سر نہ دیکھ لیں۔۔۔
ولید کے مسیج پڑھتے ہی ناگواری کے تاثر اُس کے چہرے پر نمایاں تھے اُسے اس کے مسیج کا مطلب سمجھا نہیں آیا تھا۔۔۔ وہ دھمکی دے رہا تھا یہ تنقید کر رہا تھا۔۔۔ یا طنز کر رہا ہے ۔۔۔ اُس کی سمجھ نہیں آئی۔۔۔
اس کا کیا مطلب ہے؟ ماہی نے فون کی سکرین حارث کی طرف کیے پوچھا۔۔۔
دھمکی دے رہا ہے۔۔۔ فون رکھ دو نہیں تو سر کو بتا دے گا۔۔۔ حارث نے مسیج پڑھتے ہی فوراََ جواب دیا ماہی شاید اتنا نہیں جانتی تھی ولید کو جیتنا حارث جانتا تھا۔۔۔۔
ماہی نے تلخی سے مسکراتے ہوئے جواب ٹائپ کیا شرم تو نہیں آئے گی نہ تمہیں، سر کو ہماری چغلی کرتے ہوئے؟
شرم تو نہیں آئے گی نہ تمہیں، سر کو نظر انداز کر کے فون میں مصروف رہنے پر؟
ولید نے بھی اُسی کی انداز میں اُس کو جواب دیا تھا۔۔۔
ماہی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ انگلیاں تیزی سے اسکرین پر چلنے لگیں، اور اگلے ہی لمحے پیغام ٹائپ ہو چکا تھا
بھاڑ میں جاؤ….
ایک لمحے کے توقف کے بغیر اس نے سینڈ کا بٹن دبا دیا
تم جا کر جگہ دیکھ لو، پھر مُجھے بھی انوائٹ کر دینا۔۔۔
ولید کا بھی مسیج فوراََ سکرین پر نمودار ہوا ۔۔۔
دیکھ لو، تمہارے اتنے اچھے بھائی کو کیسا کیسا طنز مار رہا ہے مجھے… ماہی نے ناگواری سے حارث کی طرف دیکھ کر، فون اس کے سامنے لہراتے ہوئے کہا
حارث نے ایک نظر سکرین پر ڈالی، پھر کندھے اچکاتے ہوئے سکون سے بولا، تو تم فون رکھ دو نہ…
ماہی نے حارث کو گھورا اور پھر فون کی سکرین کو گھورا، جیسے وہ ولید کے طنزیہ جواب کو کچل دینا چاہتی ہو۔ اس کا دل چاہا کہ ایک اور تیز جواب دے، مگر اس سے پہلے کہ انگلیاں دوبارہ حرکت میں آتیں، حارث نے اس کے ہاتھ سے فون چین لیا۔۔۔
اور عین اُسی لمحے…
ولید کو فون چلاتے سر نے دیکھ لیا تھا۔۔۔
سر نے دھیمی مگر گہری آواز میں پوچھا، کچھ خاص چل رہا ہے؟ کوئی ایسا لیکچر جو میرے لیکچر سے زیادہ ضروری ہو؟
اُس نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا، نہیں سر، بس… بس ایک میسج دیکھ رہا تھا۔
وہ کہاں جھوٹ بول سکتا تھا جو کر رہا تھا وہ بول دیا۔۔۔
سر نے معنی خیز نظروں سے اسے دیکھا، پھر پرسکون لہجے میں بولے، زندگی کے امتحان میں کامیابی اُنہی کو ملتی ہے جو اُس لمحے کو جیتے ہیں جس میں وہ موجود ہوتے ہیں۔ اگر تمہاری توجہ کہیں اور ہوگی، تو پھر بعد میں پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
سر اچھی طرح جانتے تھے ولید کو ایک وہ کلاس کا سب سے بہترین سٹوڈنٹ تھا اسی لیے سر نے اُس پر زیادہ غصّہ نہیں کیا تھا۔۔۔پیار سے سمجھائے تھا۔۔۔ ورنہ ولید کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اُس کی صحیح والی کلاس لگ جانی تھی۔۔۔۔
یہ سن کر کلاس میں ایک سنجیدہ خاموشی چھا گئی۔ ولید کی آنکھوں میں ندامت کی جھلک تھی۔ وہ ہمیشہ بہترین سٹوڈنٹ مانا جاتا تھا، اور سر بھی جانتے تھے کہ ولید غیر سنجیدہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے انہوں نے زیادہ سختی نہیں کی، صرف سمجھایا۔ اگر کوئی اور ہوتا تو شاید بات یہاں ختم نہ ہوتی۔
تمھیں کیا ضرورت تھی اس وقت اُس سے بحث کرنے کی؟ حارث نے خفگی سے سرگوشی کی۔
ماہی کی آنکھوں میں غصے کی چمک ابھری۔ اس نے ولید کی طرف دیکھا، جو ندامت سے سر جھکائے بیٹھا تھا۔
اچھا ہوا اس کے ساتھ! ہنہ، ہمیں پھنسانے چلا تھا۔۔۔ ماہی نے تیز لہجے میں کہا، جیسے خود کو یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہو کہ جو ہوا، اچھا ہوا۔
حارث نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے اور ناگواری سے بولا، تم ایسا کرو، ولید سے بات ہی مت کیا کرو۔
حارث کی بات سن ماہی کو یاد آیا کہ اُس نے کل رات ہی تو قسم کھائی تھی کہ ولید سے کبھی بات نہیں کرے گی۔۔۔ تو اب اُس نے یہ کیسے کردیا۔۔۔
شاید وہ ولید کا مسیج دیکھ خود کو روک نہیں پائی تھی ۔۔ وہ ہمیشہ سے اُس کی ہر بات پر بحث کرتے آئی تھی، ہمیشہ اس سے الجھنا اس کی عادت تھی۔ شاید اسی بے اختیاری میں آج بھی ایسا ہوگیا۔ لیکن ماہی وہ تو اسی نہیں تھی۔۔۔ وہ غصے اور جذبات میں آکر جو بھی فیصلہ کرتی پھر اُس سے کبھی نہیں مکڑی تھی۔۔۔جب اُس نے ایک بار کہہ دیا کہ مڑ کر نہیں دیکھے گی تو نہیں دیکھے گی۔۔۔ لیکن یہ کیسے اُس سے انجانے میں ہوگیا پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔۔۔۔اُس نے بہت دوست ایسے کھوئے تھے اُس نے بہت رشتے ایسے چھوڑے تھے لیکن آج سے پہلے ایسے کبھی نہیں ہوا تھا ۔۔
تو آج ایسا کیوں ہوا؟
کیا ولید… اس کے لیے باقی سب سے مختلف تھا؟
یہ… یہ لڑکا ہی منحوس ہے... وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی،
اس نے جلدی سے اپنی نظریں ولید کی طرف سے ہٹالی تھی فون بیگ میں ڈال دیا، جیسے خود سے بھاگنا چاہتی ہو۔ جیسے اگر وہ موبائل کو خود سے دور کردے گی تو یہ احساس بھی مٹ جائے گا کہ
چند لمحے پہلے وہ خود اپنے اصول توڑ بیٹھی تھی۔
مگر اصول ایک بار ٹوٹ جائیں، تو کیا وہ دوبارہ پہلے جیسے جُڑ پاتے ہیں؟
نہیں، اب ایسا دوبارہ نہیں ہوگا۔۔۔ اس نے خود سے کہا، خود کو یقین دلایا۔
مگر دل کے کسی کونے میں، جہاں اس کی آواز بھی نہیں پہنچ سکتی تھی، کوئی سرگوشی کر رہا تھا-
کبھی کبھی، دل کے فیصلے دماغ کے فیصلوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔۔۔
++++++++++++
ماہی کی نظریں حیرانی سے اِس ویران اور سخت ماحول کو دیکھ رہی تھیں۔ اُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یونیورسٹی کے بعد حارث اُسے کسی خوبصورت جگہ یا کسی شاندار ریستوران کے بجائے ایک بوکسنگ کلب لے آیا تھا۔ دیواروں پر مکے مارنے کے نشان، پسینے میں بھیگے ہوئے کھلاڑی، اور ایک خاص قسم کی سختی یہاں کے ماحول کا حصہ تھی۔
کلب میں داخل ہوتے ہی ماہی کو ایک تیز اور پسینے بھری بو محسوس ہوئی، جو کسی سخت مشقت کی علامت تھی۔ دیواروں پر جگہ جگہ باکسنگ چیمپئنز کی تصویریں لگی تھیں، جن میں کچھ غصے سے مکے برسا رہے تھے اور کچھ جیت کے بعد اپنے ہاتھ فضا میں بلند کیے کھڑے تھے۔
سامنے ایک بڑا رنگ (Ring) تھا، جس کے چاروں طرف موٹی رسی بندھی ہوئی تھی۔ اس کے اندر دو باکسر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے، دستانے پہنے، پوری شدت سے مکے برسا رہے تھے۔ ایک لمحے کے لیے ایسا لگا جیسے وہ ایک دوسرے کو گرا ہی دیں گے، مگر دونوں مہارت سے اپنے دفاع میں بھی مصروف تھے۔ رنگ کے باہر کھڑے لوگ جوش سے نعرے لگا رہے تھے، کچھ باکسرز کو مشورے دے رہے تھے، تو کچھ صرف اس سنسنی خیز منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
کلب کے ایک کونے میں ورزش کے لیے بھاری مشینیں لگی تھیں۔ کچھ باکسر وہاں تیزی سے پنچنگ بیگ پر مکے مار رہے تھے، تو کچھ رسی کودنے میں مصروف تھے۔ کہیں کہیں دیواروں پر خون اور پسینے کے دھبے اس جگہ کی سخت محنت کی گواہی دے رہے تھے۔
ایک طرف اسٹیل کے بینچ پر کچھ لوگ بیٹھے اپنے مقابلے کی باری کا انتظار کر رہے تھے، ان کے ہاتھوں میں پٹی بندھی تھی اور آنکھوں میں جوش تھا۔ دوسرے کونے میں ایک ٹرینر نوجوان لڑکوں کو صحیح پنچ مارنے کی تکنیک سمجھا رہا تھا، اس کی آواز بار بار گونج رہی تھی
گھونسہ صحیح مارو! کندھے سے طاقت لگاؤ، بس بازو نہیں ہلانے۔۔۔
حارث ماہی کو لیے سیدھا اُس بورڈ کی طرف بڑھا، جہاں سب سے کامیاب باکسرز کے نام چمک رہے تھے۔ کلب کی فضا میں جوش، طاقت اور مقابلے کی شدت صاف محسوس ہو رہی تھی۔ یہاں صرف وہی لوگ آ سکتے تھے جو سخت محنت اور مشقت کا حوصلہ رکھتے تھے، جو ہر چیلنج کے لیے تیار تھے۔
یہ ہے بوکسنگ کلب، حارث نے فخریہ انداز میں کہا۔
ماہی نے ایک نظر اِس سنجیدہ ماحول پر ڈالی اور ناک چڑھا کر بولی، مجھے لگا تھا تم مجھے کہیں خوبصورت جگہ لے کر جاؤ گے، کسی ریسٹورانٹ یا کسی اور اچھی جگہ، لیکن تم یہاں لے آئے۔۔۔
حارث کے ہونٹوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ آئی۔ اُس نے ہاتھ جیب میں ڈالا اور بے نیازی سے کندھے اُچکاتے ہوئے بولا، وہ تو میں تب لے کر جاتا جب تم کوئی عام لڑکی ہوتیں۔
مُجھے پتہ ہے میری طرح تمھیں بھی یہ سب پسند ہے۔۔۔ اب حارث نے ایک طرف اشارہ کیا، جہاں دیوار پر ایک بڑا سا وِنر بورڈ لگا تھا۔ اس پر کلب کے بہترین فائٹرز کے نام درج تھے۔ ماہی نے نظریں دوڑائیں، اور جلد ہی اُسے ایک مانوس سا نام نظر آیا۔
یہ دیکھو، حارث نے فخر سے کہا، حارث زیان… میں سب سے اوپر جا رہا ہوں۔ آج تک کسی نے مجھے شکست نہیں دی۔
ماہی کی آنکھیں سکرین کے دوسرے نمبر پر چمکتے ہوئے حارث زیان کے نام پر ٹک گئیں۔ لیکن پھر اُس کی نظر پہلے نمبر پر پڑی۔ اُس نے کچھ حیرانی سے پوچھا، اور یہ پہلے نمبر پر کون ہے؟
حارث کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے سنجیدگی چھا گئی۔ اُس نے بورڈ کی طرف دیکھا، پھر بے پروائی سے بولا، پتہ نہیں، کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ نہ ہی کبھی ہمارا مقابلہ ہوا۔ لیکن اگر ہوتا تو یقیناً میں اِسے بھی شکست دے چکا ہوتا۔
ماہی نے ایک نظر حارث کو دیکھا، جو اعتماد سے بھرپور کھڑا تھا، جیسے اُس کے لیے ہارنا ممکن ہی نہ ہو۔
باقی جتنے نام نیچے درج ہیں، سب کو میں شکست دے چکا ہوں۔۔
تمہارا یہ نشہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ہے۔۔ ماہی نے حارث کو گھورتے کہا۔۔۔
حارث نے بے نیازی سے کندھے اُچکائے۔
بالکل نہیں۔۔۔ اس نے پُراعتماد لہجے میں کہا۔ یہ نشہ نہیں، جنون ہے… اور جنون کبھی ختم نہیں ہوتا۔۔۔
ماہی نے ناگواری سے سر جھٹکا۔ یہ جنون نہیں، پاگل پن ہے! تمہیں کوئی اور شوق نہیں؟ دنیا میں اور بھی ہزاروں کام ہیں، مگر تمہاری دنیا صرف مکے برسانے تک محدود ہے۔۔۔
حارث نے ایک چمکتی ہوئی نگاہ سے اُسے دیکھا اور ایک قدم آگے بڑھایا۔ یہ صرف مکے برسانا نہیں، یہ زندگی جینے کا ایک طریقہ ہے، ماہی! جب میں رنگ میں اُترتا ہوں، تو مجھے کوئی فکر نہیں رہتی۔ نہ دنیا کی، نہ لوگوں کی، نہ ہارنے کی! بس ایک مقصد ہوتا ہے، آگے بڑھنا، جیتنا۔۔۔
ماہی نے گہری سانس لی اور گردن گھما کر پورے کلب کا جائزہ لیا۔ ہر طرف جوش، پسینے اور محنت کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ دیواروں پر جیت کی نشانیاں تھیں، فضا میں چیخ و پکار، حوصلہ افزائی اور مکے برسنے کی آوازیں گونج رہی تھیں۔
اور یہ سب کب تک چلے گا؟ اس نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے پوچھا۔ ایک نہ ایک دن تمہیں بھی سمجھ آ جائے گی کہ زندگی صرف جیتنے کا نام نہیں، سکون کا نام بھی ہے۔۔۔
حارث کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔ جیت ہی تو سکون ہے، ماہی! اور میں جب تک سب سے اوپر نہ پہنچ جاؤں، مجھے نہ نیند آئے گی، نہ سکون ملے گا۔۔۔
ماہی نے ایک نظر اُس بورڈ پر ڈالی جہاں اُس کا نام دوسرے نمبر پر جگمگا رہا تھا، اور پھر اُس نام پر جو سب سے اوپر تھا۔
اور اگر وہ تمہیں ہرا دے؟ اُس نے دھیرے سے کہا۔
حارث کے چہرے پر لمحہ بھر کے لیے ایک سایہ سا لہرایا، مگر پھر وہی ضدی مسکراہٹ واپس آ گئی۔ یہ اگر مگر کی باتیں چھوڑو، ماہی! جو میرے سامنے آیا، وہ گرا! اور جو اوپر ہے، وہ بھی ایک دن میرے سامنے آئے گا… پھر دیکھنا، کون سب سے اوپر ہوتا ہے۔۔
ماہی نے خاموشی سے ایک نظر اس کی آنکھوں میں جھانکی۔ وہاں ایک دیوانگی تھی، ایک چمک، جو شاید سچ میں کبھی ختم نہیں ہو سکتی تھی…
میں جانتا ہوں تمہیں بھی یہ سب پسند ہے… اس نے ماہی کو بغور دیکھتے ہوئے کہا، آنکھوں میں ایک چمک لیے، جیسے اسے چیلنج دے رہا ہو۔ چلو آؤ، ہو جائے پھر سے ایک جنگ؟
ماہی نے گہری سانس لی، آنکھوں میں ایک سنجیدگی تھی جو شاید حارث کبھی سمجھ نہیں سکتا تھا۔
مجھے لڑنا پسند نہیں ہے، حارث… اس کی آواز دھیمی مگر پُراثر تھی۔ یہ میرا شوق نہیں ہے… میں لڑتی صرف اپنی حفاظت کے لیے ہوں۔ یہ میرا شوق یا جنون نہیں ہے۔
حارث نے کندھے اچکائے، جیسے اسے ماہی کی اس بات کی پرواہ ہی نہ ہو۔
اچھا چلو، خیر ہے، چھوڑو یہ سب۔۔۔اس نے لاپرواہی سے کہا۔ تم بس یہاں بیٹھ کر دیکھو… اور مجھے سپورٹ کرو۔
ماہی نے نرمی سے سر جھٹکا۔ حارث کا جنون اپنی جگہ، مگر وہ خود اس کھیل میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔اُس نے یہ سب صِرف اپنے آپکو مضبوط کرنے کے لیے سیکھا تھا۔۔۔ کہ کوئی بھی اُس کی طرف آنکھ اٹھانے سے پہلے سو بار سوچے ۔۔۔اور اسٹارٹنگ اسٹارٹنگ میں وہ حارث سے لڑا کرتی تھی لیکن اب بلا فالتو کا اُسے لڑنا کا کوئی شوق نہیں تھا ۔۔اس کے لیے لڑائی محض اپنی حفاظت کا ذریعہ تھی، جبکہ حارث کے لیے یہ ایک کھیل، ایک چیلنج، ایک جنون تھا۔
اب دیکھنا تو پسند ہے نا؟ حارث نے شرارت سے کہا۔
ماہی نے گہری سانس لیتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔
حارث کے چہرے پر ایک مطمئن سی مسکراہٹ آئی۔ وہ جانتا تھا کہ ماہی نے اگرچہ لڑنے سے انکار کر دیا تھا، مگر وہ یہ سب دیکھے بغیر بھی نہ رہ سکے گی۔ وہ آگے بڑھا اور رنگ (Ring) کی طرف قدم بڑھانے لگا، جہاں پہلے ہی کچھ باکسرز پریکٹس میں مصروف تھے۔
ماہی بینچ پر بیٹھ گئی، اس کی نظریں رنگ پر جم گئیں۔ وہاں پسینے میں بھیگے باکسرز اپنی پوری طاقت اور مہارت آزما رہے تھے، ہر مکا، ہر وار ایک کہانی سنا رہا تھا۔…
حارث نے دستانے پہنے اور رنگ میں داخل ہوتے ہی ایک زوردار مکا ہوا میں مارا، جیسے اپنی توانائی کا اظہار کر رہا ہو۔ آس پاس کے باکسرز نے اس کی طرف دیکھا، کچھ نے سرگوشیاں کیں، اور کچھ مسکرا دیے، جیسے جانتے ہوں کہ یہاں کچھ خاص ہونے والا ہے۔
تو آج میرا مقابلہ کون کرے گا؟ حارث نے چیلنج بھرے انداز میں کہا۔
ایک دراز قد، مضبوط جسم والے باکسر نے قدم آگے بڑھایا۔ اس کے چہرے پر خود اعتمادی تھی، اور وہ حارث کو پرکھنے والے انداز میں دیکھ رہا تھا۔
میں۔۔۔ اس نے مختصر سا جواب دیا۔
ماہی نے آنکھیں سکیڑ کر اس شخص کو دیکھا۔ وہ عام باکسرز کی طرح نہیں لگ رہا تھا، اس کے چہرے پر ایک عجیب سا اعتماد تھا، جیسے وہ حارث کو آسانی سے ہرا سکتا ہو۔
حارث نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ دستانے ٹھیک کیے اور لڑنے کے لیے تیار ہوگیا۔ کلب میں موجود تمام لوگوں کی نظریں اب انہی دونوں پر مرکوز تھیں۔ ماہی نے بے اختیار اپنی انگلیاں آپس میں پھنسا لیں۔ وہ جانتی تھی کہ حارث بہترین فائٹر ہے، مگر پھر بھی کچھ عجیب فیل ہورہا تھا۔۔
چلو، دیکھتے ہیں، کون کس کو ہراتا ہے۔۔۔ حارث نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور گھنٹی بجتے ہی دونوں باکسرز ایک دوسرے کے خلاف حرکت میں آ گئے۔
گھنٹی بجتے ہی دونوں باکسرز اپنی جگہ سے ہلے۔ حارث ہمیشہ کی طرح پُراعتماد تھا، اس کے قدم مضبوط اور مکے برق رفتاری سے چلنے کو بے تاب تھے۔ دوسری طرف اس کا مدِمقابل بھی کسی کمزور کھلاڑی کی طرح نہیں لگ رہا تھا، اس کے انداز میں بھی مہارت اور چالاکی جھلک رہی تھی۔
ماہی کی نظریں رنگ پر جمی تھیں،
پہلا وار حارث نے کیا—تیز، سیدھا اور طاقتور! مگر اس کے مخالف نے مہارت سے بچاؤ کر لیا۔ حارث کی پیشانی پر ہلکی سی شکن ابھری، مگر وہ فوراً اگلے وار کے لیے تیار ہوگیا۔ اس نے جھک کر دائیں جانب سے ایک زوردار مکا مارا، جسے مخالف نے تھوڑا بہت برداشت کر لیا، مگر ایک لمحے کے لیے اس کے قدم ڈگمگا گئے۔
یہ ہوا پہلا وار۔۔ حارث نے مسکراتے ہوئے کہا۔
مدمقابل نے کوئی جواب نہ دیا، بس ایک گہری سانس لی اور اگلے ہی لمحے پوری طاقت سے وار کر دیا۔ اس کا مکا اتنا شدید تھا کہ حارث کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ کلب میں موجود لوگ حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے، جیسے انہیں یقین نہ آ رہا ہو کہ کوئی حارث زیان کو پیچھے دھکیل سکتا تھا
ماہی کی انگلیاں بینچ کی لکڑی میں گڑنے لگیں۔ اسے یہ سب دیکھنا عجیب لگ رہا تھا۔
رنگ کے اندر اب ایک سنجیدہ جنگ چھڑ چکی تھی۔ حارث کو احساس ہو رہا تھا کہ آج کا مقابلہ آسان نہیں ہونے والا۔ مگر وہ پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔
چلو، اب میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ حارث زیان کون ہے۔۔۔ حارث نے دانت بھینچ کر کہا اور پوری قوت سے اپنے مکے برسانے لگا۔
کلب میں موجود ہر آنکھ اسی مقابلے پر جمی تھی۔ ماہی کی دھڑکنیں اور تیز ہو گئیں۔
حارث نے اگلے ہی لمحے ایک بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھا۔
اس کے وار میں اب پہلے سے زیادہ طاقت تھی۔ ایک زوردار مکا مخالف کے پہلو پر پڑا، اور وہ ایک لمحے کے لیے اپنی جگہ سنبھال نہ سکا۔ حارث نے موقع ضائع کیے بغیر دوسرا وار کیا—سیدھا چہرے پر! مدمقابل پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا۔
کلب میں ایک لمحے کے لیے سناٹا چھا گیا۔ ماہی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ حارث نے آخری ضرب لگانے کے لیے قدم بڑھایا، اور پھر ایک فیصلہ کن مکا مخالف کے جبڑے پر رسید کر دیا!
باس۔۔۔ مدمقابل زمین پر جا گرا، اور گھنٹی بجا دی گئی۔
کلب میں شور اٹھا، تالیوں اور نعروں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ حارث نے اپنی مٹھی فضا میں بلند کی، چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ اس کا نام آج پھر بلند ہو چکا تھا، اس کی ناقابلِ شکست فہرست میں ایک اور نام جُڑ چکا تھا۔
ماہی نے گہری سانس لی، اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔ حارث زیان… تم واقعی ہر حد پار کر سکتے ہو۔ اس نے دل میں سوچا۔
حارث نے ماہی کی طرف دیکھا، آنکھوں میں ایک چمک تھی۔ دیکھا؟ کہا تھا نا، مجھے کوئی ہرا نہیں سکتا۔۔۔
ماہی نے سر جھٹک دیا، مگر اس کے دل میں ایک انجانی سی تسلی تھی—حارث واقعی لڑنے کے لیے پیدا ہوا تھا، اور شاید جیتنا اس کی فطرت میں شامل تھا۔
+++++++++++++++
السلام علیکم۔۔۔
فون کے دوسری طرف سے سونیا پھوپو کی گھبرائی ہوئی آواز ابھری۔
وعلیکم السلام، نازیہ بیگم نے مسکرا کر جواب دیا۔
ماہی کیسی ہے؟ سونیا پھوپو نے بےچینی سے پوچھا۔
اپنی خالہ کے پاس ہے، تم فکر نہ کرو۔ وہ خوش ہے، بہت خوش۔۔۔ نازیہ بیگم نے دبے دبے طنزیہ لہجے میں جواب دیا۔
طنز بعد میں کر لینا، ابھی میری بات سنو۔۔۔
سونیا پھوپو کی آواز میں بے بسی تھی۔ کل رات ماہی کا فون آیا تھا… اور وہ مجھ سے سخت ناراض ہو گئی ہے۔ پلیز، اس سے کہو مجھ سے بات کرے، میں بہت پریشان ہوں۔
نازیہ بیگم نے کچھ لمحے سوچا، پھر بولیں، اچھا، لیکن ماہی تم سے ناراض کیوں ہو گئی؟
اسی لمحے دروازہ کھلنے کی آواز آئی، اور ماہی گھر میں داخل ہوئی۔ اُس کے ساتھ حارث بھی تھا۔۔۔
اچھا، رکو، ابھی ماہی آئی ہے، میں اس سے بات کرتی ہوں، نازیہ بیگم نے کہا اور فون ہاتھ میں تھامے دروازے کی طرف بڑھیں۔
ماہی، یہاں آؤ۔۔۔
ماہی جو ابھی جوتے اتار رہی تھی، رک کر ان کی طرف مڑی۔ ہاں، کیا ہوا؟
یہ لو، اپنی پھوپو سے بات کرو۔ وہ بہت پریشان ہیں تمہارے لیے۔
ماہی کے چہرے پر ایک دم سختی آ گئی۔ اس نے ایک نظر نازیہ بیگم کو دیکھا، پھر فون کی طرف دیکھا اور سپاٹ لہجے میں بولی، خالہ، آپ ان سے کہہ دیں کہ ماہی کو ان سے کوئی بات نہیں کرنی۔ ماہی نے ایک بار کہہ دیا کہ وہ کبھی بات نہیں کرے گی، تو کبھی نہیں کرے گی۔۔۔
نازیہ بیگم ابھی کچھ کہنے ہی والی تھیں کہ ماہی نے مزید کہا، اور خالہ، آپ بھی مجھ سے اس بارے میں بات مت کیجیے گا، ورنہ ماہی یہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔۔۔
یہ کہہ کر وہ بنا رکے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
فون ابھی بھی آن تھا، اور سونیا پھوپو نے سب کچھ سن لیا تھا۔ دوسری طرف سے گہری خاموشی چھائی رہی۔
نازیہ بیگم نے دھیرے سے فون کان سے لگایا اور آہستہ سے بولیں، ایسا کیا ہو گیا کہ وہ تم سے اتنی زیادہ ناراض ہو گئی؟
سونیا پھوپو کی سانس بھاری لگ رہی تھی۔ بس وہ بات پتہ چل گئی اسے… جو کبھی بھی اسے پتہ نہیں چلنی چاہیے تھی۔
پھر ایک لمحے بعد انہوں نے تھوڑا رک کر کہا، اچھا، تم ماہی کا خیال رکھنا… اور اس سے اس بارے میں دوبارہ بات مت کرنا۔ وہ سر پھری لڑکی ہے، واقعی گھر چھوڑ کر چلی جائے گی، پھر ہمارے لیے اور مسئلہ بن جائے گا۔
نازیہ بیگم نے سر ہلایا، جیسے خود سے کہہ رہی ہوں، ہاں ہاں، میں دھیان رکھوں گی… لیکن ان کے دل میں اب کئی سوال سر اٹھا رہے تھے۔
ہاں، اور مجھے ماہی کی خبر بھی دیتی رہنا۔۔۔
سونیا پھوپو نے بےبسی سے کہا
انہوں نے گہری سانس لی، ٹھیک ہے، میں دیکھ لوں گی، تم فکر مت کرو۔
فون بند ہو چکا تھا،
یہ کیا معاملہ ہے…؟ نازیہ بیگم نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھا۔
حارث نے کندھے اچکائے، جیسے واقعی کچھ نہ جانتا ہو۔ پتہ نہیں… ہو گی اِس کی کوئی نئی ضد۔۔ اس نے لاپرواہی سے کہا،
تمہیں واقعی کچھ نہیں معلوم؟ نازیہ بیگم نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔
ماما، آپ جانتی تو ہیں ماہی کتنی جذباتی لڑکی ہے… چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے…
یہ معاملہ اتنا معمولی نہیں لگ رہا، حارث… ان کا لہجہ اب اور بھی سخت ہو گیا تھا۔ ماہی نے کہا ہے کہ اگر اس سے زبردستی بات کرنے کو کہا گیا تو وہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی… اور تم کہہ رہے ہو کہ یہ بس ایک عام ضد ہے؟
حارث نے بےچینی سے گہری سانس لی، پھر آہستہ سے بولا، ماما، سب نظر آ رہا ہے… پھوپو سے ناراض ہو گئی ہے کسی بات پر، لیکن یہ کوئی نئی بات تو نہیں۔
اس کی نازیہ بیگم نے گہری نظروں سے اسے دیکھا، ناراض ہونا الگ بات ہے، لیکن اس بار وہ کچھ زیادہ ہی غصے میں ہے، حارث۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ وہ کبھی معاف نہیں کرے گی! اور سب سے بڑی بات… وہ گھر چھوڑنے کی دھمکی دے رہی ہے۔۔۔
حارث نے دھیمے لہجے میں کہا، ماما، آپ تو جانتی ہیں ماہی کی فطرت… وہ جب کسی بات پر ضد پکڑ لیتی ہے تو اسے کوئی نہیں ہلا سکتا۔
ہاں، لیکن یہ کچھ زیادہ ہی ہے… ناذیہ بیگم کی آواز میں پریشانی تھی۔ اور تمہیں اس کا پتہ لگانا ہوگا، حارث۔۔۔
حارث نے آہستہ سے سر ہلا دیا۔ ہاں پتہ کروں گا، ماما…
یہ کہہ کر حارث بھی اپنے روم کی طرف چل دیا۔۔۔
+++++++++++
ماہی اس وقت نائلہ کے بتائے ہوئے مقام پر موجود تھی… اور نائلہ بھی اس کے ساتھ ہی کھڑی تھی۔ یہ لندن کا ایک انتہائی سنسان علاقہ تھا، سڑک سنسان، گلیاں ویران، اور چاروں طرف ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
ہلکی ہلکی خنک ہوا چل رہی تھی، جو سنسان راستوں سے ٹکرا کر سرگوشیاں کر رہی تھی۔ اسٹریٹ لائٹس کمزور روشنی دے رہی تھیں، اور کچھ جگہوں پر تو مکمل اندھیرا تھا۔ دور کہیں ایک آوارہ بلی کسی کوڑے کے ڈبے پر چڑھ کر نیچے کود گئی، اس کی آواز اس سناٹے میں خوفناک محسوس ہوئی۔
ماہی نے چاروں طرف نظر دوڑائی،
یہ کون سی جگہ ہے؟ ماہی نے الجھن اور بےچینی سے نائلہ کی طرف دیکھا۔
یہ مافیا کی خاص جگہ ہے، وہ دھیمے مگر سنجیدہ لہجے میں بولی۔
مافیا؟ اس کی نظریں ارد گرد بھٹکنے لگیں،
ہاں… یہاں آج رات ایم۔ڈی مافیا اور قبضہ مافیا کے درمیان جنگ ہونے والی ہے، نائلہ نے سرگوشی میں کہا،
کیسی جنگ؟
نائلہ نے ایک لمحے کے لیے اس کی طرف دیکھا، پھر دھیرے سے بولی، جیت اور ہار کی جنگ… طاقت اور حکمرانی کی جنگ! یہاں دونوں مافیاز کی ٹیمیں آمنے سامنے آتی ہیں، پوری تیاری کے ساتھ۔ پھر ایک زبردست لڑائی ہوتی ہے… اور اس لڑائی میں کچھ لوگ واقعی مر جاتے ہیں، باقی شدید زخمی ہو جاتے ہیں۔ آخر میں جو ٹیم جیتتی ہے، وہ علاقے پر قبضہ کر لیتی ہے… اور جو ہارتا ہے، اس کا لیڈر خود کو پولیس کے حوالے کر دیتا ہے۔
ماہی کے دل کی دھڑکن ایک لمحے کے لیے تیز ہوگئی۔ یہ تو پاگل پن ہے…
یہی دنیا ہے، ماہی… ایک ایسی دنیا جسے تم نہیں جانتی…
ماہی نے حیرانی اور سنسنی خیزی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ نائلہ کی طرف دیکھا۔
یہ سب حقیقت میں ہوتا ہے؟
نائلہ نے کندھے اچکائے، یہاں کے اصول سخت ہیں، اور یہاں صرف طاقتور ہی زندہ رہتا ہے… کمزوروں کی یہاں کوئی جگہ نہیں۔
ماہی نے گہری سانس لی۔ لندن کے سنسان علاقے میں، رات کے اندھیرے میں، وہ ایک ایسی دنیا میں قدم رکھ چکی تھی جہاں قانون کی کوئی اہمیت نہیں تھی… جہاں صرف طاقت اور حکمت عملی چلتی تھی۔
تو ہمیں یہاں کیا کرنا ہے اس وقت؟
ماہی نے بےچینی سے پوچھا۔
نائلہ نے پرسکون انداز میں ایک نظر اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر ڈالی، پھر سامنے سنسان سڑک کو دیکھتے ہوئے بولی، کچھ دیر یہاں چپ کر کے بیٹھی رہو اور انتظار کرو۔
انتظار؟ کس کا؟
نائلہ نے ایک گہری سانس لی اور آہستہ سے بولی،
بس دیکھو… کچھ دیر میں سب کچھ خود سمجھ آجائے گا۔
نائلہ، اگر کچھ غلط ہوا تو؟ ماہی نے آہستہ سے کہا۔
نائلہ نے ایک لمحے کے لیے اس کی طرف دیکھا، پھر مسکرا کر بولی، یہاں صرف طاقتور لوگ بچتے ہیں، ماہی… اور کمزور لوگ کہانیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اب یہ تم پر ہے کہ تم کون بننا چاہتی ہو۔
+++++++++++++
جاری ہے۔۔۔
