dil ya dhrkan

Dil ya dharkan Episode 4 written by siddiqui


دِل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )


قسط نمبر ۴

#ایم_ڈی_مافیا_ڈون

صبح کی نرم دھوپ کھڑکی سے اندر آ رہی تھی، ناشتے کی میز پر سب بیٹھے ہوئے تھے۔ خوشبو دار چائے کے کپ سے ہلکی سی بھاپ اٹھ رہی تھی، اور تازہ بنے پراٹھے کی مہک پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔

ماہی نے نوالہ توڑتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا، پھر جیسے کچھ یاد آیا ہو، اچانک بولی، “خالہ، انکل کہاں ہیں؟”

نازیہ بیگم نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے مسکراتے ہوئے جواب دیا، “ارے بیٹا، تم تو جانتی ہو نا، وہ ایکسپورٹ امپورٹ کا کام کرتے ہیں، ابھی بھی اسی سلسلے میں باہر گئے ہوئے ہیں۔”

مہر کے چہرے پر ہلکی سی الجھن ابھری۔ وہ کچھ سوچ رہی تھی، پھر آہستہ سے بولی، “ماما، آپ کو پتہ ہے۔۔۔”

ناذیہ بیگم نے نوالہ توڑتے ہوئے نظریں اٹھائیں، “کیا؟”

“یہ ایم ڈی انڈرکاور مافیا ڈان نہیں ہے؟ اُس کی لیٹست نیوز آئی ہے کہ ” وہ  موبائل کی سکرین پر نظریں جمائے کہہ رہی تھی ۔۔

اس سے پہلے کہ وہ جملہ مکمل کرتی، ماہی فوراً بیچ میں بول پڑی

“ایم ڈی؟ یہ ایم ڈی کیا ہوتا ہے اس کا کیا مطلب؟”

حارث، جو خاموشی سے ناشتہ کر رہا تھا، اچانک بول اٹھا، “ایم سے ملاقات، ڈی سے درد… ملاقات پلس درد!”

“اس کا مطلب؟ جو بھی اس سے ملتا ہے، اُسے درد ملتا ہے ، اُس سے ملنا، درد سے گزرنا ہے۔”

تُم بھی اُس سے  ملو گی تو تمہیں درد بھی ملے گا۔۔۔

کیوں کے meet with pain ۔۔۔

اُس سے ملنا، درد سے ملاقات کرنا ہے۔”

مہر نے چونک کر حارث کی طرف دیکھا۔

” آپ کو بہت معلومات ہے ۔۔۔۔”

حارث نے ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کندھے اچکائے، “ہاں جیسے تمہیں پتہ ہے۔”

مہر نے حارث کو گھورا، پھر موبائل اسکرین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، “چھوڑیں ماما، نیوز میں آیا ہے کہ اُس ایم ڈی مافیا کی آنکھوں کا رنگ براؤن ہے۔”

نازیہ بیگم نے حیر انی سے جملہ دہرایا، “بھوری آنکھیں؟”

یہ سنتے ہی ولید کا ناشتہ کرتا ہاتھ رک گیا اس نے نظریں اٹھا کر مہر کو دیکھا،

کیا تمہیں یہ بات کیسے پتہ چلی اتنی صبح صبح؟ نیوز آگئی تُمہارے پاس؟”

“ہاں بھائی، یہ نیوز تو کل رات میں ہی آگئی تھی، مجھے ابھی پتہ چلا۔” مہر نے جواب دیا ۔۔

ولید نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔ “تو کیا تُو اٹھتے ساتھ ہی نیوز دیکھتی ہے؟”

مہر ہنسی، “نیوز کہاں بھائی، ٹوئٹر پر دیکھا! یہ دیکھو، #ایم_ڈی_مافیا_ڈون، پورے ٹوئٹر پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ تم بھی دیکھو، سب سے پہلے یہی آئے گا۔”

اس نے اپنا فون آگے بڑھایا۔ ولید نے سکرین پر نظر دوڑائی، جہاں ایک نوجوان آدمی کی تصویر نمایاں تھی— لیکن پورا چہرہ کور تھا  بھوری آنکھوں کے علاوہ کچھ بھی واضع نہیں تھا ۔۔ 

“مجھے بھی دکھاؤ، ایسے بھی کونسا تیس مار خان ہے وہ!” ماہی نے بےچینی سے کہا اور فون مہر کے ہاتھ سے لے لیا۔

“یہ کرتا کیا ہے؟” اس نے پوچھا۔

“کہا تو مافیا ہے…” مہر نے سرگوشی میں کہا۔ “فائٹر کنگ! اتنا زبردست لڑتا ہے کہ آج تک کوئی اسے ہرا نہیں سکا!”

ماہی کی آنکھوں میں تجسس بڑھا۔ “حقیقت میں؟”

“ہاں! اتنا تیز ہے کہ دو دفعہ پولیس کے ہاتھوں میں بھی آ چکا ہے، لیکن افسوس… پولیس کو بھی مار کر بھاگ گیا!” مہر نے سنسنی خیز انداز میں بتایا۔

ماہی نے پُر جوش ہو کر کہا۔ “ہینن! ارے واہ! اس سے تو ملنا پڑے گا!”

“چپ کرو!” نازیہ بیگم کا سخت لہجہ ڈائننگ ٹیبل میں گونجا۔ “کیا ملنا پڑے گا؟ مافیا ہے وہ! تم لوگ ہوش میں بھی ہو یا نہیں؟”

سب خاموش ہو گئے۔ خالہ نے گہری سانس لی اور غصے سے بولیں، “اور تم لوگ صبح صبح مافیا، مافیا کرنے لگے ہو! تمہیں پتہ بھی ہے وہ کتنا خطرناک آدمی ہے؟ یہ سب کوئی مذاق نہیں ہے!”

ماہی نے زبان دانتوں میں دبائی۔ مہر نے شرمندگی سے نظر جھکا لی۔

“اب اس گھر میں کوئی بھی اس مافیا کا ذکر نہیں کرے گا، سمجھے؟ میرے لیے میرے بچے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ اور ماہی! تم یہاں پڑھنے آئی ہو، پڑھائی پر فوکس کرو۔ یہ سب مافیا وغیرہ کے چکر میں کسی کو بھی پڑنے کی ضرورت نہیں ہے!”

“اچھا ماما، ریلیکس!” ولید نے نرمی سے کہا۔ “ماہی تو مذاق کر رہی تھی، آپ جیسا کہیں گی ہم ویسا ہی کریں گے۔ ہمارا ویسے بھی کیا لینا دینا اس سب سے۔”

نازیہ بیگم  نے سخت نظر ڈالی اور پھر ڈائننگ ٹیبل پر خاموشی چھا گئی ۔۔ اس کے بعد کسی نے کچھ نہیں بولا سب خاموشی کے ساتھ ناشتہ کرنے لگے۔۔۔

 

+++++++++++++

یونیورسٹی کی کیفے ٹیریا میں ہلکی چہل پہل تھی۔ کچھ لوگ گپ شپ میں مصروف تھے، تو کچھ اپنے موبائل فون پر مگن ماہی ، حارث اور ولید تینوں ساتھ ہی بیٹھیں تھے۔۔۔

ولید نے تیز نظروں سے ماہی کو دیکھا اور  بولا، “تمہیں بہت زیادہ ملنے کا شوق نہیں ہے مافیا سے؟”

“دیکھ بھی نہیں رہی کہ ماما بیٹھی ہیں؟”

ماہی نے دل ہی دل میں دانت پیسا اور سوچا”یہ آگیا نا میری زندگی میں! اب بس میری ہر بات پر مجھے ٹوکے گا اور دس سوال کرے گا… ایسا کیوں کیا؟ وہ کیوں کیا؟ یہ کیوں کیا؟ وہ کیوں کیا؟ افف!”

ماہی نے آنکھیں گھما کر جواب دیا، “ہاں تو فائٹر کا نام سن کر ماہی سے رہا نہیں جاتا!”

حارث نے کندھے اچکائے اور بولا، “It’s okay نہ ولی، چھوڑ یار!”

ماہی کے چہرے پر شرارت دوڑ گئی۔ اس نے حارث کی طرف غور سے دیکھا اور کہا، “ویسے حارث…؟ تمہاری آنکھوں کا رنگ بھی تو براؤن ہے، کہیں تم تو مافیا نہیں ہو؟”

ولید نے دل ہی دل میں سوچا، “بس گندے سے دماغ میں گندی سی ہی بات آئے گی!”

حارث سنجیدگی سے کہا ، “ہاں ہاں، میں ہی ہوں تو؟”

ماہی نے فوراً کہا، “تو پھر کب سکھا رہے ہو مجھے فائٹنگ؟”

حارث نے  مسکراتے ہوئے جواب دیا، “ارے، تمہیں سیکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ تم تو سیکھی سکھائی پیدا ہوئی ہو!”

ماہی نے فخر سے گردن جھٹکی۔ “ہاں، وہ تو ہے! ماہی سب کر سکتی ہے!”

“ہاں، لڑکوں والے سارے کام!” ولید نے چبھتا ہوا جملہ کسا۔

“ہاں تو؟” ماہی نے بے نیازی سے کہا۔

ولید نے گہری سانس لی اور دل میں سوچا، “میری بات کا پوری دنیا کو فرق پڑ سکتا ہے، لیکن اسے نہیں!”

ماہی نے اپنی جیکٹ ٹھیک کی اور لاپرواہی سے کہا، “اچھا، میں پورا یونی گھوم کر آتی ہوں، تم دونوں یہیں رہنا!”

یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتی کیفے سے باہر نکل گئی، جبکہ حارث ولید کو دیکھ کر مسکرا دیے۔

یہ ماہی بھی نا…!

“اوئے، تُو نے John کو دیکھا ہے؟” ولید نے جلدی سے حارث سے پوچھا، نظریں اردگرد گھماتے ہوئے۔

حارث نے  کندھے  اُچکائے۔ کون john ؟

ولید نے گہری سانس لی۔ ” میرا دوست john ۔۔ وہی جو چار دن پہلے میری کار لے کر گیا تھا۔۔ ابھی تک کچھ اتا پتہ بھی ہی اُس کا۔۔۔ ولید کو john کی فکر  تھی۔۔۔

حارث نے بے فکری سے کہا، “تو فون کر لے!”

ولید نے غصے سے کہا، “تُجھے لگتا ہے میں نے نہیں کیا ہوگا؟ اس کا فون بھی بند جا رہا ہے!”

حارث نے مذاق میں کہا، “بس لے کر بھاگ گیا اور کیا؟”

ولید نے اسے گھورا، “اُس نے کسی کے ہاتھوں میری کار واپس کر دی تھی… لیکن وہ خود نہیں آیا۔ چار دن سے اُس کا کچھ پتہ نہیں!”

حارث نے ہنستے ہوئے کہا، “تیری کار خراب کر دی ہوگی اُس نے! دیکھ…  دیکھ تبھی اتنے دن غائب!”

ولید نے سختی سے کہا، “میں  مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں یار!”

حارث نے  مسکراہٹ سمیٹی اور سنجیدگی سے بولا، “ہاں تو میں مذاق کر بھی نہیں رہا ہوں!”

ولید نے بےچینی سے کہا، “میں بہت پریشان ہوں اُس کے لیے۔ اللّٰہ خیر کرے… وہ صحیح سلامت ہو بس!”

حارث نے کچھ  سوچا، پھر فون نکال کر کسی کو میسج کرنے لگا، “اچھا روک، میں پوچھتا ہوں کسی سے۔”

ولید نے مشکوک نظروں سے اس کی طرف دیکھا، “تُو نے تو کچھ الٹا سیدھا نہیں کیا نہ اُس کے ساتھ؟”

حارث نے فوراً کہا، “ارے بھئی! میرا کیا لینا دینا اُس سے؟ میں کیوں کچھ کروں گا؟”

ولید نے نظریں  سخت کر لیں، “تیرا کوئی بھروسہ نہیں ہے بھائی… اور میں اچھی طرح جانتا ہوں، اپنے سے زیادہ تو مجھے  پر اور میری چیزوں پر نظر رکھتا ہے!”

حارث نے شرارت سے کہا، “ہاں تو؟ تُو بھائی ہے میرا، پورا حق ہے تُجھے پر!”

ولید نے دھمکی آمیز  لہجے میں کہا، “میں بتا رہا ہوں، کچھ الٹا سیدھا کیا ہوگا نہ تُو نے John کے ساتھ، تو اچھا نہیں ہوگا!”

حارث نے ہاتھ اٹھا کر کہا، “ارے بھئی! نہیں کیا میں نے کچھ!”

اسی وقت ایک لڑکا سیدھا حارث کے پاس آیا جسے حارث نے کچھ ڈر پہلے مسیج کر کے اِدھر بھلایا تھا ، “ہاں بھائی، بولو؟”

“یہ John تیرے گھر کے پاس رہتا ہے، اس کی کوئی خبر ہے؟  وہ کیا ہے نہ کہ میرا بھائی پریشان ہو رہا ہے!”   لسٹ لائن اُس نے بہت چبا چبا کے کہی تھی۔۔

لڑکے نے ہچکچاتے ہوئے کہا، “وہ… john کسی کلب میں گیا تھا، وہاں اس کی کچھ لڑکوں سے لڑائی ہوگئی۔ ان لڑکوں نے اسے بہت مارا… اب وہ ہسپتال میں ہے پتہ نہیں کیسے مرا ہے اُن لڑکوں نے اُسے کہ اُس کی ٹانگیں مفلوج ہوگئی ہے تبھی ابھی تک ہسپتال میں ہے۔۔۔  “

ولید کا دل ڈوب گیا، “اللّٰہ خیر کرے! کہاں ہے وہ؟ کون سے ہسپتال میں؟”

حارث نے فوراََ کہا۔”کوئی ضرورت نہیں جانے کی!”

ولید نے غصے سے اسے گھورا اور اُس لڑکے سے مخاطب ہوا ، “کب ہوئی لڑائی؟”

لڑکے نے ہے بسی سے کندھے اُچکائے  “پتہ نہیں…”

حارث نے سختی سے کہا ، “بس ہوگیا، اب جا، دفعہ ہو!”

لڑکا پھر سر ہلا کر چلا گیا۔

ولید کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اچانک گراؤنڈ کی طرف سے شور بلند ہونے لگا۔ اور کینٹین میں بیٹھے سارے سٹوڈنٹ گراؤنڈ کی طرف بھاگنے لگے ۔۔۔

حارث نے چونک کر گردن گھمائی، “یہ کیسا شور ہے؟”

“ماہی!”ولید زیرِ لب بڑبڑایا ۔۔۔۔ ولید پہلے ہی بھانپ چکا تھا۔ جیسے ہی اسے احساس ہوا، اس کا چہرہ سخت ہوگیا اور وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کینٹین کی طرف دوڑ پڑا۔

حارث نے پُر جوش ہو کر کہا۔۔۔”کیا مطلب، ماہی کا نیا فساد۔۔۔ واؤ ؟” پھر خود بھی ولید کے پیچھے لپکا۔

 

+++++++++++++++

 

یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ درجنوں طلبہ ایک جگہ جمع تھے، کچھ سرگوشیاں کر رہے تھے، کچھ حیرت سے کھڑے تھے، اور کچھ اپنے فون نکال کر ویڈیوز بنا رہے تھے۔

بیچ میں، ماہی کھڑی تھی—غصے سے بھرپور، آنکھوں میں شعلے لیے، سانسیں تیز چل رہی تھیں۔ اس کے سامنے ایک لڑکا زمین پر گرا ہوا تھا، جس کا کالر اس نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ اس کے چہرے پر دو تین گھسے پڑ چکے تھے، اور وہ ششدر نظروں سے ماہی کو دیکھ رہا تھا۔

“انارکلی لگ رہی تھی نہ میں تجھے؟ مزا آیا انارکلی کا جلوہ دیکھ کر؟”  ماہی غصے غرائی ۔۔

وہ لڑکا کراہتا ہوا اٹھنے کی کوشش کرنے لگا، مگر ماہی نے اس کا کالر مزید سختی سے جکڑ لیا۔

قریب ہی حارث اور ولید کھڑے تھے، دور سے یہ سب دیکھ رہے تھے۔

“چلیں کیا؟ اُسے مدد کی ضرورت ہے،” حارث نے ولید کی طرف دیکھ کر کہا۔

ولید نے سکون سے ہاتھ جیب میں ڈالا اور سر ہلایا، “وہ اکیلی ہینڈل کر سکتی ہے۔”

حارث ہنسا، “اچھا پھر میں جوس لے کر آتا ہوں، اچھے سے سین انجوائے کریں گے!” اور وہ مزے سے کینٹین کی طرف چل دیا۔

ماہی نے جیسے ہی چاروں طرف لوگوں کی بھیڑ دیکھی، اس کا پارہ اور چڑھ گیا۔

“پیچھے ہٹو! تماشا ہو رہا ہے کیا یہاں پر؟” وہ زور سے چلائی۔

طلبہ تھوڑے پیچھے ہٹے، مگر کچھ ابھی بھی تماش بین بنے کھڑے رہے۔ تبھی، لڑکے کا ایک دوست آگے بڑھا۔

“کیا مسئلہ ہے؟ میرے دوست کو چھوڑو!” وہ سخت لہجے میں بولا۔

ماہی نے اس کی طرف دیکھا اور طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا،

“اپنے دوست کو تمیز سکھا دو، نہیں تو یہ میرے ہاتھوں قتل ہو جائے گا!”

اسی لمحے، اس کی نظر پیچھے کھڑے  ولید  پر پڑی۔ اور اُس نے اُس لڑکے کو چھوڑ دیا۔۔۔ وہ دور کھڑا خاموشی سے دیکھ رہا تھا،

ماہی کے اندر کچھ کھولنے لگا۔ “دیکھو ذرا! کھڑے ہو کر دیکھ رہا ہے، آگے آ کے میرے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا تھا؟ مجھے ذرا سا سپورٹ بھی نہیں دے سکتا تھا؟”

مگر وہ کیوں آئے گا؟ اسے تو شاید ایسے میں ۔۔۔ میں اچھی بھی نہ لگ رہی ہوں، وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی۔

ماہی نے ایک آخری نظر اس لڑکے پر ڈالی، جو ابھی تک غصیلی نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔

“جا، معاف کیا!”وہ بولی، اپنا بیگ اٹھایا اور وہاں سے چل دی۔

مگر وہ لڑکا اور اس کا دوست اب بھی خاموشی سے اسے گھور رہے تھے۔ تبھی، ولید آہستہ آہستہ ان کے قریب آیا، جھک کر مدھم آواز میں بولا،

“سوچنا بھی مت… وہ حارث کی بیسٹ فرینڈ ہے!”

اور سکون سے وہاں سے نکل گیا۔

وہ دونوں لڑکے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

ماہی غصے میں کینٹین کی طرف جا رہی تھی جب ولید نے اس کے ساتھ قدم ملایا۔

“سکون مل گیا؟” وہ دھیرے سے بولا۔

ماہی نے بے نیازی سے کہا، “ہاں، بہت زیادہ!”

ولید نے نرمی سے سمجھایا، “پہلا دن تھا تمہارا، نئی یونیورسٹی، کچھ تو خیال کر لیتی!”

ماہی نے طنزیہ ہنسی ہنسی، “خیال ہی تو کیا تھا، تبھی ہسپتال نہیں پہنچے!”

ولید نے گہری سانس لی، جیسے خود کو صبر کی تلقین کر رہا ہو۔ “تمہیں یاد ہے میں نے تمہیں کیا سمجھایا تھا؟”

“کیا؟” وہ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی، مگر اس کے ذہن میں کچھ نہیں آیا۔

“مجھے کچھ نہیں یاد! کچھ بھی نہیں… اور میں یاد رکھنا بھی نہیں چاہتی!”

ماہی کا لہجہ تلخ تھا، آنکھوں میں غصہ اور بے زاری صاف جھلک رہی تھی۔ وہ صحیح معنوں میں تپی ہوئی تھی، اور اب ولید  پر برسنے والی تھی

“ماہی کو یاد ہے تو بس اتنا کہ ولید زاویان ۔۔۔ وہ انسان ہے جیسے ماہی  بکل پسند نہیں کرتی ۔۔۔ اور  ولید  زاویان وہ ہے جو ماہی کو بات بات پر ٹوکتا ہے یہ مت کرو وہ مت کرو۔۔۔ایسے نہیں رہوں ویسے نہیں رہوں ۔۔۔ 

ماہی کو بس اتنا ہی یاد ہے۔۔۔ “

ماہی غصے سے ہاتھ باندھے ولید کے سامنے کھڑی تھی، آنکھوں میں چنگاریاں، چہرے پر خفگی، اور لہجے میں تلخی۔ وہ ایک لمحے کو بھی اس کی نظریں نہیں جھکنے دینا چاہتی تھی، جیسے اپنی ناپسندیدگی کا ہر لفظ اس کی آنکھوں میں اتار دینا چاہتی ہو۔

ولید خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا، اس کے چہرے پر وہی بے تاثر سنجیدگی تھی، جو ہمیشہ ماہی کو مزید غصہ دلا دیتی تھی۔ مگر وہ رُکا نہیں، بولا نہیں، بس اُسی طرح کھڑا رہا، جیسے اس کی ہر بات کو برداشت کر رہا ہو، جیسے وہ اس کا غصہ سننے کا عادی ہو۔

“ماہی تو یہ بھی بھول گئی تھی ۔۔۔”  ماہی نے تلخی سے کہا، ایک قدم اس کی طرف بڑھایا۔  “وہ تو آپکی غنیمت کے کل رات اپنے یاد کروا دیا تھا۔۔۔ٹی وی بند کر کے ۔۔۔”

“اور ماہی کو ولید کی بچپن کی نسیت وہ تو بکل نہیں یاد۔۔۔اور ماہی یاد بھی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔”اس نے سرد مہری سے کہا، جیسے کسی غیر ضروری بات پر وقت ضائع ہو رہا ہو۔

ولید نے بس گہری سانس لی، جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو مگر کہہ کر بھی کوئی فرق نہ پڑے، اس لیے خاموشی ہی بہتر سمجھی۔

“حارث کہاں ہے؟” ماہی نے لاپرواہی سے پوچھا، جیسے یہ بات زیادہ اہم ہو۔

“کینٹین میں ہوگا۔” ولید نے ہلکے سے کہا، نظریں اس کے چہرے پر ٹکائے بغیر۔

“اوکے!” کہہ کر ماہی نے کندھے جھٹکے اور آگے بڑھ گئی، جیسے بات ختم ہو چکی ہو،

ولید بس اسے جاتا دیکھتا رہا، نظریں اس کے قدموں کے ساتھ کچھ لمحے چلیں، پھر آہستہ آہستہ ساکت ہو گئیں۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی، تو اس نے جیب سے فون نکالا اور نیوز دیکھنے لگا، جیسے کچھ بھی ہوا ہی نہ ہو۔ مگر شاید، کہیں نہ کہیں، کچھ پھر بھی باقی رہ گیا تھا۔

فون کی سکرین پر ایک براہِ راست نیوز رپورٹ چل رہی تھی۔ رپورٹر کی آواز میں وہی سنسنی تھی، جو صرف بڑے انکشافات کے وقت ہوتی ہے۔

“ناظرین! ہم آپ کو ایک اور سب سے اہم خبر سے آگاہ کرتے چلیں۔۔۔ لندن کے سب سے بڑے اندر کور مافیا ڈان، جو ایم ڈی مافیا کے نام سے جانے جاتے ہیں، اُن کی شناخت کے مزید سراغ ہمارے ہاتھ لگے ہیں۔”

رپورٹر کے پیچھے ایک دھندلی تصویر چل رہی تھی۔ تصویر میں واضح نہیں تھا، مگر آنکھیں نمایاں تھیں—بھوری آنکھیں، جو اندھیرے میں بھی چمک رہی تھیں۔

“ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایم ڈی مافیا کے ساتھی، جو ہم  ہمیشہ سے  چھ سمجھتے تھے، درحقیقت سات ہیں!”

“وہ ساتواں ساتھی کون ہے؟ یہ وہ سوال ہے، جس کا جواب آج ہمیں ملا ہے۔” رپورٹر نے سانس لیا اور اسکرین پر ایک نیا خاکہ نمودار ہوا۔

“ایم ڈی مافیا کا ساتواں ممبر وہ ہے جو لڑائی کے دوران کبھی سامنے نہیں آیا۔ وہ وہی ہے، جو ہمیشہ پردے کے پیچھے رہا،  اور پردے کے پیچھے سے ہی اپنا کام انجام دیتا ، جو ایم ڈی کو ہر بار پولیس کے جال سے بچا لیتا ہے۔ وہ ایم ڈی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔”

“یہ ساتواں ممبر کوئی عام مجرم نہیں، بلکہ ایک ماسٹر مائنڈ ہے۔” رپورٹر کہہ رہا تھا، “وہ ایک شاطر ہیکر ہے، جو انٹرنیٹ کے ذریعے ایم ڈی کے خلاف ہر جال کو توڑ دیتا ہے۔”

“امید ہے کہ جلد ہی ایم ڈی مافیا اپنے انجام کو پہنچے گا، اور پولیس اُسے گرفتار کر لے گی!” رپورٹر کی آواز میں جوش تھا، جیسے وہ کسی بڑے اختتام کا اعلان کر رہی ہو۔

نیوز ختم ہو چکی تھی۔ وہ چند لمحے سکرین پر چلتے الفاظ کو دیکھتا رہا، جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر ایک گہری سانس لے کر اس نے فون جیب میں ڈال لیا اور تیز قدموں سے اسی طرف بڑھنے لگا، جس نے اسے “John” کے بارے میں بتایا تھا۔

 

+++++++++++++++

 

ماہی تیز قدموں سے چلتی ہوئی حارث کے پاس پہنچی۔ وہ پہلے ہی کافی الجھا ہوا لگ رہا تھا۔ ماہی نے گھور کر پوچھا، “کیا کر رہے ہو یہاں؟ اور… تم نے دیکھا؟”

حارث نے چونک کر اسے دیکھا، پھر مسکرا کر سر ہلایا، “ہاں، پر تم آگئی، اُس لڑکے کو  چھوڑ دیا۔ یار، میں تو وہیں آ رہا تھا تمہارا ساتھ دینے۔ اور تم؟ تم اسے چھوڑ کر آگئی؟”

ماہی نے کندھے اچکائے، “ہاں، میرا موڈ نہیں تھا زیادہ اس کو مارنے کا…کسی کو دیکھ لیا تھا میں نے، موڈ خراب ہو گیا۔”

حارث نے بھنویں سکیڑ کر پوچھا، “کس کو دیکھ لیا تھا؟ کوئی پرانی دوست؟”

ماہی خاموش ہو گئی۔ “پرانی دوست” سنتے ہی جیسے کچھ لمحے اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔کیا تھی وہ۔۔۔ کیوں بار بار یاد آجاتی تھی؟

حارث نے ہاتھ ہلایا، “کیا سوچنے لگی؟”

ماہی نے زبردستی مسکرا کر بات ٹال دی، “چھوڑو، تھا کوئی۔”

حارث نے ایک گہرا سانس لیا اور موضوع بدل دیا، “یار، تم نے نیوز دیکھی؟ اس ایم ڈی مافیا کی آنکھیں سچ میں بھوری ہیں!”

ماہی نے لاپرواہی سے کہا، “ہاں، نیوز میں آیا ہے تو سچ ہی ہوگا۔”

حارث ہلکا سا ہنسا، پھر تھوڑا جھنجھلا گیا، “اچھا ہے تو؟ تو کیا میں مافیا ہوں؟ یار، میرا دماغ خراب ہو گیا ہے! سب مجھے ایسے گھور رہے ہیں جیسے میں کوئی مجرم ہوں۔ اوپر سے کتنے لڑکے تو مجھے ہی مافیا سمجھ رہے ہیں۔ کچھ تو بار بار آکر سوال کر رہے ہیں۔”

ماہی نے حیرانی سے دیکھا، “پر لوگ تم پر شک کیوں کر رہے ہیں؟ وہ تمہیں جانتے نہیں کیا؟”

حارث نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کندھے اچکائے، “یہی تو مسئلہ ہے کہ یہ لوگ مجھے جانتے ہیں! تبھی شک کر رہے ہیں۔ مانتا ہوں، میں غصے والا ہوں، میری کسی سے خاص دوستی نہیں، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں مافیا ہوں؟”

ماہی نے گہری نظر سے اسے دیکھا اور آہستہ سے کہا، “تو کیا تم مافیا نہیں ہو؟”

حارث نے ایک لمحے کو سانس روکا، پھر غصے سے کہا، “ماہی، پاگل ہو گئی ہو کیا؟”

ماہی نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا، “ارے، تم نے ہی تو مجھے بتایا تھا کہ تم مافیا ہو؟”

حارث نے بے یقینی سے اسے گھورا، “ماہی، تم سیریس ہو؟”

وہ ہنسی، “Of course نہیں!”

“یہ لوگ پاگل ہیں جو تم پر شک کر رہے ہیں۔ اگر اصلی مافیا ان کے سامنے آ جائے نہ، تو اس کے سامنے ان کی زبان بھی نہ کھلے۔”

حارث نے ہلکا سا قہقہہ لگایا، “ہاں، اصل مافیا ہوتا تو یہ سب کانپ رہے ہوتے، سوال کرنے کی ہمت بھی نہ کرتے!”

ماہی نے سر ہلایا، “بس یہی بات تمہیں ان کے منہ پر مارنی چاہیے۔ جب وہ تم سے سوال کریں تو ان سے کہنا— ‘اگر میں مافیا ہوتا، تو کیا تم مجھ سے یوں سوال کر رہے ہوتے؟’”

حارث نے غور کیا اور مسکرا دیا، “سچ کہہ رہی ہو۔ جب اصل خطرہ سامنے آتا ہے تو سب چپ ہو جاتے ہیں۔

حارث نے ماہی کی طرف دیکھا، جو مزے سے مسکرا رہی تھی، جیسے یہ سب اُس کے لیے معمولی بات ہو۔۔۔

“اور تم کیوں پریشان ہو رہے ہو؟ الٹا انہیں پریشان کرو!” ماہی نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔

حارث نے بھنویں اٹھائیں، “پریشان؟ میں؟”

ماہی ہنس دی، “ہاں!  تمہیں پتہ ہے، جب کوئی مجھ سے کہتا کہ ‘ماہی، تم نے یہ کیا؟’ تو ہلکہ میں نے وہ کام نہیں کیا ہوتا، پھر بھی میں پورے اعتماد سے کہتی، ‘ہاں، میں نے کیا ہے!’ اور بس، سامنے والا خود ہی گڑبڑا جاتا۔”

حارث نے دلچسپی سے سنا، “اچھا؟ اور اس کا نتیجہ؟”

ماہی نے آنکھیں مٹکائیں، “نتیجہ یہ کہ سب  کنفیوز رہتے۔۔ اور یہ سنے کے بعد لوگ دوبارہ وہی سوال نہیں کرتے۔”

حارث نے ہلکا سا قہقہہ لگایا، “تو تم کہہ رہی ہو کہ میں بھی یہی کروں؟”

ماہی نے سنجیدگی سے کہا، “بالکل! جب کوئی تم سے پوچھے کہ ‘کیا تم مافیا ہو؟’ تو ایک لمحے کے لیے انہیں گھور کر دیکھو، پھر ہلکے سے مسکرا کر کہو، ‘تمہیں کیا لگتا ہے؟’ اور بس! دیکھنا، وہ خود ہی اپنا سوال بھول جائیں گے!”

+++++++++++++

شام کا وقت تھا۔ آسمان پر سرخی مائل نیلاہٹ پھیلی ہوئی تھی،ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا کھڑکی کے پردوں کو ہلا رہی تھی، اور باہر پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ رہے تھے۔

ماہی اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی موبائل ہاتھ میں لیے کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ کمرے کی مدھم روشنی میں اس کا چہرہ اور بھی پر سکون لگ رہا تھا، پھر اس نے فون پر نمبر ڈائل کیا۔۔۔اور دو رنگینگ کے بعد کال اٹھا لیا گیا ۔۔

“اسلام وعلیکم مینی!” اس نے خوشگوار لہجے میں کہا۔

“جی فرمائیے، میڈم! کیا حال چال ہیں؟” دوسری طرف سے مینی کی شوخ آواز آئی۔

اسی وقت مہر دروازہ کھول کر اندر آئی۔ اس نے ماہی کو فون پر بات کرتے دیکھا تو بنا کچھ کہے واپس پلٹ گئی۔

“تم کیسی ہو؟” اس کی آواز میں وہی نرمی تھی، جو ہمیشہ صرف مینی کے لیے مخصوص تھی۔ جیسے مینی نے یہ نرمی بنا کسی محنت کے کمائی ہو۔ اگر کوئی ماہی سے پوچھتا کہ مینی نے اس کے لیے ایسا کیا کیا ہے، تو شاید ماہی کے پاس کوئی بڑا جواب نہ ہوتا۔ لیکن وہ اتنا ضرور کہہ سکتی تھی کہ مینی نے اسے کبھی دُکھ نہیں دیا۔

“ٹھیک ہوں، مگر مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی۔ ایک کام کیوں نہیں کرتی ہو؟ اپنے پورے خاندان والوں کو میرا نمبر دے دو ناں! پہلے پھوپو، پھر خالہ، اور اب انکل بھی!” مینی نے شکوہ بھری آواز میں کہا۔۔۔

ماہی ہنس دی۔ “یار، میں تھوڑی نہ دیتی ہوں کسی کو تمہارا نمبر!”

“ہاں ہاں، تم تو بالکل نہیں دیتیں! میرا نمبر تو خود ہی ہوا میں تیرتا تیرتا تمہارے رشتہ داروں کے فون میں جا پہنچتا ہے نہ !” مینی نے مزاحیہ انداز میں کہا۔ لیکن وہ سخت ناراض تھی ماہی سے۔۔۔وہ اُس کا اندازہ ہی ایسا تھا۔۔۔

“ارے، میں صرف چھٹیوں میں گئی تھی پاکستان! اور بس ایک بار پھوپو کے نمبر سے تمہیں میسج کیا تھا، وہ بھی مجبوری میں، کیونکہ میرا فون خراب ہو گیا تھا۔” ماہی نے صفائی دی۔

“پھوپو کی خیر ہے، وہ قصہ پرانا ہو گیا، مگر میں فلحال انکل کی بات کر رہی ہوں۔” مینی کی آواز میں ہلکی سی چلبلاہٹ تھی۔

“کون انکل؟ میرے تو کوئی انکل نہیں!” ماہی الجھ گئی۔

“یا اللہ، میں تمہارے بابا کی بات کر رہی ہوں!” مینی نے بے زاری سے کہا۔

ماہی کو ایک لمحے کے لیے یقین نہ آیا۔ “میرے بابا کی کال تمہارے پاس کیوں آئے گی؟” اس نے چونک کر پوچھا۔

“ارے یار، آئی تھی نہ! وہی جو تم نے کارنامہ کیا تھا، اسی کے بارے میں پوچھ رہے تھے مجھ سے!” مینی نے بیزاری سے کہا۔

“پر وہ کیوں پوچھ رہے تھے؟” ماہی کی الجھن بڑھتی جا رہی تھی۔

“کھیلنے کے لیے پوچھ رہے تھے!” مینی نے چرتے ہوئے جواب دیا۔

مینی نے جھنجھلا کر کہا، “عجیب پاگل لڑکی ہو تم!”

بابا ہیں تمہارے، تم ان کی بیٹی ہو، اسی لیے پوچھ رہے تھے!”

“پر ان کو کچھ نہیں پتہ اس بارے میں،  تو وہ کیسے پوچھ سکتے ہیں؟ اور تمہارا نمبر ان کے پاس کیسے پہنچا؟” ماہی کی آواز میں الجھن تھی۔

ماہی نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر بولی، “اور پھوپو نے ابھی تک ان کو کچھ بھی نہیں بتایا ہے کہ میرا ٹرانسفر ہوگیا ہے، اور یونیورسٹی کی ساری ای میل تو پھوپو کے پاس آتی ہیں، تم جانتی ہو،  تو ان کو کیسے پتہ چلا؟”

ماہی خاموش رہی۔ اندر ہی اندر اس کے ذہن میں سوالات گھوم رہے تھے۔ آخر بابا کو یہ سب کیسے معلوم ہوا؟

“ہیں، تو پھر ان کو کیسے پتہ چلا؟ تم ایسا کرو، پھوپو سے پوچھ لو،  ایک دفعہ، کیا پتہ، پھوپو نے بتا دیا ہو؟” مینی نے مشورہ دیا۔

“یہ تو میں پوچھ لوں گی، پر یہ تمہارا نمبر کس نے دیا؟” ماہی کی آنکھوں میں الجھن اور بھی بڑھ گئی تھی۔

“ظاہر ہے، پھوپو نے دیا ہوگا، تم نے نہیں دیا تو اور کون دے سکتا ہے؟” مینی نے بے پرواہی سے کہا۔

“اچھا، میں پھوپو سے پوچھ لوں گی، تم ٹینشن نہ لو۔۔۔” ماہی نے آہستہ سے کہا۔

“اچھا چھوڑو یہ سب، وہاں بتاؤ، سب کیسے ہیں؟ خالہ کیسی ہیں؟” مینی نے موضوع بدلا۔

“خالہ، یار، وہ تو بہت اچھی ہیں۔ بلکہ یہاں سب اچھے ہیں،  ایسا لگ رہا ہے کہ یہ میرا اپنا ہی گھر ہے” ماہی کی آواز میں خوشی جھلک رہی تھی۔
“سب ٹھیک ہے، بس ایک کانٹا ہے، خیر، اسے میں پھول کی وجہ سے برداشت کر سکتی ہوں” ماہی نے ہنستے ہوئے کہا۔

“اچھا! کون ہے پھول، اور کون ہے کانٹا؟” مینی کی دلچسپی بڑھ گئی تھی۔

“یہاں میری خالہ کے دو بیٹے ہیں،  حارث اور ولید۔ میں ان سے پہلے بھی ملی تھی،  پاکستان میں،  اور اب سات سال بعد دوبارہ مل رہی ہوں۔” ماہی نے بتایا۔

“حارث بہت اچھا ہے، اور ولید، وہ مجھے بہت تنگ کرتا ہے!” ماہی نے شکایت بھری آواز میں کہا۔

مینی نے قہقہہ لگایا۔ “اچھا! تو کانٹا ولید ہے، اور پھول حارث ؟”

“ہاں، صحیح سمجھی!” ماہی نے اثبات میں سر ہلایا۔

یہ دونوں بیسٹ فرینڈ تو نہیں تھیں، لیکن ایسی دوست ضرور تھیں کہ اگر دن بھر میں کسی ایک کو چھوٹی سی چوٹ بھی لگ جائے، تو وہ دوسرے کو بتانا فرض سمجھتی تھی۔

ماہی فون کان سے لگائے مینی سے بات کر رہی تھی جب اچانک دروازہ زور سے کھلا۔ مہر اندر آئی، اور اس بار اس نے کوئی لحاظ نہیں کیا کہ ماہی کسی سے بات کر رہی ہے یا نہیں۔

“یار، ماہی! مجھے تم سے بات کرنی ہے، فون رکھو اور میری بات سنو!” مہر کا لہجہ خفگی سے بھرا ہوا تھا۔ وہ تھی ہی ایسی، چھوٹی چھوٹی باتوں پر منہ پھلا لینے والی۔

ماہی نے ایک نظر فون پر ڈالی، پھر مہر کو دیکھا۔

“اچھا مینی، میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔” ماہی نے فون کی اسکرین دیکھتے ہوئے کہا۔

“ہمم!” مینی نے منہ بسور کر فون کاٹ دیا۔ ظاہر ہے، مہر کی اونچی آوازیں اسے پوری طرح سنائی دی تھی۔۔

ماہی نے فون میز پر رکھا اور مہر کی طرف رخ کیا۔ “رکھ دیا فون، اب بولو، کیا ہوا؟”

مہر نے فوراً بات شروع کی۔ “دو دن بعد میری دوست کی کزن کی برتھ ڈے پارٹی ہے، تم چلو گی؟”

“نہیں!” ماہی نے فوراً جواب دیا۔ وہ کہاں گھومنے پھرنے کی شوقین تھی؟

“یار، چلو نہ!” مہر نے ضد کی۔

“مجھے یہ پارٹی وغیرہ پسند نہیں!” ماہی نے صاف انکار کر دیا۔

“یار، دیکھنا، تمہیں مزا آئے گا! تم دیکھنا لندن میں برتھ ڈے فنکشن کیسا ہوتا ہے!” مہر نے اُسے بہلانے کی کوشش کی۔

“مجھے نہیں دیکھنا!” ماہی نے سختی سے کہا۔

“پلیز، چلو نہ!” مہر نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا۔

“تمہیں مجھے لے کر جانا کیوں ہے؟ یہ بتاؤ؟ میں وہاں جا کر کیا کروں گی؟ میرا ان سے کیا لینا دینا؟” ماہی نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

“تم میرے ساتھ رہنا نا!” مہر نے لجاجت سے کہا۔

“نہیں جانا مجھے!” ماہی نے پھر انکار کر دیا۔

مہر نے گہری سانس لی، پھر آہستہ سے بولی، “یار، چلو نہ! وہ کیا ہے نا، پارٹی رات میں ہے اور پھر مجھے پارٹی سے رات میں اکیلے آنا پڑے گا، اور مجھے رات میں اکیلے آنے میں بہت ڈر لگتا ہے”

ماہی نے آنکھیں سکوڑ کر اُسے دیکھا۔ مہر کا اصل مسئلہ اب سامنے آیا تھا۔

“اور میں ولید بھائی کو بلا لیتی کہ مجھے لینے آجائیں،  لیکن میری جو دوستیں ہیں نا، وہ میرا مذاق بنائیں گی، کیونکہ وہ تو بڑی انڈیپنڈنٹ بنی پھرتی ہیں، اکیلی آتی جاتی ہیں، اپنی سیفٹی خود کرتی ہیں، پر میں ایسی نہیں ہوں۔ اگر میں نے ولید بھائی کو بلایا تو وہ سب مجھے معصوم لڑکی سمجھیں گی اور مذاق بنائیں گی، اور میں نہیں چاہتی ایسا ہو ،  اسی لیے تم چلو نہ میرے ساتھ!” مہر نے وضاحت دی۔

ماہی نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “ایسے دوستوں سے اچھا تو بندے کا کوئی دوست ہی نہ ہو!”

مہر نے برا سا منہ بنایا۔ “یار چھوڑو ان لوگوں کو، تم چل رہی ہو یا نہیں، یہ بتاؤ!”

ماہی نے ایک پل کے لیے سوچا، پھر کندھے اچکائے۔ “ہاں، چلو نگی۔”

مہر کے چہرے پر حیرت ابھری، پھر فوراً خوشی میں بدل گئی۔ “سچ؟”

“ہاں، مگر ابھی تمہیں میں سمجھانے بیٹھوں تو تم مانو گی نہیں۔ اس لیے ابھی کچھ نہیں کہہ رہی۔ تمہیں پارٹی میں ہی ثبوت کے ساتھ سمجھاؤں گی!” ماہی نے دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صرف مہر کو نہیں، بلکہ ان انڈیپنڈنٹ لڑکیوں کو بھی سمجھائے گی، جنہیں آزادی اور بے پرواہی میں فرق ہی نہیں معلوم۔

اگر یہاں مینی ہوتی تو ماہی کی باتیں سن کر فوراً غصے میں کہتی،

“ہاں، تم نے تو سب کو سدھارنے کا ٹھیکا لے رکھا ہے!”

++++++++++++++
 
جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *