dil ya dhrkan

Dil ya dharkan Episode 9 written by siddiqui

 

ماہی نے آخری بار خود کو آئینے میں دیکھا۔ ہلکی سی فِٹڈ جینز، اوپر سے ڈھیلی مگر اسٹائلش شرٹ، اور لمبا کوٹ-یہی اس کا عام حلیہ تھا، جو آج بھی ویسا ہی تھا۔
اس نے اپنے بال کھلے چھوڑ رکھے تھے، ہلکی سی ویوی لہریں جو اُس کے کندھوں پر بکھری ہوئی تھیں۔ آنکھوں میں کاجل کی ہلکی سی تہہ تھی، اور ہونٹوں پر نیوڈ لپ کلر۔ اس کی شخصیت میں ہمیشہ سے ایک الگ سی گریس تھی، نہ زیادہ بناوٹ، نہ زیادہ سادگی۔
فون اور بیگ ہاتھ میں لیے وہ دروازے کی طرف بڑھی، جب خالہ کی آواز نے اُسے روک لیا۔
کہاں جا رہی ہو؟

شاپنگ پر، خالہ! ساؤتھ ہال جا رہی ہوں۔
ناذیہ بیگم نے ماتھے پر شکن ڈالی، اتنی دور؟ یہاں پاس کے مال میں چلی جاؤ، سب کچھ مل جائے گا۔۔۔۔

ماہی نے مسکرا کر جواب دیا،
نہیں نا، خالہ! بس تھوڑی دیر کی تو بات ہے… اور مجھے لندن بھی تو گھومنا ہے۔۔۔۔

نازیہ بیگم نے گہری سانس لی، پھر پوچھا،
اچھا، دوستوں کے ساتھ جا رہی ہو؟

جی ہاں۔۔
ماہی نے ہلکی سی جھوٹی تسلی دی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر خالہ کو اصل بات پتہ چلتی تو وہ کبھی اجازت نہ دیتیں۔
ٹھیک ہے، جاؤ… مگر جلدی واپس آنا۔۔۔۔
ماہی نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،
ٹھیک ہے، خالہ۔۔۔
وہ کہتی گھر سے باہر نکل گئی۔۔

++++++++++

وہ سیدھا موٹر اسٹیشن پہنچی۔ لندن میں رہتے ہوئے بھی وہ بس میں کبھی سفر نہیں کر پائی تھی، کیونکہ یہاں بس میں بیٹھنے کے لیے اویسٹر کارڈ لازمی ہوتا تھا، اور وہ ہمیشہ موٹر کے ذریعے سفر کرتی تھی۔
یونیورسٹی بھی وہ کبھی حارث کے ساتھ جاتی تھی، کبھی ولید کے ساتھ۔
جب موٹر ساوتھ ہال پہنچی، تو جیسے وقت رک گیا۔
ایک مانوس اجنبیت
جیسے ہی وہ باہر نکلی، اُس کے سامنے ساوتھ ہال مارکیٹ تھی۔ مگر جو منظر اُس کے سامنے تھا، وہ بالکل الگ تھا جو وہ سوچ کر آئی تھی۔
یہ تو کوئی بڑا شاپنگ مال ہونا چاہیے تھا، مگر…
اُس کے سامنے پاکستانی اور انڈین دکانوں کی ایک الگ ہی دنیا تھی۔ ہر طرف روایتی ملبوسات، کشمیری شالیں، مشرقی جیولری، مصالحے، اور پاکستانی کھانے۔ یہاں تک کہ سڑکوں پر چلتے لوگ بھی زیادہ تر پاکستانی اور انڈین ہی تھے، اپنی زبان میں بات کرتے ہوئے، اپنے ہی انداز میں ہنستے ہوئے۔
ماہی کو ایک پل کے لیے لگا کہ وہ لندن میں نہیں، کسی پاکستانی مارکیٹ میں کھڑی ہے-بالکل ویسی ہی جیسے وہ پاکستان میں جایا کرتی تھی۔
ماہی کچھ لمحے حیرت میں کھڑی دیکھتی رہی۔
یہ سب کچھ اُسے اپنے وطن کی یاد دلا رہا تھا۔
یہ تو بالکل ویسی ہی مارکیٹ ہے جیسے پاکستان میں ہوتی ہے… اُس نے دل ہی دل میں سوچا۔
اسے ایک عجیب سا احساس ہوا-ایک خوشگوار سی یاد، ایک مانوس سی اپنائیت۔
انسان کہیں بھی چلا جائے، اپنی چیز ہمیشہ اپنی ہی لگتی ہے۔ وہ جیسی بھی ہو، اُس سے محبت اپنی جگہ برقرار رہتی ہے…
یہ بازار، یہ خوشبو، یہ دکانیں-یہ سب اُسے شدت سے پاکستان کی یاد دلا رہے تھے۔
میں تین سال سے پاکستان نہیں گئی… کتنے سالوں سے برسٹل میں رہ رہی ہوں، مگر کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا…
اُس کا دل بے اختیار چاہا کہ وہ ابھی سب کچھ چھوڑ کر پاکستان واپس چلی جائے۔
وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ اچانک کسی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
ماہی!
وہ چونک کر مُڑی۔
سامنے نائلہ کھڑی تھی۔
تم آگئی؟ نائلہ کے چہرے پر ایک عجیب سا تاثر تھا-
نائلہ نے ماہی کا ہاتھ پکڑ کر اُسے ایک سنسان کونے میں لے جا کر کہا،
یہاں کیا کر رہی ہو؟ میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی تھی!
ماہی نے جھوٹ موٹ مسکرا کر جواب دیا، ہاں، میں بھی تمہیں ہی ڈھونڈ رہی تھی۔
(جھوٹ بولنے میں تو ماہی کمال کی ملکہ تھی۔ حالانکہ وہ تو یہاں آ کر بھول ہی گئی تھی کہ وہ کس مقصد سے آئی ہے۔ مگر ماہی کا جھوٹ صرف دو لوگ ہی پکڑ سکتے تھے، باقی سب کے لیے وہ ناقابلِ یقین تھی….

نائلہ نے جلدی سے کہا،
اچھا چلو… یہ دیکھو ہمارے سامنے جو شاپ ہے۔

ماہی نے نظر اُٹھائی، سامنے ایک بڑا ہمالیہ شاپنگ سینٹر کا بورڈ نظر آیا۔۔
ہمالیہ شاپنگ سینٹر ساوتھ ہال مارکیٹ کے بیچوں بیچ واقع ایک بڑا، مصروف اور قدیم طرز کا شاپنگ سینٹر تھا۔ باہر سے دیکھنے میں یہ کوئی عام سا مارکیٹ کمپلیکس لگتا تھا، مگر اندر جاتے ہی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی الگ ہی دنیا ہو۔۔
بیرونی منظر
بلند اور چوڑا داخلی دروازہ، جس پر
Himalaya Shopping Centre
کا بڑا بورڈ لگا ہوا تھا۔
دائیں اور بائیں جانب چھوٹی دکانیں، جہاں زیادہ تر پاکستانی اور انڈین ملبوسات، جیولری، اور مصالحے فروخت کیے جا رہے تھے۔
دروازے کے قریب ہی دیسی کھانوں کے چند اسٹال، جہاں سموسے، پکوڑے ، اور چائے کی خوشبو پورے ماحول میں بسی ہوئی تھی۔
کچھ جگہوں پر پوسٹرز اور بینرز لگے تھے، جو کسی آنے والے تہوار یا سیل کی تشہیر کر رہے تھے۔

اندرونی منظر
اندر داخل ہوتے ہی ایک وسیع ہال تھا، جس کے دونوں طرف بہت سی چھوٹی دکانیں تھیں۔
ہر طرف رنگ برنگے کپڑے، دیدہ زیب زیورات، مہندی، چوڑیاں، اور بھارتی و پاکستانی شادی کے روایتی ملبوسات دکھائی دے رہے تھے۔
چھت پر پیلے رنگ کی مدھم روشنیاں، جو سینٹر کو ایک پرانے مگر گرم جوش ماحول میں ڈھال رہی تھیں۔
بیچ میں ایک چوڑا راستہ، جہاں خریداروں کا بےتحاشہ رش تھا۔
پیچھے کی طرف ایک دو منزلہ ایریا، جہاں کچھ مشہور دکانیں اور ایک چھوٹا سا کھانے پینے کا حصہ (فوڈ کورٹ) تھا۔
یہ شاپنگ سینٹر ساوتھ ہال کی پہچان تھا، جہاں نہ صرف لندن میں رہنے والے جنوبی ایشیائی لوگ آتے تھے، بلکہ یہاں کا ماحول ایسا تھا کہ اگر کسی کو پاکستان یا بھارت کی یاد آتی تو وہ بس یہاں کا چکر لگا لیتا!
ہاں تو؟ اس کا میں کیا کروں۔۔ ؟ ماہی نے بے نیازی سے کہا۔
نائلہ کی نظریں ایک پل کے لیے ماہی پر جم گئیں، پھر اُس نے دھیرے سے سرگوشی کی، اس کے اندر بم رکھا گیا ہے… اور وہ اگلے 30 منٹ میں بلاسٹ ہو جائے گا….
کیا ؟ ماہی کا رنگ اُڑ گیا۔
اور اس کی زد میں پوری مارکیٹ آئے گی…. نائلہ نے تیزی سے کہا۔
ماہی کا دماغ سن ہو گیا۔ یہ سب… اتنا بڑا خطرہ… اتنے سارے لوگ؟
یہ بم رکھا کس نے؟ ماہی نے گھٹی ہوئی آواز میں پوچھا۔
اور کس نے؟ ایم۔ڈی نے۔۔۔ نائلہ کی آنکھوں میں سختی تھی۔
ماہی نے فوراً اردگرد نظریں دوڑائیں۔ وہ کہاں ہے؟
نائلہ نے تھوڑے فاصلے پر ایک دکان کی طرف اشارہ کیا۔
وہ دیکھو…
ماہی نے دیکھا، ایک آدمی کسی دکاندار کو پیسے دے رہا تھا۔ اُس نے ماسک اور کیپ سے اپنا چہرہ چھپا رکھا تھا، مگر اُس کے انداز میں ایک عجیب سا دھیما پن تھا، جیسے وہ یہاں بس یونہی آیا ہو۔
مگر نائلہ کی باتوں نے ماہی کے دماغ میں الارم بجا دیے تھے۔
یہ ایم۔ڈی… دکاندار کو پیسے کیوں دے رہا ہے؟ ماہی نے شک سے پوچھا۔
نائلہ نے گہری سانس لی، اپنی طرف توجہ ہٹانے کے لیے۔ تاکہ کسی کو بم پر شک نہ ہو!
ماہی نے جلدی سے کہا، تو پھر ہمیں کیا کرنا ہے؟
نائلہ نے جلدی سے اپنی جیب سے ایک دوسرا بم نکالا۔
ماہی کا دل ایک پل کے لیے دہل گیا، یہ… یہ کیا کر رہی ہو؟
نائلہ کی آنکھوں میں چمک تھی، یہ بم نہیں، بلکہ بم کو نیوٹرل کرنے والی ڈیوائس ہے۔ یہ ایک ڈیفیوژ بم ہے، جو بالکل ایکٹیو بم جیسا لگتا ہے، مگر یہ کبھی پھٹتا نہیں۔
تو ہم کیا کریں گے؟
ہم اصلی بم کو نکال کر اس بم سے بدل دیں گے!
ماہی نے گہری سانس لی۔ یہ کھیل بہت خطرناک تھا… مگر اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
سامنے گھڑی کی سوئیوں کو دیکھتے ہوئے، وہ دونوں مارکیٹ کو بچانے کے لیے ایک خطرناک مہم پر نکل چکی تھیں… جہاں ایک لمحے کی غلطی، صرف ساوتھ ہال ہی نہیں، بلکہ اُن کی جان بھی لے سکتی تھی!
نائلہ نے دھیرے سے ماہی کو ڈیوائس تھماتے ہوئے کہا، یہ لو، تمہیں بس اصل بم کی جگہ یہ رکھنا ہے۔
ماہی نے بم کو ہاتھ میں لیا۔ یہ ایک عام بم جیسا ہی لگ رہا تھا، بس فرق صرف اتنا تھا کہ یہ ڈیفیوژڈ بم تھا، جو کبھی پھٹنے والا نہیں تھا۔
تمہیں یقین ہے کہ یہ بالکل ویسا ہی لگے گا؟ ماہی نے نائلہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ہاں، یہ دیکھو اس کے پیچھے ایک چپ لگی ہوئی ہے اس کی وجہ سے یہ بم باآسانی کہیں بھی لگ سکتا ہے۔۔۔ بس احتیاط کرنا، کوئی تمہیں دیکھ نہ لے۔ نائلہ نے سنجیدگی سے کہا۔
کر لو گی نہ۔۔۔ نائلہ نے کچھ سوچ کر ماہی سے پوچھا۔۔۔
ماہی نے ایک پل کے لیے گہری سانس لی اور سر ہلایا۔
ہاں، میں یہ کر لوں گی بہت آسان ہے۔۔۔
ماہی نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ ایم۔ڈی اور اس کے آدمی دکانداروں کے ساتھ مصروف تھے، اور کسی کو بھی شک نہیں تھا کہ ایک خوفناک سازش اس مارکیٹ کو تباہ کرنے کے لیے رچی جا چکی ہے۔
یہی موقع ہے! ماہی نے خود سے کہا اور چپکے چپکے آگے بڑھنے لگی۔
بھیڑ زیادہ تھی، مگر وہ بڑی مہارت سے لوگوں کے بیچ میں سے گزرتی رہی۔ ایک لمحے کے لیے اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا، کہیں کسی نے اسے دیکھ تو نہیں لیا؟
بم ایک دکان کے اندر، ایک شیلف کے پیچھے چھپایا گیا تھا۔ نائلہ نے اسے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اصل بم کہاں رکھا گیا ہے۔
مجھے بس چند سیکنڈز چاہئیں! ماہی نے اپنے قدم اور تیز کر دیے۔
وہ دکان میں داخل ہوئی اور ایسے ظاہر کرنے لگی جیسے وہ کچھ خرید رہی ہو۔ دکاندار ایک خاتون گاہک سے باتوں میں مصروف تھا، یہی موقع تھا!
ماہی جلدی سے نیچے جھکی، اور اصل بم کو نکال کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ پھر بڑی احتیاط سے جعلی بم کو وہیں فٹ کر دیا۔
بس ہو گیا!
ماہی نے جلدی سے پیچھے ہٹ کر ایک سانس لی۔
کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوا!
وہ آرام سے وہاں سے نکلی اور نائلہ کی طرف چل دی، جو دور کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔
ہو گیا۔۔۔۔ ماہی نے آہستہ سے کہا۔
نائلہ نے گہری مسکراہٹ دی،
ہاں اب لاکھوں لوگوں کی جان بچ جائے گی۔۔۔

++++++++++++

کہیں ایک سنسان جگہ پر، ایک پرانی گودام نما عمارت میں، ولید حامد کے سامنے بیٹھا تھا۔ ولید کے چہرے پر بےچینی صاف جھلک رہی تھی، جبکہ حمید اپنی مخصوص انداز میں، بیٹھا سرد نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔
یار، وہ کچھ غلط کر رہی ہے… ولید نے گہری سانس لیتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
حامد نے بھنویں اچکائیں،
کون ہے تُو؟ میں نہیں جانتا تجھے۔ نکل جا یہاں سے۔۔۔۔۔
یار حامد، دیکھ نا… مجھے تیری مدد چاہیے۔۔۔۔
حامد نے طنزیہ مسکراہٹ دی،
اچھا ؟ ایک تو میں تیری ہیلپ کروں اوپر سے تو جو چاہے میرے ساتھ کر۔۔۔۔
ولید نے بےچینی سے اپنے ہاتھ میز پر مارے،
دیکھ، تُو اس سب کو بھول جا… وہ سب ختم ہو چکا ہے۔۔ مجھے صرف اس مسئلے کا حل چاہیے۔

میں نہیں بھولا۔۔ اور نہ ہی بھولوں گا۔۔

ولید نے گہری سانس لی اور آنکھیں سکڑ کر حامد کو دیکھا، دیکھ، پوری دنیا میں صرف میں ہی ہوں جس نے تیرا اصل چہرہ دیکھا ہے… اگر تُو نے میری مدد نہ کی، تو میں تجھے بے نقاب کر دوں گا۔۔۔۔ ولید نے اُسے خوف زادہ کرنا چاہا۔۔۔۔

حامد نے سگریٹ کا کش لیا اور مسکرا کر جواب دیا، نہیں، تُو اکیلا نہیں ہے… میں نے بھی اپنا چہرہ دیکھا ہے۔۔۔۔

ولید غصے سے اسے گھورنے لگا۔

“میں کچھ نہیں کروں گا۔۔۔ میں نے پہلے ہی تیرے اوپر بہت احسان کیے ہیں… حامد نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔

ولید نے غصے سے کہا مدد کرے گا یا نہیں؟

حامد نے اسے غور سے دیکھا، پھر ایک لمبی سانس لے کر بولا، اچھا، بول، کرنا کیا ہے؟

ولی اُس کا بہت اچھا دوست تھا۔۔۔اور وہ ولی کے لیے ہر خطرہ مول لینے کو تیار تھا۔۔۔۔

+++++++++++++

مسٹر جیک اپنی کرسی پر ٹیک لگائے، سگار کے دھویں کو دائرے کی شکل میں ہوا میں چھوڑ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک تھی، جیسے وہ پہلے ہی اپنی جیت دیکھ چکا ہو۔ سامنے کھڑا ایرک اس کے اشارے کا منتظر تھا۔
ایرک، مجھے یہ لڑکا لا کر دو… کہیں سے بھی، کسی بھی طریقے سے۔۔۔۔ جیک کی بھاری آواز کمرے میں گونجی۔
مجھے یہ لڑکا ایم۔ڈی کے سامنے کھڑا کرنے کے لیے چاہیے… مجھے ایم۔ڈی کو اس کی اوقات دکھانی ہے۔۔۔ اس کے لہجے میں ایک عجیب ضد اور جنون تھا۔

ایرک نے بھنویں اچکائیں، لیکن سر، یہ ہمارے ساتھ کام کرنے پر کیوں مانے گا؟…

مسٹر جیک نے زہریلی مسکراہٹ دی، تم بس اسے لے کر آؤ، اس سے کام لینا میرا کام ہے۔۔۔۔

ایرک نے سر جھکایا، ٹھیک ہے سر، کام ہو جائے گا… لیکن کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ لڑکا ایم۔ڈی کے خلاف کھڑا ہو جائے گا؟

جیک نے دھواں فضا میں چھوڑتے ہوئے نظروں کو سکڑایا، ہاں، میں نے اسے فائٹ کرتے دیکھا ہے… یہ ایم۔ڈی کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے بالکل پرفیکٹ ہے۔۔۔۔

ایرک نے جیب سے فون نکالتے ہوئے ہلکی مسکراہٹ دی، اوکے سر… میں سمجھ گیا۔۔۔

مسٹر جیک چالیس سال کا ایک خطرناک آدمی تھا، کسی زمانے میں ایم۔ڈی کا قریبی دوست، لیکن اب اس کا بدترین دشمن! وہ جانتا تھا کہ ایم۔ڈی کو سیدھا ٹکر دینا آسان نہیں، اسے ایسا آدمی چاہیے تھا جو ایم۔ڈی کو ٹکر دے سکے… اور وہ لڑکا اس کے لیے پرفیکٹ تھا۔۔۔۔
ایرک، جو ہمیشہ جیک کے خاص کاموں کو سنبھالتا تھا، سمجھ چکا تھا کہ اب کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ اس نے سر ہلایا اور کمرے سے نکل گیا… ایم۔ڈی کے خلاف ایک نئی چال بچھائی جا رہی تھی۔۔۔

+++++++++++++

لندن کی بندرگاہ پر رات کا اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔ سمندر کی ٹھنڈی ہوا میں نمکین نمی تھی، اور کہیں دور گودی کے چراغ ہلکی پیلی روشنی بکھیر رہے تھے۔ دو بڑے ٹرک دھیرے سے رک گئے۔ انجنوں کی گڑگڑاہٹ ختم ہوتے ہی ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی۔
ساحل کی گیلی مٹی پر بھاری جوتوں کی آہٹ گونجی۔ سائے میں لپٹے آدمی دھیرے دھیرے آگے بڑھے۔ ایک سیاہ کوٹ میں ملبوس شخص، جس کے ہاتھ میں سلگتی ہوئی سگریٹ تھی، ٹرک کے قریب آیا۔ اس کے چہرے پر ایک ایسا سکون تھا جو صرف ان لوگوں کے پاس ہوتا ہے جو خطرے کو قریب سے جانتے ہیں۔
ایم ڈی نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لیا اور دھواں فضا میں چھوڑتے ہوئے ٹرک کے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔
کھولو اسے۔
حامد نے ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے کی طرف دیکھا، جو اندھیرا ہونے کی وجہ سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔ پھر سر ہلا کر آگے بڑھا۔ اس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اور ایک جھٹکے سے دروازہ کھول دیا۔ اندر جو کچھ تھا، وہ کسی بھی عام انسان کے لیے دہشت کی علامت ہوتا، لیکن یہاں موجود لوگ عام نہیں تھے۔
چمکتے ہوئے ہتھیار—کلاشنکوف، رائفلیں، ہینڈ گرنیڈ—ایک منظم انداز میں رکھے گئے تھے، جیسے کسی فنکار نے ایک شاہکار تخلیق کیا ہو۔ ہر چیز بہترین حالت میں تھی، جیسے ابھی ابھی کسی فوجی فیکٹری سے نکلی ہو۔

حامد نے ایک کلاشنکوف اٹھائی، اس کی نالی کا معائنہ کیا اور اطمینان سے کہا، ایک تو میں نے چلا کر بھی چیک کیا، بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔

ایم ڈی نے آنکھیں تنگ کر کے اسلحے کے ڈھیر کو دیکھا۔ ایک پل کے لیے اس کی آنکھوں میں حیرانی جھلکی، جیسے اسے یقین نہ آیا ہو کہ قبضہ مافیا نے واقعی اسے دھوکہ نہیں دیا۔
واہ… وہ آہستہ سے بڑبڑایا، یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔
لیکن اگلے ہی لمحے، اس کی نظریں تیز ہو گئیں۔
تیاری کرو، اس نے سرد لہجے میں کہا، ہم اسی اسلحے سے قبضہ مافیا پر حملہ کریں گے۔

حامد ایک لمحے کو ٹھٹھک گیا۔ لیکن باس…

ایم ڈی کی نظریں برف کی طرح سرد تھیں۔ زیادہ بحث مت کرو، حمید۔ جو کہا ہے وہ کرو۔

حامد نے ہچکچاتے ہوئے کہا، لیکن باس، جب انہوں نے ہمیں دھوکہ نہیں دیا، سارا اسلحہ صحیح سلامت دیا ہے، تو پھر حملے کی کیا ضرورت ہے؟

ایم ڈی کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی، لیکن اس کے الفاظ زہر کی طرح ٹھنڈے تھے۔
تمہیں کیا لگتا ہے، میں نے انہیں ڈرگز کی جگہ آٹا دے کر بے وقوف بنایا ہے اور وہ خاموش بیٹھے رہیں گے؟ نہیں، حامد۔ اس سے پہلے کہ وہ ہم پر حملہ کریں، ہمیں انہیں ختم کر دینا چاہیے۔

نہیں، پہلے ایسا کرو، ان کو جنگ کی پیشکش کرو۔ اگر وہ مان گئے، تو ہم منصفانہ لڑائی کریں گے۔ اگر انہوں نے انکار کیا، تب ہم حملہ کریں گے۔
لندن کی مافیا دنیا میں دشمنی کا فیصلہ ایک خاص اصول کے تحت ہوتا تھا۔ دونوں گروہ اپنے تمام آدمیوں کو لے کر ایک کھلے میدان میں جمع ہوتے، جہاں ایک خونریز جنگ لڑی جاتی۔ جو گروہ ہارتا، اس کا لیڈر پولیس کے حوالے کر دیا جاتا، اور اس کے آدمی جیتنے والے گروہ میں شامل کر لیے جاتے۔ یہ ایک بے رحم کھیل تھا، جہاں موت ہی واحد انصاف تھی۔

مگر باس… حامد نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
ایم ڈی نے گہری نظرے حامد پر ڈالی۔۔۔، اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، ایسی چمک جو صرف ایک خطرناک کھیل کے آغاز پر آتی ہے۔
تمہیں پتہ ہے، حامد… ایم ڈی نے دھیرے سے کہا، میرا شروع سے یہی پلان تھا۔ میں چاہتا ہوں جہاں ایم ڈی رہے، وہاں کسی دوسرے کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ مافیا انڈسٹری میں صرف اور صرف ایم ڈی کی ہی دہشت ہو۔
حامد نے چونک کر ایم ڈی کی طرف دیکھا۔
مجھے کبھی بھی قبضہ مافیا سے کوئی ڈیل کرنی ہی نہیں تھی، حامد۔ میں تو چاہتا تھا کہ وہ سامنے سے وار کرے، ہم لڑیں، اور میں اسے ختم کر دوں۔
وہاں موجود باقی لوگ خاموشی سے ایم ڈی کی بات سن رہے تھے۔
ایم ڈی نے گہری سانس لی اور کہا اسی لیے میں نے اس کی جیولری والی پیشکش بھی رد کر دی، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں اسے تھوڑا دھتکاروں گا، تو وہ غصے میں آکر کچھ نہ کچھ کرے گا۔ کوئی چالاکی، کوئی وار، کوئی دھوکہ۔ لیکن وہ تو آسانی سے مان گیا، حمید۔ اُلٹا اسلحے کا ٹرک بھی بھیج دیا، بغیر کسی فریب کے۔

ایم ڈی نے ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ دھواں فضا میں چھوڑا۔ یہی چیز مجھے کھٹک رہی ہے۔ یا تو وہ بہت بے وقوف ہے، یا پھر وہ کچھ اور سوچ رہا ہے۔ اور میں بے وقوفوں کے ساتھ کھیل نہیں کھیلتا۔ میں شک کو موقع نہیں دیتا۔

حامد نے ایک لمحے کے لیے نظریں جھکا لیں، پھر بولا، لیکن باس، یہ جنگ خطرناک ہوگی۔ اگر ہم ہار گئے—
ہار؟ ایم ڈی نے زور سے ہنسی میں کہا، یہ لفظ میں نے اپنی زندگی سے کب کا نکال دیا ہے،
ایم ڈی نے سگریٹ کا آخری کش لیا اور فلٹر کو زمین پر پھینک کر جوتے سے مسل دیا، جیسے یہ سگریٹ نہیں بلکہ قبضہ مافیا کا نشان ہو۔
اب ان کو جنگ کی دعوت دو۔ اگر ان میں ہمت ہے، تو وہ مقابلہ کریں گے۔ اور اگر نہیں— ایم ڈی کی آواز میں سفاکی گھل گئی، تو پھر ہم انہیں وہ انجام دیں گے جو بزدلوں کا ہوتا ہے۔

حامد نے سر ہلایا اور ایک اشارہ دیا۔ چند لمحوں بعد، ایک آدمی موبائل نکال کر پیغام بھیج رہا تھا۔ پیغام سیدھا قبضہ مافیا کے لیڈر، طاہر بلیک، کے پاس پہنچا
اگر تم میں ہمت ہے، تو جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔۔۔

+++++++++++++++

رات کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ گھڑی کی سوئیاں دو بجنے کا اعلان کر رہی تھیں جب احمد صاحب دروازے سے اندر داخل ہوئے۔
گھر کا ماحول ہمیشہ کی طرح خوشگوار تھا۔ سب نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا، مگر ایک چہرہ ایسا تھا جو اس روایتی محبت کا حصہ نہ بن سکا۔
السلام علیکم، ابو۔۔۔۔
سب ایک ایک کر کے ان سے ملے، مگر ولید… وہ بس رسمی سلام کہہ کر پیچھے ہٹ گیا۔
احمد صاحب نے محبت سے بہائیں پھیلائیں، مگر وہ
مجھے نیند آ رہی ہے… میں سونے جا رہا ہوں۔
یہ کہہ کر وہ بنا پلٹے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
نازیہ نے فکرمند ہو کر کہا،
اسے کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟

حارث نے لاپروائی سے کندھے اچکائے،
چھوڑیں نا، شاید تھکا ہوا ہوگا۔ صبح مل لے گا ابو سے… ابھی جو ہم اپنی نیند قربان کر کے جاگ رہے ہیں، ہم سے تو ملیں!

مہِر نے مسکراتے ہوئے چبھتا جملہ پھینکا،
بھائی، آپ کی نیند کب خراب ہوتی ہے؟ آپ تو سوتے ہی نہیں۔۔۔۔

حارث نے فوراً گھورا،
چپ ایک دم چپ۔۔ بس موقع ملتے ہی چُھڑیاں چلانے لگتی ہو۔۔۔

نازیہ نے ہنستے ہوئے کہا،
دیکھ لیں، یہی حال رہتا ہے۔ چوہا بلی کی طرح دن بھر لڑتے رہتے ہیں یہ دونوں۔۔۔۔

احمد صاحب نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا،
چلو، اب میں بھی ‘ٹام اینڈ جیری’ کا شو دیکھوں گا۔۔۔

پھر محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ بولے،
ماہی بیٹا، تم کیسی ہو؟

ماہی خیالات میں گم تھی۔ وہ ولید کے رویے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ چونک کر بولی،
میں…؟

حارث نے شرارت سے کہا،
نہیں، یہاں اور بھی کوئی ماہی رہتی ہے تمہارے ساتھ؟

ماہی نے مصنوعی غصے سے جواب دیا،
ہاں، ماہی کے ساتھ ماہی خود رہتی ہے۔۔۔

احمد صاحب ہنس پڑے،
یہ تو ہے۔۔۔

حارث نے منہ بنا کر کہا،
اوہو ابو، کیا یہ تو ہے… یہ تو پاگلوں کی علامت ہوتی ہے۔۔۔

نازیہ نے چوٹ کی،
جو کہ مجھے تم میں ساری کی ساری نظر آتی ہے۔۔۔

ہنسی مذاق جاری رہا، مگر ماہی کے دل میں ایک چبھن تھی —
ولید کا رویہ غیر معمولی تھا۔

رات گہری ہو چکی تھی۔ سب اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔
ماہی بھی اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر ولید کے دروازے پر پڑی — دروازہ ہلکا سا کھلا تھا، اور اندر روشنی جھلک رہی تھی۔

تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور جھانک کر دیکھا۔
ولید کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا تھا، چہرے پر عجیب سنجیدگی اور آنکھوں میں خالی پن۔

یہ سویا نہیں ابھی تک؟ ماہی نے خود سے کہا۔

کمرے میں خاموشی تھی، بس کی بورڈ کی ہلکی آواز۔
ماہی نے سخت لہجے میں کہا،
یہ کیا حرکت تھی؟

ولید نے بغیر نظریں ہٹائے کہا،
کیا؟

انکل اتنے دن بعد آئے اور تم نے انہیں مایوس کر دیا۔ ہمیشہ سب سے اچھے سے ملتے ہو، لیکن ان سے نہیں؟

ولید نے گہری سانس لی، پھر کہا،
یہ میرا مسئلہ ہے، تم بیچ میں مت بولو۔

ماہی نے آنکھیں سکیڑ کر کہا،
اچھا؟ تو تم میرے معاملے میں بولتے ہو تو ٹھیک، اور میں تمہارے معاملے میں کچھ نہ کہوں؟
بتاؤ، ایسا کیوں کیا؟

ولید نے گردن موڑ کر پہلی بار اس کی طرف دیکھا۔
ہاں تو، میں نے کہا تھا انہیں کہ ہمیں چھوڑ کر باہر جا کر کام کریں؟ اگر انہیں ہماری پرواہ ہوتی تو یہیں رہتے۔

ماہی نے بے یقینی سے کہا،
یہ کیسی منطق ہویٔ بھلا؟ شاید ان کے پاس کوئی اور راستہ نہ ہو، کوئی مجبوری ہو؟ اور تمہیں کیا لگتا ہے؟ وہ سب کچھ اپنے لیے کر رہے ہیں؟ وہ تم لوگوں کے لیے ہی تو محنت کر رہے ہیں! اگر کام نہ کریں گے تو تمہیں اچھی زندگی کیسے دیں گے؟”

ولید نے نظریں چرا لیں۔

ماہی نے دھیرے سے کہا،
کوئی باپ شوق سے اپنی اولاد سے دور نہیں رہتا۔۔

ولید نے سر جھٹکا،
بالکل، جیسے تمہارے ابو نے بھی کسی مجبوری میں دوسری شادی کی ہو گی؟ کیا پتہ، تمہاری خاطر ہی کی ہو؟

ماہی نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں، جیسے وہ ٹھیک سے سن نہ پائی ہو،
کیا؟ اب میرے ابو کہاں سے آ گئے بیچ میں؟

جیسے تم میرے اور میرے ابو کے معاملے میں آئی، ویسے ہی۔

ماہی کا چہرہ سخت ہو گیا،
میرے ابو کا معاملہ الگ ہے، وہ اچھے نہیں ہیں۔۔۔

ولید نے آہستہ سے کہا،
میرے ابو کا بھی الگ معاملہ ہے… وہ بھی اچھے نہیں ہیں۔

ماہی خاموش ہوگئی۔ پھر پھٹ پڑی،
یہ جھوٹ ہے وہ بہت اچھے ہیں… تم اچھے بیٹے نہیں ہو۔۔۔۔

تو کیا تم اچھی بیٹی ہو؟

ہاں! میں بہت اچھی ہوں! اور تم میرے ابو کو چھوڑو، اپنے ابّو کی سائڈ کو سمجھو
ہمیشہ کی طرح اُس کا وہیں ہد ڈرام  لہجہ

تم بھی اپنے ابو کی سائڈ کو سمجھو۔
ولید نے بھی ماہی کے انداز میں ہی ماہی سے کہا۔۔

ماہی نے اسے گھور کر دیکھا۔ ولید نے کندھے اچکائے اور بے پروائی سے بولا، گھورتی رہو۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ کمپیوٹر اسکرین کی طرف متوجہ ہو گیا، جیسے اس بات چیت کا کوئی اثر ہی نہ ہوا ہو۔
ماہی سمجھ گئی تھی کہ اب وہ چاہے یا نہ چاہے، ولید اسے سمجھائے بغیر رہنے والا نہیں تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ ضدی ہے، اپنی بات منوانا جانتا ہے۔ مگر سب سے زیادہ جو چیز اسے تنگ کر رہی تھی، وہ یہ تھی کہ ولید اسے سننے پر مجبور کر رہا تھا۔وہ ہمیشہ سے ایسا ہی کرتا تھا۔۔۔وہ اچھے سے سمجھتی تھی اُسے۔۔۔لیکن یہاں اگر اُس کے ابّو کا معاملہ ٹھیک کرنا ہے جس کی وجہ سے اُسے سنا ہی پڑے گا۔۔۔
ماہی کو ہمیشہ سے اپنے ماضی اور اپنی فیملی کے بارے میں بات کرنے سے نفرت تھی۔ اسے یہ پسند نہیں تھا کہ وہ کسی کے سامنے روئے یا کوئی اس پر ترس کھائے۔ اس نے کبھی کسی کو اپنی کہانی سنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اور اگر کبھی کوئی اس کے بارے میں کچھ کہنے کی کوشش کرتا، وہ فوراً اسے روک دیتی تھی-یہاں تک کہ سچائی سننے سے پہلے ہی۔
مگر ولید… وہ ان سب میں مختلف تھا۔ اس پر وہ اپنا یہ حربہ استعمال نہیں کر سکتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ زبردستی نہیں کرے گا، مگر وہ خاموش بھی نہیں بیٹھے گا۔
اور سچ تو یہ تھا کہ وہ کبھی کسی سے اپنی کہانی کہتی ہی نہیں تھی۔ اس کی سب سے اچھی دوست، مینی، ہی وہ واحد شخص تھی جسے کچھ کچھ چیزوں کا اندازہ تھا-وہ بھی صرف تب جب مینی نے خود کھوج لگا کر پوچھا تھا۔ مگر ماہی کے دل کی اصل باتیں… وہ تو مینی بھی نہیں جانتی تھی۔
ماہی کے پاس مینی کو اپنی زندگی کی کچھ جھلکیاں بتانے کی صرف دو وجوہات تھیں
پہلی، مینی کی اپنی زندگی کے اتنے “فضول فضول” دکھ تھے کہ وہ ماہی پر ترس نہیں کھاتی تھی۔ کیونکہ حقیقت میں، مینی پر کوئی بڑا ظلم ہوا ہی نہیں تھا۔ اس کے مسائل عام تھے، چھوٹے موٹے… مگر اس کا ردِعمل ایسا ہوتا جیسے دنیا اجڑ گئی ہو۔ اسی لیے وہ ماہی کی کہانی سن کر اس پر رحم کرنے کے بجائے، عام انداز میں بات کرتی تھی۔
اور دوسری وجہ… مینی باتیں بھول جاتی تھی۔
یہ سب سوچتے ہوئے ماہی کی نظریں ولید پر جم گئیں، جو اپنی توجہ دوبارہ کمپیوٹر اسکرین کی طرف موڑ چکا تھا۔ مگر ماہی جانتی تھی کہ آج وہ اس سے خاموشی سے جان نہیں چھڑا پائے گی۔ ولید وہ شخص تھا جو کسی نہ کسی طرح بات نکال ہی لیتا تھا۔ اور آج… شاید وہ بھی کچھ کہنے پر مجبور ہو جائے۔
ماہی نے گہری سانس لی، جیسے خود کو تیار کر رہی ہو، اور پھر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
اچھا، بولو… اس نے نظریں ولید پر جماتے ہوئے کہا۔

ولید نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا، پھر کرسی پر آرام سے بیٹھتے ہوئے بولا،
زیادہ نہیں بولوں گا… بس تم اپنے ابّو کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔

ماہی کا چہرہ سخت ہوگیا۔
پھر وہی بات؟ اس کی آواز میں سختی تھی، جیسے وہ خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہو۔
میں اپنے ابو کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں چاہتی، اور نہ ہی ان کے حق میں کوئی دلیل سننے کا ارادہ رکھتی ہوں۔

ولید نے نظریں نہیں چرائیں، یہی تو مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔ تم نے ایک بار فیصلہ کر لیا کہ وہ غلط ہیں، تو اب کسی اور زاویے سے دیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔

کیونکہ وہ غلط ہیں۔۔۔ ماہی نے فوراً جواب دیا، جیسے کسی نے اس کے زخم پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔
تم انہیں نہیں جانتے، تُم کیوں انہیں صحیح ثابت کرنے پر تلے ہو۔

ولید نے ہلکی سی تلخ مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا۔ اور تم میرے باپ کو نہیں جانتی، لیکن وہ تمہیں صحیح لگ رہے ۔۔ میں نہیں کیوں کے تُم مُجھے سے نفرت کرتی ہو اسی لیے اُن کی سائڈ تمہیں صحیح لگ رہی۔۔۔
ماہی خاموش ہوگئی۔ ولید نے کرسی کے بازو پر کہنی ٹکا کر سنجیدگی سے کہا، بس یہی فرق ہے ماہی۔ تم صرف اپنی کہانی کا ایک رخ دیکھتی ہو، تُم نے ایک دفعہ جس سے نفرت کرلی سو کرلی ۔۔۔ کبھی جاننے کی کوشش نہیں کرتی کے اگلا بندہ بھی ٹھیک ہوسکتا ہے۔۔۔

ولید نے اپنی بات مکمل کیی اور  دوبارہ کمپیوٹر اسکرین کی طرف دیکھنا شروع کر دیا، جیسے اس نے کوئی بہت معمولی بات کی ہو۔ مگر ماہی کے اندر ایک ہلچل سی مچ گئی تھی۔

ماہی کبھی غلط نہیں ہوتی۔۔۔ وہ غرائی، آنکھوں میں شعلے اور لہجے میں ضد کی شدت تھی۔ اور تم جاؤ بھاڑ میں! اپنے باپ سے بات کرنی ہے تو کرو، نہیں کرنی تو مت کرو! مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔
وہ یہ کہتی غصے میں روم سے نکل گئی اور ولید بے بسی کے عالم میں اسے جاتا دیکھا رہ گیا۔۔۔اور وہ روہانسی آواز میں کہتا۔۔۔
دنیا چاہے اِدھر سے اُدھر ہو جائے، مگر میں تم سے کبھی ‘گیو اپ’ نہیں کروں گا، ماہی۔
جب میں لندن آیا تو میں نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ تمہارے معاملے سے میں دور رہوں گا، مگر میں تمہارے معاملے سے دور نہیں رہ پاتا ہوں۔۔۔میرا بس نہیں چلتا کہ میں سب کچھ ٹھیک کردوں۔۔۔۔
دو طرح کے انسان ہوتے ہیں،
ایک وہ جو اللہ سے دور، مگر دنیا کی خواہش کے قریب ہوتے ہیں۔
اور دوسرے وہ جو اللہ کے قریب اور دنیا کی خواہش سے دور ہوتے ہیں۔
لیکن ماہی… تم ؟ تمہیں تو نہ دنیا چاہیے، نہ آخرت… تم نے تو خود کو برباد کر لیا ہے۔
اور میں یہ نہیں دیکھ سکتا، ماہی۔ جب تک تم یہاں ہو، میں تمہیں سمجھاتا رہوں گا۔ اور دعا کرتا رہوں گا کہ ایک نہ ایک دن، اللہ تمہیں ہدایت دے ہی دیں گے۔

++++++++++++

کمرے میں طوفان سا برپا تھا۔ بیڈ کے کشن ایک ایک کر کے نیچے گر رہے تھے، اور ہر گرنے والے کشن کے ساتھ ماہی کے غصے کی شدت بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کے چہرے پر نفرت کی سرخی دوڑ رہی تھی، آنکھوں میں غصے کی آگ تھی، اور لب مسلسل برستے جا رہے تھے۔

مجھے نفرت ہے اس سے… انتہا کی نفرت۔۔۔ وہ زہر آلود لہجے میں بڑبڑائی، ہمیشہ مجھے یوں محسوس کرواتا ہے جیسے میں کچھ بھی نہیں، جیسے میری کوئی اہمیت ہی نہیں۔۔۔ اس کا دماغ جیسے جلنے لگا تھا، ہاتھ مٹھیوں میں سختی سے بند ہو گئے۔
ولید سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔۔ ہر بات میں ٹانگ اڑانے والا جیسے یہ اس کی زندگی نہیں، میری زندگی پر بھی اسی کا حق ہے۔

یہ میری زندگی ہے! میں جیسے چاہوں گزاروں! اسے کیا مسئلہ ہے؟ اس کے غصے میں لرزتی آواز کمرے میں گونجی، جیسے وہ اپنے آپ سے، دیواروں سے، فرش سے شکوہ کر رہی ہو۔

اور اس بار فیصلہ کر چکی تھی۔ بس! آج کے بعد ماہی کبھی بھی ولید سے بات نہیں کرے گی۔۔۔
وہ ایک عہد کرتے ہوئے بولی۔

لیکن پھر اچانک کچھ یاد آتے ہی اس نے بے چینی سے فون اٹھایا اور کانپتے ہاتھوں سے نمبر ملانے لگی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ پہلی ہی بیل پر فون اٹھا لیا گیا، جیسے دوسری طرف بیٹھا شخص اسی لمحے کا منتظر ہو۔

ہاں، بولو ماہی… سب خیریت تو ہے؟ اتنی رات گئے کال کی تم نے۔ فون کے اس پار پھوپھو کی نرمی سے لبریز آواز آئی۔

پاکستان میں اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے، جب کہ لندن میں آدھی رات گزر چکی تھی۔

ماہی کے لب تھوڑے لرزے، مگر پھر اس نے خود کو سنبھالا۔ میں جو آپ سے پوچھوں گی، سچ سچ جواب دیجیے گا۔۔۔۔ ہر لفظ چبا چبا کر، جیسے خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہو، وہ بولی۔
پھوپھو ایک لمحے کو خاموش ہو گئیں۔ پھر آہستہ سے بولیں، بہت غصے میں لگ رہی ہو… کیا بات ہے؟ ان کا لہجہ ہمیشہ کی طرح نرم تھا، جیسے اس کے اشتعال کو کسی طرح ٹھنڈا کرنا چاہتی ہوں۔
ماہی کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری، مگر اس کے اندر ایک اضطراب تھا۔ اس نے سیدھا سوال کیا، کیا بابا کو سب کچھ پتہ ہے؟ کیا آپ بابا کو میری ہر تفصیل دیتی رہیں؟

پھوپھو نے گہری سانس لی، پھر بولیں، یہ بات تمہیں کس نے بتائی؟ ان کے لہجے میں گھبراہٹ تھی، اور ماہی اس گھبراہٹ کو خوب پہچانتی تھی۔

ماہی کی مٹھی مزید بھینچ گئی۔ پھوپھو! کیا بابا میری یونیورسٹی کی فیس دیتے ہیں؟
دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔ جیسے کسی نے زبان پر مہر لگا دی ہو۔ ماہی نے سخت لہجے میں بات دہرائی، جواب دیجیے، کیا بابا میری فیس دیتے ہیں؟
پھوپھو نے جلدی سے انکار کیا، نہیں… نہیں تو! میں کیوں دوں گی ان کو تمہاری تفصیل اور بھلا وہ کیوں دینے لگے تُمہاری فیس۔۔۔ تُمہاری فیس تو میں دیتی  ہوں۔۔۔۔
لیکن ان کے لہجے کی کپکپاہٹ نے ماہی کو بتا دیا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔ وہ اپنی پھوپھو کو بچپن سے جانتی تھی۔ وہ صرف تب گھبراتی تھیں جب جھوٹ بول رہی ہوتیں۔ جیسے پھوپھو ماہی کے لہجے سے اس کی حالت کا اندازہ لگا لیتی تھیں، ماہی بھی ان کے ہر لفظ میں چھپا سچ جھوٹ پہچان لیتی تھی۔
اور آج… آج یہ جھوٹ ناقابلِ برداشت تھا!
ماہی کے اندر جیسے کوئی چیز ٹوٹ گئی۔ اس کا دل کسی بے وفائی کے احساس سے بھر گیا۔ وہ دھاڑتی ہوئی بولی، پھوپھو! آپ نے مجھے دھوکا دیا! سیرئیسلی پھوپھو، آپ نے مجھے دھوکا دیا؟!
آنکھوں میں آنسو تو نہیں آئے، مگر دل بری طرح کانپ رہا تھا۔ میں نے آپ پر سب سے زیادہ بھروسہ کیا تھا! بچپن سے لے کر آج تک، جو آپ نے کہا، وہی کیا! آنکھیں بند کر کے آپ پر یقین کیا! اور آپ نے…؟
ماہی کے ہاتھ کانپ رہے تھے، سانسیں بوجھل ہو رہی تھیں۔ اسے ایسا لگا جیسے وہ کسی بند گلی میں آ کر کھڑی ہو گئی ہو، جہاں پیچھے بھی اندھیرا تھا اور آگے بھی۔
اور آپ نے مجھ سے اتنی بڑی بات چھپائی؟ ماہی کے لب کانپے، آواز میں دکھ کی نمی تھی مگر آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ حالانکہ میں نے آپ سے کتنی بار پوچھا تھا! کیا آپ کی بابا سے بات ہوتی ہے؟ کیا آپ نے بابا کو کچھ بتایا؟ وہ غصے میں مُسلسل کچھ بھی سنے بغیر بولی جا رہی تھی۔۔
آپ اس وقت بھی بتا سکتی تھیں، پھوپھو! اگر تب بتاتیں تو شاید مجھے اتنا دکھ نہ ہوتا۔ لیکن اب… اب جان کر ہو رہا ہے۔۔۔۔
فون کے دوسری طرف پھوپھو کی پریشان آواز ابھری، ارے ماہی، میری بات سنو—
نہیں کرنی! نہیں کرنی!! ماہی کی چیخ کمرے کی دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آئی۔ اگر کمرہ بند نہ ہوتا تو شاید آواز باہر تک گونج جاتی۔
آپ نے مجھے یوکے بھیجا تھا نا؟ یہ کہہ کر کہ ماہی، تم یوکے جا کر پڑھو اور پھر تُم  پاکستان آکر میرا بزنس سنبھالو گی؟ اب سنیں! ماہی لندن سے کبھی واپس نہیں آئے گی۔۔۔
پھوپھو کے لب ساکت ہو گئے۔ ماہی کی آواز میں ایک عجیب وحشت تھی، ایک ایسا فیصلہ جس پر مڑ کر دیکھنے کی کوئی گنجائش باقی نہ ہو۔
اور نہ ماہی کو آپ کے پیسوں کی ضرورت ہے! ویسے بھی، وہ پیسے تو آپ کے ہوتے ہی نہیں تھے… جو بھی۔۔۔ وہ تلخی سے بولی۔ اب ماہی اپنے آپ کو خود سنبھالے گی۔۔۔
ماہی نے ایک گہری سانس لی، دل جیسے کسی پتھر میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اور دوبارہ مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔
فون بند ہو چکا تھا۔
ماہی… سنو تو! ماہی! ماہی! ماہی!
پھوپھو کی بے بس آوازیں موبائل کی اسکرین پر کٹ کر رہ گئیں۔ شاید ان کے دل میں ہزاروں وضاحتیں تھیں، شاید وہ سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھیں… لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔
ماہی نے بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے ان کا نمبر بلاک کر دیا۔
خاموشی چھا گئی۔
اس نے فون ہاتھ میں مضبوطی سے تھام لیا، لیکن انگلیاں کانپ رہی تھیں۔ اس کے اندر ایک جنگ جاری تھی۔ رونا آ رہا تھا… لیکن نہیں! نہیں!
رونے والے کمزور ہوتے ہیں… اور ماہی کمزور نہیں ہے۔۔۔
اس نے اپنے آنسو سختی سے روک لیے۔
نہیں، وہ روئے گی نہیں۔ وہ اپنے دل کو نرم نہیں پڑنے دے گی۔ وہ جس سے ایک بار بدگمان ہو جائے، اسے اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکال دیتی تھی۔ وہ مڑ کر نہیں دیکھتی تھی، وہ خبر تک نہیں لیتی تھی کہ وہ شخص زندہ بھی ہے یا نہیں۔
ماہی نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر فوراً فون نکالا اور کسی اور کا نمبر ڈائل کیا—
مینی!
اس وقت اسے کسی ایسی چیز کی ضرورت تھی جو اسے یہ سب بھلا دے، جو اسے کسی اور ہی دنیا میں لے جائے۔ اور مینی… مینی کے پاس ہمیشہ وہ کہانیاں ہوتیں، وہ مسئلے ہوتے جو عجیب و غریب ہوتے، جنہیں سن کر ماہی کو رونا نہیں، ہنسی آتی تھی۔
مینی کی زندگی میں جیسے ہر وقت کچھ نہ کچھ اَپر ڈاؤن چلتا رہتا تھا۔ اور جب ماہی مینی سے بات کرتی، تو اس کے اپنے غم پسِ منظر میں چلے جاتے، دھندلا جاتے۔
اور ایک تو اچھی بات کے مینی بھی اس کی طرح رات بھر جاگتی تھی۔۔۔
چلو… کم از کم کوئی تو ہے جو ماہی کو  ہنسا سکتا تھا، جو  کچھ دیر کے لیے  ماہی کو  پُر سکون کر  سکتا تھا۔۔
++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *