عِشق عبادت ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۳
جے کیونگ اور تائیجون جیسے ہی شاپنگ مال پہنچے، رن یون نے غصے سے انہیں گھورتے ہوئے کہا،
کہاں تھے تم دونوں؟ یہاں ہم سب تم لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پریشان ہو گئے!
جے کیونگ نے فوراً ایک جھوٹ گھڑ لیا، بھائی، یہیں تھے، سامان لے رہے تھے۔ شاید آپ لوگوں کو نظر نہیں آئے ہوں گے۔
سوہان نے شک بھری نظروں سے اسے دیکھا، ہاں، جھوٹ! تم لوگ یہاں تھے ہی نہیں، گارڈ نے تم دونوں کو اچھی طرح ڈھونڈا تھا، لیکن تم کہیں بھی نہیں تھے۔
تائیجون نے کندھے اچکائے اور بے پروا انداز میں کہا، کہیں گئے بھی تو تھے، تو کیا اب واپس آگئے ہیں نہ اور صحیح سلامت بھی ہیں، تو مسئلہ کیا ہے؟
رن یون نے گہری سانس لی، اس کے چہرے پر ابھی بھی ناراضی کے آثار تھے۔
مسئلہ یہ ہے کہ تم دونوں بنا بتائے غائب ہو گئے تھے! اگر کچھ ہو جاتا تو؟
جے کیونگ نظریں چرا کر بولا، ہمیں بس تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چاہیے تھی، اسی لیے باہر نکل گئے تھے۔
سوہان نے غور سے جے کیونگ کا چہرہ دیکھا، جیسے وہ سچ جاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
کہاں گئے تھے؟
تائیجون نے جلدی سے بات بدلی، چلو نا، اب زیادہ لیکچر مت دو، ہمیں بھوک لگی ہے۔ کچھ کھانے چلیں؟
رن یون نے انہیں شک بھری نظروں سے دیکھا، لیکن مزید کچھ کہے بغیر آگے بڑھ گیا۔ مگر سوہان کا انداز بتا رہا تھا کہ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا تھا…
—————-
ریسٹورانٹ کی نرم روشنیوں میں کھانے کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ میز پر رکھی ڈشز سے ہلکی ہلکی بھاپ اٹھ رہی تھی، مگر ہیوک کے چہرے پر خفگی کے آثار نمایاں تھے۔ اس نے کہنی میز پر ٹکاتے ہوئے برا سا منہ بنایا اور بولا،
یار، تم لوگ تو بہت بُرے ہو۔۔۔۔
جے کیونگ نے ایک نوالہ چبایا اور بے پروا انداز میں کندھے اچکائے،
“ہاں، پتہ ہے۔”
تائیجون نے چونک کر اسے دیکھا،
میں نے کیا کیا؟
ہیوک نے تیزی سے جواب دیا،
تم دونوں ہمیں بھائی مانتے ہی نہیں ہو! اگر مانتے تو کم از کم بتا کر جاتے۔
جے کیونگ نے مصنوعی آہ بھری۔۔۔
اب یہ ہمیں ایموشنل ڈیمیج کرے گا۔
سیونگ، جو اب تک خاموش بیٹھا تھا، پانی کا گھونٹ لینے کے بعد سنجیدگی سے بولا، ایموشنل ڈیمیج نہیں، سچ میں صحیح کہہ رہا ہے ہیوک۔ تم دونوں بنا بتائے نکل گئے، ہم سب پریشان ہو گئے تھے۔۔۔۔
سوہان نے ہاتھ باندھ کر ان پر گہری نظر ڈالی،
اور ہمیں پورا یقین ہے کہ تم لوگ کہیں نہ کہیں گئے ضرور تھے۔ جھوٹ مت بولو۔۔۔۔
تائیجون نے بے پروائی سے کندھے اچکائے، ہاں ہمارے اندر سکون تھوڑی ہے، ایک جگہ ٹیک لگا کر نہیں بیٹھ سکتے تھے، اس لیے نکل گئے۔۔۔۔
ہیوک نے تائیجون کو گھورا،
تو کم از کم بتایا تو ہوتا۔۔۔۔
جے کیونگ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
اگر بتا دیتے تو ڈرامہ زیادہ ہوتا، جیسے اب ہو رہا ہے۔
سیونگ نے سر جھٹک کر کہا،
تم دونوں واقعی ناقابلِ اعتبار ہو۔۔۔۔
تائیجون نے مسکراتے ہوئے کہا،
جانتے ہیں، پھر بھی تم لوگ ہمیں چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔
سب نے ایک لمحے کے لیے انہیں گھورا، جیسے ابھی بھی ان پر یقین نہیں آرہا تھا۔ پھر ہیوک نے زبردستی اپنی ہنسی دبائی اور سر ہلا دیا، سالے…
اور بس، اس کے بعد ماحول پھر سے نارمل ہوگیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
سوہان نے ناراضی سے ہاتھ باندھ لیے اور سب کی طرف گھور کر دیکھا،
بھائی یہ غلط ہے، تم کچھ بول کیوں نہیں رہے ان دونوں کو؟ میرے وقت تو تمہیں بہت غصہ آتا ہے، اور یہ دونوں جو بنا بتائے نکل گئے۔۔۔۔ سوہان نے رن یون کو اتنے آرام سے بیٹھا دیکھ کہا۔
تائیجون نے مسکراتے ہوئے سوہان کی طرف دیکھا، ارے سوہان، تُو تو ایسے غصہ کر رہا ہے جیسے ہم کوئی بہت بڑی غلطی کر کے آئے ہیں۔ بس تھوڑی سی ہوا کھانے نکلے تھے، کوئی جرم تو نہیں کیا۔۔۔۔
سوہان نے ناگواری سے رخ موڑ لیا،
ہاں ہاں، میرے وقت پر تو تم سب کو بہت اصول یاد آتے ہیں۔ اور اب؟ کوئی کچھ نہیں بولے گا؟ اس نے سب کی طرف دیکھا، خاص طور پر رن یون کی طرف، جو بالکل پرسکون بیٹھا تھا۔
رن یون نے ایک نظر سوہان پر ڈالی اور پھر چپ چاپ کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا، جیسے کہ یہ معاملہ اس کے لیے کوئی خاص اہمیت نہ رکھتا ہو۔
سوہان، چپ کر کے کھانا کھا۔ ہیوک نے سنجیدگی سے کہا۔
کیا؟ سوہان نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، تم بھی؟!
ہاں، کیونکہ تُو فضول میں اوور ری ایکٹ کر رہا ہے۔ ہیوک نے کندھے اچکائے، چلو اب، زیادہ ڈرامہ مت کر اور کھانے پر دھیان دے۔
سوہان نے غصے میں چمچ پلیٹ میں رکھ دیا اور سب کو گھورتے ہوئے کہا،
تم سب ایک جیسے ہو! میں نہیں کھا رہا کھانا۔
سوہان، کھانا کھاؤ چپ کر کے۔ رن یون، جو اب تک خاموش تھا، پہلی بار بولا۔ اس کی آواز میں کوئی سختی نہیں تھی، مگر ایک ایسا دبدبہ تھا، جو سوہان کو ہر دفعہ کی طرح خاموش کروا دیتا تھا۔
کمرے میں چند لمحے خاموشی رہی پھر رن یون نے دوبارہ بولنا شروع کیا، اس بار اس کی نظریں سیدھی سوہان پر تھیں۔
دنیا چاہے ادھر کی ادھر ہو جائے، تم اگر مجھے بنا بتائے کہیں جاؤ گے، سوہان، تو ہم سب تم پر غصہ بھی کریں گے، اور میں ہر بار کی طرح تمہیں ماروں گا بھی۔
یہ جملہ سنتے ہی باقی سب ہلکی سی مسکراہٹ دبانے لگے، مگر سوہان کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
کیا؟ اس نے بے یقینی سے رن یون کو دیکھا، تم تو ایسے بول رہے ہو جیسے میں کوئی چھوٹا بچہ ہوں۔۔۔۔
تم ہو۔ مین سو نے سنجیدگی سے کہا اور اپنی پلیٹ سے ایک نوالہ اٹھا لیا۔
باقی سب کے چہروں پر ہنسی چھپانے والے تاثرات تھے، مگر کسی نے کچھ نہ کہا۔ سوہان جسے اب غصے سے زیادہ شرمندگی محسوس ہو رہی تھی اپنی پلیٹ کی طرف دیکھنے لگا۔
اب آرام سے کھاؤ۔ ہیوک نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا، ورنہ رن یون کا مارنے والا پلان ابھی بھی ایک آپشن ہے۔
سوہان نے سب کو گھورتے ہوئے چمچ اٹھا لیا، تم سب واقعی ایک جیسے ہو۔۔۔۔
بھائی، تم ہم دونوں سے ناراض تو نہیں ہو نا؟ تائیجون کو رن یون کے تاثرات دیکھ کر کچھ گھبراہٹ محسوس ہوئی۔ رن یون کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح کوئی خاص تاثر نہیں تھا، مگر اس کی خاموشی کافی تھی کہ تائیجون اور جے کیونگ دونوں تھوڑے محتاط ہو جائیں۔
رن یون نے ان دونوں کی طرف دیکھا، پھر ایک ہلکی سانس لیتے ہوئے بے پروائی سے بولا، بھلا میری مجال جو آپ دونوں شہزادوں سے ناراض ہوں۔۔۔
تائیجون نے کچھ حیرت سے رن یون کو دیکھا، جب کہ جے کیونگ نے منہ بنا لیا، جیسے کوئی بچہ غلطی کے بعد اپنی ماں کے سامنے معصومیت سے معافی مانگنے کی کوشش کر رہا ہو۔
بھائی۔۔۔ اس نے لمبا سانس لے کر کہا،
ہم اب کوئی چھوٹے بچے تو نہیں ہیں نا اور سوہان کی طرح بھی بالکل نہیں ہیں، تمہیں ہمارے لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہاں، جانتا ہوں کہ تم دونوں بچے نہیں ہو۔ جانتا ہوں کہ جے کیونگ اسٹیج پر تو خوش مزاج اور زندہ دل نظر آتا ہے، لیکن اصل میں اس کے چہرے پر ہر وقت بارہ بجے رہتے ہیں، اور بات بات پر تو اسے غصہ آجاتا ہے۔ اور تم، تائیجون، تمہاری وہی ضد، وہی لاپرواہی! اور تم ایسے کہہ رہے ہو جیسے میں تم دونوں کی فضول اور بے تُکی حرکتوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا! ہاں، مجھے سب پتہ ہے۔ تم دونوں کو مینیجر اور گارڈز پسند نہیں، لیکن اس میں میں کیا کر سکتا ہوں؟ ہم نے کنٹریکٹ پر سائن کیا ہوا ہے، اور اب یہ سب برداشت کرنا پڑے گا۔
اس نے گہرا سانس لیا، جیسے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا چاہ رہا ہو، مگر اس کی آواز میں اب بھی خفگی جھلک رہی تھی۔
اسی لیے میں مینیجر کو تم دونوں سے دور رکھتا ہوں، زیادہ تر تم لوگوں کے معاملات خود ہینڈل کرتا ہوں۔ اور تم دونوں بس اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہو! مجھے بتا کر جاتے تو کیا میں منع کرتا؟ کیا میں تمہاری بات نہ مانتا؟
رن یون کی آواز میں سختی تھی، لیکن اس کے الفاظ میں ایک غیر مرئی درد چھپا تھا، جو تائیجون اور جے کیونگ کے دل پر سیدھا وار کر گیا۔
اگر تم دونوں کو مجھ سے بھی مسئلہ ہے، تو صاف صاف بول دو۔
جے کیونگ اور تائیجون کے دل ایک لمحے کے لیے دھڑکنا بھول گئے۔ ان کے سر بے اختیار جھکے رہے، مگر جیسے ہی انہوں نے نظریں اٹھائیں، رن یون کی آنکھوں میں وہی شناسا پرچھائیاں نظر آئیں—مایوسی، ناراضگی، اور شاید… تھوڑی سی تکلیف۔
تائیجون نے بے ساختہ لب بھینچے، جبکہ جے کیونگ نے بے چینی سے اپنی انگلیاں مروڑیں۔ وہ کچھ کہہ نہیں سکے، کوئی وضاحت، کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔
سوری بھائی۔۔۔
یہ الفاظ بے اختیار ان کے لبوں سے نکلے، اور وہ بھی ایک ساتھ۔ جیسے ان کے دلوں نے تسلیم کر لیا ہو کہ غلطی انہی کی تھی۔
رن یون نے ان دونوں کو دیکھا، گہری سانس لی اور نظریں پھیر لیں۔ وہ جانتا تھا کہ یہ معذرت خالی الفاظ نہیں تھی، بلکہ ایک غیر لفظی وعدہ تھا کہ وہ دوبارہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔
تائیجون اور جے کیونگ شاید سب کے سامنے ضدی، من مانی کرنے والے اور لاپرواہ تھے، لیکن جب بات رن یون کی آتی تھی، تو ان کی ایک بھی نہیں چلتی تھی۔ وہ اس کے سامنے ہمیشہ سے بے بس تھے، اور ہمیشہ رہیں گے۔
رن یون نے گہری سانس لی اور سخت لہجے میں کہا، تم دونوں اگر ہم میں سے کسی ایک کو بھی بتا کر جاتے تو، کم از کم ہم پریشان تو نہ ہوتے! اور جب تک تم دونوں واپس نہ آجاتے، تب تک ہم منیجر اور گارڈ کو کسی نہ کسی طرح بہلا سکتے تھے۔۔۔۔
تائیجون نے فوراً سر جھکا لیا، جے کیونگ نے بھی ندامت سے نظریں چرائیں۔ رن یون کی ناراضگی ہمیشہ ان کے دل پر بوجھ ڈال دیتی تھی، اور وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اس بار وہ واقعی غصے میں تھا۔
تائیجون نے فوراً معصومیت سے ہاتھ جوڑ دیے۔ سوری نا بھائی، اب ہم بتا کر جائیں گے، بس اس بار معاف کر دو۔۔۔۔
اس کی معصوم آواز پر رن یون نے ایک نظر اسے گھورا، لیکن وہ زیادہ دیر تک اس کی شکل دیکھ کر ناراض نہیں رہ سکا۔ وہ جانتا تھا کہ تائیجون ضدی تھا، اس سب سے بڑھ کر وہ تائیجون سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا۔۔۔
اسی لمحے، جو اب تک خاموشی سے سب کچھ سن رہا تھا، مین سو اچانک بول پڑا، بھائی، میں کچھ بولوں؟
اس سے پہلے کہ کوئی جواب دیتا، رن یون نے فوراً دوٹوک لہجے میں کہا، نہیں۔
اور یہ سنتے ہی سب کی ہنسی نکل گئی۔۔۔
یہ بات تو سب جانتے تھے کہ جب بھی مین سو بولتا، کچھ نہ کچھ الٹا ہی بولتا۔ تائیجون اور جے کیونگ، جو ابھی چند لمحے پہلے سخت ماحول میں تھے، اب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔
رن یون نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا دیا۔ یہ سب کبھی نہیں سدھریں گے…
رن یون ان سب سے عمر میں زیادہ بڑا تو نہیں تھا، لیکن وہ ان سب سے محبت کسی بڑے بھائی کی طرح کرتا تھا۔ وہ ان کا خیال ماں کی طرح رکھتا، غصہ باپ کی طرح کرتا، اور مشکل وقت میں ایک حقیقی بڑے بھائی کی طرح ان کے ساتھ کھڑا رہتا۔
رن یون کی پوری دنیا یہی سات بھائی تھے۔ اس کی اصل فیملی یہی تھی۔ وہ ان سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتا تھا، اور ان کے ہر درد کو خود محسوس کرتا تھا۔ وہ خود سے زیادہ انہیں جانتا تھا، ان کی عادتیں، ان کے خوف، ان کی پسند، ان کے خواب… سب کچھ۔
یہ ساتوں بھائی بھی شاید خود کو اتنا نہیں جانتے تھے جتنا رن یون انہیں جانتا تھا۔ ان کے درمیان کوئی خون کا رشتہ نہیں تھا، لیکن ان کا پیار کسی بھی خونی رشتے سے بڑھ کر تھا۔
یہ سب تب سے ایک ساتھ تھے جب وہ صرف اٹھارہ سال کے تھے۔ وہ سب ایک خواب لیے اس انڈسٹری میں آئے تھے، ایک ایسے سفر پر نکلے تھے جس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔ تب سے لے کر اب تک، ان کی زندگی کا زیادہ تر وقت اسی گروپ کے ساتھ گزرا تھا۔
رن یون کی ناراضی ہمیشہ ان کی دنیا ہلا کر رکھ دیتی تھی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ ناراض نہیں ہوتا تھا، بلکہ پریشان ہوتا تھا… ان کے لیے۔ وہ بس چاہتا تھا کہ سب خوش رہیں، محفوظ رہیں، اور ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہیں۔
یہ رشتہ شاید خون سے نہیں جُڑا تھا، لیکن محبت سے بُنا گیا تھا، اور محبت کے رشتے سب سے مضبوط ہوتے ہیں۔
—————
رن یون نے آنکھیں بند کیں، مگر نیند اُس سے دور ہی رہی۔ ہر طرف اندھیرا تھا، لیکن اُس کے دماغ میں روشنی سی تھی۔ وہ لڑکی، اُس کا چہرہ، اُس کی آنکھیں، اور اُس کا رونا ، جو رن یون کے دل میں عجیب سی ہلچل پیدا کر رہی تھی۔ اُسے اُس کی آنکھوں کی گہرائی میں ایسا کچھ نظر آیا تھا، جو اُس نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ وہ لڑکی، جو نہایت سادہ تھی، نہایت معصوم تھی
رن یون کا دل ہر پل اُس کی پریشانیوں میں ڈوبتا جا رہا تھا، اور اُسے کوئی سکون نہیں مل رہا تھا۔ اُس کے ذہن میں ایک سوال تھا جو اُسے بے چین کر رہا تھا۔
وہ کیوں رو رہی تھی؟ ایک گہری سوچ میں غرق، رن یون نے خود سے سوال کیا، اگر وہ اتنی خوبصورت ہے، اتنی پیاری ہے، تو پھر وہ کیوں پردہ کرتی ہے؟ کیوں لڑکوں سے بات نہیں کرتی؟
رن یون کے دل میں اُسے لے کر بے شمار سوالات تھے، مگر سب سے اہم سوال یہی تھا کہ وہ کیوں رو رہی تھی؟ وہ کس بات کے لیے اپنے رب معافی مانگ رہی تھی؟
—————–
تائيجون اور جے کیونگ اپنے کمرے میں ہی تھے جب اچانک ہان وو دروازہ کھول کر اندر آ گیا۔
کہاں گئے تھے تم دونوں؟ اُس نے سیدھے لہجے میں پوچھا۔
تائيجون نے عام سے انداز میں کہا،
کہیں نہیں، بس وہی، شاپنگ مال کے باہر ہی گھوم رہے تھے۔
ہان وو نے تیز نظروں سے گھورا،
جھوٹ۔۔۔۔
جے کیونگ نے فوراً بات سنبھالی،
ہم تم سے جھوٹ کیوں بولیں گے، ہان وو؟
بات کو گھماؤ مت، جے کیونگ۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ تم دونوں کہاں گئے تھے؟ وہ اب بھی سنجیدہ تھا
تائيجون جھنجھلایا،
ابھی کھانے کی میز پر سب بات صاف ہوگئی تھی نا؟ پھر دوبارہ کیوں آئے ہو یہی پوچھنے؟ وہیں پوچھ لیتے۔
ہان وو کچھ کہنے ہی والا تھا کہ جے کیونگ بول پڑا
ہم مسجد گئے تھے۔
کون سی مسجد؟ اُس کا چہرا اور لہجہ اب بھی سنجیدہ تھا
جامعہ مسجد، جے کیونگ نے پرسکون لہجے میں جواب دیا۔
تائيجون نے جے کیونگ کو گھورتے ہوئے کہا
مجھے کہا کہ کسی کو مت بتانا اور اب خود ہی بتا دیا
چپ۔۔۔ جے کیونگ نے تائيجون کو فوراََ چُپ کروا دیا۔
مسجد کیوں گئے تھے تم دونوں؟
ہان وو نے پھر سوال کیا
جے کیونگ نے کندھے اچکائے،
ویسے ہی، بس دیکھنے۔ تم بھی چلو گے؟
نہیں۔۔۔۔ہان وو کہتا پلٹ کر باہر نکل گیا۔
دروازہ بند ہوا تو تائيجون جھنجھلا کر بولا،
تم نے اسے کیوں بتایا؟
جے کیونگ نے پُرسکون انداز میں کہا،
کیونکہ وہ پوچھ رہا تھا۔
تائيجون کے ماتھے پر بل تھے،
اب یہ ہمیں پھنسائے گا۔ جا کے بھائی کو بتا دے گا کہ ہم شاپنگ مال سے اتنا دور مسجد گئے تھے۔
جے کیونگ نے اعتماد سے کہا،
نہیں، یہ ہمیں نہیں پھنسائے گا۔
اور اگر پھنسادیا تو؟ تائيجون کے لہجے میں اضطراب تھا۔
جے کیونگ مسکرا دیا،
وہ سوہان یا مين سو نہیں ہے جو ہمیں پھنسا دے گا وہ ہان وو ہے، وہ خود پھنس سکتا ہے ، مگر ہمیں نہیں پھنسا سکتا۔۔۔
تائيجوننے جھنجھلا کر اس کی طرف دیکھا،
پھر پوچھنے کیوں آیا تھا وہ؟!
جے کیونگ نے لمحہ بھر سوچ کر کہا،
اس کا تو مجھے بھی نہیں پتا۔
تو پھر تم نے پوچھا کیوں نہیں؟
چھوڑ دو۔ ہمیں کیا کرنا ہے؟
وہ لاپروائی سے بولتا بیڈ پر لیٹ گیا۔۔
++++++++++++++
کمرے کے اندر ہان وو ، جے کیونگ اور تائیجون کی باتیں چل رہی تھیں۔ دروازے کے اُس پار، راہداری کی مدھم روشنی میں کھڑے سوہان نے سب سن لیا تھا۔
جیسے ہی ہان وو باہر آیا وہ فوراً اپنے سامنے روم میں گھس گیا
تائيجون اور جے کیونگ، مسجد گئے تھے۔۔۔ اس نے اندر داخل ہوتے ہی ہیوک سے کہا
ہیوک کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں، کیا؟؟
سوہان نے سر ہلایا،
ہاں، میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ وہ دونوں ابھی ہان وو کو بتا رہے تھے۔
وہ لمحہ بھر رکا، پھر ایک فیصلہ کن لہجے میں بولا،
اب ہم بھی جائیں گے۔۔۔۔
ہیوک نے چونک کر پوچھا، کیوں؟
سوہان کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ آئی،
وہ دونوں گئے تھے، اور ہم نہ جائیں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ہیوک نے نا سمجھی سے گردن ہلائی،
ہم وہاں جا کے کریں گے کیا؟
سوہان کی نظریں چمک اٹھیں،
وہی، جو وہ دونوں کر کے آئے ہیں۔
ہیوک نے گہری سانس لی، ہیں؟؟
سوہان آگے بڑھا، اس کے لہجے میں ضد اتر آئی،
تو بس میرے ساتھ چل۔
ہیوک نے ہاتھ ماتھے پر مارا،
ابے ہم وہاں جا کے کیا کریں گے؟ تُو پاگل تو نہیں ہو گیا؟
سوہان نے کندھے اچکائے،
تو نہ چل، میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا۔
ہیوک نے بے بسی سے سر جھٹکا، پھر دھیرے سے بولا،
اچھا، اچھا، چل، میں بھی چلوں گا۔
++++++++++++
اگلی صبح سات بجے کا وقت تھا، سوہان نے ہیوک کو اُٹھانے کے لیے اُس کے منہ سے کمبل ہٹایا
ہیوک، اُٹھ جا! ہمیں مسجد جانا ہے۔۔۔۔ مگر ہیوک کی آنکھوں میں شدید نیند کا غلبہ تھا۔ وہ اپنا بستر چھوڑنے کو بالکل تیار نہیں تھا۔
بھائی، ابھی بہت نیند آ رہی ہے، تُو جا، میں ابھی سو رہا ہوں۔ ہیوک نے آہستہ سے کہا، پھر تکیے کو سر پر ڈالتے ہوئے دوبارہ نیند کی گہری دُھند میں غرق ہو گیا۔
سوہان نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر اپنی نظریں چمکاتے ہوئے کہا،
ٹھیک ہے، میں اکیلا ہی جا رہا ہوں۔
سوہان نے آہستہ سے کمرہ چھوڑا اور دروازہ بند کیا۔
سوہان جب چپ چاپ ہوٹل کے نیچے اترا، اُس کے قدموں کی آواز کے سوا ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ شہر ابھی بھی نیند میں ڈوبا ہوا تھا،
اور جب اُس نے نیچے مین سو کو دیکھا، تو وہ لمحہ بھر کے لیے ٹھٹھک گیا۔
مین سو کا ورزش کے لباس میں کھڑا ہونا، ایک اچھی خاصی صبح کے جوش کا اظہار تھا،۔
سوہان نے اُس کے قریب پہنچتے ہی سوال کیا،
تو کیا کر رہا ہے، اتنی صبح صبح یہاں؟ اُس کی آواز میں حیرانی تھی، کیونکہ وہ تو اس وقت مسجد جانے کی تیاری کر رہا تھا، اور مین سو کا اس وقت یہاں کھڑا ہونا کچھ غیر معمولی لگا۔
مین سو نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، میں جوگنگ کرنے جا رہا تھا۔
مین سو نے گہری نظر سے سوہان کو دیکھا، پھر بولا، مگر تو، تُو اتنی صبح کہاں سے نکل آیا؟ اُس کے لہجے میں حیرانی اور تجسس تھا۔ سوہان جو صبح کبھی جلدی نہیں اُٹھتا تھا آج کیسے سورج نکل آیا۔
اب سوہان کیا کرے ؟ وہ بہت بڑی طرح بھس چکا تھا اب اُسے نہ چاہتے ہوئے بھی اس فسادی کو بتانا ہی پڑے گا نہیں،تو وہ جو فساد کرے گا، اور ایسی کسی بہانے پہ وہ ٹلنے والا بھی نہیں،
سوہان نے دل میں تھوڑی سی اُلجھن محسوس کی، مگر پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے، اُس نے کہا،
وہ میں مسجد جا رہا ہوں۔
ہیں مسجد؟ کونسے مسجد، وہ فیصل مسجد؟ تُجھے اتنا پسند آیا، مین سو نے حیرانی سے سوال کیا۔
نہیں، اُس کے آس پاس اور بھی مساجد ہیں، میں وہاں جارہا ہوں۔۔۔
مین سو نے اُسے کچھ دیر خاموشی سے دیکھا، اور پھر ایک اور سوال اُٹھا دیا، کیوں؟
سوہان کی نظریں نیچے جھک گئیں، جیسے وہ جواب دینے سے پہلے سوچ رہا ہو کہ مین سو کو کیسے بتائے وہ فوراً جواب نہ دے سکا،
مگر پھر اُس نے سر اُٹھا کر کہا،
وہ کل نہ تائیجون اور جے کیونگ مسجد گئے تھے میں بھی وہیں جارہا ہوں۔۔۔
اور تو بنا بتاۓ جا رہا تھا؟ بھائی کو بتاؤ ابھی؟؟ ہاں ؟ مین سو نے سوہان کو غصّہ میں گھورتے کہا بھائی مانا کرتے ہیں نہ تُجھے کہیں اکیلے جانے ؟؟ ہاں۔۔۔؟؟ بتاؤ بھائی کو۔۔۔۔
اچھا تو پھر تو چل میرے ساتھ۔۔۔۔
سوہان نے معصومیت سے کہا
اوکے۔۔۔۔
مین سو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ساتھ چلنا شروع کیا اور پوچھا، ویسے، کونسی مسجد گئے تھے یہ دونوں، اور کیوں گئے تھے؟
سوہان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
جامعہ مسجد گئے تھے، اور کیوں گئے یہ نہیں معلوم، بس یہاں پتہ کرنے جا رہا ہوں۔
++++++++++++++++
جاری ہے۔۔۔
