دل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۱۲
چند لمحوں بعد…
وہ یونیورسٹی کے پچھلے حصے میں، ایک سنسان اور بدبو دار گلی میں موجود تھی۔ ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے، چہرے پر سرخ ہوتی رگیں، اور آنکھوں میں وہی غصہ ۔۔۔
اس کے آس پاس تین سے چار لڑکے کھڑے تھے، ان کے چہروں پر بد نیتی اور غرور کے گندے نشان تھے۔
بیچ یونیورسٹی میں تُو نے میرا کولر پکڑا تھا نا؟
لڑکوں میں سے ایک، جو بظاہر ان کا لیڈر لگ رہا تھا، آگے بڑھا۔ اس کی آنکھوں میں غصہ ناچ رہا تھا۔
اب دیکھ، میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں۔۔۔
اوہ، میں تو ڈر گئی۔۔۔
وہ مذاق اڑانے والے انداز میں بولی، آنکھوں میں چیلنج لیے ہوئے۔
جب ماہی ایم ڈی کے قبضے میں تھی، تب نہیں ڈری تھی… اب کیا خاک اتنے چھوٹے چھوٹے چوزوں سے ڈرے گی؟ ماہی نے ڈرنا سیکھا ہی نہیں تھا۔
بہت زبان چلتی ہے تیری، دیکھتا ہوں کب تک ایسے اکڑ دیکھتی ہے۔۔۔۔
وہ اس کی طرف بڑھا، مگر ماہی نے جھک کر اپنی کہنی سیدھی اس کے پیٹ میں دے ماری۔
تیری تو میں۔۔۔۔اس نے دانت پیستے ہوئے کہا، مگر اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ سنبھلتا، ماہی نے اپنے پیروں سے ایک لڑکے کی ٹانگ پر ضرب لگائی۔وہ توازن کھو کر نیچے گرا، اور ماہی نے جھٹکے سے اپنی کلائی موڑی، جس سے رسی کچھ ڈھیلی ہو گئی۔
یہ تم سب کے لیے آخری وارننگ ہے۔۔۔
ماہی کی آواز گونجی۔
اگر تم نے کسی لڑکی کے ساتھ دوبارہ ایسا کیا یا میرے ساتھ کیا، تو میں ہر ایک کا وہ حال کروں گی کہ اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگو گے۔۔۔۔
لیڈر غصے سے بلبلا اٹھا، مگر اس سے پہلے کہ وہ یا اس کے ساتھی کچھ کر پاتے، کسی کے بھاگنے کی آواز سنائی دی۔
کیا کر رہے ہو تم لوگ؟ بھاگو یہاں سے۔۔۔۔
ایک لڑکی چیختی ہوئی ان کی طرف دوڑی۔
حارث ایسے ڈھونڈے ہوئے اسی طرف آرہا ہے۔۔۔
“حارث؟” لڑکوں کے چہروں کا رنگ بدل گیا۔وہ جانتے تھے کہ اگر حارث نے انہیں یہاں پایا، تو ان کی خیر نہیں۔
اُس سالہ کو کیسا پتہ چلا گیا؟ ابھی تو منحوس میچ کھیل رہا تھا گراؤنڈ میں۔۔۔وہ غصّہ میں غرایا ۔۔
“آبے پتہ نہیں، کتنے چمچے ہیں اُس کے، کسی نے لگا دی ہوگی اگ۔ فلحال جلدی کر اِدھر سے نکل، اگر اُس نے ہمیں یہاں دیکھ لیا نہ تو مرے جائے گئے۔۔۔
اُن میں سے ایک لڑکے نے کہا
اس کو ایسے چھوڑ نہیں سکتا میں۔۔۔۔
وہ غصّے سے بولا۔ غصّہ تھا کے اُس کا کام ہی نہیں ہو کے دے رہا تھا۔۔ صِرف تھوڑا سا تو چھڑا تھا ماہی کو اُس نے اور اُس نے کیا کیا۔ پورے یونیورسٹی کے سامنے تھپڑ مرا تو مارا اُسے سب کی نظروں میں بھی گرا دیا تھا۔۔۔
آبے تو بھول گیا ہے جون کی حالت؟ اپنے پر نے صحیح۔۔۔ہم پر رحم کہا۔۔۔چلا۔۔۔کہا بھی تھا ولید نے۔۔۔میں ہی نہ فضول کا تیری باتوں میں آگیا۔۔۔اُس کا دوست اب اُس کو سمجھتا گھسیٹا ہُوا اُسے یہاں سے لے جانے لگا۔۔۔
ابے چل! ابھی نہ بھاگے تو سمجھ لے، سیدھا ہسپتال پہنچیں گے۔۔۔دوسرا لڑکا بھی کہتا ایسے پکڑتا گھسیٹنے لگا
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سارے لڑکے غائب ہو چکے تھے۔
تُم کون ہو؟
ماہی نے بغور اُس لڑکی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔وہ لڑکی سٹائلش سے جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھی۔۔۔اور شکل صورت سے ایک امریکی لڑکی ہی لگ رہی تھی ۔۔
لڑکی نے ایک نظر ماہی پر ڈالی، پھر دھیرے سے بولی،
جان پہچان کی ضرورت نہیں…
ماہی نے ایک ہلکی سی، مگر سرد مسکراہٹ کے ساتھ اپنا کھلا ہوا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اور کہا
ماہی کو تمہاری مدد کی ضرورت نہیں تھی…
مجھے لگا تھا…
وہ معصومیت سے بولی۔
کیا حارث واقعی یہاں آ رہا ہے؟
ماہی نے پوچھا۔
نہیں۔۔۔ میں نے جھوٹ بولا تھا…
اس نے سادگی سے اعتراف کیا۔
اُس لڑکی نے ماہی کی طرف دیکھا اور ہلکے سے مسکرا کر بولی،
میں نے اُن لڑکوں کو تمہیں پکڑتے وقت دیکھ لیا تھا… اسی لیے تمہاری مدد کو آگئی۔
تم مجھے کیسے جانتی ہو؟
اُس لڑکی نے ہلکے سے سر جھٹکا،
تمہیں کون نہیں جانتا، ماہی؟
مطلب؟
یہ مت پوچھو کہ میں تمہیں کیسے جانتی ہوں، یہ پوچھو کہ لوگ تمہیں کیسے جانتے ہیں۔ یونیورسٹی میں سب تمہیں حارث کی گرل فرینڈ کے طور پر جانتے ہیں۔۔۔
ماہی کے چہرے پر ایک پل کے لیے حیرانی ابھری، مگر فوراً ہی اس نے تاثرات پر قابو پا لیا۔۔۔
حارث کی گرل فرینڈ؟
ماہی نے دھیمے لہجے میں کہا۔
کیونکہ حارث کو پہلے کبھی کسی لڑکی کے ساتھ نہیں دیکھا گیا تھا، اور تم پہلی ہو جس کے ساتھ وہ ہر وقت ہوتا ہے۔۔۔یونیورسٹی کے سب سے مشہور لڑکے کے ساتھ اگر کوئی ہر وقت نظر آئے، تو لوگوں کو کہانی بنانے میں دیر نہیں لگتی! اور مشہور لڑکا وہ بھی وہ جو کسی لڑکی سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا۔۔
اور تمہیں بھی یہی لگتا ہے؟
مجھے کسی سے فرق نہیں پڑتا، نہ تم سے، نہ حارث سے، نہ یونیورسٹی کی ان باتوں سے۔۔۔ بس اتنا جانتی ہوں کہ تمہیں آج میری مدد کی ضرورت تھی، اس لیے میں یہاں ہوں۔
یہ جون کون ہے؟
پتہ نہیں… یہ سچ ہے یا صرف افواہ، مگر سننے میں آیا ہے کہ جون نے ولید کی کار کسی غلط کام کے لیے استعمال کی تھی…
ماہی نے نظریں سکیڑیں۔۔
غلط کام؟ مطلب؟
کچھ غیر قانونی سامان لے جانے کے لیے…
ماہی کے چہرے کے تاثرات پل بھر کو بدلے، مگر وہ جلدی سنبھل گئی۔
لڑکی بات جاری رکھتے ہوئے بولی، حارث کو پتہ چل گیا… اور پھر اُس نے جون کو کچھ لڑکوں سے پٹوایا۔ اس کی اتنی حالت خراب کر دی کہ اب وہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہے۔
ماہی کے لیے یہ بات حیران کن تھی، مگر اس نے خود کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔
اچھا… وہ دھیمے لہجے میں بولی، جیسے بات سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو۔
تو کیا یہ سب ولید کو نہیں معلوم؟
اُس نے ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا،
آف کورس نہیں! اگر معلوم ہوتا تو وہ حارث کی اچھی خاصی کلاس لے چکا ہوتا۔ تم جانتی ہو نا، ولید کو یہ سب پسند نہیں، اور جون تو اُس کا دوست بھی تھا۔
ماہی کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔
یہ کیسے ممکن ہے؟ پورے یونیورسٹی کو معلوم ہے، اور بس اُسی تک خبر نہیں پہنچی؟
کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اگر کسی نے بھی ولید کو بتایا، تو حارث اُسے نہیں چھوڑے گا۔وہ ایک لمحے کو رکی، پھر کندھے اچکاتے ہوئے بولی، اور یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں، ایسی باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں۔ کئی بار ولید تک خبریں پہنچی ہیں، اور اُس نے اپنی سمجھداری سے حارث کو روکا بھی ہے، ڈانٹا بھی ہے، مگر…
ماہی نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا،
مگر کیا؟
مگر حارث وہ شخص ہے جو بدلہ لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔اُس کی نظریں کسی غیر مرئی نقطے پر جمی تھیں۔ وہ کسی کو بلاوجہ تنگ نہیں کرتا، لیکن اگر کوئی اُس کے خلاف جائے، تو وہ اُسے چھوڑتا بھی نہیں۔ وہ اپنا بدلہ لے کر رہتا ہے، چاہے ولید اُسے معاف کرنے کا کہے یا نہ کہے۔
دل کا بُرا نہیں ہے حارث، بس وہ لوگوں کو معاف نہیں کرتا… جس نے اُس کے ساتھ برا کیا، وہ اُس سے برابر بدلہ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری یونیورسٹی اُسے جانتی ہے، اُس سے ڈرتی ہے۔
ماہی نے نظریں جھکا کر زمین کی طرف دیکھا، جیسے کسی گہری سوچ میں گم ہو۔ یہی فرق ہے اُس میں اور ولید میں۔ اُس نے آہستہ سے کہا۔
بالکل! اُس لڑکی نے فوراً تائید کی، ولید معاف کر دیتا ہے، وہ دوسروں کو دوسرا موقع دیتا ہے۔ مگر حارث؟ اُس کے نزدیک غلطی کی صرف ایک سزا ہے—بدلہ۔۔۔
ماہی نے گہری سانس لی۔
مگر کیا بدلہ لینا ہمیشہ صحیح ہوتا ہے؟
یہی تو سوال ہے، ماہی… صحیح اور غلط کی لائن بہت باریک ہوتی ہے۔ کبھی کبھی جو ہمیں صحیح لگتا ہے، وہ کسی اور کے لیے غلط ہوسکتا ہے۔
ماہی نے گہری سانس لی۔ یہ میں کیا سوچ رہی ہوں؟ وہ خود بھی تو ایسی ہی تھی… حارث کی طرح۔ وہ بھی تو معاف نہیں کرتی تھی، ہمیشہ برابر بدلہ لیتی تھی۔
اُس نے نظریں اٹھا کر اُس لڑکی کی طرف دیکھا، جیسے کوئی اہم سوال ذہن میں آیا ہو۔
اور تمہیں کیسے پتا یہ سب؟ تمہیں حارث میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟
اُس لڑکی نے ایک پل کے لیے ماہی کی آنکھوں میں جھانکا، پھر ہلکا سا ہنس دی۔
مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے اُس میں۔ یہ تو یونیورسٹی کا ہر اسٹوڈنٹ جانتا ہے، حارث کی شہرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
وہ لمحہ بھر رکی، پھر بولی
ایک بات تو بتاؤ… کیا تم سچ میں حارث کی گرل فرینڈ ہو؟
فضول باتیں مت کرو۔۔۔۔اُس نے سخت لہجے میں کہا اور آگے بڑھنے لگی۔
ویسے اگر میں بولوں کہ مُجھے حارث میں دلچسپی ہے تو۔۔۔؟ اُس نے لڑکی نے ماہی کو جاتے دیکھ پیچھے سے کہا
ماہی کے قدم ایک دم رک گئے۔ وہ تیزی سے مڑی اور گہری نظریں اُس لڑکی پر گاڑ دیں۔
اور اُس کے ایسے دیکھنے پر وہ گھبرا گئی۔۔۔
ارے، میں مذاق کر رہی تھی… مجھے حارث میں کوئی دلچسپی نہیں۔اس نے فوراً صفائی دی، پھر ایک لمحے کے توقف کے بعد آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولی، اصل میں تو مجھے کسی اور میں دلچسپی ہے…
ماہی نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا۔
کس میں؟
لڑکی نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دھیرے سے کہا
ولید میں۔
اگر تم میری ہیلپ کر دو تو…وہ لڑکی ماہی کو بغور دیکھتے ہوئے تھوڑا گھبرائی، جیسے ردِعمل سے ڈر رہی ہو۔
ماہی نے ناک چڑھائی،
ایک تو ساری دنیا اسی کے پیچھے دیوانی ہوئی پڑی ہے…
کیا؟ کچھ کہا تم نے؟ لڑکی نے فوراً پوچھا، جیسے کوئی بات سننے سے رہ گئی ہو۔
نہیں میں بتاتی ہوں نہ۔۔۔ اُسے ایسی لڑکیاں نہیں پسند۔
ماہی نے ہاتھ کے اشارے سے اس کے حلیے کی طرف اشارہ کیا۔
کیا مطلب؟
اُس لڑکی نے حیرت سے پوچھا۔
ماہی نے کوئی جواب نہیں دیا اور سر جھکاتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
++++++++++++++
کچھ دن بعد۔۔۔
ان چند دنوں میں ماہِی نے جیسے اپنی زندگی کا نیا باب کھول لیا تھا۔ جو کچھ ناںٔلہ کہتی، وہی کرتی۔ یونیورسٹی میں سارا دن حارث کے ساتھ ہنسی مذاق اور تفریح میں گزارتی ولید جیسے اس کی دنیا سے بالکل ہی باہر ہو چکا تھا۔ اب تک ولید بھی سمجھ چُکا تھا کہ ماہی اُسے اگنور کر رہی ہے اسی لیے نہ اس نے ماہِی سے کوئی بات کی، نہ ماہِی نے اسے دیکھنا گوارا کیا۔ اگر کبھی کسی وجہ سے ان کا سامنا ہو بھی جاتا تو وہ فوراً وہاں سے ہٹ جاتی۔ گھر میں بھی اگر کوئی ولید کے بارے میں کچھ کہہ دیتا تو وہ یا تو ان سنی کر دیتی یا بات بدل دیتی۔
آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ یونیورسٹی کی چھٹی کا وقت تھا۔ حارث اور ماہِی ساتھ باہر نکل رہے تھے۔ موسم خوشگوار تھا، ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ یونیورسٹی کے مین گیٹ سے نکلتے ہوئے حارث نے ایک دم رک کر کہا،
یہیں رکو۔۔۔
ماہی چونک کر اسے دیکھنے لگی،
کیوں؟
ولید بھی ہمارے ساتھ ہی جائے گا۔
ماہی کے ماتھے پر بل پڑ گئے،
کیوں؟
حارث نے سنجیدگی سے اس کی آنکھوں میں جھانکا،
یہ تُمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے تُم ولید کو اویڈ کیوں کر رہی ہو؟
حارث نے خود سے کہا تھا کہ وہ ماہی کے معاملے میں نہیں بولے گا۔۔ اُس کی اپنی لائف ہے جو چاہے کرے۔۔، مگر اس کا رویہ دیکھ کر ضبط کھو بیٹھا تھا۔
ولید کے معاملے میں وہ اکثر وہی کر گزرتا تھا، جو کرنے کا سوچتا بھی نہیں تھا۔
ماہی کا دل چاہا کہ وہ حارث کو سب کچھ بتا دے۔ جو کچھ وہ محسوس کر رہی تھی، جو الجھنیں اس کے اندر پل رہی تھیں، سب کہہ دے۔ مگر جیسے ہی اس نے بولنے کے لیے لب کھولے، اچانک ایک سیاہ رنگ کی گاڑی ان کے قریب آ کر رکی۔ دروازے کھلنے کی آواز ابھی پوری طرح سنائی بھی نہ دی تھی کہ دو ہٹے کٹے آدمی تیزی سے باہر نکلے۔
اس سے پہلے کہ ماہی کچھ سمجھ پاتی، وہ حارث پر جھپٹ پڑے۔ ان میں سے ایک نے بجلی کی سی تیزی سے حارث کا منہ دبا دیا، جبکہ دوسرا اسے بے دردی سے دبوچ کر گھسیٹنے لگا۔
حارث۔۔۔
ماہی کی آواز گلے میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔ اس کے قدم زمین میں جکڑے جا چکے تھے۔ آنکھیں حیرت سے پھیل چکی تھیں، مگر زبان جیسے گنگ ہو گئی تھی۔
حارث نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی، مگر ان آدمیوں کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ اس کا ہاتھ پیر مارنا بے سود تھا۔ لمحوں میں وہ اسے گاڑی کے اندر دھکیل چکے تھے۔ دروازہ بند ہوتے ہی گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی اور تیزی سے نظروں سے اوجھل ہونے لگی۔
ماہی وہیں کھڑی رہ گئی، وہ سن ہو چکی تھی۔ نہ کوئی چیخ، نہ کوئی پکار۔ آس پاس موجود طلبہ بھی اپنی دنیا میں مگن تھے، جیسے کسی نے کچھ دیکھا ہی نہ ہو۔
یہ کیا ہو گیا؟
وہ سانس لینا بھول چکی تھی، دھڑکن بے ترتیب ہو چکی تھی۔ دماغ سن تھا، قدم منجمند۔
اس کی نظریں اس سڑک پر جمی تھیں جہاں چند لمحے پہلے حارث کھڑا تھا، اور اب۔۔۔ اب وہ کہیں نہیں تھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔۔۔پہلی دفعہ اُس کا دماغ مائوف ہوچکا تھا ۔۔
ماہی کے بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ جیسے ہی گاڑی نظروں سے اوجھل ہوئی، اس کے جکڑے ہوئے قدموں کو حرکت ملی۔
ولید۔۔۔
یہ نام اس کے ذہن میں بجلی کی طرح کوند گیا، اور وہ بے اختیار یونیورسٹی کے اندر کی طرف بھاگ پڑی۔
وہ بھاگتی ہوئی یونیورسٹی کے اندرونی حصے میں پہنچی، اردگرد نظریں دوڑائیں، مگر ولید کہیں دکھائی نہیں دیا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ وہ تیزی سے مختلف کمروں کی طرف لپکی، اس کے قدم بے چینی سے ہر طرف بڑھ رہے تھے۔
ولید کہاں ہو؟ وہ تقریباً بے بسی سے بڑبڑائی۔
آخر کار، وہ کینٹین کے قریب پہنچی، جہاں اسے ولید کا ایک دوست بیٹھا نظر آیا۔ وہ تیزی سے اس کے پاس پہنچی، ہانپتے ہوئے بولی،
ولید کہاں ہے؟
لڑکے نے چونک کر اسے دیکھا، پھر کندھے اچکاتے ہوئے بولا،
پتا نہیں، شاید پارکنگ ایریا میں ہو، کچھ دیر پہلے وہیں تھا۔ خیر، سب خیریت تو ہے؟
ماہی اس کا جواب سنے ہی پارکنگ ایریا کی طرف دوڑ پڑی۔
ماہی تیزی سے پارکنگ ایریا کی طرف بھاگ رہی تھی۔ اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے، سانس بے ترتیب ہو چکی تھی، دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے ابھی بھی وہ منظر گھوم رہا تھا جب حارث کو زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے جایا گیا تھا۔
پارکنگ کے قریب پہنچ کر اس کی نظریں بے چینی سے ولید کو تلاش کرنے لگیں۔ چند لمحوں بعد، وہ ایک درخت کے قریب کھڑا نظر آیا۔ ماہی نے بنا وقت ضائع کیے اس کی طرف دوڑ لگا دی۔
ولید۔۔۔۔
ولید جو کسی گہری سوچ میں تھا، ماہی کی آواز پر چونک گیا۔ اس نے ماہی کو اپنی طرف آتے دیکھا تو پریشان ہو گیا۔ ماہی کا چہرہ پسینے سے تر تھا، سانسیں بے قابو، جیسے وہ دوڑتی ہوئی نہیں بلکہ کسی طوفان سے گزر کر آئی ہو۔
آرام سے ماہی، آرام سے! کیا ہوا؟ ولید نے آگے بڑھ کر اس کا بازو تھاما، مگر ماہی کی زبان جیسے الفاظ ادا کرنے سے قاصر تھی۔
وہ… وہ حارث… ماہی کی سانسیں اتنی تیز چل رہی تھیں کہ بولنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ کچھ کہنے کی کوشش کر رہی تھی مگر الفاظ جیسے اس کی زبان سے باہر آنے کو تیار ہی نہیں تھے۔
ولید نے اس کی حالت دیکھ کر نرمی سے کہا،
رک جاؤ ماہی، پہلے خود کو سنبھالو، گہری سانس لو۔ خود کو نارمل کرو، پھر مجھے بتاؤ کیا ہوا؟
ماہی نے تھوڑا رک کر ایک گہری سانس لی، مگر اس کا دل اب بھی سینے میں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی باہر آجائے گا۔ ولید کی سنجیدہ نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔
ہاں اب بتاؤ ماہی، کیا ہوا؟ ولید کی آواز میں الجھن اور پریشانی واضح تھی۔
ماہی نے کانپتے لبوں کو سختی سے بھینچ کر خود کو سنبھالا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولی،
حارث کو… کُچھ لوگ زبردستی گاڑی میں ڈال کر لے گیا۔۔۔۔
ولید نے حیرت اور بے یقینی سے ماہی کو دیکھا۔ اس کی باتیں سن کر ایک لمحے کے لیے وہ خود بھی ساکت ہو گیا۔
کیا؟ ولید کے لبوں سے بمشکل نکلا۔ کون تھے وہ لوگ؟
ماہی کی آنکھوں میں بے بسی تھی، وہ خود نہیں جانتی تھی کہ یہ سب کیسے اور کیوں ہوا۔ اس کی آواز میں بے چینی واضح تھی،
ہم دونوں باہر کھڑے تھے کہ اچانک ایک گاڑی آ کر رکی، اس میں سے دو آدمی نکلے اور… اور حارث کو زبردستی پکڑ کر گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔۔۔
یہ ناممکن ہے۔۔ ولید بڑبڑایا۔ حارث؟ اسے کوئی یوں اٹھا کر کیسے لے جا سکتا ہے کون تھے وہ لوگ؟
ماہی نے غصے سے لب بھینچے،
میرے رشتے دار تھے! بھئی مُجھے کیا پتہ کون تھی وہ لوگ۔۔۔ میں انہیں جانتی بھی نہیں! مجھے بس اتنا پتا ہے کہ وہ حارث کو لے گئے، اور ہمیں کچھ کرنا ہوگا، جلدی۔۔۔
ولید نے پُرسکون انداز میں اپنی جیب سے فون نکالا، جیسے یہ کوئی بڑی بات ہی نہ ہو۔ ماہی کی بے چینی کے برعکس، اس کے چہرے پر ایک عجیب سا سکون تھا، جیسے یہ سب کچھ عام سی بات ہو، جیسے یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہ ہو بلکہ معمول کی بات ہو۔
ابھی معلوم ہو جائے گا کہ حارث کہاں ہے، ولید نے فون کی اسکرین پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
ماہی نے بے یقینی سے اسے دیکھا،
ولید! تمہیں سمجھ کیوں نہیں آ رہی؟ حارث کو کسی نے زبردستی اٹھا لیا ہے۔۔۔
ولید نے ایک نظر اس پر ڈالی، پھر کندھے اچکاتے ہوئے بولا،
پریشان ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، ماہی۔ جو بھی ہوا ہے، اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکلے گا۔ گھبراہٹ میں فیصلے نہیں کیے جاتے۔
ماہی کو اس کی باتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ خود کو مشکل سے سنبھال رہی تھی اور ولید تھا کہ ایسے بات کر رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو!
کیا تمہیں پہلے سے معلوم تھا کہ کچھ ایسا ہونے والا ہے؟ ماہی نے شک بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
ولید نے فون پر کچھ ٹائپ کیا اور سکون سے جواب دیا، یہ سوال بعد میں کرنا، پہلے دیکھتے ہیں کہ حارث کہاں ہے۔
اس کے انداز میں خود اعتمادی تھی، جیسے وہ جانتا ہو کہ جو بھی ہوا، وہ اسے حل کر لے گا۔ ماہی نے بے یقینی سے اسے دیکھا، دل میں ہزاروں سوالات جنم لے رہے تھے۔ لیکن ابھی اتنے پریشان میں وہ ولید سے بحث نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
ماہی نے حیرت سے ولید کو دیکھا،
فون سے کیسے پتہ چلے گا؟
ولید نے ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ فون کی اسکرین ماہی کی طرف کی اور بولا،
ہم دونوں بھائیوں کے فون میں ٹریکر لگا ہوا ہے، اسی لیے ہم آسانی سے ایک دوسرے کی لوکیشن دیکھ سکتے ہیں۔
ماہی بے اختیار حیران ہوئی، دل ہی دل میں سوچنے لگی، یہ دونوں بھائی ایک دوسرے کی کتنی فکر کرتے ہیں۔
ولید نے چند لمحے اسکرین پر نظریں جمائے رکھیں، پھر ایک دم بولا،
مل گئی لوکیشن! چلو۔
ماہی نے بے تابی سے پوچھا،
کہاں کی ہے؟
حارث ابھی تک گاڑی میں ہی ہے۔ ہمیں لوکیشن کا پیچھا کرنا پڑے گا۔
+++++++++++++++
گاڑی تیز رفتاری سے سنسان سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ ولید کے چہرے پر اب بھی وہی سکون تھا، مگر ماہی کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔
کچھ لمحے خاموشی میں گزرے، پھر ماہی نے اچانک سوال کیا،
تم دونوں کے فون میں ٹریکر کیوں لگا ہوا ہے؟
ولید نے ایک گہری سانس لی، جیسے اسے یہ سوال متوقع تھا۔
کیونکہ حارث غصے میں آ کر اکثر گھر سے نکل جایا کرتا تھا، اور پھر ہم سب اس کے لیے پریشان ہوتے تھے… اسی لیے میں نے یہ ٹریکر لگایا تاکہ کم از کم معلوم تو ہو کہ وہ کہاں ہے۔
ماہی نے حیرانی سے اسے دیکھا،
یہ ٹریکر تم نے بنایا؟
ولید نے ایک لمحے کو ماہی کی طرف دیکھا، پھر خاموشی سے اپنے ہاتھ میں پکڑا فون اس کی طرف بڑھا دیا۔
یہ لو، فون پکڑو اور مجھے لوکیشن بتاؤ۔
ماہی نے جلدی سے فون تھاما اور اسکرین پر نظریں دوڑائیں۔
یہ تو بہت سنسان علاقہ ہے… اس کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔
ولید نے دھیما لہجہ اختیار کیا،
لوکیشن چیک کرو، کیا گاڑی کہیں رکی ہے؟
ماہی نے فون پر نظر جمائی، پھر جلدی سے بولی،
ہاں! لوکیشن ایک جگہ رک گئی ہے! بس، یہاں سے سیدھا چلو، ہم بالکل قریب پہنچنے والے ہیں۔۔۔
ولید نے سکون کا سانس لیا،
شکر ہے…
چند منٹ بعد، ماہی نے گھبرا کر کہا،
بس! بس! رک جاؤ، یہی جگہ ہے۔۔۔
ولید نے فوراً گاڑی سائیڈ پر روکی۔ دونوں نے باہر جھانکا، مگر منظر دیکھ کر ماہی کا دل دھک سے رہ گیا۔
یہاں… یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ دھیرے سے بڑبڑائی۔
وہ دونوں اب گاڑی سے باہر نکلے۔۔۔
چاروں طرف ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ نہ کوئی گاڑی، نہ کوئی گھر، بس بڑے بڑے پتھریلے پہاڑ اور سنسان راستے۔
ولید نے نظریں دوڑائیں اور اچانک اس کی نظر سڑک کے کنارے کسی چیز پر پڑی۔ اس نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے اٹھایا، اور جیسے ہی اس پر نظر پڑی، اس کا دل ڈوب گیا۔
یہ رہا حارث کا فون، اس نے آہستہ سے کہا، اس کی آواز میں پہلی بار پریشانی نمایاں تھی۔
ماہی نے بے یقینی سے فون کو دیکھا،
یہ مطلب کہ… وہ لوگ حارث کا فون یہاں پھینک کر جا چکے ہیں؟
ولید کی مٹھیاں بھینچ گئیں۔ اب اس کے چہرے پر بھی وہی پریشانی تھی جو ماہی کے چہرے پر شروع سے تھی۔
ماہی نے گھبرا کر کہا،
اب کیا کریں گے ہم۔۔۔؟ حارث کے بارے میں کیسے پتہ لگایا جائے۔۔۔؟
ولید نے ایک گہری سانس لی، نظریں اب بھی اس سنسان راستے پر تھیں جہاں نہ کوئی نشان تھا، نہ کوئی سراغ۔
پتہ نہیں… وہ دھیرے سے بولا، مگر اب اس کی آواز میں وہ پہلے والا اعتماد نہیں تھا۔
ہمیں فوراً پولیس کو اطلاع دینی چاہیے، ولید۔۔۔
++++++++++++
حارث کی سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ وہ ایک پرانی، بند جگہ پر قید تھا، جہاں روشنی کی محض ایک ہلکی سی کرن کسی کونے سے آ رہی تھی۔ اس کے ہاتھ اور پیر بندھے ہوئے تھے، مگر زبان اب بھی آزاد تھی، اور وہ کسی جنگلی شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا۔
اور حارث کے پیچھے ہی دو گارڈ ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔۔۔
او بھائی! کون لوگ ہو تم؟ میرے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے، میں تو خود اپنے ابو کے پیسوں پر پل رہا ہوں۔۔۔
اس کے سامنے کھڑا آدمی، جیک، ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھا۔
چپ کرو… اور میری بات غور سے سنو۔۔۔ اس کی آواز میں سرد مہری تھی۔
حارث نے جھنجھلا کر کہا، کہا نا! میرے پاس کچھ نہیں ہے! میں غریب ہوں، مجھے چھوڑ دو۔۔
ہم تمہیں چھوڑ دیں گے… بس ایک کام کرنا ہوگا۔۔
حارث نے بے زاری سے آنکھیں گھمائیں،
مجھ سے اپنا کام نہیں ہوتا، کسی اور کا خاک ہوگا۔۔
جیک کی مسکراہٹ گہری ہو گئی،
پیسے جتنے چاہو لے لو، بس کام پورا ہونا چاہیے۔۔۔
حارث نے گہری سانس لی،
اچھا، بتاؤ کیا کام ہے… پھر سوچوں گا۔۔۔
جیک نے ایک لمحے کے لیے اسے گھورا، پھر دھیرے سے کہا، تمہیں ایم ڈی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا…
حارث کا دل ایک پل کے لیے رک سا گیا۔ وہ بے یقینی سے ہنسا، کیا ۔۔۔ ؟ ایم ڈی؟
جیک نے سنجیدگی سے سر ہلایا، ہاں، تمہیں ایم ڈی سے مقابلہ کرنا ہوگا… اور جیتنا بھی پڑے گا۔۔۔
میرے پاس کیا کوئی سپر نیچرل پاور ہے جو ایم ڈی سے جیت جاؤں گا؟ جانتے بھی ہو وہ کون ہے؟ وہ فائٹر کنگ ہے! فائٹر کنگ! بھلا اس سے کون جیت سکتا ہے؟
جیک نے آگے بڑھ کر جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھا، تم کم ہو اس سے؟ میں نے تمہیں کلب میں لڑتے دیکھا ہے، تم میں ایم ڈی والی بات ہے، تم جیت سکتے ہو۔۔۔۔
حارث کا چہرہ سخت ہو گیا، اس کی نظریں خطرناک حد تک تیز ہو چکی تھیں، وہ سب تو ویسے ہی لڑتا ہوں میں… اصل کنگ تو ایم ڈی ہی ہے۔ میں اس سے نہیں جیت سکتا۔۔۔
جیک نے چہرے پر چالاکی سے بھری مسکراہٹ سجا لی، اپنی بکواس بند کرو! تمہیں اس سے جیتنا ہوگا۔۔۔
حارث نے غصے سے دانت پیسے، مجھے اپنی موت کو دعوت نہیں دینی۔۔۔
جیک نے ایک چالاک چال چلی، اس کی نظریں چمکیں، کیا تم ایم ڈی سے ڈرتے ہو؟
یہ جملہ زہر کا کام کر گیا۔ جیک نے حارث کو کلب میں لڑتے دیکھا تھا، جانتا تھا کہ اگر اسے چیلنج کیا جائے تو وہ غصے میں آ کر وہی کرے گا جو سامنے والا چاہتا ہے۔
حارث کے چہرے کی سرخی مزید گہری ہو گئی۔ اس کی آنکھیں خونخوار ہو چکی تھیں، اس پوری دنیا میں، حارث اپنے بھائی کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا۔۔۔
جیک نے حیرت سے پوچھا، کون ہے تمہارا بھائی؟
حارث کے چہرے پر ایک پل کے لیے ایک نرم سی چمک آئی، مگر فوراً ہی اس کا رنگ سخت ہو گیا۔ اس نے غصے سے غرّاتے ہوئے کہا، سوچنا بھی مت وہ میرا بھائی ہے… وہ میری کُل کائنات ہے۔۔۔
جیک نے آنکھیں سکیڑ کر کہا، اگر تم نے میری بات نہ مانی اور ایم ڈی سے مقابلہ نہ کیا… تو تمہیں اپنے اسی بھائی کی لاش دیکھنے کو ملے گی۔۔۔
حارث کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ وہ ایک بھیانک دھاڑ کے ساتھ چلایا، اوئے!!! اگر وہ بندھا نہ ہوتا تو جیک کی زبان کھینچ لیتا۔
وہ کسی ایرے غیرے کا بھائی نہیں ہے! وہ حارث کا بھائی ہے۔۔ اس وقت اس کا پورا جسم غصے سے کانپ رہا تھا، اور اس کی آنکھوں سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ واقعی کسی کو مار ڈالے گا۔
جیک نے نرمی سے کہا، میں تمہارے بھائی کو کچھ نہیں کر رہا… بس تم میرا کام کر دو، تمہارا بھائی ویسے بھی محفوظ ہے۔
حارث نے گہری سانس لی، مگر غصہ کم نہیں ہوا۔
فی الحال تو میرا بھائی مجھے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا ہوگا۔۔۔ وہ ایک دم زور سے چیخا، فون… میرا فون کہاں ہے؟ میرا فون دو۔۔۔
وہ بندھا ہوا تھا، اگر آزاد ہوتا تو پورا قید خانہ ہلا دیتا۔ جیک نے ایک نظر اپنے ساتھیوں پر ڈالی، جو حارث کے اس بھیانک غصے کو دیکھ کر ایک لمحے کو پیچھے ہٹ گئے تھے۔
یہ شخص عام نہیں ہے… یہ تو خطرناک حد تک جنگلی ہے! جیک نے دل میں سوچا، مگر اسے معلوم تھا کہ یہ جوش ہی اس کے منصوبے کو کامیاب بنائے گا۔۔۔
+++++++++++
ماہی نے بے چینی سے اس کی طرف دیکھا۔
ہمیں پولیس کو انفارم کرنا چاہیے۔
ولید نے گہری سانس لی، جیسے خود کو قابو میں رکھ رہا ہو، اسے مافیا کے لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں، نارمل لوگ نہیں۔ پولیس کو حارث کو ڈھونڈنے میں پچاس گھنٹے لگیں گے… اور میں اتنی دیر گھر بیٹھ کر انتظار نہیں کر سکتا….
اور اگر پولیس کو انوولو کرنے پر ان لوگوں نے حارث کے ساتھ کچھ کردیا تو۔۔۔
نہیں! نہیں… پولیس نہیں…
ہاں ہاں، تمہیں تو سب پتہ ہے ناں مافیا کے بارے میں.
ماہی نے تلخی سے کہا، جاؤ، حارث کو بھی ڈھونڈ کر لے آؤ، جیسے مجھے گھر لے کر آئے تھے…
ماہی کو غصّہ آرہا تھا ایک تو حارث کو پتہ نہیں کون لوگ اٹھا کر لے گئے اوپر سے ولید۔۔۔پولیس کو بتانے سے بھی منع کر رہا تھا۔۔۔
ولید نے ایک گہری سانس لی، ماہی، پلیز… ابھی نہیں… یہ کہتے ہوئے اس کی آواز میں ہلکی سی لرزش تھی، ماہی نے حیرت سے اسے دیکھا۔
وہ کچھ کہنے کو تھی، مگر ولید کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جس نے اسے روک دیا۔ اس لمحے، الفاظ کی جگہ خاموشی نے لے لی، اور پھر اُس نے دھیرے سے کہا سوری۔۔۔۔
ولید نے کچھ توقف کے بعد کہنا شروع کیا، میرا ایک دوست ہے، حامد۔ وہ ایم ۔ ڈی مافیا کے اندر کام کرتا ہے۔ اسی کی مدد سے میں تمہیں گھر لے کر آیا تھا۔
ماہی نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
اور جو تم نے اس دن میری دراز میں براؤن لانس دیکھے تھی… وہ بھی اسی نے منگوائے تھے میرے لیے۔ کیونکہ وہ خود مارکیٹ کی طرف نہیں جا سکتا۔ ہم دونوں بس ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
ماہی کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں، تو… تو کیا میں غلط تھی؟ ولید مافیا کا حصہ نہیں ہے؟ یہ سب تو صرف اس کے دوست کی وجہ سے لگ رہا تھا؟ دِل ہی دِل میں سوچا۔۔۔
ولید نے ماہی کی الجھن کو محسوس کر لیا۔ وہ نرم لہجے میں بولا، حامد مافیا کے ساتھ کام کرتا ہے، لیکن وہ ایک اچھا انسان ہے، اور مجھے اس پر پورا بھروسا ہے۔ وہ خود تو مر جائے گا، لیکن ہماری دوستی پر آنچ نہیں آنے دے گا۔
اور اس نے میرے ہی کہنے پر وہاں سے تمہیں نِکالا تھا۔۔۔ اُس دِن میں تمہیں یہ سب بتاتا تو تُم واقعی یقین نہیں کرتی۔۔۔اسی لیے میں نے کہا تھا میں تمہیں بتاؤ گا تو تُم یقین نہیں کرو گی۔۔
ولید نے اسے غور سے دیکھا، ماہی کی نظریں جھکی ہوئی تھیں، جیسے وہ کچھ سوچ رہی ہو۔ ولید نے اپنی بات جاری رکھی۔۔۔
لیکن جب میں نے اس دن دراز میں لینس دیکھ کر تم سے پوچھا تھا، تو تم نے صاف صاف کیوں نہیں بتایا؟ تبھی بتا سکتے تھے نا! تب میں شاید یقین کر لیتی تُم پر۔۔۔ اس نے شکایتی لہجے میں کہا۔
ولید نے ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا، جیسے میں اس پر بھروسا کرتا ہوں، ویسے ہی وہ بھی مجھ پر کرتا ہے۔ مافیا کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں ہوتا، ہزار دشمن ہوتے ہیں۔ میں کسی بھی ایرے غیرے کو اس کے بارے میں نہیں بتا سکتا تھا۔
ماہی کے دل میں ایک عجیب سی چبھن ہوئی۔ ایرا غیرہ…؟
تو تُم مُجھے اب یہ سب کچھ کیوں بتا رہے ہو۔۔۔ ماہی کا لہجہ دوبارہ سے تلخ ہوگیا، آنکھوں میں بےچینی اور غصہ جھلکنے لگا۔
ولید نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا، پھر ہلکی سی سانس خارج کی، جیسے پہلے ہی اس کے ردِعمل کی توقع ہو اب میں تمہیں سب کچھ اس لیے بتا رہا ہوں کیونکہ وہ تھوڑی دیر میں یہاں آ رہا ہے۔ میں نے اسے میسج کر دیا ہے، اور میں نہیں چاہتا کہ تم اس کے سامنے کچھ الٹا سیدھا بولو۔
اچھا، نہیں بولوں گی… کچھ۔۔ ماہی نے فوراََ۔ ولید کی بات مان لی تھی وہ ویسے اُسے بہت پریشان لگ رہا تھا۔۔۔ وہ مزید اُسے اب پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
++++++++++++
جیک نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہنکارا بھرا،
پہلے کام کے لیے ہاں کرو، پھر فون بھی مل جائے گا۔
حارث نے گہری سانس لے کر سر ہلایا، ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے…
جیک نے حیرت سے آنکھیں سکیڑیں، کیا؟ اتنی جلدی مان گئے؟ میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ حارث زیان اتنی آسانی سے ہاں کر دے گا۔۔۔ پھر اس نے ہلکا سا قہقہہ لگایا، چلو خیر ہے، تم نے اپنا نقصان ہونے سے بچا لیا۔
پھر وہ ایک آدمی کی طرف مڑا، ایرک، مسیج کرو ایم ڈی کو اور کہو کہ جنگ ابھی ہوگی، ناردن ایریا کے پاس۔
حارث جو اب تک خاموش کھڑا تھا، ایک قدم آگے بڑھا، لیکن پہلے، ایک دفعہ میرے بھائی سے میری بات کروا دو… پھر میں لڑنے کے لیے بھی تیار ہوں، اور جیتنے کے لیے بھی۔
جیک نے کندھے اچکائے، تمہارا فون تو پھینک دیا گیا تھا…
+++++++++++++
حامد کے فون پر وائبریشن ہوئی، اس نے اسکرین پر نظر ڈالی، جیک کا میسج آیا تھا۔
Mr. Jack :
تم نے کہا تھا کہ جگہ اور وقت میں طے کروں، تو نادرن ایریا، شام چار بجے آ جاؤ۔
ہنہ! مرنے کی کتنی جلدی ہے ان لوگوں کو…
حامد خود سے بڑبڑایا ۔۔۔
حامد نے اب میسیج ٹائپ کیا
اب کسی کو موت اس کے وقت کے مطابق تھوڑی آتی ہے… کل صبح پانچ بجے… اور سینڈ کا بٹن دبا دیا۔۔
پھر اس نے ایم۔ڈی کے نمبر پر نیا میسج ٹائپ کیا
جیک مافیا نے کل فجر کے بعد نادرن ایریا میں مقابلہ طے کیا ہے۔ پہلے ہم اس جیک کا کام تمام کر دیتے ہیں، پھر قبضہ مافیا کی طرف آئیں گے۔ فی الحال وہ سکون سے بیٹھے ہیں، بس آپ کے ( OK ) کے میسج کا انتظار ہے…
میسج سینڈ کرنے کے بعد حامد فون رکھنے ہی جا رہا تھا کہ اچانک نوٹیفکیشن کی وائبریشن ہوئی۔
اب اسے کیا مسئلہ ہے؟ حامد نے ناگواری سے بڑبڑاتے ہوئے ولید کی چیٹ کھولی۔
حامد کے پاس ایک ہی فون تھا، لیکن یہ ایک فون ہزاروں فونز سے زیادہ قیمتی تھا۔ اس کی خاصیت یہ تھی کہ اس کا کوئی لوکیشن ٹریس نہیں کر سکتا تھا اور اس کا سگنل صرف وہاں آتا تھا جہاں حامد رہتا تھا۔ اگر یہ فون اس جگہ سے باہر لے جایا جاتا، تو یہ محض ایک بیکار آلہ بن جاتا۔
یہ فون پورے مافیا نیٹ ورک کی جان تھا۔ اس میں تمام بڑی مافیا تنظیموں کے نمبرز موجود تھے، اور یہی فون مافیا دنیا کے سب سے اہم سودے طے کرتا تھا۔ حامد ہی ہر مافیا گروپ سے ڈیل کرتا، پھر ایم۔ڈی کو انفارم کرتا۔ فیصلہ ہمیشہ ایم۔ڈی کے ہاتھ میں ہوتا- اگر ایم۔ڈی “اوکے” کر دیتا، تو ڈیل آگے بڑھتی، ورنہ حامد بغیر کوئی وجہ بتائے ڈیل ریجیکٹ کر دیتا۔
مافیا کی دنیا میں سب یہی سمجھتے تھے کہ ایم۔ڈی خود ہر کام کرتا ہے، اس کا کوئی اسسٹنٹ نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ایم۔ڈی کے نام سے ہونے والے تمام میسجز اور ڈیلز حامد ہی کرتا تھا، اور ایسا انداز اپناتا کہ ہر کسی کو یقین ہو جاتا کہ خود ایم۔ڈی ہی ان کے ساتھ رابطے میں ہے۔۔۔
حامد، مافیا کی دنیا میں بھی ایک چھپا ہوا نام تھا- ایک ایسا شخص جس کا کوئی اتا پتا نہ تھا، کوئی فوٹو نہ تھی، بس ایک سایہ تھا جو ہر بڑی ڈیل کے پیچھے موجود ہوتا۔
اور اس انتہائی محفوظ، مافیا کنٹرولڈ فون میں تمام مافیا نمبرز کے علاوہ اگر کسی کا نمبر موجود تھا، تو وہ تھا- ولید کا۔
ولید : میں جو لوکیشن سینڈ کر رہا ہوں… یہاں پہنچو جلدی، کام ہے۔۔۔
فون کی اسکرین پر ولید کا تازہ تازہ کیا مسیج چمک رہا تھا۔۔۔
حامد جھنجھلا گیا۔ پھر سے موت پڑ گئی اسے … ایک ہی رشتہ ہے میرے پاس، اور سالا وہ بھی اتنا تنگ کرتا ہے۔۔۔ وہ بڑبڑایا۔
اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ولید صرف کسی ایمرجنسی میں ہی اسے بلاتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ جھنجھلاہٹ میں بولا، اسے پتہ ہے میں یہاں سے باہر نہیں نکلتا، پھر بھی… کردیا ہوگا ان کی سر پھری ماہی نے پھر کچھ۔۔۔
حامد نے سختی سے فون پکڑا اور غصے میں تیزی سے ٹائپ کرنے لگا
میں نہیں آ رہا… بھاڑ میں جا۔۔۔۔
اور پھر غصے میں فون بند کردیا۔۔
++++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔
