دل یہ دھڑکن ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۶
ماہی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اُس کی نظر لینسز کے ڈبے پر پڑی ۔۔۔ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ بہت سارا لینسز پورا ڈبا براؤن رنگ کے لینسز سے بھرا ہوا تھا۔ وہ کچھ لمحے ساکت کھڑی رہی، جیسے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو۔ دل کی دھڑکن بےترتیب ہونے لگی۔
یہ سب یہاں کیوں ہے؟ ولید کے پاس اتنے سارے براؤن لینسز کا کیا کام ؟
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور سوچتی، دروازہ کھلا اور ولید باہر آ گیا۔ اس نے تولیہ کندھے پر رکھا ہوا تھا اور بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ جیسے ہی اس کی نظر ماہی پر پڑی، جو دراز کھولے کھڑی تھی، اس کا چہرہ حیرت اور پھر غصے میں بدل گیا۔
تُم یہاں اس وقت کیا کر رہی ہو۔۔۔؟؟
“یہ تمہارے دراز میں براؤن لینسز کیا کر رہے ہیں؟ وہ بھی اتنے سارے؟” ماہی کی آواز سخت تھی، نظریں سوالیہ۔
ولید کی آنکھوں میں ایک لمحے کو اضطراب ابھرا، مگر فوراً ہی اس نے خود کو سنبھال لیا۔ وہ سکون سے تولیہ ایک طرف رکھتے ہوئے گویا ہوا، “اور کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ تم میری چیزیں کیوں چیک کر رہی ہو؟”
“پہلے میرے سوال کا جواب دو!” ماہی نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا۔
ولید نے گہری سانس لی اور سنجیدہ لہجے میں کہا،
“ماہی
، it’s my personal matter!
میں جو چاہوں اپنے پاس رکھوں، یہ میرا اختیار ہے۔ میں تمہیں ہر چھوٹی بڑی چیز کا حساب دینے کا پابند نہیں ہوں۔”
ماہی نے لب بھینچ لیے۔ وہ اس بات سے مطمئن نہیں تھی۔
عین اسی لمحے دروازہ دوبارہ کھلا اور مہر اندر
آ گئی۔ “بھائی کو بتا دیا ہو تو چلو؟” اس نے لاپرواہی سے کہا۔
ولید نے حیرانی سے بہن کو دیکھا۔ “کیا بتانا تھا؟”
مہر نے بیزاری سے ماہی کی طرف دیکھا، پھر جلدی سے بولی، “افف! ماہی، تم نے ابھی تک بھائی کو نہیں بتایا کہ تم اتنی دیر سے یہاں کیا کر رہی ہو؟ ہمیں دیر بھی ہو رہی ہے!”
ماہی نے ایک گہری نظر ولید پر ڈالی جو خاموشی سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کا انداز ابھی بھی پُرسکون تھا، مگر ماہی کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کچھ چھپا رہا ہو۔
مہر نے اپنی بات جاری رکھی، “اچھا خیر، بھائی ہم میری دوست کی برتھ ڈے پارٹی میں جا رہے ہیں، اور گھر پر ماما بھی نہیں ہیں۔ اگر آپ کہیں جانا چاہیں تو جاتے ہوئے دروازہ لاک کر کے چابی ساتھ لے جائیے گا، اور ہم بھی چابی ساتھ لے جا رہے ہیں۔”
ولید نے سر ہلا دیا۔ “ٹھیک ہے، مجھے کہیں جانا نہیں، میں گھر پر ہی رہوں گا۔”
ماہی ابھی تک اسے شک کی نظروں سے گھور رہی تھی۔ کچھ تو تھا جو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
“اوکے بھائی! چلو ماہی!” مہر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور باہر کی طرف کھینچنے لگی۔ ماہی کا دل نہیں مان رہا تھا، مگر فِلحال وہ مہر کے ساتھ جانے پر مجبور تھی۔
+++++++++++++
“یہ لو لینسز، لگا لو… اور بالکل باس کی طرح ڈریسنگ بھی کر لینا۔” حامد کی آواز میں سختی تھی، جیسے وہ کسی بھی غلطی کی گنجائش نہیں چھوڑنا چاہتا ہو۔ وہ اس وقت اپنے بندوں کے بیچ کھڑا سب کو ہدایات دے رہا تھا۔
“اور ہاں، وہاں گارڈ سے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے، اُن کو بے ہوش کر دینا۔ اصل سارا کام اندر ہے، تو گارڈز سے الجھنے کا فائدہ نہیں۔”
“تھنک یار! تُو نہیں ہوتا تو پتہ نہیں ہم کیا کرتے۔”
حامد نے سرد لہجے میں کہا، “زندہ ہوتے تو کچھ کرتے نا، اس سے پہلے ہی باس کے ہاتھوں مارے جا چکے ہوتے!”
ایک اور آدمی، جو باقیوں سے کچھ زیادہ پریشان لگ رہا تھا، آگے بڑھا۔ “یار، کیا تُو اُسے سچ میں مار دے گا؟”
حامد نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، “کسے؟”
“وہی… نمبر ون کو۔”
یہاں کوئی کسی کو نام سے نہیں پکارتا تھا۔ سبھی اپنے مخصوص نمبرز سے پہچانے جاتے تھے۔ صرف حامد کو اس کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
حامد کے چہرے پر عجیب سی بےحسی پھیل گئی۔ “ہاں… باس کا آرڈر ہے، کرنا تو پڑے گا۔ اس کا پاؤں بلکل فیکچر ہو چکا ہے، اور ہاتھ کی ہڈی بھی ٹوٹ چکی ہے۔ آپریشن ہو گیا ہے، لیکن وہ دوبارہ پہلے کی طرح لڑ نہیں سکتا۔ ابھی تو اس کا ہاتھ بلکل حرکت میں بھی نہیں آ رہا۔”
کچھ لمحے خاموشی رہی۔ پھر حامد نے خود ہی بات بڑھائی، “اگر بہت دیکھ بھال کے بعد بھی وہ پہلے جیسا ہو سکتا تو میں اُسے بچا لیتا، مگر اب میں مجبور ہوں۔ کچھ نہیں کر سکتا۔”
“چھوڑو، ہم سب کا انجام بھی کچھ خاص نہیں ہونا۔” کسی نے سرد لہجے میں کہا۔ “پر تُو جا کیوں نہیں رہا ہمارے ساتھ؟”
حامد نے کندھے اچکائے۔ “کیونکہ میں ٹریننگ پر ہوں۔”
“اوئے، کس کو پاگل بنا رہا ہے؟ جب ہم سب جا رہے ہیں تو تُجھے یہاں ٹریننگ کون دے گا؟ اور باس نے کہا تھا کہ ٹریننگ بھی ہم سے لینی ہے، تو پھر تُو کیسے باس کو بے وقوف بنا رہا ہے؟”
دوسرا آدمی ذرا قریب آیا اور سرگوشی میں بولا، “تُجھے ڈر لگ رہا ہے وہاں جانے سے، ہے نا؟”
حامد نے گہری سانس لی، جیسے اپنے اندر کے خوف کو تسلیم کر رہا ہو۔ “کچھ دن اور ہیں میرے پاس جینے کے، سالو، بس جی لینے دو!”
“ایسے مت بول، تُجھے کچھ نہیں ہو گا۔ ہم تجھے اچھی طرح ٹرین کر دیں گے۔”
“یہ کس کو جھوٹی تسلی دے رہے ہو؟ تم سب بھی جانتے ہو، اور میں بھی… حامد جس دن لڑنے پہنچ گیا، اُس دن مارا جائے گا!”
“کچھ نہیں ہوتا! ڈر کے آگے جیت ہے، تُجھے بھی اپنے ڈر سے لڑنا ہوگا۔”
حامد نے ایک لمحے کو سب کو دیکھا، پھر سر جھٹک کر بولا، “اوکے، تم لوگ مجھے لڑنا سکھا دینا، فِحال جاؤ جا کر تیاری کرو۔ صرف بیس منٹ میں وہاں پہنچنا ہے۔”
سب تیزی سے جانے لگے، مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اُن کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے—کوئی ایک ان میں شامل نہیں ہو رہا، بلکہ کسی کی جگہ لے چکا تھا۔۔
پیچھے سے ایک سایہ تیزی سے حرکت میں آیا۔ نمبر فور، جو روانگی کے لیے تیار تھا، اچانک خاموشی سے غائب کر دیا گیا۔ کوئی جان نہ پایا کہ کب اور کیسے۔ اور اب… وہی شخص، جو اصل میں تھا ہی نہیں، ان میں شامل ہو چکا تھا۔
++++++++++++
ہال روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ شان و شوکت کا ایسا مظاہرہ کم ہی دیکھنے کو ملتا تھا۔ ہر طرف مشہور شخصیات، فلمی ستارے، اور امیر کبیر لوگ موجود تھے۔ قیمتی زیورات کی چمک اور برانڈڈ ملبوسات کی جھلک نے ماحول کو اور بھی دلفریب بنا دیا تھا۔
مہر، ماہی کا ہاتھ تھامے، مختلف لوگوں سے مل رہی تھی۔ وہ ایک مشہور شخصیت تو نہیں تھی، لیکن پھر بھی یہاں کئی لوگ اس سے بخوبی واقف تھے۔ دوسری طرف ماہی مہر کے ساتھ ساتھ رسمی “ہیلو، ہائے” کہہ کر اپنے خیالات میں گم تھی۔ اس کے دماغ میں بس ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا—براؤن لینز ولید کے پاس کیا کر رہا تھا؟
“اگر وہ لینسز لگاتا ہے تو اس کے پاس اور بھی رنگ کے لینز ہونے چاہئیں، صرف براؤن ہی کیوں؟” ماہی نے خود سے سوال کیا۔
ایک خیال اس کے ذہن میں ابھرا—کیا ولید ہی ایم ڈی مافیا ہے؟
“نہیں! میں یہ معمہ حل کرکے رہوں گی۔” ماہی نے دل ہی دل میں تہیہ کر لیا۔
“اگر ولید ہوا تو؟” اس نے خود سے سوال کیا، مگر اگلے ہی لمحے اس کے لب بھنچ گئے۔ “قسم سے، اگر ولید ہُوا تو۔۔۔ ماہی اسے زمین میں زندہ گاڑ دے گی!”
ولید زویان۔۔۔ یا ایم ڈی مافیا۔۔۔
کیا دونوں ایک ہی ہیں؟
ماہی کی انگلیاں مٹھی میں بند ہو گئیں۔ “بس تم لوگ الٹی گنتی گننا شروع کر دو!”
ماہی نے تہیہ کرلیا تھا کہ اب وہ پتہ لگا کے رہے گی۔۔۔
پارٹی کے باہر سیکیورٹی کے لیے بے شمار گارڈز تعینات تھے، مگر حیرانی کی بات یہ تھی کہ اندر ایک بھی گارڈ موجود نہیں تھا۔ حالانکہ تقریب ایک شاندار بینکوئٹ ہال میں منعقد کی گئی تھی، مگر اندر داخل ہونے یا باہر نکلنے کے لیے صرف ایک ہی دروازہ تھا، جو مرکزی راستہ تھا۔
اسی دوران، باہر کھڑے تمام گارڈز بے ہوش ہو چکے تھے۔ ایم ڈی مافیا کے آدمیوں نے انتہائی مہارت کے ساتھ انہیں بے اثر کر دیا تھا۔
“نمبر دو اور نمبر تین، تم دونوں باہر ہی رہو گے۔” ایم ڈی نے گہری آواز میں حکم دیا۔ “نہ کسی کو اندر آنے دینا اور نہ کسی کو باہر جانے دینا۔”
“اور ان گارڈز کو پیچھے کچرے میں ڈال دو۔” ایم ڈی نے مزید کہا۔
“جی باس!” سب نے ایک ساتھ سر ہلا کر حکم کی تعمیل کی۔
“باقی سب اندر آ جاؤ!” ایم ڈی نے سرد مہری سے کہا اور اس کے ساتھی اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
ہال میں اچانک گولیوں کی آواز گونجی۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئے، ایک ساتھ کئی ہوائی فائر کیے گئے، جن کی آواز نے پورے ہال میں سنسنی پھیلا دی۔ ہر کوئی گھبرا کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگا۔
“کوئی ہلے گا نہیں! نہیں تو یہیں غاڑ دوں گا!” ایم ڈی کی گرجدار آواز گونجی۔
ڈر کے مارے سب سہم کر ایک دوسرے سے چپک گئے۔ مہر بھی لرزتی ہوئی ماہی کے قریب جا کھڑی ہوئی۔ مگر ماہی بہت بہادر اور حاضر دماغ تھی، عام لوگوں کی طرح گن اور گولی سے نہیں ڈرتی تھی۔ وہ جلدی سے اپنا فون سائلنٹ کر کے اپنی پینٹ کی پچھلی جیب میں ڈال چکی تھی۔
“سب کا فون جمع کر لو!” ایم ڈی نے اپنے ایک آدمی کو حکم دیا۔
ایم ڈی کا ایک آدمی سب سے فون اکٹھے کرنے لگا
جب وہ ماہی اور مہر کے قریب آیا تو ماہی نے گھبراہٹ کی اداکاری کی اور جلدی سے مہر کے بیگ سے اس کا فون نکال کر دے دیا۔
“ہم بہنیں ہیں اور ایک ہی فون استعمال کرتے ہیں۔” ماہی نے ڈرتے ہوئے کہا۔
وہ آدمی کچھ کہے بغیر آگے بڑھ گیا اور باقی سب کے فون جمع کرنے لگا۔ پھر وہ ایم ڈی کے پاس آیا اور سرگوشی میں کچھ کہا۔ اور پھر تمام فونز کے بیٹری اور سم کارڈ نکلنے لگا
“اب سب لڑکیاں اپنا زیور اتار کر اِدھر میرے سامنے فرش پر رکھ دو!” ایم ڈی نے ایک زوردار حکم دیا۔
سہمے ہوئے لوگ بغیر کوئی مزاحمت کیے اس کے حکم کی تعمیل کرنے لگے۔ ہال میں خوف کا سایہ گہرا ہو چکا تھا، لیکن ماہی کے ذہن میں کوئی اور ہی منصوبہ چل رہا تھا۔
ماہی نے جلدی سے مہر سے خود کو چھڑایا اور ٹیبل کے نیچے گھس گئی۔
ٹیبل کے اوپر کپڑا ڈلا ہوا تھا ، جو اسے چھپانے کے لیے کافی تھا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا لیکن اس کے ہاتھ کانپ نہیں رہے تھے۔ اس نے جیب سے فون نکالا اور تیزی سے پولیس کا نمبر ملانے لگی۔
ابھی نمبر ملایا ہی تھا کہ اچانک ایک اور روشنی اس کے چہرے پر پڑی۔
“Not bad idea…”
ایک بھاری اور زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ آواز آئی۔
ٹیبل کا کپڑا ہٹائے وہ اُس کے پاس ہی بیٹھا تھا۔۔۔ گہری بھوری نظریں اس کے چہرے پر جمائے۔
وہ بے حد قریب تھا، اتنا کہ ماہی کو اس کی سانس اپنی جلد پر محسوس ہو رہی تھی۔ ایم ڈی کی نظریں برف جیسی سرد تھیں، مگر ان میں ایک عجیب سا چمک تھی۔
ماہی نے فون سے نظریں ہٹا کر اُسے دیکھا، اُس کی چمکتی سیاہ آنکھیں بھوری سرد آنکھوں سے ٹکرائیں—یہ محض لمحے کا کھیل تھا، مگر جیسے وقت کی روانی تھم گئی ہو۔ ایک پل، ایک نظر، اور سب کچھ بدل گیا۔ اُس کی دھڑکن بےترتیب ہوگئی، جیسے کسی نے اچانک دل کے ساز پر کوئی انجان سر چھیڑ دیا ہو۔
نہ جانے کیوں اُس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔
کیا اُسے ڈر لگ رہا تھا۔۔۔ ؟
ڈر؟ نہیں، یہ ڈر نہیں تھا۔ مگر پھر بھی اس کا دل اتنی تیزی سے کیوں دھڑک رہا تھا؟
اُس پر نظرے گھاڑے اُس نے تیزی سے اس کے ہاتھ سے فون چھین لیا۔
ماہی بغیر کوئی حرکت کیے ابھی تک اُسے ہی دیکھ رہی تھی، جیسے آنکھیں پلک جھپکنا بھی بھول گئی ہوں۔اور اُس نے بھی تو اپنی نظریں ماہی پر سے نہیں ہٹائی تھیں۔۔۔
اچانک اس نے ایک جھٹکے سے اس کی کلائی پکڑی اور سختی سے اسے گھسیٹتا ہوا باہر نکالا۔ اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ ماہی کے ہاتھ میں درد کی ایک شدید لہر دوڑ گئی۔
اور پھر ایم ڈی نے بے رحمی کے ساتھ ماہی کو اپنے بندوں کی طرف پھینک دیا وہ بری طرح لڑکھڑائی اور زمین پر گرنے والی تھی کہ ایم ڈی کے ایک آدمی نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا۔
“ڈالو اسے گاڑی میں! اب اس کی عقل ٹھکانے لگانی پڑے گی۔” ایم ڈی نے سرد لہجہ میں حکم دیا۔۔۔
نمبر چار نے ایم ڈی کی طرف دیکھا، جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
“ماہی کی اجازت کے بغیر ماہی کو کوئی چھو بھی نہیں سکتا، اور تم گاڑی میں ڈالنے کی بات کر رہے ہو؟”
وہ ہوش میں آتے ہی ان پر برس پڑی تھی، اس کی آواز میں بے خوفی تھی، جیسے کوئی بندش اسے روک ہی نہ سکتی ہو۔
ماہی نے ایک جھٹکے میں خود کو سنبھالا، اور پیچھے ہوتے ہی ایک لٹ جھٹک اُس آدمی کے پیٹ میں مُکا
مارا ۔۔ وہ گڑبڑایا، شاید اتنی جلدی اس ردِعمل کی توقع نہ تھی۔
“چہ چہ، بڑا ہی خراب زمانہ آ گیا ہے۔ جس نے تمہیں سنبھالا، اُسے ہی مار دیا۔۔۔”
پھر وہ اپنے آدمی کی طرف دیکھ کر بولا، “سنبھال ایسے…”
ماہی نے جیسے ہی ایک اور حملے کی کوشش کی، آدمی نے پیچھے سے اسے قابو کرنے کی کوشش کی، مگر ماہی کہاں رکنے والی تھی؟ اس نے بجلی کی تیزی سے مڑ کر اپنے دانت اس کے ہاتھ میں گاڑ دیے، اور اس کے فوراً بعد ایک زوردار گھونسا اس کے چہرے پر دے مارا۔
“ہی ہی ہی… بہت اچھے بندے سے سیکھی ہے فائٹنگ!”
ماہی نے مسکراتے ہوئے کہا،
وہ دل ہی دل میں کچھ بڑبڑاتا اپنی ناک چیک کرتا واپس سے اُسے پکڑ لیا
اسی دوران، مہر ایک کونے میں سہمی کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں مسلسل ماہی اور ایم ڈی کے درمیان بھٹک رہی تھیں۔ وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ سب کیسے پل میں بدل گیا۔
“باس…!” نمبر پانچ چلایا، جب ایک لڑکی نے اپنا سارا جیولری اتار کر رکھ دیا، مگر ایک لاکٹ اپنے گلے سے نہیں اتارا۔
ایم ڈی نے ایک نظر اس کی طرف ڈالی اور بے پرواہی سے بولا، “رہنے دو… ” ایک لاکٹ سے ایم ڈی کو کیا ہی فرق پڑ جانا تھا وہ ویسے بھی یہاں سے سب لینے تھوڑی نہ آیا تھا ۔۔۔۔
“باس، اس میں کیمرا لگا ہوا ہے۔۔۔” نمبر پانچ نے اچانک کہا،
“کیمرا؟” ایم ڈی کے چہرے پر حیرت کے آثار ابھرے۔
“ہاں باس، یہ صرف لاکٹ نہیں ہے، اس میں مِنی کیمرہ لگا ہوا ہے… اور یہ اسے دینے کو تیار نہیں!”
ایم ڈی کی نظریں اس ضدی لڑکی پر جم گئیں، جو اپنے لاکٹ کو دونوں ہاتھوں میں سختی سے تھامے کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر خوف اور ہٹ دھرمی کا عجیب امتزاج تھا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ لاکٹ اس کے لیے کتنا قیمتی ہے، اور کسی بھی قیمت پر اسے نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔
ایم ڈی کی آنکھوں میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ “مارو چماٹ، چھینو لاکٹ اور گاڑی میں ڈال دو!” وہ دھاڑا۔
یہ حکم اچانک نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ ایک عوامی تقریب تھی، اور یہاں زیادہ دیر رکنا خطرناک ہو سکتا تھا۔ پولیس کسی بھی وقت پہنچ سکتی تھی، چاہے اس نے تمام راستے بند ہی کیوں نہ کروا دیے ہوں۔ لیکن وہ اس وقت کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔ ان سب کا حساب تو وہ اپنی جگہ پر ہی برابر کرے گا۔
ماہی نے موقع دیکھ کر ایک بار پھر وار کیا۔ اس نے اپنا شوز والا پیر اٹھایا اور پوری طاقت سے پیچھے اُس شخص کے پاؤں پر مارا، لیکن وہ شخص شاید کسی اور ہی مٹی کا بنا تھا۔ ایک لمحے کے لیے بھی نہ ہلا، بلکہ ویسے ہی مضبوطی سے اسے پکڑے رہا۔
اسی دوران، نمبر پانچ نے ایک زور دار تھپڑ لڑکی کے چہرے پر مارا، اور لاکٹ اس کے ہاتھوں سے چھین لیا۔ وہ بمشکل چیخ پائی تھی کہ اگلے ہی لمحے انجکشن اس کی گردن میں لگا دیا گیا۔ چند سیکنڈ کے اندر ہی وہ بے ہوش ہو کر گر گئی۔
“یہ نہیں کرنا… ماہی خود ہی گاڑی میں جا کر بیٹھ جائے گی۔۔”
ماہی کی آواز غیر متوقع طور پر نرم تھی، شاید زندگی میں پہلی بار وہ اتنے پیار سے کسی سے کچھ کہہ رہی تھی۔ اس کے الفاظ میں التجا تھی، مگر سامنے کھڑا آدمی بے حس مجسمے کی مانند تھا، جیسے سنا ہی نہ ہو۔
اِسی دوران ایم ڈی نے جیب سے ایک شیشی نکالی۔
“چہ چہ، کیا زمانہ آ گیا ہے… لوگ سمجھتے ہیں کہ ایم ڈی ان کے لیے کام کرے گا؟”
یہ کہتے ہی اس نے شیشی کا ڈھکن کھولا اور اس میں موجود تیزاب کو جیولری پر انڈیل دیا۔
دیکھتے ہی دیکھتے چمکتی ہوئی جیولری موم کی طرح پگھلنے لگی۔ وہ نگینے، وہ سونے کے ہار، سبھی دھواں بن کر گھل رہے تھے۔
“باس! یہ کیا کیا آپ نے؟” ایک آدمی چیخا۔
“ہم تو نیکلس لینے آئے تھے نا؟
What the hell!”
ایم ڈی کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ وہ ایک جھٹکے میں آدمی کی طرف مڑا اور غصے سے دھاڑا،
“تم لوگ مجھے بھول گئے ہو؟
ایم ڈی کسی کی غلامی نہیں کرتا ! لوگ ایم ڈی کی غلامی کرتے ہیں۔
ایم ڈی کسی کے لیے کام نہیں کرتا!
لوگ ایم ڈی کے لیے کام کرتے ہیں!”
ایم ڈی نے ہاتھ کے اشارے سے نمبر پانچ کو بلایا، “اس کی ویڈیو بناؤ اور حامد کو سینڈ کرو… اور اسے کہو، جس نے یہ کام کرنے کو کہا تھا، وہ بھی دیکھ لے کہ ایم ڈی کسی کا غلام نہیں۔”
“پر باس… ڈیل کا کیا ہوگا؟” اُس نے پھر ہچکچاتے ہوئے بولا۔
ایم ڈی نے ایک تلخ ہنسی ہنسی، “فکر نہ کرو، وہ تو اُسے ویسے ہی ایم ڈی کے ساتھ کرنی پڑے گی۔”
پھر وہ دروازے کی طرف بڑھا، مگر رکتے ہوئے ایک طرف اشارہ کیا۔
“اِس لڑکی کو بھی اٹھا لو۔”
یہ برتھڈے گرل تھی—وہی جس کی پارٹی تھی۔۔ دو آدمی فوراً آگے بڑھے اور اسے بازوؤں سے جکڑ لیا۔
ماہی نے موقع دیکھتے ہی ایک اور وار کیا، وہ پوری قوت سے جھٹکی، مگر وہ آدمی کسی چٹان کی طرح اسے قابو میں رکھے ہوئے تھا۔
“اگر ماہی کو انجکشن لگایا، تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔” ماہی نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
اس کے الفاظ میں چھپی وارننگ کسی اور پر اثر ڈالتی یا نہیں، مگر اس شخص نے جو اسے جکڑے کھڑا تھا، ہلکی سی سرگوشی میں کہا،
“اچھا ہو کب رہا ہے میرے ساتھ؟”
یہ الفاظ اتنے دھیمے سے بکل قریب ماہی کے کان میں سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔ وہ ایک لمحے کے لیے چونک گئی۔
“تم بولتے بھی ہو؟” وہ حیران ہوئی۔ “مجھے تو لگا گونگے ہو… اتنی دیر سے تمہیں مار رہی ہوں، ایک لفظ نہیں نکلا، اور اب اچانک سے؟”
وہ ہلکا سا ہنسا، لیکن اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ “ہاں، ہم سب بولتے ہیں… لیکن زیادہ بولنے کی اجازت نہیں۔”
اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی دھیمہ تھا، جیسے کوئی اور نہیں سن لے۔۔۔
ماہی نے طنزیہ انداز میں کہا، “ہیں؟ آواز کا بھی پردہ کرتے ہو تم لوگ؟”
“پتہ نہیں، باس کا آرڈر ہے یہ۔ میں اس بارے میں لاعلم ہوں۔۔۔” اس کے لہجے میں عجیب سنجیدگی تھی۔
ماہی نے غور کیا، ان دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کسی اور ماحول میں ہوتی، تو لگتا جیسے پرانے دوست ایک دوسرے کو چیلنج کر رہے ہوں۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ آدمی اس پر قابو پائے ہوئے تھا۔
اس کے ہاتھوں کی گرفت مضبوط تھی۔ ایک ہاتھ ماہی کے گلے کے قریب تھا، جبکہ دوسرا اس کے دونوں ہاتھوں کو قابو کیے ہوئے اس کی پشت کی طرف تھا۔ گلے پر رکھا ہاتھ ابھی ڈھیلا تھا، مگر جیسے ہی ماہی کوئی مزاحمت کرتی، وہ اپنے ہاتھ کی گرفت سخت کر دیتا، اور ماہی کی سانس رکنے لگتی۔
ماہی مجبوراً سیدھی کھڑی تھی، مگر اس کی بغاوت کم نہ ہوئی۔ وہ بار بار اپنے پیر اٹھا کر اس کے پیر پر مار رہی تھی ، مگر وہ ڈھیٹ بنا کھڑا رہا۔
“کتنے ضدی ہو تم…!” ماہی نے ہانپتے ہوئے کہا، مگر ہار ماننے کے موڈ میں نہیں تھی۔
” ویسے بہت غلط بات ہے نا…” ماہی نے سنجیدگی سے کہا، “یہ کیسا عجیب آرڈر ہے کہ اپنی ہی بولتی بند کر لو؟”
وہ جان بوجھ کر اس شخص کو چھیڑ رہی تھی، جو مسلسل خاموشی سے اپنے “باس” کے حکم پر عمل کر رہا تھا۔
“ابھی اگر ماہی تم لوگوں کی باس ہوتی نا…” وہ ہلکا سا مسکرائی، “تو دیکھتے تم لوگ! ایسے ایسے رولز رکھتی کہ سب خوش ہو جاتے۔”
“اچھا؟” وہ آدمی ہلکے سے مسکرایا، “اور وہ کون سے رولز ہوتے؟”
“سب سے پہلا رولز یہ ہوتا کہ کسی کی بھی زبان بندی نہیں ہوگی! سب جو چاہے بول سکتے ہیں، حتیٰ کہ ایم ڈی کے سامنے بھی!”
” اور دوسرا رولز ہوتا، جو بھی شخص آپ کو بذّت کرے سیدھا گن نکلو اور اُس کو شوٹ کردو حتیٰ کے رشتے داروں کو بھی ”
مگر پھر وہ شخص اچانک سنجیدہ ہو گیا۔
“سوری، یہ میں نہیں سن سکتا۔۔۔” اس نے دھیرے سے کہا، “مجھے تمہاری بولتی بند کرنی پڑے گی…۔”
“کیا؟” ماہی کا ماتھا شکن آلود ہوا، اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔
لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ مزید کہہ پاتی، ایک تیز چبھن اس کے بازو میں محسوس ہوئی۔
اس کی پلکیں بوجھل ہونے لگیں، دماغ دھندلانے لگا، اور پھر… اندھیرا چھا گیا۔
مہر وہیں کھڑی رہ گئی، آنکھوں میں بے بسی کے آنسو تیرنے لگے۔
“میں کیا کروں؟”
اس کے ذہن میں ہزاروں سوالات دوڑ رہے تھے۔ وہ گھر کیسے جائے گی؟ وہاں جا کر کیا جواب دے گی سب کو؟
“ایم ڈی اب ماہی کے ساتھ کیا کرے گا؟”
یہ سوچ ہی اسے خوفزدہ کر دینے کے لیے کافی تھی۔ ایم ڈی کو وہ زیادہ نہیں جانتی تھی، لیکن جو کچھ اس نے آج تک دیکھا اور سنا تھا اُس کے بارے میں ، اس کے بعد کوئی بھی امید رکھنا حماقت تھی۔ وہ شخص سفاک تھا، رحم سے خالی۔ اور اس کے آدمی بھی ویسے ہی تھے— بے حس، سنگدل، اور حکم کے غلام۔
“گھر جا کر کیا کہوں گی؟”
وہ سوچ رہی تھی کہ ماہی کے گھر والے کیا کہیں گے؟ وہ سب سے زیادہ اپنی ماں سے ڈر رہی تھی۔ اگر اس نے ماہی کے بارے میں کچھ نہ بتایا، تو ضمیر اسے سونے نہیں دے گا۔ اور اگر بتا دیا، تو سب کچھ بگڑ سکتا تھا۔
“اور سب سے اہم سوال… کیا ماہی کبھی واپس آئے گی؟”
یہ سوچ اس کے جسم میں جھرجھری دوڑا گئی۔ کیا ماہی کے لیے واپسی کا کوئی راستہ بھی بچا تھا؟
“مجھے اسے یہاں نہیں لانا چاہیے تھا!”
اب مہر کو اپنے فیصلے پر شدید پچھتاوا ہو رہا تھا۔ کاش وہ کبھی اس جگہ نہ آتی،
“یہ سب میری غلطی ہے!”
وہ کسی ویران گوشے میں کھڑی رو رہی تھی، اور کوئی بھی اس کی بے بسی کو دیکھنے والا نہیں تھا۔
مگر کیا واقعی وہ کچھ نہیں کر سکتی تھی؟ کیا سب کچھ ختم ہو چکا تھا؟ یا ابھی امید باقی تھی؟
جاری ہے۔۔۔۔
