me mera dil or tm

Mai mera dil or tum “trailer” written by siddiqui

میں میرا دل اور تُم
ٹریلر ۔۔۔

 
تُم میرے بارے میں کیوں کچھ نہیں کہتے ہو۔۔ اس نے اپنی سرخ انگار آنکھیں ٹی وی پر جمائے کہا ۔۔۔ اس بات کا جواب تو خود ریپر کے پاس بھی نہیں تھا۔۔

خیر، تمہاری اس خاموشی کا میں خوب فائدہ اٹھا سکتا ہوں…
وہ مسکرایا ، ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی بند کردیا۔۔

+++++++++

وضو کا ٹھنڈا پانی جب اُس کی ہتھیلیوں سے بہہ کر زمین کی طرف گرا، تو اُس نے محسوس کیا جیسے دل کے اندر جمے شکوک بھی دھل رہے ہوں۔
آج پہلی بار اُسے اپنی بے بسی پر نہیں، اپنے رب کی قدرت پر یقین آیا تھا۔وہ جائے نماز پر بیٹھا تو ایسا لگا جیسے کئی دنوں بعد اُس نے خود کو پایا ہو۔

یا اللہ… اگر میں سچ پر ہوں، تو میرے حق میں فیصلہ فرما… اور اگر کہیں میں غلط ہوں، تو مجھے وہ نظر عطا فرما جو مجھے میری خطا دکھا سکے۔

نماز کے بعد اُس نے چپ چاپ قرآن پاک کھولا۔
پہلا صفحہ جو کھلا، اُس کی نظر سورۃ یوسف پر پڑی۔

بے شک، اللہ حق کا ساتھ دیتا ہے، چاہے لوگ سازشیں کریں۔
(یوسف علیہ السلام کی قید اور الزامات کی آیات دل کو چھو گئیں)

وہ دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔

++++++++++

وہ تھوڑا جھک کر اُس کے قریب ہوا، آواز اور بھی دھیمی ہو گئی، مگر ہر لفظ میں زہر ٹپک رہا تھا:
اگر تم نے کچھ کیا… تو تم جانتی ہو نا، تمہارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟

مایرا کی سانس ایک لمحے کو رُکی، لیکن پھر اُس نے گردن اکڑا کر جواب دیا
ہاں، جانتی ہوں… مگر تم بھی سن لو — ڈرنے والے تم جیسے ہوتے ہیں، مُجھے جیسے نہیں۔

کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ وہ شخص ایک لمحے کو مایرا کی آنکھوں میں دیکھتا رہا، جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو کہ یہ لڑکی کتنی دیر تک کھڑی رہے گی۔

پھر وہ مُسکرا دیا — ایک زہریلی، چبھتی ہوئی مُسکراہٹ:

بہادری کی قیمت چکانی پڑتی ہے، آفیسر… اور یہ شہر قیمتیں نقد لیتا ہے۔

مایرا نے ایک قدم آگے بڑھایا، آنکھوں میں جُرات تھی

تو بتا دو، کتنی قیمت ہے حق کی؟ میں اپنی جان سے چکا دوں گی۔۔۔

+++++++++

ہاں تو… کیا تحفہ چاہیے میری بیگم کو؟

وہ ہلکا سا مسکرایا تھا، مگر چہرے پر کوئی واضح تاثر نہیں تھا۔
ہال کی روشنی تیز تھی، اتنی تیز کہ اس کی آنکھیں چندیا گئیں۔
وہ اُس کی طرف دیکھنا چاہتی تھی… مگر روشنی… جیسے اُس کے چہرے کو چھپا رہی ہو۔

وہ آج کی برتھ ڈے گرل تھی،
مہنگے فیرِی فراک میں، سر پر تاج لیے…
بالکل کسی شہزادی کی مانند۔

میں جو مانگوں گی… آپ دیں گے وہ مجھے؟
اُس نے شوخی سے پوچھا، مگر آواز میں کہیں نہ کہیں سنجیدگی تھی۔

بالکل دوں گا۔ آپ کی خواہش… سر آنکھوں پر۔
اس نے ایک ادا سے کہا… جیسے الفاظ نہیں، کوئی وعدہ پیش کر رہا ہو۔

پھر… مجھے اپنا چہرہ دکھا دیں۔۔۔

+++++++++++

اسکرین پر لال رنگ کی بریکنگ نیوز پٹی دوڑ رہی تھی۔
ہیڈلائن
افتخارِ صاحب کے نواسے سید امن حنان افتخار کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔۔۔
ناظرین! کراچی کی سیاست میں بھونچال —
سید افتخار  کے نواسے، معروف سیاسی رہنما اور نوجوان لیڈر امن افتخار کو آج رات ان کے رہائش گاہ سے پولیس نے حراست میں لیا ہے۔
اس کے بعد ویڈیو کلپ چلی —
امن کو پولیس کے بیچ سے نکلتا دکھایا گیا،
اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی، مگر نظر جھکی نہیں تھی۔
ذرائع کے مطابق، نادیہ فیروز کے کیس میں نئے شواہد سامنے آئے ہیں۔’CCTV’ فوٹیج میں امن کی پارٹی کا ایک شخص اسپتال میں داخل ہوتا دیکھا گیا ہے،
جبکہ ایک معروف رپورٹر نے پارٹی کی جانب سے دھمکیاں ملنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
اس کے بعد اسکرین پر مختلف سیاسی تبصرہ نگار نظر آئے:
کوئی کہہ رہا تھا یہ ایک سازش ہے۔۔۔
کوئی بولا یہی وقت ہے کہ امن خود سچ سامنے لائے۔۔۔
اور ایک نے تو یہ تک کہہ دیا:
سیاسی مستقبل خطرے میں ہے۔ امن افتخار اگر بے قصور ہے، تو اُسے ہر الزام کا سامنا کرنا ہوگا… ورنہ یہ خاموشی، سیاست نہیں، کمزوری سمجھی جائے گی۔۔۔۔

+++++++++++
بارش… شدت سے برس رہی تھی۔
یوں جیسے آسمان نے کسی کے ضبط کا بند توڑ دیا ہو۔
سڑک کی رونق ختم ہو چکی تھی، ہر طرف پانی کا شور، ہر طرف تنہائی کی نمی۔

سڑک کے کنارے، ایک ہلکے نیلے رنگ کا امبریلا تھامے، وہ لڑکا خاموشی سے کھڑا تھا۔ بارش کی ہر بوند اس کے گرد گر رہی تھی مگر وہ خود بالکل بھیگا نہ تھا۔جیسے وہ خود کو اس موسم سے نہیں، اس محبت سے بچارہا ہو جو چند قدم دور کھڑی لڑکی کی آنکھوں میں برس رہی تھی

لیکن اُس کے چند قدم کے دورِ پر کھڑی وہ لڑکی بارش میں پوری طرح بھیگ چکی تھی۔۔۔ وہ لڑکی صرف دس فٹ کے فاصلے پر کھڑی تھی۔
مگر ان کے درمیان فاصلہ میلوں کا تھا۔۔۔۔

کیا تمہیں پتہ لگ گیا ؟
ایک طرفہ محبت کس نے کی؟

اندھیرا تھا، ہلکی ہلکی روشنی سٹریٹ لائٹ کی،
لیکن اُس لڑکے کا چہرہ صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
جیسے اس کی پہچان خود اندھیرے میں گم ہو چکی ہو۔
لیکن وہ لڑکی جانتی تھی وہ کون تھا مگر اُس کے چہرے کی جھلک دیکھے بغیر،
لڑکی نے پہچان لیا تھا —
کیونکہ وہ اُس کے سائے کو بھی پہچانتی تھی۔

میں محبت کرتی ہوں آپ سے…
اس نے کانپتی آواز میں کہا۔
اس کی پلکوں سے بارش کم اور آنکھوں سے جذب ہوتا ہوا عشق زیادہ بہہ رہا تھا۔

نہ جائیے… مجھے چھوڑ کے… پلیز۔۔۔
وہ التجا کر رہی تھی،
کہ جیسے محبت کو آواز دینے سے وہ شخص لوٹ آئے گا۔

لیکن وہ…
وہ بےحس کھڑا رہا۔
ایسا جیسے اس منظر سے، اس لڑکی سے، اس اظہار سے… اُس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔

آپ نہیں جائیں گے نا؟
بہت مشکل سے پایا ہے آپ کو، اب کھونا گوارا نہیں…

لیکن وہ چلا گیا…
چھتری تھامے…
اپنی حفاظت کرتے ہوئے،
اُس لڑکی کو اُس کی محبت سمیت بارش میں تنہا چھوڑ کر۔

+++++++++++++

اب موت کی موت سے جنگ ہوگی…
ریپر نے وار غلط جگہ کیا تھا…
وہ بھول گیا تھا کہ کچھ زخم جسم پہ نہیں لگتے…
روح پہ لگتے ہیں۔
اور جو شخص روح پہ چوٹ کھاتا ہے…
پھر وہ انسان نہیں رہتا — وہ قہر بن جاتا ہے۔

اب وہ قہر بن کے برسے گا ریپر پر۔
خاموشی کے پردے چاک ہوں گے…
اب ریپر خاک میں ملے گا…

گاڑی سکون سے اپنی رفتار میں تھی،
رات خاموش تھی،
اور ہوا میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ تھا…

پھر…
اچانک گولی چلی۔
ایسی گونج دار، ایسی شدید… کہ خاموشی چٹخ گئی۔
شیشہ ٹوٹا، دل دھڑکا، سانسیں رک گئیں۔

یہ حملہ کسی عام آدمی پر نہیں تھا۔
یہ وار اُس شخص پر ہوا تھا جس کی کرسی اقتدار کی علامت تھی،
جس کی کار میں بیٹھ کر کیے گئے فیصلے ملک کی تقدیر بدل دیتے تھے۔

یہ گولی… صرف جان لینے کو نہیں چلی تھی،
یہ گولی ایک اعلان تھی —
جنگ کا، بغاوت کا، بیزاری کا۔

کسی نے سوچا نہیں تھا کہ جنگ یوں سڑک پر اتر آئے گی،
خاموش گاڑی، شور کرتی گولی،
اور سیاست کے سنگین پردے پیچھے ہٹنے لگے تھے۔

اب جنگ چھڑ چکی تھی —
یا وہ مرے گا جس پر حملہ ہوا،
یا کہانی کا انجام لکھا جائے گا۔

انجام… جو خون میں بھیگے گا۔

اقتدار ، عشق اور خون کی مثلث میں پھنسی ایک کہانی ۔۔۔
……جلد آرہا ہے

میں میرا دل اور تُم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *