دِل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۳
سٹیلا کا غصہ عروج پر تھا، اس کے الفاظ جیسے تیروں کی طرح تیز تھے۔
“دیکھو تو ذرا اُسے گئے ہوئے ابھی کِتنی ہی دیر ہوئی ہے کہ اُس نے مُجھے بلاک کر دیا!” وہ اس قدر غصے میں تھی کہ جیسے اس کا بس نہ چل رہا ہو کہ وہ ماہی کو لندن جا کر مارے۔
“بلاک نہیں کیا ہے اُس نے، شاید نمبر چینج کر لیا ہے۔” مینی نے جواب دیا۔ مینی بیڈ پر بیٹھی، فون ہاتھ میں پکڑے، سٹیلا کی باتوں کو غور سے سن رہی تھی۔
“نمبر چینج کر لیا؟ تمہیں کیسے پتا؟” سٹیلا نے چہرے پر حیرانی کے ساتھ پوچھا۔
مینی منہ بنا کر بولی، “کیونکہ میرے پاس بھی شو نہیں ہو رہی اُس کی ڈی پی۔ شاید واٹس ایپ اکاؤنٹ ہی ڈیلیٹ کر دیا اُس نے۔”
“یار، دیکھو تو ذرا! میں نے کتنی بار بولا تھا اُسے کہ ہم سب مس کریں گے تمہیں، اُس سے میسج پر بات کریں گے…” کرن، جو کافی دیر سے کتاب میں گم تھی، اب اپنی نظریں کتاب سے ہٹا کر ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔
“تم سب میں صرف میں ہی آتی ہوں…” مینی نے منہ بنا کر دل ہی دل میں کہا۔
“تم نے کہا تھا نہ، اسی لیے اُس نے جان بوجھ کر ایسا کیا۔ پتہ نہیں کیا سمجھتی ہے خود کو وہ…” سٹیلا کا غصہ اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
“ایک لڑکا… پر ہے لڑکی… ہی ہی ہی…” مینی پھر دل ہی دل میں یہ سوچتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔
“تم کیوں مُسکرا رہی ہو، مینی؟” سٹیلا نے فوراً مینی کی مسکراہٹ نوٹس کی اور کہا، “ابھی تو تم منہ بنائے بیٹھی تھی، اب کیا ہو گیا؟”
“نہیں، میں کہاں مُسکرا رہی ہوں؟ میں تو اُداس ہوں!” مینی نے فوراً اپنے چہرے پر خالی اور سنجیدہ سا تاثر ڈالا، جیسے کچھ بھی نہیں ہوا۔
“ارے چھوڑو اُسے، وہ ہے ہی ایسی،ہم ہیں نہ تمہارے ساتھ؟” کرن نے کہا، اور سٹیلا نے بھی سر ہلایا۔ دونوں ہی مینی کو ایک چھوٹی بچی کی طرح ٹریٹ کر رہی تھیں، کیونکہ وہ دونوں مینی کو معصوم سمجھتی تھیں، لیکن وہ دونوں یہ نہیں جانتیں کہ مینی چلتی پھرتی آفت کی پُڑیا تھی۔
“ہاں بس اسی بات کا تو غم ہے” مینی پھر ان کی بات کا جواب دل ہی دل میں دیتی ہے۔
“اوکے سو، آج سے ماہی کا چیپٹر کلوز۔ وہ ہم سے اب کبھی بات نہیں کرے گی!” سٹیلا نے غصے میں کہا، اور اس کی آواز میں ایک قسم کا حتمی فیصلہ تھا، جیسے اس نے ماہی کو اپنی زندگی سے نکالنے کا ارادہ کر لیا ہو۔
“ہاں لگ تو ایسا ہی رہا ہے۔ اتنے اچھے ہیں ہم، اور اُسے ہماری فکر ہی نہیں ہے!” کرن نے کہا۔
مینی دل میں یہ سوچ کر مسکرائی، “تمہاری نہیں ہوگی، پر میری تو ہوگی اُس کو فکر۔ ہنہ، ابھی وہ مجھے نئے نمبر سے میسج کرے گی، دیکھنا” مینی کا انداز بے پرواہ تھا، جیسے وہ جانتی تھی ماہی کو۔
“ہاں ہاں، حد ہوتی ہے ڈھیٹ پن کی بھی، ایک سوری نہیں بولا گیا اُس سے!” سٹیلا کا غصہ ابھی تک کم نہیں ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنی ضد پر قائم تھی، اور اس کا ذہن ابھی تک اسی پر اٹکا ہوا تھا کہ ماہی نے معافی کیوں نہیں مانگی۔
اتنے میں مینی کے فون پر کسی کی کال آئی۔ لیکن یہ کال نئے نمبر سے آ رہی تھی۔
“ہٹو، ان کا تو لگا ہی رہے گا، میں چلی بات کرنے، ماہی سے!” مینی نے کرن اور سٹیلا کی طرف دیکھتے ہوئے دل میں کہا، اور فوراً فون پکڑتے ہوئے بیڈ سے اُتر کر روم سے باہر چلی گئی۔
“جی کون؟” مینی نے کال پکڑتے ہی مختصر اور سنجیدہ لہجے میں پوچھا، جیسے وہ اس لمحے کو اہمیت دے رہی ہو۔
“السلام علیکم، میں ماہی کا ڈیڈ بات کر رہا ہوں، آپ مینی ہو نہ؟” دوسری طرف سے ایک بھری سی مردانہ آواز آئی، جسے سن کر مینی کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔
“ہاں، ماہی کے پاپا ” مینی نے ہکلاتے ہوئے کہا، لیکن اس کا دل بے ترتیب ہو گیا تھا۔ “انہوں نے مجھے کال کیوں کی ہے؟” وہ دل میں یہ سوال کیا اور فوراً کال کاٹ دی۔ ایک تو وہ کال پر کسی سے بات کرنے میں ہچکچاتی تھی، اور اب تو ماہی کے پاپا کی کال تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ان سے کیا بات کرے گی۔
“آہ ہہ ہہ… میرا نمبر کیسے چلا گیا ان کے پاس؟” مینی دل ہی دل میں سوچا اور اس کا فون دوبارہ رنگنگ کرنے لگا۔
“آہ ہہ ہہ، میں نہیں اُٹھا رہی!” اُس نے دل میں کہا اور فوراً فون کی اس رنگنگ کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔
لیکن پھر فون اُٹھا لیا۔ اب وہ کسی کو نظرانداز بھی نہیں کر سکتی تھی۔
“کیا ہوا بیٹا؟ کال کیوں کاٹ دی تھی؟ مجھے ماہی کے بارے میں آپ سے بات کرنی تھی…” مینی کے بولنے سے پہلے ہی دوسری طرف سے آواز آئی۔
“ہاں، تبھی کال اٹھائی ہے” مینی دل میں سوچا، لیکن باہر سے فوراً بول پڑی، “سوری انکل، وہ غلطی سے کٹ گیا تھا… آپ بولیے، آپ کو کیا بات کرنی تھی؟”
“پہلے آپ بتائیں، آپ ماہی کی دوست مینی ہی بات کر رہی ہیں نا؟” اس کی آواز میں تشویش تھی۔
“ہاں، ہاں انکل”
“اچھا، وہ مجھے ای میل آئی تھی کہ ماہی کا ٹرانسفر کروا دیا ہے لڑائی کی وجہ سے۔ کیا یہ سچ ہے؟ ماہی نے واقعی میں ایسا کیا ہے؟”
“ہیں! ان کے پاس ای میل کیسے گیا؟ ماہی کا سارا ای میل تو اس کی پھوپو کے پاس جاتا ہے۔ شاید پھوپو نے بتایا ہوگا انکل کو، واٹ ایور، کسی نے بھی بتایا ہو، مجھے کیا ” دل ہی دل میں سوچا۔
“پتہ نہیں انکل، کیا ہوا تھا اُس وقت؟ میں وہاں نہیں تھی… ہاں، لیکن میں اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ ماہی نے کسی کا سر نہیں پھاڑا۔” وہ وہاں نہیں تھی لیکن اتنا تو وہ ماہی کو جانتی تھی۔
“کیوں، ایسا کیوں لگتا ہے؟ ماہی کی تو لڑائی ہوتی رہتی ہے…”
مینی نے ایک گہری سانس لی، پھر گفتگو جاری رکھی، “کیونکہ اُس لڑکے نے کچھ نہیں کیا تھا نہ انکل۔ وہ کچھ کرتا تو ماہی اُس کا سر پھاڑتی نہ… جبکہ اُس نے کچھ کیا ہی نہیں تھا۔ اتنا تو میں اپنی دوست کو جانتی ہوں۔ وہ سر پھیری ہے لیکن پاگل نہیں ہے جو آتے جاتے بندے کو مارے پیٹے۔ اور اس کی سب سے بڑی ریزن، اُس نے سوری نہیں بولا۔ اگر اُس نے مارا ہوتا تو ضرور بولتی، لیکن اُس نے کچھ نہیں کیا، تو سوری بھی نہیں کہا۔”
“لگتا ہے آپ بہت زیادہ جانتی ہیں اپنی دوست کو…”
“نہیں، کہاں… یہ بات تو یہاں پوری یونیورسٹی جانتی ہے!” مینی نے فوراً جواب دیا، “سب کو پتہ ہے کون جھوٹا ہے اور کون سچا، لیکن پھر بھی سب ماہی سے کہہ رہے ہیں کہ سوری بولنے کو۔ اچھا کیا جو اُس نے نہیں بولا۔
اور پرنسپل میم کو بھی پتہ ہوگی یہ بات، ہے نا؟”
“ہاں، لیکن پروفیسر کا بیٹا تھا۔ اب پرنسپل میم بھی کیا کریں… وہ صرف اپنی ایک اسٹوڈنٹ کی وجہ سے اتنے اچھے پروفیسر کو نہیں کھو سکتیں۔ اسی لیے ٹرانسفر کروا دیا۔” پہلی دفعہ مینی فون پر اتنا بول رہی تھی۔
“ہمم، مطلب میں ٹھیک تھا…” اُنہوں نے کچھ شک سے کہا، جیسے وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
“کیا؟” مینی نے چونک کر پوچھا۔
“لیکن ماہی خود کیوں اپنے منہ سے کہہ رہی ہے کہ اُس نے کیا ہے؟ میں نے اس سے پوچھا، تو اس نے کہا، ‘ہاں، میں نے کیا ہے۔'”
“ہیں… یہ ان باپ بیٹی میں کب سے اتنی اچھی بات ہونے لگی؟” مینی نے دل میں سوچا، کیونکہ اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ ماہی کی اپنے والد سے کبھی بات نہیں ہوتی۔ جب بھی بات ہوتی، وہ ہمیشہ پھوپھو سے ہی کرتی تھی، اور ماہی کی اس کے والد کے ساتھ کوئی خاص بات چیت نہیں تھی۔
“اُس نے کہا تھا شروع میں کہ اُس نے نہیں کیا کچھ، لیکن یہاں سب جانتے ہوئے بھی اُس کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ سب نے کہا ہاں، تم نے کیا ہے… اُس کی دوستوں نے بھی اُس کا ساتھ نہیں دیا… سب کہہ رہے تھے ہاں، تم نے کیا ہے، معافی مانگو۔ سٹیلا اور کرن نے بھی…” مینی نے گہری سانس لے کر اپنی بات جاری رکھی، “اور یہ تو کچھ بھی نہیں۔ اُسے بعد میں پتہ چلا کہ اُس لڑکے کا ساتھ بھی سٹیلا اور کرن نے دیا تھا، ماہی کو جال میں پھنسانے کے لیے۔ کیونکہ ماہی ہم تینوں کے علاوہ کسی اور پہ ٹرسٹ نہیں کرتی تھی۔ کرن اور سٹیلا نے اس کے پاس آ کر کہا کہ، ‘ماہی، چلو، ہمیں کچھ لڑکے تنگ کر رہے ہیں۔’ ماہی تو ماہی ہے، چلی گئی۔ وہاں اُن لڑکوں نے جال بچھا کر رکھا تھا۔ پہلے سے ہی اُس لڑکے کے سر سے خون بہہ رہا تھا، اور کچھ لڑکے نیچے گرے پڑے تھے۔”
مینی کی آواز میں ایک تلخی تھی، جیسے وہ کسی بہت گہری بات کا انکشاف کر رہی ہو، اور اس کا دل تکلیف میں ڈوبا تھا۔
“اور جب ماہی وہاں پہنچی، تو وہ دونوں سائڈ سے نکل گئیں…” مینی کی آواز اور بھی نرم پڑ گئی۔
“اور آپ… آپ کہاں تھیں اُس وقت؟” اُس کی آواز میں ایک سوال تھا، جیسے وہ ماہی کے معاملے کو اچھی طرح سمجھنا چاہ رہے ہوں۔
مینی اس سب کو سن کر کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہو گئی۔
“میری کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے انکل، میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں…” مینی نے ہچکچاتے ہوئے کہا اور فوراً کال کاٹ دی۔
“ابھی شام میں کون سی کلاس؟” اُس نے فون کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
++++++++++++++
اس وقت رات کے بارہ بجے تھے اور وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے تھے، محفل میں ایک پرسکون سا ماحول تھا۔ ایک پل کے لیے خاموشی چھا گئی، پھر حارث نے کہا، “ایک کام کرو، مووی لگانے سے پہلے مہر کو بھی بُلا کر لے آؤ، دیکھو، اُٹھی ہوئی ہے وہ، نہیں تو صبح اُسے پتہ چلے گا تو وہ ڈراما کرے گی، اور میں ولی کو بُلا کر لیتا ہوں۔”
“ہممم، اوکے,” ماہی نے سر ہلا کر جواب دیا اور پھر اٹھ کر مہر کے کمرے کی طرف چل پڑی۔
وہ اب مہر کے روم کے اندر آئی تو مہر کمبل اُوڑھ کر بیٹھی تھی، پھر ماہی نے مسکراتے ہوئے کہا، “مہر، اٹھو، چلو ہم مووی دیکھ رہے ہیں۔”
“یا اللّٰہ، اتنی رات میں مووی؟”
“ہاں، مووی کا اصل مزا تو رات میں ہی دیکھنے میں آتا ہے!” ماہی نے پرجوش انداز میں جواب دیا،
“پھر تم ہی لو، مزے میں تو سو رہی ہوں,” مہر نے خفگی سے کہا اور پھر اپنے کمبل میں مزید گھسنے کی کوشش کی۔
“ایسے کیسے! چلو، تو مزا آئے گا!” ماہی نے اسرار کیا
“یار، جاؤ نہ، تنگ نہیں کرو! سونے دو، مجھے صبح یونیورسٹی جانا ہے!” مہر نے تھوڑی مایوسی سے کہا،
“وہ تو مجھے بھی جانا ہے!” ماہی نے لاپروائی سے کہا
“تو پھر جا کر سو!” مہر نے کہا،
“مووی دیکھ کر!” ماہی نے کہا، “اچھا، میں جا رہی ہوں! تمہیں نہیں دیکھنا تو نہ دیکھو، پر صبح پھر شکایت نہیں کرنا کہ ہم نے تم سے پوچھا نہیں…”
“ہٹو جاؤ یار!” مہر نے کمبل کو اپنے سر تک کھینچتے ہوئے کہا،
ماہی پھر کمرے سے باہر نکل گئی
+++++++++++++
“کیا کر رہا ہے؟” حارث اس کے روم میں آتے ہوئے بولا،
“کچھ نہیں، تو بول ” وہ اپنے بیڈ پر لیٹا تھا، لیپ ٹاپ پاؤں پر رکھے چلا رہا تھا۔
“پھر چل، نیچے سین آن ہے!” حارث نے اُسے بتایا، جیسے وہ اب انتظار کر رہا ہو۔
“یار، تم دونوں دیکھو، میرا دل نہیں ہے,” ولید نے بیزاری سے کہا،
“چھوڑ دے پھر, میں بھی نہیں دیکھ رہا,” حارث نے فوراً جواب دیا،
“اچھا، جا تو، میں آتا ہوں پانچ منٹ میں,” ولید نے کہا،
“اوکے، جلدی سے آجا، جب تک میں مووی لگاتا ہوں,” حارث نے کہا، اور ولید کے روم سے نکل گیا
“چلو، اب اُٹھو کام کل کر لیں گے,” ولید نے اپنے آپ سے کہا، کیونکہ وہ حارث کے لیے ہمیشہ فری رہتا تھا، چاہے اس کے پاس ہزار کام ہوں۔
+++++++++++++++
“کیا ہوا، آرہی ہے مہر؟” حارث نیچے آتے ہوئے ماہی کو صوفے پر بیٹھے دیکھ کر پوچھا
“نہیں، اسے سونا ہے” ماہی نے مختصر سا جواب دیا۔
“چلو، اچھا ہے نہیں آئی وہ… ورنہ وہ آجاتی تو اس کے چکر میں ہمیں تھوڑی کم ایکشن والی مووی لگانی پڑتی,” حارث مسکراتے ہوئے کہا
“کیوں؟” ماہی نے چونک کر پوچھا۔
“وہ کیا ہے نہ… ہماری بہن بہت کمزور ہے, زیادہ لڑائی دیکھے گی تو ڈر جائے گی,” حارث ہنستے ہوئے کہا
“اور ولید آرہا ہے کیا؟” ماہی نے پھر سوال کیا۔
“ہاں, میں ہوں تو وہ کیسے نہیں آئے گا. آرہا ہے… ہم مووی لگاتے ہیں، جب تک وہ آجائے گا ” حارث نے جواب دیا
“ویسے تم مجھے یہ تو بتاؤ، تمہارا ٹرانسفر کیوں ہوا ؟”
“وہ ماہی نے سر پھاڑ دیا تھا ایک لڑکے کا” ماہی نے غیر ارادی طور پر اپنا نام لے کر کہا۔
“اوہ، واؤ! کیا سچ میں… واقعی میں… ایک لڑکے کا سر پھاڑ دیا تم نے؟ ویسے اس نے کیا کیا تھا جو اس کے سر کی شامت آگئی؟” حارث پُر جوش لہجے میں کہا ۔۔
“وہی… سارے لڑکے ایک جیسے ہوتے ہیں” ماہی نے بیزاری سے کہا۔۔۔
“نہیں، نہ ، سارے نہیں!” حارث فوراً بولا،
“لگ گئی مووی؟” ولید نیچے آتے ہوئے ہی پوچھا
“نہیں, وہ ہم باتیں ہی کر رہے تھے… ابے، تُجھے پتہ ہے، ماہی نے یونیورسٹی میں ایک لڑکے کا سر پھاڑ دیا! ہاہاہا!” حارث ہنستے ہوئے کہا
“اچھا” ولید نے بیزاری والے انداز میں کہا، جیسے اسے اس بات میں کوئی دلچسپی نہ ہو۔
“ہاں, اور اب ڈرو مجھ سے… جب میں ایک لڑکے کا سر پھاڑ سکتی ہوں… تو تم دونوں کا بھی!” ماہی یہ کہتے ہوئے ٹی وی پر مووی لگانے لگی
ماہی کی یہ بات سن کر پہلے تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے، پھر ولید کچھ نہیں کہا، لیکن حارث نے کہا ، “جس کا سر پھاڑا ہوگا وہ کمزور لڑکا ہوگا… میں تھوڑی ہوں!”
“کبھی موقع ملے تو دیکھ لینا، ماہی کیا کیا کر سکتی ہے…” ماہی نےچیلنج دینے والےانداز میں کہا ۔۔۔”خیر، ابھی مووی اسٹارٹ ہوگئی ہے, بیٹھ کر آرام سے وہ دیکھو…”
“اسے صبح یونیورسٹی بھی جانا ہے اور پہلا دن بھی ہے، اور دیکھو، اسے کوئی فکر ہی نہیں ہے,” ولید دل ہی دل میں کہا،
“یا اللہ مجھے صبر دے اس کے معاملے میں… آمین.”
ماہی اور حارث مووی میں مگن تھے اور انہیں بہت مزا آ رہا تھا، اور ولید وہ تو پتہ نہیں یہاں کیوں بیٹھا تھا نہ پلان اُس کا نہ مووی اُس کی پسند کی نہ ماہی اُس کو پسند صرف حارث کی وجہ سے ولید یہاں بیٹھا تھا بس ورنہ اُسے ذرا بھی مزا نہیں آرہا تھا۔۔۔۔
+++++++++++++++
“چلو چلو، بس بہت ہوگیا ہے، صبح یونی بھی جانا ہے,” ولید نے تھک کر کہا، جیسے وہ اب مزید اس محفل کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔
“ابھی کہاں؟ ابھی تو آدھی رات بھی نہیں ہوئی اور مووی بھی ختم نہیں ہوئی…” ماہی نے ولید کو دیکھتے ہوئے کہا،
“ہوگیا نہ بہت؟ سوجاؤ ” ولید نے اُٹھتے ہوئے کہا، اور پھر اپنے روم کی طرف چل دیا۔
“یہ ایسا ہی ہے” حارث نے مُسکراتے ہوئے کہا، اور خود بھی اُٹھ کر اپنے روم کی طرف چل دیا۔
“ولید کے بچے…” ماہی غصے میں بڑبڑائی
“میری زندگی کی آدھی مصیبت نہ تم سے شروع ہوتی ہے…” وہ روم میں آ کر گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے غصے میں کہا ہو۔
“تم میری زندگی کی آدھی مصیبت ہو ماہی!
آی ہیٹ یو ولید آئی ہیٹ یو
وہ نیچے لاؤنچ میں کھڑی ولید کے روم کی طرف دیکھتی خود سے بڑبڑائی
“آی ہیٹ یو! ماہی ”
” ولید اپنے روم میں کھڑا خود سے بڑبڑایا
“صرف حارث کی وجہ سے برداشت کر رہی ہوں میں تمہیں” وہ اب لانچ کی چیزیں سمیٹ ہوئے کہہ رہی تھی ..
“صرف حارث کی وجہ سے برداشت کر رہا ہوں میں تمہیں!” وہ اپنے بیڈ پر لیٹتے ہوئے، کہہ رہا تھا ۔۔
“آہا اب آئے گا نہ مزا ! ولید بھی، ماہی بھی، فل انجوایمنٹ!” حارث اپنے بیڈ پر لیٹ کر خود سےسوچتے ہوئے بولا۔۔
“ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے,” حارث نے مسکراتے ہوئے سوچا۔
+++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔
Next Episode on 16th September
Insha Allah

1 Comment
Zarbadast