me mera dil or tm

Mai mera dil Or tum Episode 4 Written by siddiqui

میں میرا دل اور تُم ( از قلم صدیقی )

باب اول : قلم کا نشان ، امن کا نشان

قسط نمبر ۴

خبروں میں ہر طرف ایک ہی طوفان برپا تھا۔
ٹی وی اسکرین پر چمکتے الفاظ اور اینکرز کی تیز آوازیں،
ہر چینل، ہر رپورٹ، ایک ہی سوال گونج رہا تھا
اگر یہ واقعی ریپر کا کام ہوتا، تو نادیہ فیروز زندہ نہ بچتی!
کسی چینل پر اینکر زور زور سے بول رہا تھا،
چہرہ سنجیدہ، آواز میں ہیجان، اور پس منظر میں نادیہ کی تصویر کے ساتھ بولڈ الفاظ
کیا سید  امن حنان افتخارِ بھی اُسی گندی سیاست میں اُتر آئے ہیں، جس کا الزام وہ دوسروں پر لگاتے ہیں؟
کیا وہ بھی ایک ‘نئے پاکستان’ کے دعوے دار صرف زبان سے ہیں؟
سوشل میڈیا پر تو جیسے میدانِ جنگ بچھ چکا تھا—
ہیش ٹیگز، جذبات، غصہ، اور بدگمانیاں۔

#JusticeForNadia
#AmanExposed
#ReaperReturns

ٹی وی پر اگلا جملہ تیزی سے چمکا نادیہ فیروز کے بیان کے مطابق، یہ قاتلانہ حملہ سید امن حنان افتخار کی ایما پر کیا گیا تھا

اور فوراً اُس کے بعد اسکرین پر امن کا ردعمل سٹوری پوسٹ کی صورت : میرا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ میں خود صدمے میں ہوں۔ میرے اور نادیہ کے اختلافات سیاسی تھے، ذاتی نہیں!

لیکن نیوز رومز میں کوئی خاموشی نہ تھی۔
کوئی چیخ رہا تھا: ارے بھائی…! اگر یہ ریپر کا کام ہوتا، تو حملہ کامیاب ہوتا۔ سمجھ نہیں آتی میڈیا اندھا ہو گیا ہے یا بکا ہوا ہے!

اور کسی چینل کے ڈارک اینالسٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا یہ کیا بکواس کر رہی ہے نادیہ؟!
اس پر حملہ ریپر نے کروایا ہے…

وہ الفاظ زہر تھے۔
اور زہر جب میڈیا کی لہجوں میں شامل ہو جائے،
تو سچ دفن ہو جاتا ہے۔

یوٹیوب، نیوز چینل، ٹوئٹر، ٹک ٹاک، انسٹاگرام—
سوشل میڈیا کے ہر ایپ پر ایک ہنگامہ سا برپا تھا… ایک شور… ایک طوفان…
ایسا جیسے پورا ملک ایک اسکرین میں قید ہو چکا ہو۔
ہر طرف وہی سوال، وہی چہ میگوئیاں،
جیسے ہر صارف کے ہاتھ میں تلوار ہو اور ہر فقرہ ایک زخم!
یوٹیوب پر…

“LIVE NOW —

کیا امن حنان نے نادیہ پر حملہ کروایا؟
ریپر کی واپسی؟ یا ایک سیاسی سازش؟

ویڈیوز پر لاکھوں ویوز، کمنٹس کی قطار
اگر یہ نادیہ جھوٹ بول رہی ہے تو اسے گرفتار ہونا چاہیے!
امن نے تو ہمیشہ امن کی بات کی، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
ریپر واپس آ چکا ہے… تباہی قریب ہے!
نیوز چینلز پر…
ٹکرز چیخ رہے تھے —
بریکنگ نیوز : نادیہ فیروز نے امن حنان پر قاتلانہ حملے کا الزام لگا دیا!
ریپر؟ سیاسی دشمنی ؟
ڈبیٹس میں اینکرز ایک دوسرے پر چیخ رہے تھے،
اور تجزیہ نگار حقیقت کی بجائے ریٹنگ کا سوچ رہے تھے۔
ٹوئٹر پر…
ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے تھے

#AmanAttack
#JusticeForNadia
#ReaperReturns

ہر دوسرا ٹوئٹ غصے سے بھرا ہوا تھا
یہ سیاست نہیں، جنگ ہے۔
نادیہ زندہ ہے، مگر کتنی دیر؟
کیا یہ ریپر نے کیا یا امن نے !
ٹک ٹاک پر…
15 سیکنڈ کی ویڈیوز میں لوگ نادیہ کی حالت کی نقل کر رہے تھے،
امن کی پرانی تقریریں ایڈیٹ کر کے طنز بنایا جا رہا تھا،
اور ریپر کی چالوں کو بی جی ایم کے ساتھ “ولن ایڈیٹ” بنایا جا رہا تھا۔
تالیوں اور ہنسیوں کے بیچ خوف اور فتنہ چھپا ہوا تھا۔
انسٹاگرام پر…
اسٹوریز، ری پوسٹس، پولز
کیا امن سچا ہے؟

☑️ Yes
☑️ No
☑️ I don’t know but he’s hot.
کہیں قہقہے تھے، کہیں آنکھیں نم، کہیں انگلیاں الزام کے نشان میں اٹھتی جا رہی تھیں۔
سچ کسی کونے میں کانوں پر ہاتھ رکھے بیٹھا تھا،
جھوٹ ہر ایپ پر وائرل ہو چکا تھا۔

اور امن اپنی کار میں بیٹھا اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتے یہ سب نہات کے منہ سے سن رہا تھا۔

++++++++++++++

ابھی مائرہ کو ڈیوٹی پر آئے بمشکل دس منٹ ہی گزرے تھے۔ کمرے کی خاموش مگر مصروف فضا میں وہ اپنی فائلیں ترتیب دے رہی تھی جب اچانک دعا اور معاذ اُس کے پاس آ گئے۔
دعا کے چہرے پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی اور معاذ کی آنکھوں میں ایک عجیب بے چینی تیر رہی تھی۔

تم نے نیوز دیکھی، مائرہ؟
دعا نے بغیر تمہید کے پوچھا۔

مائرہ نے چونک کر اُن دونوں کو دیکھا۔
کون سی نیوز؟
وہ ابھی تک کسی بھی خبر سے لا علم تھی۔

ارے وہی، امن بھائی کے بارے میں۔
معاذ کی آواز میں اضطراب تھا، جیسے کسی دھند میں لپٹے سچ کو بیان کرنا چاہ رہا ہو۔

مائرہ کا دل ایک دم زور سے دھڑکا۔
کیا… کیا ریپر نے… کیا اُسے کچھ کر دیا؟
آواز لڑکھڑا گئی تھی۔

دعا نے فوراً نفی میں سر ہلایا،
نہیں، کچھ نہیں ہوا۔ صرف… الزام لگا ہے اُن پر۔

الزام؟
مائرہ کی آواز میں حیرانی اور بے یقینی شامل تھی۔
کس نے لگایا؟

دعا نے گہری سانس لی، جیسے اُس نام کو لینے سے بھی اُسے گھن آتی ہو:
نادیہ فیروز نے۔

معاذ کے چہرے پر فوراً ایک شدید نفرت چھا گئی۔
یہ نادیہ جہنم میں جائے! مجھے یہ عورت کبھی پسند نہیں آئی۔

مجھے بھی نہیں۔
دعا نے اُس کی تائید کی، جیسے دونوں کے دلوں میں اُس عورت کے لیے ایک جیسا زہر بھرا ہو۔

مائرہ خاموش ہو گئی۔ اُس کے ذہن میں امن کا چہرہ ابھرا۔ وہ نرم لہجہ، وہ پر سکون مسکراہٹ، وہ باتوں میں چھپا ہوا سکون… اور اب اُس پر الزام؟ نادیہ کی طرف سے؟ وہ عورت جو چالاکی کی جیتی جاگتی تصویر تھی؟

مائرہ نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو آپس میں جکڑا،
الزام کی نوعیت کیا ہے؟
اُس کی آواز تھوڑی کانپ رہی تھی، لیکن اُس نے خود پر قابو رکھا۔

دعا اور معاذ نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
کوئی بھی فوراً کچھ کہنے کے لیے تیار نہ تھا۔
گویا یہ بات، اُس کی سماعت سے ٹکرانے سے پہلے، پہلے ہی کئی دلوں کو زخمی کر چکی تھی۔

++++++++++++++

میں نے آپ کے متن سے ڈائیلاگ کو ہائی لائٹ کر دیا اور باقی متن بالکل ویسا ہی رکھا ہے:

پریس کانفرنس ہال
کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔
کیمرے، مائکس، چمکتی لائٹس، بے صبر صحافی۔
سب کی نظریں اُس دروازے پر تھیں… جہاں سے وہ آنے والا تھا جس پر آج الزام تھا۔
اور پھر…
دروازہ کھلا۔
امن اندر داخل ہوا۔
سفید شلوار قمیص، سادہ چہرہ،
اس نے مائیک کے سامنے آ کر کھڑے ہوتے ہی سب سے پہلے

السلام علیکم کہا۔
پھر ایک لمحے کو خاموش ہو گیا، جیسے سوچ رہا ہو… کہ جھوٹ کا جواب کیا ہو؟

میں یہاں اپنی صفائی دینے نہیں آیا… کیونکہ سچ کو صفائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔
میں یہاں یہ بتانے آیا ہوں کہ اگر کسی پر شک کی بنیاد پر فتوے دیے جائیں،
تو کل ہر وہ شخص جو سچ بولے گا، مشکوک ہو جائے گا۔

سب کی نظریں جمی تھیں۔
کسی نے قلم روکا، کسی نے سانس۔
امن بولا:

نادیہ فیروز میرے سیاسی راستے میں ضرور ہیں، مگر وہ میری جنگ نہیں۔
میری جنگ اُس سوچ سے ہے، جو سچ کو کچلنے کے لیے الزام تراشی کو ہتھیار بناتی ہے۔

کیمروں کی لائٹس تیز تھیں، ہال مکمل خاموش،
اور مائیک کے سامنے کھڑا وہ شخص — سید امن حنان افتخار —

میری نادیہ فیروز سے صرف
اتنی گزارش ہے…
کہ براہِ کرم ہوا میں تیر نہ چلائیں۔
اگر اُن کے پاس میرے خلاف کوئی بھی ٹھوس ثبوت ہے —
صرف ایک بھی — تو وہ اسے عوام کے سامنے لے کر آئیں۔

ہال میں کیمرے جھک کر زوم کی، رپورٹرز نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
امن کی آواز مدھم مگر واضح ہوتی ہوچکی تھی:

الزام لگانا آسان ہے،
خاص طور پر اُس شخص پر،
جو آپ کا سیاسی مخالف ہو۔
مگر یہ ملک الزاموں سے نہیں،
سچائی اور دلیل سے چلے گا۔

وہ ایک لمحے کو خاموش ہوا، پھر تھوڑا آگے جھک کر بولا
میری اپنی پولیس فورس سے بھی میں اپیل کرتا ہوں —
کہ اِس کیس کی آزاد، شفاف، اور غیر جانبدار تحقیقات کی جائیں۔
نہ صرف میرے لیے، بلکہ نادیہ فیروز کے انصاف کے لیے بھی۔
اگر کسی بھی درجے پر میرا یا میری ٹیم کا کوئی فرد ملوث پایا گیا،
تو میں خود اُسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کروں گا۔

پھر اُس کی آواز قدرے سخت ہو گئی
لیکن اگر یہ محض ایک سیاسی چال تھی —
اگر کسی نے عوام کی ہمدردی سمیٹنے کے لیے
خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے —
تو اُسے بھی عوام کے سامنے جواب دینا ہوگا۔

پھر وہ رُکا،
کیمرے کی طرف دیکھا،
اور آخری جملہ بولا
میں امن ہوں… اور جو لوگ سچ پر کھڑے ہوتے ہیں، وہ کبھی اکیلے نہیں ہوتے۔

آخری جملے پر ہال میں سرگوشیاں پھیل گئی۔
امن مائیک بند کیا، ایک پل کو کیمروں کی طرف دیکھا،
پھر خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا۔

++++++++++++

یہ پریس کانفرنس پلک جھپکتے ہی ٹرینڈ کرنے لگا۔
لوگوں کی رائے بدلنے لگی۔
کچھ خاموش دلوں نے پہلی بار سوچنا شروع کیا کہ شاید… سچ واقعی اتنا چیخ کر نہیں آتا، جتنا خاموشی سے اپنا اثر دکھاتا ہے۔

نادیہ فیروز اسپتال کے پرائیویٹ روم میں بیٹھی، ویڈیو دیکھ رہی تھی۔
سکرین پر امن کا چہرہ تھا —
نہ گھبراہٹ، نہ غصہ، بس ایک ٹھہرا ہوا سکوت۔

وہ زچ ہو گئی۔
یہ آدمی آخر ٹوٹتا کیوں نہیں…؟
اُس نے اپنے سیکرٹری سے کہا۔

میڈم، عوام ہمدرد ہو رہی ہے اُس کے ساتھ… ہمیں اگلا قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ہو گا۔

نادیہ ہنس دی، ایک ایسی ہنسی جو دل کی گہرائی سے نہیں، دماغ کی چالاکی سے نکلتی ہے۔
بس اتنا کچرا اچھالوں گی اُس پر کہ وہ خود دیکھ کر حیران رہ جائے گا… لوگ سچ پر نہیں، کہانی پر یقین کرتے ہیں۔
اور مجھے یہ الیکشن برابری کا نہیں بنانا، مجھے یہ اُسے ہرا کر جیتنا ہے۔

اُس نے آہستہ سے چادر درست کی،
اور پھر ایک میسج ڈکٹیشن میں بولنا شروع کیا:
کل نیوز چینلز کو وہ پرانی ویڈیو لیک کر دو… وہی، جس میں امن ایک پارٹی فنکشن میں تھا اور ایک مبہم جملہ اُس نے کہا تھا۔
کون کیا سیاق و سباق دیکھتا ہے؟ لوگ بس نتیجہ دیکھتے ہیں۔
اب اُنہیں وہ دکھاؤ، جو میں چاہتی ہوں۔

سیکرٹری نے سر ہلایا۔
نادیہ نے نظریں کھڑکی سے باہر دوڑائیں۔

دن کے اختتام کا وقت تھا۔ روشنی مدھم ہو رہی تھی،
مگر اُس کے اندر کی آگ… اور زیادہ بھڑک رہی تھی۔
میں عورت ہوں،
اور جب عورت الزام لگاتی ہے،
تو وہ الزام صرف ایک شخص پر نہیں لگتا،
وہ اُس کے کردار، اُس کے نظریے، اور اُس کی سچائی پر لگتا ہے۔
اور یہی تو میرا ہتھیار ہے۔

++++++++++++

باب دوم : گریم ریپر

گریم ریپر… ایک ایسا نام، جو کراچی کی ہواؤں میں گھلا ہوا تھا۔ گلیوں کی گرد میں لپٹا، دیواروں پر تحریر اور بچوں کے ڈراؤنے خوابوں میں بسا ہوا۔
یہ نام صرف ایک شخص کا نہیں تھا — یہ ایک داستان تھی۔ ایسی داستان جس میں خون بھی تھا، انصاف بھی… مگر سب کچھ الجھا ہوا، گمبھیر، اور اندھیر۔

گریم ریپر جرم کی دنیا کا بے تاج بادشاہ تھا۔ وہ جرم کے تخت پر بیٹھا، موت کا تاج پہنے، زندگی کو تاش کے پتوں کی طرح کھیلتا تھا۔ کون سا ایسا جرم تھا جس کی ڈور اس کے ہاتھ میں نہ تھی؟ اغواء، قتل، بلیک میلنگ، ہتھیاروں کی اسمگلنگ — سب کچھ۔

لیکن…
ریپر خود کسی کے قابو میں نہ تھا۔
نہ کسی گروہ کا حصہ، نہ کسی سازش کا مہرہ۔
وہ صرف “گریم ریپر” تھا۔

وہ چاہتا کیا تھا؟
یہ سوال تھا، جس کا جواب آج تک کوئی نہ دے سکا۔
نہ پولیس، نہ سیاستدان، نہ اس کا دشمن — اور نہ شاید وہ خود۔
وہ سیاست دانوں کے پیچھے کیوں پڑا رہتا تھا؟
کیوں ایک ایک کر کے وہ ان کو خاموشی سے موت کے گھاٹ اتارتا؟
صرف اس لیے کہ وہ اُسے روکنے کی بات کرتے تھے؟
یا اس لیے کہ وہ اُن میں خود کو دیکھتا تھا — جھوٹ، دھوکہ اور طاقت کی بھوک؟

ریپر ایک ہی بات کہتا تھا —
جو میں کرتا ہوں، مجھے کرنے دیا کرو… تو نقصان نہیں ہوگا۔
اور پھر وہی شخص،
نقصان کرنے کے بعد کہتا تھا —
میں نے کہا تھا نا، نقصان نہیں ہوگا؟

یہ فقرہ… سننے میں عام تھا،
لیکن اُس کی زبان سے نکل کر موت کی مہر لگاتا تھا۔

ریپر صرف جرم نہیں کرتا تھا،
وہ جرم کے ذریعے کوئی پیغام دیتا تھا۔
ایک ایسا پیغام،
جو اکثر صرف مقتول کی آنکھوں میں پڑھا جا سکتا تھا۔

اس وقت رات تھی۔
وہ رات جو پورے کراچی پر خاموشی کی چادر تان چکی تھی، سوائے سمندر کی لہر کے، جو ہر تھوڑی دیر بعد کسی کونے سے کراہتی تھی۔
اور ریپر…
اپنے مخصوص گھاٹ پر موجود تھا۔
یہ وہی گھاٹ تھا جہاں وہ اکثر آتا تھا — جیسے وہ اسے پناہ دیتا ہو۔
پانی کی سطح پر چاند کی روشنی کا عکس لہرا رہا تھا، اور روشنی میں کھڑی وہ… ایک دوبلی پتلی سی لڑکی، جس کے وجود میں تباہی تھی،
آج اُس کی آنکھیں بھوری تھیں۔
ہر بار کی طرح آج بھی اُس کا چہرہ ماسک کے پیچھے چھپا ہوا تھا،
وقت شاید رُک گیا تھا۔ یا شاید ریپر کی موجودگی میں وقت ویسے ہی سانس لینا بھول جاتا تھا۔

سب کچھ آپ کے سامنے ہے، ریپر… آگے کیا حکم ہے؟
ریپر خاموش رہا۔
چند لمحے، جن میں دریا کا پانی بھی شاید رک گیا تھا۔
پھر اُس نے آہستہ سے سر اُٹھایا۔
آواز سرد تھی، جیسے کسی پرانے قبرستان سے نکلی ہو۔

بس… بہت ہو گیا۔
لفظ پتھروں کی طرح گرے۔

اب نادیہ کو موت کی خَط اُتار دو۔
وہ آہستہ بولا،
کل کا سورج… اُس کی آنکھیں نہ دیکھ سکیں۔

لڑکی نے سُن کر سر جھکا لیا۔ نہ حیرت تھی، نہ سوال۔
کیونکہ ریپر کا حکم، فیصلۂ موت ہوتا تھا — بے اپیل، بے دلیل۔
وہ پلٹی، مگر چند قدم چلنے سے پہلے رُکی۔
ہوا میں کچھ تھا، جیسے ایک سوال جو کسی نے بلند آواز سے نہ کیا ہو، مگر فضا نے سن لیا ہو۔

آپ کو یقین ہے؟ آواز دھیمی تھی،
ریپر نے اُس کے بھورے آنکھوں کو گھورا۔
یقین؟
وہ ہنسا نہیں۔
بس ایک آہستہ سانس لیا —
یقین صرف اُنہیں ہوتا ہے جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ ہو۔ مجھے… صرف بدلہ لینا ہے۔
دریا خاموش تھا۔
موت… فیصلہ پا چکی تھی۔

++++++++++++

ریپر نے کہا تھا —
اور جیسے وہ ہمیشہ کہتا تھا، ویسا ہی ہوا۔

نادیہ فیروز، وہی نادیہ جو کل تک نیوز چینلز کی اسکرین پر بیٹھ کر خود کو مظلوم اور سچائی کی علمبردار کہتی تھی —
اب صرف ایک خبر بن چکی تھی۔

نادیہ فیروز، معروف سیاسی تجزیہ نگار، پراسرار حالات میں اسپتال میں دم توڑ گئیں۔

یہ خبر فجر کے وقت نہیں پھیلی تھی۔
یہ تو جیسے فجر سے پہلے ہی ہواؤں میں تحلیل ہو چکی تھی —
ہر فون اس کی گونج سے بج رہا تھا، ہر نیوز روم میں ہنگامہ برپا تھا، اور ہر صحافی اپنی سانس روکے یہ سوچ رہا تھا کہ…

اب اگلا کون؟

اور دوسری طرف —
امن۔
وہ جو ابھی کل ہی خود پر لگے جھوٹے الزام کے بوجھ تلے دب رہا تھا،
آج اُس کے سر پر ایک اور بم گرا تھا۔

نادیہ کی موت کی خبر اُس وقت پہنچی جب وہ ابھی پولیس اسٹیشن کی کرسی پر بیٹھا، آنکھیں بند کیے، خاموشی سے اپنا اگلا جملہ سوچ رہا تھا۔
دروازہ کھلا، اور جیسے کسی نے ایک لفظ نہیں، ایک سزا اندر پھینکی۔

وہ مر گئی ہے.
آفیسر نے آہستہ کہا،
لیکن الفاظ گونج کر گرے —
ایسے جیسے اُس کمرے کی دیواروں نے بھی سچ کا بوجھ محسوس کیا ہو۔

امن نے آنکھیں کھولیں۔
پلکیں نہیں لرزیں، مگر دل میں ایک دراڑ سی پڑی۔

کون؟
اُس نے پوچھا، جیسے وہ جانتا نہ ہو۔

نادیہ۔ اسپتال میں… موت پراسرار تھی۔ کوئی زہر، کوئی سرنج… کچھ واضح نہیں۔ لیکن مر چکی ہے۔

چند لمحے — خاموش۔
پھر امن نے آہستہ سانس لی۔
اب میں کیا لگتا ہوں تمہیں؟ مجرم؟ قاتل؟ یا صرف ایک بچا ہوا نام، جو مرنے سے رہ گیا؟

آفیسر نے کوئی جواب نہ دیا۔
کیونکہ سچ کا بوجھ کبھی کبھی سوال کی شکل میں سامنے آتا ہے —
اور ہر سچ، کہنے کے لیے نہیں ہوتا۔

+++++++++++++

نادیہ فیروز کی موت کسی عام موت کی طرح نہیں تھی — وہ جلتی لکڑی کی طرح نہیں، آگ کی طرح پھیلی۔
اس نے مرنے سے پہلے اپنے بیاں میں واضح کہا تھا
اگر مجھے کچھ ہوا، تو صرف ایک شخص ذمہ دار ہوگا — امن!

اور پھر وہی ہوا۔
ہسپتال میں، آئی سی یو کے بیڈ پر، کسی نے اُس کے منہ پر تکیہ رکھ کر اُس کی سانس روک دی۔
ایسا لگتا ہے جیسے اُس کے الفاظ اُس کی آخری سانسوں سے لپٹے ہوئے تھے۔ اور وہ سانس جیسے کسی نے خود اپنی مرضی سے بند کی ہو۔

پولیس کے مطابق۔

سی سی ٹی وی فوٹیج غائب تھی

ہسپتال کے کسی ڈاکٹر یا نرس کی ملوث ہونے کی کوئی شہادت نہیں ملی۔

اسپتال میں اتنی سیکیورٹی کے باوجود کوئی نادیہ کے روم میں گھس کر اُسے قتل کیسے کر سکتا تھا۔

ڈاکٹر کا کہنا تھا :
وہ بالکل ٹھیک ہوچکی تھی، کچھ دن بعد ہم اُنہیں ڈسچارج کر دیتے
اور یوں ایک اور پراسرار موت، ایک اور بےچینی کا آغاز۔

میڈیا کے سرخیوں میں اب کیا تھا؟
نادیہ فیروز کو قتل کیا گیا؟

امن پر الزام — کیا یہ سچ ہے یا سیاسی ڈراما؟

نادیہ نے خود ایف ائی آر درج کرائی تھی — کیا امن اب گرفتار ہوگا؟

اور ٹویٹر پر
#JusticeForNadia
ٹرینڈ کر رہا تھا،
ٹی وی اسکرین پر کوئی بریکنگ نیوز نہیں — صرف نادیہ کا چہرہ اور امن کی خاموشی۔

نادیہ فیروز قتل — امن حنان، پولیس کارروائی کیوں نہیں کر رہی؟
سابق ایم پی اے کا بیٹا یا قاتل؟ عوام جواب چاہتے ہیں!
نادیہ کے آخری الفاظ — ‘میری موت کا ذمہ دار امن ہوگا’
خاموشی بھی جرم ہے! — یہ سلوگن دیواروں پر اسپرے کیا جا رہا تھا۔

نادیہ کے والدین کی پکار
ٹی وی پر نادیہ کی ماں رو رہی تھی، آواز میں لرزش اور آنکھوں میں جلی ہوئی راتیں
میری بیٹی نے مرنے سے پہلے انصاف مانگا تھا۔ اب صرف انصاف چاہیے — یا پھر اس ملک کا قانون دفن کر دو!

نادیہ کے والد کے ہاتھ میں وہ آف آئی آر تھی، وہ کاغذ جو اب ایک قومی علامت بن چکا تھا۔

امن کی دنیا تنگ ہو چکی تھی، لیکن کوئی ثبوت نہیں ہونے کے بنا پر ابھی تک پولیس امن کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کر رہی تھی، اور کچھ لوگ ابھی بھی تھے جو امن کے ساتھ کھڑے تھے۔۔۔

++++++++++++++

دادو… دادو…
وہ زور زور سے رو رہی تھی، جیسے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر باہر نکل رہے ہوں۔

دادو، میں کیا کروں؟ میں کیسے اُن کی مدد کروں؟ سب مانوس ہیں، سب جھوٹے ہیں، میرے امن پر الزام لگا رہے ہیں، وہ ایسے نہیں ہیں دادی، میں جانتی ہوں، وہ ایسا نہیں کر سکتے، وہ ایسے نہیں ہیں

وہ دادو سے لپٹ کر بلک بلک کر رو رہی تھی، اور دادو، وہ صرف اسے دیکھ رہی تھیں۔ کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھیں، کچھ سمجھا بھی نہیں سکتی تھیں۔ عشق کا بخار اُترتا کب ہے آسانی سے؟ دادی کو یُسرا کی حالت دیکھ کر فکر کھائے جا رہی تھی۔

یُسرا کی آنکھوں میں اب آنسوؤں کے ساتھ ساتھ نفرت کی چنگاریاں بھی بھڑکنے لگی تھیں۔

دادی، یہ ریپر منحوس ہے، میں کہہ رہی ہوں، ایک بار میرے ہاتھ آ جائے، میں ایسا حال کروں گی کہ پوری زندگی یاد رکھے گا، اور یہ میڈیا والے؟ ایک ایک کو چُن چُن کے ماروں گی!

دادی کے ہاتھ یُسرا کے سر پر تھے، مگر دل میں بےحد خوف۔

++++++++++++++

کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی…
صرف ٹی وی کی آواز گونج رہی تھی —
نادیہ فیروز کے مرنے کے بعد امن پر قتل کا شبہ، پورا کراچی سراپا احتجاج.

صوفے پر تینوں بیٹھے تھے۔
امل کی آنکھوں میں فکر، افتخار صاحب خاموش اور گہری سوچ میں گم، اور انیسہ بیگم کے چہرے پر صرف ایک چیز — غصہ اور بددعا۔

ٹی وی پر مخالف پارٹی کی ویڈیو کلپس،
امن قاتل ہے!
نادیہ کو انصاف دو!

انیسہ بیگم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس ٹی وی میں گھس کر چیخ پڑیں۔
یہ ریپر… یہ خبیث… اللہ کرے مر جائے، کتے کھائیں اسے! منحوس کہیں کا…!
ان کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔

ہاں دادو، منحوس کہیں کا خود کیوں نہیں مار جاتا، ہماری زندگی عذاب کی ہوئی، خود کے ساتھ ایسے ہوتا نہ پھر پتہ چلا، اللّٰہ پوچھے گا اس سے

امل نے بھی اپنا حصہ ڈالا، دادی پوتی نیوز دیکھتی کبھی مخالف پارٹی کو بددعا دیتی کبھی ریپر کو، اور افتخار صاحب خاموشی سے بیٹھے تھے، گہری سوچ میں گم۔

+++++++++++

ہنزہ سیری کی سیڑھیاں آہستہ آہستہ اُترتی لاؤنچ میں داخل ہوئی، جہاں اُس کا بھائی ارباز، صوفے پر نیم دراز، لیپ ٹاپ کی اسکرین پر جھکا بیٹھا تھا۔ اُس کے چہرے پر روشنی اور فکر دونوں کا عکس تھا۔

بھائی… نیوز دیکھی آپ نے؟
ہنزہ کی آواز میں چبھن تھی، جیسے دل سے کوئی کانٹا ابھی ابھی نکالا گیا ہو۔

ارباز نے نظر اُٹھائی،
کون سی نیوز، گُڑیا؟

یہی، امن بھائی والی، وہی ریپر والا مسئلہ، سارا کچھ اسی منحوس کی وجہ سے ہو رہا ہے!
اُس کی آنکھوں میں نفرت کا رنگ جھلکنے لگا تھا، اور لہجے میں غصے کی سُرخی۔

ہاں، مجھے بھی لگتا ہے، وہی ہے اصل مجرم۔
ارباز نے اثبات میں سر ہلایا،

لگتا کیا بھائی یقینا اُسے نے ہی کیا ہے، وہی تو ہے اس پورے کراچی میں سب سے خبیث انسان، جاہل، دِل نام کی کوئی چیز نہیں اس کے اندر

ہاں، ہے تو واقعی خبیث انسان
ارباز نے ہنزہ کی بات کی تقیق کی

پتا نہیں اُس خبیث انسان کو کیا ملتا ہے یہ سب کر کے، اور امل وہ کتنی پریشان ہے آج کل!
ہنزہ کی آواز میں امل کے لیے ایک بےچینی تھی، جو دوستوں سے زیادہ بہنوں جیسی قربت رکھتی تھی۔

وہ کیوں پریشان ہے؟
ارباز نے حیرانی سے پوچھا،

اف! بھائی! آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں، نہ امل کے بارے میں، نہ میری دوستوں کے بارے میں! آپ کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میری کتنی دوستیں ہیں!

ارباز نے ہنستے ہوئے سر جھٹکا،
گڑیا، تمہاری دوستوں کے بارے میں جان کر میں کیا کروں گا؟

بات تو آپ کی بالکل صحیح ہے
وہ آہستہ سے بڑبڑائی اور پھر صوفے پر گِر سی گئی۔

اُسی لمحے، کیئر ٹیکر ہاتھ میں ٹرے لیے اندر داخل ہوئی۔
اس کی دوستوں کے بارے میں اس کی سول سسٹر حریم کو پتہ ہوگا نہ، چلو اب بتائیں بند کھانے اور دوا کا وقت ہوچکا ہے، چلو دوا کھاؤ پھر کھانا

نہیں کھانی دوا! یار!
ہنزہ نے چہرہ پھیر لیا، جیسے ناراض بچی۔

ارباز نے نرمی سے اُسے سمجھایا،
گُڑیا، دوا نہیں کھاؤ گی تو جلدی سے ٹھیک کیسے ہوگی؟

ہنزہ نے تڑپ کر کہا،
بھائی! کیا ساری زندگی دوا ہی کھاتی رہوں گی؟ بچپن سے یہی سن رہی ہوں، کب ٹھیک ہوں گی میں؟ کب؟

ارباز کے دل میں کچھ ہِل سا گیا۔ وہ کچھ بول نہ سکا۔

جس دن تمہیں اپنے ٹھیک ہونے کی امید ہوگی، اُس دن دوا بھی شفا بن جائے گی، جس دن تم یقین سے دوا کھاؤ گی کہ میں اب ٹھیک ہوجاؤں گی، اُسی دن سے تم واقعی ٹھیک ہونے لگو گی
وہ کہتی اُس کے سامنے ٹیبل پر ٹرے رکھی دوا اُس کے ہاتھ میں پکڑئی، جس پر ہنزہ نے خاموشی سے کھالیا۔

تھنک یوں
ارباز اُس کی طرف دیکھ نرمی سے کہا

کس لیے؟ مُجھے اس کے پیسے ملتے ہیں
اُس نے بے نیازی سے کہا، وہ عنایت تھی ایک بہت اچھی نرس اور ساتھ میں ایک بہت پیاری اور سلجی ہوئی لڑکی۔ جیسے صِرف محبت بٹنا آتا تھا، اُس کی بات پر ارباز بس مُسکرا دیا۔

++++++++++++

ٹی وی بند ہو چکا تھا، پورے ڈرائنگ روم میں سکوت تھا۔ امل اور انیسہ بیگم ریپر کو گلی دے کر اب ٹھاک کر اپنے کمرے میں جا چکی تھی، لیکن افتخار صاحب وہیں بیٹھے تھے آنکھوں میں وہی پرانا غرور اور سیاسی چالاکی لیے۔

یہ سب میڈیا کا کھیل ہے، میں دیکھ لوں گا اِن سب کو
انہوں نے اپنی چھڑی ایک طرف رکھتے ہوئے فون اٹھایا۔

ندیم! کل تک ایک بھی چینل پر امن کا نام نہ آئے، سب کے سب منہ بند ہونے چاہیئں۔ پیسہ لگاؤ، تعلقات استعمال کرو، اور خاص طور پر اُس اینکر کو… ہاں، اُسی کو، جو کل رات چیخ چیخ کے کہہ رہی تھی ‘امن قاتل ہے’. اُس کی زبان بند ہونی چاہیے!

ندیم نے جی سر کہہ کر فون بند کر دیا۔
افتخار صاحب نے لمبی سانس لی۔
سب سنبھل جائے گا۔ ہم افتخار ہیں، کوئی عام نام نہیں۔

مگر اُسے کیا خبر تھی،
سچ بند کمروں میں نہیں رُکتا، وہ دراڑوں سے بھی نکل آتا ہے۔

+++++++++++

کراچی کا موسم آج ویسا ہی تھا جیسا سیاست کا مزاج — بادلوں سے بھرا، کسی بھی لمحے برسنے کو تیار۔
بنگلے کی پچھلی سمت ایک خاموش کمرہ، جو نہ مکمل طور پر نجی تھا، نہ ہی مکمل سرکاری۔ یہی تھا افتخار صاحب کا دفتر — جہاں فیصلے ہوتے تھے،
کمرے میں داخل ہوتے ہی دیوار پر ایک بڑا نقشۂ پاکستان آویزاں تھا، جس پر مختلف رنگوں کے پن لگے تھے —
دائیں جانب لکڑی کی ایک اونچی الماری تھی، جس میں سیاسی کتابیں، فائلیں اور چند پرانی تصاویر سجی تھیں — قائداعظم کے ساتھ ایک سیپیائی رنگ کی تصویر، نیچے ہاتھ سے لکھا تھا “رہنمائی میں امید ہے۔”
لمبی میز کمرے کے بیچ میں رکھی تھی، جس کے گرد درجن بھر کرسیاں۔ میز پر پانی کی بوتلیں، چائے کے کپ، کچھ کاغذات، اور ایک بھاری بھرکم ریموٹ کنٹرول — جو شاید ٹی وی سے زیادہ ایئرکنڈیشنر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
کھڑکی کے پردے آدھے کھلے تھے، باہر آسمان پر گھنے بادل جھول رہے تھے۔
کمرے کے ایک کونے میں امن کی کرسی ذرا اونچی تھی — غیر محسوس طریقے سے سب سے نمایاں۔
اور اس وقت اس  میز کے گرد ایک درجن چہرے بیٹھے تھے۔
سب وہی جنہوں نے امن کے ساتھ مل کر الیکشن مہم میں دن رات ایک کیا تھا۔

امن میز کے سرے پر بیٹھا، نگاہیں سب پر، آواز میں وہی ٹھہراؤ لیے۔
آپ سب جانتے ہیں، مجھ پر قتل کا الزام ہے

سب خاموش تھے۔

اور یہ بھی جانتے ہیں،یہ الزام جھوٹا ہے۔ مگر عوام حقیقت نہیں سنتی، صرف سرخیاں دیکھتی ہے۔

میز کے دوسری جانب، پارٹی کے سینئر رہنما — رؤف حلیم — اپنی کرسی پر جھکے، دونوں ہاتھوں کو آپس میں جوڑے، کچھ لمحے تک امن کو گہری نظر سے دیکھتے رہے، پھر دھیمی آواز میں بولے:
امن، آپ ہم سے پہلے سچ بولیں، کیا واقعی آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا؟
یا اگر کر بھی دیا ہو، تو بتا دیں، ہم سب ساتھ ہیں آپ کے۔
پولیس کو کیسے سنبھالنا ہے، میڈیا کی زبان کیسے بند کرنی ہے، ہم جانتے ہیں۔ بس، سچ جان لیں۔
وہ بول رہے تھے، مگر ہر لفظ کے ساتھ امن کے تاثرات  میں ایک تھرتھراہٹ پیدا ہو رہی تھی۔

آپ یہ کہنا چاہتے ہیں، کہ میں قاتل ہوں؟
امن کی آواز میں حیرت سے زیادہ تکلیف تھی۔

رؤف حلیم نے گہری سانس لی۔
نہیں، بس اگر ہو، تو تسلیم کر لیں۔ ہم سیاستدان ہیں، سچ کی قیمت جانتے ہیں، اسے بیچنا بھی جانتے ہیں
امن خاموش رہا۔

چند لمحے ایسے گزرے جیسے وہ اپنے اندر کے طوفان کو زبردستی زنجیروں میں باندھ رہا ہو۔
پھر اس نے کرسی سے پشت ہٹائی، دونوں ہاتھ میز پر رکھے، اور سامنے دیکھ کر بولا:
آپ میری پارٹی چھوڑ کر جا سکتے ہیں، رؤف صاحب۔
جیسے کسی نے گولیاں چلا دی ہوں۔ کمرے میں سناٹا چھا گیا۔

کیا کہا آپ نے؟
رؤف حلیم کی آنکھوں میں یقین اور غصہ دونوں تھے۔
میں نے جب یہ پارٹی جوائن کی تھی
امن کی آواز میں نہ تماشائیوں کے لیے وضاحت تھی، نہ مجرموں کے لیے معافی۔
وہ بس سچ کی دہلیز پر کھڑا، سچائی کا پرچم تھامے بول رہا تھا
تب میں نے صاف کہہ دیا تھا، مجھے وہ لوگ چاہییں جو حق کے ساتھ کھڑے ہوں۔
جو سچ کی دھوپ میں پسینے بہا سکیں، نہ کہ جھوٹ کی چھاؤں میں آرام تلاش کریں۔
اور آپ
اس نے سامنے بیٹھے رؤف صاحب کی طرف دیکھا،
آپ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ میں اپنے مفاد کے لیے کسی کا قاتل بنوں گا؟
اگر سچ کی قیمت کسی کا خون ہے، تو میں وہ سچ نہیں چاہتا۔
لیکن اگر جھوٹ کی قیمت میری ساکھ ہے — تو میں وہ ساکھ جلانے کو تیار ہوں!
کمرے کی خاموشی اب بوجھ بننے لگی تھی۔
میں سیاست میں طاقت کے لیے نہیں آیا، میں سیاست میں حق کے لیے آیا ہوں۔
اگر آپ کو اس راہ پر چلنا دشوار لگتا ہے — تو دروازہ آپ کے لیے کھلا ہے۔
مجھے ایسے لوگ نہیں چاہییں جن کے ایمان کی بنیاد مفاد ہو۔
مجھے وہ لوگ چاہییں جن کا ضمیر ہر رات انہیں جاگتے ہوئے سونے دے!

میں افتخار صاحب کے وقت سے ہوں اس پارٹی کے ساتھ! تُم میرے ضمیر پر ایسے اُنگلی نہیں اٹھا سکتے میں تو تمھارا ہی ساتھ دے رہا ہوں
رؤف صاحب کی آواز اونچی ہوئی۔

امن نے گردن موڑی، اس کی آنکھوں میں کچھ بجھ گیا تھا
تو بس وہی وقت تک ٹھہر جانا تھا، رؤف صاحب۔
میں افتخار صاحب نہیں ہوں، مُجھے ایسا ساتھ  نہیں چاہیے

رؤف صاحب کرسی سے اٹھے، کرسی کے ہلنے کی آواز کمرے کے سکوت کو چیر گئی۔
پھر تو تُم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو، امن ! تمہاری یہ سچائی تمہیں ڈبو دے گی۔

امن نے نظریں نہیں جھکائیں۔
اگر سچ بولنے کا مطلب ڈوبنا ہے، تو میں ہر بار ڈوبوں گا۔

پھر تُم ڈوبنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا۔
وہ کہتے ہوئے مُڑا، اور دروازے کی طرف قدم بڑھا دیے۔
کرسی ہلنے کی آواز، دروازے کے کھلنے کی چرچراہٹ، اور پھر قدموں کی چاپ…
بس یہی باقی رہ گیا۔
کمرے میں جیسے سب کچھ منجمد ہو گیا ہو۔
پھر اس نے میز پر نظر دوڑائی، سب آنکھوں سے ٹکرا کر بولا
کسی کو اگر اپنی وفاداری کو اقتدار سے جوڑنا ہے، تو یہی وقت ہے فیصلہ کرنے کا۔
میں کمزور اتحاد کے ساتھ طاقتور جھوٹ نہیں چاہتا — مجھے سچ کے ساتھ کھڑے وہ چند لوگ چاہییں جو میدان میں تنہا بھی ہوں، تب بھی نہ ڈریں۔

کمرے میں موجود نوجوان، کارکن، اور چند خاموش مشیر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
کچھ آنکھوں میں سوال تھے، کچھ میں عزم۔

پھر وہ نرمی سے گویا ہوا، آواز میں تھکن کم اور یقین زیادہ تھا۔
میں اپنے دادا کو جانتا ہوں، وہ کیسے سیاست کرتے تھے، کیسے فیصلے لیتے تھے۔
لیکن میں اُن جیسا نہیں ہوں۔
میں اُن کی وراثت کا احترام کرتا ہوں،
مگر اندھی تقلید نہیں۔
وہ لمحہ بھر رُکا، جیسے خود سے تصدیق لے رہا ہو۔
جان تو گئے ہوں گے مُجھے اب سب،
رؤف صاحب نے جو کہا، وہ صرف اُن کی سوچ نہیں تھی، اور اگر اس کمرے میں یا باہر بھی کوئی اور یہی سوچ رکھتا ہے، تو اُس کے لیے بھی دروازہ کھلا ہے۔
پھر اس نے گردن اٹھائی، ایک ایک چہرے کو دیکھا۔
لیکن یاد رکھیں،
میں اپنے ضمیر پر کوئی کمپرومائز نہیں کروں گا۔
نہ اقتدار کے لیے، نہ بچاؤ کے لیے۔

کسی کونے سے ہلکی آواز آئی
اگر رؤف صاحب کچھ اور بھی جانتے ہوں؟
اگر وہ آپ کے خلاف مزید ثبوت لے آئیں؟

امن نے آنکھیں بند کیں، پھر ہمت جمع کی
تو لائیں…
اس نے آہستہ سے کہا،
کیونکہ اگر میں سچ پر ہوں، تو کسی جھوٹ سے خوفزدہ نہیں ہوں۔
اور اگر غلط ہوں…
تو سزا میرے حصے کی ہونی چاہیے —
نہ کہ اُن کارکنوں کی، جو میری سچائی پر یقین کرتے ہیں۔

پھر ایک  عمر رسیدہ امیدوار، سید بابر علی بولے
بیٹا، ہم آپ کے  ساتھ ہیں۔ پہلے ہم افتخارِ صاحب کی بات مانتے تھے اب آپ کی مانے گئے، آپ سچائی کے ساتھ کھڑے ہو تُم ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔

ٹھیک ہے،میں کچھ دیر کے لیے بریک چاہتا ہوں۔
اُس نے کہا اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
سب نے خاموشی سے سر ہلایا،
ایک ایک کر کے اٹھے،
چلتے قدموں کی ہلکی چاپ اور دروازے کی چرچراہٹ کمرے میں گھلنے لگی۔
مگر ایک چہرہ —
وہیں جہاں تھا، وہیں بیٹھا رہا۔

تھوڑی دیر بعد امن کی آنکھیں کھلی تو اُسے سامنے پایا تُم کیوں بیٹھے ہو یہاں؟ جاؤ…

سامنے وہی کرسی، اور اُسی پر بیٹھا وہ شخص۔
وہ ہولے سے مسکرایا، جیسے ہوا نے کسی درخت کی شاخ کو آہستہ سے چھو لیا ہو۔
نہات تو کب کا جا چکا ہے، میں نومی ہوں۔

یہ میرا ورک پلیس ہے نومی یہاں کیسے آسکتا ہے؟ امن نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا

جب ایک بھائی کو دوسرے بھائی کی ضرورت پڑتی ہے، تو  کونسی جگہ کونسا ورک پلیس، وہ بس پہنچ جاتا ہے، بھلے وہ جگہ اُسے پسند نہ ہو، لیکن اُس کے بھائی کو اُس کی ضرورت ہے تو وہ پہنچے گا ضرور

امن نے سانس لیا — گہرا، تھکا ہوا، اور شکر گزار۔
تم ہر بار  مُجھے متاثر کرتے ہو… نہات!

ایک سچی سی مسکراہٹ لبوں پر آئی۔ کون کہہ سکتا تھا سید امن حنان افتخار بھی کسی سے متاثر ہوتا ہوگا وہ بھی کسی عام شخص سے
نہات نے گردن جھٹک کر تصحیح کی —
نہات نہیں، نومی

امن نے ہنسی دبی، پھر آہستہ سے کہا ہاں بھئی، نومی!

بھائی، آپ واقعی کراچی کے لیے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو برسوں سے کسی نے نہیں کیا،
جو کام حکومتوں کے اعلانات میں دب گئے، وہ آپ نے سڑکوں پر اتار دیے۔ مگر یہ شہر آسان نہیں —
یہاں سچ بولنے والے جلد تنہا کر دیے جاتے ہیں،
اور جو روشنی لاتے ہیں، اُنہیں اندھیرے نگلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈر یہ ہے،
کہ کہیں آپ کراچی کو بچاتے بچاتے، خود کو نہ کھو بیٹھیں۔
وہ امن کی فکر میں ڈوبتا بولا

امن نے چند لمحے خاموشی میں گم گزارے —
نومی کی بات جیسے سیدھی دل کے اندر جا اتری ہو۔
پھر اس نے گہری سانس لی، نگاہ کھڑکی سے باہر بادلوں میں اٹکی،
اور دھیرے سے بولا
یہ جو شہر ہے نا، نومی
وہ کرسی سے ذرا آگے جھکا، نظریں اب کھڑکی سے ہٹ کر سیدھی نہات پر تھیں،
یہ صرف مٹی، عمارتیں اور شور نہیں، یہ ذمہ داری ہے۔
جو اسے اپنا کہتا ہے، اُسے پھر اس کے زخم بھی اپنے کرنے پڑتے ہیں۔
نہات نے خاموشی سے سر ہلایا۔
یہاں لوگوں نے برسوں وعدے سنے، امیدیں کیں، اور ہر بار مایوسی ملی۔
اب اگر ہم بھی خاموش رہ گئے، تو شاید ہماری اگلی نسل بولنے سے بھی ڈر جائے۔

لیکن بھائی، یہ سچ مہنگا پڑ سکتا ہے۔ نہات کی آواز تھوڑی دھیمی ہوئی۔

میں تیار ہوں قیمت دینے کے لیے۔
بس یہ نہ ہو کہ کل کوئی بچہ اپنے باپ سے پوچھے:
‘کراچی کو کس نے بچایا؟’
اور باپ نظریں جھکا کر کہے — ‘کوئی نہیں۔’

اور اگر کوئی پوچھے: ‘کون لڑا تھا؟’
تو میں کہوں گا — میرا بھائی۔ نومی نے آہستہ سے کہا

امن نے مسکرا کر اس کا کندھا تھپتھپایا،
تُم میرا حوصلہ ہو نہات، مُجھے کبھی دھوکا نہیں دینا،

نومی نے ہلکا سا سر جھٹکا،نرمی سے بولا،
نہات نہیں، نومی!

امن نے پلکیں موند لیں، مسکراہٹ گہری ہوئی،
ہاں بھئی،  نومی!

نومی نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
کم از کم نام تو یاد رکھا کریں، بھائی صاحب —
آپ لیڈر ہیں، مگر میں آپ کا بچپن!

امن نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں،
پھر آہستگی سے کہا
شاید اسی لیے تم ہر بار میرے اندر کا شور سن لیتے ہو، جب دنیا چیخ رہی ہوتی ہے، تم خاموشی میں آ جاتے ہو۔

نومی نے بس اتنا کہا
کیونکہ آپ صرف کراچی کے لیڈر نہیں، میرے بڑے بھائی بھی ہو۔اور بڑے بھائی ہار نہیں سکتے۔

امن صرف ہلکا سا مسکرایا اور اپنے کوٹ کا بٹن بند کرتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔
گھر جا رہا ہوں، دادی انتظار کر رہی ہوں گی۔
میرا حوصلہ تو تم ہو، نومی،
لیکن اُن کا، میں ہوں۔

نومی نے آہستہ سر ہلایا، جیسے جانتا ہو —
امن صرف سیاست کا سپاہی نہیں،
کسی دُعاؤں بھری چھت کا چراغ بھی ہے۔

++++++++++++++

یہ… کیا کہہ رہے ہیں آپ؟
مایرا کی آواز جیسے کمرے کے در و دیوار پر پتھر کی طرح جا ٹکرائی۔
وہ وہیں، کرسی کی پشت سے ہٹی، نگاہوں میں حیرت اور دل میں ایک انجانی کھٹک لیے،
راشد صاحب کے سامنے کھڑی ہو گئی۔

راشد صاحب نے نگاہ چرائی —
شاید اُن کے لب پر موجود خاموشی، اس خبر سے زیادہ وزنی تھی۔
اوپر سے آرڈر آیا ہے۔
انہوں نے مختصر، دھیما مگر غیر لچکدار جواب دیا۔

مایرا نے جیسے سنا، مگر سمجھنے سے انکار کر دیا۔
کیا مطلب… کون سا آرڈر؟

ابھی، ابھی ظفر صاحب نے خود فون پر حکم دیا ہے۔
راشد صاحب کا لہجہ نرم نہیں تھا، صرف حقیقت سے بوجھل تھا۔

تم چلو گی؟
مایرا نے بغیر لمحہ گنوائے سر ہلایا۔

ہاں…!
کیونکہ سچ سے بھاگنا، اُس نے کبھی سیکھا نہیں تھا۔

دعا، جو ایک طرف خاموشی سے بیٹھی سب کچھ دیکھ رہی تھی،
آخر بول ہی پڑی
لیکن کیوں؟… اچانک کیا ہوا؟ کل تک تو ایسی کوئی بات نہیں تھی۔

راشد صاحب نے گہری سانس لی، جیسے ہر خبر کے ساتھ اُن کے سینے پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہو۔
ایک رپورٹر کا دعویٰ ہے کہ اسے پارٹی کی طرف سے دھمکی ملی ہے —
اور اسپتال کے بعد کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں امن کی پارٹی کا بندہ اسپتال کے اندر جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

مایرا کی نظریں لمحہ بھر کو ساکت ہو گئیں۔
لیکن، کوئی کسی حوالے سے بھی تو اسپتال جا سکتا ہے۔

ہمیں بس، تفتیش کرنی ہے، مایرا۔
راشد صاحب نے مختصر مگر وزنی جملہ کہا۔

دعا نے الجھتے ہوئے سوال پوچھا
مگر رپورٹرز کو دھمکی کس نے دی؟

راشد صاحب کی آنکھوں میں فکریں تھیں، جواب نہیں۔
ہو سکتا ہے، امن کی پارٹی کے اندر کا ہی کوئی بندہ ہو۔
اور امن خود اس بات سے بےخبر ہو۔

مایرا نے سر ہلایا۔
ہاں، ہو سکتا ہے…

مگر اُسی لمحے،
دروازہ ایک دھماکے کی آواز سے کھلا —
اور اندر ایس پی ظفر جاوید، وہی وجود جو پولیس کی وردی میں کبھی طاقت کا استعارہ لگتا تھا،
اب سختی کا طوفان تھا۔
آپ اب تک یہاں ہی کھڑے ہیں؟
ظفر کی آواز میں گویا بجلی بھری ہوئی تھی۔
میں نے آپ کو کیا آرڈر دیا تھا؟
کمرے کی فضا میں خاموشی، جیسے کسی عدالت کی سنگینی۔
مجھے، پندرہ منٹ میں امن حوالات کے اندر چاہیے۔
وہ دھاڑے،
اور اس بار راشد صاحب بھی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
مایرا نے آہستہ سے دعا کا ہاتھ تھاما۔
چلو، ہم صرف ایک گرفتار کرنے نہیں، ایک حقیقت کا سامنا کرنے جا رہے ہیں۔
دعا نے نظریں جھکا لیں۔
کیونکہ اس بار، تفتیش صرف امن کی نہیں تھی —
بلکہ اس سسٹم کی بھی، جو سچائی کے ساتھ رہنے والوں کو اکثر مجرموں کی فہرست میں ڈال دیتا ہے۔

++++++++++++

جاری ہے ۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *