Taqdeer e Azal Episode 10 written by siddiqui

تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۱۰

یہ کیسی بازیِ تقدیر ہے، کیسا یہ جہاں ہے،
محبت زخم کہانی بنے، ہر دل پریشاں ہے۔
تقدیر نے جو لکھ دیا، وہی انجام ٹھہرا،
کوئی جیت کے بھی ہارا، کوئی ہار کے بھی جیا۔

پریشے دلہن بنی اُس کے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ آج اُسے اپنی دنیا مکمل ہوتی دکھائی دے رہی تھی

پریشے نے اپنی پلکیں ہلکی سی اٹھائیں، سامنے بیٹھے اپنے شوہر کو دیکھا — مسکراتے ہوئے کہا،
آخِر کر لی نا اپنی ضد پوری…

اسوان نے مسکراہٹ دبانے کی ناکام کوشش کی،
تو کون سا تم اپنی ضد سے پیچھے ہٹی؟

پریشے کی نظریں لمحہ بھر کو جھکیں، مگر لہجے میں نرمی کے ساتھ وقار جھلک رہا تھا۔
وہ میری ضد نہیں تھی، وہ میرا رائٹ تھا…

اسوان کے لبوں سے ہلکی سی سانس نکلی، جیسے دل نے سکون کا اعتراف کیا ہو۔ اُس نے نظریں اس کے چہرے پر مرکوز رکھتے ہوئے دھیرے سے کہا—
اور یہ میری ضد نہیں، محبت تھی…

اسوان نے آہستہ سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک چھوٹا سا مخملی باکس نکالا۔ پھر باکس کھولا تو اندر ایک نازک سی سونے کی چین جگمگا اٹھی — جس کے لاکٹ پر خوبصورتی سے اسوان کندہ تھا۔

وہ دھیرے سے ایک مسکراہٹ کے ساتھ آگے بڑھا، اور نرمی سے وہ چین پریشے کے گلے میں پہنا دی۔۔

پھر اسوان نے مدھم آواز میں کہا،
اب تم پر میرا نام ہمیشہ کے لیے لکھا دیا گیا ہے…

پریشے نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسوان کی طرف دیکھا، آواز میں ذرا سا شکوہ اور شرارت تھی۔

پہلے بندہ دکھاتا ہے، پوچھتا ہے کیسا لگ رہا ہے؟ تمہیں پسند آیا یا نہیں… یہ کیا، بس کھولا اور پہنا دیا…؟

اسوان کے ہونٹوں پر ایک مدھم سی مسکراہٹ اُبھری۔
پوچھنے یا دکھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی، کیونکہ مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ تمہیں یہ ویسے ہی پسند آئے گا۔ اور پھر تم خود ہی کہتیں، ‘پہنا دو’… اسی لیے میں نے وقت ضائع کیے بغیر پہلے ہی پہنا دیا۔۔۔

پریشے نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسوان کی طرف دیکھا،
اچھا، اتنا یقین؟ اور اگر مجھے یہ پسند نہیں آتا تو…؟

اسوان نے مسکراتے ہوئے نظریں اس کے چہرے پر مرکوز رکھیں، آنکھوں میں اعتماد کی چمک تھی —
ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا…

پریشے نے ابرو چڑھاتے ہوئے پوچھا،
کیوں؟ کیوں نہیں ہو سکتا تھا؟

اسوان ذرا سا جھکا، اس کی آواز سرگوشی میں بدل گئی —
کیوں کہ اس پر میرا نام جو لکھا ہے…

پریشے کے لبوں پر بےاختیار مسکراہٹ ابھری، اور اُس نے جلدی سے اپنا چہرا دوسری طرف موڑ لیا۔۔ تاکہ اسوان اُس ک چہرا پر آتی مسکراہٹ نہ دیکھ سکے،

لیکن اسوان تھوڑا اُس کی طرف جھکا پھر نے دھیرے سے اس کے کان کے قریب آ کر کہا
اور جس چیز پر میرا نام ہو، وہ تمہیں ناپسند ہو ہی نہیں سکتی…

پریشے اب خود کو سنبھال چکی تھی۔ اُس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسوان کو پیچھے کیا۔ اور کہا
نہیں… ایسا بالکل نہیں ہے۔ بھولے نہیں، محبت آپ مُجھے سے کرتے ہیں میں نہیں۔۔۔

اسوان نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
اچھا؟ نہیں کرتی تم مجھ سے محبت…؟

پریشے نے نظریں اٹھا کر پورے اعتماد سے جواب دیا
نہیں۔۔۔۔

اور اس کے نہیں الفاظ سُن کر اسوان پھر مُسکرا دیا۔۔۔
ایک گہری، جان لینے والی مسکراہٹ،
اس لڑکی نے قسم کھا رکھی تھی، وہ کبھی اپنی محبت کا اظہارِ نہیں کرے گی۔۔۔
لیکن اسوان تو جانتا تھا۔۔ اسوان سے زیادہ پریشے اسوان سے محبت کرتی ہے۔۔۔

+++++++++++

وہ غصے اور طیش کے عالم میں تیز قدموں سے
اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔

اس کے دل و دماغ میں بس یہی خیال تھا کہ
ابھی اسی لمحے وہ اُس لڑکی کی جان لے لے 
جو دلہن کا جوڑا پہنے اس کے انتظار میں کمرے کے اندر بیٹھی تھی…

ہمت کیسے ہوئی اُس کی…؟ وہ بڑبڑایا۔

قبول ہے… قبول ہے… الفاظ جیسے اُس کے کانوں میں ہتھوڑے بن کر گونج رہے تھے۔

راضی بھی کیسے ہوئی وہ اس رشتے کے لیے؟
غصّے سے اُس کی رگیں تن گئیں۔ سانسیں تیز، آنکھوں میں سرخی، اور چہرے پر ایسا تپش بھرا جلال کہ لگتا تھا ابھی آگ بھڑک اُٹھے گی۔

اج واقعی وہ اُس لڑکی کو ختم کر دینے والا تھا۔۔۔
دروازے کے قریب پہنچ کر وہ رُکا۔
اس کے ہاتھ نے دستک دینے کے بجائے مٹھی کی صورت دروازے پر دباؤ ڈالا۔

دروازہ کھولتے ہی جو منظر اُس کی آنکھوں نے دیکھا
حیران ہی رہ گیا کیا ہے کائنات تھی؟ کیا یہ واقعی
کائنات تھی؟

اُس کی آنکھوں کو یقین نہ آیا۔۔۔۔

وہ دلہن کے جوڑے میں زیدان کے بیڈ کے اوپر
کھڑی تھی، چہرے پر غصّہ بیزاری نفرت سب کچھ
صاف نظر آرہا تھا،

ساتھ میں اُس کے آنکھیں میں آنسو بھی تھے اور
وہ اِتنا روئی تھی کہ اُس کی ناک سرخ اور آنکھیں
سوجھ چکی تھی،

یہ کیا کر رہی ہو تم؟ زیدان کا لہجہ حیرت اور غصے کا امتزاج تھا۔

کائنات نے روتی ہوئی آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھا۔اور غصے سے چیخی
مجھ پر چِلّائیے مت… کیا سمجھتے ہیں آپ لوگ؟ میں کوئی چیز ہوں؟
میرے پاس بھی دل ہے… میں بھی ایک انسان ہوں۔۔۔۔

ہاں… معلوم ہے مُجھے… تم ایک انسان ہو…
وہ دھیرے سے بولا اور ایک قدم آگے بڑھا۔

کائنات چونک گئی، اور پھر چیخی
میرے قریب مت آئیے گا… نہیں تو میں جان سے مار دوں گی۔۔۔۔
اُس نے اپنی چھوٹی اُنگلی ہوا میں اُٹھا کر اُسے چیتاونی دی۔

زیدان کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔۔
جان سے مار دو گی؟… مجھے؟ اُس نے طنز کیا،
کیا اب یہ چھوٹی سی چوہیا اُسے مارے گی۔۔۔اچھا مذاق تھا۔۔۔

کائنات نے غصے سے کہا
نہیں… خود کو۔ میں ابھی خود کو جان سے مارنے والی ہوں..

زیدان نے ہاتھ باندھ کر پُر سکون انداز میں کہا،
اوہ… اچھا، اچھا… تو لو اپنی جان،
Go ahead۔۔۔

کائنات کے آنسو اب مسلسل بہہ رہے تھے۔
وہ زیدان کو غصّے، دکھ اور بے بسی کے امتزاج سے دیکھ رہی تھی۔

لیکن ایک منٹ…
اگر میں تمہارے قریب نہیں آؤں گا، تو تم اپنی جان کیسے لو گی؟ رُکو، میں مدد کر دیتا ہوں…
وہ آہستہ آہستہ اُس کی طرف بڑھنے لگا۔

کائنات نے ہڑبڑا کر ہاتھ میں پہنے کنگن اُتارے
اور ایک ایک کر کے اُس کی طرف پھینکنے لگی۔
میں کہہ رہی ہوں نہ میرے قریب بھی مت آئیگا۔۔۔

یا اللہ یہ کیسا حملہ ہے؟ گولیوں کی جگہ چوڑیاں چل رہی ہیں۔۔۔۔
زیدان نے دونوں ہاتھوں سے خود کو بچاتے ہوئے کہا۔

میں کہہ رہی ہوں، نکل جائیے اس کمرے سے…
ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔ وہ پھر غصے سے چیخی

زیدان رک گیا۔
اور اگر میں نکل گیا تو تم واقعی اپنی جان لے لو گی؟

کائنات کے چہرے پر ایک دردناک مسکراہٹ ابھری،
ہاں… لے لوں گی۔
ویسے بھی اس گھر میں کسی کو میری پرواہ نہیں ہے…

میں نے کیا کیا نہیں کیا اس گھر کے لیے… اُس کی آواز کپکپائی۔
لیکن کبھی کسی نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ میں کیا چاہتی ہوں؟
پہلے زبردستی گھر کے سارے کام میرے سپرد کیے گئے — میں نے کچھ نہیں کہا،
خوشی خوشی سب برداشت کیا۔
سوچا، یہ میرا گھر ہے، اگر میں نہیں کروں گی تو کون کرے گا…

اُس کے آنسو اب ایک ایک کر کے بہنے لگے۔
پھر مجھ پر الزام لگایا گیا… جھوٹا الزام!
میں نے تب بھی خاموشی اختیار کی…
پھر فیصلہ سنایا گیا — شادی!
اور وہ بھی زبردستی۔
کسی نے یہ نہیں پوچھا…
کائنات، تم چاہتی کیا ہو؟ تم راضی ہو؟ تم خوش ہو؟
کبھی کسی کو پرواہ ہی نہیں ہوئی…

زیدان چند لمحے اُسے دیکھتا رہا۔
پھر یکدم اُس نے نظریں چرائیں اور تلخی سے بولا،
اچھا، اچھا… ٹھیک ہے۔ میں جارہا ہوں کمرے سے۔
تُم آرام سے… اپنی جان لے لو۔۔۔۔

یہ کہہ کر وہ جھنجھلاہٹ سے پلٹا،
دروازہ زور سے کھولا،
اور بنا ایک پل کے رُکے…
کمرے سے باہر نکل گیا۔

باہر نکلتے ہی وہ خود سے بڑبڑایا۔۔۔
بس جلدی سے یہ اپنی جان لے لے تو میرا روم خالی ہوجائے گا۔۔۔

پھر جیب سے سگریٹ نکلی۔۔۔اور اپنا رخ چھٹ کی طرف کرلیا۔۔۔

++++++++++++

ہادی آہستہ آہستہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔
قدم جیسے زمین پر نہیں، دل کے بوجھ پر پڑ رہے تھے۔
دماغ میں ہزاروں خیال تھے، ہر سوچ دوسری سے الجھی ہوئی۔
نہ جانے زرتاشہ کا سامنا کیسے کرے گا؟
کیا وہ اس سے بات کرے گی؟
یا چپ چاپ رُخ پھیر لے گی،
ویسے اُسے یقین تھا کہ اب تک تو وہ چینج کر کے سو چکی ہوگی۔۔۔
ویسے وہ چاہتا بھی یہی تھا۔۔۔
اسی امید پر وہ ذرا دیر سے گیا تھا،
کہ جب تک وہ آرام سے چینج کر کے سو جائے،

مگر۔۔۔
دروازہ کھلتے ہی آنکھیں حیرت سے کھل گئی۔۔

کمرے میں ہلکی سنہری روشنی پھیلی ہوئی تھی۔
چاندنی کھڑکی کے پردوں سے چھن کر اندر آرہی تھی،
اور اس روشنی میں زرتاشہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔۔۔
دلہن بنی، سر جھکائے، بالکل ویسے جیسے باقی دلہنیں اپنے دلہوں کا انتظار کرتی ہیں۔

ہادی ٹھٹک گیا۔
یہ منظر اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ زرتاشہ اب تک دلہن کے لباس میں بیٹھی ہوگی۔

وہ آہستہ قدموں سے اندر آیا۔
بیڈ کے کنارے بیٹھا۔
الفاظ جیسے گلے میں اٹک گئے ہوں۔
آخرکار بولا،
آپ نے۔۔۔ چینج نہیں کیا؟

زرتاشہ نے اپنی نظریں اٹھائی… اور ہادی کی طرف دیکھا۔زرتاشہ کے ایسے دیکھنے پر ہادی تو گڑبڑا گیا… لیکن وہ نہیں گھبرائی… نہ شرمائی، کیسے وہ ہادی کی دلہن بنے ہادی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتی تھی؟

آپ نے مجھے منہ دکھائی نہیں دینی؟ لہجہ میں ہلکی سی خفکی تھی۔۔۔

ہادی کے لبوں پر بے اختیار ایک مدھم سی مسکراہٹ آ گئی۔
دینی ہے…
کہہ کر وہ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالنے لگا۔
پھر ایک چھوٹا سا ڈبہ نکالا،
اور اس کی طرف بڑھا دیا۔

زرتاشہ نے خاموشی سے وہ ڈبہ تھام لیا۔
اس نے آہستہ سے ڈبہ کھولا۔
ڈبّے کے اندر سونے کی ایک نازک سی انگوٹھی رکھی تھی، جس میں ایک چھوٹا سا نگینہ ہلکی سی چمک کے ساتھ دمک رہا تھا۔
سادہ، مگر بے حد خُوبصورت —
بالکل ویسی جیسے زرتاشہ کو پسند تھی۔
وہ بھڑکیلی، شوخ زیورات کی شوقین نہیں تھی
اُسے ہمیشہ ہلکی، نفیس اور ذرا سی اسٹائلش چیزیں پسند آتی تھیں —

زرتاشہ نے فوراََ انگوٹھی پہن لی۔۔ پسند آئی تھی تبھی ورنہ وہ اسے فوراََ ریجیکٹ کر دیتی۔۔۔
پھر آہستگی سے اپنی نظریں اُٹھا کر ہادی کی طرف دیکھا۔

کیا تم… وہ ذرا رکی،
کیا تم مجھے پہلے سے پسند کرتے تھے؟

نہیں… ہادی کے لب فوراََ ہلے۔۔

تو پھر تم نے مجھ سے شادی کیوں کی؟
آواز بھلے ہلکی تھی، مگر سوال گہرا تھا۔
کیا تم نے مجھ پر… ترس کھایا تھا، ہادی؟

ہادی نے آہستہ سے کہا،
کیا آپ پر ترس کھایا جا سکتا ہے، زرتاشہ؟

زرتاشہ کی پلکیں ہلکی سی لرزیں۔
طنز کر رہے ہو مجھ پر؟
اُس نے مدھم لہجے میں پوچھا،

مگر ہادی کے چہرے پر وہی ٹھہری ہوئی سنجیدگی تھی،
طنز؟ نہیں زرتاشہ…
اُس کی آواز گہری ہو گئی،
جس عورت پر رشک کیا جائے، اُس پر طنز نہیں کیا جاتا۔۔۔۔

زرتاشہ کے لبوں پر بےاختیار ایک سانس سا اٹک گیا،
ہادی کی بات شاید اُس کے دل کے کسی بند دروازے کو چھو گئی تھی۔
وہ دھیرے سے ہنس پڑی — وہ ہنسی جس میں خوشی نہیں، صرف ٹوٹا ہوا غرور تھا۔

رشک؟ اور مجھ پر؟ نہیں ہادی…
اُس کی آواز کپکپا گئی۔
تمہیں پتہ ہے میں نے کیا کیا ہے؟
میں نے اپنے خاندان کا، اپنے باپ کا سر جھکا دیا…

اُس کی آنکھوں میں آنسو نہیں،
دھوئیں کی طرح اُٹھتا ہوا دکھ تھا۔
مجھے نہیں پتا تم سمجھ سکتے ہو یا نہیں،
مگر اس وقت مجھ پر اتنی تکلیف گزر رہی ہے
کہ میں بیان بھی نہیں کر سکتی…

وہ رُک گئی، سانس بھاری ہو گئی۔
الفاظ اُس کے لبوں پر کانپنے لگے۔
میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں زہر کھا کر مر جاؤں،
تاکہ کسی کو میری وجہ سے شرمندہ نہ ہونا پڑے…
کسی کو کیا۔۔۔؟؟ بس میرے باپ کو شرمندہ نہ ہونا پڑے۔۔۔

ہادی نے آہستگی سے کہا،
زرتاشہ… اسی لیے تو میں نے آپ سے شادی کی ہے،
تاکہ آپ کے پاپا مزید شرمندہ نہ ہو… اب تُمہاری شادی ہوگئی ہے۔۔۔ ابھی کچھ دن لوگ اس بارے میں باتیں کرے گے پھر بھول جائے گے، اور آپ کے پاپا بھی آپکو معاف کر دیں گے۔۔۔

زرتاشہ نے ہادی کی بات سنی،
اور بےاختیار آنکھیں زور سے بند کر لیں —
جیسے وہ الفاظ اُس کے کانوں سے نہیں،
دل کے اندر اُتر کر اسے کاٹ رہے ہوں۔
ہادی بھی…
وہی سمجھ رہا تھا جو باقی سب سمجھ رہے تھے۔۔۔
لیکن حقیقت تو کہیں اور تھی۔
ایک ایسی حقیقت جو زرتاشہ کے اندر قید تھی،
جسے وہ سامنے نہیں لا پارہی تھی۔۔۔

اُسے ایک لمحے کو لگا کہ سب کہہ دے۔
سب بتا دے۔
کہ وہ کائنات کو نیچا دکھانے،
اُسے جیتنے نہیں، ہرانے کے لیے۔
محض ایک ضد، ایک انا، ایک حسد نے
اُسے اندھے کنویں میں دھکیل دیا تھا۔

وہ کسی سے پیار نہیں کر بیٹھی تھی،
بلکہ کسی کو پانے کے جنون میں
خود کو ہار بیٹھی تھی۔

زرتاشہ کے ہونٹ کانپے،
سانس گلے میں اٹک گئی۔
دل چاہا کہ بول دے —
ہادی، میں بری نہیں تھی… بس بھٹک گئی تھی…

مگر پھر اُس نے آنکھیں کھولیں،
اور خاموشی سے نظریں جھکا لیں۔
کیونکہ بعض سچ ایسے ہوتے ہیں،
جو زبان پر آ جائیں تو
رشتے بکھر جاتے ہیں۔

++++++++++++++

وہ چھت پر بیٹھا تھا۔
سگریٹ کا ایک پورا پیکٹ ختم ہو چکا تھا،
رات کے تقریباً چار بج رہے تھے — وہی سنّاٹا، وہی سرد ہوا جو اب ہڈیوں میں اُترنے لگی تھی۔

زیدان نے سگریٹ کا آخری کش لیا، راکھ جھاڑی اور ہلکی سی مسکراہٹ لبوں پر اُبھری۔
اب تک تو وہ اپنی جان لے ہی چکی ہوگی…

سگریٹ کو زمین پر پھینکا، جوتے سے مسلا اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں اُترنے لگا۔

کمرے کا دروازہ آہستگی سے کھولا —
اندر نیم اندھیرا تھا۔
کائنات بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔
دروازے کے قریب وہی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں بکھری پڑی تھیں،
بیڈ کے ایک کونے پر سارا زیور بکھرا تھا — جھمکے، ٹِکا، ہار — سب اپنے وجود کی چمک کھو چکے تھے۔
اور بیڈ کے دوسرے کنارے پر، وہ خود تھی —
آنسوؤں سے بھیگا چہرہ، پلکوں پر نمی جم چکی تھی۔ روتے روتے نیند نے اُسے کہیں لے جا کر سُلا دیا تھا۔

زیدان خاموشی سے آگے بڑھا۔
اُس نے پاؤں سے ساری ٹوٹی چوڑیاں ایک طرف کر دیں، پھر جھک کر زیور اُٹھایا —
ہار، ٹِکا، جھمکے — سب میز پر بڑی احتیاط سے رکھ دیے۔

ایک لمحے کو وہ اُسے دیکھتا رہا —
اُس کے چہرے کی تھکن، اُس کے سجے ہوئے مگر بکھرے وجود کو۔
پھر وہ آہستہ سے پلٹا، بیڈ کے دائیں طرف رکھے صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔

بس ڈرامے کروالوں اس سے۔۔۔ ماری تو نہیں۔۔۔

یہ کہتے ہی وہ صوفے پر لیٹ گیا۔
کمرے کی مدھم روشنی میں اُس کا چہرہ آہستہ آہستہ دھندلانے لگا،
اور چند لمحوں بعد — نیند نے اُسے بھی اپنی خاموش وادی میں اُتار لیا۔

پانچ بجے کے قریب، جیسے اُس کی روز کی عادت تھی، چاہے جلدی سوئے یا دیر سے — فجر کے وقت اُس کی آنکھ خود بخود کھل جاتی تھی۔ اور آج بھی وقت پر اُس کی آنکھیں کھول گئی تھی۔۔

وہ اٹھی، اور ایک لمحے کے لیے الجھن میں چاروں طرف دیکھنے لگی۔
ابھی تک وہ لہنگے میں ملبوس تھی…
یہ اُس کا کمرہ نہیں تھا؟
پھر یہ… کس کا کمرہ ہے؟

اسی پل اُس کی نظر صوفے پر جا ٹکی —
جہاں زیدان سو رہا تھا۔

ایک لمحے کو سب یاد آگیا۔
اُس کی شادی… نیا رشتہ… اور یہ کمرہ… زیدان کا کمرہ۔

اچانک اُس کے چہرے پر خوف پھیل گیا۔۔۔
یااللہ! میں اِن کے ساتھ ایک ہی کمرے میں… ایک ہی چھت کے نیچے کیسے رہوں گی؟ غصّہ اب ٹھنڈا ہو چکا تھا۔۔۔ رات میں تو اُسے روم سے نکلا دیا تھا اور وہ بچ بھی گئی تھی، لیکن اس کے اٹھنے کے بعد کیا کرے گی وہ۔۔۔۔ پر شُکر کے ابھی وہ سو رہا تھا۔۔۔
دل میں بےچینی کے ساتھ وہ اُٹھی اور واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
مگر اندر جا کر ایک نئی پریشانی سامنے آگئی۔

میرا کپڑا…؟
وہ بوکھلا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔
یہاں تو کچھ بھی نہیں۔۔۔

پھر بےاختیار بڑبڑائی —
جلدی جلدی نکاح کروا دیا، میرا سامان تک نہیں پہنچایا یہاں۔۔۔

پریشانی کے ساتھ وہ فوراً کمرے سے باہر نکل آئی۔
پورا گھر نیند میں ڈوبا ہوا تھا، گہرا سناٹا، ٹھنڈی ہوا، اور بس اُس کے قدموں کی ہلکی چاپ۔

وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اُترتی نیچے آئی، اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی اُس نے سکون کا سانس لیا۔
فوراً کپڑے بدلے، خود کو تھوڑا سنبھالا۔

ابھی وہ بال ٹھیک ہی کر رہی تھی کہ میز پر رکھا اُس کا فون بجنے لگا۔
اسکرین پر نام چمک رہا تھا —
Hira calling…

کائنات نے فون اٹھا لیا۔
السلام علیکم، ہاں بولو حِرا، کیا ہوا؟

دوسری طرف سے حِرا کی خوشی بھری آواز آئی
یار! کہاں غائب ہو تم؟ کیسی ہو؟ تیاری کیسی جا رہی ہے؟ پہلا پیپر کیسا ہوا؟ کلاس الگ ہونے کی وجہ سے ملی ہی نہیں تم سے پیپرز میں۔

کائنات لمحہ بھر خاموش رہی، پھر مدھم لہجے میں بولی
میں… میں پیپر نہیں دے رہی، حِرا…

کیا؟ کیوں؟ کیوں نہیں دے رہی تم؟ کیا ہوا ہے؟ حرا کی آواز میں فکر تھی۔

کائنات نے گہری سانس لی۔
بس… میں نہیں پڑھوں گی اب۔ کچھ نہیں کروں گی۔

کائنات، کیا ہوا ہے؟ سب ٹھیک ہے نا؟

کائنات کی آواز میں اداسی اتر آئی —
سب ٹھیک ہے، بس… کائنات ٹھیک نہیں ہے…

دوسری طرف چند لمحے کی خاموشی چھا گئی۔
پھر حِرا نے دھیرے سے کہا،
کائنات… مجھے بتاؤ، کیا ہوا ہے تمہیں؟

کائنات کے لب کپکپائے۔ اس کے ذہن میں سارے لمحے گونجنے لگے جب ساری امیدیں ایک جھٹکے میں بکھر گئیں۔
پتا ہے، اپنے گھر میں اتنی تذلیل ہونے کے بعد بھی میں پہلا پیپر دینے گئی تھی۔
رات کو اپنے اوپر الزام لگنے کے بعد، شادی کی خبر سننے کے بعد بھی…
ایک امید تھی میرے اندر — کہ میرے پاس اللہ ہے،
وہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکالے گا۔
لیکن… سب ختم ہو گیا،
اللہ نے میری نہیں سنی… اب میں بھی ان کی نہیں سنوں گی۔
مجھے نہیں بننا ڈاکٹر، نہیں کرنا لوگوں کا علاج…

حرا نے کائنات کو تسلی دی۔۔
کائنات، یوں نہیں کہتے۔ اللہ سے گمان اچھا رکھو۔ تمہیں پتہ ہے تمہاری فیملی ہمیشہ سے ایسی ہی ہے۔ زہریلی، سخت، بےحس۔ تم ان کی باتوں کی پروا مت کرو۔

کائنات کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ آئی۔
حرا، تم نہیں سمجھو گی… ایک اُمید تھی میرے اندر، ایک خوشی، ایک خواب… کہ ان سب تکلیفوں کے بعد، وہ—میرا خواب، میرا سکون—مجھے مل جائے گا۔لیکن… کل رات وہ بھی بکھر گیا۔

کیا ہوا ہے۔۔۔؟؟ مُجھے بتاؤ تو۔۔۔ اور کس سے شادی ہورہی تمہاری۔۔۔۔؟؟ حرا نے فکرِ سے کہا

کائنات کے لب تھر تھرائے، آواز ٹوٹ گئی —
اب میں وہ کروں گی جو کبھی نہیں کیا میں نے…
اب کائنات، کائنات نہیں رہی۔
وہ مر گئی، کل رات ہی۔
اس کی اچھائی، اس کا یقین،
سب مر گیا۔۔۔ کائنات مر گئی۔۔۔ حرا کائنات مر گئی۔۔۔

میری بات سنو، کائنات…

حِرا، تم ہی بتاؤ… کیا میرے پاس اب بھی کوئی اُمید باقی ہے؟ ماما نے بھی میرا یقین نہیں کیا تھا…
الزام مجھ پر سے ہٹ گیا، سب صاف ہو گیا تھا — پھر بھی ان لوگوں نے میری شادی اُن سے کر دی۔

کن سے؟

یار… اُن سے…

کون؟ كس سے۔۔۔؟؟

کائنات کی آواز لرز گئی
وہی… جن کے کمرے میں بار بار مجھے بھیجا جاتا تھا…

چند لمحے کے لیے فون کے اُس پار خاموشی چھا گئی۔
پھر حِرا کی مدھم، لرزتی ہوئی آواز سنائی دی —
اور اب… اب تمہیں اُن کی زندگی میں داخل کر دیا گیا؟

کائنات کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
ہاں حِرا… اب میں اُن کی زندگی میں ہوں…
اُن کی بیوی بن کر، اب میں اُن سے بھاگنا بھی چاہوں تو بھاگ نہیں سکتی، اب بتاؤ؟ میں کیا کروں ہوگئی ہوں نہ میں برباد۔۔

اور اب تم… اُس کی زندگی میں ہمیشہ رہنا چاہتی ہو؟”

کائنات نے مدھم سی آواز میں کہا 
نہیں… مرنا چاہتی ہوں، حِرا۔

پاگل ہو گئی ہو کیا؟
تم آزادی حاصل کرنے کے بجائے مرنے کی بات کر رہی ہو؟
پڑھائی چھوڑ دو گی تو کہاں جاؤ گی؟ گھر بیٹھ کر اُس کا انتظار کرو گی کہ وہ تمہیں توڑ دے؟
یا پھر اسی طرح خوف میں جی کر اپنی سانسیں گننا چاہتی ہو؟

حِرا کی آواز اب مضبوط تھی،
کائنات، جو ہو گیا، وہ ہو گیا۔
یاد رکھو، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
ابھی سب ختم نہیں ہوا۔ تمہارے پاس تم خود ہو!
پڑھائی کرو، ڈاکٹر بنو، خود پر یقین رکھو۔
وقت لگے گا، مگر ایک دن تم آزاد ہو جاؤ گی۔
ڈِووَرس لے لو اُس سے، لیکن خود کو مت مِٹاؤ۔۔۔۔

کائنات کے لب کپکپا اُٹھے،
اور اگر… اُس دن تک میں مر گئی تو؟

حِرا کی سانس بھاری ہو گئی، مگر لہجہ قائم رہا —
کیا اُس وقت مر گئی تھیں جب تم پر الزام لگا تھا؟
نہیں نا؟
کیا تم اُس گھر میں بچپن سے لے کر آج تک ظلم سہتی رہیں — اور پھر بھی زندہ نہیں رہیں؟
تو اب کیوں ہار مان رہی ہو؟

پھر ایک لمحے کے توقف کے بعد حِرا نے نرمی سے کہا
کائنات، تم مضبوط ہو…
بس ایک بار اپنے لیے کھڑی ہو جاؤ۔
ایک دن تم ڈاکٹر بنو گی،
اور دیکھنا —
وہی لوگ جو آج تمہیں توڑ رہے ہیں، کل تمہارے سامنے جھکیں گے۔

کائنات کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو بہہ نکلے۔
مگر اُن آنسوؤں کے پیچھے پہلی بار… امید کا ایک ننھا سا چراغ جلنے لگا تھا۔

چلو اب تیاری کرو، اور نو بجے پیپر دینے آ جانا۔
اور ہاں… میں کالج کے گیٹ پر تمہارا انتظار کروں گی۔
جب تک تم نہیں آؤ گی، میں اندر نہیں جاؤں گی،

یہ کہتے ہی حِرا نے فوراً کال کاٹ دی —
اس سے پہلے کہ کائنات رو کر اُسے اپنی بات سے باز رکھنے کی کوشش کرتی۔
فون بند ہوتے ہی کمرے میں خاموشی پھیل گئی،
مگر اُس خاموشی کے بیچ، حِرا کی باتیں جیسے دیواروں سے ٹکرا کر بار بار گونجنے لگیں۔

کائنات کی نظر ایک طرف رکھی میز پر جا ٹھہری —
جہاں اُس کی کتابیں اب بھی بند پڑی تھیں،

اُس نے آہستہ سے سر جھکایا، پھر مدھم آواز میں خود سے بولی —
ٹھیک ہے… پڑھ لوں گی، ڈاکٹر بن جاؤں گی،
سب کر لوں گی…

پھر اُس کی آنکھوں میں نمی تیر گئی،
اور لہجہ بھاری ہو گیا —
لیکن اب… اب اللہ کی نہیں سنوں گی۔

یہ کہتے ہی اُس نے اپنی ساری کتابیں اٹھا لیں اور بیڈ پر جا کر بیٹھ گئی۔

باہر سے فجر کی اذان کی آواز گونجنے لگی۔
وہی اذان… جو ہمیشہ اُس کے دل کو سکون دیتی تھی،
آج عجب اجنبی لگ رہی تھی۔

اور اسی لمحے،
یوں محسوس ہوا جیسے اُس کے اور اُس کے رب کے درمیان کوئی دروازہ… آہستہ سے بند ہو گیا ہو۔

++++++++++++++

جب اُس کی آنکھ کھلی تو گھڑی میں وقت دیکھا — گیارہ بج رہے تھے۔
اُس نے پہلو بدلا، مگر ساتھ والی جگہ خالی تھی۔
ہادی کہیں نظر نہیں آیا۔

وہ تیزی سے اٹھی، چپل پہنی اور واش روم میں چلی گئی۔
کچھ دیر بعد جب تیار ہو کر نیچے اتری،
تو پورے گھر میں سناٹا سا چھایا ہوا تھا۔
بس صحن میں صوفے پر بیٹھی سائرہ بیگم نظر آئیں۔

السلام علیکم آنٹی… آپ نے مجھے اُٹھایا کیوں نہیں؟

سائرہ بیگم نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے ہلکی سی نظر اُس پر ڈالی۔
تمہیں جلدی اُٹھنے کی عادت کہاں ہے… اسی لیے اُٹھایا نہیں۔

زرتاشہ نے ہلکا سا مسکرا کر کہا،
اچھا، لیکن اگر آپ اُٹھاتیں تو میں اُٹھ جاتی۔ ہادی نے بھی نہیں جگایا… کہاں ہیں وہ؟

وہ تو ہسپتال چلا گیا۔

اچھا… چلے گئے۔

سائرہ بیگم نے سیدھے لہجے میں کہا،
ہاں، اور ہم سب ناشتہ کر چکے ہیں۔ تمہیں کرنا ہے تو کچن میں جا کر سلمیٰ سے کہہ دو، بنا دے گی۔

جی، ٹھیک ہے۔

وہ آہستہ سے سر ہلا کر پلٹی،
اور بنا کچھ کہے خاموشی سے کچن کی طرف چل دی۔
قدموں کی چاپ مدھم تھی —
بالکل اُس کے دل کی طرح۔
اب وہ من پسند والی لائی گئی دلہن تھوڑی تھی جو اُس کے لیے ناشتے کی ٹیبل سجتی۔۔۔

+++++++++++++

شاہ حویلی میں رونقیں لگی تھیں۔
دیر سے ہی سہی، مگر رات کے فنکشن کے بعد سبھی لوگ دیر سے جاگے تھے،
اور اب ڈائننگ ٹیبل خوب سجا دیا گیا تھا —
نئی دلہن پریشے کے لیے… اور ساتھ ہی کائنات کے لیے بھی۔

پورا خاندان ٹیبل کے گرد موجود تھا کہ سیڑھیوں سے پریشے اور اسوان نیچے اُترتے دکھائی دیے۔
پریشے نے سیاہ رنگ کا نفیس لباس پہنا ہوا تھا،
جس پر چاندی کے دھاگوں سے بنی باریک کشیدہ کاری دور سے بھی نگاہوں کو تھام لیتی تھی۔
اس کے دوپٹے کے کناروں پر ہلکی ہلکی گوٹہ پٹی جگمگا رہی تھی،
دوسری طرف، اسوان نے اسی رنگ کا سادہ مگر پرکشش کالا شلوار قمیص زیب تن کیا تھا۔۔
وہ دونوں ساتھ بہت خوبصورت اور مکمل لگ رہے تھے۔۔۔ جیسا اسوان صِرف پریشے کے لیے ہی بنا ہو اور پریشے صِرف اسوان کے لیے۔۔۔

دونوں دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے ڈائننگ کی طرف آ رہے تھے کہ اتنے میں رضیہ بیگم بول اٹھیں
اے جا، زیدان اور کائنات کو بھی بلا لا۔۔۔۔

مگر حسبِ روایت، سب خادمائیں ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ کر چپ ہو گئیں۔
کسی نے سر جھکا لیا، کسی نے نظریں پھیر لیں —
کیوں کہ کچھ بھی ہوجائے لیکن زیدان کے کمرے میں نہیں جانا،

پریشے نے آہستہ سے کہا،
میں بلا کر لے آتی ہوں…

تبھی عائشہ بیگم جلدی سے بولیں،
ارے نہیں، تم بیٹھو… میں دیکھتی ہوں۔
ویسے تو اُن کا خود اُٹھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا،
لیکن اب بھلا نئی دلہن کو کیسے بھیج دیتیں!

وہ اٹھنے لگیں تو زینب بیگم نے ہلکی سی سرگوشی اُن کے کان میں کی:
ذرا ٹھیک سے دیکھنا… کائنات زندہ بھی ہے یا نہیں۔

عائشہ بیگم نے فوراً بھنویں چڑھائیں،
تم چپ کرو۔۔۔

مگر ان کے چہرے پر گھبراہٹ آچکی تھی، زیدان کا کوئی بھروسہ نہیں تھا، کچھ الٹا سیدھا نہ کردیا ہو۔۔۔

وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچی تو ایک لمحے کو ٹھٹھک گئی۔
آنکھوں میں حیرت اُتر آئی —
زیدان کا کمرہ… ہلکا سا کھلا ہوا تھا۔

یہ پہلی بار تھا۔
ورنہ زیدان کا دروازہ تو ہمیشہ بند رہتا تھا،
چاہے دن ہو یا رات، ہر وقت۔۔۔

عائشہ بیگم نے ذرا سا دروازہ دھکیلا اور اندر قدم رکھا۔
کمرے میں مدھم سا اندھیرا تھا،
پردوں سے چھن کر آتی دھوپ فرش پر ایک لکیر بنا رہی تھی۔

صوفے پر زیدان پھیلا ہوا سو رہا تھا —
پُرسکون، جیسے دنیا کی کسی فکر نے اُسے چھوا ہی نہ ہو۔ مگر کمرے میں کائنات کہیں نظر نہیں آئی۔

یہ کہاں گئی؟؟ وہ زیرِ لب بڑبڑائی، لیکن زیدان کو اٹھا ذکر پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکتی تھی، جانتی تھی اُسے اپنی نیند کتنی پیاری ہے، اٹھتے گا تو شور کرے گا۔۔۔

پھر انہوں نے واش روم چیک کیا —
مگر وہاں بھی کائنات کا کوئی نشان نہیں تھا۔

دل میں ایک عجیب سا اندیشہ سا جاگا۔
وہ پلٹنے ہی والی تھیں کہ اچانک ان کی نظر
دروازے کے قریب فرش پر بکھری ہوئی ٹوٹی چوڑیوں پر پڑی۔

ایک لمحے کو ان کے قدم جیسے زمین میں گڑ گئے۔
سارا باقی سامان تو ٹیبل پر سلیقے سے رکھا تھا،
پھر یہ چوڑیاں…
یہ یوں بکھری ہوئی اور ٹوٹی پھوٹی یہاں کیوں پڑی تھیں؟

کمرے کی خاموشی میں چوڑیوں کے وہ ٹکڑے
جیسے چیخ رہے تھے —
کہ کچھ تو ہوا ہے یہاں…

وہ گھبرا کر تیزی سے نیچے آئیں۔
چہرے پر ہلکی سی پریشانی اور آنکھوں میں ڈر کی لہر تھی۔

عائشہ بیگم نے دھیرے سے رضیہ بیگم ان کے کان میں  کہا۔
ایک لمحے کو رضیہ بیگم کا چہرہ بھی اتر گیا،
ائے کہاں گئی وہ۔۔۔؟ مریم سے پوچھا۔۔

اس وقت پریشے، زینب بیگم سے باتوں میں مصروف تھی،
اسی لیے کسی نے عائشہ اور رضیہ بیگم کی طرف دھیان نہیں دیا۔

عائشہ بیگم پھر سر ہلاتی کچن کی طرف مریم بیگم سے پوچھنے چلی گئی۔۔۔

پھر پریشے کی بات ختم ہوئی تو وہ بولی
کیا ہوا کہاں ہیں وہ دونوں اُنہیں وقت لگے گا کیا؟؟

رضیہ بیگم نے کہا
ائے ہاں، ہم ناشتہ شروع کرتے ہیں۔۔۔

ابھی سب کا ناشتہ شروع ہی ہوا تھا کہ اچانک اوپر سے ایک تیز، گرجدار آواز گونجی —
میرے کمرے میں کون آیا تھا…؟ ہااااااں؟

پورا ہال جیسے ساکت ہو گیا۔
چمچوں کی کھنک تھم گئی، سب کی نظریں بیک وقت اوپر اُٹھ گئیں۔

زینے کے سرے پر زیدان کھڑا تھا —
آنکھوں میں غصّے کی چمک، چہرے پر سیاہ سرخی،
اور لہجے میں ایسی شدت جیسے ابھی طوفان ٹوٹ پڑے گا۔

اس کی نگاہ نیچے موجود سب پر گھوم رہی تھی،
مگر کسی کے پاس زبان نہیں تھی کہ کچھ کہہ سکے۔

زیدان کی آواز دوبارہ گونجی،
اس بار پہلے سے بھی بھاری،
پوچھ رہا ہوں… میرے کمرے میں کون گیا تھا؟

اس کے لہجے کی گونج ابھی فضا میں باقی تھی
کہ مریم بیگم اور عائشہ بیگم بھی گھبرا کر کچن سے باہر نکل آئیں۔
ان کے چہروں پر بھی حیرت اور خوف صاف دکھائی دے رہا تھا۔

میں آئی تھی، بیٹا… عائشہ بیگم نے دھیرے سے کہا

زیدان کی نظریں ان پر جم گئی،
اور وہ کیوں؟

تم دونوں کو ناشتہ کرنے کے لیے بلانے…

زیدان کا چہرہ لمحے بھر کو سخت ہوا،
پھر اچانک اُس نے تیز لہجے میں کہا،
کائنات… کائنات

کوئی جواب نہیں ملا۔
زیدان کی آواز بلند ہوتی گئی —

کائنات کہاں ہے۔۔۔؟؟؟
وہ اب سب سے پوچھنے لگا تھا لیکن کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔

++++++++++++

جاری ہے۔۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *