روحانی پستی
ازقلم احسن نعیم۔۔۔
روحانی پستی ایک ایسی دلدل ہے جس میں انسان کا ضمیر اندر تک دھس جاتا ہے اور جب اس کو خبر ہوتی ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔
روحانی پستی سے مراد کا انسان کی روح کا بیمار ہونا ہے۔بیماری کی بھی اقسام ہوتی ہیں۔اسی طرح روح کو بھی کبھی کبھار بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔آج کل ہمارا معاشرہ ہر طرح سے روحانی پستی کا شکار ہے۔انسان کی روح اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے.انسان کے اندر سے ایمان کی طاقت ختم ہوچکی ہے۔انسان اپنے رب سے زیادہ لوگوں سے ڈرنے لگ گیا ہے۔آج کل انسان گناہ کرتا ہے تو اپنے اندر مرے ہوئے ضمیر کو بھی اس طرح خاموش کرواتا ہے کہ آئیندہ نہیں کروں گا۔ لیکن پھر اگلے ہی روز انسان اسی گناہ کی طرف راغب ہو جاتا ہے جس کی وہ کل نہ کرنے کی تسلی دے رہا تھا۔یہ ہے روحانی پستی۔اس قدر ہماری روح اپنے راستے سے ہٹ چکی ہے.اور پتا ہے روح کا راستہ کیا ہے؟روح کا راستہ ایمان کا راستہ ہے۔جس کی روح ایمان سے ہٹ جائے گویا اس کی روح بیمار ہے۔اور روحیں تو سب کی بیمار ہوتی ہیں۔ اب ہم اگر اس کو مزید زکر کریں تو اس کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ اس میں انسان گناہ کی طرف راغب ہوتا ہے اور کرتا ہی جاتا ہے۔اسی طرح انسان دوسروں کی پرواہ کرنا چھوڑھ دیتا ہے۔ایک ایسا واقعہ بیان کرنے لگا ہوں جس سے بہت سوں کو دکھ ہوگا۔
ایک اچانک موت آگئی کسی کو۔نئی جگہ،نیا ملک اور گھر والے سب پریشان تھے۔اب خاندان والے سب وہیں تھے مگر آپس میں کچھ رنجشیں تھیں جو میت کو سامنے پڑے ہوتے بھی نہ بھولائی گئی اور زبان پر آگئی۔یعنی ایک مرے ہوئے انسان سے زیادہ ضروری انسان کی آپس کی رنجشیں اہم ہوگئی ہیں۔یہ ہے روحانی پستی۔اور اس طرح دل بھی سخت ہو جاتے ہیں۔جس سے پھر اپنی انا سب سے زیادہ ضروری ہوجاتی ہے۔ اور جب رشتوں میں انائیں آجائیں تو زندگی ختم ہوجاتی ہے۔
روح کے بیمار ہونے کی وجوہات اللہ سے دوری ہے۔انسان گناہ کی طرف راغب ہوجاتا ہے۔گناہوں کی عادت سی ہوجاتی ہے اس کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔انسان توبہ تک نہیں کرتا۔
انسان کی ایک انوکھی فطرت ہے اور اس کا اثر انسان کی سوچ پر ہوتا ہے۔آج کل لوگ سمجھتے ہیں کہ ابھی گناہ کرلیتے ہیں جب اپنے تیسرے دن بستر پر ہوں گے تو اللہ سے معافی مانگ لیں گے اللہ تو غفور و رحیم ہیں وہ معاف کردیں گے۔
کبھی سوچا ہے کہ اگر وہ تیسرا دن بھی نصیب نہ ہوا تو کس منھ سے گناہوں کا بوجھ کندھوں پر اٹھائے اللہ کے حضور پیش ہونگے۔انسان یہ تک بھول جاتا ہے کہ اس کا آخری غسل بھی لوگ دیتے ہیں تاکہ جسمانی ناپاکی دور ہوجائے۔لیکن روح کی ناپاکی صرف توبہ سے دور ہوتی ہے اور اگر وہی نصیب نہ ہوئی تو۔؟
یہ چیز ہمارے معاشرے کو کبھی نہیں سدھرنے دے گی اگر کوئی سدھارنا چاہے تو بھی۔آج کل سب ملک چلانے والے بھی یہ بات بھول چکے ہیں کہ انھوں نے بھی قیامت والے دن دوبارہ اٹھائے جانا ہے اور حساب دینا ہے۔لیکن پھر بھی وہ عوام کو بھلائے صرف اپنے جام کی فکر کرتے ہیں۔یہ سب کیا ہے؟یہ روح کی کمزوری نہیں ہے تو کیا ہے؟
بری صحبت بھی انسان پر برا اثر ڈالتی ہے سب کو پتا ہے۔یہ روح پر بھی اثر کرتی ہے جیسے بری عادات کا عادی ہوجانا۔ہر وقت ذہن بری باتوں میں الجھے رہنا یا پھر سب سے بڑھ کر ٹوکسک یا نیگیٹو سوچنا۔اور اتنا کہ ہر طرف اپنے اندر کی گندگی نکال لر پھینک دینا۔اس کی سادہ مثال اسی ادب کے رکھوالوں کی دوں گا کہ بکسٹاگرام بھی کچھ وجوہات کے باعث ٹاکسک ہوچکا ہے جو سب کچھ کھوکھلا کر رہا۔آہستہ آہستہ یہی ٹاکسک ماحول میں رہنے کی وجہ سے انسان بھی اسی طرح کا بن کر ایسی جگہوں پر اپنا برا رویہ اختیار کر جاتا ہے جو اس کو روحانی پستی کی فہرست میں لے جاتی ہے۔
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔صرف ایک توبہ اپنے رب سے صرف ایک اس ذات کی یاد۔خود سے صرف ایک وعدہ کرنا ہوگا۔ہر گناہ چھوڑنے کا۔یہ نہیں کرنا کہ گناہ کرلیتے ہیں آخر میں توبہ کرلیں گے۔ایسا نہیں کرنا اگر کوئی گناہ ہوگیا ہے تو فوراً معافی مانگنی ہے۔غلطیاں ہوں گی گناہ ہونگے اللہ کو سب پتا ہے مگر وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا بندہ معافی مانگ لے تو میں معاف کردوں گا۔اپنا معمول بنا لیں عبادت۔اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوں۔اسلام بہت آسان دین ہے۔بس اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور کچھ نہیں۔نماز قائم کریں، خود کو اللہ کے قریب لے آئیں گناہ سے ڈرنے لگیں گے ہم۔
جسم کی ناپاکی تو دھل جاتی ہے مگر روح کی ناپاکی صرف جام سے دھلتی ہے اور جام بھی وہ جو ساقی نے دیا ہو
روح کا روح سے تعلق ہونا بہت ضروری ہے۔روح کا زندہ ہونا بہت ضروری ہے اور روح تب ہی زندہ رہتی ہے جب انسان کو زندگی جینے میں مزہ آرہا ہو۔نئی نسل جس کو جین زی کہا جاتا ہے،یہ تو مرنے کو تیار بیٹھی ہے اور وجہ کیا ہے؟ایک ناکام محبت۔
او یار ایک محبت کے پیچھے اس چیز کو گوا دینا جو امانت ہے؟
اور محبت تو وہ ہوتی ہے جو زندگی سنوار دے۔جو بگاڑ دے وہ تو دل لگی ہوتی ہے۔
یہ بھی ایک روحانی کمزوری ہے اور پستی کی وجہ۔کہ انسان اپنے آپ کو صرف ایک عشق مجازی کے پیچھے فنا کرلے۔محبت غلط نہیں۔محبت تو اسلام میں جائز ہے۔حضرت خدیجہ کو بھی
آپ ﷺسے محبت نہ ہوتی۔لیکن یہ جو ذہن بن گیا ہے کہ محبت نہ ملی تو جوگ لےکر ساری زندگی گزارنی ہے تو اپنا ہی نقصان ہوگا اور اگر کبھی ذہن میچیور ہوگیا تو شاید بہت دیر ہو چکی ہو۔یہ سب باتیں بھی روحانی پستی میں شمار ہوتی ہیں اور ان کی وجہ سے روح بیمار ہوتی ہے۔
اور اس کا حل بتا دیا ہے۔ایمان کی مضبوطی ہی روحانی مضبوطی کی کنجی ہے۔روز رات سونے سے پہلے خود کو دنیاوی سوچوں سے نکال کر اللہ سے رابطہ کریں معافی مانگیں گناہوں کی۔اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو بھی اللہ سے مانگیں ورنہ اگر لوگوں سے مانگیں گے تو صرف رانگ نمبر ہی ملے گا۔
ختم شدہ۔۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
