ishq ibadat

Ishq ibadat Episode 4 written by siddiqui

عشق عبادت ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۴

صبح کی روشنی آہستہ آہستہ ہر چیز کو اپنے دائرے میں لے رہی تھی۔ سورج کے نرم سنہری کرنیں مسجد کے سفید میناروں پر پڑ رہی تھیں، اور ہلکی ہوا درختوں کے پتوں میں سرسراہٹ پیدا کر رہی تھی۔ فضا میں پرندوں کی چہچہاہٹ اور دور کسی چائے کے ہوٹل سے اٹھتی ہوئی ہلکی سی بھاپ نظر آ رہی تھی۔

مین سو اور سوہان تیز قدموں سے مسجد کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کہ اچانک پیچھے سے ایک مدھم سی آواز آئی
سنے…؟

مین سو رکا اور فوراً سوہان کی طرف دیکھا۔
کوئی آواز دے رہا ہے کیا.؟ مین سو نے دھیمے  لہجے  پوچھا۔

سوہان نے سر ہلایا،
ہاں… آواز تو آئی ہے، لیکن کیا کہا، وہ سمجھ نہیں آیا۔

ابھی وہ دونوں ایک دوسرے سے نظریں ملا ہی رہے تھے کہ وہی آواز دوبارہ آئی، اس بار زیادہ واضح اور قریب سے سنائی دی
سنے…؟

دونوں کے قدم بے اختیار رک گئے۔، انہوں نے پھر پیچھے مڑ کر دیکھا۔

سامنے، روشنی اور سائے کے بیچ ایک لڑکی کھڑی تھی۔ اُس کا چہرہ ایک سیاہ نقاب میں ڈھکا ہوا تھا، جس سے صرف اُس کی گہری، پُراسرار آنکھیں نظر آ رہی تھیں۔ اُس نے پنک رنگ کا عبایا پہن رکھا تھا، جو ہوا میں ہلکے ہلکے ہل رہا تھا۔

آپ نے ہمیں بُلایا۔۔۔۔
سوہان نے انگریزی میں اُس لڑکی کو دیکھ کر کہا۔

لڑکی خاموش رہی، اُس کی آنکھوں میں ہلکی سی الجھن ابھری، جیسے وہ  سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو۔ سوہان نے مین سو کی طرف دیکھا، جو بھی اُسی کی طرح حیران تھا۔

مُجھے لگتا ہے اسے انگلش نہیں آتی۔۔۔۔
مین سو نے آہستہ سے کہا۔

سوہان نے گہری سانس لی۔ اُسے صرف اتنا سمجھ آیا تھا کہ لڑکی نے آواز دی تھی، لیکن وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی، یہ اُس کی سمجھ سے باہر تھا۔

تو اب کیا کریں؟ سوہان نے دھیرے سے پوچھا۔

وہ لڑکی  حیرت سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ ایک نظر میں ہی یہ بات صاف تھی کہ یہ دونوں پاکستانی نہیں ہیں۔ گوری رنگت، اور ان کے انداز میں ایک الگ سا بیرونی حسن تھا
سوہان کا قد درمیانہ تھا، اور اس کے ہلکے سنہرے بالوں کی روشنی صبح کے سورج میں چمک رہی تھی۔ اور وہ پیاری سی اپنی سبز آنکھیوں سے اُسے ہی دیکھ رہا تھا کچھ الجھن سے۔۔

مین سو اس کے برعکس زیادہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔ اس کا رنگ تو سوہان سے بھی زیادہ سفید تھا، بالکل دودھ کی تازہ مالائی کی طرح۔ اور اس کی بھوری
آنکھیں، اور ان ہی آنکھوں کے رنگ جیسے بھورے بال، اور قد میں بھی وہ سوہان سے ذرا سا اونچا تھا۔

آپ نے ہمیں بُلایا ؟
سوہان نے دوبارہ انگریزی میں کہا۔

ابے جب اسے انگریزی نہیں آتی تو بار بار انگریزی میں کیوں پوچھ رہا ہے اس سے؟ مین سو نے انگریزی میں ہی سوہان سے کہا

اوہ ہیلو ؟؟ مُجھے آتی ہے انگریزی۔۔۔۔
لڑکی نے ناگواری سے کہا

لو آتی ہے اسے انگریزی۔۔۔
سوہان نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا

کیا آپ دونوں کو اردو نہیں آتی؟
لڑکی نے سوال کیا

نہیں۔۔۔۔ سوہان نے جواب دیا۔

اچھا خیر میرا ایک کام ہے کیا آپ دونوں وہ کردو گے؟ اب کے لڑکی نے انہیں انگریزی میں کہا

نہیں۔۔۔ مین سو نے فوراََ انکار کردیا

ابے لڑکی کو ایسے مانا نہیں کرتے۔۔۔۔
سوہان نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر ہلکی ناراضگی سے کورین میں سو مین سے  کہا،

پھر لڑکی سے دوبارہ مخاطب ہوا
ہاں کرے گے کرے گے آپ بولے کیا کام ہے۔۔۔

نہیں رہنے دے۔۔
لڑکی ناگواری سے سو مین کو گھورتے مڑ گئی

ناراض کردیا نہ ؟؟ سوہان نے تھوڑے غصے سے مین سو سے کہا۔
مانا اب اسے۔۔۔۔

مین سو نے سر ہلایا اور کہا
ابے، میں کیوں مانوں؟

ابے روک اُس کو مانا نہیں تو چلی جائے گی وہ۔۔
سوہان نے جھنجھلا کر کہا،

مین سو نے ایک لمحے کے لیے لڑکی کی طرف دیکھا، جو اب ان کے پاس سے ہاٹ کر مسجد سے  تھوڑی سی دور پر کھڑی تھی۔
سوہان نے اپنی سبز آنکھوں سے مین سو کو گھورتے ہوئے کہا،
ناراض کردیا اُسے۔۔۔ بتاؤں گا میں سب کو جا کر کہ پڑھ لکھ کر یہ سکھا ہے لڑکیوں کی عزت نہیں کرنا آتا پھر سب بھائی تیرا مذاق اڑائیں گے نہ پھر تُجھے پتہ چلے گا۔۔۔۔

مین سو نے ہلکی جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہا
ابے۔۔

سوہان نے فوراً تیز لہجے میں کہا
کیا ابے؟؟
پھر انگلی دکھا کر بولا
مدد تو مان رہی تھی وہ لڑکی، کون سا تیرے فین کی طرح تجھے پروپوز کر رہی تھی کہ مین سو ویل یوں مری مے؟ یا مین سو آئی لوو یو ؟ دیکھ بچاری کو کتنی پریشان لگ رہی ہے کسی کو ڈھونڈ رہی شاید؟ کتنے پیار سے مدد مان رہی تھی اور تو۔۔۔۔
سوہان کی بولتی بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

مین سو نے بیچ میں ٹوکا،
اوئے بس بھی کر۔۔۔ کہاں سے بچاری لگ رہی ہے وہ تُجھے ؟؟

سوہان نے پھر بھی ہار نہ مانی، سبز آنکھیں چمکاتے ہوئے بولا
ہر اینگل سے۔۔ نہیں تو خود دیکھ کتنی معصوم ہے۔۔۔

شکل تو نظر آ نہیں رہی اُس کی۔۔؟؟ معصوم کہاں سے لگ گئی۔۔۔؟؟
مین سو نے جھنجھلا کر کہا

ابے وہ لڑکی ہے نہ اور لڑکیاں معصوم ہی ہوتی ہیں۔۔۔۔ سوہان نے سنجیدگی سے کہا
اب جا کر مانا اُسے۔۔۔۔

تُو چپ نہیں ہوگا نا؟

نہیں۔۔۔ جب تک تو اُسے مانا نہیں لیتا میں بولتا رہوں گا۔۔۔ سوہان نے کسی ضدی بچے کی طرح کہا

مین سو جھنجھلا کر اُس لڑکی کی طرف بڑھا، اُس کو معلوم تھا سوہان کتنا ضدی ہے بولتا ہی رہے گا۔۔۔اور اُس کی بتاؤں سے جان چھڑوانے کا ایک ہی حال ہے وہ لڑکی کی مدد کر دے ۔۔۔
کيسی مدد چاہیے تمہیں ؟؟

لڑکی چونکی پھر بولی
پہلے یہ بتائیں آپ مسجد جا رہے ہیں؟؟

ہاں۔۔۔ سوہان فوراََ آگے آکر بولا

ٹھیک ہے آپ دونوں مسجد جا رہے ہیں نہ تو اندر میرے بھائی ہیں باسط بھائی آپ اُن کو بلا دیں پلز۔۔۔۔

کیوں ہم کیوں بُلا کر لائے، نوکر ہیں آپ کے، آپ خود اندر جائے اور بُلا کر لے آئے۔۔۔ سو مین نے بھنویں چڑھا کر کہا

لڑکی کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے حیرت ابھری،
آپ ہوش میں تو ہیں؟ میں اندر جاؤں؟ اُس نے تیز آواز میں کہا، جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ کسی نے واقعی یہ بات کہہ دی ہے۔

اُس کی پیشانی پر تیور چڑھ گئے، اور وہ دونوں کو گھورنے لگی، جیسے وہ ان کی ہمت پر حیران ہو۔۔

میں نے ایسی بھی کون سی غلط بات کہہ دی ہے؟ مین سو نے ناگواری سے کہا۔

آپ کو نہیں پتہ کہ ہم لڑکیاں مسجد کے اندر نہیں جا سکتیں؟ لڑکی نے قدرے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

مین سو نے حیرت سے اسے دیکھا۔
کیوں؟ لڑکیاں مسجد کے اندر کیوں نہیں جا سکتیں؟

لڑکی نے ذرا سا رک کر گہری سانس لی، پھر نرمی سے بولی،
ویسے تو جا سکتی ہیں، قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ نہیں جا سکتیں، لیکن ہمیں پردے کا حکم ہے، اسی لیے لڑکیوں کا مسجد جانا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔

پردہ؟ مین سو  نے ابرو چڑھا کر کہا، جیسے اسے یہ بات نئی لگ رہی ہو۔

لڑکی نے اُسے غور سے دیکھا اور ماتھے پر تیوری ڈال کر بولی،
کیا آپ مسلمان نہیں ہیں؟ یا ابھی ابھی مسلمان ہوئے ہیں؟ آپ کو اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ؟ آپ مسلمان نہیں تو پھر مسجد کیوں جا رہے ہیں؟

سوہان دل ہی دل میں کڑھنے لگا۔ یہ بندہ نہ مجھے مروا دے گا! جو بات سننی چاہیے بس چپ چاپ سن لے، نہیں! اب سب کو بتائے گا کہ ہم مسلمان نہیں ہیں، پھر بھی مسجد جا رہے ہیں۔۔۔۔۔

سوہان نے جلدی سے بات سنبھالتے ہوئے کہا،
اچھا، ہم بلا دیں گے آپ کے بھائی کو۔۔۔۔

یہ کہتے ہی اُس نے سو مین کا بازو پکڑا اور اُسے تقریباً گھسیٹتے ہوئے مسجد کے اندر لے گیا۔

آبے! کیا ہے؟ مین سو غصے سے چلایا،

جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئے، ایک گہرا سکون دونوں کو اپنے حصار میں لینے لگا۔

چند قدم کے فاصلے پر، ایک ستون کے قریب، ایک شخص سکون سے بیٹھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کھلا ہوا قرآن تھا، جس کے سنہری کنارے روشنی میں مدھم چمک رہے تھے۔ وہ شخص نہایت خاموشی سے اپنی تلاوت میں مگن تھا، مگر سوہان اور  مین سو کی آمد نے اس کی توجہ کھینچ لی۔

اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ سوہان کس طرح مین سو کو تقریباً گھسیٹتا ہوا اندر لا رہا تھا، یہ منظر دیکھ اُس نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر کہا۔۔
ارے ارے! آرام سے!،ایسے کسی کو زبردستی مسجد کے اندر نہیں لے کر آتے۔۔۔۔

معذرت۔۔ اپنے کیا کہا؟ مین سو اور سوہان  کو پھر سے یہ زبان سمجھ نہیں آئی تھی۔وہ اس سے بھی انگریزی میں مخاطب ہوئے

اُس شخص نے ناگواری سے ان دونوں کی طرف دیکھا۔۔

وہ ہمیں اردو نہیں آتی۔۔۔
سوہان نے فوراً سمجھتے کہا۔

میں نے کہا ارے ارے! آرام سے!، ایسے کسی کو زبردستی مسجد کے اندر نہیں لے کر آتے۔۔۔۔ اس شخص نے سمجھتے ہوئے اپنی وہیں بات اُن سے انگریزی میں کہا

اوکے ۔ اوکے۔
اب دونوں کو بات سمجھ آگئی تھی ، اور وہ دونوں وہیں اُس کے پاس بیٹھ گئے۔۔
کچھ دیر خاموشی کے بعد۔سوہان نے خاموشی توڑی

مجھے کچھ یاد آیا۔۔ اُس کی آواز میں ہلکی سنجیدگی تھی۔

کیا؟ مین سو نے فوراً پوچھا۔

سوہان نے آہستہ سے کہا، یہ مسجد ہے۔۔۔

ہاں تو؟ مین سو نے بھنویں چڑھائیں۔

سوہان نے وضاحت دی، یہ مسلمانوں کی عبادت کی جگہ ہے۔ یہاں آ کر وہ عبادت کرتے ہیں۔ اور کوریا میں بھی کچھ مساجد ہیں۔ تبھی منیجر نے کہا تھا کہ ہم اندر نہیں جا سکتے، کیونکہ یہ صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ یہ اُن کے عبادت کرنے کی جگہ ہے۔۔۔۔

مین سو نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا، ہاں تو پھر ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟

سوہان نے کندھے اچکائے، پتہ نہیں۔۔۔۔

ابے منحوس ! تجھے پہلے بتانا چاہیے تھا نا ہم مسلمان نہیں ہیں تو پھر ہم مسلمانوں کی عبادت گاہ میں کیا کر رہے ہیں؟ مین سو نے دانت پیستے ہوئے کہا،

سوہان نے حیرت سے اسے گھورا،
تجھے یہ بات نہیں پتا تھی؟

اگر پتا ہوتا، تو کیا میں یہاں بیٹھا ہوتا تیرے ساتھ؟ مین سو نے جھنجھلا کر کہا

ابے کچھ معلومات رکھنی چاہیئے۔ جب منیجر نے بتایا تھا، تب کانوں میں روئی دے رکھی تھی کیا؟

مین سو نے بیزاری سے کہا،
وہ لیکچر دیتا ہے، اور میں اُس کا لیکچر نہیں سن سکتا۔

ہاں تو پھر اب بیٹھ جا آرام سے، اِدھر۔۔۔۔

مین سو نے ناک سکیڑ کر کہا، ابے اب تو پتہ چل گیا نہ، چل نکلتے ہیں گھر۔

سوہان نے چونک کر اسے دیکھا،
کیا پتہ چل گیا ہے؟

یہی کہ یہ مسلمانوں کو عبادت کرنے کی جگہ ہے یہاں سب عبادت کرنے آتے ہیں۔۔۔۔

اوہ! یہ تو مجھے پہلے ہی پتا تھا۔

مین سو نے جھنجھلا کر کہا،
تو پھر آیا کیوں یہاں؟

سوہان نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے کہا، تائیجون اور جے کیونگ کیوں آئے تھے ادھر؟

مین سو نے کندھے اچکائے، مجھے کیا پتا۔۔۔

سوہان مسکرایا،
بس یہی پتہ کرنے آیا ہوں میں۔

مین سو نے ہاتھ سر پر مارا،
ابے سالا پاگل! چل میں جا رہا ہوں گھر۔

لیکن وہ جملہ ابھی پورا بھی نہ کر پایا تھا کہ قریب بیٹھا وہی شخص مڑ کر بولا،
کیا تم دونوں ذرا خاموشی سے نہیں بیٹھ سکتے؟ میں پڑھ رہا ہوں۔۔۔۔۔

مین سو اور سوہان ایک دم چونکے۔ انہیں سمجھ نہیں آئی کہ یہ لڑکا کس بات پر اتنا سخت لہجہ اختیار کر گیا، کیونکہ وہ دونوں تو کوریائی زبان میں بات کر رہے تھے۔ لیکن ایک بات طے تھی کہ ان کی آواز سے وہ واقعی ڈسٹرب ہو رہا تھا۔

مین سو نے بے ساختہ پوچھ لیا،
کیا پڑھ رہے ہو؟

وہ شخص دھیرے سے مسکرایا اور بولا،
میں قرآنِ شریف پڑھ رہا ہوں۔

مین سو نے حیرانی سے آنکھیں پھیلائیں،
یہ کون سی کتاب ہے؟ اور تم کیوں پڑھ رہے ہو یہ؟

وہ شخص پرسکون لہجے میں بولا،
بتایا نا، یہ قرآن شریف ہے۔ اسے میں اپنے دل کے سکون کے لیے پڑھ رہا ہوں۔

سوہان نے تعجب سے پوچھا،
کیا واقعی اسے پڑھنے سے سکون مل جاتا ہے؟

وہ لڑکا نرمی سے مسکرا دیا،
ہاں، بالکل۔ تبھی تو پڑھ رہا ہوں۔

مین سو نے جھجکتے ہوئے کہا،
یہ کیسی کتاب ہے؟ اس میں آخر لکھا کیا ہے؟

تم خود پڑھ کر دیکھ لو۔

سوہان نے فوراً سوال داغ دیا،
کیا ہم بھی پڑھ سکتے ہیں یہ کتاب؟

بالکل، پڑھ سکتے ہو! وہ پرجوش لہجے میں بولا، لیکن پہلے وضو کرنا ہوگا۔ وضو کا مطلب ہے پاک ہونا۔ بغیر پاک ہوئے قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا۔

سوہان نے دلچسپی سے پوچھا،
لیکن اس کتاب کے اندر آخر لکھا کیا ہے؟

وہ نوجوان سنجیدہ ہوا اور بولا،
یہ بہت مقدس کتاب ہے۔ اس کے اندر انسان کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے، ہر بیماری کا علاج ہے، ہر سوال کا جواب ہے، یہاں تک کہ ہماری زندگی کا مقصد بھی اسی میں لکھا ہے۔

سوہان نے بے یقینی سے سر جھٹکا،
ہیں، اتنا سب کچھ ایک ہی کتاب میں؟ لیکن یہ ہمارے سوالوں کے جواب کیسے دے سکتی ہے؟

اس شخص نے پرعزم انداز میں کہا،
پڑھ کے دیکھ لو۔۔۔۔

یہ کہہ کر وہ اٹھا، قرآن کو اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ پھر واپس ان دونوں کے قریب آ کر بولا،
اب میں اجازت چاہتا ہوں۔ اگر تم واقعی اس کتاب کو پڑھنا چاہتے ہو تو کل اسی وقت مسجد آ جانا۔ میں تمہیں وضو کا طریقہ بھی سکھا دوں گا اور قرآن پڑھنا بھی۔۔۔

سوہان نے ہلکا سا سر ہلایا،
ٹھیک ہے، ہم آ جائیں گے۔

وہ نوجوان مسکراتے ہوئے بولا،
میں انتظار کروں گا۔ فی امان اللہ۔

یہ کہہ کر وہ دونوں سے مصافحہ کرتا مسجد سے نکل گیا۔

مین سو نے حیران ہو کر کہا،
یہ “فی امان اللہ” کا کیا مطلب ہے؟

سوہان نے کندھے اچکا دیے،
پتہ نہیں، کون سی زبان بول کے چلا گیا۔ بتایا بھی تو تھا کہ ہمیں اردو نہیں آتی۔

مین سو نے بھنویں سکیڑتے ہوئے کہا،
یہ اردو تو نہیں تھی۔

سوہان پراعتماد لہجے میں بولا،
اردو ہی تھی۔

مین سو نے لمحہ بھر سوچا اور ہلکی سی آہ بھری،
اچھا، کل پوچھ لیں گے اس سے، اس کا مطلب، ابھی تو چلا گیا ہے۔

سوہان نے اٹھتے ہوئے کہا،
ہاں، چل۔

+++++++++++++++

رین یون کی آنکھیں دھیرے دھیرے کھلیں۔ کھڑکی سے آتی ہلکی سی روشنی کمرے میں پھیل رہی تھی۔ وہ کچھ لمحے یونہی چھت کو دیکھتا رہا، پھر اچانک ایک خیال اس کے ذہن میں ابھرا،  وہ لڑکی۔۔۔

رات تک اس کے چہرے کے نقش کتنے واضح تھے۔ بڑی آنکھیں، بھوری پلکیں، پیارا سا چہرہ  سب کچھ جیسے بالکل سامنے ہو۔ لیکن صبح ہوتے ہی معاملہ عجیب ہوگیا تھا۔

اب جب وہ یاد کرنے بیٹھا تو کچھ بھی ذہن میں نہ آیا۔ چہرہ، جیسے دھند میں لپٹا ہو۔
آنکھیں؟ نہ جانے کیسی تھیں۔

رین یون نے بےچینی سے کروٹ بدلی۔ دل میں ایک انجانی سی خلش جاگی۔
یہ کیا ہو رہا ہے؟
رات تک تو سب اتنا صاف تھا، اور اب؟ جیسے میں نے اسے کبھی دیکھا ہی نہ ہو۔

اس نے آنکھیں زور سے میچ لیں، ذہن پر زور ڈالا، مگر ہر کوشش بے سود رہی۔
چہرہ جیسے مکمل طور پر اس کی یادداشت سے مٹ چکا تھا۔

رین یون کی یادداشت ہمیشہ کمال کی رہی تھی۔ چھوٹی سے چھوٹی بات، مہینوں پہلے کا منظر، کسی کی آواز یا جملہ، وہ سب کچھ لمحے بھر میں یاد کر لیتا تھا۔

لیکن آج، آج وہی یادداشت جیسے اس کا ساتھ چھوڑ گئی تھی۔

رات بھر وہ لڑکی کا چہرہ ذہن کے پردے پر روشن رہا، ایک ایک نقش جیسے نگاہوں میں محفوظ ہو گیا ہو۔ مگر صبح کی روشنی نے جیسے سب کچھ دھو ڈالا۔
اب نہ آنکھیں یاد آ رہی تھیں، نہ آواز، نہ ہی وہ مخصوص اندازِ نظر، کچھ بھی نہیں۔

رین یون نے آہستہ سے سر تھاما۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔وہ لڑکی مُجھے یاد کیوں نہیں آرہی۔۔۔

اُس کی یاداشت اتنی کمزور تو نہ تھی کہ وہ ایک
رات میں  اُس کا چہرا بھول جائے ۔۔۔

ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ان دیکھے پردے نے اس کی یادوں پر پردہ ڈال دیا ہو۔

++++++++++++++

مین سو اور سوہان جیسے ہی مسجد سے واپس آئے، ہوٹل کے اندر داخل ہوتے ہی ان کی ملاقات ہان وو سے ہو گئی۔ وہ سامنے سے چلا آرہا تھا اور یہ اندر کی طرف جا رہے تھے

ہان وو نے انہیں روکتے پوچھا،
کہاں گئے تھے تم دونوں؟

سوہان نے فوراََ کہا،
واک پر…

ہان وو نے آنکھیں تیز کر کے کہا،
آٹھ بجے رہے ہیں…

مین سو نے سنجیدگی سے کہا،
تو…

ہان وو نے پھر پوچھا،
تو بتاؤ، کہاں گئے تھے تُم دونوں ؟ جھوٹ مت بولو۔۔۔

مین سو نے جواب دیا،
میرے کپڑے دیکھ ۔۔ جاگنگ سوٹ پہنا ہوا ہے…

ہان وو نے نظریں اٹھا کر کہا،
مین سو، تم میرے کمرے میں ہی رہتے ہو …

مین سو نے ہلکا سا سر ہلایا،
ہاں تو…

ہان وو نے آگے بڑھ کر پوچھا،
تم جب کمرے سے نکلے تھے تو میں اٹھا ہوا نہیں تھا، کیا؟

مین سو نے مسکراتے ہوئے کہا،
اوہ ہاں، میں تو تمہیں بتا کے نِکلا تھا…

ہان وو نے آنکھیں اچکائی،
وہی تو…

تو اب کیوں پوچھ ربا ہے جب میں تُجھے بتا کر نِکلا تھا تو ؟؟ مین سو نے بیزاری سے کہا

ہان وو نے پھر سوال کیا،
چھ بجے کے نکلے، اور آٹھ بجے آئے… ہوٹل سے زیادہ دور تو نہیں تھا پارک؟

سوہان نے جلدی سے کہا،
یار، ہم مسجد گئے تھے…
ایک تو اُس سے کچھ بھی چھپایا بھی نہیں جاتا تھا برداشت ہی نہیں ہوتا تھا پیٹ میں فوراََ درد شروع ہوجاتا تھا اوپر سے اگر کوئی پوچھے لے تو بس پھر نہیں چاہتے ہوئے بھی سب اگل دیتا تھا

مین سو نے آنکھیں گھما کر اسے گھورا، جیسے کہہ رہا ہو
کم از کم اس بار تو زبان قابو میں رکھ لیتا۔۔۔

ہان وو نے بس ایک سادہ سا سوال کیا، نہ غصہ نہ حیرت، کیوں؟

سوہان نے ناگواری سے کہا
وہ دونوں بھی تو گئے تھے، میں کیسے نہ جاتا…

ہان وو نے نظر مین سو کی طرف کر کے پوچھا،
اور تم؟

مین سو نے سنجیدگی سے کہا
اب یہ اکیلے جا رہا تھا، گم ہو جاتا تو… اسی لیے میں اس کے ساتھ چلا گیا…

ہان وو نے مسکراتے ہوئے کہا،
ہاں، یہ اچھا کیا تم نے۔۔۔۔
پھر دونوں کے سائڈ سے نکلتا ہوا آگے بڑھ گیا۔اپنی منزل کے طرف جہاں وہ جارہا تھا

سوہان نے غصے سے دونوں کی طرف دیکھا
کیا مطلب ہے ؟ میں کوئی چھوٹا بچہ تو نہیں ہوں…

مین سو نے ہنسی کے ساتھ جواب دیا،
حرکات تو تیری چھوٹے بچوں والی ہی ہیں…

پھر اچانک مین سو نے پیچھے مڑ کر  ہان وو کو جاتا دیکھ بولا،
تم کہاں جا رہے ہو؟

ہان وو نے بغیر پیچھے مڑے کہا،
پاس والے مارکٹ جا رہا ہوں، کچھ ضروری سامان لینے…

سوہان نے غصے میں کہا،
میں تجھے تھپڑ مار دوں گا۔۔۔

مین سو نے اسے روک کر کہا،
ہائیٹ دیکھ اپنی، پہلے میرے برابر تو آ جا، پھر بات کرنا مارنے کی۔۔۔۔

یہ کہہ کر مین سو تیزی سے اندر کی طرف بھاگا اور سوہان اس کے پیچھے دوڑا۔

+++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *