me mera dil or tm

Mai mera dil or tum Episode 6 written by siddiqui

میں میرا دل اور تُم ( از قلم صدیقی )

باب دوم گریم ریپر

قسط نمبر ۶

امل، تیزی سے موبائل لے کر انیسہ بیگم کے پاس آئی۔
چہرہ غصے سے سرخ، اور آنکھوں میں ایک عجیب بے بسی تھی۔
دادی… دیکھیے اس منحوس کو۔
کتنی بدتمیزی سے میرے بھائی کو دھمکا رہا ہے۔۔۔
سالہ خود کیوں نہیں مر جاتا؟ جاہل کہیں کا۔۔۔
اس کے لہجے میں بہن ہونے کا غصہ تھا…

اگر اس نے واقعی بھائی کو کچھ کر دیا تو؟
دادی، میں کیا کروں گی؟
اس کے لب لرزے… آواز ٹوٹ کر گری۔

انیسہ بیگم نے موبائل کی طرف دیکھا،
ریپر کی آواز گونج رہی تھی
امن اب اپنی اُلٹی گنتی گننا شروع کر دے۔۔

اور پھر ایک سرد سانس لی۔
ان کا دل تو ویسے ہی کئی دنوں سے ڈولتا آ رہا تھا۔
اب جیسے وہ اندر ہی اندر بیٹھ گیا ہو۔
یہ ہے ہی منحوس مارا۔ کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہمارے امن کا۔
تُو ٹینشن نہ لے، ہم اس کے دادا کو بولیں گے…
سیکیورٹی دیں گے، سب کریں گے۔۔۔۔
لیکن اُن کا لہجہ بھی اب پہلے جیسا پُراعتماد نہ تھا۔
ماؤں کے دل لفظوں سے زیادہ دھڑکنوں سے بولتے ہیں…
اور آج اُن کی دھڑکن میں وسوسے کی لرزش تھی۔

بھائی گھر آنے والے ہیں نا؟
امل کی آواز اس بار زیادہ کمزور تھی۔

ہاں…
انیسہ بیگم نے کہا تو تھا،
لیکن اس “ہاں” کے پیچھے چھپی گھبراہٹ اُن کی پلکوں کے کنارے سے صاف دکھائی دے رہی تھی۔

دادی…
یہ سب کر کے اسے کیا ملتا ہے؟
سوال سادہ تھا، جواب… نہیں تھا۔

انیسہ بیگم نے گہری سانس لی۔
چہرے پر ہلکی سی حیرت،اور آنکھوں میں تھکن۔
اللہ جانے… نہ جانے اس کے ماں باپ کہاں ہیں۔
نہ جانے کیسی تربیت پائی ہے اس نے…
وہ بولیں،
مگر ان کے الفاظ میں اب سوال زیادہ تھے، جواب کم۔

امل  نے نظریں نیچی کیں،
ہونٹوں پر ایک ٹوٹی ہوئی مسکراہٹ اُتری۔
کیا پتہ دادی…
میری طرح اس کے بھی ماں باپ نہ ہوں؟”
انیسہ بیگم کا ہاتھ رُک گیا۔
چہرہ دھندلا سا لگا۔
ایک ماں کے دل کو جیسے یہ جملہ بہت گہرا لگا تھا۔
اے… کوئی تو ہو گا نا…
اس کے خاندان میں…

پتہ نہیں…
لیکن دادی، وہ بہت منحوس انسان ہے…
امل نے آہستہ سے کہا۔

انیسہ بیگم نے دانت بھینچے،
چہرہ سخت ہوا… اور آواز میں وہی خاندانی غصہ لوٹا جس نے اُن کے بچوں کو بچپن سے غیرت سکھائی تھی۔
ہاں، وہ تو ہے۔
سالہ کتے کی موت مرے گا۔۔۔

+++++++++

ارباز جب کمرے میں داخل ہوا، تو ہنزہ بیڈ پر بیٹھی، ایک سائڈ پر سمٹی ہوئی، موبائل پر کوئی ہلکی پھلکی رومانوی فلم دیکھ رہی تھی۔
گڑیا
ارباز اُس کے پاس آکر بیٹھ گیا، آواز میں نرمی اور لہجے میں تھوڑا سا وہ پیار جسے کبھی بھی مکمل الفاظ نہیں ملے تھے۔
میڈیسن کا وقت ہو گیا ہے…
تم وقت پر دوا کیوں نہیں لیتی؟

ہنزہ نے موبائل کا والیم کم کیا۔ پلکیں گرا کر آہستہ سے کہا
میں دوا کھا کھا کر تھک گئی ہوں، بھائی۔۔۔۔
یہ جملہ…
وہی جملہ تھا، جو ہر روز، ہر دوا پر، ہر سیرپ کے بعد، وہ سنے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔

اور ہر بار یہ جملہ سن کر، وہ مسکرا تو دیتا…
لیکن دل سے کچھ اور ہی ٹوٹتا تھا۔
جلدی ٹھیک ہونا ہے تو دوا تو کھانی پڑے گی نا…
وہ دھیرے سے بولا، جیسے ایک بچی کو منایا جا رہا ہو۔

اُسی لمحے، ہنزہ کے فون کی اسکرین جگمگائی۔

“Emuu Calling”

اسکرین پر لکھا نام ارباز نے دیکھا، بھنویں اُچکیں۔
یہ ایمو کون ہے؟
آواز میں ہلکا سا تجسس تھا

دوست ہے میری، بھائی۔۔۔۔
ہنزہ نے لاپروائی سے کہتے ہوئے کال اٹھا لی۔

ہاں بولو، اِملی۔۔۔
ارباز کے لبوں پر ایک چھوٹی سی مسکراہٹ آگئی۔
ایک دوست کے کتنے نام ۔۔۔
وہ خاموشی سے دوا نکالنے لگا،
اور اُدھر کال پر حال احوال کے بعد وہی موضوع چِھڑ گیا…
جس سے پورا ملک زخم کھا رہا تھا—ریپر۔۔۔
ہاں، صحیح کہہ رہی تُو…
قبر میں کیڑے پڑیں گے اُس ریپر کو۔
ہنزہ  نے دانت پیس کر کہا۔
ارباز نے دوا اُس کے ہاتھ پر رکھی—
ہنزہ نے اُسے گھور کر دیکھا،
پھر دانت بھینچ کر دوا نگل گئی۔
ارباز نے فوراً اُس کی طرف پانی بڑھایا،
ہنزہ نے پانی پی کر گہری سانس لی،
پھر دوبارہ موبائل کان سے لگایا
ہاں، منحوس ہے ریپر… اور بددعائیں میری لسٹ میں صرف اُسی کے لیے محفوظ ہیں۔
پھر ارباز اٹھا اور خاموشی سے روم سے نکل گیا اور ہنزہ کال پر مصروف رہی۔۔۔

++++++++++++++

مایرا وہیں کھڑی رہی۔
امن تو آگے بڑھ چکا تھا، لیکن اس کے ایک جملے نے جیسے مایرا کے اندر بہت کچھ بدل دیا تھا۔
اچھی پولیس آفیسر ہیں آپ۔۔۔۔
کچھ الفاظ بڑے عام ہوتے ہیں، مگر جب صحیح وقت پر صحیح انسان سے نکلیں—تو روح پر مہریں لگا دیتے ہیں۔
مایرا نے پلکیں جھپکیں، ایک چھوٹا سا مسکراہٹ بھرا سانس اندر کھینچا، جیسے کسی نے آسمان سے دل پر توفیق کا ہاتھ رکھ دیا ہو۔
وہ پل مختصر تھا، مگر گہرا۔
ایک لمحے میں مایرا نے فیصلہ کر لیا تھا — وہ اس مشن کا حصہ بنے گی، چاہے وردی پہنے یا بغیر وردی۔
وہ اُس انسان کو محفوظ رکھے گی، جو سچائی کے لیے کھڑا ہوا تھا۔

+++++++++++

امن گاڑی میں بیٹھا، تو سب سے پہلا چہرہ جو اسے اندر ملا، وہ تھا رشید صاحب کا۔
اسلام علیکم امن صاحب، وہ بولے،
آپ فکر نہ کریں، اب ہم ہیں آپ کے ساتھ۔۔۔

امن نے نظریں اٹھا کر ان کا چہرہ دیکھا۔
بوڑھی آنکھوں میں خلوص تھا، وردی کے اندر سے ضمیر کی آواز بول رہی تھی۔
وعلیکم سلام۔ شکر ہے کوئی تو ہے جو دل سے ڈیوٹی دے رہا ہے۔

رشید صاحب نے ہلکی مسکراہٹ دی،
ہمارے پاس ایمان کم ہو سکتا ہے، بیٹا، مگر ریپر جیسے لوگ ہمیں بزدل نہیں بنا سکتے۔۔۔۔
گاڑی آہستہ آہستہ تھانے کے گیٹ سے نکل گئی،

+++++++++++

اسی وقت کہیں اور، ایک پرانی سی عمارت کے بیسمنٹ میں، ایک شخص اندھیرے میں بیٹھا تھا۔
دیوار پر لٹکی ایک اسکرین پر امن کی رہائی کی ویڈیو چل رہی تھی۔
ریپر کرسی پر بیٹھا، انگلی سے اسکرین پر آہستہ آہستہ چہرہ رگڑ رہا تھا۔
ایک سرد، بے رنگ ہنسی اس کے ہونٹوں پر ابھری۔
تم آزاد ہو گئے؟ اب کھیل مزید دلچسپ ہوگا۔۔۔
پھر اُس نے میز پر رکھا ریوالور آہستہ سے گھمایا۔
امن ، تمہیں جینا ہے؟ تو مرنا سیکھو۔۔۔۔

+++++++++++

امن گھر آیا
دروازہ کھلا تو جیسے سانسیں واپس آئیں۔
گھر کے در و دیوار نے بھی جیسے سکون کا سانس لیا ہو،
اانیسہ بیگم جو جانے کب سے نم آنکھوں میں دعائیں سجائے بیٹھی تھیں،
بےاختیار اٹھیں، اور امن کو خود میں چھپا لیا۔

السلام علیکم دادی، کیسی ہیں آپ؟
امن کی آواز میں وہ نرمی تھی، جو صرف اپنوں کے لیے محفوظ رکھی جاتی تھی

لیکن جواب میں الفاظ نہیں، آنسو نکلے۔
وہ آنسو، جو جیل کے ہر دن، ہر لمحے جمع ہوئے تھے
آج بہہ نکلے تھے، امن کو دیکھ کر، چھو کر، محسوس کر کے۔

رو کیوں رہی ہیں، دادی؟ دیکھیں، میں صحیح سلامت آ گیا ہوں۔
انیسہ بیگم نے اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا، تبھی پیچھے سے چھوٹی سی آواز ابھری
پر بھائی، ریپر کا کیا؟ وہ آپ کو صحیح سلامت رہنے نہیں دے گا۔
امن نے سر گھمایا، اور امل کو دیکھا، آنکھیں نم، ہونٹ کانپتے ہوئے، اور لہجے میں خوف،
امن نے گہری سانس لی، پیار سے نرمی سے امل کی طرف دیکھا
جب تک میرا اللہ میرے ساتھ ہے، کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
اُس کے لہجے میں یقین تھا
دادی، سنبھالیں خود کو، امن نے نرمی سے کہا۔

اتنے میں افتخار صاحب جو پورے وقت گہری سوچ میں تھے، آگے بڑھے۔
پولیس نے تو سیکیورٹی دی ہے، لیکن اب ہم اور لوگوں سے بھی بات کرے گے ۔ افتخار ابھی زندہ ہے، اور جب تک ہم ہیں ، کوئی میرے پوتے کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔
یہ کہتے ہوئے وہ کال ملاتے، باہر نکل گئے۔

ان کے جاتے ہی امل امن کے قریب آئی۔
کیسے ہو بھائی؟
امن نے بازو کھولا، اور وہ فوراً اس سے لپٹ گئی—
جیسے کسی ڈوبتی ناؤ کو کنارے کا سہارا مل گیا ہو۔
بھائی، میں نے آپ کو بہت یاد کیا، آپ مجھ سے مل کر بھی نہیں گئے تھے، اور اگر آپ کو کچھ ہو جاتا، تو میرا کیا ہوتا؟
امن نے کچھ نہیں کہا۔ صرف ہاتھ سر پر رکھا،
تبھی دروازے پر آہٹ ہوئی۔
نہات داخل ہوا، آج اس کا حلیہ باقی روز مرہ کے کاموں سے مختلف تھا۔ سیاہ چمڑے کی جیکٹ اس کے چوڑے شانے پر ڈھلکی ہوئی تھی، اندر سے گہرے رنگ کی سیاہ شرٹ نظر آرہی تھی اُس کے ساتھ میں کالی پینٹ اور کمر پر بندھی باریک سیاہ رنگ کی بیلٹ جیسے آج وہ عام دنوں کا نہات نہیں بلکہ بالکل نیا روپ لے کر آیا ہو۔
کیسے ہو بھائی؟
وہ اندر آتے ہی امن سے مخاطب ہوا

امن نے اسے دیکھا، اور آنکھوں میں وہ مسکراہٹ چمکی
یہ کون پوچھ رہا ہے؟ نومی یا نہات؟
نہات ہنس دیا، وہی پرانی شوخی۔
یہ تمہارا وہی پرانا دوست نومان پوچھ رہا ہے، یاد تو ہے نہ وہ تمہیں ۔

امن مُسکرا دیا تُم نہیں سدھر سکتے….

نہات نے شوخی سے آنکھ دبائی
میں سدھر گیا، تو تمہیں تنگ کون کرے گا؟

امل جو اب تک امن کے ساتھ لپٹی ہوئی رو رہی تھی، فوراً پیچھے ہوئی اور تیزی سے بولی
میں کروں گی تنگ!

نہات فوراً بول پڑا
پہلے تم بلیوں کی طرح رونا تو بند کر دو!

امل نے آنکھیں پھیلا کر اُسے دیکھا،
بلیوں کی طرح؟ بھائی میں بلیوں کی طرح رو رہی ہوں ؟ یہ بلیاں کیسے روتی ہیں ؟ کیا میری طرح؟ امل انے آنسو صاف کیے امن سے پوچھا

امن اور نہات دونوں بے ساختہ ہنس دیے۔

نہات نے فوراً موقع پر وار کیا
ہاں بالکل تمہاری ہی طرح! پہلے آنکھیں پھیلتی ہیں، پھر ناک سُرخ ہو جاتی ہے… اور پھر وہ مخصوص آواز… ‘بھائییییی’!
اس نے امل کی نقل اتارتے ہوئے آخری لفظ لمبا کھینچا۔

امن نے قہقہہ لگایا اور ہاتھ اٹھا کر کہا
بس بس، نہات! اگر تم تھوڑی دیر اور بولے نا تو امل تمہیں زندہ چبا جائے گی۔

امل نے ناک چڑھائی، ہاتھ سینے پر باندھے اور پورے غرور سے کہا
ہاں! اور میں چبا بھی ایسے جاؤں گی جیسے چیونگم… پھر نہ اُگلوں گی، نہ تھکوں گی!

نہات نے ہنستے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں کو لگا لیے،
ارے رے! اب تو لگتا ہے میری آخری رسومات بھی تم ہی ادا کرو گی، اور وہ بھی بغیر افسوس کے!

امل نے گردن اکڑاتے ہوئے کہا،
افسوس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا… آپکو مارنا میری خدمت میں شامل ہوگا!

امن دونوں کی نوک جھونک دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
نہات نے فوراً جیب سے اپنا موبائل نکالا،
ایک منٹ! یہ ساری باتیں ریکارڈ کر لیتا ہوں۔ کل اگر میں واقعی غائب ہو گیا تو دنیا کو پتہ ہو—قاتلہ کون تھی!

امل نے پلکیں جھپکائیں اور معصومیت سے کہا
ریکارڈ کر لیں… بلکہ ایڈٹ بھی کر لیں، بیک گراؤنڈ میں وہ سنسنی خیز میوزک بھی لگا دیئے۔ تاکہ جب میں سزا پاؤں، پوری دنیا کہے: واہ! کیا اسٹائل ہے مجرم کا!

امن اب کھل کر ہنس پڑا،
تم دونوں اگر کبھی تھانے کے باہر جھگڑو نا تو لوگ تماشا سمجھ کر ٹکٹ لگا کے دیکھیں گے۔

نہات نے فخریہ انداز میں کہا،
کم از کم فلمی مکالمے تو ہمارے پاس ہیں۔ اور ہاں، ہیرو بھی، ولن بھی، اور… قاتلہ بھی!

امل نے تالی بجائی،
بالکل! مکمل پیکیج ہیں ہم۔

بس کر نومی، تو آگیا ہے تو رات کا کھانا یہاں کھا کر جانا۔
انیسہ بیگم نے محبت بھری خفگی سے کہا، جیسے کوئی روز کا معمول ہو۔

نہات نے فوراً ہاتھ جوڑتے ہوئے شوخ لہجے میں جواب دیا
آپ کا حکم سر آنکھوں پر، دادی… لیکن ایک عرض ہے—میں نومی نہیں، نومان ہوں!

انیسہ بیگم نے آنکھیں گھما کر ناک چڑھائی،
اے چپ رہ! میرے سامنے یہ ناموں کے ڈرامے نہ کیا کر، آمنوا کے سامنے ہی کر…

نہات نے فوراً دونوں ہاتھ جوڑ کر معصومیت سے کہا،
بس دادی! میری پہچان تو اب آپ کے جذبات سے جڑی ہے، چاہے نومی کہیں یا نون، میں حاضر ہوں۔

امل ہنسی
نون؟ واہ واہ! اب خود کو کشش ثقل سمجھ رہے ہیں، جو ہر طرف کھنچاؤ ڈالے!

نہات نے فوراً لقمہ دیا،
کشش تو ہے… پر عقل کی نہیں، خودنمائی کی!

سب ایک لمحے کے لیے ہنس پڑے۔
اچھا نومی تُم آرام سے بیٹھو میں فریش ہو کر آیا امن کہتا اپنے روم کی طرف چل دیا۔۔۔

ہم بھی دیکھتے ہیں کچن میں کیا پک رہا ہے۔
انیسہ بیگم نے اپنی چادر سمیٹتے ہوئے کہا اور آہستہ آہستہ کچن کی طرف قدم بڑھا دیے۔

اور بتاؤ، بلی جیسی آنکھوں والی کیسی ہے؟
نہات، صوفے پر بیٹھتے ہوئے، امل سے مخاطب ہوا۔

آپ کو اتنی دیر بعد خیال آیا کہ امل کا حال بھی پوچھنا ہے؟
امل نے ذرا طنزیہ لہجے میں جواب دیا۔

ہاں، اب کیا کریں، بھائی تو گئے… تم سے ہی کام چلانا پڑے گا جب تک وہ واپس نہیں آتے، نہات نے مسکراتے ہوئے شانے اُچکائے۔

امل نے ناک سکیڑ کر کہا،
ہنہ! میں ہی ملتی ہوں آپ کو پاگل بنانے کے لیے؟
پھر اٹھ کر خفگی سے بولی،
اکیلے بیٹھیں رہے … میں جا رہی ہوں، ہنہ!
وہ ناک چڑھاتی ہوئی صوفے سے اٹھی اور جانے لگی

نہات نے پیچھے سے آواز دی،
ارے بلی جیسی آنکھوں والی، اتنا غصہ ٹھیک نہیں ہوتا… کہیں ریپر دیکھ لے تو ڈر جائے گا!

امل نے مڑ کر گھورا،
اُس منحوس کا نام بھی مت لیں۔۔۔ جاہل، خبیث کہیں کا!
وہ خفگی سے کہتی، تن فن کرتی تیزی سے پلٹی اور پیر پٹختی ہوئی کمرے میں گھس گئی۔

++++++++++++

اگلی صبح،
امن اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔
صبح کی ہلکی نیلی روشنی میں پورا منظر جیسے خاموش دعا کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ باغ کے پتے اوس سے بھیگے ہوئے تھے، اور آسمان پر بادل کسی ان کہی کہانی کے صفحے جیسے سجے تھے۔

اس کا چہرہ ہمیشہ کی طرح پُرسکون تھا۔ نہ کوئی گھبراہٹ، نہ کسی اندیشے کا شائبہ۔ جیسے وہ ہر لمحے کو ایک یقین کے ساتھ جیتا ہو — وہ یقین جو صرف ان کو حاصل ہوتا ہے جو اللہ پر توکل رکھتے ہیں۔

اسی وقت دروازہ کھٹکا۔
دروازہ کھلا، اور ملازمہ اندر آئی:
“ناشتے کے لیے آجائیے، سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔”

امن نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا:
“میں آ رہا ہوں۔”

ملازمہ نے ادب سے سر جھکایا اور دروازہ بند کر کے چلی گئی۔

امن آہستگی سے پلٹا۔ اُس وقت اُس نے ہلکی سی سفید شلوار قمیض پہن رکھی تھی، جس کی سادگی اس کی شخصیت کی گہرائی کو اور نمایاں کر رہی تھی۔ قمیض کے کالر پر باریک کڑھائی تھی اور ہاتھوں میں بندھی گھڑی، اس کا پورا انداز ایسے لگ رہا تھا جیسے سکون خود اس کے وجود میں ڈھل گیا ہو۔

+++++++++++

یُسریٰ دروازے کی چوکھٹ سے ٹیک لگائے کھڑی تھی۔ دھوپ اندر آ رہی تھی، مگر وہ… جیسے سورج کو آنکھیں دکھا رہی ہو۔
دادو چولہے پر جھکی ہوئی تھیں، ہلکے سے پتیلے کو ہلا رہی تھیں، جیسے یُسریٰ کے اندر ابلتے سوالوں کو ہلا رہی ہوں۔

کوئی کام ڈھونڈا یا نہیں؟
آواز نرم تھی، مگر سوال سخت۔

نہیں دادو…
چولہے کی آنچ جیسے تیز ہو گئی ہو، یا شاید دادو کی نظروں کی۔

میں بتا رہی ہوں یُسریٰ…
تم مجھے کوئی حرام پیسے لا کر نہ دینا۔ نہ میرے ہاتھ میں رکھنا، نہ میرے نام پر خرچ کرنا۔
دادو کا لہجہ وہی تھا… سخت، کڑک، اور پتھر جیسا۔

یُسریٰ نے پلکیں جھپکیں، جیسے وہ لفظوں کا زہر نگل گئی ہو۔
دادو، میں جا رہی ہوں ریسٹورنٹس میں… ابھی جاتی ہوں سکینہ کے پاس۔ وہ کوئی اور حویلی بتا دے گی، چلی جاؤں گی وہاں بھی…..

خاموشی کا ایک لمحہ ہوا…
پھر دادو کی نظریں اُس کے چہرے پر جم گئیں۔
کیا ہوا؟
اداس لگ رہی ہو۔

یُسریٰ نے نظریں چرائیں،
ہاں… اداس ہوں۔

کیوں؟
جواب وہی تھا… جس کے دادو کو اندازے تھے، پر سننا نہیں چاہتی تھیں۔
…اُس کی فکر ہے مجھے۔

دادو کا دل جیسے ایک لمحے کو دھڑکنا بھول گیا۔
پھر سختی کے پردے میں لپٹی ہوئی آواز آئی
اُٹھو۔ ابھی جاو سکینہ کے پاس۔
چلو، نکلو یہاں سے۔
اس گھر میں بیٹھے بیٹھے تمہارا دماغ دوبارہ خراب ہو چکا ہے۔
باہر نکلو، چلو….

یُسریٰ نے نم آنکھوں سے دیکھا۔
کیا ہے دادی؟
کبھی تو خوش ہو جایا کریں مجھ سے….

دادو نے چہرہ موڑ لیا… شاید وہ کمزور لمحہ دیکھ لیا تھا، جو یُسریٰ نے نہ چھپایا، نہ بیان کیا۔
ہاں… خوش ہوں گی۔
جس دن تم شادی کرو گی۔

یُسریٰ کا دل جیسے اندر سے چرچرا کر رہ گیا۔
لبوں پر خفگی کا گہرا سایہ اُتر آیا۔
باہر ہی جا رہی ہوں…

وہ منہ پھیر کر کمرے کی طرف چلی گئی،
لیکن کمرے میں پہنچ کر، اُس نے دروازہ بند نہیں کیا…
شاید دل کے بند دروازوں کے شور کو کوئی سن لے۔

اور باہر…
دادو چپ چاپ ہانڈی چلاتی رہیں۔
مگر اُن کی آنکھوں میں نمی اُتر چکی تھی،

+++++++++++

ڈائنگ ٹیبل پر سب بیٹھے تھے۔
انیسہ بیگم خاموشی سے چائے ڈال رہی تھیں،
امل نے توس میں مکھن لگاتے ہوئے ایک نظر امن پر ڈالی،
اور نہات…
جو کل رات سے یہی رکا ہوا تھا،
اب ناشتہ ایسے کر رہا تھا جیسے یہی اُس کا اصل گھر ہو۔

کیا کرنا ہے، بھائی؟
نہات نے چائے کی چُسکی لیتے ہوئے ہلکے انداز میں پوچھا،
لیکن اُس کے سوال کے نیچے کئی تہیں تھیں۔

امن نے دھیما سا سانس لیا،
پہلے خود کو نارمل کرنا ہے… پھر سوچوں گا، کیا کرنا ہے۔

نہات نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے سر ہلایا۔

نارمل…؟ تم؟
بھائی، تم تو اب فلمی ولن کے ہٹ لسٹ میں ہو۔ نارمل کیسے رہو گے؟

امل نے تنبیہی نظروں سے نہات کو گھورا،
بھائی، مذاق کا وقت نہیں…..

نہات فوراً سیدھا ہو گیا،

امن، بیٹا…
انیسہ بیگم نے نرم لہجے میں کہنا شروع کیا،
تم چاہو تو کچھ دن باہر چلے جاؤ، شہر سے دور۔ کِسی جگہ محفوظ ہے….

امن نے سر اٹھا کر انیسہ بیگم کی طرف دیکھا،
دادی، جب سب پیچھے ہٹ جاتے ہیں،
تب کوئی ایک کو کھڑا ہونا پڑتا ہے…
میں وہ ایک بننا چاہتا ہوں…..

نہات نے آہستہ سے کہا،
پھر بھی بھائی، ریپر اب تمہیں ایسے نہیں چھوڑے گا

امل نے بے اختیار نفی میں سر ہلایا،
وہ… وہ بس ایک خوف ہے، اور کچھ نہیں….

نہیں امل، وہ ایک انسان ہے…
اور اُس جیسے لوگ انسانوں سے زیادہ کہانیوں کا انجام ہوتے ہیں….
امن کا لہجہ عجیب حد تک پُرسکون تھا۔

تو پھر کیا ہوگا؟
نہات نے پوچھا۔

امن نے کپ میں چائے کا آخری گھونٹ لیا،
پھر ایک فیصلہ زدہ سکون سے کہا
اب جو ہوگا… وہ رب کے اذن سے ہوگا۔
اور میں… اپنے رب پہ ویسا ہی یقین رکھتا ہوں،
جیسا روشنی، اندھیرے کے بعد آنے پر رکھتی ہے….

امل کی آنکھوں میں کچھ لرزا،
انیسہ بیگم نے خاموشی سے دُعاؤں کے تار چھیڑے،

افتخارِ صاحب میز کی طرف بڑھے
امن تُمہاری سکیورٹی کا انتظام ہوگیا ہے۔۔۔
انھوں نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے کہا،
میری ٹیم میں سے دو قابلِ اعتماد لوگ تمہارے ساتھ ہوں گے، ہر وقت… سائے کی طرح جب تک یہ سب معاملہ ختم نہیں ہو جاتا….

امن نے مختصر سا اثبات میں سر ہلایا۔
دادا، آپ کو جیسا ٹھیک لگے، ویسا کریں
پھر اُس نے رخ نہات کی طرف موڑا،
نہات، جلسے کی تیاری كرو۔

نہات نے چونک کر نگاہ اٹھائی،
بھائی…؟ جلسہ؟ کیوں؟ یہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ جلسے میں تو ریپر کا خطرہ اور بھی بڑھ جائے گا۔

امن کا چہرہ سخت ہوا، لہجہ نرمی سے عاری۔
بس، یہ جلسہ ضروری ہے۔
الیکشن سے پہلے ۔۔۔ میں عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر میں اُن کا لیڈر ہوں… تو میں کمزور نہیں۔ جیتنا کہا ہے اتنا کرو۔

امل نے بےچینی سے بات کاٹی،
بھائی، نہات بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ یہ بہت رسکی ہے… ریپر کی دھمکیاں، وہ چپ نہیں بیٹھے گا۔

امن نے امل کی طرف نرمی سے دیکھا،
یہ جلسہ ضروری ہے، امل۔
ورنہ میرے لیے تم سب سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
گھبرانے کی ضرورت نہیں… بس تم سب میرے ساتھ رہو۔
تمہارا ساتھ ہی میری طاقت ہے۔

امل نے فوراً ہاں میں سر ہلایا،
میں آپ کے ساتھ ہوں، بھائی… ہمیشہ۔

امن نے مسکرا کر پوچھا،
یونی نہیں جانا؟

امل نے سر جھکا لیا،
نہیں، ابھی تو آپ آئے ہیں…

امن نے شرارت سے ابرو اٹھائے،
تم پہلے بھی چھٹیاں ہی کر رہی تھیں نا؟

امل شرمندہ سی مسکرائی،
ہاں بھائی…

اب میں آ گیا ہوں نا؟
چلو شاباش… یونی جاؤ۔ اپنی اسٹڈیز پر دھیان دو۔

امل نے آہستہ سے ہاں کہا،
اچھا بھائی… چلی جاتی ہوں۔

امن نے نرمی سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا،

اور سب کچھ جیسے لمحہ بھر کے لیے پرسکون ہو گیا تھا۔

++++++++++++

یسریٰ نے جب سکینہ کو دیکھا تو فوراً سمجھ گئی کہ وہ کسی الجھن میں ہے۔
چہرے پر تھکن، آنکھوں میں نمی، اور ماتھے پر گہری سوچوں کی شکنیں صاف بتا رہی تھیں کہ وہ کسی بڑی پریشانی سے گزر رہی ہے۔
یسریٰ نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما۔

سکینہ… کیا ہوا؟ ایسے تو تم کبھی نہیں لگتی تھیں۔ بتاؤ نا، شاید میں کچھ مدد کر سکوں۔

سکینہ نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں، جیسے خود کو ہمت دے رہی ہو۔ پھر دھیرے سے بولی

یار… ایم کیٹ (میڈیکل کالج ایڈمیشن ٹیسٹ) تو کلیئر ہو گیا… مجھے خود یقین نہیں آ رہا تھا۔
لیکن اب اصل مسئلہ سامنے آ گیا ہے۔
یونیورسٹی کی فیس… کہاں سے لاؤں؟
ایم کیٹ کی فیس بھی مشکل سے دی تھی، امی نے زیور گروی رکھوایا تھا۔
اب آگے کا سوچ سوچ کر دماغ سن ہو رہا ہے۔
سب کہتے تھے بس ٹیسٹ کلیئر کر لو، آگے کا خود ہو جائے گا…
مگر آگے کچھ بھی ‘خود سے’ نہیں ہو رہا۔

یسریٰ کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔
وہ جانتی تھی سکینہ کا خواب ڈاکٹر بننے کا ہے — اور وہ خواب اب فیس کی رقم کے نیچے دبتا جا رہا تھا۔

کتنی فیس ہے؟

پہلا سمیسٹر… تقریباً ڈیڑھ لاکھ۔

تم یونی فارم تیار رکھو… تمہاری فیس کا بندوبست ہو جائے گا۔

سکینہ نے چونک کر کہا
کیا؟ مگر کیسے؟ یسریٰ … تم—

یسریٰ نے نرمی سے اسے روک دیا۔ اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
تُم میرے ساتھ گھر چلو، میں تمہیں دیتی ہوں پیسے۔

سکینہ نے حیرت سے اسے دیکھا، جیسے آنکھوں پر یقین نہ آ رہا ہو۔
لیکن تُمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟

یسریٰ نے اس کی بات کا سیدھا جواب دینے کے بجائے، پرسکون لہجے میں بس اتنا کہا:
چلو تو سہی، گھر چل کر سب بتاتی ہوں۔

++++++++++

مایرا نے آہستہ سے دیوار سے ٹیک لگائی،
پیشانی پر شکن، آنکھوں میں بے بسی کا عکس۔

یار… میں امن کی حفاظت کرنا چاہتی تھی…
پر یہ ظفر صاحب… انہوں نے صاف منع کر دیا۔
سانس بھاری ہوئی،
اب کیا کروں میں؟
نہ اُس کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہوں،
اور اگر کھڑی ہو گئی…
تو میرا کیریئر برباد ہو جائے گا۔

سامنے کی دیوار خاموش تھی،
مگر مایرا کے دل میں طوفان برپا تھا۔
اس کا حلف… اس کی وردی…
اور اُس شخص کی آنکھیں،
جو حق کے لیے کھڑا تھا — امن۔

امن کی فکر ہے؟ یا… اپنے کیریئر کی؟ دعا نے نرمی سے کہا

مایرا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف نظریں جھکا لیں۔

مایرا، زندگی میں کبھی کبھی ایسے موڑ آتے ہیں،
جہاں فیصلہ صرف قانون یا اصولوں سے نہیں کیا جاتا…
بلکہ دل، ضمیر، اور وقت کی پکار سے کیا جاتا ہے۔

مایرا نے تلخی سے کہا
تمہیں کیا لگتا ہے؟ میں امن کو خطرے میں ڈال دوں گی؟ نہیں! میں اسے بچانا چاہتی ہوں، لیکن اگر کھل کر اُس کا ساتھ دیا… تو ظفر مجھے ٹرانسفر کر دے گا یا نوکری سے نکال دے گا۔

دعا نے ایک لمحہ سوچا، پھر آہستگی سے بولی
تو پھر سامنے مت آؤ…

مایرا نے چونک کر دیکھا۔

سامنے مت آؤ… لیکن پردے کے پیچھے سب کر جاؤ۔
خفیہ محافظ بن جاؤ اُس کی، بغیر یونیفارم کے،
بغیر وردی کے، بغیر حکم کے۔
نہ کوئی فائل، نہ رپورٹ…
بس تم، تمہاری نیت، اور تمہارا فرض۔
جو لوگ سچ کے لیے لڑتے ہیں،
انہیں کبھی کبھی تنہا نہیں، خاموشی سے تحفظ دیا جاتا ہے۔ دعا نے نرمی سے سمجھائے

مایرا کی سانس رک سی گئی،
دل میں جیسے کوئی بتی جل گئی ہو۔

مطلب… ایک سائے کی طرح اُس کے ساتھ رہوں؟

دعا نے مسکرا کر کہا
ہاں، اگر تم واقعی اُس کی حفاظت چاہتی ہو…
تو دنیا کو بتائے بغیر، اُس کی ڈھال بن جاؤ۔
خدا کے لیے، سچ کے لیے… اور شاید، اپنے دل کے لیے بھی۔

مایرا نے گہری سانس لی۔ اب فیصلہ واضح تھا۔
مایرا نے پُرعزم لہجے میں کہا
ٹھیک ہے… وہ سچ بولے گا…
اور میں… خاموشی سے اس کی حفاظت کروں گی۔

دعا نے اُسے دیکھ کر اثبات میں سر ہلایا،

++++++++++++

سکینہ اب یُسرٰی کے گھر کے دروازے پر کھڑی تھی۔
لمبے برگد کے درخت کی چھاؤں میں بنا ہوا وہ پُرسکون اور شاندار گھر… جس کے سامنے کا چھوٹا سا باغ اپنی ہریالی سے جیسے مہمانوں کا استقبال کر رہا تھا۔

مین گیٹ پر گولڈن پلیٹ لگی تھی، جس پر گھر نمبر 49-B نہایت سلیقے سے کندہ تھا۔
جیسے ہی لکڑی کا مضبوط، پالش شدہ دروازہ کھلا، ایک نئی دنیا سامنے آ گئی۔

اندر ایک کشادہ سا لان تھا — تازہ کٹی گھاس، ایک طرف سنگِ مرمر کی چھوٹی سی فوارہ نما آرائش، اور دائیں طرف سفید رنگ کا پورچ، جس کے نیچے کھڑی نیلی سیڈان کار سورج کی روشنی میں چمک رہی تھی۔

لان سے گزر کر جیسے ہی سکینہ اندر آئی، مرکزی ہال کی ٹھنڈک نے اس کا استقبال کیا۔
سنگِ مرمر کا چمکتا فرش، چھت سے لٹکتی سنہری فانوس، دیواروں پر جدید لیکن سادہ فریمز، اور کونے میں رکھی سفید صوفہ سیٹ — ہر چیز سے خوش ذوقی ٹپک رہی تھی۔

سکینہ ابھی تک اس وسیع و عریض، خوبصورت گھر کی چھت، فانوس، اور دیواروں کو حیرت سے دیکھ رہی تھی کہ اچانک اُس کے لبوں سے بےساختہ سوال نکل گیا

“یہ… یہ تمہارا گھر ہے؟”

سکینہ نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں، جیسے یقین نہ آ رہا ہو۔

یُسرٰی نے پلٹ کر اُسے دیکھا۔ آنکھوں میں ایک لمحے کو وہ پرانی سی نمی چمکی، جسے وقت کے ساتھ اُس نے چھپانا سیکھ لیا تھا۔ مسکرا کر بولی،

“یار، تم پھر بھول گئی؟ یہ میرے ماں باپ کا گھر ہے… اور میرے ماں باپ کی تو ڈیتھ ہو چکی ہے۔”

سکینہ نے پیشانی پر ہاتھ مارا جیسے اپنی بھول پر شرمندہ ہو۔
“اوہ ہاں… سوری، میں بھول گئی تھی۔”

آواز میں شرمندگی تھی، آنکھوں میں کچھ ندامت۔

یُسرٰی نے گردن ہلکی سی جنبش دی،
“کوئی بات نہیں… لوگ اکثر بھول جاتے ہیں، میں خود بھی کبھی کبھی اُن کی آوازیں سننے لگتی ہوں، جیسے وہ اب بھی اِسی گھر میں ہوں۔”

ایک لمحے کی خاموشی چھا گئی — جیسے دیواروں نے بھی ماں باپ کا ذکر سن کر سانس روک لی ہو۔

یُسرٰی نے سکینہ کی طرف دیکھا، نرمی سے بولی:
“اچھا، تم یوں کرو… یہی بیٹھو، میں ابھی آتی ہوں۔”

وہ اُٹھی، دائیں طرف والے کمرے کی طرف بڑھ گئی، اور جاتے جاتے ہاتھ سے پردہ ذرا سا سرکایا۔

دروازہ ہولے سے بند ہوا اور پیچھے رہ گئی سکینہ — جو اب اُس خوبصورت گھر کے بیچوں بیچ بیٹھی، صرف دیواروں کو نہیں، ایک پورے ماضی کو دیکھ رہی تھی۔

+++++++++++++

جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *