me mera dil or tm

Mai Mera dil or tum Episode 9 written by siddiqui

میں میرا دل اور تُم ( از قلم صدیقی )

باب سوم: جال ، پھندا

قسط نمبر ۹

نہات ہانپتا ہوا اندر آیا، ہاتھ میں موبائل فون اور چہرے پر بے یقینی تھی
بھائی! بھائی جلدی یہ دیکھو… تمھارے بارے میں بریکنگ نیوز چل رہی ہے۔۔۔۔

امن نے چونک کر سر اٹھایا۔
کیا مطلب؟

میں مذاق نہیں کر رہا۔۔
نہات نے یوٹیوب پر فوراََ نیوز لگائی
اسکرین پر ریڈ بینر کے ساتھ ایک بریکنگ نیوز نمودار ہوئی:
بریکنگ نیوز : کیا امن حنان نفسیاتی مریض ہے؟
ایک خفیہ تھراپی ریکارڈنگ سامنے آئی ہے، جس میں وہ خود تسلیم کرتا ہے کہ اُس کی سوچ حقیقت سے کٹ چکی ہے۔
لیکڈ میڈیکل رپورٹ کے مطابق، امن حنان کو شدید بائی پولر ڈس آرڈر ہے، اور وہ پرتشدد رویہ اختیار کر سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق، ان کا ایک قریبی دوست جبار لاپتہ ہو چکا ہے—کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا کچھ اور؟

اسکرین پر وہی تصویر آتی ہے—امن اور جبار ساتھ بیٹھے، نیچے کیپشن
The first man to question Aman… now vanished.
(پس منظر میں وہ ایڈیٹ شدہ آڈیو کلپ چلی )
میں… حقیقت سے کٹ چکا ہوں… اور اب جو بھی ہوگا… وہ صرف میری مرضی سے ہوگا۔

بھائی، یہ کس نے کیا؟ یہ تمھاری آواز ہے مگر… یہ تم نے کب کہا؟ نہات نے دھیرے سے کہا

امن کی آنکھوں میں ایک لمحے کو سناٹا پھیل گیا۔
چہرہ زرد پڑ گیا، ہونٹ تھرتھرائے
یہ میری آواز ہے… مگر یہ میں نے اس طرح نہیں کہا تھا… یہ… کٹا ہوا ہے…

یہ سب پلانڈ ہے، بھائی۔ کوئی تمھیں برباد کرنا چاہتا ہے۔ نہات نے پریشانی سے کہا۔

امن نے آہستہ سے آنکھیں بند کر لیں۔
اور اُس لمحے، اسے احساس ہوا کہ دشمن گولی سے نہیں، کردار کشی سے مارنا چاہتا ہے۔
ریپر…
اس نے زیرِ لب کہا، جیسے کوئی نام نہیں، قسمت کی سزا لے رہا ہو۔

افتخار صاحب کا لہجہ دہکتا ہوا انگارا بن چکا تھا۔
انھوں نے مٹھیاں بھینچی اور صوفے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
اب یہ کیا تماشہ ہے؟
کمرے کے ایک کونے میں کھڑے ارحم اور ائراہ (سیکیورٹی گارڈز) ابھی تک ساکت کھڑے تھے، جیسے ہوا میں سہمے پتلے۔
امن نے کچھ کہنا چاہا، لیکن افتخار صاحب کا اگلا جملہ بجلی کی طرح گرا
یہ نَفسیاتی بکواس اب چل کیا رہا ہے؟ یہ نیوز والے کس بنیاد پر ایسی گھٹیا باتوں پر یقین کر رہے ہیں؟ اور تم چپ کیوں ہو؟!

امن نے گہرا سانس لیا۔
دادا… مجھے لگتا ہے یہ سب پلانڈ ہے… مجھے کردار سے مارا جا رہا ہے۔

افتخار صاحب نے میز پر زور سے ہاتھ مارا
کون مار رہا ہے؟ کون ہے جو ہمارے دروازے تک آ گیا ہے؟ یہ جبار کون ہے؟ تمھارا کیسا دوست ہے یہ؟ ابھی فون کرو، بلاؤ اُسے۔ سامنے لاؤ اُسے۔۔۔

امن نے دھیرے سے سر ہلایا، جیسے یہ سب پہلے سے جانتا ہو
دادا، جبار… اب شہر میں نہیں ہے۔ وہ کئی ماہ پہلے ملک سے باہر چلا گیا تھا۔ لیکن کسی نے اس کی پرانی تصویر نکال کر لگا دی ہے، اور…

بس کرو۔۔۔ افتخار صاحب نے بات کاٹ دی۔
تم سے کہا تھا سیاست کا راستہ کانٹوں سے بھرا ہوتا ہے… لیکن تم سمجھدار بننے کی بجائے خاموش تماشائی بنے رہے۔ اب تماشا تمھارا بنا ہے۔۔۔۔

امن نے بغیر کچھ کہے، فقط آنکھوں کے ہلکے سے اشارے سے ارحم اور آئرا کو جانے کا کہا۔
وہ دونوں حکم کی پابند مشینوں کی طرح پلٹے اور بنا کچھ بولے  نکل گئے۔
امن نے کرسی پیچھے کی، اٹھ کر سیدھا ہوا ہی تھا کہ…
چھَن…!
ایک لمبا سانس، ایک جھٹکا، اور گرم گرم کافی اس کے سفید کُرتے پر بہہ گئی۔
آہ…
امن نے بمشکل اپنی آواز روکی۔
گرمی سے نہیں — حیرت سے۔
اس کے سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی، جس کی آنکھیں گھبراہٹ سے بھری تھیں۔
سوری، سوری! آئی ایم رئیلی سوری! جلا تو نہیں؟
اس نے جلدی سے کپڑا آگے بڑھایا، جیسے وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔
امن نے ایک نظر اُس لڑکی پر ڈالی۔
شورٹ فراک ، اوپر سفید ایپرن، گردن پر لٹکا دوپٹہ، اور بال ایک ٹائٹ پونی میں بندھے ہوئے تھے۔
آنکھوں میں معصوم گھبراہٹ، یا شاید چالاکی ؟ وہ لمحے میں طے نہیں کر سکا۔ پر وہ اُسے پہلی نظر میں بہت بھولی لگی۔۔۔ جیسے معصوم سی گڑیا ہو۔۔۔

تم… کون ہو؟
امن کی آواز میں حیرت تھی، سردی نہیں۔

میں یسریٰ…
لڑکی نے جھک کر تھوڑا سا سلام کرنے کا انداز بنایا۔

امن نے کچھ سوچا، پھر افتخارِ صاحب کی طرف دیکھا
پہلے تو نہیں دیکھا تمہیں…
نگاہ میں سوال تھا۔ لہجہ ہلکا سا شکی۔

افتخار صاحب نے تھوڑا سا رخ بدلا اور کرسی پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے
ہاں، آج ہی جوائننگ دی ہے اس نے۔ اچھی شیف ہے۔ انیسہ کو پسند آئی، اسی نے رکھ لیا اسے۔

امن نے سر ہلایا جیسے اسے کوئی خاص دلچسپی نہ ہو، بس رسمی سا جملہ کہا
اوہ… ٹھیک ہے۔

اور پھر وہ پلٹ گیا۔ خاموشی سے، بغیر پیچھے دیکھے… اپنے کمرے کی طرف۔

لیکن افتخار صاحب کی نگاہیں اب بھی یسریٰ پر جمی تھیں۔
دیکھ کر کام کیا کرو! اور یہ کافی کس نے بنانے کو کہا تھا تمہیں؟ میں اور امن تو پی چُکے۔۔۔۔
لہجے میں سختی تھی،

یسریٰ نے فوراً نہات کی طرف اشارہ کیا
وہ… یہ ان کے لیے تھا۔۔۔ بیگم صاحبہ نے کہا تھا… کہ جو بھی مہمان آئے، فوراً کافی یا چائے پیش کروں۔ میں… میں تو ویسے بھی نئی ہوں، وہ جمنہ نظر نہیں آئی تو لے آئی خود ہی۔

افتخار صاحب نے ایک لمحہ توقف کیا، پھر صرف اتنا کہا
ٹھیک ہے، جاؤ یہاں سے۔

یسرہ تیزی سے سر ہلاتی ہوئی نکل گئی، مگر افتخار صاحب کی نگاہ دیر تک اُس کے پیچھے دروازے تک جمی رہی۔
اور پھر وہ رخ موڑ کر نہات کی طرف متوجہ ہوئے
جاؤ، اس کے اُس دوست کو ڈھونڈو۔ جبار کو… جو کوئی بھی ہے، جہاں بھی ہے… زمین کھود کر نکالو اُسے۔۔۔

نہات نے ناگواری سے افتخار صاحب کی طرف دیکھا
میں نومی نہیں۔۔۔۔ وہ یہ کہتا غصے میں اٹھا اور امن کے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔

++++++++++++

دادو… دادو، پلیز… ریلیکس کریں۔
اسی لیے تو نہیں بتایا تھا آپ کو…
کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ آپ پریشان ہوں۔

دادو کی نظریں اس پر جم گئیں۔
پریشان؟
کیا تمہیں لگتا ہے، تم جس راستے پر جا رہی ہو، وہ سکون دے گا مجھے؟

یُسرٰی کا لہجہ ضدی تھا، لیکن آنکھیں نم تھیں۔
دادو، میں امن کو کچھ نہیں ہونے دوں گی۔
ریپر اسے مارنا چاہتا ہے نا؟
تو میں کوشش کروں گی…
کہ وہ اُسے نہ مارے… بلکہ… مجھے دے دے۔۔۔

کیااا؟
دادو کی آواز میں صدمہ تھا،
یُسرٰی! وہ کوئی چیز نہیں ہے کہ تم ‘لے لینے’ کی بات کر رہی ہو۔۔۔

یُسرٰی کے چہرے پر ایک عجیب سی سنجیدگی آ گئی،
وہ سنجیدگی جو اندھی محبت کی گہرائی سے جنم لیتی ہے۔
دیکھیں دادو،
ریپر کا مسئلہ امن سے نہیں… سیاست سے ہے۔
وہ سیاستدانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
اگر امن… سیاست چھوڑ دے،
تو وہ شاید بچ جائے…
تب… وہ میرا ہو سکتا ہے۔

کیا؟ یسریٰ نے دماغ میں کیا چل رہا تھا دادو کی سمجھ ایک نہیں آرہا تھا

اگر… امن سب کچھ کھو دے، تو شاید اُسے میری قدر ہو۔ دادو، آپ نے کہا تھا نا…
وہ مجھے کبھی قبول نہیں کرے گا؟
تو اگر میں اُسے مجبور کر دوں…؟
وہ خاموش ہو گئی۔

دادو کی آنکھوں میں اب صرف دو چیزیں تھیں —
دُکھ اور ڈر۔
یُسرٰی…
ان کا لہجہ اب سرگوشی جیسا تھا،
تم اپنی محبت کو بربادی کے راستے پر ڈال رہی ہو…
اور اسے ‘محبت’ سمجھ رہی ہو؟
یہ تو وہ پگلی ضد ہے، جو عشق کا نام لے کر ہلاکت کا دروازہ کھولتی ہے۔

یُسرٰی کچھ نہ بولی۔
لیکن اُس کے دل میں کہیں یہ خیال اب بھی دھڑک رہا تھا
امن میرا ہو… چاہے ٹوٹا ہوا، چاہے مجبور، چاہے تنہا…
بس… میرا ہو۔

یُسرٰی! تم پاگل ہو گئی ہو؟
دادو کی آواز جیسے گونجی نہیں، تھرتھرائی تھی۔

یُسرٰی نے پلکیں جھپکیں،
مجھے پتہ ہے، دادو۔
میں یہ زندگی نہیں جینا چاہتی —
یہ تنگی، یہ کمزوری، یہ محرومیاں۔
ایک بار ریپر کا کام ہو جائے،
تو پھر مجھے کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔بس سکون، بس آسائش… ہمیشہ کے لیے۔

دادو کی آنکھوں میں جیسے آنسو جم گئے ہوں۔
وہ ہلکی آواز میں بولیں
یُسرٰی… تم یہ نہیں کر سکتی۔
تم وہ لڑکی ہو جو رات کو دعاؤں میں رویا کرتی تھی…جو محبت کے لیے لڑتی تھی،
خود کو بیچنے کے لیے نہیں۔

یُسرٰی کی آواز بلند ہو گئی —
تو کیا کروں، دادو؟
ریپر کے ہاتھوں اپنی قبر خود کھودوں؟
مر جاؤں؟
کیا یہی چاہتی ہیں آپ؟
وہ چیخی۔
کمرے کی دیواریں خاموش تھیں،
لیکن دادو کا دل… وہ ٹوٹ گیا تھا۔
پیسے کی ہَوا نے اُس بچی کو لوٹ لیا تھا،
جسے کبھی سچائی کا لمس عزیز تھا۔
یُسرٰی کی آواز اب آہستہ پڑ گئی،
آنسو نہیں تھے،
بس تھکن تھی… اور ایک غیر فطری نرمی
دادو…
اگر آپ چاہتی ہیں کہ میرے ساتھ کچھ برا نہ ہو،
تو پھر آپ کو میرا ساتھ دینا ہوگا۔
جیسے آج سب بتایا ہے…
آگے بھی سب کچھ بتاتی رہوں گی،
بس آپ… میرے ساتھ رہیں۔
پھر اس نے آخری جملہ کہا… وہ جملہ جو خنجر بن کر لگا
ورنہ… آپ جا سکتی ہیں میرے گھر سے۔ لیکن میں کرونگی وہیں جو میرا دل چاہے گا۔۔۔
خاموشی…
دادو کے ہونٹ ہلے نہیں،
پر دل نے بہت کچھ کہا۔
وہ جان گئی تھیں…
یُسرٰی شاید واپس آ جائے…
لیکن اب وہ کبھی پہلی والی یُسرٰی نہیں بنے گی۔

++++++++++++++

کمرے میں دھوپ کی آخری کرنیں دیوار پر پھیلی تھیں۔ وہ بیڈ پر بیٹھا تھا۔
تنہا… تھکا ہوا… اور سوچوں میں گم۔
عصر کی نماز کے بعد جلسہ تھا
اور اب میڈیا… میڈیا دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔
اس نے موبائل کھولا۔
ایک طرف ٹویٹر پر ٹرینڈ تھا
#WeStandWithAman
اور دوسری طرف
#UnstableAman
نیوز ہیڈلائنز چیخ رہی تھیں
کیا ایک ذہنی مریض عوام کا نجات دہندہ بنے گا؟
امن حنان کی مقبولیت — حقیقت یا میڈیا کا فریب؟
امن نے فون سائیڈ پر رکھ دیا، آنکھیں بند کیں اور ایک گہری سانس لی۔
پھر جیسے کچھ سوچ کر فون اٹھایا اور ایک نمبر ڈائل کیا — خفیہ رابطہ۔
مجھے جبار کا پتہ چاہیے… مکمل، درست، ابھی۔

دوسری طرف سے صرف جی سر، تیس منٹ کا جواب آیا۔
امن نے خاموشی سے فون بند کیا۔
کمرے کی دیوار پر نظریں ٹکا دیں —
جہاں مرتضٰی صاحب اور کلثوم بیگم کی فوٹو لگی اُن کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ کھڑا تھا۔۔
کبھی ہاتھ تھام کر چلنا سکھایا تھا… آج تصویروں سے حوصلہ لینا پڑ رہا ہے۔
بالکل 32 منٹ بعد، فون دوبارہ بجا۔
امن نے فوراً اٹھایا۔
جبار  سلیم — لندن، ( Southwark Street) , فلیٹ 7A۔
فون نمبر، آفس کی تفصیلات، سب کچھ میل کر دیا ہے۔

امن نے ایک لفظ کہا
Perfect.

اور اسی لمحے دروازہ کھولا
امن نے دروازے کی طرف دیکھا پھر خفکی سے کہا نہات دروازہ نوک کون کرے گا۔۔۔۔

نہات نہیں نعمان ہوں میں۔۔۔ اُس نے تیواری چڑھی

اب نعمان کس لیے آیا ہے میرے پاس؟” آبرو جُھکا کر پوچھا گیا

کیوں کہ… اس وقت تمھیں ایک دوست کی ضرورت ہے۔۔۔ مُسکرا کے کہا گیا دوست، بھائی، پارٹنر… وہ ایک شخص، سب کچھ تھا اُس کے لیے۔۔۔

امن کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری۔
یہاں آؤ…
اس نے سر ہلکا سا جنبش دے کر کہا۔

نہات اس کے قریب آیا تو امن نے آہستگی سے اپنا فون اُس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔
یہ… جبار کا ایڈریس اور فون نمبر ہے۔
نہات جیسے لمحے بھر کے لیے سانس لینا بھول گیا۔
اس نے حیرت سے فون کو دیکھا، پھر امن کی طرف جیسے وہ اب پہلی بار اُسے جان رہا ہو۔
تمھیں یہ کیسے مل گیا، بھائی؟
میں نے نکلوایا ہے… اب آگے کیا کرنا ہے؟

نہات نے فون کو مضبوطی سے تھاما، پھر کچھ سوچ کر بولا
مجھے لگتا ہے، اس وقت تمھیں… کسی چیز کی ضرورت نہیں۔

ہے نا… تبھی تو مشورہ مان رہا ہوں۔
بتاؤ آگے کیا کروں؟ نرمی سے کہا

نہات نے ایک لمحہ خاموشی میں گزارا، پھر آہستہ سے بولا
کال کرو اُسے, بلاؤ اُسے یہاں۔
اگر وہ آ کر گواہی دے دے…
تو سب سیٹ ہو جائے گا، بھائی۔

امن نے اثبات میں سر ہلایا۔
دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا—
امن اور نہات دونوں نے چونک کر سر گھمایا۔

امل کمرے میں داخل ہوئی، سانسیں تیز، چہرے پر الجھن اور آنکھوں میں سوال،
بھائی… یہ کیا تماشا ہے؟

اس کی آواز تھوڑی کانپتی ہوئی تھی۔
اور… تم نے یہ تھراپی کب لی تھی؟
نہات نے کچھ کہنا چاہا، لیکن امن نے ہاتھ سے روکا۔
پھر آہستہ سے بولا،
امل… وہ تھراپی تو لی تھی، لیکن یہ جو کچھ تم نے سنا ہے… وہ سب ویسا نہیں ہے جیسا دکھایا جا رہا ہے۔
مجھے معلوم ہے، بھائی۔
مجھے پتا ہے تم جھوٹ نہیں بولتے۔
پر یہ سب؟ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے؟
یہ ریپر ؟
ریپر؟… وہ منحوس؟
وہ ایک لمحے کو رکی، سانس کھینچی، پھر دھیرے سے مگر کرب میں ڈوبی آواز میں بولی
میں اُس ریپر کو جان سے مار دوں گی،
میرے بھائی کو سکون سے جینے نہیں دیتا وہ… مانوس، گھٹیا، سایہ سا چمٹ گیا ہے ہماری زندگی سے۔۔۔
اور پھر… ہمیشہ کی طرح…
نہات کی ہنسی غلط وقت پر پھسل گئی۔
ایک چوٹی تو ماری نہیں جاتی ان سے ریپر کو مارے گی۔۔۔۔

امل نے پہلے تو چونک کر نہات کو گھورا، پھر دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر بولی
نہات بھائی یہ کوئی مذاق کا وقت نہیں ہے۔۔۔

نہات ہنستا رہا، جیسے اُس کی ہنسی ہی اس کی ڈھال ہو۔
میں مذاق نہیں کر رہا، امل بی بی۔ میں حقیقت بتا رہا ہوں۔ تم ریپر کو مارنے نکلو گی… اور اگلے لمحے کسی کپڑوں والے برانڈ کے شوروم میں کھڑی ہوگی کہ ‘پہلے یہ فراک لے لوں پھر بدلہ لیتی ہوں۔۔۔۔
امل کی آنکھیں پھیل گئیں۔

امن نے ہنستے ہوئے ہاتھ اٹھایا
بس کرو یار… ورنہ تمھیں امل سے نہیں، مجھ سے مار پڑے گی۔

وہ غصے سے ہاتھوں کی مٹھی بند، اور لبوں پر وہی جملہ جو صرف امل کہہ سکتی تھی — بے ساختہ، بے دھڑک، بے لحاظ
ہاں بھائی… آپ انہیں مارو۔ بدتمیز کہیں کے۔۔۔۔

نہات نے آنکھیں پھیلائیں، جیسے دل پر تیر لگا ہو
ارے! اب میں نے کیا کیا؟ مذاق ہی تو کیا۔۔۔

امل نے انگلی اٹھا کر تنبیہ کی
یہ وہ وقت نہیں ہے مذاق کا، نہات بھائی۔ اگر  پھر سے کوئی ایسی بات کی نا، تو پہلے آپکو ماروں گی، پھر ریپر کی باری آئے گی۔۔۔
امن چپ چاپ دونوں کو دیکھ رہا تھا۔
کچھ لمحے کو جیسے سب کچھ معمول پر آ گیا تھا…
اور ان کی نوک جوکے دروازے کے پیچھے کھڑی لڑکی سن رہی تھی اور پل پل کی خبر ریپر تک پہنچ رہی تھی۔۔۔

++++++++++++

ایک تاریک کمرے میں صرف لیپ ٹاپ کی روشنی تھی،
جس میں یُسرٰی اور دادی کا منظر رواں تھا —
کیمرہ چھت کے پنکھے کے پیچھے لگا تھا،
اور آواز خفیہ مائیک کے ذریعے صاف سنائی دے رہی تھی۔
زوزی لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھی تھی،
آواز آف تھی،
لیکن وہ دونوں کی زبان اور چہروں سے سب سمجھ رہی تھی۔
جب یُسرٰی نے کہا،
اگر آپ نہیں مانتیں تو… آپ جا سکتی ہیں میرے گھر سے۔۔۔۔
تب زوزی کی آنکھوں میں ہلکی سی چمک آئی۔
اس نے لیپ ٹاپ بند کیا،
نظریں کیٹی اور ٹویٹی کی طرف گھمائیں اور اعتماد سے کہا
باس صحیح کہتے ہیں…
ہم اس لڑکی پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ یُسرٰی کی امن سے محبت والی بات کو زوزی نے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا…امن تو پورے کراچی کا آئیڈیل تھا اُس پر تو آدھا شہر فدا تھا۔
کیٹی، جو ہمیشہ زوزی سے زیادہ محتاط تھی،
کرسی پر پیر سمیٹ کر بیٹھی تھی۔
اس نے گہرا سانس لیا اور آہستہ سے بولی
واقعی… لیکن مجھے اب بھی ڈر ہے۔۔۔۔
ٹویٹی نے اپنی نظرے اسکرین سے نکل کر کیٹی کی طرف دیکھا
ڈر؟ کس بات کا ڈر؟
کہ وہ ہمیں دھوکہ دے گی؟
جس لڑکی نے اپنی دادی کو ہی دھمکی دے دی…
وہ کسی کا کیا ساتھ دے گی؟
زوزی نے اب سنجیدہ لہجے میں کہا
اسی لیے تو باس نے اُسے چُنا ہے۔
جو اپنے کھو چکے ہیں… وہ دشمنوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اور یُسرٰی… وہ اب کسی کی نہیں رہی۔
کیٹی نے اب نظریں نیچے کیں،
جیسے کوئی سوال دل میں جنم لے رہا ہو —
اگر وہ ہمیں دھوکہ دے گئی تو؟
تو پھر… انجام بھیانک ہوگا۔

کیا ہی دھوکا دے سکتی ہے وہ ہمیں سب کی کوئی نہ کوئی ایک کمزوری ہوتی ہے اور یسریٰ کی کمزوری ہے پیسہ۔۔۔۔ آسائش جس کا ریپر نے اُسے خواب دکھایا ہے۔۔۔ ٹویٹی نے اپنا آخری کام کرتے کہا  اور کمپیوٹر اسکرین بند کردی ویسے بھی وہ لڑکی ہمیں دھوکا دے یا نہ دے ریپر کا آرڈر ہے مجھ اُسے نو بجے سے پہلے پہلے افتخارِ محل میں اُس کی انٹری کروانا ہے۔۔۔

پھر زوزی فوراََ بولی ہاں اور ریپر نے تو ہمیں یہ بھی کرنے کو نہیں کہا تھا جو تُم مُجھے سے کروا رہی ہو کیٹی۔۔۔۔

ریپر بولے یا نے بولے کچھ ہمارا بھی فرض ہے بس مجھے ڈر تھا تو تُم سے کہا۔۔۔ کیٹی نے زوزي کو گھورتے ہوئے کہا

لیکن تُمہارا ڈر تو ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔۔۔ ذوزی بغور کیٹی کی طرف دیکھ کر کہا۔

یہ ریپر کی کلی بلی اس کا ڈر کبھی ختم نہیں ہوگا چھوڑو اسے۔۔۔ اپنا کام ختم کرو اور چلو کچھ دیر آرام کرے پھر مُجھے نکلنا بھی ہوگا۔۔۔ ٹویٹی نے اپنا سامان پیک کرتے کہا جس پر زوزی نے سر ہلایا

+++++++++++

دادی کو منانے کے بعد، یُسرٰی نے دوپٹہ سنبھالا اور ٹویٹی کے ساتھ نکل گئی۔
ٹویٹی اُسے سب سے پہلے رُخسانہ باجی کے پاس چھوڑ گئی — وہی رُخسانہ، جو افتخار محل کی پرانی اور اعتبار یافتہ ملازمہ تھی۔
رُخسانہ باجی نے اُسے سر سے پاؤں تک دیکھا، پھر بس ایک جملہ کہا
اپنے کام سے کام رکھنا…
پھر وہ یُسرٰی کو لے کر افتخار محل پہنچی،
جہاں چند رسمی سوالات، اور انیسہ بیگم سے مختصر سی بات چیت کے بعد
یُسرٰی کو کچن میں نئی شیف کے طور پر رکھ لیا گیا۔
اور یوں —
یُسرٰی، افتخار محل اور امن کی زندگی میں باقاعدہ داخل ہو چکی تھی…
ایک نوکری کے بہانے، ایک مقصد کے تحت۔

+++++++++++++

درمیانِ کمرہ، راؤف صاحب کی لاش بستر پر سیدھی لیٹی تھی۔
نہ خون تھا، نہ چیخ… لیکن ماحول میں کچھ عجیب سا کھنچاؤ تھا۔
جیسے موت کے بعد بھی… کوئی راز زندہ رہ گیا ہو۔
تبھی دروازہ ایک زوردار دھماکے سے کھلا —
سب سائیڈ ہو جاؤ۔۔۔۔
ظفر اندر داخل ہوا، آنکھوں میں وہی پرانی تیز نظریں،
جنھیں جُرم کی ہوا بھی محسوس ہو جاتی تھی۔
پیچھے پیچھے اُس کی فیلڈ ٹیم، فورنزک آفیسر، اور دو انویسٹیگیشن اسپیشلسٹ۔
کمرے میں موجود نوکر، ڈاکٹر، اور فیملی سب ایک طرف کو کھڑے ہو گئے۔
ظفر نے راؤف کی لاش پر نظر ڈالی —
چہرے پر وہی سنجیدگی جو موت سے پہلے بھی اُس کے ساتھ تھی۔
بس… اب زبان بند تھی۔
موت نیند میں ہوئی یا نیند موت میں بدلی؟
ظفر نے آہستگی سے کہا، جیسے خود سے سوال کیا ہو۔
اس نے جھک کر بائیں ہاتھ کی بند مٹھی دیکھی —
اور فوراً ایک اشارہ کیا۔
دستانے پہن کر کھولو اِسے… فوراً۔۔۔۔
مٹھی کھولی گئی… اندر ایک تہہ شدہ کاغذ تھا۔
ظفر نے کاغذ ہاتھ میں لیا،
آنکھوں سے پڑھا —
اور خاموشی سے جیب میں رکھ لیا۔
کیا تھا اُس میں؟
اُس کے پاس کھڑے پولیس آفیسر نے ظفر سے پوچھا
ظفر نے آنکھ اٹھا کر اُسے دیکھا،
وقت آنے پر تمہیں سب معلوم ہو جائے گا… بس تب تک… محتاط رہو۔
پھر وہ تیزی سے پلٹا،
پورے کمرے کو فریز کرو،
فون، لیپ ٹاپ، نوٹ بکس،
ہر چیز ضبط ہو۔
سیکریٹری، خانساماں، ڈرائیور — سب سے انفرادی تفتیش ہوگی۔
اور ہاں، لاش کا پوسٹ مارٹم فوراً۔

+++++++++++++

یُسرٰی نرم قدموں سے کمرے میں داخل ہوئی،
ہاتھ میں ٹرے، چہرے پر معمولی سی مسکراہٹ،
امل بیڈ پر بیٹھی موبائل اسکرین پر نظریں گاڑھے تھی۔ خبریں بدل رہی تھیں،
امل نے چونک کر دیکھا،
اور اُس لڑکی کو سامنے پایا… جو اجنبی تھی،
تم کون ہو؟ آواز میں حیرانی تھی۔

یُسرٰی نے دھیرے سے ٹرے بیڈ پر رکھی،
اور آنکھیں نرمی سے مڑ کر اُس کی جانب کیں۔
میں نئی آپکی شیف ہوں… یُسرٰی۔

امل نے نظریں سکیڑ کر اُسے دیکھا،
تو تم کھانا لے کر کیوں آئی ہو؟

کوئی اور نہیں تھا… تو میں آ گئی۔
پھر اُس نے ایک نرمی سے پوچھا،
جس میں سوال سے زیادہ دلچسپی، اور دلچسپی سے بڑھ کر موقع کی طلب چھپی تھی
آپ کیا دیکھ رہی ہیں؟

امل نے لاشعوری طور پر موبائل نیچے کیا،
دل تو بوجھل تھا ہی، ذہن بھی بھرا ہوا تھا،
اور جب دل بوجھل ہو… تو کوئی معصوم آنکھ پوچھے،تو انسان خود سے پہلے اُس کو سچ بتا دیتا ہے۔
نیوز… امل نے آہستہ کہا،

یہ جو ابھی نیا معاملہ چل رہا ہے… امن بھائی کے خلاف۔ یُسرٰی نے نظریں ہلکی سی جھکائیں،
اور پھر جیسے اندر کے ڈرامے کو چھپا کر بولی
ہاں… وہ ریپر… کتنا خطرناک ہے نا؟

امل کی آنکھوں میں چنگاری سی لپکی۔
خطرناک؟ وہ… درندہ ہے۔ میرے بھائی کی خوشیاں اُس سے برداشت نہیں ہوتیں۔
یُسرٰی نے پلکیں نیچی کیں، جیسے دکھ بانٹنے والی ہو،
لیکن اُس کی نظریں کمرے کے آئینے سے ہوتی ہوئی،
بیڈ کے کونے پر پڑی امن کی تصویر تک پہنچ گئی تھیں۔
اور دل ہی دل میں وہ سوچ رہی تھی
امن حنان… تمہارے اتنے چاہنے والے ہیں؟ تو پھر… مجھے تم تک پہنچنے کے لیے کتنے چہروں سے مسکرانا پڑے گا؟

آپ کے بھائی کی خوشیاں… مطلب؟

امن بھائی نے بہت کچھ جھیلا ہے… جیل، الزام، کردار کشی،  ریپر کسی طرح بھی چاہتا ہے کہ وہ سیاست میں نہ آئے، وہ چاہتا ہے کہ امن خود ہی ہار مان لے۔

یُسرٰی نے ہلکی سی سسکی لی، جیسے کچھ اندر سے چٹخا ہو۔
پر امن تو بہت اچھے لگتے ہیں… وہ تو چہرے سے بھی سچے لگتے ہیں…

امل نے چونک کر اُسے دیکھا۔
تم نے تو اُن سے بس ایک دو بار ہی دیکھا ہوگا… پھر یہ ‘بہت اچھے لگتے ہیں’؟

یُسرٰی نے جھینپ کر نظریں چرائیں،
ایسے ہی، بس… اُن کی آنکھوں میں ایک بات ہے نا… جو باقی لوگوں میں نہیں۔

امل کی پیشانی پر ایک ہلکی سی شکن اُبھری،
لیکن وہ مسکرا دی، ہم سب یہی کہتے ہیں… وہ واقعی مختلف ہیں۔

یُسرٰی نے بات بدلنے کے لیے جلدی سے کہا،
آپ نے کھانا نہیں چکھا، بیگم صاحبہ نے کہا تھا خاص تمہارے لیے بنایا ہے۔۔۔

امل نے چمچ لیا، اور پہلا نوالہ لیتے ہی چونک گئی،
واہ… تم نے بنایا ہے؟

یُسرٰی نے معصومیت سے آنکھیں پھیلائیں،
اچھا لگا؟

بہت! اگر تم واقعی ایسے کھانے بناتی ہو تو تمہارا یہاں رہنا واقعی فائدہ مند ہوگا۔
امل خوشی سے بولی

یُسرٰی نے دل ہی دل میں ایک فاتحانہ مسکراہٹ چھپائی…
امن تک پہنچنے کا پہلا دروازہ کھل چکا تھا۔۔۔اور ریپر کا پہلا کام ہوچکا تھا۔۔۔

+++++++++++++

کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک گونج رہی تھی۔
افتخار محل کی بیٹھک میں، جہاں کبھی صرف سیاسی فیصلے ہوتے تھے،
آج ایک ایسا سوال موجود تھا جو زندگی اور موت کے بیچ معلق تھا۔
ظفر صوفے پر جم کر بیٹھا تھا —
رؤف صاحب کی موت کی خبر… آپ کو مل چکی ہو گی؟ سرد لہجہ میں کہا گیا

امن نے خاموشی سے سر ہلایا۔
چہرہ سادہ تھا، لیکن آنکھوں میں سنجیدگی تھی
مجھے اس بات کا شدید افسوس ہے۔

افتخار صاحب نے بھی تھکے ہوئے لہجے میں کہا
مجھے بھی۔ وہ پرانا رفیق تھا… کبھی دوست، کبھی دشمن… لیکن موت دونوں حیثیتیں چھین لیتی ہے۔

ظفر نے خاموشی سے فائل کھولی۔
پھر ایک مڑا تڑا صفحہ نکالا — سادہ، مگر خالی نہیں۔
وہ کاغذ امن کے سامنے رکھا،

امن نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا
یہ کیا ہے؟

پڑھ لو۔۔۔ سرد لہجہ میں کہا

امن نے کاغذ کھولا — کاغذ پر لکھ تھا۔۔۔
جو راستے میں آئے… اُسے ایسے ہٹا دو، جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں۔

یہ… میری لکھاوٹ ہے۔
اُس نے اعتراف کیا، لیکن لہجے میں کوئی گھبراہٹ نہ تھی۔بس ایک سوال… جو ابھی مکمل نہ ہوا تھا۔

ظفر نے ذرا جھک کر کہا،
پہچانا ؟ یہ آپ ہی کی تحریر ہے، سرکار۔
اور اطلاعات کے مطابق، آپ اور رؤف صاحب کے درمیان سخت بحث ہوئی تھی…
آپ نے اُنہیں اپنے پارٹی سے بھی نکل دیا تھا۔

امن نے آنکھوں میں ذرا سا تاثر بدلا۔
ہاں، نکالا تھا… کیونکہ وہ غلطی پر تھے…
لیکن اس کا یہ مطلب کیسے نکالا جا رہا ہے کہ میں نے انہیں مار ڈالا؟

ظفر کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ ابھری۔
میں نے یہ تو نہیں کہا کہ آپ نے قتل کیا۔
میں تو بس حالات کی مماثلت بتا رہا ہوں۔
آپ خود کو قصوروار سمجھ رہے ہیں… کیوں؟

امن کی پیشانی پر بل پڑے،
تم مجھے بےوقوف سمجھتے ہو، ظفر؟
یا پاگل سمجھتے ہو؟
تمہارا انداز ہی الزام جیسا ہے، اور اب تم صفائی کے پردے میں شک ظاہر کر رہے ہو۔۔

ظفر نے کندھے اچکائے،
میں تو یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب آپ کے خلاف ایک سازش ہے…
جیسے نادیہ کے کیس میں ہوا تھا۔ یہ تو ابھی میرے پاس ہے اگر میں یہ میڈیا کو دیکھا دوں ؟ تو آپ ایک دفعہ پھر جیل میں جاسکتے ہیں۔۔۔

ایک بات بتاؤ، ظفر… تمہیں ایس پی کس نے بنایا؟

ظفر کی پیشانی پر خفیف سی شکن آئی،
کیا مطلب ہے آپ کا؟

امن  ذرا سا آگے جھکا،
مطلب یہ کہ فرض کر لو… مان لیتے ہیں میں نے رؤف صاحب کو قتل کیا۔ چلو، میں مجرم ہوں…
پھر بھی، کیا میں اتنا جاہل ہوں کہ قتل کے بعد،
اپنی ہی ہینڈ رائٹنگ میں…ایسا جملہ ایک صفحے پر لکھ کر،لاش کے ساتھ یادگار کے طور پر چھوڑ آؤں؟
وہ ایک لمحے کو رُکا، جیسے الفاظ کا اثر تولنا چاہتا ہو۔
اگر یہ جرم ہے،
تو یقیناً بہت بچگانہ جرم ہے…
اور میں بچہ نہیں ہوں، ظفر۔
ظفر کی نظریں امن کے چہرے پر جمی تھیں،

کبھی کبھی… سچ بھی اتنا صاف ہوتا ہے کہ لوگ اسے جھوٹ مان لیتے ہیں، سرکار۔ ظفر نے کچھ طنزیہ مسکراہٹ سے کہا

امن کی نگاہیں ظفر پر جمی رہیں، لیکن لہجہ تھکا ہوا نہیں، مضبوط تھا۔
جاؤ… جو کرنا ہے کر لو۔ یہ میڈیا کو دیکھوں تبشش کرو، مُجھے پر الزام لگاؤں جیل میں ڈالو جو چاہے وہ کرو۔۔۔۔ یہ کہتا وہ اُٹھ کھڑا ہُوا اُس کے جلسہ کا وقت ہوچکا تھا۔۔۔

اُسے کے جاتے ہی افتخارِ صاحب بولے
کیا چاہیے؟؟

اپنے اس سچے انسان کو نکلوا دو سیاست سے۔۔۔  نہیں تو مارا جائے گا۔۔ ظفر نے سرد لہجے میں کہا

پیسے بولو کتنے چاہیے؟؟ افتخارِ صاحب نے اب کے سخت لہجے میں کہا
جس پر ظفر دھیمے سے مسکرائے جتنی اب اسے بچانے کے لیے دیں دیں
افتخار صاحب نے گہری سانس بھر کر بولے،
ظفر… تم جانتے ہو، میں خرید سکتا ہوں بہت کچھ — آوازیں، اصول، وفاداریاں۔
ظفر کا چہرہ اب سنجیدہ تھا،
جانتا ہوں، سرکار۔ مگر امن نہ بکا ہے، نہ بک سکتا ہے… اور شاید اسی لیے خطرے میں ہے۔
کمرے میں لمحہ بھر کو خاموشی چھا گئی —
صرف گھڑی کی ٹک ٹک باقی رہی۔
افتخار صاحب آہستہ سے بولے،
اگر میں اُسے نکال دوں، تو لوگ سوال کریں گے۔ وہ ہمارا چہرہ بن چکا ہے —
ہماری پارٹی کی وہ پہچان ہے جس پر عوام یقین رکھتے ہیں۔

اور وہی یقین ایک دن آپ کا تختہ الٹ سکتا ہے، سرکار۔ظفر نے سادہ مگر واضح انداز میں کہا۔

افتخار صاحب کی آنکھوں میں اب فکر کی جھلک تھی۔
تو کیا تم چاہتے ہو کہ میں اُسے خود ہی سیاست سے الگ کر دوں؟

ظفر نے نفی میں سر ہلایا،
میں صرف چاہتا ہوں کہ آپ اُسے بچا لیں —
ورنہ جس دن وہ مر گیا…
اُس دن یہ کرسی، یہ محل، یہ نام —
سب کچھ جل جائے گا۔۔۔
اور آپ جانتے ہیں، آگ نہ اپنے نہ پرائے دیکھتی ہے۔
افتخار صاحب نے نگاہیں نیچی کر لیں۔
کمرہ ایک بار پھر خاموش ہو گیا۔

++++++++++++

کمرے میں ہلکی سی پیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی
امن آئینے کے سامنے کھڑا تھا، سفید قمیص کا اوپر والا بٹن بند کر رہا تھا
میز پر رکھا فون بےصدا روشن ہوا۔
نوٹیفکیشن میں صرف دو لفظ چمکے
From Jabbar.
امن کے ہاتھ لمحہ بھر کو رُکے…
پھر اُس نے فون اٹھایا۔
اسکرین پر جبار کا چہرہ نمودار ہوا۔
پس منظر میں کسی ہوٹل کا پردہ، چہرے پر ہلکی سی سنجیدگی۔
لیکن آنکھوں میں وہی پرانی روشنی — سچ کی، دوستی کی، یقین کی۔
السلام علیکم، میرا نام جبار ہے، اور میں امن حنان کا پرانا دوست ہوں۔
میں نے کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر اپنی اور امن کی پرانی تصویر دیکھی، جس کے ساتھ یہ لکھا تھا کہ میں ‘لاپتہ’ ہوں۔
یہ بالکل جھوٹ ہے۔ میں لندن میں ہوں، اپنی نوکری کے سلسلے میں۔
اور جو میڈیکل رپورٹ گردش کر رہی ہے، وہ بھی جعلی ہے۔
میں نے کبھی امن کو غیر مستحکم یا تشدد پسند نہیں پایا۔
میں جانتا ہوں کہ کسی کی ذہنی حالت کو ‘خطرہ’ کہنا کتنا حساس معاملہ ہوتا ہے۔
امن بائی پولر نہیں ہے۔ وہ انستبل نہیں ہے۔
وہ صرف سچ بولتا ہے—
اور شاید سچ بولنا… ہمارے معاشرے میں سب سے بڑا جرم ہے۔
خدا کے واسطے… لوگوں کو گمراہ نہ کریں۔
امن نے ایک لمحے کو اسکرین روک دی۔
ویڈیو ختم نہیں ہوئی تھی… تبھی
دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی..
کون ہے؟… آجاؤ اندر۔

دروازہ آہستہ سے کھلا۔
یُسرٰی اندر داخل ہوئی۔
ہاتھ میں ٹرے، جس پر بھاپ اٹھاتی کافی رکھی تھی۔
قدم نرم، لہجہ دھیمی ہوا جیسا۔
سر… کافی۔

امن نے ایک نظر اُس کی طرف دیکھا۔
پھر بے اختیار ابرو اٹھایا۔
میں نے تو نہیں منگوائی۔

یُسرٰی کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی—
ایسی جس میں ادب بھی تھا، اور خفی ہمدردی بھی۔
پر آپ تو باہر جا رہے ہیں نا… جلسے کے لیے؟

امن نے آہستہ سے سر ہلایا۔
ہاں… جا رہا ہوں۔

تو پی لیں۔ تھوڑی سی تازگی آ جائے گی۔

امن نے لمحہ بھر اُسے دیکھا۔
تمھارا نام؟
یُسرٰی نے چونک کر اسے دیکھا—
پھر آہستہ سے کہا
یُسرٰی۔
پورا نام؟
یُسرٰی نور۔
امن نے پلکیں جھپکائیں۔
ٹھیک ہے۔ جاؤ اب۔
یُسرٰی نے ٹرے آگے بڑھائی۔
لیکن یہ… کافی؟
میں نے کہا نا… نہیں پینی۔
جی… ٹھیک۔
وہ پلٹی، لیکن اسی لمحے اس کا پاؤں دہلیز کے قریب پھسل گیا۔
اوہ۔۔۔
ٹرے اُس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔
کافی کے چھینٹے فرش پر بکھرے،
اور یُسرٰی—ساکت لمحے میں—نیچے گری۔
امن چونکا تیزی سے قدم اُس کی طرف بڑھائے۔
یُسرٰی۔۔۔ وہ جھکا۔
یُسرٰی درد سے ہونٹ بھینچے بیٹھی تھی۔
بازو تھام کر اٹھنے کی کوشش کی، مگر مچل کر رہ گئی۔
امن نے بے اختیار اُس کا ہاتھ تھاما،
پہلی بار…
کہاں لگی ہے؟ پاؤں؟
یُسرٰی نے بس آہستہ سے سر ہلایا۔
چوٹ… زیادہ نہیں۔ پر… تھوڑا درد ہے۔
امن نے گہرا سانس لیا۔
تم بیٹھو۔
یُسرٰی نے اُسے حیرت سے دیکھا—
جیسے وہ ابھی بھی یقین نہ کر پا رہی ہو کہ امن خود… اس کے لیے پلٹا ہے۔
یُسرٰی، اب بیڈ کے کنارے پر بیٹھی تھی، اور امن… فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھا، اس کا پاؤں نرمی سے تھامے ہوئے تھا
کہاں لگی ہے؟
یُسرٰی نے شرمندگی سے پلکیں جھکا لیں۔
یہاں… ایڑی کے قریب۔
امن نے سر ہلایا… اور اگلے ہی لمحے اچانک—پوری طاقت سے اس کا پاؤں مروڑ دیا۔
آہہہہ! آپ… آپ کیا کر رہے ہیں؟!
یُسرٰی کی چیخ کمرے میں گونجی،
آنکھوں میں آنسو،
چہرے پر سچ مچ کا درد۔
توڑ دیا میرا پاؤں؟!
وہ تقریباً رو دی۔
امن نے سر جھکا کر ہنسی دبائی—
توڑتا… تو ابھی سہی سلامت بیٹھی نہ ہوتی۔
یُسرٰی نے ناراضگی سے اس کی طرف دیکھا۔
یہ علاج ہے یا سزا؟!
امن نے اس کا پاؤں آہستہ سے زمین پر رکھا، اور اپنی سانس بحال کی۔
چوٹ اکثر ہڈی میں نہیں، اعصاب میں ہوتی ہے۔ اکڑ جائے تو سیدھا کرنا پڑتا ہے…
یُسرٰی نے بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھا۔
آپ ڈاکٹر بھی ہیں؟
امن نے ایک پل کے لیے اُس کی طرف دیکھا۔
نہیں…
یُسرٰی خاموش ہو گئی۔
کمرے میں چند لمحے صرف سانسوں کی آواز رہی۔
باہر جلسے کی گاڑیاں ہارن دے رہی تھیں۔ وقت بلا رہا تھا۔
امن اٹھا۔  فون اٹھایا کوٹ پہنا، اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا
پھر پلٹ کر اُسے ایک نظر دیکھا۔
سنبھل کر جانا… چوٹ دوبارہ نہ لگے۔
یُسرٰی نے نظریں چُرا لیں۔
امن دروازے سے نکل گیا،
اور پیچھے… اُس کے جاتے ہی یسریٰ اُس کے بیڈ پر گر گئی۔۔۔۔
ہائے… اُنہوں نے میرا ہاتھ تھاما۔۔۔ پہلی دفعہ۔۔پہلی بار۔۔۔
وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپائے، شرما رہی تھی۔
تبھی ہلکی سی کھانسی کی آواز آئی۔
یُسرٰی نے ایک انگلی کے درمیان سے جھانکا…
سامنے امن کھڑا تھا۔

وہ چونک کر فوراً سیدھی ہوئی اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔

امن نے ہلکی سی مسکراہٹ روکتے ہوئے سنجیدگی سے کہا،
میرا فون۔

یُسرٰی نے بیڈ کے اِدھر اُدھر دیکھا — فون تلاش کرنے لگی۔۔۔
اور فون عین اُسی جگہ پر رکھا تھا،
جہاں وہ چند لمحے پہلے لیٹی ہوئی تھی۔

جلدی سے فون اُٹھایا،
اُس کے ہاتھ میں دیا،
اور نظریں جھکا کر ہلکی سی شرمندگی سے بولی،
سوری…

امن نے خاموشی سے فون لیا،
کچھ نہیں کہا —
بس پلٹ کر چلا گیا۔

++++++++++++

کیٹی اُس کے سامنے کھڑی تھی—
اس بار اُس کی آنکھوں کا رنگ غیر معمولی حد تک سیاہ تھا،
اور چہرے پر ہمیشہ کی طرح وہی نقاب…
مگر آنکھیں—
وہ آج بھی قاتلانہ تھیں۔
ریپر کرسی پر بیٹھا، اپنی انگلیوں کی پوروں کو یکساں وقفے سے میز پر مار رہا تھا—
ٹک… ٹک… ٹک…
کیٹی نے ایک ایک کر کے یُسرٰی کی فراہم کردہ معلومات اُس کے سامنے رکھنی شروع کیں۔
باس… اُس نے کہا ہے انیسہ بیگم اور امل سے اُس کی دوستی ہو چکی ہے۔
اور وہ دونوں ویسی ہی ہیں جیسی دِکھتی ہیں۔
صاف دل، شفاف اور سادہ اور افتخارِ صاحب

بس….
ریپر کی انگلی کی حرکت رُک گئی۔
میں ان کے بارے میں جانتا ہوں… آگے بولو۔

کیٹی نے بمشکل پلکیں جھپکیں،
پھر سلسلہ جاری رکھا۔
امن گھر کے معاملات کسی سے شیئر نہیں کرتا، خاص طور پر دادی اور بہن سے نہیں۔
جو کچھ بھی وہ جانتی ہیں، میڈیا کے ذریعے جانتی ہیں۔
اور نہ وہ اپنے دادا افتخار سے کوئی مشورہ لیتا ہے،
نہ کسی فیصلے میں اُن کی شمولیت ہے۔
امن… کسی کی نہیں سنتا۔
نہ اپنے خاندان کی… نہ نظام کی۔
وہ صرف ایک شخص کی مانتا ہے—
خود کی۔اور ایک لڑکا ہے نہات، امن کا پرسنل اسسٹنٹ ہے لیکن وہ صرف اُس کا اسسٹنٹ نہیں بلکہ کافی اچھا دوست بھی ہے گھر میں بھی اُس کا کافی انا جانا ہے۔۔
کمرے میں لمحہ بھر کو خاموشی چھا گئی۔
ریپر نے آہستہ سے اپنی کرسی کا زاویہ بدلا۔
آنکھیں اب بھی کیٹی پر جمی تھیں۔
اور جبار؟

اُسے نمبر مل چکا ہے۔
جبار نے ویڈیو بنا کر دے دی ہے…
اصل ویڈیو، جس میں وہ واضح کہتا ہے کہ ساری رپورٹ جھوٹی ہے۔۔۔
ٹک۔
ریپر کی انگلیاں دوبارہ میز پر چلنے لگیں۔
حملہ کروا دو۔
وہ جلسے میں نہ پہنچے۔

کیٹی نے گردن آہستہ سے خم کی—
اطاعت کی خاموش مہر۔
اور اگر پہنچ گیا؟
اُس نے احتیاط سے پوچھا۔

ریپر کی آواز میں سرد روشنی تھی، جیسے برف میں چمکتا چاقو
تو وہ وہی بنے گا،جو ہم چاہتے ہیں…
بغاوت کا چہرہ— اور دنیا اسے ’نفسیاتی‘ کہے گی۔

کیٹی نے آہستہ سے قدم پیچھے کیے۔
نقاب کے پیچھے ریپر کی آنکھیں…
اب مطمئن تھیں۔
سازش تیار ہو چکی تھی۔
شطرنج کی چال رکھی جا چکی تھی۔
اب بس…
چال چلنے والا آگے بڑھے گا۔

++++++++++++

گاڑی سڑک پر روانی سے بہہ رہی تھی—
امن پچھلی سیٹ پر بیٹھا، کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔
اُس کے ساتھ ہی ارحم بیٹھا تھا، جو ہر دو منٹ بعد فون چیک کرتا اور دوبارہ جیب میں رکھ دیتا۔
آئرا اگلی نشست پر ڈرائیور کے برابر بیٹھی تھی—

کتنی دیر رہ گئی؟
امن نے آہستہ سے پوچھا۔

پندرہ منٹ،
ڈرائیور نے نگاہیں سڑک پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔

امن نے گھڑی دیکھی، پھر آنکھیں بند کر لیں۔
شاید وہ اُن الفاظ کو دہرا رہا تھا،
جو آج رات ہزاروں لوگوں کے دلوں میں اُترنے والے تھے۔
پھر… اچانک—
ہوا بدلی۔
ایک تیز، خراش دار آواز فضاء میں گونجی۔
گولی۔
ٹک۔۔۔
شیشے پر ایک معمولی سی دراڑ۔
پھر…
دوسری، تیسری، چوتھی…
اک ذرا کی دیر میں پوری فضا میں گولیوں کا شور گونج اُٹھا۔

نیچے جھکو۔۔۔۔
ارحم کی چیخ گونجی۔

ڈرائیور نے تیزی سے گاڑی موڑی، مگر اگلے ہی لمحے سامنے سے آتی سفید وین نے اُن کی گاڑی کے سامنے بریک لگا دی۔
گاڑی جھٹکے سے رُکی۔
امن نے پچھلے دروازے کی طرف ہاتھ بڑھایا—
ارحم۔۔۔ دروازہ کھولو۔۔۔۔

باہر مت نکلو سر۔۔۔۔
ڈرائیور چیخا۔

مگر دیر ہو چکی تھی۔
فائرنگ کا رخ اب واضح طور پر صرف ایک طرف تھا…
امن کی طرف۔۔
ارحم نے بلا تردد، امن کی جگہ لی—
اُس نے فائر کھولا، ایک نہیں، کئی…
مگر دشمن زیادہ تھے—
اور ہر گولی… صرف امن کے لئے تھی۔
پولیس کی گاڑیوں نے امن کی گاڑی کو گھیر لیا تھا
اسی لمحے…
کوئی برق کی مانند نکلی تھی۔
ایک اور کار…
بہت قریب آ کر رکی۔
ڈرائیونگ سیٹ پر آئرا تھی—

ہاتھ اسٹیئرنگ پر، آنکھیں فیصلہ پر۔
ارحم! جلدی۔۔۔۔
اُس نے پکارا۔ وہ کب کار سے نکلی کب کار لے کر آئی کِسی کو علم نہ ہوا۔۔۔

امن اور ارحم بغیر ایک لمحہ ضائع کیے اُس کار میں بیٹھے—
پیچھے گولیوں کا طوفان،
آگے ایک نئی سمت۔
آئرا نے اسٹیئرنگ گھمایا—
گاڑی چھوٹے سے خلا میں سے نکلی،
جیسے کسی شیرنی نے اپنے بچوں کو بچا کر دشمنوں کے بیچ سے نکلنا ہو۔
امن نے ایک آخری بار پیچھے دیکھا—
جہاں شیشے ٹوٹ رہے تھے،
پولیس بندوقیں تانے کھڑی تھی،
دشمن کی گولیاں ابھی بھی چل رہی تھی۔۔
اور وہ موت کے منہ سے نکل کر باہر آچکا تھا
بے شک ہر انسان کو موت اُس کے وقت پر ہی
آنی ہے۔۔۔۔
گاڑی اب سنبھل چکی تھی—
رفتار معمول پر تھی، مگر ماحول میں ابھی بھی گولیوں کی بو باقی تھی۔

ارحم نے کچھ دیر خاموش رہ کر پھر اچانک منہ بگاڑ کر کہا،
سر… اگر ابھی ہم نہ ہوتے نا، تو آپ کا معاملہ تو سیدھا بِنا ٹکٹ کے اوپر تھا۔۔۔

امن نے ایک نگاہ اُس پر ڈالی—
کوئی احسان نہیں کیا۔ میں تنخواہ اسی کام کی دیتا ہوں تم لوگوں کو۔۔۔

ارحم ہنسا،
آپ نہیں سر… وہ تنخواہ تو افتخار صاحب دیتے ہیں۔
آپ تو ہمیں رکھنے کے ہی حق میں نہ تھے…
کیوں آئرا؟
آئرا، جو سامنے بیٹھ کر دونوں کی نوک جھونک سُن رہی تھی،
آنکھیں سڑک پر، مگر لبوں پر ایک دبی مسکراہٹ۔
ہاں ہاں… بالکل۔
اِنہیں لگتا ہے موت جب لکھی ہوگی، تبھی آئے گی۔
بے شک…لیکن احتیاط نام کی بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے نا،؟
تقدیر پر ایمان رکھنا الگ بات ہے،
اور عقل کا استعمال نہ کرنا… وہ الگ۔

امن نے اُس کی طرف دیکھا،
ایسی بات نہیں ہے…
اُس کا لہجہ پرسکون مگر واضح تھا،
میرے اور بھی سیکیورٹی گارڈز تھے،
جنہیں تم پیچھے چھوڑ آئیں۔
اور پولیس والے بھی…

ارحم نے فوراً لقمہ دیا،
اوہ ہاں! وہ جو چار منٹ میں فائرنگ کے بیچ میں بھی چائے پیتے ہوئے پہنچتے ہیں؟
یا وہ جو حملہ آوروں سے پہلے ہی بھاگ جاتے hein

آئرا نے ذرا سا ہنس کر سر ہلایا،
اور جنہیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ اصل خطرہ گاڑی میں ہے یا باہر…
امن نے اب کی بار دونوں کو گھور کر دیکھا—
ایک ایسی نظر جو کہہ رہی تھی
خاموشی اختیار کرو، ورنہ زبان کی گولیاں پہلے میں چلاؤں گا۔۔۔
گاڑی اب موڑ کاٹ رہی تھی—
آئرا نے بریک تھوڑی نرم کیں، اور پھر کن اکھیوں سے امن کو دیکھا۔
اب بتائیں… جلسے میں جانا ہے؟ یا گھر؟
امن نے لب کھولنے ہی تھے کہ—
فون بج اٹھا۔
وہ نمبر دیکھا، اور ایک لمحے میں اُس کی پیشانی کی رگیں تن گئیں۔
فون اٹھایا،
ہاں؟
دوسری طرف کی آواز گھبراہٹ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
امن کی آنکھیں سکڑیں۔
کیا؟
اب آئرا اور ارحم دونوں پوری طرح متوجہ ہوچکے تھے۔
امن کی گرفت موبائل پر مضبوط ہو گئی،
اور چہرے پر وہ ٹھہرا ہوا سکون…
اُسی لمحے غائب ہو گیا۔
نہات کو گولی لگی ہے، وہ اسپتال میں ہے۔
ایک سناٹا گاڑی میں اُتر آیا—
ایک ایسا سناٹا، جو چیخنے لگا۔

++++++++++++++

وہ جلسہ چھوڑ کر ہسپتال کے در و دیوار میں ساکت کھڑا تھا…
کیونکہ جب دوست موت سے لڑ رہا ہو،
تو دنیا کی ہر ترجیح، ہر تقریر، ہر مقصد بے معنی لگنے لگتا ہے۔
دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا امن اپنی انگلیوں کی پوروں کو دبائے… ایک انجانی بے چینی سے گزر رہا تھا۔
دروازے پر چھوٹا سا بورڈ آویزاں تھا
ICU — روم نمبر 308
ڈاکٹر کب باہر آئیں گے؟
ارحم نے نرس سے پوچھا، مگر جواب ندارد۔

یہ… اسے گولی کیسے لگی؟ کیا ہوا تھا؟ امن نے پوچھا۔۔۔

یہ بھی جلسے کی طرف ہی آ رہا تھا… جوں ہی اُس کی گاڑی موڑی، ویسے ہی حملہ ہو گیا۔ بالکل ویسا ہی جیسا ہمارے ساتھ ہوا۔ اُس کے تمام سیکیورٹی گارڈز زخمی ہیں۔ ارحم نے جواب دیا

امن کا چہرہ پل بھر کو سخت ہوا—
سوال، اب الجھ کر شبہ میں بدل چکا تھا۔
لیکن… نشانہ تو میں تھا… تو پھر نہات؟

شاید… حملہ آوروں کو لگا ہو، وہ آپ ہی ہیں۔

ناممکن۔ وہ نہات کو پہچانتے تھے۔ وہ میرا ڈبل نہیں تھا۔

کیا پتہ نشانہ نہات ہی ہو۔۔۔ ایرا نے آہستہ سے کہا

ارحم نے ایک نظر اُسے دیکھا پھر کچھ سوچتے بولا
ائرا تُم کچھ الگ الگ رہی ہو۔۔۔

ایرا نے نظرے گھمائی ہاں آج زیادہ میک آپ کیا ہے۔۔

ارحم کی مسکراہٹ اُبھر آئی،
میک اپ نظر تو نہیں آرہا اس ماسک سے۔۔۔

پھر ارحم نے غور سے ایرا کو دیکھا
مسک کے اوپر بھی میک آپ نہیں لگایا ہوا؟

چپ رہو ارحم یہ کوئی وقت ہے مُجھے تنگ کرنے کا۔۔۔ ایرا نے امن کا چہرا دیکھ ناگواری سے کہا

نہیں تُم ایرا ہی ہو آگیا مُجھے یقین۔۔۔ ارحم نے خفیہ مسکراہٹ لیے کہا

ہاں بس اب چپ کرو۔۔۔ ائرا نے ناگواری سے کہا

++++++++++

ٹی وی اسکرینز پر بریکنگ نیوز کی سرخ پٹیاں دوڑنے لگیں۔
ایک وقت میں دو حملے…

امن حنان اور نہات خان… دونوں کو نشانہ بنایا گیا؟

سیاسی دشمنی یا اندرونی بغاوت؟

اور اس وقت کی سب سے بڑی خبر: امن خان کی گاڑی پر حملے کی کوشش ناکام، پارٹی رہنما نہات شدید زخمی، حالت نازک—

ذرائع کے مطابق یہ حملہ جلسے سے چند کلومیٹر دور اُس وقت ہوا، جب امن خان سیکیورٹی قافلے کے ہمراہ جلسے کی طرف روانہ تھے۔

نیوز دیکھ انیسہ بیگم کا دل بیٹھ گیا
ہاتھ کانپتے ہوئے وہ صوفے کے بازو سے سہارا لے کر اُٹھیں—
مجھے نِہات کے پاس لے چلو… میرا بچہ… وہ اکیلا ہے اسپتال میں…

بیٹھ جاؤ۔۔۔۔
افتخار صاحب کا لہجہ بجلی کی کڑک جیسا تھا۔
امن اُس کے ساتھ ہے… تمہیں وہاں جا کر کیا کرنا ہے؟ رونا دھونا؟ تمہارا پوتا نہیں ہے وہ… بس چُپ چاپ یہاں بیٹھی رہو۔

انسا بیگم کی آنکھوں میں آنسو ابل پڑے،
لیکن افتخار صاحب کا چہرہ بےرحم سنگ مرمر کی مانند سخت تھا۔
اُن کی آواز میں اب وہی اضطراب بول رہا تھا
جو برسوں سے سیاست کے سینے میں دبا رکھا تھا—
یہ ریپر… حد سے باہر جا رہا ہے۔
میں نے اُسے ایک موقع دیا،
اور اُس نے ہمارے ہی بچوں پر بندوقیں تان دیں۔
اب یہ کھیل ختم کرنا ہوگا۔۔۔
امل بھی صوفے کے کھونے میں دبکی بیٹھی تھی
دادی… نہات بھائی…
وہ بمشکل اتنا ہی بولی،
مگر وہ لفظ دیواروں میں گھونس کی طرح گونجا۔
ایک لمحے کو خاموشی چھا گئی۔
ٹی وی پر اب بھی بریکنگ نیوز چل رہی تھی
امن خان اور نہات پر ایک ہی وقت میں حملہ — اندرونی رابطے کا شبہ

+++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔۔

1 Comment

  1. Kiya Ala Episods tha jldi se yusra or aman ki love story start kro

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *