taqdeer e azal

Taqdeer e azal Episode 1 written by siddiqui

تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۱

کیا تم میرے چہرے پر خوشی لا سکتے ہو ؟ کیا تم میرے لیے کراچی آسکتے ہو 👀❤️

اِس وقت دوپہر کے تین سے چار بج رہے تھے۔ سورج کی نرم روشنی شاہ حویلی کی پرانی، مگر شاندار دیواروں پر پڑ رہی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی ایک منظر دل کو خوش کرنے والا تھا-ایک لڑکی تنہا، مسکراتی ہوئی، پورے شوق سے حویلی کو سجا رہی تھی۔

آج کا دن خاص تھا! شاہ حویلی کی شہزادی کی سالگرہ تھی، اور ہر چیز کو دلہن کی طرح سنوارا جا رہا تھا۔ لیکن اس لڑکی کی خوشی کی ایک اور وجہ بھی تھی-
آج وہ آ رہا تھا! سالوں بعد، اپنے گھر، اپنے شہر، فیصل آباد

ہر گوشہ روشنیوں اور رنگوں میں نہا رہا تھا، اور اس کے چہرے پر چمک کچھ الگ ہی تھی، جیسے کسی کے آنے کی بےتابی آنکھوں میں جھلک رہی ہو۔

ویسے میری پسند تو بہت اچھی ہے، لیکن پتہ نہیں، کیوں یہ میرا سوٹ تم پر اچھا نہیں لگ رہا زرتشا نے صوفے پر پاؤں پہ پاؤں چڑھائے، ہاتھ میں جوس کا گلاس پکڑے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا۔

وہ جو غبارہ پھلاتے ہوئے مسکرا رہی تھی، زرتشا کی آواز پر رکی اور پاس آ کر پوچھا،
ہمم، تو کیا آپ واپس لیں گی اب؟

زرتشا نے ہنستے ہوئے کہا،
ارے نہیں، میرے اب اس سوٹ سے دل بھر گیا ہے، تم ہی رکھو اسے، بس میں تمہیں یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ دیکھو، تم پر کوئی سوٹ اچھا نہیں لگتا، لیکن پھر بھی میں اپنا سٹائلش اور برانڈڈ سوٹ تمہیں دے دیتی ہوں۔
اس کا لہجہ بہت طنزیہ تھا، جیسے وہ اپنا سوٹ اُسے دے کر اُس پر بہت بڑا احسان کر رہی ہو۔

اُس نے مسکراتے ہوئے نرم اور پیار بھرا جواب دیا،
اوہ تھنک یو آپی، یہ تو آپ کا احسان ہے مجھ پر… وہ شکریہ ادا کرتی، نہایت شفیق انداز میں بات کر رہی تھی، اس کے لہجے میں نہ کوئی طنز تھا، نہ کڑواہٹ-بس پیار اور مٹھاس کی جھلک تھی۔

ہاؤ ڈر یو شٹ اپ!، جسٹ شٹ اپ! زرتشا کا موڈ ویسے ہی خراب تھا، اور اوپر سے اب کائنات نے اُسے “آپی” کہہ دیا تھا۔ اُس کے لیے یہ برداشت سے باہر تھا
کتنی بار سمجھایا ہے تمہیں، مجھے آپی مت بولا کرو وہ غصے سے چیخی۔

تم سے کوئی دس سال بڑی  نہیں ہوں میں، جو تُم  بار بار مجھے آپی کہہ کے اولڈ فیل کراؤ!
یہ کہتے ہی اُس نے میز پر رکھا پانی کا گلاس جھٹکے سے اٹھایا
اور  گلاس میں موجود پانی کائنات کے چہرے پر پھینک دیا۔
پانی کے چھینٹے کائنات کے بالوں اور کپڑوں پر بکھر گئے۔آئندہ مجھے آپی کہنے سے پہلے سو بار سوچنا، آئی بات سمجھ؟

جی کائنات سر جھکائے، اپنے دوپٹے سے منہ صاف کیا، خاموشی سے واپس اپنے کام میں لگ گئی ، کیونکہ اسے پورا گھر سجاتے ہوئے ابھی اور بہت کچھ کرنا تھا۔ اُس کے چہرے پر غصے یا مایوسی کا کوئی بھی نشان نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ جیسے پہلے کی طرح، مسکراتے ہوئے، کام میں مگن تھی۔ویسے ہی دوبارہ مگن ہوگئی تھی۔۔۔کیوں کہ اس گھر میں اُس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا ہی رہتا تھا تو جب ہوتا ہی رہتا تو بندہ کیا ہی اب اس کا روز روز دکھ منائے۔۔

اور ویسے بھی وہ خوش تھی اپنے گھر سے، اپنے گھر کے ہر فرد سے کیونکہ اُس نے اپنی فیملی کو ایسے ہی قبول کرلیا تھا اور دل سے کرلیا تو نہ وہ دل میں باتیں رکھتی نہ کچھ اور سوچتی کیونکہ وہ گھر کی سب سے اچھی لڑکی تھی صبر والی مہربان اور سب سے پیار کرنے والی، اچھے لوگوں سے تو سب ہی پیار کر لیتے ہیں لیکن وہ،  وہ تو بُرے لوگوں سے بھی پیار کرتی تھی، ایسا نہیں ہے کہ اُسے بُرا نہیں لگتا تھا، سب کو لگتا ہے ایسا کوئی کرے تو، لیکن اُس نے بس یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اللّٰہ ہے نہ وہ دیکھ رہا ہے، اور بس وہ سکون میں آگئی تھی، کیونکہ وہ صبر کرتی تھی صرف صبر نہیں اچھا صبر۔

زرتشا کے برابر میں بیٹھی اُس کی بہن زارا نے زرتشا کے کان میں سرگوشی کرنے لگی،
اس سب سے کچھ نہیں ہوگا، ایک تو وہ واقعی میں ہم سے بہت زیادہ پیاری ہے، ایسے یہ اگر پارٹی میں رہی نہ تو ارسم کبھی تُمہاری طرف نہیں دیکھے گا۔
زارا کی آواز میں ایک مخصوص چمک تھی، جیسے اس نے کوئی مکمل منصوبہ بنایا ہو۔
تو کیا کروں میں اس منحوس کا۔۔۔ زرتشا کی نظریں کچھ لمحے کے لیے زمین پر ڈوبیں، پھر وہ سر اٹھا کر زارا کو دیکھا۔
زارا نے فورا مشورہ دیا، ابھی تم اسے وہ والی ڈریس دو، جو تم نے میری برتھ ڈے پر پہنی تھی۔ بلیو والی۔ ارسم نے بھی اچھی طرح وہ ڈریس دیکھی ہوگی، اور ہمارے ارسم کا تو لیول ہے۔ ایسا لوئر کلاس لڑکی کو کبھی پسند نہیں کرے گا، جو کسی کے اُترن پہنتی ہو۔
زرتشا نے کچھ دیر سوچا، پھر اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی۔
ہاں، یہ اچھا آئیڈیا ہے۔

اتنے میں اسوان زینے سے اُترتا ہوا انہیں دکھائی دیا۔لمبا قد، چھ فٹ کے قریب، چوڑا سینہ اور چلنے میں ایک عجیب سا رعب اور سکون، جیسے ہر قدم ناپ تول کر رکھتا ہو۔چہرہ سانولا، آنکھیں سیاہ اور گہری۔ پلکیں گھنی اور ابرو خمدار، جو اُس کی شخصیت کو مزید پرکشش بناتی تھیں۔ بال قدرے لمبے، پیچھے کی طرف سیٹ کیے ہوئے، اور دو دن کی بڑھی ہوئی داڑھی اُس کے سانولے چہرے کو اور زیادہ پراثر بنا رہی تھی۔ اس نے گہرے نیلے رنگ کا پینٹ کوٹ  پہن رکھا تھا۔  اور ٹائی بڑی نفاست سے بندھی ہوئی۔ کوٹ کے کندھے اُس کے چوڑے جسم کو مزید نمایاں کر رہے تھے۔
کائنات۔۔۔ ادھر آؤ یہاں کیا کر رہی ہو، اور یہ تم اکیلے کام کر رہی ہو، سروانٹ کہاں ہیں سارے؟؟ وہ آتے ساتھ کائنات سے مخاطب ہوا
وہ پتہ نہیں۔۔۔ مجھے بس خالہ کا پتہ اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو میں نے بولا کہ آپ آرام کرلیں جا کر۔۔۔ وہ ادب سے کہتی، بہت پیاری لگ رہی تھی
اچھا، یہ سب چھوڑو, یہ میں دیکھ لونگا، تم جاؤ کھانا لے کر زیدان کے روم میں، اُس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے” اسوان نے کہا
میں دے کر آجاتی ہوں۔۔۔ کائنات کے بولنے سے پہلے ہی زارا جلدی سے کہا کیونکہ اُسے اسوان کو ایمپریس کرنا تھا اور اسوان کو ایمپریس کرنا ہے تو اُس کے بھائی کو مکّھن پولش لگاؤ
بالکل بھی نہیں، تمہیں دیکھتے ہی وہ اور چڑ جائے گا۔۔ اسوان نے فوراً ذرا کو منع کیا
پر۔۔۔بھائی۔۔۔وہ۔۔۔میں کیسے۔۔۔جاسکتی ہوں۔۔۔یہاں کا کام۔۔۔ اُس نے بہت مشکل سے اتنا جملہ بولا تھا کہ بس بھائی سمجھ جائے اور منع کردیں کہ اچھا نہ جاؤ،
میں نے کہا نہ یہاں کا کام میں دیکھ لونگا۔

اسوان نے سنجیدگی سے کہا بس اب تو کوئی راستہ نہیں بچا تھا کائنات کے پاس، اسوان نے کہہ دیا تھا اب تو اُس کو جانا ہی پڑے گا۔
جی اچھا۔ کائنات سر جھکا کر چپ سے کچن کی طرف چل دی پھر اسوان نے  ان دونوں کی طرف دیکھا
  زارا نے جلدی سے کہا۔ میں دیکھ لونگی۔
ہمم۔۔۔ پھر وہ باہر نکل گیا۔

ہائے اللّٰہ اتنا اچھا بنے کی ضرورت نہیں ہے میرا بچہ، اسوان تمہیں کبھی منہ نہیں لگائے گا، سنکی کہیں کا اپنی بے وفا بیوی کا  ایڈکٹ لڑکا ہے۔ زرتشا اتنی خودغرض لڑکی تھی کہ اُسے اپنے علاوہ اس گھر کے ہر بندے سے مسئلہ تھا۔۔
ارے اُس کی بیوی چار سال پہلے کب کی مر کھپ گئی، کبھی نہیں آئے گی وہ یہاں واپس زارا اُس کی بیوی کا سوچتے ہی چڑ کر بولی۔
اوہ مری نہیں ہے بھاگ گئی ہے اس سنکی انسان کو چھوڑ کر۔۔۔ زرتشا نے حقیقت بیان کی۔
اب تک تو مر گئی ہوگی۔۔إِنَّا ِلِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔۔۔ہم سب نے تو اُس کے جنازے کی فاتحہ بھی پڑھ لی ہے۔زارا نے آنکھیں موند کر طنزیہ انداز میں گردن ہلائی۔
زرتشا نے تیزی سے کہا، ہاں وہ تو اسوان نے بھی پڑھ لی ہے لیکن پھر بھی اسوان نہیں بھولتا اُسے یہ اب بھی اُس سے ہی محبت کرتا ہے۔
زارا کے چہرے پر ایک لمحے کو تیکھی مسکراہٹ آئی۔
تو کرتا رہے میں نے کب منع کیا ہے، بس مجھ سے شادی کرلے تاکہ میں ہمیشہ یہاں رہوں اور پیسوں میں کھیلوں۔
ہائے میری بچی کو پیسہ چاہئے۔ زرتشا نے زارا کے اتنے نیک نیک خیال سنتی  پیار سے کہا
ہاں پیسہ اور کئیرنگ جو کے دونوں اسوان کے پاس بہت سارا ہے
اوکے بےبی، ڈن تیرا اسوان میرا ارسم۔ زرتشا یہ کہتی خود بھی خوش ہوتی اور زارا کو بھی خوش ہونے پر مجبور کر گئی تھی
اتنے میں کائنات کچن سے کھانے کی ٹرے لے کر آئی اور دونوں سے مخاطب ہوئی
بھائی تو چلے گئے ہیں،آپ دونوں میں سے کوئی کھانا دے کر آجاؤ نہ، پلیز
اوہ ہیلو، پاگل ہو کیا ہم جائیں اُس سنکی پاگل کے کمرے میں؟ پتہ چلا کچھ پھینک کر مار دیا، اوپر سے اس گھر میں اسے کوئی کچھ بولتا بھی نہیں، ایک پاگل انسان کو گھر پر رکھا ہوا ہے، تم خود ہی جاؤ مجھے کوئی شوق نہیں موت کے کمرے میں جانے کا۔ زرتشا نے  تیز دھار لہجے میں کہا  جس پر کائنات کا اچھا خاصا منہ بن گیا کیا اب اسے ہی جانا پرے گا کیا اب اُس وحشی کے کمرے میں؟
کائنات نے اب ایک آس بھری نظر زارا پر ڈالی۔
اچھا لاؤ میں دے کر آجاؤ۔ زارا کہتی کائنات کے ہاتھ سے  کھانے کی ٹرے لے لی
اوہ پاگل ہو زرتشا، زارا کو حامی بھرتے دیکھ جلدی سے بولی
چپ کرو میں جا رہی ہوں دیکھنا وہ کھانا بھی کھائے گا اور بہت خوش بھی ہوگا کہ میں کھانا لے کر آئی ہوں۔ زارا نے  زرتشا کو چُپ کروایا۔
اسوان کو ایمپریس کرنے کے چکر میں اسوان کے بھائی سے ہی قتل ہوجائے گی۔ زرتشا دل ہی دل میں کہا اُسے اس وقت اپنی بہن سے  شدید ہمدردی ہو رہی تھی۔
تھینک یو سو مچ تم بہت اچھی ہو۔۔ کائنات نے خوش ہوتے ہوئے کہا  شُکر ہے کہ اب اُسے جانا نہیں پرے گا
ہاں تم یہاں کا کام دیکھو میں چلی اپنے دیور کے کمرے میں، وہ کہتی اب خوشی سے زیدان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی
ہاں بس جتنی خوشی سے جا رہی ہو نہ اتنی ہی خوشی کے ساتھ ہی واپس بھی آنا زرتشا پیچھے سے آواز دے کر کہا جس پر زارا نے صِرف اُسے مُسکرا کر دیکھا اور چل دی

———————

وہ ابھی یونیورسٹی میں ہی تھی، کہ اُس کے پاس اُس کے ابّو کا میسیج آیا
بیٹا آج میں تمہیں لینے نہیں آؤنگا تم رکشہ کر کے آجانا۔
اُس نے اوکے کا میسیج سینڈ تو کر دیا تھا لیکن اُس کا دل اب گھبرانے لگا تھا،کیوں کے یونیورسٹی کے باہر اکثر  لڑکے کھڑے رہتے تھے کھڑے، اور ابھی دس منٹ بعد ہی چھٹی ہونے والی تھی یہ گرلز یونیورسٹی تو تھی لیکن فیصل آباد کی نمبر وون یونیورسٹی تھی جس کی وجہ سے امیر امیر لڑکیاں بھی اسی یونیورسٹی میں آتی تھی۔ ویسے تو یونیورسٹی کا ماحول تو بہت اچھا تھا اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی پڑھائی کرنے میں لیکن باہر کا؟ یونیورسیٹی کے باہر کا ماحول بلکل اچھا نہیں تھا آوارہ آوارہ لڑکے یونیورسٹی کے باہر بیٹھے رہتے تھے اوپر سے بہت سے لڑکے اس یونیورسٹی کی لڑکیوں کی وجہ سے ہی اینڈ چھٹی ٹائم آکر بیٹھ جاتے تھے۔ اور باقی لڑکیوں کو تنگ کرتے تھے۔ اور جب یونیورسیٹی گارڈ انکل پوچھتے کے تُم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو، تو کہتے کہ ہم اپنی بہن ۔ اپنی کزن کو لینے آئے ہیں۔ لیکن ان کی بہن نہیں ہوتی ہاں لیکن گرلفرینڈ ضرور ہوتی ہیں۔ اور وہ جھوٹ جھوٹ کہہ دیتی تھی کہ ہاں یہ میرا بھائی ہے،اب بھی وہ چھٹی ہونے کے بعد باہر نکلتی ہی تھی کہ کچھ لڑکے فوراً ویسے ہی اُس کے پیچھے آکر کھڑے ہوئے
لگتا ہے آج آپکے ابّو نہیں آئیں گے آپ بُرا نہ مانے تو ہم چھوڑ دیں آپکو، آپکے گھر۔۔۔
اُسے غصّہ تو بہت آیا لیکن وہ تماشا نہیں لگا سکتی تھی ان کو مار کر ، کیوں کے ایک دفعہ اس نے کیا تھا یونیورسٹی سے نکلتے نکلتے بچی تھی ،ان لڑکوں کا تو کچھ نقصان نہیں ہوا تھا سارا کا سارا نقصان پریشے رؤف کا ہی ہوا تھا،
ارے اتنا کیا سوچ رہی ہیں دیکھیں ہم اپنی بائک پہ آرام سے چھوڑ دیں گے آپکو۔
پھر اُسے وہیں ایک سیاہ رنگ کی ڈبل ڈور گاڑی نظر آئی اور  اُس نے سکون کا سانس لیا، اور جلدی سے جا کر اُس کار میں بیٹھ گئی۔

———————–

زارا نے زیدان کے کمرے میں قدم رکھا۔ زیدان کا کمرہ عیش و عشرت سے سجا ہوا تھا، جیسے کسی بادشاہ کا محل ہو، اور وہ خود اپنے راجہ کی طرح بستر پر لیٹا ہوا تھا،
زارا نے کھانے کی ٹرے ہاتھ میں تھامی اور آہستہ آہستہ اسے میز پر رکھا۔
دیکھو تو، کون تمہارے لیے کھانا لے کر آئی ہے، زارا لے کر آئی ہے تمہارے لیے کھانا۔
وہ بڑی محبت سے کہہ رہی تھی
مگر زیدان کی آنکھوں میں کوئی خاص نظر نہیں آتا۔ وہ غصے میں، جیسے کسی خواب سے بیدار ہو کر، بیزاری سے بولا، کیا میں نے تم سے کچھ مانگا تھا؟
وہ چلاتا ہوا، بے چین ہو کر اپنے سائڈ ٹیبل پر پڑی وائن کی بوتل اٹھاتا پوری قوت سے اس پر پھینک دیا۔ بوتل سیدھی زارا کے سر پر جا کر لگی ، اور فوراً خون کی دھار اس کے ماتھے سے بہنے لگی۔
آہ! آہ! زارا کی چیخ گونجی، اور وہ روتے ہوئے تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ اُس کا کیا بھروسہ کچھ اور اٹھا کے دے مارے۔
زیدان شاہ، اس گھر کا سب سے چھوٹا اور لاڈلا بیٹا۔ جس نے اپنی زندگی کے ہر لمحے میں عیش و آرام کو ترجیح دی تھی، جس کا ہر عمل خودغرض تھا، اور جو ہر وقت نشے میں مست رہتا تھا۔ اس کا اخلاقی بگاڑ اتنا شدید تھا کہ نہ چھوٹوں کا ادب تھا، نہ بڑوں کا احترام، اور اس کی زندگی میں بس ایک ہی چیز تھی-اپنی مرضی۔
“آہ! آہ!” زارا کا درد بھرا سر پکڑ کر چلانا دوبارہ سنائی دیا ۔ وہ تیزی سے زینے سے اُترتی نیچے آئی اور اس کے چہرے پر خون کی لکیریں صاف دکھائی دے رہی تھی
زرتشا فوراً دوڑ کر اس کے پاس آئیکیا ہوا؟ زرتشا نے فوراََ اُسے صوفے پر پکڑ کر بیٹھایا،
اُس سنکی نے کیا نہ یہ  میں نے کہا تھا تمہیں، کہ اس کے پاس نہ جاؤ!
کائنات بھی بے چین ہو کر اس کے قریب آئی،کیا ہوا؟
زرتشا فوراً کائنات کو حکم دیا،جا کر میڈیکل بوکس لے کر آؤ، سر سے خون کتنی تیزی سے بہ رہا ہے۔
کائنات فوراً میڈیکل بوکس لے کر آئی اور زارا کی پٹی کرنے لگی
کہا بھی تھا تمہیں، نہیں جاؤ اُس سنکی کے پاس، اسی کو بھیج دیتی، زرتشا نے غصے سے زارا کو گھورتے ہوئے کہا
میں نانی کو بُلا کر لاتی ہوں۔ کائنات کہتی زارا کے سر کی  پٹی کر چکی تھی
کوئی ضرورت نہیں ہے،اور یہ سب تُمہاری وجہ سے ہی ہوا ہے، ابھی تُم اگر خود چلی جاتی تو ایسا نہیں ہوتا، اب آئندہ تُم نے اپنا کام کسی اور کے سر پر ڈالا نہ تو اچھا نہیں ہوگا۔ زرتشا نے انگلی اٹھا کر کائنات کو وائرنگ دی
میں جاتی تو وہ مُجھے بھی مار دیتے۔ اُس نے معصومیت سے کہا
تو مار دے! تُمہاری پرواہ کسے ہے،يوں نوں وہٹ، ہم دونوں کوئینز ہیں اور ہم اُس کی مار کھانے کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں،تُم ہوئی ہو۔
وہ تیز لہجے میں کہتی بہت کُچھ کائنات پر واضح کر چُکی تھی
کیا ہوتا جو وہ تھوڑی سی جھوٹ منہ ہی کائنات کی پرواہ کر لیتی تو، کائنات کو بُرا لگا لیکن وہ تو شہزادی ہے اور ایسا وہ نہیں اُس کا اللّٰہ کہتا ہے یہ سوچ وہ خوش ہوگئی۔۔

۔ـــــــــــــــــــــــــــ

زہ نصیب وہ مسکراتے ہوئے پیچھے مڑا، لیکن اگلے ہی پل پریشے کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگیا، کیا ہوا؟؟

ٹھیک ہے — میں نے صرف ڈبل کوٹس ( ” ) ہٹا دیے ہیں اور ڈائیلاگ کو ہائی لائٹ کر دیا ہے، باقی سب کچھ بالکل ویسا ہی رکھا ہے۔

کچھ نہیں ہوا، بس آپ مُجھے گھر چھوڑ دیں، آج بابا لینے نہیں آئیں گے۔ پریشے نے نارمل لہجے میں، اپنی کیفیت چھپاتے ہوئے کہا۔

اچھا، وہ تو میں چھوڑ دوں گا، لیکن اگر کوئی مسئلہ ہے تو تم مجھے بتا سکتی ہو؟ اسوان نے نرمی سے کہا۔

نہیں، کوئی مسئلہ نہیں ہے، بس آپ مُجھے گھر چھوڑ دیں۔

اچھا، ایسے پیچھے بیٹھ کر جاؤ گی؟ آگے آ کر بیٹھ جاؤ۔ اسوان نے چہرے پر مسکراہٹ لیے کہا۔

نہیں، میں یہیں ٹھیک ہوں۔۔ پریشے نے ہلکے سے کہا۔

کیا یار،  میں کہاں تمہارا شوہر بننے کے سپنے دیکھ رہا ہوں، اور تم نے مجھے دو سیکنڈ میں ڈرائیور بنا دیا۔ اسوان نے بیچارگی سے، شرارت سے کہا۔

پریشے مسکراتے ہوئے، چھیڑنے کے موڈ میں تھی
ڈرائیور بنا سکتی ہوں، میں تو اپنا شوہر بھی بنا سکتی ہوں، لیکن میں نے ابھی شادی نہیں کرنی۔ اوور آل میری ابھی شادی کی عمر نہیں ہوئی، اور آپ کی ہو گئی ہے، تو بہت کم چانسز ہیں ہماری شادی کے، سو ابھی بھی وقت ہے اسوان دیارِ شاہ، راستہ بدل لیں اپنا۔

سوچنا بھی مت، میں پیچھے نہیں ہٹنے والا، اور کہا نہ، محبت ہو تم میری، ایسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ وہ ایک دم سنجیدہ ہوچکا تھا۔
پھر گاڑی سٹارٹ کر دی۔
اور میں نے کب منع کیا ہے؟ شروع سے کہا ہے، اسٹڈی شادی کے بعد بھی کنٹینیو کروا دوں گا، اب بچھڑے دل کو ایسا تو نہ آزماؤ۔

پریشے نے شیشے میں اُس کا چہرہ دیکھتے کہا،
اپنے دل کو بولیں کہیں اور دل لگا لے۔

مجھے پر بھروسہ نہیں ہے کیا؟ اسوان نے سامنے لگے شیشے میں اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

پریشے نے دل میں سچ چھپاتے ہوئے کہا،
نہیں۔۔۔ (اللّٰہ جی! جھوٹ بولنا گناہ ہے، لیکن اگر سچ بول دیا تو خسارے میں چلی جاؤں گی) دِل ہی دل میں بڑبڑائی ورنہ یہ تو وہ شخص تھا جس پر وہ آنکھ بند کر کے یقین کرتی، تبھی تو بغیر جھجک اس کی گاڑی میں آ بیٹھی تھی۔

اسوان نے مسکراتے ہوئے کہا،
ٹھیک ہے، پھر ایگریمنٹ بنوا لیتا ہوں۔۔ وہ بھی جانتا تھا وہ پریشے رؤف کا بھروسہ جیت چکا ہے۔

پریشے ہنسی، آپ کے ایگریمنٹ پر بھی بھروسہ نہیں ہے، اب کیا کریں گے؟

دیکھو تو، میری گاڑی میں بیٹھی ہو اور مجھے ہی چیلنجز کر رہی ہو، اٹھا کے لے گیا نہ، تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ لڑکی گئی کہاں۔

پریشے نے اکڑ کر کہا، لے جا کر دکھائیں، اچھا، گاڑی گھر سے تھوڑا دور روکیے گا۔

ہاں ہاں، جانتا ہوں میں آپ کے محلے والوں کو۔

پریشے نے مزے لیتے ہوئے کہا، ہاں نا، ہمارے محلے میں سب شریف لوگ رہتے ہیں، ایسا بدمعاش بندہ دیکھتے ہیں تو ڈر جاتے ہیں۔

اچھا،اب بدمعاش بھی بنا دیا، اب تو اٹھا کے لے جانا ہی پڑے گا۔

پریشے نے چھیڑتے ہوئے کہا، ارے ایسا کرے گے تو شادی کیسے کرے گے؟

یہ جو تُم بار بار میری غیرت کو جگانے کی کوشش کر رہی ہو تو ایسے ہی ہوگی پھر شادی۔ اسوان نے شرارت سے کہا۔

ارے میں تو چاہتی ہوں، کہ آپ پیچھے ہٹ جائیں۔

اسوان نے سنجیدگی سے کہا، اس بدمعاش نے کہا تو ہے محبت ہو تُم میری ایسے ویسے پیچھے نہیں ہٹنے والا ہوں تُم جتنی بھی کوشش کرلو، تمہیں مسز اسوان دیار شاہ بنا کے ہی رہوں گا۔۔

پریشے نے باہر دیکھتے ہوئے کہا، دیکھیں، گھر آنے والا ہے، بس یہیں اُتار دیں مجھے۔

اسوان دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، جیسے تم مجھے اور میری محبت کو اگنور کرتی ہو نا، ایسے ہی اگر میں تمہاری پسند کو اگنور کر دیتا، تو تم کب کی میری دلہن بن چکی ہوتیں۔

بھول ہے آپکی بابا کبھی نہیں مانتے اگر میں نہیں مانتی تو،

بھول آپکی ہے میڈیم، میں کوئی ایوئی لڑکا نہیں ہوں فیصل آباد کا سب سے بڑا بزنس مین ہوں اوپر سے شاہ کمپنی کا اؤنر بھی ہوں، بھلا مُجھے کوئی رشتے سے کیسے منع کر سکتا ہے۔

يا اللّٰہ آپ کیوں نہیں سمجھ رہے مُجھے ابھی شادی نہیں کرنی، اُس نے منہ بناتے معصومیت سے کہا۔

یا اللہ آپ کیوں نہیں سمجھ رہے مُجھے ابھی شادی کرنی ہے۔ اُس نے بھی اسی کی انداز میں معصومیت سے کہا۔

ابھی اُسے مجبوراً گاڑی روکنی پڑی کیونکہ اس کے آگے وہ اُسے نہیں لے جا سکتا تھا — اس کے آگے اُس کا مڈل کلاس محلہ شروع ہو جاتا تھا اور پھر وہ جب اسوان کو دیکھتے تو عجیب طرح کا ریاکٹ کرتے تھے، جو اسوان کو بکل پسند نہیں تھا۔ ہلکے وہ اُن سب کا پیار ہی ہوتا تھا لیکن اسوان کو اُن سب کا یہ عجیب پیار پسند نہیں تھا — گال چومنا، ہاتھ چومنا، تو اُن کے آتے ہی سب گہرے جمع کر کھڑے ہوجاتے۔ اور رہی بات پریشے کی تو وہ اسوان کو اپنے وجہ سے نہیں بلکہ اسی کے وجہ سے منع کر رہی تھی؛ باقی محلّے والوں کو تو ویسے ہی پتہ تھا کہ اسوان کا رشتہ آیا ہے پریشے کے لیے لیکن پریشے نہیں مان رہی،

اوکے، تھینک یو، اللّٰہ حافظ۔۔ وہ کار کا دروازہ کھولتی مڑ کر اسوان کی طرف دیکھ کر کہا، جس پر اسوان صرف ہلکا سا مسکرایا اور وہ گاڑی سے اُتر گئی۔

اسوان نے دل میں کہا، جیسے خود سے وعدہ کر رہا ہو، مس پریشے رؤف، دو سال سے آپ کے پیچھے لگا ہوں، اور ایک آپ ہیں، کہ آپ کے نخرے ہی ختم نہیں ہو کے دے رہے، بس اب نہیں، اب اور انتظار نہیں ہو گا مجھ سے، اب تو اسوان شاہ کے پاس آنا ہی ہوگا۔

——————-

ابھی تو تُم اسوان کو آنے دو اُس کو بتاتی ہوں میں کے اُس نے تمہیں کہا تھا کھانا لے جانے کو اور تُم نے زارا کو بھیج دیا پھر دیکھنا وہ بتائے گا تمہیں۔۔ زرتشا نے غصے سے کائنات سے کہا اور اب کے کچھ تھا جو کائنات کو ڈسٹرب کر گیا تھا ایک دم سے اُسے خوف آنے لگا تھا۔، اسوان بھائی اگر اسوان بھائی کو پتہ چل گیا اور وہ اُس سے ناراض ہوگئے تو، اس پورے گھر میں ایک اسوان بھائی ہی تو تھے جو کائنات کو سمجھتے تھے اور وہ جب چاہتی تھی تب اسوان بھائی اُسے سپورٹ کرتے تھے اور ابھی اُس کا کالج ختم ہوا تھا اور یونیورسٹی بھی وہ اسوان بھائی کی وجہ سے ہی جا پائے گی لیکن اگر وہ ناراض ہوگئے تو۔۔۔تو کیا ہوگا، نہیں نہیں وہ اُن کو ناراض نہیں کر سکتی تھی کبھی نہیں، اتنے میں کائنات کو نانو آتے دکھائی دی

اے اس کو کیا ہوا، وہ قریب آتے زارا کے سر میں پٹی بنی دیکھ فکرمندی سے پوچھا۔

کیا ہونا تھا دادی یہ سب اس منحوس کی وجہ سے ہوا ہے، زرتشا نے اب بھی تھوڑا سا بھی لحاظ نہیں کیا تھا۔۔کائنات کا دل چاہا وہ دو تھپڑ مار ڈالے زرتشا کو،
اہ ہ کاش وہ مار پاتی اور کوئی اُسے پھر کچھ نہ کہتا اور وہ جو لوگ کہتے ہیں تُم ان پر صبر کرو۔ کائنات کو اُس کے اپنے رب کی کہی ہوئی بات یاد آئی تھی اور ایک بار پھر اُس کا دل سکون میں آگیا تھا  وہ بہت غلط کر رہی تھی اپنے ساتھ نہیں زرتشا کے ساتھ وہ اُس کا اور اپنا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ رہی تھی وہ چاہتی وہ بھی الٹا سیدھا زرتشا کو بول دیتی اور بات یہیں ختم ہوجاتی حساب برابر، لیکن وہ صبر کر کے اپنا سارا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ رہی تھی اور تُمہارا رب بہترین حساب لینے والا ہے۔

صحیح سے بتا میرے کو۔
رضیہ بیگم کے کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔

دادی یہ، کائنات اس کو بولا تھا اسوان نے کے کھانا لے جائے زیدان کے روم میں لیکن اس نے زارا کو دے دیا اور اب دیکھیں زیدان نے کیا کیا، زارا کے ساتھ
زرتشا نے تفصیل سے بتایا اور رضیہ بیگم  ابھی کائنات کو کچھ الٹا سیدھا کہنے ہی والی تھی کے روک گئی اُن کو تو لگا تھا کہ صِرف کائنات کی بات ہے لیکن یہاں تو زیدان۔
اے تو کیوں نہیں لے کر گئی؟؟ کھانا زیدان کے کمرے میں،
اب رضیہ بیگم  کائنات سے پوچھنے لگی تھی

وہ۔۔۔۔نانو مُجھے۔۔۔۔۔ ڈر لگتا ہے۔۔۔۔ اُن کے روم میں جانے سے۔۔۔۔ اُس نے ڈرتے ڈرتے کہا  اس گھر میں کسی نے اُسے اتنا کنفورت نہیں کیا تھا کہ وہ آرام سے جو بھی بات ہو کر سکے۔

اے کھا نہیں جائے گا وہ تیرے کو جو ڈر لگتا ہے۔۔ رضیہ بیگم کو کہاں فکر تھی اپنی نواسی کی نہ اپنی پوتی کی فکر تھی تو بس دونوں پوتے کی، پوتی اسی لیے اس گھر میں خوش تھی کیوں کے اُس کا باپ زندہ تھا اور نواسی اور اُس کی ماں دونوں ہی بوج تھی،

نانو،کل میں گئی تھی کھانا دینے تو اُنہوں نے میرے اوپر بھی پتہ نہیں کیا پھیک مارا تھاوہ تو اچھا ہوا میں وقت رہتے سائڈ ہوگئی تھی تو مُجھے لگا نہیں، اگر لگ جاتا تو، اور اگر آج میں جاتی تو زارا کی جگہ میں ہوتی۔
اب اُس نے اپنی ساری بات کہہ ڈالی 

ہاں تو جان سے نہیں مار دیتا تیرے کو وہ، دیکھ کائنات میری سن جو کام تیرے کو ملتا ہے کرنے وہ چپ چاپ کیا کر ورنہ ابھی تو جانتی نہیں میرے کو رضیہ بیگم اب کُچھ اور بھی کہنے لگی تھی کہ اُنہیں اسوان داخلی دروازے سے اندر آتے دکھائی دیا۔

اے کہاں گیا تھا تو اتنے دوپہر کو ؟ آج پتہ بھی ہے پری واش کا سالگرہ ہے۔
وہ اب کائنات کو چھوڑ اسوان سے مخاطب تھی۔

ہاں دادی میں جانتا ہوں، اتنا لکی دن میں کبھی بھول سکتا ہوں کیا، کہاں ہے ویسے میری لاڈلی؟ ایک الگ ہی چمک دیکھائی دے رہی تھی اس ٹائم اُس کے چہرے پر۔
وہ سو رہی۔۔۔ اچھا ہے ابھی نہ اٹھانا اُسے شام میں ہی سرپرائز کے وقت اٹھائے گے اُسے.

تمہیں کیا ہوا۔ اب اسوان کی نظر زارا پر پڑی، ابھی اُس کے جاتے وقت تو اچھی بھلی تھی

آپ کے لاڈلے بھائی کا کارنامہ ہے۔ زرتشا نے سیدھا طنز بھرا جملہ بولا تھا

کیا مطلب ؟؟ اسوان نے ناگواری سے کہا

آپکے بھائی کے کمرے میں گئی تھی اور ایسے باہر آئی۔ زرتشا نے کہا

لیکن ۔۔۔ تُم۔۔۔۔ تُم کیوں گئی اُس کے کمرے میں ۔۔ اب اسے شدید غصّہ آیا تھا اور زارا اُسے تو ویسے ہی اتنا درد ہورہا تھا اوپر سے زرتشا نے یہ کیا کردیا تھا۔۔

اوہ ہیلو اُسے کیا بول رہے ہو اس سے پوچھو نہ۔
اُس نے  کائنات کی طرف اشارہ کیا

اس نے بھیجا تھا کھانا لے کر زارا کو کمرے میں کیوں کہ مہارانی کو خود نہیں جانا تھا
اور جیسے زرتشا نے کہا ویسے کیا

اے چھوڑ یہ دونوں کو پاگل ہے ابھی ہم جاتے ہیں دیکھ کر آتے زیدان کو۔۔۔۔ رضیہ بیگم کہتی یہاں سے نکل گئی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی ابھی یہ تو کائنات کو اسوان سنانے والا ہے یا زارا کو، ایسے میں وہ بڑی یہاں کھڑی اچھی نہیں لگے گی اسی لیے وہ ایسا کہتی یہاں سے نکل گئی تھی وہ پورا شے دیتی تھی اپنے پوتے کو لو میں ساتھ ہوں تُم جو چاہو وہ کرو

بھائی ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ میں،
کائنات نے اب  ڈرتے ڈرتے بولنا شروع کیا اُس کی بات پوری ہو اس سے پہلے ہی اسوان اپنے ہاتھ سے اشارے سے اُسے روک دیا

کوئی بات نہیں ہے، میں نے تمہیں اس لیے کہا تھا کہ یہ دونوں جب بھی زیدان کے پاس جاتی ہیں تو کوئی نا کوئی الٹی حرکت کر کے آتی ہیں جس کی وجہ سے زیدان کو غصّہ آجاتا،اسی لیے میں نے تُم سے کہا تھا تُم چپ سے جاتی اور کھانا رکھ آتی وہ کھالیتا، لیکن خیر ہے کوئی بات نہیں، زارا کو چوٹ اُس کی اپنی غلطی کی وجہ سے لگی ہے،اس نے ضرور اندر جا کر کچھ الٹا بولا ہوگا زیدان کو جس وجہ سے اُسے غصّہ آگیا۔
وہ زارا پر ایک طائرانہ نظر ڈالتا  اور پھر واپس سے کائنات کو دیکھنے لگا زرتشا تو ہکا بکا اسوان کو بولتے سن رہی تھی، زیدان کی تو سائڈ وہ لیتا رہتا تھا وہ نئی بات نہیں تھی اُس کے لیے پر کائنات ؟ وہ اچانک کائنات کی سائڈ کیوں لے رہا تھا یہ بات اُس کے سمجھ نہیں آرہی تھی

تمہیں مُجھے صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے، میں جانتا ہوں تمہیں بھی، اور اِسے بھی، اب تُم جاؤ پھوپھی کی مدد کرو دیکھو وہ اکیلے کچن میں کام کر رہی ہیں، اب کے اُس کا لہجہ نرم تھا بہت ہی نرم کائنات کی خوشی کا تو ٹھکانا نہیں تھا۔

جیوہ جلدی سے جی کرتی یہاں سے غائب ہوگئی۔

اور ہاں اب تُم دونوں۔ وہ غصّے میں دونوں کو گھورتا یہ اسوان کہیں سے بھی وہ اسوان نہیں لگ رہا تھا جس نے ابھی کائنات سے اتنے اچھے سے بات کی تھی جس نے ابھی کُچھ ٹائم پہلے پریشے سے بات کی تھی، وہ اب شدید غصے میں لگ رہا تھا۔

جب میں نے منع کیا تھا کہ تُم نہیں جاؤ گی زیدان کے روم میں تو پھر کھانا لے کر کیوں گئی تُم،ہاں۔ وہ بہت تیز زارا کے اوپر دھاڑا تھا، زارا نے ڈر کے مارے اپنی آنکھیں میچ لی تھی،ایک تو سر میں درد اوپر سے اسوان کا چلانا۔

اوہ ہیلو اس پر کیوں چیخ رہے ہو میں نے کہا نہ کہ کائنات نے بھیجا تھا اسے۔ زارا چپ تھی تو کیا اُس کی بہن، اُس کی بہن تو تھی نہ،

ہاں اور جیسے کے میں تُم دونوں کو جانتا نہیں ہوں نہ،اُس نے بولا اور یہ چلی گئی، تُم دونوں کو میں لاسٹ بار سمجھا رہا ہوں زیدان سے دور رہو ، اور ہاں کائنات سے بھی ، کہیں ایسا نہ ہو کائنات کو پھسانے کے چکر میں تُم لوگ خود ہی پھنس جاؤ وہ کہہ کر روکتا نہیں تھا سیدھا اندر پری واش کے روم کی طرف چلا گیا 

ہنہ دیکھ لو اس سنکی پاگل کو اور تمہیں یہ چاہئے۔۔
ذرتشا نے اکڑا کر کہا

چپ کرو زرتشا تُم نے سب خراب کردیا ہے اب میں اسوان کے دل میں اپنی جگہ کیسے بنا پاؤں گی یار۔ وہ روتی بھلتی اپنے روم کی طرف چلی گئی ایک تو درد اوپر سے اسوان کی باتیں،

واٹ ایور اُسے کہاں فرق پڑنا تھا، اُسے بس لڑنے میں مزا آتا تھا اپنی بہن کی اتنی فکر تھی نہیں اُس کو جتنا وہ دیکھتی تھی

——————–

ابھی وہ اپنے محلے میں داخل ہوئی ہی تھی کہ رشیدہ خالہ نے اُسے پکڑ لیا
آج پھر اسوان کے ساتھ آئی ہے نہ؟

نہیں دادی پریشے نے صاف منہ پر جھوٹ بولا

جھوٹ مت بول، وہ آنکھیں سکیڑ کر اُسے دیکھتی بولی،یہ محلے کی سب سے بزرگ خاتون تھی بچپن سے لے کر اب تک یہیں موجود تھی محلے کی ہر چھوٹی سے بڑی بات کا علم انہیں ہوتا تھا اور محلے کے سب ہی لوگ انہیں صرف دادی کہتے نہیں مانتے بھی تھے، اور اسوان کے بارے میں تو محلے کے سب ہی لوگ جانتے تھے،اسوان نے دو سال پہلے پریشے کے گھر میں رشتہِ بھیجا تھا اور جب اس چھوٹے سے محلے میں کسی امیر گھر سے رشتہِ آئے تو شور نہ ہو ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا، اسوان کے رشتے کی خبر محلے کی سب ہی لوگوں کو ہوگئی تھی اور پھر،پھر کیا ہُوا سب کے اتنے بولنے کی باوجود پریشے نے رشتے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اُسے ابھی پڑھنا ہے، واقعی دو سال پہلے تو بہت چھوٹی تھی یونی میں ایڈمشن ہی لیا تھا کہ رشتہِ آیا، سو گھر والوں نے بھی پریشے کی بات مان لی اور انکار کردیا،تب اسوان نے کہا تھا میں انتظار کرونگا لیکن شادی تو پريشے سے ہی کروں گا، تب ہی محلے والے سمجھ گئے تھے رشتہِ ایسی ہی نہیں آیا اسوان پسند کرتا پريشے کو، اور اُس کے بعد ایک دو دفعہ وہ محلے میں آیا بھی،اور اتفاقاً جب کبھی پریشے کو آنے میں مسئلہ پیش آتا تو وہی اسے گھر ڈراپ کرتا،اور اس بار بھی رشیدہ خالہ کو شک ہوگیا تھا

ہاں دادی شرمندگی سے اُس نے اپنا سر جُھکا لیا تھا

ہم تو بول رہے ہیں کرلے اُس سے شادی ،شادی کے بعد پڑھنا رشیدہ خالہ نے کہا

آپ بھی جانتی ہیں اور میں بھی شادی کے بعد صِرف ذمےداریاں ہوتی ہیں پڑھائی نہیں،جیسے ہی میری پڑھائی ختم ہوگی میں کرلو گی اُس سے شادی۔

اچھا جا اب گھر جا آرام کر۔۔۔  رشیدہ خالہ اپنے مسعود انداز میں کہتی واپس سے اپنے کرسی میں جا کر بیٹھ گئی، وہ ایسے ہی سارا دِن اپنے گھر کے باہر کُرسی لگائے بیٹھی رہتی تھی۔
اچھا دادی خدا حافظ۔ وہ ابھی کچھ قدم ہی دور تھی اپنے گھر کے کہ بچوں کا جھونگ گھروں سے نکلتا دیکھائی دیا اور کچھ بچے آپی آپی کرتے اس کر پاس آچکے تھے، یہ وقت محلے کے سبھی بچوں کا مدرسہ کا وقت تھا، محلے میں ایک مدرسہ اور ایک ٹیوشن اور محلے کے سارے بچے اُدھر ہی جمع
مدرسہ چلے جاؤ نہیں تو دیر ہوجائے گی اور پھر ملتے ہیں نہ شام کو پھر باتیں کرے گے اور کھیلیں گے بھی۔۔ پريشے نے سب کو دیکھتے پیار سے کہا
شام کو پکّا کھیلنے آنا باہر، اُن سب بچوں میں سے ایک بچہ بولا
ہاں ہاں پکّا آؤنگی، پریشے کے وعدہ کرتے ہی سارے بچے اب اپنے مدرسہ کی طرف بڑھ گئے

اسلام وعلیکم عارف چچا، عارف چچا ابھی گھر آکر کھانا کھانے کے بعد واپس اپنے اسٹور ہی جا رہے تھے پریشے کی نظر اُن پر پڑی تو ہمیشہ کی طرح آج بھی اُس نے اُنہیں سلام کیا۔
وعلیکم اسلام اور بتاؤ پڑھائی کیسی جا رہی ہیں؟ وہ اب اُس کے بس آتے خوش دلی سے کہتے ایک تو جیسے پریشے کو اپنی پڑھائی کی فکر تھی ویسے ہی اس محلے کے رہنے والے ہر بندے کو بھی، کیوں کہ وہ محلے کی پہلی لڑکی تھی،جو اتنا زیادہ اور آگے پڑھ رہی تھی اور جس کی بدولت محلے کی اور بھی لڑکیاں یورنیورسٹی جانے لگی تھی۔
ہاں الحمداللہ آپ سنائے دکان کیسی چل رہی ہے۔
بس اللّٰہ کا کرم ہے،اب جاؤ گھر آرام کرو گھر جا کر میں بھی دکان جارہا ہوں۔ وہ یہ کہتے آگے کی طرف بڑھ گئے
اللّٰہ حافظ وہ پیچھے سے مُسکراتے کہتی جس پر وہ پلٹ کر ہاتھ سے اشارہ کرتے چلے گئے اور وہ بھی اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی۔

——————

امّا آپ کو پتہ ہے اسوان بھائی بہت اچھے ہیں۔ وہ کچن میں آتی مریم بیگم سے کہتی جو معمول کے حساب سے کھانا تیار کر رہی تھی

اچھا۔ اُنہوں نے بس اتنا ہی کہا۔

ہاں امّا، کم سے کم اس گھر میں کوئی تو ہے جو مُجھے سے محبت کرتا ہے آپکے علاوہ ورنہ سب ہی پتہ نہیں کیا سمجھتے مُجھے۔

چلو یہ تو اچھی بات ہے نہ کائنات۔ اُنہوں نے پیار سے کہا
امّا ویسے مجھے آج ایک چیز بہت عجیب لگی، زارا کو چوٹ لگی تھی اُن کی وجہ سے اور نانو کو زارا کی فکر ہی نہیں کوئی، مُجھے لگا اس گھر میں صرف آپ کے اور میرے ساتھ ایسا ہوتا کیوں کے ہم بوج ہے ان سب پر،لیکن زارا؟ کائنات کو اُس سے اتنا خوف آتا تھا کہ وہ اُس کا نام تک اپنی زبان پر نہیں لیتی تھی کے کہیں وہ سن نہ لے، کہ کہیں کوئی اُسے بتا نہ دیں

ہاں تو امّا جان کو اپنے سارے بچوں میں سب سے زیادہ وہ پیارا ہے، وہ لاڈلا ہے،بات جب اُس پر آئے گی تو وہ ہر بار ایسا ہی کرے گی،اور اس گھر میں ویسے بھی لڑکیوں کو اتنا پیار نہیں ملتا

لیکن کیوں اما؟ کائنات نے سوال کیا۔

کیوں کے بیٹیوں کو ہمیشہ پرایا سمجھا جاتا ہے کائنات۔ مریم بیگم نے آہ بھری اور سبزی کاٹتے ہوئے کہا۔ ماں باپ بھی دل میں جانتے ہیں کہ ایک دن یہ پرائے گھر کی ہو جائیں گی، اور بیٹے، بیٹے تو اپنی جڑوں سے جُڑے رہتے ہیں۔ اس لیے اُن کو زیادہ لاڈ، زیادہ حق دیا جاتا ہے۔

کائنات خاموشی سے مریم بیگم کو دیکھتی رہی۔ اُس کے دل میں عجیب سا خلا سا محسوس ہوا۔
تو کیا ہم کبھی اپنے نہیں ہو سکتے اما؟ اُس نے دھیرے سے پوچھا۔

مریم  بیگم کے ہاتھ سبزی پر رُکے اور اُنہوں نے کائنات کو گہری نظروں سے دیکھا۔
اپنے تو ہوتے ہیں، مگر یہ بات سمجھنے کے لیے لوگوں کی آنکھوں میں انصاف ہونا چاہیے۔ جب دل میں فرق ڈال دیا جائے نا، تو پھر بیٹیاں چاہے کتنا بھی کر لیں، اُنہیں ہمیشہ کم ہی سمجھا جاتا ہے۔

کائنات نے آنکھیں جھکاتے ہوئے کہا۔
پھر تو ہمارا کوئی سہارا نہیں ہے اما۔

مریم بیگم نے کائنات کے ہاتھ تھام لیے۔ایسا مت کہو، سہارا سب کا ایک ہی ہے، اللہ۔ لوگ تو بدل جاتے ہیں، مگر وہ کبھی نہیں بدلتا۔ یاد رکھنا، اگر انسانوں سے حق نہ بھی ملے تو اللہ ہمیشہ انصاف کرتا ہے۔

یہ بات ہے تو پھر اما؟ اُس نے لرزتی آواز میں کہا، زرتشا زارا کو پھر بھی بہت محبت ملتی ہے، پھر وہ محبت مجھے کیوں نہیں؟ مجھے تو ان کی محبت کا بیس فیصد بھی نصیب نہیں ہوتا

مریم بیگم کے ہاتھ تھم گئے۔ اُن کی آنکھوں میں برسوں کے دکھ تیرنے لگے۔ ایک لمبی آہ بھر کر وہ آہستہ سے بولیں
کیوں کہ اُس کا باپ زندہ ہے نا ابھی۔۔۔

یہ الفاظ کائنات کے دل پر کسی تیز خنجر کی طرح اُترے۔ لمحہ بھر کو اُس کے کانوں میں سب آوازیں جیسے مدھم پڑ گئیں۔ وہ اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے مریم بیگم کو دیکھتی رہی۔
تو کیا۔ اُس نے دھیرے سے کہا،
محبت کا دارومدار باپ کے ہونے یا نہ ہونے پر ہے۔

مریم بیگم نے آہ بھری اور چولہے کی آنچ ہلکی کر دی۔
بیٹی… یہ دنیا بڑی خود غرض ہے۔ جس کا باپ ہو، اُس کا سہارا ہو، اُس کو لوگ زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ زرتاشا اور زارا کو ان کے باپ کی محبت اور پہچان حاصل ہے، اسی لیے نانو سمیت سب ان کو سر پر بٹھاتے ہیں۔ اگر باپ  زندہ ہو تو دنیا اُس کی طرف جھک جاتی ہے، اور اگر نہ ہو، تو سب کے دل سخت ہو جاتے ہیں۔

کائنات کے ہونٹ کپکپائے۔
تو اما، میرا قصور یہ ہے کہ میرا باپ نہیں رہا؟

مریم بیگم کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ قصور تُمہارا نہیں ہے کائنات۔ یہ سب لوگوں کی سوچ کا قصور ہے۔ اور میں… میں بس دعا کر سکتی ہوں کہ اللہ تمہیں اس سب سے زیادہ عزت اور محبت دے جتنی تُم سوچ بھی نہیں سکتی۔

کائنات کے دل میں ایک تلخی گھل گئی۔ اُس نے آہستہ کہا یعنی اما… میں ہمیشہ اکیلی رہوں گی؟ کسی کے لیے بھی خاص نہیں بن سکوں گی؟

مریم بیگم نے اُس کے آنسو پونچھے اور کائنات کو سینے سے لگا لیا۔نہیں میری بچی، تُم اللہ کے لیے سب سے خاص ہو۔ یاد رکھو، جب لوگ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں نا، تب اللہ اور قریب ہو جاتا ہے۔ بس صبر کرو یہ جو وقت ہے یہ بدل جائے گا۔

اچھا اما اب نماز پڑھنے جا رہی میں کائنات مریم بیگم سے الگ ہوتی اپنے روم کی طرف بڑھ گئی، وہ ایسے ہی مریم بیگم کے پاس آکر روتی اور جب مریم بیگم اُسے ایسے تسلی دیتی کہ اللہ ساتھ ہے تُمہارے تو اُسے بہت اچھا لگتا تھا جیسا دِل کا سارا بوجھ اُتر گیا ہو۔۔

—————-

جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *