کھوئی ہوئی پہچان
از قلم: تسمیہ کنول
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، اور اس تبدیلی نے انسان کی سوچ، اس کے خواب اور اس کے جینے کے انداز کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
کبھی انسان کی پہچان اس کے کردار، علم، یا عمل سے ہوا کرتی تھی، مگر آج کے دور میں یہ پہچان فالوورز، لائکس اور ویوز میں گم ہو گئی ہے۔
اب انسان کی اہمیت اس کی صلاحیت سے نہیں بلکہ اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے کی جاتی ہے۔
ہم ایک ایسی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں جہاں سب آگے نکلنا چاہتے ہیں — چاہے اپنی اصل ذات پیچھے کیوں نہ چھوڑ دیں۔
سوشل میڈیا نے دنیا کو قریب ضرور کیا، مگر انسان کو خود سے دور کر دیا۔
لوگوں نے اپنی مسکراہٹوں کو فلٹرز کے نیچے چھپا دیا ہے، اور خوشیوں کو دکھاوے میں بدل دیا ہے
جو لفظ پہلے سچے جذبات سے کہے جاتے تھے اب وہ
chat GPTسے پوچھ کے کہے جاتے ہیں،
جو باتیں کبھی دل سے کی جاتی تھیی
وہ اب کیمرا آن کر کے کی جاتی ہیں۔ہم خود سے کم، دوسروں کی نظروں سے زیادہ جینے لگے ہیں۔
اب کسی کا دن تب ہی اچھا گزرتا ہے جب اس کی پوسٹ پر زیادہ لائکس آئیں، ورنہ خوشی بھی ادھوری لگتی ہے۔
کیا صرف یہی ہمارا مقصد تھا اس دنیا میں آنے کا کہ ہم اپنا وجود کھو کے بناوٹی وجود اوڑ کے لوگوں کو نظر آئیں افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان ہو کے یہ سب کر رہے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں دکھاوا اتنا عام ہو گیا ہے کہ کسی کی اصل مجبوری کو سمجھا ہی نہیں جاتا اگر کوئی سچ مجھ میں غریب ہے حقدار ہے۔ اسے کہہ دیا جاتا ہے یہ تو فالورز یا لائف کے لیے کر رہا ہے اور اگر ہم کسی کی مدد بھی کریں تو پہلے کیمرا ان کر لیتے ہیں اور یہاں پر ہم اس بیچارے غریب سفید پوش انسان کی عزت کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔
ان سب چکروں میں ہم نے اپنا اصل کھو دیا ہے اپنی اصل پہچان اپنا وقار اپنا وجود ہی کھو دیا ہے
ہم تو اشرف المخلوق تھے ہمارے خدا نے ہمیں دوسروں کی مدد کرنے اور دکھاوے سے بچنے کی تلقین کی تھی اپنے قران میں، لیکن ہم نے کیا کیا ہم نے ان سب چیزوں کو بھلا دیا اور سوشل میڈیا کی بناوٹی دنیا میں خود کو اس قدر مگن کر دیا کہ اپنی حقیقی دنیا کو بھولتے جا رہے ہیں ۔
یہ بھولتے جا رہے ہیں کہ ہم نے ایک دن مرنا ہے ہم یہ کیا یاد رکھیں گے کہ ہم نے مرنا ہے یہاں پر تو مرنے پہ ولاگز بنائے جاتے ہیں۔ لوگوں کو دکھایا جاتا ہے کہ اب قبر تیار ہو گئی ہے، اب میت اس میں ڈالی جانے لگی ہے، اس پہ اب ہم مٹی ڈالنے لگے ہیں۔
یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ایک دن ہم نے بھی اسی طرح اس مٹی کے نیچے جانا ہے۔ ہمیں خدا کا خوف ہی ختم ہو گیا ہے۔
ہر گناہ میں ہم اگئے ہیں دکھاوے کی دنیا میں اس قدر مگن ہو گئے ہیں کہ ہمیں کسی چیز سے فرق ہی نہیں پڑتا کہ ہم جو کام کر رہے ہیں وہ اس کا ہماری اسلام میں حکم کیا ہے اس کی اجازت ہے یا نہیں بس ہمیں اپنے لائکس اور اپنے فالورز سے غرض ہے اج کل کا انسان اس قدر سفاک ہو چکا ہے کہ سوشل میڈیا پہ مظلوموں کی آواز ایسے اگنور کرتا ہے جیسے کہ اس نے سنی ہی نہ ہو۔
ہم ایسے تو نہیں تھے مسلمان ایسا تو نہیں ہوتا مسلمان تو اپنے مسلمان بھائی کا درد سمجھنے والا تھا۔ نا کہ اس کی مجبوری اور اس کے درد کا تماشہ بنا کے لائکس لینے والا خدارا اپنی پہچان کو سمجھیں۔
کہ اپ کس لیے اس دنیا میں آئے ہیں اور اس دھوکے کی دنیا سے باہر نکل کے خود کو پہچانے تاکہ ہم جان سکیں کہ ہمارا اصل کیا ہے؟؟
ہماری حقیقت کیا ہے؟؟
ہم کیوں ائے ہیں اس دنیا میں؟؟
فقط کھیل کود کے لیے تو نہیں
!!!!ہمیں اشرف المخلوق بنایا گی
ختم شدہ۔۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
