میں میرا دل اور تُم ( از قلم صدیقی )
باب اول : قلم کا نشان ، امن کا نشان
قسط نمبر ۳
وہ ڈیبیٹ کے بعد تھکا ہوا گھر میں داخل ہوا، انیسہ بیگم کو تیزی سے اپنی طرف بڑھتے دیکھا۔
کیا ہوا دادی؟ اس کی آواز میں بےچینی اور فکر جھلک رہی تھی۔
انیسہ بیگم نے دھیرے سے اسے دیکھتے ہوئے کہا، آے تو ٹھیک ہے، تُجھ کو کچھ ہوا تو نہیں ہے نا؟ وہ امن کو آگے پیچھے ہر جگہ سے چیک کرتی کہیں کوئی چوٹ کہیں کچھ ہُوا تو نہیں۔
کیا ہوا دادی؟
امن نے نرمی سے دوبارہ پوچھا،
انیسہ بیگم نے اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھاما، جیسے یقین کر رہی ہوں کہ وہ صحیح سلامت ہے۔
آئے تُو ٹھیک ہے نا؟ تُجھ کو کچھ ہوا تو نہیں؟
نادیہ پر حملے کی خبر چل رہی تھی۔ تیرے ڈیبیٹ کے بعد، میں سمجھی کہیں تُجھے.
ان کی آواز لڑکھڑا گئی۔
امن نے انیسہ بیگم کو اپنے ساتھ بیٹھایا،
دونوں ہاتھوں سے اُن کے ہاتھ تھامے،
اور آہستہ سے کہا:
میں ٹھیک ہوں، دادی
انیسہ بیگم کی آواز میں خوف کی ہلکی سی لہر گھل گئی۔ وہ کانپتی ہوئی اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی:
اے! ہم بول رہے ہیں، چھوڑ دے یہ سب، ورنہ کہیں وہ ریپر، اُس نے کچھ کردیا تیرے کو تو میرا کیا ہوگا
وہ انیسہ بیگم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا، اُس کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔
اس کی آنکھوں میں وہی ضد تھی، وہی چمک — جو بچپن میں ہوتی تھی جب وہ کسی کھلونے کے لیے ضد کرتا تھا۔
مگر اب وہ کھلونا نہیں تھا، خواب تھا، پورے شہر کا خواب۔
دادی، یہ میرا خواب ہے۔ ایسے کیسے پیچھے ہٹ جاؤں؟ اور زندہ موت، اللہ کے ہاتھ میں ہے، کسی ریپر کے ہاتھ میں نہیں۔
انیسہ بیگم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، وہ کچھ کہنا چاہتی تھیں مگر لفظوں نے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔
انھوں نے اپنا چہرہ پھیر لیا، شاید آنکھوں کی نمی چھپانے کی کوشش کی،
مگر امن نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سرگوشی میں کہا:
دادی، مُجھے کچھ نہیں ہوگا، جب تک سچ میرے ساتھ ہے، کوئی جھوٹ مجھے چھو نہیں سکتا۔
انیسہ بیگم نے دھیرے سے سر ہلایا،
مگر اُن کے دل میں ایک دعا اب دھڑکن بن کر چلنے لگی تھی۔
++++++++++++
وہ ابھی بستر پر لیٹا ہی تھا کہ فون کی اسکرین جل اُٹھی۔
نہ چاہتے ہوئے بھی اُس نے ہاتھ بڑھا کر فون اُٹھایا۔
اسکرین پر نہات کالنگ چمک رہا تھا۔
السلام علیکم، ہاں بول نہات، خیریت؟
اُس نے آواز میں مصنوعی سکون سمیٹتے ہوئے کہا۔
نہات کی سانسیں بے ترتیب تھیں، جیسے وہ کسی دوڑ سے واپس آیا ہو۔
بھائی… مسئلہ ہو گیا ہے!
کیا ہوا؟
اُس کے دل کی دھڑکن لمحہ بھر کو رُکی۔
نادیہ فیروز ہوش میں آ گئی ہے، اور اُس نے بیان دیا ہے کہ اُس کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ آپ نے کروایا ہے!
کیا؟
یہ لفظ اُس کے لبوں سے نہیں، دل کے اندر سے نکلا تھا۔ وہ چونک کر سیدھا ہو بیٹھا۔
نیوز چینلز کھولو، ہر جگہ یہی چل رہا ہے۔ تمہیں ولن بنایا جا رہا ہے۔
وہ جھوٹ کیوں بول رہی ہے؟
اُس نے زیرِ لب کہا، جیسے خود سے سوال کیا ہو۔
نہات کی آواز بھاری ہو گئی۔
آپ جانتے ہیں بھائی، اُس کے سوا آپ کا اور کوئی مقابل نہیں۔ وہ لوگوں کو آپ کے خلاف کرنا چاہتی ہے۔ سیاست میں یہ سب ہوتا ہے، مگر یہ حد ہے!
لیکن ایکسیڈنٹ کروایا کس نے؟
ریپر نے، اور کون؟ کام تو صاف تھا، لیکن بدنصیبی سے وقت پر اسپتال پہنچا دیا گیا، ڈاکٹرز نے بچا لیا۔
چند لمحے خاموشی رہی۔ اُس نے گہرا سانس لیا، پھر آہستہ سے بولا:
سن، میری سوشل میڈیا ٹیم کو کہو، ایک سادہ سی پوسٹ ڈالیں، کہ اس معاملے سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ اس کے بعد خاموشی اختیار کریں۔
مگر بھائی، ہمیں اُس کے خلاف قانونی ایکشن لینا چاہیے!
اگر وہ جھوٹی ہے، تو میرے مقابل کی نہیں۔ تم اتنا ہی کرو جتنا کہا ہے۔ اور پل پل کی خبر دیتے رہنا۔ اللہ حافظ۔
امن نے مطمئن انداز میں کہا اور کال بند ہو گئی۔
وہ کچھ دیر یونہی بیٹھا رہا، خاموش، سوچوں میں گم۔ پھر اچانک نظر گھڑی کی طرف گئی — گیارہ بج رہے تھے۔
آہستہ سے اُٹھا۔
قدم خودبخود واش روم کی طرف بڑھ گئے۔
سیاست کے اس ہنگام دور میں، جب ہر لمحہ عوام کی نظر میں جینا ہوتا ہے…
…وہ لمحہ، جو صرف رب کے ساتھ گزارنے کے لیے ہوتا ہے،
کب چھن گیا، وہ خود بھی نہ جان سکا۔
وضو کا ٹھنڈا پانی جب اُس کی ہتھیلیوں سے بہہ کر زمین کی طرف گرا، تو اُس نے محسوس کیا جیسے دل کے اندر جمے شکوک بھی دھل رہے ہوں۔
آج پہلی بار اُسے اپنی بے بسی پر نہیں، اپنے رب کی قدرت پر یقین آیا تھا۔
وہ جائے نماز پر بیٹھا تو ایسا لگا جیسے کئی دنوں بعد اُس نے خود کو پایا ہو۔
یا اللہ، اگر میں سچ پر ہوں، تو میرے حق میں فیصلہ فرما، اور اگر کہیں میں غلط ہوں، تو مجھے وہ نظر عطا فرما جو مجھے میری خطا دکھا سکے۔
نماز کے بعد اُس نے چپ چاپ قرآن پاک کھولا۔
پہلا صفحہ جو کھلا، اُس کی نظر سورۃ یوسف پر پڑی۔
بے شک، اللہ حق کا ساتھ دیتا ہے، چاہے لوگ سازشیں کریں۔
(یوسف علیہ السلام کی قید اور الزامات کی آیات دل کو چھو گئیں)
وہ دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔ اب جب اوپر سے تسلی آگئی تھی تو کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا، دِل و دماغ دونوں ایک ساتھ ایک ہی وقت پر سکون میں آ گئے تھے۔
اسی اثنا میں نہات کی ایک اور کال آئی۔
فون کان سے لگاتے ہی نہات بولا:
بھائی، نادیہ کا اسپتال میں انٹرویو ہو رہا ہے۔ وہ کہہ رہی ہے کہ اسے بار بار دھمکیاں مل رہی تھیں، اور وہ پہلے ہی پولیس کو الرٹ کر چکی تھی۔
اور پولیس؟
پولیس کہہ رہی ہے کہ کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ملا، لیکن میڈیا اُسے ہیرو بنا رہا ہے۔
اچھا دیکھو اور مُجھے پل پل کی خبر دیتے رہو۔
اتنا کہنا تھا کہ کال منقطع ہوگئی۔
+++++++++++++
ریپر، وہ بچ گئی ہے…
یہ آواز ایک دبلی پتلی، خاموشی میں لپٹی ہوئی لڑکی کی تھی — وہ مکمل اندھیرے میں نہیں کھڑی تھی، مگر اُس کی بلی جیسی چمکدار نیلی آنکھوں کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اُس کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے اندھیرے کی تہوں میں بھی کسی کی روح میں جھانک لیں۔
اُس کا باقی چہرہ ایک سیاہ ماسک میں چھپا ہوا تھا۔
وہ ریپر کے سامنے رپورٹ دینے کے انداز میں کھڑی تھی،
لیکن اُس کے چہرے یا لہجے میں پشیمانی کا شائبہ تک نہ تھا۔
ریپر نے یک دم نظریں اُس پر گاڑ دیں۔
سیاہ آنکھیں، چہرے پر چھائی سنجیدگی، اور آنکھوں میں آگ۔
ہاؤ اِز اِٹ پاسیبل؟ ایسے کیسے، کام ٹھیک سے نہیں ہوتا تم لوگوں سے؟
ریپر کی آواز گرجی — نہ صرف کمرے میں، بلکہ اُس لڑکی کے چہرے پر بھی ایک لمحے کو سایہ سا چھا گیا۔
مگر وہ جلد سنبھل گئی۔
آہستہ سے پلکیں جھپکائیں اور آگے بڑھ کر ٹیبل پر ایک ٹیبلیٹ رکھ دیا۔
یہ دیکھیں…
وہ ایک ایک کر کے بتاتی گئی۔
نادیہ فیروز کی جان اس بار بچ گئی، مگر ہمیشہ نہیں بچے گی۔
ریپر نے خاموشی سے اسکرین کی طرف دیکھا۔
ادھورے منصوبے، ناکام خاموشیاں، اور میڈیا کی ہر خبر۔
رات کے اندھیرے میں وہ دونوں ایک خفیہ مقام پر موجود تھے —
جگہ ایسی جہاں نہ کوئی سچ پہنچ سکتا تھا، نہ کوئی سوال۔
کمرے کے ایک کونے میں جلتی نیلی روشنی،
دیواروں پر ٹیک لگائے بے جان کمپیوٹر،
اور درمیان میں ریپر،
جس کا چہرہ جذبات سے خالی تھا،
مگر آنکھوں میں بے رحم ارادے صاف جھلک رہے تھے۔
++++++++++++
رات کے تین بجے
وہ بستر پر لیٹ گیا، مگر نیند؟
جیسے کسی اور دنیا میں چلی گئی ہو — اُس دنیا میں جہاں سکون، سیاسی داؤپیچ سے پہلے ہار مان چکا تھا۔
اندھیرے کمرے میں اُس نے فون اٹھایا۔
اسکرین کی روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی،
ہر چینل، ہر خبر, ہر آواز…
کیا واقعی امن نے نادیہ فیروز پر حملہ کروایا؟
کہیں حمایت، کہیں مخالفت، اور اکثر جگہ خاموشی میں چھپی الجھن۔
آخرکار، اُس نے دوبارہ نہات کا نمبر ڈائل کیا۔
کال فوراً ہی ریسیو ہوئی۔
کیا خبر ہے؟
اُس نے تھکے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
نہات کی آواز میں گھبراہٹ واضح تھی۔
سچ کہوں بھائی، تو صورتِ حال ہمارے ہاتھ میں نہیں رہی، نادیہ فیروز نے بہت پُراثر چال چلی ہے۔
کیا مطلب؟
آپ کا اُس کے ساتھ ڈیبیٹ تھا نا آج؟
ہاں، لیکن میں نے تو اس ڈیبیٹ میں کچھ ایسا نہیں کہا کہ
بس وہی تو، وہ یہی کہہ رہی ہے، کہ امن جو سب کے سامنے بنتا ہے، ویسا ہے نہیں۔ اُس کے مطابق، آپ کا اصل چہرہ، اندھیرے میں چھپا ہے۔
ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔
اگر کوئی اور ہوتا تو شاید آگ بگولا ہو جاتا۔
لیکن وہ امن تھا۔
نام ہی اُس کا مزاج بیان کرتا تھا — ہمیشہ امن میں رہنے والا، پرسکون، متوازن۔
کوئی اتنا پرسکون کیسے رہ سکتا ہے؟
آہستہ سے بولا
اگر صبح تک یہ معاملہ ٹھنڈا نہ ہوا تو…
پھر ذرا توقف کیا،
تو صبح ایک پریس کانفرنس رکھنا۔
نہات خاموش ہو گیا، پھر آہستہ سے بولا:
ٹھیک ہے بھائی
اللہ حافظ۔ اپنا خیال رکھنا۔
کال منقطع ہو گئی۔
اُس نے فون میز پر رکھا،
آنکھیں موند لیں،
اور اندر ہی اندر ایک دعا کی:
یا اللہ، اگر میری نیت میں فتور ہے، تو مجھے توڑ دے، مگر اگر میں سچ پر ہوں، تو مجھے مضبوط بنا دے۔
+++++++++++
فجر کا وقت تھا۔
دادو نماز پڑھ چکی تھیں۔ تسبیح ہاتھ میں تھی اور ہونٹوں پر آہستہ آہستہ دعائیں جاری تھیں۔
جب وہ کمرے سے نکلیں تو اُن کی نگاہ اچانک یسرٰی کے کمرے کی طرف گئی—
کمرے میں روشنی اب بھی جل رہی تھی۔
دادو نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے خود سے کہا:
یہ سوئی نہیں ابھی تک؟
پھر نرمی سے اُس کے کمرے کی طرف قدم بڑھائے۔
دروازہ آہستہ سے دھکیلا تو منظر سامنے تھا—
یسرٰی بستر پر بیٹھی تھی، موبائل ہاتھ میں، اور انگلیاں برق رفتاری سے چل رہی تھیں۔
چہرے پر غصہ، آنکھوں میں تھکن، مگر جذبہ کسی سپاہی جیسا،
یسرٰی؟ کیا کر رہی ہو؟ رات بھر سوئی نہیں؟
دادو نے حیرت سے پوچھا۔
یسرٰی نے ایک نظر اسکرین سے ہٹا کر دادو کو دیکھا،
پھر فورا دوبارہ موبائل پر جھک گئی۔
نہیں دادو، دیکھیں نا، لوگ ان کے بارے میں کیسا کیسا الٹا سیدھا بول رہے ہیں۔ میں سب کو منہ توڑ جواب دے رہی ہوں!
کس کو؟ دادو تھوڑا اور قریب آئیں۔
امن کو! لوگ اس کے خلاف بکواس کر رہے ہیں۔
دادو نے حیرت سے فون کی طرف جھانکا۔
ٹوئٹر کی پوسٹیں، نیچے لمبے لمبے تبصرے—
اور ہر تبصرے کے نیچے یسرٰی کے دل سے لکھے گئے دفاعی پیغامات۔
یا اللہ، لڑکی! تم پوری رات یہ کرتی رہی ہو؟
دادو نے تاسف سے کہا۔
ہاں نا دادو!
یسرٰی اب بھی جذباتی تھی۔
تم پاگل ہو گئی ہو، یسرٰی… نماز پڑھی تم نے؟
یسرٰی چونکی۔
نہیں… آواز مدھم ہو گئی۔
اُٹھو! نماز پڑھو۔ اور یہ فون رکھ دو۔ وہ سیاستدان ہے۔ یہ سب اس کی زندگی کا حصہ ہے۔ صبح تک تماشہ ختم ہو چکا ہوگا۔ اور ایک تم ہو…
دادو کی آواز میں اب شفقت کے ساتھ دکھ بھی شامل تھا۔
دادو، مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، کوئی اُس کے خلاف کچھ کہے۔
دادو نے آہستہ سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
یا خدا چھوڑ دو، بس، اُس کی جان۔ اُٹھو، نماز پڑھو۔
یسرٰی نے سست روی سے موبائل ایک طرف رکھا، اور چپ چاپ واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
دادو اُس کے پیچھے دیکھتی رہیں۔
یا اللہ، اس کے دل و دماغ سے امن کو نکال دے… میری بچی پر رحم کر… اس کی زندگی آسان کر دے…
یہ کہتے ہوئے دادو آہستہ سے کمرے سے باہر نکل گئیں۔
+++++++++++
صبح کے سحر انگیز لمحے کمرے کی کھڑکیوں سے چھن چھن کر روشنی اندر بھیج رہے تھے، اور ہمیشہ کی طرح، امل اپنے مخصوص وقت پر بیدار ہو کر تیار ہو چکی تھی۔ نیچے ناشتہ میز پر اُس کی موجودگی، گویا گھر کی روایت کا ایک حصہ بن چکی تھی۔ اناسیہ بیگم بھی اُس کے ساتھ ہی بیٹھی تھیں کہ یکایک افتخار صاحب نے اسٹڈی روم سے قدم باہر نکالا، اُن کی موجودگی ہر لمحے گھر کی فضا کو سنجیدگی کی چادر اوڑھا دیتی تھی۔
میز پر بیٹھتے ہی اُن کی آواز امل کے کانوں میں گونجی:
آج یونیورسٹی جاؤ گی؟
امل نے چونک کر اُن کی طرف دیکھا اور دھیرے سے مسکرائی،
ہاں دادا، جانا ہے۔
افتخار صاحب نے اُس کی طرف دیکھ کر نہایت سنجیدگی سے کہا:
آج نہیں جانا۔
کیوں دادا؟
وہ سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
ابھی وہ کچھ کہہ بھی نہ پائی تھی کہ انیسہ بیگم نے چبھتی ہوئی زبان میں گویا تیر چلا دیا،
ہاں ہاں، کروا دیں اب اس کی چھٹی، بنا دیں آوارہ، گھر پر رہ کر کیا کرے گی یہ؟
افتخار صاحب نے بے زاری سے بیوی کی طرف دیکھا،
تمہیں تو میری ہر بات سے مسئلہ ہے، کبھی پوری بات سن بھی لیا کرو۔
آپ کی ہر بات غلط ہی ہوتی ہے، سننے کا کیا فائدہ؟
انیسہ بیگم کی زبان گویا زہر میں ڈوبی ہوئی تھی۔
افتخار صاحب کا چہرہ تھوڑا سا سرخ ہوا۔
تم ایک سیاست دان سے یہ کہہ رہی ہو کہ وہ ہر بات غلط کرتا ہے؟
چھوڑ دی ہے سیاست اپنے، اب آپ میں وہ بات نہیں رہی، عمر ہوگئی ہے آپ کی، اب کچھ بھی بولنے لگے ہیں۔
افتخار صاحب نے ایک ہلکی ہنسی کے ساتھ طنز کیا:
عمر تو تُمہاری بھی ہوگئی ہے، انیسہ بیگم۔
اس چھوٹی سی نوک جھونک میں امل تنگ آ چکی تھی،
دادا، دادی، پلیز! بعد میں لڑ لیجیے گا۔ ابھی تو مجھے یہ بتا دیں، میں یونی کیوں نہ جاؤں؟
افتخار صاحب نے نظریں نیچی کر لیں،
بس، آج چھٹی کر لو۔
دادا؟ لیکن کیوں؟ آج تو میرا ٹیسٹ بھی ہے!
افتخار صاحب نے نرمی سے کہا،
بعد میں دے دینا۔ میں پرنسپل سے بات کر لوں گا۔
امل کا دل بے چینی سے دھڑکنے لگا،
کوئی مسئلہ ہے؟
چند لمحے خاموشی چھا گئی۔
پھر انہوں نے گہری سانس لے کر کہا:
بس یونہی، کیا تم میرے لیے ایک دن یونی سے چھٹی نہیں کر سکتیں؟
امل نے حیرت سے افتخارِ صاحب کو دیکھا،
ایسا تو کبھی نہیں کہا آپ نے، دادا، ہوا کیا ہے؟
تبھی انیسہ بیگم بیچ میں بولیں،
اسے چھوڑ دے تُو، اس کا دماغ کام نہیں کرتا آج کل، تُو چلی جا یونی۔
افتخار صاحب نے تیز نظروں سے بیوی کو گھورا،
انیسہ!
پھر اُن کے لہجے میں وہی سیاست دانوں والی سنجیدگی لوٹ آئی،
امن پر نادیہ نے الزام لگا دیا ہے، اگر تم یونی جاتیں، تو طلبہ تم سے طرح طرح کے سوالات کریں گے۔ ایسے ماحول میں تم سکون سے کیسے ٹیسٹ دے پاؤ گی؟
انیسہ بیگم کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا،
کیا، کیسا الزام؟
افتخار صاحب نے سر جھکایا،
کوئی بڑی بات نہیں، امن سنبھال لے گا۔ یہ سب سیاست میں ہوتا رہتا ہے۔
انیسہ بیگم نے آنکھیں بند کر کے ماتھے پر ہاتھ رکھا،
آپ کے لیے سب باتیں چھوٹی ہی ہوتی ہیں
پھر اچانک بولیں،
اے امل، لگاؤ ذرا نیوز!
شکر تھا وہ گاؤں کی تھیں، فون چلانا نہ آتا تھا۔
افتخار صاحب نے ٹوکا،
کوئی ضرورت نہیں۔ تمہارا بی پی ویسے ہی لو رہتا ہے، اور لو ہو جائے گا۔
انیسہ بیگم کا دل مزید بیٹھ گیا،
ہائے! کیا واقعی اتنی بڑی بات ہے؟
امل نے انیسہ بیگم کی طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا،
دادی، اوور ایکٹنگ بند کریں۔ کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔ آج کل سوشل میڈیا پر چھوٹی چھوٹی باتیں بھی پہاڑ بن جاتی ہیں۔ اور آپ تو جانتی ہیں امن بھائی کو… وہ دیکھ لیں گے۔
پھر امل اٹھ کھڑی ہوئی،
اور اگر یونی نہیں جانا تو میں جا کر واپس سے سو جاتی ہوں!
ائے ہم اوور ایکٹنگ کر رہے ہیں؟
اناسیہ بیگم نے تپ کر کہا۔
امل ہنسی،
دادی، آپ کو اس کے علاوہ آتا کیا ہے؟ ہر وقت ہی تو اوور ایکٹنگ کرتی رہتی ہیں۔ روتے وقت، ہنستے وقت، لڑتے وقت… ویسے دادی، آپ ہیروئن کی کاسٹنگ میں زبردست چلیں گی!
انیسہ بیگم نے فوراً میز پر رکھے برتن اُٹھاتے ہوئے تیز آواز میں کہا،
دیکھ رہے ہو؟ اپنی دادی سے کیا کہہ رہی ہے!
افتخار صاحب نے مسکرا کر کہا،
میں کیا بولوں، یہ تو دادی پوتی کا معاملہ ہے۔
امل نے شرارت سے کہا،
دادی، آپ وی لاگ بنانا شروع کریں، یقین کریں لوگ آپ کی اوور ایکٹنگ کے فین ہو جائیں گے!
اے بھاگ جا! نہیں تو ابھی پٹ جائے گی!
انیسہ بیگم نے چمچ ہاتھ میں لے کر دھمکی دی۔
ہاں ہاں! جا رہی ہوں، جا رہی ہوں!
امل ہنستے ہوئے کمرے کی طرف دوڑ گئی…
کمرے میں آتے ہی امل نے بیگ ایک طرف رکھا اور گہری سانس لی۔ ذہن ابھی تک دادا اور دادی کی باتوں میں الجھا ہوا تھا، لیکن اسے ایک کام کرنا یاد تھا۔
ہنزہ کو کال کر کے بتا دوں، آج یونی نہیں جا رہی
وہ بڑبڑائی، اور فون ہاتھ میں اٹھایا۔ رابطہ نمبر ڈھونڈنے میں اُسے وقت نہ لگا، کیونکہ ہنزہ اُس کی زندگی کا وہ گوشہ تھی، جو ہمیشہ ایک کلک کی دُوری پر رہتا تھا۔
کال گئی۔
ایک، دو، تین بیپ کے بعد کال ریسیو ہو گئی۔
لیکن اگلے لمحے، امل کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
ہیلو؟ کون؟
آواز بھاری، رعب دار، اور، مکمل طور پر مردانہ تھی۔
امل کا ماتھا ٹھنکا۔
ہنزہ؟ وہ جھجک کر بولی،
مجھے ہنزہ سے بات کرنی ہے، کیا آپ ہنزہ کے بھائی ہیں؟
دوسری طرف چند لمحے خاموشی چھا گئی، پھر سادہ سا جواب آیا،
ہاں، آپ کون؟
امل کے لہجے میں اب وہ خاص اعتماد تھا جو وہ عام طور پر اپناتی تھی،
اُفف! میں ہنزہ کی اکلوتی بیسٹ فرینڈ ہوں۔ آپ مجھے نہیں جانتے، لیکن ہنزہ جانتی ہے، بلکہ اچھی طرح جانتی ہے۔
پھر لمحہ بھر رکی اور قدرے نرم لہجے میں کہا،
بس اُسے کہہ دیجیے گا کہ میں آج یونیورسٹی نہیں آ رہی۔
اچھا ٹھیک ہے،
دوسری جانب آواز میں نہ کوئی دلچسپی تھی، نہ حیرانی۔ بس ایک سادہ سا ردِعمل۔
ہاں… اوکے، اللہ حافظ۔
اور کال کٹ گئی۔
یہ ہنزہ کا بھائی بہت عجیب ہے
وہ بڑبڑائی اور واپس سے سونے کے لیے لیٹ گئی۔
++++++++++
صبح کی روشنی کمرے کی کھڑکی سے چھن کر اندر آ رہی تھی۔
امن آج دیر سے بیدار ہوا۔ رات کی بے چینی نیند میں تحلیل تو نہ ہو سکی، مگر اُسے یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ اب خاموشی ہی اُس کی سب سے بڑی گواہی بن سکتی ہے — جب تک وہ وقت پر بولی جائے۔
نہات کی کال پہلے سے آ چکی تھی
سر، سب تیار ہے۔ کانفرنس ہال میں میڈیا، رپورٹرز، یہاں تک کہ انٹرنیشنل چینلز بھی آ چکے ہیں۔ نادیہ فیروز نے کل رات ایک اور بیان دیا ہے۔
کیا؟
کہ اگر کچھ ہوا اُسے، تو اس کے ذمہ دار صرف آپ ہوں گے۔
امن نے گہرا سانس لیا۔
پھر وہی مختصر جواب
میں آ رہا ہوں۔
++++++++++++
جاری ہے۔۔۔
