دِل یا دھڑکن( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۸
کمرے میں قدم رکھتے ہی ایک بے نام سی خلش نے دل کو آ جکڑا۔ دیوار پر لٹکی گھڑی کی ٹک ٹک جیسے دل کے اندر گونجتی جا رہی تھی۔ اُس نے سر جھکایا، اور لمحہ بھر کو سانس روکی۔ خیالوں میں جیسے کوئی چہرہ ابھرا — ماہی۔
دل نے دھڑکنا کچھ تیز کر دیا۔
ماہی…
اُس نے آہستہ سے خود سے کہا، جیسے وہ سامنے ہو، جیسے اُس کی آنکھیں اُس کے دل کے اندر تک جھانک رہی ہوں۔
اُس کے ذہن میں ماہی کی آواز گونجی —
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولو…
وہ چونکا۔ ایک کرب سا لہجے میں اترا۔
میں تمہاری آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈال سکتا، ماہی… مجھے ڈر ہے، کہیں میرا دل بغاوت نہ کر دے۔
یہ صرف الفاظ نہیں تھے، یہ اُس کے دل کی مکمل شکستگی تھی۔ وہ جانتا تھا، اُس کے اندر ایک جنگ چل رہی ہے — خواہش اور احتیاط کے بیچ، جذبہ اور خوف کے بیچ۔
ہاں، لگتا ہے مجھے تم سے ڈر ہے… اپنے دل کے معاملے میں لگتا ہے۔ کہیں میرا دل بغاوت پر نہ اُتر آئے۔
وہ کھڑکی کے پاس آ کر رکا، نظریں دور افق پر جم گئیں۔
میں نہیں چاہتا کہ تمہیں میرے دل کی توڑ پھوڑ سنائی دے…
اُس کا لہجہ مدھم ہوا، جیسے دل کی گہرائیوں سے نکلی کوئی چیخ خاموشی میں تحلیل ہو گئی ہو۔
++++++++++++
ولید کے جانے کے بعد ماہی کمرے میں بیٹھی ناںٔلہ کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔ وہ کہاں ہوگی؟ کیسی ہوگی؟ اسے تو ناںٔلہ کا نمبر بھی نہیں معلوم تھا۔ اب وہ اس سے رابطہ کیسے کرے گی؟ یہی سوچتے سوچتے اُس کی آنکھ لگ گئی۔
صبح سات بجے، دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی، پھر مہر اندر داخل ہوئی۔ اس کا چہرہ فکر اور پریشانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ تیزی سے ماہی کے قریب آئی اور جھک کر اسے ہلکے سے جھنجھوڑا۔
تم ٹھیک ہو، ماہی؟ تمہیں کچھ ہوا تو نہیں، نا؟
مہر کی آواز میں بےچینی تھی۔
ماہی نے آنکھیں کھولیں اور ایک پل کے لیے حیرانی سے مہر کو دیکھا۔ پھر دھیرے سے مسکرائی۔
ہاں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ مجھے کیا ہوگا؟
اس نے سکون سے جواب دیا۔
مہر نے بے یقینی سے اسے دیکھا، پھر بولی،
تمہیں پتہ ہے، میں کتنی پریشان تھی؟ ساری رات نیند نہیں آئی۔ میں نے اتنی دعائیں کیں تمہارے لیے….
ماہی نے نرمی سے مہر کا ہاتھ تھاما۔
دیکھو، میں بالکل صحیح سلامت تمہارے سامنے بیٹھی ہوں۔ کچھ نہیں ہوا مجھے۔
مہر نے گہرا سانس لیا، جیسے کسی بوجھ سے آزاد ہوئی ہو۔
اللہ کا شکر ہے! لیکن ماہی، مافیا نے تمہیں کچھ کہا یا کچھ کیا تو نہیں؟
نہیں، تم بلاوجہ پریشان ہو رہی ہو، مہر۔
ماہی نے نرمی سے کہا۔
مہر نے ہلکی سی گردن ہلائی، پھر اچانک جیسے کچھ یاد آیا،
اچھا، ایک بات سنو… پلیز، اس سب کے بارے میں ماما کو مت بتانا….
ماہی نے ایک نظر اس پر ڈالی اور سر ہلایا۔
تم فکر مت کرو، میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔ اور اگر بتاؤں بھی، تو کون یقین کرے گا؟ کہ مجھے مافیا اٹھا کر لے گئے اور میں پھر بھی صحیح سلامت واپس آگئی؟
مہر نے زبردستی ہنسی چھپانے کی کوشش کی، مگر پھر فوراً سنجیدہ ہوگئی۔
وہ تو ولی بھائی کی وجہ سے ہوا نا… وہ نہ ہوتے تو تم اب تک مافیا کے پاس ہوتیں….
ماہی کے چہرے پر ایک سایہ لہرایا۔ وہ کچھ پل خاموش رہی، پھر آہستہ سے بولی،
تمہیں اپنے بھائی پر ذرا سا بھی شک نہیں ہوا؟ کہ وہ کیسے مجھے وہاں سے نکال لایا؟ اسے کیسے پتہ تھا کہ میں کہاں ہوں… کہیں اُس کا کوئی تعلق تو نہیں مافیا سے؟
مہر نے فوراً نفی میں سر ہلایا۔
استغفراللہ! ولی بھائی اور مافیا کا کوئی تعلق؟ توبہ توبہ! میرے بھائی کبھی ایسا نہیں کرسکتے۔ ماہی، تم جانتی تو ہو، وہ کتنے نیک اور اچھے ہیں۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے…
ماہی نے بغور مہر کو دیکھا۔ وہ کس قدر یقین سے کہہ رہی تھی….
مہر نے مزید وضاحت دی،
ویسے بھی، بھائی نے آرمی فورس میں ٹریننگ لی ہے۔ انہیں ہیکنگ آتی ہے، اور ان کے بہت سارے دوست بھی آرمی میں ہیں۔ انہی کے ذریعے تمہارا پتہ لگایا ہوگا…
ماہی نے ہلکی سی مسکراہٹ دبائی۔
کیا اتنا آسان ہے مافیا کے بارے میں پتہ لگانا؟
مہر نے فخر سے کہا،
نہیں، آسان نہیں ہے، لیکن ولی بھائی کے لیے ہے…
ماہی نے دل میں گہرا سانس لیا۔
توبہ… کس پر اتنا بھی بھروسہ نہ ہو کہ آنکھوں دیکھا بھی نظر نہ آئے… یہ کبھی نہیں مانے گی… ولی بھائی کی محبت کچھ زیادہ ہی اندھی ہے….
مہر نے اسے گہری سوچ میں گم پایا تو کہنے لگی،
اب کیا سوچنے لگی؟ زیادہ مت سوچو، آ جاؤ ناشتہ کرنے۔ ماما بلا رہی ہیں….
ماہی نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔
اوکے، تم چلو، میں آئی….
مہر سر ہلاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی، مگر ماہی اب بھی وہیں بیٹھی تھی۔
یہ کبھی نہیں مانے گی… مجھے حارث سے بات کرنی پڑے گی۔ دیکھوں تو وہ کیا سوچتا ہے۔ مگر وہ تو مہر سے بھی زیادہ ولی سے محبت کرتا ہے… کیا وہ مان جائے گا میری بات؟
وہ ابھی انہی سوچوں میں تھی کہ اچانک فون کی رنگ ٹون بجنے لگی۔
ماہی نے چونک کر فون کی طرف دیکھا، اسکرین پر ایک انجان نمبر جھلک رہا تھا۔ کچھ لمحوں کے توقف کے بعد اس نے میسج کھولا۔
ماہی، میں ناںٔلہ… تم ٹھیک ہو؟
ماہی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ناںٔلہ؟! وہ کہاں تھی؟ کیسی تھیں؟
اس نے تیزی سے جواب ٹائپ کیا
ناںٔلہ! تمہیں میرا نمبر کیسے ملا؟
چند لمحوں میں جواب آیا
یار، ایجنٹ کی بندی ہوں، نمبر نکلوانا میرے لیے کوئی مشکل کام نہیں!
یہ پڑھ کر ماہی کے لبوں پر بے یقینی کی ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔
تم وہاں سے نکل گئی؟ کیسے نکلی؟ مجھے لگا تھا کہ تم ابھی بھی وہیں ہوگی…..
پتہ نہیں… جب ہوش آیا تو میں کچرے میں پڑی تھی۔ شاید تم بھی وہیں کہیں ہونگی۔۔۔
کیا؟ کچرے میں؟ لیکن میں تو اپنے گھر پر تھی۔۔۔
ناںٔلہ نے فوراً سوال کیا،
گھر پر؟ کیسے؟ مطلب مافیا تمہارے بارے میں سب جانتا تھا؟
ماہی ایک لمحے کے لیے چپ ہوگئی۔ وہ سچ بتانا نہیں چاہتی تھی، ولید پر جو شک تھا وہ ابھی ناںٔلہ سے شیئر نہیں کر سکتی تھی۔ اس نے بات گھماتے ہوئے لکھا:
نہیں… وہ… ہاں، میں بھی کچرے میں تھی، لیکن میرا کزن مجھے وہاں سے اٹھا کر گھر لے آیا۔ اس وقت بھی میں نیم بےہوش تھی، اس لیے یاد نہیں رہا۔
یہ بتاؤ، ایم ڈی نے ہمیں کیوں چھوڑ دیا؟ اس نے ہمارے ساتھ کچھ کیا کیوں نہیں؟
اُس نے بات بدلنے کے لیے تیزی سے دوسرا ٹائپ کیا۔
ناںٔلہ نے فوراً جواب دیا
تم نہیں جانتیں نہ ایم ڈی کے بارے میں؟ میں تمہیں بتاتی ہوں۔۔۔
ماہی کی آنکھیں سکرین پر جم گئیں، جیسے ہر لفظ میں چھپا راز سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو۔
ایم ڈی مافیا واحد انڈرکور مافیا ہے جسے لڑکیوں میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ انہیں ہاتھ تک نہیں لگاتا۔ وہ بس انہیں ڈراتا ضرور ہے، مگر اس کا طریقہ مختلف ہے۔ اسے لگتا ہے کہ لڑکیاں کمزور ہوتی ہیں، اور اگر انہیں خوف میں مبتلا کر دیا جائے تو وہ پہلے ہی ہار مان لیتی ہیں۔
ماہی کی انگلیاں موبائل کو سختی سے پکڑ چکی تھیں۔
اسی لیے وہ لڑکیوں کو کڈنیپ کرتا ہے، انہیں اندھیرے میں رکھتا ہے، خوف میں مبتلا کرتا ہے، اور پھر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کا مقصد جسمانی نقصان پہنچانا نہیں بلکہ ذہنی تباہی مچانا ہے۔ ایک رات گھر سے غائب رہنے کے بعد لڑکی کی عزت پہلے جیسی نہیں رہتی۔ وہ خود کو ایک زندہ لاش سمجھنے لگتی ہے۔ اور یہی ایم ڈی چاہتا ہے — ڈر، خوف، اور بے بسی۔ تاکہ سب جان لیں کہ وہ ہر کسی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔۔۔
ماہی کی سانسیں اٹکنے لگیں۔
تبھی تو آفیسر نے مجھے رکھا ہے…
ناںٔلہ کا آخری جملہ جیسے کسی گہرے راز کی چادر اٹھا رہا تھا۔
کیا مطلب؟
ماہی نے فوراً ٹائپ کیا، مگر تب تک ناںٔلہ کا اگلا میسج آچکا تھا:
ابھی میں زیادہ بات نہیں کر سکتی… مگر مجھے تمہارے جواب کا انتظار رہے گا!
ماہی نے موبائل رکھ دیا۔
اس کا ذہن بھنور میں پھنس گیا تھا۔ ناںٔلہ کی باتوں نے جیسے ایک نیا دروازہ کھول دیا تھا۔
ایم ڈی کا اصل مقصد… مافیا کی گیم… ولید کا رویہ… سب کچھ پراسرار تھا۔
++++++++++++++
صبح کے وقت گھر میں ایک عجیب سی چہل پہل تھی۔ ڈائننگ ٹیبل پر سب جمع تھے، اور ہر طرف ہنسی مذاق کی گونج سنائی دے رہی تھی۔ مہکتی چائے، انڈوں کی خوشبو، اور مکھن لگے پراٹھوں کی گرماہٹ نے ناشتے کو اور بھی پُرلُطف بنا دیا تھا۔ کرسیوں کے کھسکنے کی آوازیں، چمچوں کی چھنک، اور سب کی باتیں ایک دلفریب منظر پیش کر رہی تھیں۔
میز کے بیچوں بیچ رکھا پھولوں کا گلدستہ کمرے کی تازگی میں اضافہ کر رہا تھا۔ خالہ سب کو ناشتہ نکال کر دے رہی تھیں، اور کبھی کبھی مہر اور حارث کی نوک جھونک پر ہنستی بھی جا رہی تھیں۔ ولی (ولید) خاموشی سے ناشتہ کر رہا تھا، جب کہ مہر سب سے زیادہ باتیں کرنے میں مصروف تھی۔
خالہ نے پلیٹ میں پراٹھا رکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا،
اچھا بچوں، تم سب کے لیے ایک زبردست خوشخبری ہے…..
مہر، جو پہلے ہی چائے کا گھونٹ لینے والی تھی، فوراً الرٹ ہو گئی،
کیا؟
تم لوگوں کے ابو آرہے ہیں….. خالہ نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ اعلان کیا۔
ایک پل کے لیے جیسے سب کچھ تھم گیا۔ مہر کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے پھیل گئیں، حارث نے چمچ ہاتھ میں ہی روک لیا، اور ماہی نے ایک لمحے کے لیے گہری سانس لی۔
سچ میں، ماما؟ آپ مذاق تو نہیں کر رہیں نا؟ مہر نے بے یقینی سے پوچھا۔
نہیں بھئی، میری تمہارے ابو سے کل رات بات ہوئی تھی، وہ واقعی آرہے ہیں! خالہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
خالہ نے اچانک ماہی کی طرف دیکھ کر پوچھا،
اور ماہی، تم رات میں جلدی تو نہیں سو جاتی نا؟
ماہی نے حیرت سے سر اٹھایا،
کیوں؟
خالہ نے چائے کا کپ لبوں تک لے جاتے ہوئے کہا،
کیونکہ تمہارے خالو رات کے دو بجے تک گھر پہنچیں گے، اور میں نے انہیں تمہارے بارے میں بھی بتایا ہے کہ تم ہمارے ساتھ رہ رہی ہو۔
ارے ماما، ٹینشن نہ لیں، یہ نہیں سوتی۔ یہ تو رات کی رانی ہے، رات بھر جاگتی ہے….. مہر نے شرارت سے کہا۔
خالہ نے ہنستے ہوئے سر ہلایا،
چلو یہ تو اور بھی اچھی بات ہے……
حارث نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا،
پتا ہے ماہی، جب ابو تمہیں مہر کے ساتھ دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟
کیا؟ ماہی نے تجسس سے پوچھا۔
یہ بھیگی بلی کے ساتھ شیرنی کب سے رہنے لگی؟ حارث نے ہنستے ہوئے کہا۔
یہ بھیگی بلی کس کو بولا؟ مہر نے تیزی سے اس کی طرف دیکھا۔
تمہیں اور کس کو؟ تم ہو بھیگی بلی….حارث نے مزے لیتے ہوئے کہا۔
مہر نے ولی کی طرف دیکھا،
ولی بھائی، دیکھیں نا! بھائی پھر سے مجھے تنگ کر رہا ہے! ابو کو آنے دیں، سب بتاؤں گی….
ولی نے سر اٹھا کر حارث کی طرف دیکھا، مگر کوئی خاص ردِعمل نہیں دیا۔
بتا دینا، ویسے بھی انہیں سب معلوم ہے کہ تم واقعی بھیگی بلی ہو…. حارث نے مزید جلایا۔
ابو کے آنے کی خوشی سب کے چہروں سے جھلک رہی تھی، اور ماہی کو خوشی اس بات کی تھی کہ یہ سب اسے بھی اپنی خوشیوں میں شامل کر رہے تھے۔
مگر اس کی نظریں بار بار ولی پر جا ٹکتی تھیں، جو خاموش بیٹھا تھا…
اور اُسے ایسے چپ چاپ بیٹھا ولید کسی صورت ہضم نہیں ہو رہا تھا۔
وہ کیوں اتنا خاموش تھا؟ کیا اُسے اپنے ابّو میں کوئی دلچسپی نہیں… یا اُسے کچھ ہوا ہے؟
ولی….
آخرکار بہت بےچینی کے بعد ماہی نے اُسے مخاطب کر ہی لیا۔
ایک دم مہر کا قہقہہ پورے ڈائننگ روم میں گونج اٹھا۔
سب چونک گئے۔
خالہ نے حیرانی سے پوچھا،
ارے، تمہیں کیا ہوگیا؟
حارث نے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا،
لو، پھر پڑھ گیا اسے دورہ!
ولید نے الجھ کر مہر کو دیکھا،
کیا ہوا؟
ماہی نے بھی سوالیہ نظروں سے مہر کی طرف دیکھا، جو مسلسل ہنس رہی تھی۔
یہ… یہ… ماہی، تم نے ولی بھائی کو ولی کہا….
مہر ہنسی کے درمیان بولی۔
تو؟ ماہی نے بھنویں چڑھائیں۔
تو کچھ نہیں، بس بہت عجیب لگا….. تمہیں ولید بھائی کو ‘ولی’ بولتے ہوئے سن کر! مہر نے ایک اور قہقہہ لگایا۔
ماہی نے اسے گھورا، لیکن مہر کی ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
ولید نے بیزاری سے سر جھٹکا اور کہا،
میں نے ناشتہ کر لیا، اب جا رہا ہوں یونی کے لیے تیار ہونے۔
وہ اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
رکو، میں بھی آرہا ہوں…..
حارث بھی اس کے پیچھے چل دیا۔
خالہ نے گہرا سانس لیا،
افف، بس کردو مہر… اور ماہی…. جو دل کرے، ولی کو اسی نام سے بلاؤ، اس کی نہ سنو۔ یہ پاگل ہے!
ماہی، ایک دفعہ اور بول کر دکھاؤ نا، ولی کیسے بولا تھا؟ مہر نے شرارت سے کہا۔
ماہی نے زچ ہو کر اسے گھورا اور کرسی کھسکا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
میں جا رہی ہوں…
جب ولید اور حارث گھر سے نکل گئے، تو ماہی نے موقع دیکھ کر ولید کے کمرے میں جانے کا فیصلہ کیا۔
وہ دبے قدموں اندر داخل ہوئی اور جلدی سے نظریں دوڑائیں۔
ویسے تو کسی کا کمرہ چیک کرنا غلط بات ہوتی ہے، لیکن اگر کسی پر شک ہو، تو چلتا ہے…..
وہ خود سے بڑبڑائی۔
کمرے میں ایک عجیب سی سنجیدگی تھی۔ سب کچھ ترتیب سے رکھا تھا، جیسے کوئی بھی چیز غلط جگہ پر رکھی تو فوراً محسوس ہو جائے۔
ماہی نے جلدی جلدی درازیں کھولیں، مگر کچھ خاص نہیں ملا۔ پھر وہ الماری کی طرف بڑھی، مگر وہ لاک تھی۔
ہاں! کچھ نہ کچھ تو ضرور چھپایا ہے اس نے!
وہ سرگوشی میں بولی۔
ابھی وہ مزید تلاش کر رہی تھی کہ اچانک دروازے کے باہر کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔
دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔
وہ آہستہ سے دروازے سے باہر نکلی تو سامنے حارث کھڑا تھا۔
اوہ نَو! اب میں اس کو کیا جواب دوں گی کہ میں ولید کے کمرے میں کیا کر رہی تھی؟
حارث کی نظریں مشکوک ہو گئیں۔
تم یہاں کیا کر رہی تھی؟
ماہی کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ حارث تو پہلے ہی اپنے بھائی کے معاملے میں حد سے زیادہ اوور پروٹیکٹو تھا۔
اب اگر اسے ذرا سا بھی شبہ ہو گیا تو؟
اب میں کیا کروں؟ ماہی نے بےچینی سے سوچا۔
یونی کون جائے گا؟
حارث نے سنجیدگی سے پوچھا۔
ماہی نے حیران ہو کر اسے دیکھا،
یونی؟
ہاں یونی! حارث نے معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
ماہی نے بےاختیار لمبی سانس لی اور دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ اس نے یہ نہیں پوچھا کہ وہ ولید کے کمرے سے کیوں نکل رہی تھی۔
آج میرا موڈ نہیں ہے جانے کا۔ اس نے لاپرواہی سے کہا۔
اچھا؟ اور وہ کیوں؟ حارث نے فوراً سوال داغ دیا۔
بس ویسے ہی۔ ماہی نے نظریں چرائیں۔
اچھا، اور رات کو کہاں تھی؟
یہ سنتے ہی ماہی کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔
ر…رات کو؟
اس نے گھبراہٹ میں دہرایا۔
ہاں، رات کو! حارث نے اپنی نظریں اس پر جماتے ہوئے کہا۔
ماہی کے دماغ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔
اسے کیسے پتہ چل گیا؟
م… میں… وہ… وہ جلدی سے کوئی بہانہ سوچنے لگی، لیکن دماغ جیسے سن ہو گیا تھا۔
حارث نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
دیکھو، مجھے نہیں جاننا کہ تم کہاں تھیں۔ تمہاری زندگی ہے، تمہاری مرضی، جہاں مرضی جاؤ۔
ماہی نے سکون کا سانس لیا، مگر پھر حارث نے ایک اور بم پھینکا۔
لیکن… اگر تم ابھی میرے ساتھ یونی نہیں گئیں، تو میں یہ بات ماما کو ضرور بتا دوں گا۔ پھر تم جانو اور ماما…..
دھمکی دے رہے ہو؟ ماہی نے تیز نظروں سے اسے دیکھا۔
ہاں، کیونکہ مجھے پتا ہے تم ویسے نہیں مانو گی۔ حارث نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
ماہی نے گہرا سانس لیا اور خالہ کی طرف دیکھا، جو اپنے کام میں مصروف تھیں۔
پھر اس نے ہار ماننے والے انداز میں کہا،
اچھا، ٹھیک ہے، جا رہی ہوں! بس خالہ کو مت بتانا۔
نہیں بتاؤں گا، بس جلدی سے تیار ہو کر آؤ….
حارث نے اطمینان سے کہا۔
ماہی نے جاتے جاتے مڑ کر پوچھا،
ویسے تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں رات کو گھر پر نہیں تھی؟
حارث نے مسکراتے ہوئے کہا،
وہ تو بس میں نے اندازہ لگایا تھا… اور وہ صحیح بھی ہو گیا…..
کیا مطلب؟ ماہی نے حیران ہو کر پوچھا۔
بس، کل رات تمہارا کمرہ گیارہ بجے ہی بند ہو گیا تھا، اور تم جیسی ‘رات کی رانی’ اتنی جلدی سو جائے، یہ تو ہو نہیں سکتا! اس لیے میں نے اندازہ لگا لیا، اور دیکھو… صحیح نکلا….
ماہی نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا،
واہ! بڑے اسمارٹ ہو تم…..
ہاں، وہ تو ہوں…. حارث نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔
لیکن مجھ سے زیادہ نہیں…. ماہی نے شرارت سے کہا اور آنکھ مارتے ہوئے بولی،
چلو، اب زیادہ باتیں نہ کرو، جلدی سے تیار ہو جاؤ، ویسے ہی میں آدھے راستے سے واپس آیا ہوں….
ماہی مسکراتے ہوئے بولی،
میرے بغیر دل نہیں لگتا یونی میں اب، ہے نا؟ بھائی صاحب آدھے راستے سے میرے لیے واپس آئے!
ارے نہیں، میرا فون بھی گھر پر رہ گیا تھا، اسی لیے آیا تھا… حارث نے فوراً صفائی دی۔
ہاہاہا! مان لو، میرے بغیر یونی میں دل نہیں لگتا….. ماہی نے چھیڑا۔
بالکل بھی نہیں….. اب جاؤ، دیر ہو رہی ہے….
حارث نے ناگواری سے کہا۔
اچھا، جا رہی ہوں….
ماہی نے مسکراتے ہوئے کہا اور جلدی سے تیار ہونے چل دی۔
++++++++++++
گاڑی کے اندر خاموشی تھی، مگر ماحول میں ایک انجانی کشیدگی محسوس کی جا سکتی تھی۔
حارث ڈرائیونگ پر دھیان دیے ہوئے تھا، جبکہ ماہی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی، مگر اس کا ذہن کہیں اور تھا۔
وہ جانتی تھی کہ اسے حارث سے بات کرنی ہے، مگر کیسے؟ یہ سوال اس کے دل و دماغ میں گونج رہا تھا۔
رات کی پارٹی کا منظر اس کے ذہن میں تازہ تھا۔ وہ سب کچھ حارث کو نہیں بتا سکتی تھی — کم از کم ابھی تو نہیں۔
ولید کے خلاف کوئی مضبوط ثبوت ہاتھ آ جائے، تب بات کرنا بہتر ہوگا۔
ابھی اگر وہ کچھ بول بھی دیتی، تو شاید وہ سب بے وزن لگتا۔
حارث نے ایک نظر اس کی طرف ڈالی، جیسے اس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
مگر ماہی نے خود کو سنبھال لیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے اندر کی کشمکش حارث پر ظاہر ہو۔
وہ جانتی تھی کہ وقت آنے پر اسے سب کچھ کہنا ہوگا، مگر وہ وقت ابھی نہیں آیا تھا۔
گاڑی سڑک پر اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی،
اور ساتھ ہی ماہی کے دل میں بےچینی بھی۔
مگر اس نے خود کو یقین دلایا —
صبر، بس تھوڑا سا صبر اور…
یونیورسٹی پہنچتے ہی دونوں سیدھا کلاس کی طرف بڑھ گئے۔
ماہی اور حارث نے جلدی سے اپنی نشستیں سنبھال لیں۔
سر کی خفگی تو برداشت کرنی ہی تھی، مگر کم از کم وہ کلاس میں داخل ہونے کی اجازت دے چکے تھے۔
ماہی نے سکون کا سانس لیا اور اپنا بیگ کھول کر نوٹس نکالنے لگی۔
حارث نے اردگرد نظریں دوڑائیں، مگر ولی کہیں دکھائی نہیں دیا۔
ماتھے پر ہلکی سی شکن ڈال کر اس نے ماہی کی طرف رخ کیا۔
ولی کہاں ہے؟
حارث نے آہستہ سے پوچھا، تاکہ سر کو سنائی نہ دے۔
ماہی نے چونک کر ادھر اُدھر دیکھا، جیسے شاید ولی کو کہیں دیکھ لے، مگر وہ غائب تھا۔
عجیب بات ہے، وہ تو ہم سے پہلے آگیا تھا…
ماہی نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا۔
حارث نے ہلکی سی سرگوشی کی،
پھر گیا کہاں؟ وہ تو کبھی کلاس بنک نہیں کرتا…
ماہی نے ناسمجھی سے کندھے اُچکائے، مگر دل میں کچھ عجیب سا احساس جاگا —
وہ اس وقت کلاس میں نہیں تو کہاں ہوگا…؟
++++++++++++++
ایم ڈی نے کرسی پر پیچھے ہوتے ہوئے حامد کو گھورا۔
بولو، کیا کام ہے؟
حامد نے تھوڑا جھجکتے ہوئے کہا،
وہ… پتہ چل گیا ہے کہ آپ کی نیوز پولیس تک کس نے پہنچائی۔
ایم ڈی کی نظریں تیز ہوگئیں۔
کس نے؟
اس کی آواز میں خطرناک سنجیدگی تھی۔
حامد نے گہرا سانس لیا اور دھیمے لہجے میں بولا،
اُسی نے جسے آپ نے چھوڑ دیا تھا… جیک کا بیٹا، جیمس۔
ایم ڈی کی آنکھوں میں غصے کی چنگاریاں بھڑک اٹھیں۔
اس کے ہاتھ مٹھی میں بند ہوگئے۔
ہمم… اب اُسے پکڑوا دو۔
حامد نے سر ہلایا۔
اس کی ساری ڈیٹیل نکالو… کہاں رہتا ہے، کہاں آتا جاتا ہے، کون اس کے قریب ہے۔
ایم ڈی کی آواز میں ایک خطرناک ٹھہراؤ تھا۔
حامد نے اثبات میں سر ہلایا۔
اور سنو…
ایم ڈی نے کرسی سے تھوڑا آگے جھک کر کہا،
نکلنے کے بعد اس کی ساری معلومات پولیس تک پہنچا دو۔ پھر وہ بھاگے گا، مگر ہم اسے بھاگنے نہیں دیں گے۔
حامد غور سے سنتا رہا، جبکہ ایم ڈی کی آنکھوں میں مکاری چمک رہی تھی۔
تم نے اس کی ایک ایک چال پر نظر رکھنی ہے۔ جہاں جائے، جس سے ملے، سب رپورٹ میں آنا چاہیے۔
وہ لمحہ بھر کو رکا، پھر ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
اور ہاں، اُسے ڈراؤ… ایسا ڈراؤ کہ وہ راتوں کو سونے سے پہلے بھی ہمارا نام لے۔
حامد نے آنکھوں میں شیطانی چمک کے ساتھ سر جھکایا۔
جی، بوس۔ سمجھ گیا۔
ایم ڈی نے سگار جلاتے ہوئے گہرا کش لیا اور دھواں چھوڑتے ہوئے بولا،
تو پھر کام شروع کرو… جیمس کو یہ مت بھولنے دو کہ وہ کس کے خلاف گیا ہے۔۔۔۔۔۔
اُسے پل پل کا خوف ہو… اتنا خوف کہ وہ خوف کے مارے خودکشی کر لے۔
حامد نے ایک لمحے کے لیے ایم ڈی کی طرف دیکھا، پھر سر جھکایا۔
جی، باس۔ ایسا ہی ہوگا۔
اس کے آس پاس کا ہر سایہ، ہر آہٹ اس کے لیے موت کا پیغام ہونی چاہیے۔ وہ جہاں بھی جائے، اسے لگے کہ ہم وہیں ہیں… اس کی ہر سانس ہماری اجازت سے چلے۔
ایم ڈی نے میز پر انگلیاں بجاتے ہوئے کہا۔
حامد نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا،
بس حکم کا انتظار تھا… آج سے جیمس کی زندگی، جیمس کی نہیں، ہماری ہے!
ایم ڈی نے آنکھیں موند کر سر ہلایا،
تو پھر جاؤ… اور ایسا کھیل کھیلو کہ وہ زندہ ہو کر بھی مرنے کی دعائیں مانگے!
حامد نے آہستہ آواز میں کہا،
بوس… وہ نیکلیس والا؟
ہاں، کیا خبر ہے؟
قبضہ مافیا کا ای میل آیا ہے… وہ اب راضی ہیں۔ ہمارے ساتھ ڈیل کرنے کو تیار ہیں۔
ایم ڈی نے ہلکا سا سر ہلایا، جیسے یہ سب پہلے سے جانتا ہو۔
ہمم… کیا تھا ڈیل میں؟
حامد نے موبائل اسکرین پر نظر ڈالتے ہوئے کہا،
دو ٹرنک ڈرگز کے… اور بدلے میں اسلحے سے بھرے دو ٹرنک ہمارے۔
ایم ڈی نے میز پر انگلیاں بجاتے ہوئے گہری سوچ میں چہرہ جھکایا،
پھر دھیرے سے بولا،
ہمم… ہمم… وہ گیم کرے گا اب۔
حامد چونک کر بولا،
گیم؟ بوس، وہ ہمارے ساتھ دھوکہ کیسے کر سکتا ہے؟
جیسے میں نے اس کے ساتھ کیا تھا… وہ بھی وہی کرے گا۔
حامد کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
لیکن، بوس، ایم ڈی کوئی بیوقوف نہیں ہے!
ایم ڈی نے آنکھیں تنگ کر کے ایک شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
بالکل… اور اسی لیے اس بار میں کھیلوں گا، وہ نہیں۔
حامد نے سر جھکایا،
تو پھر آرڈر؟
ایم ڈی نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا،
ڈیل کینسل مت کرو… بلکہ اسے ایسا لگے کہ سب نارمل ہے۔ ہم اسے کھیلنے دیں گے… اور جب وقت آئے گا، تو اسے وہی سبق سکھائیں گے جو میں نے سیکھا تھا!
حامد کے لبوں پر شیطانی مسکراہٹ ابھری،
سمجھ گیا، بوس…
بوس، وہ کل رات کا کہہ رہا ہے ٹرنک پہنچانے کا… پر ہمارے پاس تو کوئی ڈرگز نہیں ہے؟
حامد نے فون کی سکرین پر نظریں جمائے کہا۔
ایم ڈی نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی،
پھر دھیرے سے مسکرا کر کہا،
تو تمہیں ڈرگز ڈالنے کا کون کہہ رہا ہے؟
حامد نے حیرانی سے آنکھیں سکیڑیں،
مطلب؟
ایم ڈی نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور بہت سکون سے بولا،
سفید آٹا ڈال دو سب پیک میں… وہی جو عام گھروں میں روٹی بنانے کے کام آتا ہے۔۔۔۔۔
حامد لمحہ بھر کے لیے خاموش رہا،
پھر آہستہ آہستہ اس کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ ابھرنے لگی۔
بوس، آپ تو واقعی خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔۔۔۔۔
ایم ڈی نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
کھیل جیتنے کے لیے ضروری نہیں کہ تمہارے پاس اصل ہتھیار ہو… کبھی کبھی صرف دھوکہ ہی کافی ہوتا ہے!
حامد نے سر ہلایا،
تو پھر کل رات سب کچھ پلان کے مطابق ہوگا؟
ایم ڈی کی نظریں چمکیں،
ہاں… اور جب وہ ٹرنک کھولے گا، تو اس کے چہرے پر جو حیرت ہوگی، وہی ہماری اصل جیت ہوگی!
ایم ڈی نے کرسی پر آرام سے ٹیک لگائی اور میز پر انگلیاں بجاتے ہوئے دھیمے مگر مضبوط لہجے میں کہا،
اور یہی اُمید میں بھی اُس سے کرتا ہوں… کہ اسلحے سے بھرے ٹرنک میں کچھ اور ہوگا!
حامد کی آنکھوں میں ایک پل کے لیے الجھن ابھری،
باس، پھر آپ یہ کیوں کر رہے ہیں۔۔۔ سیدھا سیدھا ڈیل سے منع کردیں۔۔
ایم ڈی ہلکا سا مسکرایا،
کیا پتہ وہ مُجھے دھوکہ نہ دے۔۔۔ رسک تو لینا پڑے گا نہ۔۔۔
حامد نے گہری سانس لی، پتہ نہیں اب ایم ڈی کے دماغ میں کیا چل رہا تھا…
نہیں، یہ اتنا آسانی سے ایسے نہیں ہونے والا تھا۔۔۔
اس کے بیچ میں کچھ نہ کچھ تو جھول ضرور ہے۔۔۔
حامد کو آج تک ایم ڈی کی سوچ کا انداز سمجھ نہیں آیا تھا۔
وہ کیا سوچ رہا ہوتا تھا، کیا منصوبے باندھ رہا ہوتا تھا — یہ ہمیشہ ایک معمہ رہتا تھا۔
ایم ڈی کو اچانک سے کچھ یاد آیا۔
اچھا، اب مجھے یہ بتاؤ… وہ لڑکیاں کہاں ہیں؟
کون لڑکیاں؟
حامد ایک دم سے چونک کر بولا، اس کے لہجے میں ایک انجانی گھبراہٹ تھی۔
ایم ڈی نے اپنی نظریں تیز کر کے حامد کو گھورا۔
ایک پل کے لیے کمرے میں موت جیسی خاموشی چھا گئی۔
حامد…
ایم ڈی کی آواز اب خطرناک حد تک دھیمی تھی۔
حامد نے جلدی سے نظریں جھکائیں۔
پسینہ اس کے ماتھے پر چمکنے لگا۔
باس… وہ… وہ بھاگ گئیں۔۔۔۔
اس کے الفاظ کمرے میں گونجنے لگے۔
ایم ڈی کے چہرے پر ایک پل کے لیے سختی ابھری،
پھر وہ خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔
اس نے حامد کی طرف دیکھا، جیسے اس کے چہرے سے سب کچھ پڑھ لینا چاہتا ہو۔
حامد، تمہیں معلوم ہے نا کہ غلطیاں میں برداشت نہیں کرتا؟
ایم ڈی کی آواز میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ تھا، جو آنے والے طوفان کا پتہ دے رہا تھا۔
حامد نے لرزتی آواز میں کہا،
باس، میں… میں فوراً بندے بھیجتا ہوں، وہ زیادہ دور نہیں گئی ہونگی۔۔۔۔
ایم ڈی نے دھیرے سے سر ہلایا،
پھر دھیمی مگر خطرناک آواز میں بولا،
نہیں… وہ بھاگے گی تو تب نا، جب یہاں سے کوئی اُسے بھاگنے دے گا؟
حامد کا رنگ فق ہو گیا۔
ایم ڈی کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں، ایسی نظروں کا سامنا کرنا آسان نہیں تھا۔
حامد، یہ کیسے ممکن ہے کہ لڑکیاں… ایم ڈی کے پاس سے بھاگ جائیں؟
ایم ڈی کے لہجے میں زہر گھلا ہوا تھا۔
حامد نے جلدی سے سر جھکایا،
بوس، میں نے خود سیکیورٹی چیک کی تھی… لیکن شاید اندر کوئی اپنا بندہ تھا، جو… جو انہیں لے کر گیا۔۔۔۔۔
ایم ڈی نے گہری سانس لی،
پھر آگے بڑھ کر حامد کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
شاید؟ یہ شاید نہیں ہو سکتا، حامد! یہاں کوئی تھا، جو ہمارے بیچ رہا ہے… اور اگر تمہیں نہیں پتہ کہ وہ کون ہے، تو یا تو تم اندھے ہو… یا خود اس کھیل میں شامل!
حامد نے فوراً ہاتھ جوڑ دیے،
نہیں باس ۔۔۔ میں… میں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوں، کبھی دھوکہ نہیں دے سکتا۔۔۔۔
ایم ڈی نے ایک لمحے کو گہری نظر اس پر ڈالی، پھر پیچھے ہٹ گیا۔
ٹھیک ہے… تو پھر ڈھونڈو انہیں! اور وہ شخص بھی جو اندر سے ہماری چالیں کسی اور کو بتا رہا ہے۔
حامد نے جلدی سے سر ہلایا،
بوس، میں فوراً بندے لگا دیتا ہوں۔۔۔۔
ایم ڈی نے آخری بار اسے گھورتے ہوئے کہا،
مجھے نتائج چاہییں، وضاحتیں نہیں…..
+++++++++++++
ماہی اور حارث جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے، ان کی نظریں سیدھا ولید پر جا ٹکیں، جو لاؤنج کے صوفے پر آرام سے بیٹھا تھا۔
سامنے ٹی وی چل رہا تھا، لیکن کوئی فلم یا ڈرامہ نہیں، بلکہ خبروں کا کوئی چینل۔
وہ ہمیشہ سے ایسا ہی تھا — ڈراموں اور فلموں میں اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
اگر ٹی وی دیکھتا بھی تو یا تو خبریں سنتا یا پھر کرائم شو دیکھتا۔
ماہی اور حارث نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر ولید کی طرف بڑھ گئے۔
اس سے پہلے کہ ماہی کچھ کہتی، حارث نے پوچھا،
بھائی، تو کہاں تھا سارا دن؟
ولید نے ایک نظر ان دونوں پر ڈالی اور بے حد پُرسکون لہجے میں جواب دیا،
گھر پر۔
ماہی کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
گھر پر؟ لیکن تم یونیورسٹی گئے تھے ناں؟
ہاں، گیا تھا۔
ولید نے کندھے اچکائے۔
بس، حاضری لگائی اور واپس آ گیا۔
ماہی اور حارث نے پھر ایک دوسرے کو دیکھا۔
پر ان دونوں کو تو وہ کلاس میں نظر نہیں آیا — کلاس میں کیا، پوری یونیورسٹی میں کہیں نہیں نظر آیا۔
لیکن تم نے تو ایک بھی کلاس نہیں لی۔۔۔۔۔
ماہی نے انگلی اٹھا کر اس کی طرف اشارہ کیا۔
جب تم کلاس میں آئے ہی نہیں، تو حاضری کیسے لگا دی؟
ولید نے ایک گہری سانس لی اور نظریں ٹی وی پر جما کر بولا،
کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو؟ میں گیا تھا، دو کلاسز شروع کی لی، پھر طبیعت ٹھیک نہیں لگی، تو حاضری لگا کر گھر آ گیا۔
یہ کہہ کر وہ دوبارہ ٹی وی دیکھنے لگا، جیسے معاملہ ختم ہو چکا ہو۔
مگر ماہی اور حارث کے لیے بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی۔
وہ دونوں حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
حارث نے بھنویں سکیڑ کر کہا،
ابے، تو تھا کہاں؟ ہم پورا دن کلاس میں تھے، ہمیں کہیں نظر نہیں آیا۔۔۔۔۔
اب ولید نے نظریں گھما کر حارث کی طرف دیکھا، ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آ کر غائب ہو گئی۔
حارث نے ولید کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی، ماہی نے بھی بازو باندھ کر ایک تفتیشی نظروں سے اسے گھورا۔
میں ریاض کے ساتھ بیٹھا تھا… کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو؟
ولید نے قدرے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
ریاض کون ہے؟ ماہی نے پوچھا۔
اس کا دوست… ہنہ! بیٹھا ہوگا اُس لفنگے کے ساتھ!
حارث نے ناگواری سے منہ بنایا اور کندھے جھٹک کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
تم جھوٹ بول رہے ہو۔
ماہی نے ولید کو گھورتے ہوئے کہا۔
ولید نے ایک لمحے کو ماہی کی آنکھوں میں جھانکا، پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
ہاں، میں جھوٹ بول رہا ہوں۔
ماہی کو جیسے ایک جھٹکا لگا۔
وہ ہکا بکا اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ولید اتنی آسانی سے مان لے گا۔
تو پھر سچ کیا ہے؟ کہاں تھے تم؟
اس نے فوراً سوال داغ دیا۔
ولید نے گہری سانس لی اور سکون سے بولا،
ماہی… کل جا کر کسی سے بھی پوچھ لینا، چاہو تو ریاض سے بھی، سر سے بھی۔ میں کلاس میں ہی تھا۔ پھر واقعی میری طبیعت خراب ہو گئی تھی، اس لیے واپس آ گیا۔
یہ کہہ کر اس نے ہاتھ کے اشارے سے سامنے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا۔
یہ دیکھو، ابھی ماما مجھے دوائی اور بریڈ دے کر گئی ہیں۔
ماہی نے ٹیبل کی طرف دیکھا۔
واقعی، وہاں ایک ٹرے رکھی تھی جس میں بریڈ کا ایک ٹکڑا، چائے کا ایک کپ، پانی کا گلاس اور کچھ دوائیوں کے پتے موجود تھے۔
ماہی نے خاموشی سے وہ سب دیکھا، پھر ولید کی طرف دیکھا۔
وہ اب بھی ویسے ہی پُرسکون انداز میں بیٹھا تھا، جیسے اس کے پاس چھپانے کو کچھ بھی نہ ہو۔
مگر ماہی کا دل اب بھی نہیں مان رہا تھا۔
کچھ تھا جو اب بھی صحیح نہیں لگ رہا تھا۔
وہ کچھ کہے بغیر پلٹی اور خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
جو لڑکا ہمیشہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو، وہ خود جھوٹ کیسے بول سکتا ہے؟
ولید نے مدھم آواز میں کہا۔
ماہی کے اٹھتے قدم وہیں رک گئے۔
اس نے پلٹ کر ایک گہری نظر ولید پر ڈالی، جو اب بھی بے حد پُرسکون دکھائی دے رہا تھا۔
وہ کچھ کہے بغیر پلٹی اور خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
ولید نے ایک لمحے کے لیے اس کی پشت کو دیکھا، پھر نظریں دوبارہ ٹی وی کی طرف جما دیں۔
مگر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا رنگ تھا، جیسے وہ کچھ سوچ رہا ہو — یا شاید کچھ چھپا رہا ہو۔
+++++++++++++
ماہی کمرے میں داخل ہوئی تو اُس کا فون زور سے بجنے لگا۔ وہ کچھ لمحے کے لیے چونکی، پھر جلدی سے اپنا بیگ کھولا اور فون نکالا۔
اسکرین پر مینی کا نام جگمگا رہا تھا۔ ماہی نے ایک گہری سانس لی، بیگ کو بے دھیانی میں دوسرے کونے میں اچھالا اور فون کان سے لگاتے ہی بیڈ پر لیٹ گئی۔
دوسری طرف مینی کی آواز میں خوشی اور جوش تھا، جیسے وہ کوئی بڑی خبر سنانے کے لیے بےتاب ہو۔
تمہیں پتہ ہے؟ یہاں کیا ہوا؟
مینی تقریباً چیخی۔
ماہی نے تھکے ہوئے لہجے میں پوچھا،
کیا ہوا؟
وہ جو سٹیلا اور کرن نے تمہیں پھنسانے کی کوشش کی تھی نا؟ میم کو سب پتہ چل گیا اور میم نے انہیں خوب ذلیل کیا! اور اُن لڑکوں کو بھی! اور سنو، پروفیسر تم سے معافی مانگنا چاہتے ہیں!
مینی کا لہجہ فخر سے بھرا ہوا تھا۔
اچھا؟ پر یہ سب ہوا کیسے؟
وہ جانتی تھی کہ یہ ولید نے کیا — اُس نے کل رات کو ہی اسے بتایا تھا۔
لیکن… یہ جاننا ضروری تھا کہ ولید نے یہ سب کیا کیسے؟
مینی کی آواز میں جوش اور شرارت تھی،
بس، کسی نے ان سب کو اُن کی اوقات یاد دلا دی!
ماہی کی سانس کچھ لمحوں کے لیے رک گئی۔
کسی نے؟ وہ جانتی تھی کہ اس کے پیچھے کون تھا — لیکن کیسے؟
ولید نے کیا کیا تھا؟
کس نے؟
ماہی نے آہستہ سے پوچھا۔
مینی نے لاپرواہی سے کہا،
پتہ نہیں… وہ اُس لڑکے کے کسی دوست نے سب سچ سچ بتا دیا میم کو۔ اُس نے گروپ چیٹ کے سارے میسیجز بھی دکھا دیے کہ یہ سب ہمارا پلان تھا۔
ماہی کے ماتھے پر شکنیں گہری ہو گئیں۔
کیا؟
ہاں! اور تو اور، اُس کے باقی دوستوں نے بھی قبول کر لیا کہ ہاں، ہم نے ماہی کو پھنسایا تھا۔۔۔۔۔
مینی کی آواز میں جوش تھا، لیکن ماہی کو جیسے کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔
اور…؟
اُس نے دھیرے سے پوچھا۔
اور میم نے اُس لڑکے کو یونیورسٹی سے نکال دیا! سٹیلا اور کرن صرف پیپر دینے آئیں گی۔
ماہی کھڑکی کی طرف بڑھ گئی۔ باہر آسمان پر گہرے بادل چھا رہے تھے، جیسے بارش ہونے کو ہو۔
اُس کا دل بے ترتیب دھڑک رہا تھا۔
ولید نے یہ کیسے کیا؟ کیسے اُس نے سب کو مجبور کیا کہ وہ سچ بولیں؟
کیا واقعی اُس کا تعلق مافیا انڈسٹری سے ہے؟
اُس کے دل میں ایک عجیب سی کشمکش ہونے لگی۔
کیا ولید نے یہ سب صرف اس کے لیے کیا؟
یا اس کے پیچھے کوئی اور کہانی تھی؟
فون کی دوسری طرف مینی بات کر رہی تھی، لیکن ماہی کی سوچیں کہیں اور جا چکی تھیں۔
ولید کے الفاظ کل کے منظر کی طرح اُس کے دماغ میں گونج رہے تھے:
میں نے وہاں سب کچھ ٹھیک کر دیا ہے… اور تُم یہاں رہ کر جو بھی کرنے والی ہو…
be careful.
ایک عام سا سٹوڈنٹ وہاں کے معاملات کیسے ٹھیک کر سکتا ہے؟
اُس نے یہ سب اِسی لیے کیا تاکہ میں یہاں سے چلی جاؤں؟
وہ مجھے واپس بھیجنا چاہتا ہے؟
کیونکہ میں اُس کے معاملات میں اپنی ٹانگ اڑا رہی ہوں؟
تو کیا وہ واقعی مافیا کا حصہ ہے؟
اور وہ نہیں چاہتا کہ مجھے پتہ چلے؟
ماہی کے ذہن میں جیسے ایک دھماکہ ہوا۔
اُس نے یہ سب اِسی لیے کیا تاکہ میں یہاں سے چلی جاؤں… وہ مجھے واپس بھیجنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔
یہ خیال جیسے اُس کے دل میں خنجر کی طرح اترا۔
وہ مسلسل سوچ رہی تھی کہ ولید نے یہ سب اس کی مدد کے لیے کیا، لیکن اصل وجہ کچھ اور تھی؟
اگر وہ حقیقت میں یہ سب اس لیے کر رہا تھا تاکہ ماہی یہاں نہ رہے؟ تاکہ وہ اُس کے راستے میں نہ آئے؟
کیونکہ میں اُس کے معاملات میں اپنی ٹانگ اڑا رہی ہوں…
یہ سوچ اسے مزید بےچین کر رہی تھی۔
کیا وہ واقعی کسی خطرناک کھیل کا حصہ بن چکی تھی؟
کیا ولید وہی تھا جو وہ سمجھ رہی تھی؟
تو کیا وہ واقعی مافیا کا کام کرتا ہے؟
یہ سوال جیسے اُس کے پورے وجود میں گونجنے لگا۔
اُس کی یادوں میں وہ سب لمحے تیزی سے پلٹنے لگے —
ولید کا ہر چیز پر اثر و رسوخ، اُس کا لوگوں کو چپ کروا دینا،
اُس کا بغیر کچھ کہے سب کچھ ٹھیک کر دینا،
اور سب سے بڑھ کر، اُس کا یہ اصرار کہ ماہی یہاں سے چلی جائے۔
اور وہ چاہتا ہے کہ مجھے کچھ پتہ نہ چلے؟
یہ خیال ہی خوفناک تھا۔
اگر وہ واقعی کسی بڑی چیز کا حصہ تھا، تو ماہی ایک ناپسندیدہ مداخلت بن چکی تھی۔
فون پر مینی کی آواز نے اُسے حقیقت میں واپس کھینچ لیا۔
ماہی، سنو نا… واپس آ جاؤ! اب تو اِدھر سب ٹھیک ہو گیا ہے… میں تمہیں بہت مس کر رہی ہوں۔
مینی کے لہجے میں خلوص تھا، وہ واقعی چاہتی تھی کہ ماہی واپس آئے۔
پروفیسر بھی تم سے معافی مانگنا چاہتے ہیں، اور کرن اور سٹیلا بھی… وہ سب شرمندہ ہیں، ماہی۔۔۔۔۔
ماہی کی آنکھیں ایک دم کھل گئیں، اور اُس کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ آ گئی۔
اُن سے کہہ دو… ماہی نے کبھی اُنہیں اپنا دوست مانا تھا… اور وہ دوستی اب ختم۔ تو مجھ سے اب معافی کی امید نہ رکھیں۔
مینی خاموش ہو گئی۔ شاید وہ یہ جواب سننے کے لیے تیار نہیں تھی۔
لیکن ماہی… وہ سچ میں شرمندہ ہیں۔ شاید اگر تم انہیں موقع دو تو—
موقع؟
ماہی نے سرد لہجے میں کہا۔
جیسے انہوں نے مجھے دیا تھا؟ جیسے انہوں نے مجھے پھنسایا؟ مجھے تو لگا تھا کہ اُن لوگوں نے بس میرا ساتھ نہیں دیا، میرے ساتھ کھڑی نہیں ہوئیں… اصل میں تو مجھے پھنسانے میں بھی اُن کا ہاتھ تھا۔ کیا دوست ایسے ہوتے ہیں، مینی؟
وہ کچھ پل خاموش ہوگئی… جیسے سارے وہ منظر اُس کے آنکھوں کے سامنے آ گئے ہوں۔
مینی، کچھ رشتے ایک بار ٹوٹ جائیں تو جوڑنے سے بھی نہیں جُڑتے۔
مینی خاموش رہی، جیسے ماہی کے الفاظ اُس کے ذہن میں اتر گئے ہوں۔
کچھ لمحے بعد اُس نے آہستہ سے پوچھا،
تو پھر پروفیسر سر کو کیا کہوں؟
ماہی نے ایک ہلکی سانس لی اور نرم لہجے میں کہا،
پروفیسر سر سے کہنا… ماہی نے اُنہیں معاف کر دیا۔ وہ میرے ٹیچر رہ چکے ہیں۔
مینی کو ماہی کے انداز میں فرق محسوس ہوا۔
دوستوں کی بےوفائی کا زخم شاید ابھی تازہ تھا، لیکن استاد کی غلطی پر وہ غصہ نہیں رکھنا چاہتی تھی۔
کیونکہ ماہی جانتی تھی، استاد اور شاگرد کا رشتہ دشمنی سے بالاتر ہوتا ہے۔
اچھا… میں کہہ دوں گی۔
مینی نے آہستہ سے کہا، جیسے وہ اب مزید بحث نہیں کرنا چاہتی تھی — اور فون بند کر دیا۔
ماہی نے فون ہاتھ میں گھمایا، نظریں کھڑکی کے پار جمائے ہوئے۔
اُس کے دل میں ایک عجیب سا سکون اُتر رہا تھا۔
کچھ تعلق ختم ہو گئے، کچھ معاف ہو گئے،
لیکن جو سوال اُس کے دماغ میں گونج رہا تھا، وہ ابھی بھی باقی تھا —
کیا ولید… مافیا ہے؟
ماہی نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر جیسے کسی فیصلے پر پہنچ کر اپنا فون اٹھایا اور نائلہ کو ایک مختصر سا میسج کر دیا:
میں راضی ہوں۔
میسج بھیجتے ہی فون اُس کے ہاتھ میں تھما رہا، دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ آگے کیا ہونے والا ہے، لیکن اب وہ مزید انتظار نہیں کرنا چاہتی تھی۔
چند ہی سیکنڈ بعد اسکرین پر نائلہ کا جواب آیا، جیسے وہ پہلے ہی ماہی کے جواب کا انتظار کر رہی ہو:
پرفیکٹ! لیکن ماہی، پھر واپسی نہیں ہوگی۔۔۔ اگر اب تم نے ہاں کر دی ہے تو جب تک ایم ڈی کا چہرہ بے نقاب نہیں ہوجاتا، تمہیں میرے ساتھ کام کرتے رہنا ہوگا۔
ماہی کی انگلیاں فون کی سائیڈ پر سختی سے جم گئیں۔
واپسی نہیں ہوگی؟
یہ الفاظ اُس کے اندر ایک سنسنی دوڑا گئے۔
کیا واقعی وہ ایک ایسے راستے پر قدم رکھنے جا رہی تھی جہاں پیچھے مڑنے کا موقع نہیں ہوگا؟
لیکن پھر اُسے ولید کا چہرہ یاد آیا —
اُس کا پراسرار انداز، اُس کی ہر وہ بات۔
اگر حقیقت جاننی تھی… تو یہ قدم اُسے اٹھانا ہی تھا۔
ماہی نے گہری سانس لی اور نائلہ کو جواب دیا:
میں تیار ہوں۔ بتاؤ، اگلا قدم کیا ہے؟
میں تمہیں لوکیشن سینڈ کرتی ہوں، فوراً یہاں آ جاؤ… باقی باتیں میں تمہیں یہیں بتاؤں گی۔
نائلہ کا انداز ہمیشہ سے ایسا ہی تھا — تیز، سیدھا، اور عمل پسند۔
ماہی نے اسکرین پر نظر ڈالی، جہاں چند ہی لمحوں بعد ایک پن لوکیشن آ گئی۔
++++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔
