dil ya dhrkan

Dil ya dharkan Episode 7 written by siddiqui

دل یا دھڑکن ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۷

ماہی کو جب ہوش آیا تو اُس نے خود کو ایک بند، تاریک کمرے میں پایا۔ کمرے میں سوائے ایک پرانی لکڑی کی کرسی کے اور کچھ نہ تھا۔ ماحول میں گھٹن تھی اور دیواروں پر نمی کے دھبے واضح نظر
آ رہے تھے۔ کمرے کے ایک کونے میں ایک اور لڑکی بھی تھی، جو گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اُس کی آنکھیں بھی بوجھل تھیں، جیسے ابھی ابھی وہ بھی ہوش میں آئی ہو۔

ماہی نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا، درد کی ایک تیز لہر اُس کے جسم میں دوڑ گئی۔ اُس نے لڑکی کی طرف دیکھا کچھ دیر تک تو ماہی اُس لڑکی کو گھورتی رہی۔۔ پھر ایک لمبی سانس لیتی پُرسکون لہجے
میں پوچھا، “کون ہو تم؟”

لڑکی نے سر اٹھایا،
“میں ناںٔلہ۔” اُس نے مختصر جواب دیا۔

ماہی نے گہری سانس لی اور کچھ لمحے خاموشی اختیار کی، پھر بولی، “بہت شوق ہے کیا مرنے کا تمہیں؟ نیکلس میں کیمرا لگا کر کون گھومتا ہے؟ اور جب وہ مان رہے تھے تو چپ چاپ سے دے کیوں نہیں دیا؟”

ناںٔلہ نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اُسے دیکھا، “یہی سوال اگر میں تم سے کروں تو؟ بہت شوق ہے کیا تمہیں مرنے کا ؟ فون سے پولیس کو کال کرنے کی ضرورت کیا تھی؟”

ماہی نے سخت نظروں سے اُسے دیکھا اور سنجیدگی سے بولی، “میں نے یہ سب تم سب کو بچانے کے لیے کیا تھا اور اُن سب کو پکڑوانے کے لیے۔
ماہی کے آنکھوں کے سامنے کچھ غلط ہو ۔۔ اور ماہی چپ رہے ایسا ہو نہیں سکتا ۔۔۔
اگر ماہی کا بس چلے تو اُن سب کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔”

ناںٔلہ نے غور سے ماہی کی بات سنی اور ہلکا سا سر ہلایا، “بس ایسا ہی سمجھ لو، میں بھی یہی چاہتی ہوں۔” اُس نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

ماہی نے اب سوالیہ نظروں سے ناںٔلہ کو دیکھا، “پر نیکلس میں کیمرا ؟ یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔”

ناںٔلہ نے ہلکی سانس لی، “بس یہ سمجھو کہ میں ایم ڈی مافیا کو پکڑوانا چاہتی ہوں۔”

یہ سنتے ہی ماہی کے چہرے کے تاثرات سخت ہوگئے، “مطلب؟ تم ایجنسی کی بندی ہو؟”

نائلہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر جھکایا، “ہمم، لیکن کسی کو بتانا مت۔ میں وہاں پارٹی انجوائے کرنے نہیں بلکہ ایم ڈی مافیا کا ایک اور راز کھولنے گئی تھی، مگر ناکام ہوگئی۔ مجھے بس وہاں کا سارا منظر ریکارڈ کرنا تھا۔”

ماہی نے نظریں تیز کر کے اُسے دیکھا، “تو کیا تم نے؟”

نائلہ نے آہستہ سے سر ہلایا، “ہاں، میں نے ہی کیا وہ…”

اُس کی آواز سرگوشی میں بدل گئی۔
ماہی نے ایک پل کے لیے آنکھیں بند کیں اور گہری سانس لی۔
“مجھے ایم ڈی کے پاس رہ کر اندر کی معلومات حاصل کرنی ہیں تاکہ اپنے ساتھیوں تک پہنچ سکوں۔” ناںٔلہ نے فیصلہ کُن انداز میں کہا۔

اب دونوں کے بیچ خاموشی چھا گئی۔ پھر ناںٔلہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، “کیا۔۔۔؟ تم میری مدد کرو گی۔۔۔؟ کیونکہ میں نے تم میں اپنا والا جذبہ دیکھا ہے۔ بدلے میں تم مجھ سے پیسے لے سکتی ہو۔۔ یا کچھ اور۔۔۔ جو تمہیں چاہئے۔۔۔؟ مجھے بس ایم ڈی کا چہرہ ریویل کرنا ہے۔”

“ایم ڈی کا چہرہ ریویل کرنے کے بعد کیا کرو گی؟” ماہی نے پوچھا۔

“کچھ بھی نہیں۔۔۔ باقی کام پولیس کا ہے، مجھے بس پتہ لگانا ہے کہ ایم ڈی مافیا ہے کون۔۔۔؟” نائلہ نے جواب دیا۔

ماہی کا دماغ اب صحیح گھومنے لگا۔۔۔اگر ولید مافیا ہوا تو۔۔؟

+++++++++++++

رات کی سیاہی دبے پاؤں ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ سڑکیں سنسان تھیں، اور ہواؤں میں ایک عجیب سا خوف سرایت کر چکا تھا۔ مہر کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ گھر تو آ گئی، مگر اس کی سانسیں ابھی تک بے ترتیب تھیں،

وہ تیزی سے اپنے کمرے میں گھسی اور دروازہ بند کر لیا۔ پسینے سے شرابور، آنکھوں میں بے تحاشہ خوف لیے، وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ ماما کو پتہ چلا تو۔۔۔ وہ تو اسے جان سے مار دیں گی۔۔۔

ابھی تو وہ بچ جائے گی لیکن صبح صبح وہ کیا کرے گی۔۔۔؟

مہر کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔وہ کیا کرے کہاں جائے اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔

وہ کیا کرے کہاں جائے کس کو بتاۓ ؟ اگر اس نے ماں کو بتایا تو؟ نہیں! ماں تو اس کی جان ہی لے لیں گی۔ مگر کسی کو تو بتانا پڑے گا… ولی بھائی! ہاں، وہی سمجھیں گے۔ وہ ہمیشہ اس کا ساتھ دیتے تھے۔ ایک گھر میں وہیں تو ہیں جو اسے سمجھ سکتے ہیں۔۔۔
مہر نے جلدی سے آنسو پونچھے اور دروازہ کھول کر باہر نکلی۔ راہداری میں مدھم روشنی تھی۔ گھر میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی، بس گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دے رہی تھی۔ وہ ولی کے کمرے کی طرف بڑھی، دروازہ آہستہ سے کھولا۔
ولید گہری نیند میں تھا۔ کمبل آدھا زمین پر گر چکا تھا، اور اس کی سانسیں ہموار چل رہی تھیں۔ مہر ننگے پاؤں اس کے بیڈ کے قریب آئی اور ہلکی آواز میں بولی، ”بھائی…”

کوئی جواب نہیں آیا۔

”بھائی، پلیز اٹھو!” اس بار اس کی آواز لرز رہی تھی۔ آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔

ولی نے نیند میں کروٹ بدلی، آنکھوں کو بمشکل کھولا اور نیم خوابیدہ لہجے میں بولا، “کیا ہوا ہے مہر؟”

“بھائی… صحیح سے اٹھو، میری بات سنو… پلیز…”
اس کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے، ولی نے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی اور فوراً سمجھ گیا کہ کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔ وہ مہر کی عادت سے واقف تھا، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی ولی کے پاس آکر رو دیتی تھی۔ اس لیے اس نے تھکے تھکے انداز میں کہا،
“حارث نے پھر تُمہارے ساتھ کچھ کیا ہوگا۔۔۔ رو نہیں میں اُسے صبح دیکھ لونگا۔۔۔ ابھی جا کر سوجاؤ۔۔۔ بھائی ہے تُمہارا وہ بھی اُس کی بات کا بُرا نہیں مانتے ۔”

مہر نے جلدی سے سر نفی میں ہلایا، اس کی آنکھوں میں خوف تھا، دل میں بےچینی۔
“نہیں بھائی… حارث بھائی نے کچھ نہیں کیا…” اس کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔

ولی نے کچھ لمحے اسے بغور دیکھا، جیسے الفاظ کا انتظار کر رہا ہو، اور پھر مہر نے بمشکل بولنے کی کوشش کی،
“وہ… وہ ماہی… اُسے ایم ڈی مافیا اُٹھا کر لے گیا ہے!”

“کیا؟” ولید ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا، اس کے نیند کے اثرات لمحے میں غائب ہوگئے۔
“پاگل ہوگئی ہو؟ یہ کیا بول رہی ہو؟”

“سچ کہہ رہی ہوں بھائی…” مہر نے روتے ہوئے کہا

ولید کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا، اس کے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ ایم ڈی مافیا… یہ نام ہی کافی تھا کسی کو دہلانے کے لیے۔

پھر مہر نے ولی کو سب کچھ شروع سے لے کر آخر تک سب بتانا شروع کیا۔۔۔اور جیسے جیسے وہ بول رہی تھی ویسے ویسے اس کر دماغ کی رگیں تن رہی تھیں ۔

مہر مسلسل روئے جا رہی تھی، “اب کیا کریں بھائی؟ ماما کو بتاؤں تو بہت مارے گی مجھے… میں کیا کروں؟”

ولی نے ایک گہری سانس لی، خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کی، اور مضبوط لہجے میں بولا،
“سب سے پہلے، رونا بند کرو! اور جا کر آرام سے سوجاؤ۔ اور ماما کو کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صبح تک ماہی گھر آجائے گی۔”

“پر کیسے بھائی؟” مہر نے بے یقینی سے کہا۔

“جب بھائی کو بتا دیا ہے تو بھائی پر بھروسہ بھی رکھو، رونا بند کرو اور آرام سے سو جاؤ جا کر۔” ولی نے نرمی سے اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کیے۔
“اور ماہی کا کمرہ بند کر دو۔ اگر ماما پوچھیں تو کہہ دینا وہ پارٹی سے آ کر تھک کر سو گئی ہے “

مہر نے اثبات میں سر ہلایا، ولی بھائی کے کہنے پر دل کو تھوڑا سکون محسوس ہوا۔ وہ دل میں دعا کرتی اپنے کمرے کی طرف چلی گئی کہ بس ولی بھائی ماہی کو صحیح سلامت لے آئیں۔

مہر کے جانے کے بعد ولی نے گہرا سانس لیا اور بڑبڑایا، ” بہت شوق ہے اس کو مصیبت میں پھنسنے کا۔ ذرا بھی ڈر نہیں لگتا !

وہ بیڈ پر لیٹ گیا، مگر نیند اب اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس نے غصے سے سر جھٹکا، “مرنے دو اُسے وہیں… میری زندگی برباد کر کے رکھی ہوئی ہے اس نے… سکون کا سانس بھی لینے نہیں دیتی… کبھی کچھ تو کبھی کچھ!”

++++++++++++++

“کیا سوچ رہی ہو…؟” کچھ دیر خاموشی کے بعد ناںٔلہ نے ماہی کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔

ماہی نے نظریں جھکا لی، اس کے دل و دماغ میں ایک جنگ چھڑ چکی تھی۔ ناںٔلہ کی پیشکش کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے فیصلے پر اس کی پوری زندگی کا دار و مدار ہوگا۔ کچھ لمحے خاموشی میں گزر گئے، پھر اس نے دھیرے سے کہا،
“ماہی کو سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے…”

ناںٔلہ کی نظریں گہری ہوگئیں، پھر اس نے سر ہلایا، “ٹھیک ہے، دو دن لے لو، لیکن اس سے زیادہ نہیں۔”

ماہی کی سانسیں بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں پھنس چکی ہے۔ وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑانے لگی، دیواریں اونچی اور سخت تھیں، کھڑکی کہیں نہیں تھی، اور دروازہ بھاری لوہے کا تھا۔
“فی الحال یہاں سے نکلیں کیسے؟” ماہی نے دھیرے سے کہا،

ناںٔلہ نے ایک گہری سانس لی، “کوئی راستہ نظر تو نہیں آرہا…” اس کے لہجے میں بےبسی کا سایہ تھا،

“کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا…” ماہی نے آہستہ سے کہا،
ہاں کچھ سوچتے ہیں۔۔۔۔نائلہ نے اِدھر اُدھر دیکھتے کہا۔۔۔

+++++++++++++

ماہی اور ناںٔلہ کی نظریں بےچینی سے چاروں طرف گھوم رہی تھیں، کوئی راستہ، کوئی اشارہ، کوئی امید- مگر ہر طرف صرف بے بسی تھی۔

اچانک، دروازہ چرچراتے ہوئے کھلا۔

دونوں نے چونک کر اپنی نظریں دروازے کی طرف اٹھائیں۔ سامنے ایک دبلا پتلا لڑکا کھڑا تھا، سیاہ شرٹ اور پینٹ میں ملبوس، چہرے پر سیاہ ماسک، مگر آنکھیں… وہ آنکھیں عجیب تھیں-چھوٹی، مگر بےحد چمکدار، جیسے وہ ہر چیز کا مشاہدہ کر رہی ہوں، جیسے وہ کسی خاص مقصد کے لیے یہاں آیا ہو۔

اس لڑکے نے ایک لمحے کی بھی مہلت نہیں دی۔ ایک تیز، دھندلی سی خوشبو فضا میں پھیلی، اور اگلے ہی لمحے، سب کچھ اندھیرے میں ڈوب گیا۔

ماہی نے محسوس کیا کہ اس کا سر بھاری ہو رہا ہے، آنکھوں کے آگے دھند چھا رہی ہے۔ اس نے ہلکی سی سسکاری لی، کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر زبان لڑکھڑا گئی۔ ناںٔلہ کی بھی وہی حالت تھی، اس کے ہاتھ بےجان ہونے لگے، اور پھر…
سکوت۔
پورے کمرے میں صرف گہری خاموشی رہ گئی، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہوا میں ہلکی سی عجیب سی بو باقی تھی، شاید وہی جس نے ماہی اور ناںٔلہ کو بےہوش کر دیا تھا۔ سیاہ لباس میں ملبوس،
حامد آگے بڑھا، اس کی آنکھوں میں ایک انجانی سنجیدگی تھی۔
اس نے ایک نظر بےہوش پڑی ناںٔلہ پر ڈالی، جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔ پھر اس کی نظریں ماہی کی طرف مڑیں، جو فرش پر بےسدھ پڑی تھی۔
بغیر کسی ہچکچاہٹ کے، حامد نے ماہی کو اٹھایا۔ وہ ہلکی تھی، جیسے زندگی کا بوجھ بھی اس کے جسم سے غائب ہو چکا ہو۔
دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے ایک لمحے کے لیے رُک کر پیچھے دیکھا۔ ناںٔلہ اب بھی بےحرکت تھی، وقت جیسے تھم چکا تھا۔

پھر حامد دروازے سے باہر نکل گیا۔

+++++++++++++++++

اُسے جیسے ہی ہوش آیا، ایک لمحے کے لیے سب کچھ دھندلا سا لگا۔ آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو سر میں ایک عجیب سی ٹیس اٹھی، جیسے کسی نے دماغ کو مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔ ارد گرد گھپ اندھیرا تھا، اُسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ آخر اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔

دھیرے دھیرے سانسوں کو قابو میں لاتے ہوئے اُس نے آس پاس دیکھا۔ وہ اب بھی سیف ہاؤس میں تھا۔ کسی نے اسے یہاں چھوڑ دیا تھا یا وہ خود ہی بے ہوشی میں پڑا رہ گیا تھا؟ اُسے یاد نہیں آ رہا تھا۔
لڑکھڑاتے ہاتھوں سے اس نے جیب ٹٹولی اور فون نکالا۔ اسکرین کی روشنی اندھیرے میں ایک لمحے کے لیے چمکی۔ وقت دیکھا-تین بج کر پانچ منٹ!

“کیا مطلب۔۔۔ سب پارٹی میں چلے گئے؟ مجھے چھوڑ کر؟” اس کے دل میں ایک جھٹکا سا لگا۔

وہ ہڑبڑا کر اٹھا۔ “اب تک تو کام بھی ہو چکا ہوگا۔۔۔ اور باس۔۔۔”

اچانک خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔ “باس کو کیا جواب دوں گا؟” اس کے ہونٹ خشک ہونے لگے۔ “کہ مجھے کسی نے بے ہوش کر دیا تھا؟ کہ میں یہاں پڑا رہا، کسی ناکارہ چیز کی طرح؟”

نہیں! باس کے سامنے یہ بات کہنے کا مطلب تھا موت۔ وہ جانتا تھا کہ باس کو وضاحتوں سے نفرت تھی۔ وہ سوال نہیں سنتا تھا، صرف جواب مانگتا تھا-اور اگر جواب پسند نہ آئے تو بندہ ختم!

اس نے لرزتے ہاتھوں سے دیوار کا سہارا لیا اور مشکل سے کھڑا ہوا۔ جسم جیسے بوجھ سے دبا جا رہا تھا، جیسے ساری طاقت کسی نے نچوڑ لی ہو۔ مگر وقت کم تھا، اور اسے فوراً کچھ کرنا تھا۔

“ہاں۔۔۔ حامد!” اس کے دماغ میں ایک نام گونجا۔
“حامد سے بات کرنی پڑے گی!”

یہی واحد راستہ تھا، ورنہ باس کے سامنے جانے کا مطلب تھا موت!

اندھیرے میں گھسٹتے، لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ سیف ہاؤس سے نکلا۔ باہر کی ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے سے ٹکرائی، مگر وہ خوف اور پریشانی میں ایسا گم تھا کہ کچھ محسوس ہی نہ ہوا۔ گلیاں سنسان تھیں،

تیز قدموں سے چلتے ہوئے، وہ ایک بند فیکٹری کے قریب پہنچا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں حامد رہتا تھا، جہاں اکثر ان کے پلان بنتے تھے۔۔۔

“بھائی، مجھے معاف کر دو، میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا…” وہ شخص لرزتی آواز میں بولا، اس کا سانس بے ترتیب تھا، اور آنکھوں میں خوف صاف جھلک رہا تھا۔

حامد نے پرسکون انداز میں اسے دیکھا، جیسے اسے پہلے سے سب کچھ معلوم ہو۔

“پتہ نہیں کس نے پیچھے سے آ کر مجھے بےہوش کر دیا تھا… اب باس تو مجھے نہیں چھوڑیں گے، میں کیسے جاؤں ان کے سامنے؟” اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے جھلکنے لگے۔

حامد نے ایک گہری سانس لی ..

“فکر نہ کر… میں نے سنبھال لیا تھا سب کچھ۔ باس کو ذرا بھی شک نہیں ہوا کہ تُم نہیں تھے وہاں، میں چلا گیا تھا تیری جگہ۔”

“کیا واقعی؟” وہ حیرت سے اچھل پڑا، جیسے کسی نے اسے موت کے منہ سے کھینچ لیا ہو۔

حامد نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا، “ہاں، بس یاد رکھ، یہ بات کسی کو نہیں پتہ چلنی چاہیے۔ نہ بوس کو، نہ کسی اور کو۔ سمجھا؟”

وہ شخص جلدی سے سر ہلانے لگا، “ہاں، ہاں! میں کسی کو نہیں بتاؤں گا… حامد، تُو بہت اچھا ہے، اگر تُو نہ ہوتا، تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا!”

یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک ہو، لیکن خود کسی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔

وہ شخص جھجک کر بولا، “ویسے تُو ہر وقت یہیں رہتا ہے، تیرا کوئی گھر نہیں؟”

حامد نے سر جھکایا اور مدھم آواز میں کہا، “نہیں… میری کوئی فیملی نہیں ہے، میں شروع سے اکیلا ہوں۔ مجھے باہر کی دنیا سے ڈر لگتا ہے، اسی لیے یہاں رہتا ہوں۔”

“پھر تُو اسکول گیا بھی تھا یا نہیں؟” نمبر چار نے ہنستے ہوئے کہا۔

حامد نے ایک پل کو اسے دیکھا اور کہا، “ہاں، سرکاری اسکول اور کالج گیا تھا۔”

نمبر چار نے حیرانی سے کہا، “اچھا؟ مطلب تُو پڑھا لکھا بھی ہے؟”

حامد نے سر ہلایا، “ہاں، لیکن کچھ حقیقتیں کتابوں میں نہیں ملتیں، وہ زندگی سکھاتی ہے۔”

نمبر چار ہنسا، “واہ بھائی، بڑی گہری باتیں کرتا ہے تُو!”

حامد نے کوئی جواب نہیں دیا، بس خاموشی سے دیوار کی طرف دیکھنے لگا، جیسے وہ کسی اور دنیا میں کھو چکا ہو۔

+++++++++++++++

ماہی کی پلکیں آہستہ آہستہ حرکت میں آئیں، جیسے وہ کسی گہرے خواب سے باہر آرہی ہو۔ اس کا سر بھاری تھا، ذہن دھندلا سا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے گہری سانس لی اور آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں۔
وہ حیرانی سے ارد گرد دیکھنے لگی۔
یہ… اس کا اپنا کمرہ تھا۔
نرم گداز بستر، کھڑکی سے آتی ہلکی چاندنی، اور دیوار پر وہی تصویریں جو وہ ہمیشہ دیکھتی تھی۔
“میں یہاں کیسے پہنچی؟”
اس نے بمشکل سر اٹھایا، ارد گرد نظریں گھمائیں، اور تبھی اس کی نظر دروازے پر پڑی۔
وہاں ولید کھڑا تھا۔
وہ دروازے کے پاس کھڑا تھا، بازو سینے پر باندھے، چہرے پر وہی روایتی سنجیدگی، مگر آنکھوں میں غصے کی چنگاریاں صاف نظر آرہی تھیں۔۔

ماہی کا دل ایک پل کے لیے تیزی سے دھڑکا۔ اس نے ہلکے سے لب بھینچے، اور دل ہی دل میں سوچا،
“مطلب… میرا شک بالکل صحیح ہے۔”

“بہت شوق ہے تمہیں موت کے منہ میں جانے کا؟”
ولی کا لہجہ سخت تھا، جیسے ضبط کر رہا ہو۔

ماہی نے ہمیشہ کی طرح اس کی بات کو نظر انداز کیا اور سیدھا سوال کیا، “میں یہاں کیسے آئی؟”

ولی کے چہرے پر ہلکی سی سختی مزید گہری ہوگئی، “میں لے کر آیا۔”

“کیسے؟”

“میں سچ بتاؤں گا تو تم یقین نہیں کرو گی۔” ولی نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

“ہاں، کیونکہ ماہی جھوٹ پر یقین نہیں کرتی۔” ماہی نے طنز کیا۔۔۔

“سامان پیک کرو، تم واپس جا رہی ہو۔”

ولی جانتا تھا کہ پوری دنیا اسے سمجھ سکتی ہے، لیکن ماہی؟ وہ تو ولید کے معاملے میں ایسی تھی کہ اپنی آنکھوں کا دیکھا بھی نہ مانے۔
وہ ہمیشہ سے ضدی تھی، اپنے دل کی سنتی تھی، اور جو ایک بار اس کے دماغ میں آ جاتا، وہی اس کے لیے سچ بن جاتا۔ اسی لیے ولی نے فوراََ بات بدل لی۔۔۔

ماہی نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ “کہاں؟”

“جہاں سے آئی تھی… برسٹل سٹی واپس۔” ولی نے دوٹوک لہجے میں کہا۔ “میں نے سب کچھ کلیئر کر دیا ہے، مام نے تمہیں واپس بلا لیا ہے، اور تمہیں یہاں جوائن کیے ہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔”

ماہی کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔ “ماہی وہاں کیسے جا سکتی ہے۔۔۔ ” اس نے سختی سے کہا۔
” اور تُم نے کیسے کیا یہ صحیح۔۔۔ ماہی بتا رہی ہے ماہی وہاں جا کر کسی سے معافی نہیں مانگنے والی ۔۔۔

ولی نے تحمل سے کہا، “تمہیں کسی سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں، سب سیٹ ہو چکا ہے۔”

ماہی کی بھنویں تن گئیں، “تم کیا یہاں کے وزیرِاعظم ہو جو تم نے سب کچھ ٹھیک کر دیا ؟ اور مم… وہ کیسے مان گئیں؟ اور پروفیسر؟ انہوں نے تمہاری بات کیسے مان لی؟”
پھر اچانک اس کا دماغ تیزی سے چلنے لگا۔
“ایک منٹ… ایک منٹ…” وہ بولی، “تم نے مام سے کب بات کی؟ نہیں، تمہیں وہاں کیا ہُوا کیسے پتا چلا؟ میں نے تو تمہیں کچھ بھی نہیں بتایا!”

“تمہارے معاملے میں سب بن سکتا ہوں، سب کر سکتا ہوں۔۔۔” ولی نے سنجیدگی سے کہا، اس کی آنکھوں میں ایک عجب سی شدت تھی۔

“تم جو بھی کرو… پر میں واپس نہیں جاؤں گی۔”
ماہی کے تاثرات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔۔۔وہ ابھی بھی اُس کو چبھتی نظروں سے گھور رہی تھی۔۔۔

ولی نے الجھن سے اس کی طرف دیکھا، “کیوں؟”

“ماہی کا دل کر رہا ہے یہاں رہنے کا، تو ماہی یہیں رہے گی۔” ولی نے گہری سانس لی، جیسے اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہو۔

“تم جس وجہ سے یہاں روک رہی ہو، اس میں خطرہ ہے،” اس کا لہجہ سخت تھا۔

ماہی ایک قدم آگے بڑھی، اس کے اتنے قریب آ گئی کہ ولی کو اپنی سانسیں بے ترتیب ہوتی محسوس ہوئیں۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی، “تو تم بچا لو خطرے سے۔۔۔”

ولید نے جلدی سے اپنی نظریں جھکا لیں، جیسے اس کی آنکھوں کی شدت سے گھبرا گیا ہو۔ “ہمیشہ بچاتا رہوں گا۔۔۔” اس کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔

ماہی نے ولی کو یوں نظریں جھکاتے دیکھا، تو اچانک کچھ یاد آیا۔ اس کا دماغ سات سال پیچھے چلا گیا…

سات سال پہلے

رات کے دو بج رہے تھے۔ ولی، حارث اور ماہی تینوں ماہی کے گھر میں مووی دیکھ رہے تھے۔ ولید نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ بیٹھا تھا، کیونکہ ماہی اور حارث نے اسے مجبور کر لیا تھا۔
مووی میں ولی کی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی، لیکن اسے اپنے ہاتھ میں موجود پاپ کارن زیادہ عزیز لگ رہے تھے۔ جب اس کا اپنا پاپ کارن ختم ہوا، تو اس نے ماہی کا باؤل لے لیا۔۔

ماہی فلم میں اتنی گھسی ہوئی تھی کہ اسے فوراً احساس نہیں ہوا، لیکن جیسے ہی اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں پاپ کارن کا باول ہی نہیں ، تو وہ فوراً ولی کی طرف مڑی۔۔۔

“یہ میرا ہے؟” ماہی نے آنکھیں سکیڑ کر غصے سے ولید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔۔

ولی ایک لمحے کے لیے ٹھٹھک گیا، اور فوراََ نظرے جُھکا لی۔۔۔ پھر ہاتھ میں موجود پاپ کارن کا باؤل آگے کر دیا، “یہ لو، میں کون سا پورا کھا رہا ہوں۔۔۔”

ماہی کو ولی کے اس انداز پر شک ہوا۔ وہ مزید مزہ لینے کے لیے بولی، “یہی بات آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولو۔۔۔ جیسے میں بول رہی ہوں۔۔۔” وہ نیچے جھک کر ولی کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔

ولی نے بوکھلا کر نظریں ہٹائیں اور اٹھ کھڑا ہوا، “میں اور پاپ کارن لینے جا رہا ہوں۔۔۔” یہ کہتے ہی وہ تیزی سے وہاں سے بھاگ نکلا۔

ماہی کی ہنسی چھوٹ گئی۔ وہ اتنا لطف اندوز ہو رہی تھی کہ فوراً حارث کو بھی بتا دیا، اور دونوں خوب ہنسے۔

موجودہ وقت
ماہی ہوش میں واپس آئی، ولی کی نظریں اب بھی جھکی ہوئی تھیں۔

“تمہیں ڈر لگتا ہے مجھ سے؟” ماہی نے اچانک پوچھا۔

“کیا بول رہی ہو؟” ولی نے الجھن سے پوچھا۔

“تم نے نظریں کیوں جھکا لیں؟ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولو!”

ولی نے گہری سانس لی اور نظریں موڑ لیں، “نہیں۔۔۔”

ماہی نے حیرت اور دلچسپی سے اسے دیکھا، “تمہیں سچ میں مجھ سے ڈر لگتا ہے؟”

ولی ہلکا سا مسکرایا، لیکن اس کے لہجے میں سچائی تھی، “ہاں، لگتا ہے۔۔۔ تم مجھے ایسے نہ دیکھا کرو۔”

ماہی کے لبوں پر ایک شوخ مسکراہٹ آ گئی۔ “ہاہاہا… تمہیں سچ میں مجھ سے ڈر لگتا ہے؟” وہ مزید قریب ہوئی، جیسے اسے مزید چھیڑنا چاہتی ہو۔

ولی نے سر جھٹک کر کہا، “بس بس، بھولو نہیں، تمہیں یہ فائٹنگ اسکیل میں نے ہی سکھائی ہے!”

ماہی نے ایک فخریہ انداز میں سر ہلایا، “ہاں ہاں، پتا ہے! تم نے تو آرمی فورس والی ٹریننگ لے رکھی تھی نہ؟ میں تم سے سیکھتی تھی، پھر میری اور حارث کی فائٹ ہوتی تھی۔ وہ کہتا تھا کہ تم نے کسی سے سیکھی ہے، اور میں کہتی تھی… نہیں! ماہی سیکھی سکھائی پیدا ہوئی ہے!”

ولی نے ایک معنی خیز نظر اس پر ڈالی، “ہاں، تم جھوٹ بولنے میں تو شروع سے ماہر ہو۔”

ماہی ہنسی، “اور اس پر مجھے تمہارا درس بھی یاد ہے!”

ولی نے کندھے اچکائے، “ہاں، اور اب بھی وہی ہے چالیس دن تک جھوٹ بولنا چھوڑ دو، اللہ تمہارے جھوٹ کو بھی سچ بنا دے گا، اور چالیس دن تک جھوٹ بولتے رہو، اللہ تمہارے سچ کو بھی جھوٹ بنا دے گا۔”

ماہی نے بے یقینی سے سر جھٹکا، “ایسا ویسا کچھ نہیں ہوتا!”

ولی نے گہری نظروں سے اسے دیکھا، “یقین ہی نہیں تو کہاں سے ہوگا؟”

ماہی نے تیزی سے جواب دیا، “ہاں، تم پر تو بالکل نہیں ہے!”

ولی کی آنکھوں میں ایک سنجیدگی ابھری۔ “نہ کرو۔۔۔ لیکن میں تمہیں سمجھاتا رہوں گا، پروٹیکٹ کرتا رہوں گا۔ جانا ہے تو جاؤ، نہیں جانا تو مت جاؤ۔۔۔ لیکن میں اتنا بتا دوں کہ میں نے وہاں سب کچھ ٹھیک کر دیا ہے۔”

اور تم یہاں جو بھی کرنے لگی ہو ۔۔۔۔ ” ولی نے ایک لمحے کو توقف کیا، پھر آہستہ سے بولا،
“Be careful…”
اس کی سنجیدگی نے ماہی کے چہرے کی شوخی کم کر دی۔ ولی کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔
“اور جب مصیبت میں پھنس جاؤ، تو مجھے یاد کر لینا۔۔۔ اور جب تمہیں لگے کہ کوئی بھروسے کے لائق نہیں ہے-“
“تو تمہارے پاس آؤں، ہے نا؟” ماہی نے فوراً ولی کی بات کاٹ دی، اس کی آنکھوں میں چمک تھی، جیسے وہ ولی کی کمزوری پکڑ چکی ہو۔

ولی نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی، پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا، “نہیں… اس رب کے پاس جانا۔ وہ تمہیں سنبھال لے گا، اور راستہ بھی دکھا دے گا۔”

یہ کہہ کر وہ رکنے کے بجائے سیدھا اپنے روم کی طرف چلا گیا۔

ولید کی ایسی بات سن کر
ایک خیال جیسے اس کے ذہن میں گونج اٹھا…
“تم مافیا کیسے ہو سکتے ہو، ولید؟”

++++++++++++++++

جاری ہے۔۔۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *