تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۳
صبح کی پہلی کرن جب آسمان سے پھسل کر دریچوں کے پردوں کو چھوتی ہوئی کمرے میں اتری، تو پرسکون نیند میں ڈوبی پری کے چہرے پر پڑی۔ سورج کی چمکدار روشنی نے پلکوں کی جھالر کو چیر کر اس کے خوابوں میں خلل ڈالا، اور وہ ہلکی سی کروٹ بدل کر دوسری طرف منہ چھپا گئی۔
دروازہ کھول کر اسوان اندر آیا، آہستہ سے پردے ایک طرف کیے اور خالص محبت سے بولا،
اٹھ جاؤ، میرا بچہ۔۔۔
پری نے کروٹ بدلی، چہرہ تکیے میں دبایا، اور نیند سے بوجھل لہجے میں بولی،
بابا، میں نہیں اٹھ رہی یار… جاؤ یار… سونے دو مجھے…
اسوان نے نرمی سے پھر آواز دی،
اُٹھو پری… دس بج چکے ہیں، اور کتنا سونا ہے؟
لیکن جب پری نے ہٹ دھرمی سے کہہ دیا،
نہیں اٹھنا
تو وہ گہری سانس لے کر خاموشی سے واپس پلٹ گیا۔ جانتا تھا، جب تک یہ خود نہ چاہے، کوئی زبردستی اسے نیند سے نہیں نکال سکتا۔
++++++++++++
نیچے ناشتہ کی میز پر ہر چہرہ موجود تھا—رضیہ بیگم، زینب بیگم، عائشہ بیگم، زرتاشا، اور اسوان۔ سب اپنی صبح کی روٹین میں مصروف تھے۔
اسوان نے نرمی سے کائنات کو مخاطب کیا،
جب پری اٹھے تو اسے ناشتہ دے دینا، اور بار بار جا کر دیکھتی رہنا…
کائنات نے فوراً سر ہلا کر کہا،
جی۔
اسوان نے اب نرمی سے کہا،
اور سنو، زیدان کو بھی ناشتہ دے آؤ۔۔۔
کائنات ذرا رک سی گئی۔ وہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ وہاں نہیں جانا چاہتی، مگر الفاظ کچھ اور ادا ہوئے،
وہ… وہ کیا وہ اُٹھ گئے ہوں گے اس وقت…
اسوان نے آنکھوں میں ہلکی سی سنجیدگی لاتے ہوئے کہا،
پتا نہیں، جا کر چیک تو کرو۔
کائنات خاموشی سے سر ہلا کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔
رضیہ بیگم (دادی) نے اسوان سے کہا،
اُس سے کہا کرو کہ نیچے آ کر ہم سب کے ساتھ ناشتہ کیا کرے۔
اسوان نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا،
دادی، اسے پسند نہیں ہے تو چھوڑ دیں۔ اگر اس کا دل چاہے گا تو آجائے گا، جیسے کل فنکشن میں آ گیا تھا۔ خوش بھی لگ رہا تھا، سب سے باتیں بھی کر رہا تھا۔ جب اس کی مرضی ہو، تب وہ بہتر رہتا ہے۔ زبردستی کی جائے گی تو الٹا بگڑ جائے گا۔
زینب بیگم نے فوراً لقمہ دیا،
اور بیٹا، تم نے کچھ کہا اُسے؟ دیکھا تم نے زارا کی حالت؟ فنکشن بھی خراب کر دیا اُس کا۔ میری بیٹی کا پورا دن برباد ہو گیا، اب بھی دیکھو، کتنی تکلیف میں ہے!
اسوان نے خفگی سے کہا،
چاچی، یہ اُس کی اپنی غلطی ہے۔ میں نے اُسے نہیں کہا تھا کہ زیدان کے کمرے میں جائے، وہ اپنی مرضی سے گئی تھی۔
رضیہ بیگم نے سر ہلا کر تائید کی،
ہاں، یہ تو کائنات کو کہا تھا… یہ خود گئی تھی۔
زرتشا نے جلدی سے تردید کی،
جی نہیں! کائنات نے آ کر اُسے کہا تھا!
اسوان کی آنکھوں میں غصے کی چمک لہرائی،
تو؟ تم دونوں کائنات کی کب سے سنے لگی؟
اسی لمحے مریم بیگم جو ناشتہ لگا رہی تھیں، سب کچھ خاموشی سے سن رہی تھیں۔ ان کے دل میں ایک کرب سا اٹھا۔
کیا واقعی اس پورے گھر میں کوئی ایسا تھا جو اُن کی بیٹی کائنات کا محافظ ہو؟
اسوان… جسے وہ بھروسے کا پہاڑ سمجھتی تھیں، کیا وہ خود اُسے بار بار زیدان جیسے شخص کے کمرے میں بھیجنے والا نہیں تھا؟
اگر اسے واقعی کائنات کی فکر ہوتی تو کیا ایسا کرتا؟
اسوان کے سپاٹ چہرے پر نہ کوئی ندامت تھی، نہ کوئی احساس۔
زارا کا دل ٹوٹ کر رہ گیا۔
کیا واقعی اسوان کو اس کی کوئی پروا نہیں؟
کاش… وہ صرف تھوڑی سی فکر، تھوڑا سا خیال ہی دکھا دیتا۔
اور پھر عائشہ بیگم کی سخت آواز سنائی دی،
ہاں، تم اپنی بیٹیوں کو میرے بیٹے سے دور رکھو۔ یہی بہتر ہے۔ وہ خود اپنے کمرے سے باہر نہیں آتا، ان سے کہو کہ اس کے کمرے میں نہ جایا کریں۔
زینب بیگم نے جھنجھلا کر کہا،
بس کر دیں آپ بھی، ہمیشہ اپنے بیٹے کا ہی دفاع کرتی ہیں۔ آخر غلطی تو زیدان کی ہی ہے۔
عائشہ بیگم نے تیز لہجے میں پلٹ کر جواب دیا،
زیدان کسی کو بلاتا نہیں ہے اپنے پاس، نہ ہی وہ خود کسی کے روم میں جاتا ہے۔ بس اپنے کمرے میں ہی تو رہتا ہے۔ اب یہ خود اُس کے پاس جائے گی تو یہ تو ہوگا ہی نا!
رضیہ بیگم نے تھوڑا سخت لہجہ اختیار کیا اور بولیں،
بس، اب مزید بحث کی ضرورت نہیں۔ زارا اور زرتشا کو زیدان کے کمرے میں جانے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ چاہے اسوان کہے، کائنات کہے یا ہم بھی کہیں—تم دونوں کو اُس کے کمرے میں قدم نہیں رکھنا۔
اب سب خاموش ہوگئے۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی زیدان پر کوئی حرف نہ آیا، اور قصور کا بوجھ دوسروں کے کندھوں پر ڈال دیا گیا۔
++++++++++
کچن کی حدت سے نکلی کائنات جیسے ہی زیدان کے کمرے کی طرف بڑھی، اس کے قدم بوجھل تھے، دل بےقابو دھڑک رہا تھا، اور ہاتھ لرزتے جا رہے تھے۔
اس نے قدم آہستہ آہستہ آگے بڑھائے۔ سامنے زیدان کے کمرے کا دروازہ تھا—بند، خاموش، اور سنسان سا۔
ایک لمحے کو سانس روکی، پھر ہمت جٹا کر دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔
کوئی جواب نہ آیا۔
تھوڑا سا اور حوصلہ کیا، ایک بار پھر دستک دی…
…پھر بھی خاموشی۔
میں… میں کائنات ہوں، ناشتہ لے کر آئی ہوں..
اس کی آواز کپکپاتی ہوئی نکلی، جیسے الفاظ خود اُس کے لبوں سے اجازت مانگ رہے ہوں۔
مگر اندر سے پھر بھی کوئی جواب نہ آیا۔
میں اندر آ رہی ہوں..
اب کی بار وہ دروازے کو ہولے سے دھکیلتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔
کمرے میں ہلکی سی ٹھنڈک تھی، ہلکی سی خوشبو اور گہری خامشی۔
نظر سیدھی بستر پر گئی… اور دل ایک لمحے کو ٹھٹک گیا۔
بستر خالی تھا۔
دل کی دھڑکن معمول پر آتے آتے پھر بڑھ گئی۔ اس نے پورے کمرے پر نظر دوڑائی، زیدان کہیں نہیں تھا۔
اچانک اُس کی نگاہ واشروم کے دروازے پر پڑی، جو بند تھا۔
ایک ہلکی سی امید، ایک خاموش سا شکر اس کے دل میں اُمڈ آیا۔
اللہ تیرا شکر ہے…
دل نے بے آواز کہا۔
تو نے آج بھی مجھے بچا لیا…
کائنات نے کانپتے ہاتھوں سے ناشتہ کی ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھی، اور ہلکی آواز میں کہا:
میں… کائنات… آپ کا ناشتہ یہاں رکھ رہی ہوں… کھا لیجیے گا…
یہ کہہ کر وہ پلٹی، اور اس تیز رفتاری سے باہر نکلی جیسے سایہ بھی پیچھا نہ کر سکے۔
چند لمحوں بعد…
واشروم کا دروازہ کھلا۔
زیدان باہر آیا۔
خاموش، بے تاثر، ساکت۔
اس کی نگاہ سیدھی سائیڈ ٹیبل پر گئی، جہاں ناشتہ رکھا تھا۔
وہ لمحے بھر کے لیے رک گیا، جیسے کسی خاموش پیغام کو پڑھ رہا ہو۔
+++++++++++++
بھائی، دے آئی میں ناشتہ۔
کائنات نے دبے لہجے میں آ کر اسوان سے کہا۔
اس کی آواز اتنی پرسکون تھی کہ سب چونک گئے۔
ہر آنکھ اس پر مرکوز تھی۔ اس لیے نہیں کہ اس نے ناشتہ دے دیا، بلکہ اس لیے کہ وہ زیدان کے کمرے سے زندہ، سلامت، مکمل ہوش و حواس میں واپس آچکی تھی۔
زرتاشا نے طنزیہ لہجے میں کہا،
جھوٹ تو نہیں بول رہی نا؟
میں جھوٹ نہیں بولتی۔
کائنات نے نرمی مگر یقین سے جواب دیا۔
اچھا، ٹھیک ہے… اب بیٹھ جاؤ، ناشتہ کرو۔
اسوان کائنات سے مخاطب ہوا۔
مگر جیسے ہی اس کے لبوں سے یہ جملہ نکلا، سب کی نگاہیں یکایک اسوان کے چہرے پر جم گئیں۔
کیا وہ واقعی کائنات کو سب کے ساتھ ناشتہ کرتے دیکھنا چاہتا تھا؟
کیا وہ کائنات کو اپنی برابر کی عزت دے رہا تھا؟
یا بس ایک رسمی سا جملہ تھا؟
کائنات نے جلدی سے کہا،
نہیں، میں کر چکی ہوں۔
وہ تو فجر کے بعد ہی جاگ جاتی تھی، کب کا ناشتہ کر چکی تھی۔
اسوان نے حیرت سے پوچھا، کر لیا…؟
ہاں، سات بجے ہی کر لیا تھا۔ کائنات نے جواب دیا۔
اسوان نے بس سر ہلایا، اچھا، ٹھیک ہے۔
پھر وہ اٹھا، ناشتہ مکمل ہو چکا تھا، اب دفتر جانے کی تیاری میں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
زرتاشا تیز لہجے میں بولی، یہ کون سا کالا جادو کیا ہے تم نے اسوان پر؟ ہاں؟ تمہاری اتنی اوقات ہے کہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرو؟
کالا جادو نہیں کرتی میں، کالا جادو کرنے والے اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں، اور مجھے میرا دین سب سے زیادہ عزیز ہے۔ اُس نے نرمی سے کہا۔
تو کوئی وظیفہ کیا ہوگا، مجھے بھی بتاؤ، میں بھی کروں گی اسوان پر! زارا نے کہا، بس جیسے بھی کر کے اسوان اس کا ہوجائے۔
کائنات کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اچانک کچھ گرنے کی آواز آئی۔
سب کی توجہ یکایک اوپر کو گئی۔
سیڑھیوں کی ریلنگ پر زیدان کھڑا تھا،
اس کی نظریں ناشتہ کی میز پر تھیں،
اور نگاہیں، کائنات پر جمی ہوئی تھیں۔
اس کے ہاتھ میں وہی ناشتہ کی ٹرے تھی، جو کائنات خاموشی سے اس کے کمرے میں رکھ کر آئی تھی۔
اور اگلے ہی لمحے —
چرخ۔۔۔ چرخ۔۔۔ چرخ!
وہ ٹرے پوری شدت سے نیچے پھینک دی گئی۔
برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز نے نہ صرف سکوت کو توڑا، بلکہ سب کے دلوں میں ایک عجیب سی لرزش بھر دی۔
پلیٹیں چکناچور ہوئیں، چائے کا کپ ٹکڑوں میں بٹ گیا،
اور نرمی سے رکھا گیا ناشتہ فرش پر بے رحمی سے بکھر گیا —
اس کی آنکھوں میں طوفان، غصہ، بیزاری اور شاید… کچھ اور بھی تھا جس کا نام نہ لیا جا سکے۔
وہ کائنات کو گھورتا دھاڑا:
Stay away from me!
وہ اتنا دور تھا، لیکن کائنات کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا ہو،
بہت قریب،
بہت بھیانک،
بہت اجنبی۔۔۔
کائنات کی سانسیں رکنے لگیں،
اور اس نے ایک لمحے میں وہ جگہ چھوڑ دی۔
تیزی سے بھاگتی، جیسے خود سے بھاگ رہی ہو،
زیدان کی آنکھوں سے، اُس کے غصے سے۔
زرتشا نے حقارت سے کہا،
لو، ہو گیا تماشا!
زینب بیگم نے بےبسی سے کہا،
آخر اس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ ناشتہ نہیں کرنا، کچھ کھانا نہیں،
کوئی اس کے کمرے میں نہ جائے، کوئی اس سے بات نہ کرے…؟ یہ لڑکا چاہتا کیا ہے…؟
مگر وہاں بیٹھے کسی بھی فرد کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
اسوان اپنے کمرے سے نکلا، دفتر جانے کے لیے مکمل تیار…
اچانک ایک آواز نے اس کے قدم روک دیے۔
یہ کیسی آواز تھی؟ اس نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے آہستہ سے کہا۔
رضیہ بیگم کی جھنجھلائی ہوئی آواز آئی، وہ پھر کھانا پھینک دیا!
اسوان نے چند لمحے سوچا، پھر ہلکا سا گہرا سانس لیتے ہوئے بولا، اچھا، میں دیکھ کر آتا ہوں…
اب اس کی چال میں تیزی تھی، اور وہ زیدان کے کمرے کی طرف بڑھا۔
+++++++++++++
امی کہاں ہیں؟
پریشے یونیورسٹی سے گھر پہنچی تو دروازہ کھولتے ہی اسے گھر میں تنہا عشال نظر آئی۔
آپی… وہ…
پریشے نے فوراً اس کے چہرے کی زردی کو محسوس کر لیا،
کیا ہوا عشال؟ صاف صاف بتاؤ!
عشال نے بمشکل آنکھیں چراتے ہوئے کہا،
پاپا کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے…
کیااا؟!
پریشے کی آواز اونچی ہو گئی، سانس بے ترتیب ہونے لگی۔
پاپا کا ایکسیڈنٹ؟ کہاں ہیں پاپا؟ کون سے اسپتال میں ہیں؟ مجھے کسی نے بتایا کیوں نہیں؟
آپی… مجھے نہیں پتا کون سے اسپتال… امی اور عشاء بس کچھ دیر پہلے ہی نکلے ہیں اُن کے پاس…
یا اللہ!
پریشے نے کانپتے ہاتھوں سے بیگ سے فون نکالا، جلدی جلدی اسکرین پر عشاء کا نمبر تلاش کیا۔
اور انوشے؟ وہ کہاں ہے؟
وہ اسکول سے آ کر سو گئی تھی… ہم نے اُسے نہیں اٹھایا۔
اچھا کیا… یا اللہ، یہ کال کیوں نہیں اُٹھا رہی؟
پریشے مسلسل کال ملاتی جا رہی تھی،
لیکن دوسری طرف مکمل خاموشی تھی…
جیسے سناٹا بس فون لائن کے اُس طرف بھی اتر آیا ہو۔
کالز… ایک کے بعد ایک…
مگر ہر بار وہی No Answer۔
پریشے کے دل میں عجیب سی بےچینی ابھری۔
پورا کمرہ جیسے دھند میں لپٹ گیا ہو۔
سوال بہت تھے، جوابات کہیں نہیں۔
+++++++++++++
کائنات… کائنات، دروازہ کھولو بیٹا…
مریم بیگم کافی دیر سے دروازے پر ہلکی ہلکی دستک دے رہی تھیں۔ آواز میں نرمی بھی تھی اور پریشانی بھی۔
مگر اندر، دروازے کے اس پار، کائنات جیسے ہر آواز سے کٹی ہوئی تھی۔
وہ بیڈ پر بیٹھی، گھٹنوں میں منہ دیے رو رہی تھی… خاموش آنسو، بےآواز چیخیں۔
تبھی فون بجا۔
اس نے آنسوؤں کے بیچ ہاتھ بڑھایا۔
اسکرین پر ایک جانا پہچانا نام جگمگا رہا تھا — حرا۔
کائنات نے فوراً کال اٹھائی۔
آگے سے حرا کی آواز تیزی سے آئی، جیسے خوشخبری سنا رہی ہو —
کائنات! کائنات! ڈیٹ شیٹ آ گئی ہے! صرف دس دن رہ گئے ہیں… اور پہلا پیپر بایولوجی کا ہے!
یہ سنتے ہی کائنات کے چہرے پر جیسے دھوپ اتر آئی ہو…
آنسوؤں کے بیچ ہنسی؟
کون ہوتا ہے جو امتحان کی خبر سن کر خوش ہو؟
کیا عجب لڑکی تھی یہ بھی…!
تم مجھے نوٹس سینڈ کر دو… اور ڈیٹ شیٹ بھی…
کائنات نے آنسو پونچھتے ہوئے جلدی سے کہا۔
تم رو رہی تھی کائنات؟
حرا کا سوال بے ساختہ تھا، جیسے دل نے چھو کر پوچھا ہو۔
نہیں… بس… چھوڑو یہ سب۔ تم یہ بتاؤ، اسکالرشپ کے لیے کتنے مارکس چاہییں؟ کیا مجھے مل جائے گی اسکالرشپ؟
ہاں ہاں! بالکل ملے گی! بس نائنٹی پرسنٹ سے اوپر نمبر لانا… یا اگر نائنٹی بھی آئے، تو اسکالرشپ تمہاری!
اوہ… تھینک یو! میں بعد میں بات کرتی ہوں، مما بلا رہی ہیں۔
یہ کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔
اور پھر…
اُٹھی، جیسے خود کو دوبارہ جوڑ لیا ہو،
دروازے کی طرف بڑھی،
اور اسے آہستہ سے کھول دیا۔
سامنے مریم بیگم کھڑی تھیں، آنکھوں میں سوال لیے۔
ایسے کون کرتا ہے، کائنات؟
کائنات کی آواز لرز رہی تھی، مگر اس میں ایک مضبوطی بھی تھی —
مما… میرے پیپرز… کیا میں دے سکتی ہوں؟
مریم بیگم نے ایک پل کو اُسے دیکھا،
پھر نرمی سے کہا
ہاں ہاں، بالکل دے سکتی ہو، میری جان۔
کائنات جیسے یکدم بول پڑی
مما! آپ دیکھیے گا! میں پیپرز دوں گی… پھر مجھے اسکالرشپ ملے گی… پھر میں یونیورسٹی جاؤں گی… میں بہت پڑھوں گی… ڈاکٹر بنوں گی… اور ہم یہاں سے چلے جائیں گے…
مریم بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا —
ان شاءاللہ! اللہ میری بیٹی کو کامیاب کرے…
آمین…
یہ دعا صرف زبان سے نہیں، دل سے نکلی تھی۔
++++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔
