دل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۱۴
گاڑی کے اندر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ باہر شام کے سائے آہستہ آہستہ گہرے ہو رہے تھے۔ سڑک کنارے درختوں کی لمبی قطاریں ہوا کے ساتھ ہلکی ہلکی سرسراہٹ پیدا کر رہی تھیں۔ کہیں کہیں اسٹریٹ لائٹس جل چکی تھیں، لیکن ان کی روشنی میں بھی وہ اضطراب ماند نہیں پڑ رہا تھا جو ماہی کے چہرے پر واضح تھا۔
وہ بےچینی سے بار بار اپنے ہاتھوں کو مسل رہی تھی، نظریں کبھی سامنے ونڈ اسکرین پر جمتی، کبھی پہلو میں بیٹھے ولید کو دیکھتیں۔ مگر ولیـد کی آنکھوں میں وہی گہرا سکون تھا جو ہمیشہ کی طرح اسے کسی نہ کسی طرح تسلی دے دیتا تھا۔
اب ہم کیا کریں گے، کیسے بچائیں گے حارث کو؟ ماہی کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔
ولید نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا، پھر ایک طویل سانس لی۔ بس تم اُس رب پر بھروسا رکھو… اور دعا کرو۔ اس کی آواز میں ایک یقین تھا، ایسا یقین جو ماہی کے بےچین دل کو تھوڑا سکون دیتا تھا مگر پھر بھی وہ مطمئن نہیں ہو پائی۔
ماہی نے جھنجھلا کر کہا،
ہاں، وہ تو ہے… پر کم از کم کوئی پلان تو بتاؤ نا…
ولید نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا اطمینان تھا۔
رب پر اندھا یقین رکھتے ہیں، ماہی۔ جو وہ کرے گا، ہمارے حق میں بہتر ہوگا۔
ماہی نے بےچینی سے ولید کی طرف دیکھا،
تم پھر مجھے ٹالنے کی کوشش کر رہے ہو…
ولید نے سرسری انداز میں جواب دیا،
ہاں، کر رہا ہوں…
ماہی نے غصے سے بھنویں چڑھائیں،
مجھے پلان بتا دو گے تو کیا چلا جائے گا تمہارا؟
ولید نے ایک گہری سانس لی اور سنجیدگی سے کہا،
کوئی پلان ہے ہی نہیں، میں تو وہاں جا کر کچھ سوچوں گا…
ماہی نے حیرانی سے اسے دیکھا، پھر دو ٹوک انداز میں بولی،
میں بھی جاؤں گی….
ولید نے ایک دم بریک لگائی۔ گاڑی جھٹکے سے رک گئی۔ وہ حیرت سے ماہی کو دیکھنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ ماہی ضدی ہے، مگر یہ معاملہ خطرناک تھا۔
نہیں، تم نہیں جاؤ گی… ولید کا لہجہ سخت تھا۔
ماہی نے ضدی انداز میں کہا،
میں ضرور جاؤں گی….
دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے ایک لمحے کے لیے ٹکرایٔ اور ولید نے فوراً اپنی نظریں سامنے روڈ پر کرلیں۔۔۔ ماہی ولید کو گھور رہی تھی..۔ اس کی آنکھوں میں ضد تھی۔۔ اور ولید کے چہرے پر سنجیدگی۔
ماہی، یہ کوئی کھیل نہیں ہے…. ولید نے سخت لہجے میں کہا۔
مجھے معلوم ہے… ماہی نے فوراً جواب دیا۔
پھر بھی تم جانا چاہتی ہو؟ ولید نے حیرت سے پوچھا۔
ہاں… ماہی نے بے خوفی سے کہا۔
ولید نے گہری سانس لی اور سر جھٹک کر کہا
تمہیں اندازہ بھی ہے وہاں کیا ہو سکتا ہے؟ یہ عام لڑائی نہیں ہے، یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے….
ماہی نے نظریں سیدھی رکھیں،
مجھے پرواہ نہیں، اگر تم جا سکتے ہو تو میں بھی جا سکتی ہوں….
کیا کرو گی وہاں جا کر؟ ولید نے بھنویں چڑھاتے ہوئے پوچھا۔
تمہاری مدد کروں گی۔ ماہی نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا۔
تمہیں لگتا ہے کہ تم میری مدد کر سکتی ہو؟ ولید نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
ہاں، کر سکتی ہوں…. ماہی کی آواز میں اعتماد تھا۔
ولید اب دوبارہ گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔۔۔
میں تمہیں وہاں نہیں لے جانا چاہتا، ماہی… ولید نے گہری سانس لے کر کہا، اس کے لہجے میں ایک عجیب سی نرمی تھی، جیسے وہ اسے کسی بڑی مصیبت سے بچانا چاہتا ہو۔
میں وہاں جانا چاہتی ہوں، ولید… ماہی کی آواز مضبوط تھی، جیسے وہ اپنے فیصلے پر اٹل ہو۔
کبھی تو میری بات مان لیا کرو… ولید نے تھکے ہوئے انداز میں کہا، جیسے وہ جانتا ہو کہ بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔
ماہی نے ایک لمحے کے لیے ولید کی طرف دیکھا۔ گاڑی کے اندر خاموشی چھا گئی تھی،
میں ہمیشہ نہیں مانتی، اس لیے کہ میں ہمیشہ صحیح ہوتی ہوں۔ ماہی نے نرمی مگر مضبوطی سے کہا۔
ولید نے اس کی طرف دیکھا، ایک پل کے لیے دونوں کے درمیان نظر کا تبادلہ ہوا۔ اور ولید نے فوراََ اپنی نظریں دوسری طرف کرلیں۔۔۔ اور گہری سانس لی، جیسے کسی ان دیکھے بوجھ کو اپنے کندھوں پر محسوس کر رہا ہو۔
ٹھیک ہے، لیکن اگر کوئی خطرہ ہوا تو تم فوراً وہاں سے نکل جاؤ گی، سمجھی؟ ولید نے سختی سے کہا۔
ہاں ہاں ٹھیک ہے۔۔۔ ماہی کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔
یہ میری سب سے بڑی غلطی بھی ہو سکتی ہے… ولید نے سر جھٹک کر گاڑی دوبارہ تیز کر دی۔
+++++++++++++
گاڑی جیسے ہی گھر کے قریب پہنچی ولید کو ایک دم سے خیال آیا۔۔ کہ گھر پر سب حارث کے بارے میں پوچھے گئے ۔۔ ماما ضرور پوچھیں گی کہ حارث کہاں ہے۔ اور سچ بولنا ابھی ممکن نہیں تھا۔
ماما کو کیا بولوں گا؟ ولید نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔
اس وقت جب میسج آیا تھا، تو میں نے کہہ دیا تھا کہ ایکسٹرا کلاس ہے۔ ماہی نے سکون سے جواب دیا، جیسے سب کچھ پہلے ہی سوچ رکھا ہو۔
تو ابھی کیا بولنا ہے؟ ماما پوچھیں گی، حارث کہاں ہے؟ ولید نے جھنجھلا کر کہا۔
ماہی نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر بےنیازی سے کندھے اچکائے۔ کہہ دینا تم دونوں کی لڑائی ہو گئی، وہ ناراض ہو کر دوست کے گھر چلا گیا ہے۔ میں کل تک منا لوں گا، آ جائے گا۔
میری اور حارث کی لڑائی؟ ولید نے حیرت سے دہرایا۔
کیوں، نہیں ہو سکتی کیا؟ ماہی نے پوچھا۔
کبھی نہیں ہوتی۔ ولید نے دو ٹوک جواب دیا۔
اُفف! کچھ زیادہ ہی ایکسٹرا محبت ہے تم دونوں کے بیچ، اتنی بھی نہیں ہونی چاہیے۔۔۔ ماہی نے چڑ کر کہا۔
کیوں نہیں ہونی چاہیے؟ ولید نے ابرو چڑھا کر پوچھا۔
ماہی نے سنجیدگی سے اسے دیکھا اور آہستہ سے بولی، نظر لگ جاتی ہے نا۔
اچھا، تو بس یہ کہہ دینا کہ مجھ سے بحث ہو گئی، ہم دونوں کی لڑائی ہو گئی ہے۔ ماہی نے جیسے کوئی آسان حل پیش کر دیا۔
اور پھر میں بھی اندر جا کر اوور ریکٹ کر دوں گی، تاکہ خالہ کو یقین آ جائے کہ واقعی ہماری بحث ہوئی ہے۔ باقی تم سنبھال لینا۔ ماہی نے مسکرا کر کہا، جیسے یہ کوئی معمولی بات ہو۔
ولید نے گہری سانس لی اور سر جھٹک کر ماہی کی طرف دیکھا،
ہاں، ڈرامے باز تو تم شروع سے ہو۔ ولید نے طنز کیا، مگر اس کے لہجے میں نرمی تھی۔
ماہی نے آنکھیں گھمائیں اور جھنجھلا کر بولی،
ہو گیا؟
ولید نے سر جھٹک کر کہا، مجھے سے جھوٹ نہیں بولا جائے گا۔
ماہی نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور دانت پیستے ہوئے کہا، ولید، میں تمہارا سر پھاڑ دوں گی۔۔
ولید ہلکا سا مسکرا دیا، اچھا اچھا، ٹھیک ہے، جیسا تم کہو۔
+++++++++++++
ولید نے گاڑی آہستہ سے گھر کے سامنے روکی۔ سورج مغرب کی دہلیز پر تھک ہار کر بیٹھ چکا تھا، اور شام کے سائے گلیوں میں پھیلنے لگے تھے۔ گاڑی کے اندر ایک خاموشی چھائی ہوئی تھی،
ماہی نے چہرہ موڑ کر ولید کی طرف دیکھا۔
یاد ہے نا کیا کرنا ہے؟ ماہی نے آہستہ آواز میں کہا۔
ولید نے سر اثبات میں ہلایا، ہاں، پر مجھے لگتا ہے کہ ماما سمجھ جائیں گی۔۔۔۔
ماہی نے آنکھیں دکھائیں، نہیں سمجھیں گی۔۔۔ بس جو کہا ہے وہ کرو، باقی مجھ پر چھوڑ دو۔
جیسے ہی ولید اور ماہی گھر میں داخل ہوئے، نازیہ بیگم کا غصے سے بھرا ہوا سوال ان کا استقبال کر چکا تھا۔ وہ لاونج میں کھڑی تھیں، ہاتھ کمر پر رکھے، اور آنکھوں میں واضح بےچینی تھی۔
کہاں تھے تُم لوگ۔۔۔؟ ٹائم دیکھا ہے۔۔؟ ایسی بھی کونسی ایکسٹرا کلاس تھی جو بلکل شام میں ختم ہوئی ہے۔۔۔؟ ان کا لہجہ سخت تھا، آنکھوں میں ماں کی بےچینی بول رہی تھی۔
یہی موقع تھا۔ ماہی نے جھٹ سے ایک ادائے خاص سے موڈ بگڑا ہوا ظاہر کیا اور صوفے پر جا کر زور سے بیٹھ گئی، پوچھیں اس سے، جو ہمیشہ حارث کا سب سے بڑاخیر خواہ بنا پھرتا ہے۔۔
نازیہ بیگم نے حیرانی سے ولید کی طرف دیکھا،
کیا ہوا ولید اور یہ حارث کہاں ہے؟
ولید نے جھوٹ بولنے کے دباؤ میں گلا صاف کیا اور سنجیدہ لہجے میں بولا، وہ… اصل میں۔۔۔ جھوٹ بولنا اُس کے لیے بہت مشکل لگ رہا تھا۔۔
ماہی نے غصے سے ولید کو گھورا ہمیشہ بیوقوف کا بیوقوف ہی رہے گا۔۔۔ بات سنبھالنے کے لیے ماہی غصے سے خالہ کی طرف مڑی۔۔۔ اور فوراً ڈرامہ شروع کر دیا،
یہ کیا بولے گا خالہ۔۔۔ وہ غصے سے بولی، میں بتاتی ہوں۔۔۔ اس کو اور اس کے بھائی کو سمجھا دیں کہ ماہی کے معاملات سے دور رہیں۔ نہیں تو ماہی یہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔۔ وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی جیسے شدید ناراض ہو۔
نازیہ بیگم کی آنکھوں میں فکر ابھر آئی۔ وہ اب پوری طرح معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
کیا ہوا ہے؟ تم تینوں کی لڑائی ہوئی ہے کیا؟ ان کی آواز میں نرمی تھی۔ کہیں تم نے اس سے اس کی پھوپھو کے بارے میں بات تو نہیں کی؟ تبھی یہ اتنی تپی ہوئی لگ رہی ہے۔
لو ولید کا کام تو ویسے ہی آسان ہوگیا تھا۔۔ولید نے فوراََ سے سر ہاں میں ہلایا۔
نازیہ بیگم نے گہری سانس لی، تم لوگ ذرا آرام سے بھی تو بات کر سکتے ہو۔ خیر، میں دیکھتی ہوں، رات تک اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔
انہوں نے ایک لمحے کے توقف کے بعد پوچھا، اور یہ حارث کہاں ہے؟
ولید نے سنجیدگی برقرار رکھتے ہوئے جواب دیا،
وہ… آپ تو جانتی ہیں، وہ بھی غصے کا تیز ہے۔ بڑی مشکل سے اسے منا کر گھر لے کر آیا تھا۔ اور وہ اپنے دوست کے ساتھ چلا گیا ہے۔ فکر نہ کریں، میں کل تک اسے لے آؤں گا۔
نازیہ بیگم نے افسوس سے سر ہلایا، میں نے ہی اسے کہہ دیا تھا کہ ماہی کے بارے میں پتہ کرو، اور وہ بھی ایک نمبر کا سر پھرا ہے! آئے دن اس کا بھی ٹیمپر ہائی ہو جاتا ہے۔ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔۔۔
آپ فکر نہ کریں میں ہوں نہ۔۔۔ ولید نے نرمی سے کہا
نازیہ بیگم نے شفقت بھری نظروں سے اسے دیکھا اور سر ہلایا، میری کسی بڑی نیکی کا صلہ لگتے ہو تم…
ولید نے اپنی نظرے جُھکا لی اور نازیہ بیگم اپنے روم کی طرف چل دی۔۔۔ وہ حارث کا سن کر اتنا پریشان نہیں ہوئیں۔۔۔ کیوں کہ وہ ایسا کرتا آیا تھا کے ذرا سی لڑائی ہوئی اور گھر چھوڑ دیا پھر ولید منا کے لے آیا کرتا تھا اُسے اور ابھی بھی اُنہوں نے ولید کے بھروسے اُسے چھوڑ دیا تھا۔۔ کیوں کہ وہ جانتی تھیں ولید اپنی جان سے زیادہ خیال حارث کا رکھتا ہے۔۔۔۔ ہاں اگر حارث کی جگہ ولید ہوتا تو اُن کا حال بے حال ہوجاتا ہے۔۔۔ جڑواں بچوں میں ہمیشہ سے ایک بچہ بہت مضبوط ہوتا ہے۔۔ اور دوسرا بچہ تھوڑا کمزور ہوتا ہے۔۔ اور نازیہ بیگم کے لیے وہ کمزور بچہ ولید تھا اور وہ تھا بھی تو اتنا معصوم اور سیدھا سادہ۔۔۔ حارث کے ساتھ کوئی غلط کرے تو وہ اُس کو سبق سکھا دیتا تھا، لیکن ولید ہمیشہ صبر اور برداشت سے کام لیتا تھا۔ نازیہ بیگم کو ہمیشہ یہی فکر رہتی تھی کہ کہیں کوئی ولید کی نرمی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا لے۔ وہ اپنے دونوں بیٹوں سے بےحد محبت کرتی تھیں، لیکن ان کا دل ہمیشہ ولید کے لیے زیادہ دھڑکتا تھا، کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ حارث خود اپنا دفاع کرنا جانتا ہے، مگر ولید… وہ دوسروں کے لیے کھڑا ہو سکتا تھا، لیکن اپنے لیے کبھی نہیں۔
ولید لمبے لمبے قدم اُٹھاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ اچانک ماہی کی سخت آواز نے اُسے پلٹنے پر مجبور کر دیا۔۔
یہ خالہ نے نہ تُمہارا دماغ خراب کر کے رکھا ہُوا ہے ۔۔۔ یا شاید ماں ہیں اُنہوں تو اپنا ہر بچہ پیارا ہی لگتا ہے۔۔۔لیکن میں بتاؤ تمہیں۔۔۔
وہ ابھی جملہ مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ ولید کے قدم ٹھہر گئے۔ وہ بے یقینی سے پلٹا، ماتھے پر گہری شکنیں ڈالے اُس کی جانب دیکھا۔ اور پھر—
میرے کسی بہت بڑے گناہ کا عذاب لگتے ہو تُم مُجھے۔۔۔۔
ماہی۔۔۔اُس کے منہ سے بس اتنا نِکلا وہ حیرانی اور ہے یقینی سے ماہی کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
عذاب۔
عذاب۔
عذاب۔
یہ لفظ اُس کے کانوں میں کسی اذیت ناک چیخ کی طرح گونج رہے تھے، جیسے کوئی زنجیروں سے کھینچ رہا ہو، جیسے کوئی چیختا ہوا کہہ رہا ہو کہ وہ خود ایک سزا ہے، ایک قہر ہے۔
گناہ کا عذاب۔۔۔
بس یہ الفاظ اور اُس کا سارا ایمان، ساری ایمانداری، ساری نرمی، ساری عبادت، سارا اخلاق، ساری اچھائی سب کچھ جیسے ایک لمحے میں ریزہ ریزہ ہو گیا۔
کیا وہ واقعی اتنا بُرا تھا؟
کیا اللہ نے اُسے واقعی کسی کے گناہ کی سزا بنا کر بھیجا تھا؟
نہیں! نہیں!
اُس نے بے اختیاری سے سر جھٹکا، جیسے ان لفظوں کو اپنے وجود سے جھاڑ دینا چاہتا ہو۔
لیکن وہ چمٹ گئے تھے۔
زہر کی طرح رگوں میں اُتر رہے تھے۔
وہ مُجھ پر عذاب بنتا جارہا ہے۔۔۔۔
عذاب۔۔۔
عذاب ۔۔۔
عذاب ۔۔۔
یہی الفاظ، یہی زہر، کسی اور زبان سے نکلے تھے، مگر تب بھی وہی اثر ہوا تھا جو آج ہوا تھا۔
اُس وقت بھی اُس کا دل تڑپا تھا، آج بھی اُسی اذیت کا سامنا کر رہا تھا۔۔۔
وہ بنا کچھ بولے سیدھا اپنے روم میں آچکا تھا۔۔۔
وہ جانتا تھا، وہ عذاب نہیں ہے۔
وہ جانتا تھا کہ وہ کسی کے گناہ کی سزا نہیں، کسی کی غلطی کا بوجھ نہیں۔
مگر یہ الفاظ…
یہ الفاظ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی تکلیف دے رہے تھے۔
زخم کی طرح نہیں، بلکہ زخم پر نمک کی طرح۔
ہر لمحہ، ہر سانس کے ساتھ وہی جملہ، وہی زہر، اُس کے اندر گھل رہا تھا۔
میرے کسی بہت بڑے گناہ کا عذاب لگتے ہو تم مجھے۔۔۔
وہ مُجھ پر عذاب بنتا جا رہا ہے۔۔۔
وہ سانس لینے کی کوشش کر رہا تھا، مگر جیسے ہوا بھی بوجھل ہو چکی تھی۔
وہ پلکیں جھپکانا چاہتا تھا، مگر آنکھوں میں وہی منظر جم چکا تھا۔
وہ خود کو سمجھانا چاہتا تھا، مگر لفظ اُسی کے خلاف ہتھیار بن چکے تھے۔
یہ الفاظ شاید عام تھے، مگر اثر غیر معمولی تھا۔
یہ لمحہ شاید معمولی تھا، مگر درد لازوال تھا۔
وہ جانتا تھا، وہ عذاب نہیں ہے۔
لیکن کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو حقیقت کے خلاف جا کر بھی دل میں گہرائی تک اُتر جاتے ہیں، اور پھر وہاں سے کبھی نہیں نکلتے۔
وہ ایک گہرا سانس لے کر سیدھا کھڑا ہوا۔ سینے میں اُٹھنے والی بے چینی کو دبا کر اس نے آنکھیں بند کیں، جیسے خود کو یقین دلانا چاہتا ہو کہ وہ ان الفاظ سے بالاتر ہے۔ لیکن نہیں، وہ الفاظ اُس کے اندر کہیں گونج رہے تھے، جیسے دیواروں سے ٹکرا کر واپس آنے والی آواز، جو خاموش ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
وضو کے لیے پانی کے چھینٹے چہرے پر پڑے تو جیسے لمحہ بھر کو سکون سا محسوس ہوا۔ مگر جیسے ہی اُس نے آنکھیں کھولیں، آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر پھر وہی الفاظ ذہن پر وار کرنے لگے۔ عذاب…
نماز کے لیے جائے نماز بچھاتے ہوئے وہ جائے نماز کو دیکھنے لگا ۔ شاید وہ اپنے رب سے کوئی جواب چاہتا تھا، کوئی اطمینان، کوئی یقین کہ وہ واقعی کسی کے گناہ کی سزا نہیں۔
وہ سجدے میں گیا تو دل سے ایک ہی صدا نکلی
یا اللہ ۔۔۔ آج پھر کمزور ہوچکا ہوں میں۔۔۔ آج پھر سے سنبھال لے تو مُجھے۔۔۔ آنسو پلکوں کی دہلیز سے گرے، جائے نماز نے انہیں جذب کر لیا، مگر وہ بوجھ… وہ زخم… وہ الفاظ… ابھی بھی اُس کے اندر گہرے نقش چھوڑ رہے تھے
کبھی اپنے الفاظ سے کسی کو اتنی تکلیف نہ دو کہ وہ جائے نماز پر بیٹھ کر رو دے
++++++++++++
ماہی نے جیسے ہی اپنے کمرے میں قدم رکھا، اس کے دماغ میں ایک ہی سوال گونجنے لگا کہیں میں نے کچھ زیادہ تو نہیں کہہ دیا؟ اس نے گہری سانس لی اور خود کو تسلی دینے کی کوشش کی، لیکن اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ سوچتی، اس کے فون پر ایک نوٹیفکیشن آیا۔
آجاؤ، چائنا ٹاؤن کی طرف..
ماہی نے بے دلی سے فون اٹھایا اور جواب لکھا
نہیں، آج میں نہیں آ سکتی۔
چند لمحوں بعد دوبارہ پیغام آیا۔
کیوں؟ کہاں مصروف ہو؟
ماہی کچھ لمحے سکرین کو گھورتی رہی۔ پھر مختصر سا جواب دیا
بس آج نہیں آ سکتی، تم دیکھ لو، میں کل آ جاؤں گی۔
لیکن نائلہ کہاں ماننے والی تھی۔
پلیز آ جاؤ، تھوڑی دیر کا کام ہے، جلدی ہو جائے گا، پرومیس….
ماہی نے گہری سانس لی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد آخرکار ہار مان گئی۔
اچھا، آتی ہوں۔۔۔
++++++++++++
لندن کی سرد شام میں ماہی نے جیسے ہی چائنا ٹاؤن میں قدم رکھا، کسی اچھے چائنیز ریسٹورنٹ سے اٹھتی ہوئی اسٹیمڈ ڈمپلنگز کی خوشبو، دیواروں پر چینی خطاطی، رنگ برنگی لالٹینوں سے جھلملاتے گلیاں، اور ہوا میں تیرتی ہوئی اجنبی زبانیں۔
واؤ…
وہ بے اختیار بولی، اس کے قدم خودبخود سست ہوگئے تھی ۔۔
آج بھی اس کا انداز نرالا تھا، وہی ٹام بوائے اسٹائل، مگر اس بار ایک منفرد جدت کے ساتھ۔ اُس کے بدن پر گہرے نیلے رنگ کی ڈینم جیکٹ تھی، جس پر مخصوص برانڈڈ ڈیزائن بنے ہوئے تھے۔ جیکٹ کی آستینیں ذرا ڈھیلی تھیں، جیسے وہ اسے پہننے کے بجائے اپنے انداز سے اوڑھے ہوئے ہو۔ اندر ایک سفید ڈھیلی ٹی شرٹ تھی، جو نہایت سادگی کے ساتھ بھی اس کے منفرد مزاج کو ظاہر کر رہی تھی۔
نیچے سیاہ کارگو پینٹس، جن کی جیبیں اور زپرز اس کے ایڈونچرس اسٹائل کی نشاندہی کر رہے تھے۔ وہ عام لڑکیوں کی طرح فٹنگ والے لباس کی قائل نہیں تھی، بلکہ آرام دہ مگر اسمارٹ فیشن کو ترجیح دیتی تھی۔ اُس کے پیروں میں ہیوی سول والے سیاہ بوٹ تھے،
اور اُس کے بال ہمیشہ سے کندھے تک کٹے ہوئے، بے ترتیب اور بکھرے ہوئے تھے، چہرے پر کسی قسم کا میک اپ نہیں، بس ایک بے باک مسکراہٹ اور آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی، جو دیکھنے والے کو فوراً اس کی طرف متوجہ کر لیتی۔ وہ ایک ایسی لڑکی تھی جو نرمی اور نزاکت کے سانچے میں فٹ ہونے کی کوشش نہیں کرتی تھی، بلکہ اپنے کھردرے، بے ساختہ اور دلیرانہ انداز میں جینے کی عادی تھی۔
ماہی جیسی لڑکیاں کم ہوتی ہیں— جو اپنی دنیا خود بناتی ہیں، جو اپنی ذات کے لیے جیتی ہیں، اور جنہیں کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ وہ ایک طوفان تھی، جو اپنی مرضی سے آتی اور اپنی شرائط پر چلتی…
سرخ رنگ کی محراب دار گزرگاہ کے نیچے سے گزرتے ہوئے، اس نے دیکھا کہ ہر طرف رونق تھی۔ کوئی چاپ اسٹکس سے نوڈلز کھا رہا تھا، کوئی چینی چائے کے کپ سے بھاپ اڑاتا ہوا گزر رہا تھا، اور کچھ لوگ روایتی لباس میں تصویریں کھنچوا رہے تھے۔ سب کچھ بالکل فلمی لگ رہا تھا—جیسے وہ کسی اور دنیا میں آ گئی ہو۔
یہ نائلہ کہاں ہے؟ اس نے خود سے کہا، موبائل نکالا اور تیزی سے میسج کرنے لگی۔
اور فون پر نائلہ کا مسیج فوراََ سکرین پر چمکا۔۔۔
ماہی تُم یہاں شوشی کلب آجاؤ…
ماہی نے جیسے ہی شوشی کلب میں قدم رکھا، ایک بار پھر حیرت سے اردگرد دیکھنے لگی۔ لکڑی کی سجی ہوئی دیواریں، کونے میں روایتی چینی فانوس لٹک رہے تھے، اور ماحول میں ہلکی ہلکی دھن بج رہی تھی جو کسی قدیم ایشیائی ساز کی لگ رہی تھی۔ ہر چیز اتنی نفیس اور دلکش تھی کہ وہ کچھ لمحوں کے لیے سب کچھ بھول گئی۔
یار، یہ جگہ کتنی خوبصورت ہے
وہ نائلہ کے پاس آ کر بولی،
نائلہ نے مسکرا کر سر ہلایا۔ واقعی، یہاں آ کر ایک الگ ہی دنیا کا احساس ہوتا ہے۔
اس وقت نائلہ نے اسکائی بلیو ڈینم جیکٹ پہنی ہوئی تھی، جس کے آستین کہنیوں تک موڑے ہوئے تھے، اندر ایک خوبصورت پیسٹل پنک کراپ ٹاپ تھا،
نیچے اُس نے وائیڈ لیگڈ بلیک جینز پہن رکھی تھی، جو ماہی کے برعکس ایک فیشن ایبل اور کیژول لک دے رہی تھی۔ اُس کے پیروں میں وائٹ اسنیکرز تھے،
ماہی کے برعکس نائلہ نے فیس ماسک بھی لگا رکھا تھا اور بلیک کیپ سے اپنا پورا فیس کور کر رکھا تھا
ماہی نے کلب کے اندرونی حصے پر ایک نظر ڈالی اور بولی، جب میں اندر آئی تو مجھے لگا جیسے میں چین میں آ گئی ہوں۔
نائلہ ہنسی، ہاں، جیسے اُس دن جب تم ساؤتھال مارکیٹ گئی تھی، تب تمہیں لگا تھا کہ تم اپنے شہر میں واپس آ گئی ہو…
ماہی بھی ہنسنے لگی، بالکل! لندن مجھے ہمیشہ حیران کر دیتا ہے، یہ پورا شہر مختلف ملکوں کا ایک حسین امتزاج لگتا ہے۔
یہی تو اس کی خاص بات ہے… نائلہ نے اردگرد نظر دوڑائی، یہاں جگہوں کی بات چھوڑو، لوگوں کو دیکھو، ہر قومیت اور ہر ملک کے لوگ تمہیں یہاں مل جائیں گے…
ماہی نے اردگرد نظر دوڑائی تو واقعی مختلف نسلوں اور ثقافتوں کے لوگ موجود تھے۔ کوئی چینی چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا، کوئی سوشی رولز کھا رہا تھا، اور کچھ لوگ جاپانی کمونو پہنے روایتی رقص کر رہے تھے۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ لندن واقعی سب کو اپنی بانہوں میں سمو لینے والا شہر ہے… ماہی نے مسکراتے ہوئے کہا،
ماہی نے گردن گھما کر نائلہ کو دیکھا، اس کی آنکھوں میں تجسس تھا۔ اچھا چھوڑو، یہ بتاؤ کام کیا کرنا ہے؟
نائلہ نے آہستہ سے ایک طرف اشارہ کیا، جہاں ایک ٹیبل پر ایک مرد بیٹھا ہوا تھا۔ وہ سفید پینٹ شرٹ کے اوپر سیاہ کوٹ پہنے، خاموشی سے اپنا ڈنر کرنے میں مصروف تھا۔۔۔
وہ دیکھو۔۔ نائلہ نے نظریں جھکائے بغیر سرگوشی کی۔ اس آدمی کو ڈرا دھمکا کر یا—اگر ضرورت پڑے—تو مار کر یہاں سے بھاگنا ہے۔۔۔
ماہی نے الجھ کر اسے دیکھا، کیوں؟
اس کی ابھی کچھ دیر میں ایم ڈی کے ساتھ میٹنگ ہونے والی ہے… نائلہ نے سنجیدگی سے کہا، لیکن ہمیں یہ میٹنگ ہونے نہیں دینی۔ اس سے پہلے کہ ایم ڈی یہاں پہنچے، ہمیں اسے راستے سے ہٹانا ہوگا۔
ماہی کا ماتھا شکن آلود ہو گیا۔ وہ دوبارہ اس شخص کو دیکھنے لگی، جو بظاہر ایک عام سا بزنس مین لگ رہا تھا۔ تم مجھ سے کوئی غلط کام تو نہیں کروا رہیں، نائلہ ؟ اس کے لہجے میں بدگمانی تھی۔
نائلہ نے فوراً ہاتھ جوڑ دیے، ارے نہیں یار! ٹرسٹ می۔۔۔
ماہی نے اسے گھورا، ماہی کا بھروسا توڑا نا! ماہی تمہارا منہ توڑ دے گی اگر کچھ گڑبڑ ہوئی تو۔۔۔
نائلہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ہاہاہا! وہ آپ ابھی ویسے ہی توڑ سکتی ہیں۔۔۔ ہم تو آپ کے پیار میں خوشی خوشی اپنا منہ توڑاونے کے لیے تیار ہیں۔۔۔ وہ شوخی سے بولی۔
ماہی نے فوراً منہ بنایا۔ ماہی کو پیار سے نفرت ہے۔۔۔
نائلہ نے شرارت سے آنکھ دبائی، اوکے، تو پھر عشق کر لیجیے ہم سے۔۔۔
ماہی نے آنکھیں گھمائیں اور مسکراہٹ کے ساتھ بولی، آہاں! ناممکن۔۔۔ یہ کہہ کر وہ تیز قدموں سے اس مشکوک شخص کی طرف بڑھ گئی۔
نائلہ نے دور سے اسے جاتے دیکھا اور مسکرا کر سرگوشی کی، ہائے، میری شیرنی۔۔۔
ماہی کی نظریں سیدھا اُس شخص پر جمی ہوئی تھیں جو بے فکری سے اپنا کافی کا مگ ہاتھ میں لیے کسی کا انتظار کر رہا تھا۔ اُس کے چہرے پر نہ کوئی پریشانی تھی، نہ کوئی خوف۔ شاید اُسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ اگلے چند لمحے اُس کے لیے کتنے بھاری پڑنے والے ہیں۔
ماہی نے میز کے پاس جا کر سرد لہجے میں کہا،
بَلا پتہ ہے کیا ہوتی ہے؟
ایکسکیوز می۔۔۔۔
چمچ ہوا میں ہی رک گیا، وہ شخص ماہی کی طرف متوجہ ہوا۔
ماہی نے زہر خند مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا،
بَلا پتہ ہے کیا ہوتی ہے؟
اُس شخص نے بے زاری سے گردن موڑی، جیسے فضول سوال سن لیا ہو۔
ماہی نے خود ہی جواب دیا،
تمہیں یہاں سے فوراً بھاگ جانا چاہیے۔۔۔
اب وہ شخص مکمل طور پر اُس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا، ابرو چڑھائے پوچھا،
کیوں؟
ماہی نے کرسی پر جھک کر سرگوشی کی،
کیونکہ اگر تم یہاں ایک منٹ بھی اور رُکے، تو یہ بلا تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ جب تک تم تباہ نہ ہو جاؤ۔۔۔
اب وہ شخص زچ ہونے لگا تھا۔ غصے سے اُس نے چِلّا کر کہا،
ہاؤ ڈیئر یو؟!
ماہی کے چہرے پر عجیب سا اطمینان تھا، جیسے اسے کسی ردعمل کی پروا نہ ہو۔ اس نے سکون سے میز پر رکھی کھانے کی پلیٹ میں سے رکھا کانٹا اُٹھا لیا۔۔۔ اُس کی نظریں اب بھی اُس شخص پر جمی ہوئی تھیں، مگر آہستہ آہستہ میز پر چکر کاٹ رہی تھی، جیسے کوئی فنکار اپنے شاہکار کا آغاز کر رہا ہو۔
وہ شخص تھوڑا پیچھے ہوا، مگر غرور ابھی بھی باقی تھا،
یہ۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو؟ جانتی بھی ہو میں کون ہوں؟!
ماہی نے ہلکی سی ہنسی کے ساتھ سر جھکایا اور اب وہ کانٹے کی مدد سے اپنے ہاتھ کے اردگرد نشان بنا رہی تھی۔۔۔،
بلا کسی بھی وقت کسی پر بھی آ سکتی ہے۔۔۔ اس لیے صدقہ دینا چاہیے۔ شاید تم نے اپنا صدقہ نہیں دیا، ہے نا؟
اہ ہ ہ یہ کیا کر رہے ہو تم؟ جانے دو مجھے۔۔۔ ماہی نے کانٹا واپس اُس کی جگہ پر رکھا اور اُس کا ہاتھ ایسے پکڑا رکھا تھا، جس اُس نے ماہی کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے وہ شخص ہاتھ جھٹکنے کی کوشش کر رہا تھا، لیکن ماہی کی گرفت مضبوط تھی۔
کیا بول رہی ہو؟ یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔ وہ شخص غصے میں دھارا۔۔ کیا لڑکی تھی۔۔ اچھے خاصے اپنے سے ڈبل طاقتور انسان کو اپنے سامنے بے بس محسوس کروا رہی تھی۔۔۔
اس نے اپنے چہرے کے قریب آتے اس شخص کو نفرت بھری نظروں سے دیکھا اور سرگوشی میں بولی،
آسانی سے بات نہیں مانی تو یہ تو کرنا پڑے گا…
پھر اچانک اُس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے، آنکھیں نم ہو گئیں، آواز تھرتھرا گئی،
وہ شخص بوکھلا گیا، ارد گرد کے لوگ بھی اُن کی طرف متوجہ ہونے لگے تھے۔
تم کتنے بدتمیز ہو۔۔۔ ماہی نے غصے سے کہا، اس کا سانس تیز ہو رہا تھا۔لیکن وہ ساتھ رونے کی بھی اچھی اداکاری کر رہی تھی
تمہاری اسی زہریلی فطرت کی وجہ سے میں نے تمہیں چھوڑا تھا۔۔۔
وہ حیران ہوا، جیسے کسی نے اسے سچ میں طمانچہ مارا ہو۔ اردگرد کے لوگ اب کھلے عام انہیں گھور رہے تھے۔۔
کیا بکواس ہے یہ؟ وہ بولا، مگر اب اس کے لہجے میں غصے کے ساتھ پریشانی بھی تھی۔
شٹ اپ! بس کرو۔۔۔ وہ زور سے بولا، مگر اب دیر ہو چکی تھی۔
اب کیا؟ ماہی نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا، کیا تم مجھے ہر جگہ روک کر یہی سب کرو گے؟
اس کی آواز گونجی، اور اب کچھ لوگوں نے سنجیدگی سے ان کے درمیان مداخلت کا سوچنا شروع کر دیا تھا۔ وہ شخص اب مشکل میں پھنس چکا تھا، اور ماہی کی یہی پلاننگ تھی۔
وہ شخص اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، ارد گرد موجود ہر چہرے میں ایک ہی سوال تھا یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
ماہی نے آنکھیں جھپکائیں، اور اُس کا ہاتھ چھوڑ کر خاموشی سے ایک طرف ہو گئی۔ وہ شخص اب لوگوں کے سوالیہ نظروں سے بچنے کے لیے کھڑا ہو چکا تھا، پھر جیسے ہار مانتے ہوئے بولا،
اوکے، اوکے۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔۔۔ بس یہ سب بند کرو۔۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ اگر وہ ایک اور منٹ وہاں رُکا، تو نہ جانے یہ سَنکی لڑکی۔۔۔ اُس کے بارے میں اور کیا کیا بول دے۔ اور آج اُس کی عزت بچانے کا بس یہی ایک راستہ تھا کہ وہ چپ چاپ وہاں سے نکل جائے۔اور وہ نکل گیا۔۔۔
Are you okay…?
ایک لڑکی اپنی جگہ سے اٹھ کر ماہی کے قریب آئی، اس کی آنکھوں میں ہمدردی تھی۔
Yeah… I’m fine.
ماہی نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور سر ہلایا۔
ہاں… میں ٹھیک ہوں۔
وہ لڑکی جو اپنے ٹیبل سے اٹھ کر اس کے پاس آئی تھی، اب بھی فکر مند نظروں سے ماہی کو دیکھ رہی تھی۔
کیا تمہیں واقعی کوئی پریشانی ہو رہی تھی؟ میں سیکیورٹی کو بلا سکتی ہوں۔
ماہی نے زبردستی مسکرا کر نفی میں سر ہلایا۔
نہیں، بس… بس ایک غلط فہمی تھی۔
اس سے پہلے کہ مزید کوئی سوال ہوتا یا کوئی اور مداخلت کرتا، ماہی نے جلدی سے رخ موڑ کر کلب سے نکلنے کے لیے قدم بڑھا دیے۔ وہ جانتی تھی کہ اسے زیادہ دیر وہاں نہیں رکنا چاہیے۔
چلتے ہوئے اس کی دھڑکن اب بھی تیز تھی، مگر ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
کام ہو گیا.. اس نے دل میں سوچا اور اپنی رفتار مزید تیز کر دی۔
نائلہ نے ماہی کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا،
واہ ماہی… مگر تم نے اپنے ہاتھ پر یہ سب کیوں کیا؟ ماہی کو باہر آتے ہی نائلہ مل گئی تھی۔۔
ماہی نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا، جہاں معمولی سی خراشیں نظر آ رہی تھیں، جیسے کسی نے ناخنوں کی نوکیں اس کی نازک جلد میں گاڑ دی ہوں۔ ہلکی سی جلن کا احساس ہو رہا تھا، مگر اس کے چہرے پر کوئی شکن تک نہیں آئی۔
نائلہ نے اس کے ہاتھ کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا،
یہ سب کرنے کی ضرورت کیا تھی؟
ماہی نے کندھے اچکاتے ہوئے لاپرواہی سے جواب دیا،
یہ سب بس دکھانے کے لیے تھا، تاکہ وہ مان جائے…
نائلہ نے آنکھیں گھمائیں اور ہنستے ہوئے بولی،
ہاں، اور وہ تو فوراً ہی مان گیا! بیچارہ ڈر گیا ہوگا، سوچا ہوگا کہ جب یہ لڑکی اپنے آپ کے ساتھ یہ کر سکتی ہے تو میرے ساتھ نہ جانے کیا کرے…
ماہی نے نائلہ کو گھورا،
بس، زیادہ باتیں مت بناؤ…
نائلہ نے ہنسی روکتے ہوئے کہا،
اچھا چلو، اب اس پر کوئی دوا لگا لیتے ہیں، ورنہ سچ میں تکلیف ہونے لگے گی۔
ماہی نے اپنے ہاتھ کو ہلکے سے مٹھی میں جکڑا اور نائلہ کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولی،
وہ میں خود لگا لوں گی، پر ابھی مجھے تم سے کچھ چاہیے…
نائلہ نے شرارت بھرے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا،
ہاں بولیے بولیے، کیا چاہیے؟ آپ کے لیے تو ہمارا سب کچھ حاضر ہے…
مُجھے تمہاری گن چاہئے۔۔ اُس نے یہ الفاظ اتنے آرام سے کہئے تھی مانو جیسے وہ گن نہیں کوئی چھوٹا سا کھلونا مان رہی ہو۔۔۔
نائلہ نے حیرت اور الجھن کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ ماہی کو دیکھا، کیا؟ گن؟ ماہی، لیکن کیوں؟ گن کا کیا کرو گی تم؟
وہ دھیمے مگر مضبوط لہجے میں بولی،
مجھے ضرورت ہے، بس تم دے دو۔
نائلہ نے بے یقینی سے سر جھٹکا،
یہ کوئی کھلونا نہیں ہے، ماہی! تم جانتی بھی ہو کہ گن اٹھانے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ یہ کسی کی زندگی لے بھی سکتی ہے اور تمہاری زندگی خطرے میں بھی ڈال سکتی ہے۔
ماہی نے گہری سانس لی، جیسے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہی ہو، میں جانتی ہوں، اور اسی لیے مانگ رہی ہوں۔ یہ بس حفاظت کے لیے ہے، کوئی بےوقوفی نہیں کروں گی۔
نائلہ نے غور سے ماہی کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہاں نہ ڈر تھا، نہ ہچکچاہٹ، بس ایک عجیب سا عزم نظر آ رہا تھا۔
بس یہ مُجھے میری سیفٹی کے لیے چاہئے آج دے دو کل واپس کردونگی۔۔
نائلہ نے بھنویں اچکائیں اور شک بھری نظروں سے ماہی کو دیکھا۔
اپنی سیفٹی کے لیے؟ وہ طنزیہ مسکرائی، ماہی، تم اپنے ہاتھوں سے بھی کسی کو سیدھا کر سکتی ہو، پھر گن کی کیا ضرورت؟
تُم دے رہی ہو یا نہیں۔۔ ماہی نے غصے سے کہا۔۔
نائلہ نے گہری سانس لی اور بے بسی سے سر جھٹکتے ہوئے بیگ سے ایک چھوٹی مگر مہلک گن نکالی۔ وہ ایک لمحے کے لیے رک کر ماہی کی طرف دیکھنے لگی، جیسے آخری بار تصدیق کر رہی ہو کہ وہ یہ صحیح کر رہی ہے۔
اچھا، لے لو… لیکن دھیان رکھنا، یہ صرف ڈرانے کے لیے ہے، غلطی سے بھی کسی پر چلا مت دینا… نائلہ نے سخت لہجے میں وارننگ دی۔
ماہی نے بے پرواہی سے کندھے اچکائے اور گن لے کر بیگ میں رکھ لی۔ ہاں، پتہ ہے مجھے… وقت پڑا تو ہی نکالوں گی، ویسے بھی میرے ہاتھ خالی بھی کافی ہیں…
نائلہ نے گہری نظروں سے اسے دیکھا، لیکن ایسا کون سا خطرہ ہے جس کے لیے تمہیں اس کی ضرورت پڑ رہی ہے؟ کہاں جا رہی ہو؟
ماہی نے ایک لمحے کے لیے نائلہ کی آنکھوں میں جھانکا، پھر ہلکا سا مسکرا کر کہا، یہ کل بتاؤں گی، ابھی کچھ نہیں بتا سکتی…
نائلہ نے الجھن سے سر ہلایا، پھر سنجیدگی سے بولی، اچھا، جیسے تمہاری مرضی… لیکن یاد رکھنا، بلاوجہ استعمال مت کرنا…
ماہی نے سر ہلایا اور ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا، ہاں ہاں، یاد رہے گا…
یہ کہتے ہوئے وہ پلٹی اور تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی۔ نائلہ نے دور تک اسے جاتے دیکھا، دل میں ایک عجیب سا خدشہ محسوس ہوا۔ آج ماہی کچھ الگ لگ رہی تھی، جیسے وہ کسی بڑے طوفان کا سامنا کرنے جا رہی ہو۔
++++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔۔
