taqdeer e azal

Taqdeer e Azal Episode 8 written by siddiqui

تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )

قسط نمبر ۸

کائنات آہستہ سے دروازے تک پہنچی۔
زیدان کے کمرے کی خاموشی ہمیشہ کی طرح گہری تھی، جیسے ہر چیز اُس کی مرضی کے تابع ہو۔
دروازے پر دو ہلکی دستکیں دیں —
ٹک، ٹک —
اور پھر اجازت کے بغیر ہی اندر آ گئی۔

زیدان اپنے بستر پر بیٹھا تھا،
ہاتھوں میں فون تھا
اور آنکھوں میں وہی تابش تھی۔۔۔

کائنات نے نظریں جھکائے آہستگی سے
کھانے کی ٹرے میز پر رکھ دی۔
خاموشی کچھ لمحے تک دونوں کے بیچ لٹکی رہی۔ پھر زیدان کی آواز آئی۔۔
کیا لائی ہو کھانے میں؟
زیدان کی آواز پر وہ چونکی، پھر جلدی سے سنبھلتے ہوئے بولی،
آج آپ کی پسند کا کھانا لے کر آئی ہوں…

زیدان نے فون سے نظریں نہیں ہٹائیں۔
آواز میں وہی کرخت پن تھا،
کیا لے کر آئی ہو؟

کائنات نے نگاہ اٹھائے بغیر جواب دیا،
چکن…

زیدان کے دھیرے سے کہا
اب جاؤ… یہاں سے۔

وہ پھر آہستہ سے پلٹی۔
قدموں کی چاپ نرم تھی، مگر دل کے اندر شور بہت تھا۔
دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز کے بیچ
کمرہ پھر سے خاموش ہو گیا۔

زیدان کی نظریں اب بھی اسی سمت جمی تھیں
جہاں وہ چند لمحے پہلے کھڑی تھی۔
وہ لمحہ بھر کے لیے سوچ میں ڈوب گیا۔

کیسی لڑکی تھی یہ…؟
بار بار اس کے کمرے میں آنے کی جرأت کرلیتی تھی،
اب تو وہ اس پر چیخ چیخ کر بھی تھک چکا تھا۔

++++++++++++++

رات کے ٹھیک دس بجے کا وقت تھا۔
گھر کے سب افراد ڈرائنگ روم میں جمع تھے —

کائنات کے کارنامے کی خبر اب عورتوں کے دائرے سے نکل کر مردوں کے کانوں تک بھی پہنچ چکی تھی۔

فیضان صاحب، عدنان صاحب اور اسوان،
تینوں سنگین چہروں کے ساتھ بیٹھے تھے۔
اور دوسری جانب،
رضیہ بیگم، عائشہ، زینب اور مریم بیگم خاموش تھیں —
مگر خاموشی میں بھی کانپتی ہوئی کشیدگی تھی۔

رضیہ بیگم نے سخت لہجہ میں کہا
ہم بول چکے ہیں — اسوان کی شادی کے فوراً بعد
کائنات کو رخصت کر دیں گے۔
اب وہ اس گھر میں نہیں رہے گی۔

اسوان کے ماتھے پر بل پڑے۔
دادی… سیریسلی؟
آپ کو لگتا ہے کائنات ایسا کچھ کر سکتی ہے؟

زینب بیگم نے فوراً تیز لہجے میں کہا،
کیوں نہیں کر سکتی؟
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ لڑکا اس کے بستر پر ایسے لیٹا تھا، جیسے اپنا ہی گھر ہو۔

اسوان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا۔
آپ لوگوں نے اُس وقت روکا کیوں نہیں؟
پتا کیوں نہیں کیا کون تھا وہ؟
ایسے کوئی بھی گھر میں گھس جائے تو قصور کائنات کا کیسے ہوا؟

زینب بیگم نے طنز بھری آواز میں کہا،
جب گھر کی بندی ملی ہوئی ہو تو کوئی بھی اندر آ سکتا ہے! ہم سب تو گھر پر تھے ہی نہیں۔۔۔

فیضان صاحب نے بھنویں سکیڑیں۔
تو کیا گھر میں کوئی بڑا نہیں تھا؟

عائشہ بیگم نے فوراً رخ مریم بیگم کی طرف موڑا۔
یہ مریم تھی نا! بولو مریم، تمہیں کچھ پتا نہیں چلا؟

مریم بیگم نے آہستہ سے کہا،
نہیں… میں تو کچن میں تھی، کام میں مصروف۔

زینب بیگم نے بات کاٹ دی،
اسے کیا پتا چلے گا؟
یہ تو بےہوش ہو کر کام کرتی ہے۔۔۔

فیضان صاحب نے گہری سانس لی۔
ویسے مجھے بھی نہیں لگتا کہ کائنات ایسی حرکت کر سکتی ہے۔
وہ سیدھی سادی، شریف سی لڑکی ہے —
اوپر سے پابندی سے نماز بھی پڑھتی ہے۔ وہ لڑکوں کے چکر میں کیسے پڑ سکتی۔۔۔

زینب نے طنزیہ لہجہ میں کہا
سب دکھاوا ہے! ورنہ اس نے آج تک ہمیں کچھ بتایا، کب کالیج جاتی ہے کب آتی ہے۔۔۔ ہمیں یہ بھی نہیں  بتایا کہ اس کے پیپر کب ہیں، کب ختم ہوں گے؟
سب چھپ چھپ کر کام کرتی ہے۔۔۔

اسوان نے ضبط سے کہا،
بتاتی بھی تو آپ سنتی کب ہے؟
بس اب میں جا رہا ہوں اس سے بات کرنے،
پتا تو کروں کہ وہ لڑکا کون تھا، کیا ماجرا ہے۔
ہو سکتا ہے کوئی اسے تنگ کر رہا ہو۔۔۔

زینب بیگم نے ناگواری سے کہا
تنگ کر رہا ہوتا تو اس کا نمبر ‘جان’ نام سے سیو نہ ہوتا! اب بولو؟

اسوان نے لمحہ بھر کے توقف کے بعد کہا،
یہی تو پوچھنے جا رہا ہوں۔

رضیہ بیگم نے غصے میں کہا،
کوئی ضرورت نہیں ہے جانے کی۔۔۔
ہم فیصلہ کر چکے ہیں —
یہ لڑکی اب اس گھر میں ایک دن بھی نہیں رہے گی۔۔۔

دادی… میری بات تو سنیے۔۔۔ اسوان نے رضیہ بیگم کو کچھ سمجھ جانا چاہا

عائشہ بیگم نے تیز لہجے میں کہا،
تمہیں کیا مسئلہ ہے اسوان؟
ہو جانے دو کائنات کی شادی، اچھا ہی ہے۔
پیپر ختم ہوتے ہی کر دیتے ہیں۔

زینب بیگم فوراً بولی،
ہاں، اگر ابھی شادی نہ کی تو پتہ نہیں
اگلا ڈرامہ کیا کرے گی یہ لڑکی۔۔۔

عدنان صاحب نے جھنجھلا کر دھیر سے زینب بیگم سے کہا،
تُم چُپ رہو یہ تمہارا معاملہ نہیں۔۔۔

زینب بیگم نے فوراً پلٹ کر کہا،
آپ چپ رہیں! یہ میرے گھر کا معاملہ ہے،

اسوان کی آواز اب بھرّی ہوئی تھی۔
اچھا، تو پھر بتائیے —
کس سے کریں گے اس کی شادی؟

زینب نے گردن اکڑا کر کہا،
میں دیکھ لوں گی۔۔۔
میرے خاندان میں بہت اچھے لڑکے ہیں۔

اسوان نے تلخی سے کہا،
اچھے لڑکے؟
تو پھر اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیوں نہیں کی آپ نے ابھی تک؟
اتنے ہی اچھے رشتے ہیں تو پہلے ان کا بندوبست کریں۔۔۔

زینب کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
کرونگی کرونگی، اُن کی بھی شادیاں کرونگی میں،  ابھی میری بچیوں کی عمر ہی کیا ہے۔۔۔

اسوان نے تیز لہجے میں کہا،
اور کائنات؟
وہ تو تیس کی ہو گئی نا۔۔۔

زینب نے نفرت سے کہا،
میری بیٹیوں کا اس بےحیا سے کوئی مقابلہ نہیں۔۔۔۔
وہ ایسی حرکتیں نہیں کر رہیں جو یہ کر رہی ہے۔۔۔

اسوان کی آواز اب خالص فیصلہ بن چکی تھی۔
بس چچی۔۔۔ بہت ہو گیا۔ اب ایک لفظ اور نہیں کائنات کے بارے میں۔۔۔
اگر آپ لوگوں نے کائنات کی شادی کرنی ہی ہے
تو پھر زیدان سے کریں۔

کمرے میں ایک دم خاموشی چھا گئی۔

رضیہ بیگم کی آنکھیں پھیل گئیں۔
کیااا؟

اسوان پورے اطمینان سے بولا،
ہاں دادی، کائنات کی اگر شادی ہوگی۔۔۔
تو صرف زیدان سے۔

عائشہ بیگم نے نرمی سے کہا
یہ تم کیا کہہ رہے ہو اسوان؟

فیضان صاحب نے سنجیدگی سے کہا،
زیدان کبھی نہیں مانے گا۔۔۔

زینب بیگم نے تلخ لہجے میں کہا،
لو جی، ہم تو اس بےحیا کو گھر سے نکالنے کا سوچ رہے ہیں،
اور یہ تو اسے ہمیشہ کے لیے ہمارے سر پر مسلط کرنا چاہ رہا ہے۔۔۔

اسوان نے خاموش مگر مضبوط لہجے میں کہا،
میری بات سب دھیان سے سن لیں —
کائنات نے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو،
اس کی شادی زیدان سے ہی ہوگی۔

رضیہ بیگم کی آواز گونجی،
نہیں۔۔۔
وہ زیدان کے قابل نہیں۔۔۔

اسوان نے گہری نظر ان پر ڈالی،
تو زیدان کس کے قابل ہے۔۔۔؟؟

یہ سوال سُن رضیہ بیگم خاموش ہو گئیں —
کمرے میں کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی تھی۔
ہر چہرے پر ایک ہی سوال لکھا تھا —
کیا واقعی اسوان یہ سب سنجیدگی سے کہہ رہا ہے؟

اسوان نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی،
پھر ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا
اگر… اگر کائنات نے یہ سب کچھ کیا بھی ہے نا —
تو اچھا ہے کہ گھر کی عزت گھر کے اندر ہی رہ جائے۔
وہ رکا، پھر آہستگی سے بولا،
پھوپی، آپ کو کوئی اعتراض ہے؟

مریم بیگم، جو اب تک خاموش بیٹھی تھیں،
ان کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔
مدھم سی آواز میں بولیں،
نہیں بیٹا… جو تمہیں ٹھیک لگے، وہی کرو۔
بس میری خواہش ہے کہ میں اپنی بیٹی کو خوش دیکھوں… بس یہی دعا ہے میری۔

فیضان صاحب نے کرسی کی پشت سے ٹیک ہٹائی،
چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں پھیل گئیں۔
یہ سب ٹھیک ہے، اسوان…
لیکن تم جانتے ہو نا، زیدان کبھی نہیں مانے گا۔

اسوان کے لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری،
وہ پرسکون مگر پُرعزم لہجے میں بولا
مان جائے گا… اُسے میں منا لوں گا۔

عائشہ بیگم نے دھیرے سے کہا
لیکن بیٹا۔۔۔۔ کیا تم جانتے ہو، تم کس بات کی بات کر رہے ہو؟
ان کا لہجہ نرم ضرور تھا مگر آنکھوں میں اضطراب صاف جھلک رہا تھا۔
زیدان کا مزاج دیکھا ہے تُم نے، تم جانتے ہو نا…
وہ تو اپنی مرضی کے خلاف ایک لفظ بھی برداشت نہیں کرتا۔اور شادی۔۔۔

اُس کی آپ سب فکر نہ کرے وہ سب مُجھے پر چھوڑ دیں۔۔۔۔وہ میرا بھائی ہے۔۔۔ میں مانا سکتا ہوں اُسے۔۔۔

زینب بیگم کا لہجہ اچانک بلند ہوا،
ہم کائنات کی شادی زیدان سے کروا ہی نہیں رہے…

اسوان نے تیز نظروں سے زینب بیگم کی طرف دیکھا۔۔
کائنات آپ کی بیٹی ہے کیا، چچی؟ لہجے میں سختی تھی۔۔۔ جس کی بیٹی ہے… اُس سے اجازت لے لی میں نے۔

زینب بیگم کی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ غصے کی چمک اُبھری۔
کیا مطلب ہے تمہارا، اسوان؟ ہم سب اس گھر کے بڑے ہیں، ہم سے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔۔۔

اسوان نے پرسکون مگر مضبوط لہجے میں جواب دیا،
میں جانتا ہوں چچی… لیکن کائنات آپ کی بیٹی نہیں ہے، اُس کی ماں موجود ہے، اور میں اجازت اُنہی سے لے چکا ہوں۔

کمرے میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔
سب کی نظریں یک دم مریم بیگم پر جا ٹھہریں،
جو چند لمحے پہلے تک خاموش تھیں،
مگر اب ان کی پلکوں پر نمی جھلک رہی تھی۔

زینب بیگم کے لبوں سے بےاختیار نکلا،
کیا… تم نے اجازت دے دی، مریم؟

مریم بیگم نے نظریں جھکا لیں۔
میں نے ہاں نہیں کی، مگر انکار بھی نہیں کر سکی…
میں بس چاہتی ہوں کہ میری بیٹی کے سر پر الزام نہ رہے۔
اگر یہ رشتہ اُس کی عزت بچا سکتا ہے… تو میں راضی ہوں۔

رضیہ بیگم نے گہرا سانس لیا،
ان کی نگاہ اب زینب پر تھی —
سُن لیا تُو نے؟ جس کی بیٹی ہے، وہ راضی ہے۔ اب ہمیں بحث نہیں کرنی چاہیے۔

زینب بیگم نے دانت بھینچ کر نظریں پھیر لیں،
آپ سب کو تو جیسے عقل ہی نہیں رہی…
ایک بدنامی چھپانے کے لیے اب ہم اپنی زندگی برباد کریں گے۔۔۔

اسوان نے آہستہ سے کہا،
آپ اپنی بیٹی کے بارے میں سوچیں، اُن کی فکر کرے۔۔۔

عدنان صاحب نے ذرا سا جھک کر زینب بیگم کے کان میں آہستگی سے کہا،
کیا کر رہی ہو تم؟ کس کے لیے لڑ رہی ہو؟ زیدان کے لیے؟
زینب بیگم چونکیں، مگر وہ بولنے سے پہلے ہی عدنان صاحب نے بات آگے بڑھا دی،
سیدھی بات کرو — تمہیں اپنی بیٹی کی شادی اُس سے کرنی ہے؟ اُس وحشی انسان سے؟
ان کے لہجے میں دبی ہوئی تلخی صاف جھلک رہی تھی۔
عقل کرو زینب، اسوان نے بالکل صحیح فیصلہ لیا ہے۔
ان کی آواز اب مدھم تھی، مگر ہر لفظ میں وزن تھا۔
زیدان سے کون شریف لڑکی شادی کرے گی؟
جس کا مزاج… جس کا غصہ… جس کا جنون سب کے سامنے ہے— لڑکیوں کو ایسے گھورتا ہے جیسے ابھی چیر پھاڑ جائے گا۔۔۔ایسے میں اُس کے لیے کائنات ہی بہتر ہے ۔۔۔

زینب بیگم نے نظریں چرائیں،
وہ… اب ایسا بھی نہیں— اتنا ہینڈسم ہے وہ۔۔۔

عدنان صاحب نے بات کاٹ دی،
اُس کے ہینڈسم نیس کا اچار ڈالنا ہے تُم نے، مزاج تو اُس کا ایک پیسے کا نہیں۔۔
اچھی بھلی لڑکی مل رہی ہے اُسے گھر بیٹھے،
اور تم اُس درندے جیسے مزاج والے لڑکے کی حمایت کر رہی ہو؟

دیر سے ہی سہی… مگر عائشہ بیگم کو بھی بات سمجھ آ گئی تھی۔
کائنات ہی زیدان کے لیے مناسب تھی — شاید کائنات ہی تھی جو اس کا غصے، اس کا وحشی پن، اس کا مزاج، اس کا تیور، اور اس کے ہر رویے کو برداشت کر سکتی تھی۔

اچھا ٹھیک ہے… زیدان کو مانا لو۔
سب کی نظریں ایک دم اُن کی طرف اٹھ گئیں۔
عائشہ بیگم نے ایک ہلکی سانس لی،
مجھے بھی اس رشتے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
اچھا ہے، گھر کی لڑکی گھر ہی میں رہے گی…
کم از کم باہر والوں کے سامنے رسوائی تو نہیں ہو گی۔

پھر عائشہ بیگم آہستہ سے رضیہ بیگم کے قریب جھکیں،
ان کے لب ہلکے سے ہلے — اتنے آہستہ کہ باقی کسی کو سنائی نہ دیا۔
کچھ لمحے کے لیے رضیہ بیگم کے چہرے کے تاثر بدلے،
غصّے کی شدت میں جیسے ایک لمحے کو توقف آیا۔

عائشہ بیگم نے دوبارہ سرگوشی کی،
اور اگلے ہی پل رضیہ بیگم نے سر ہلایا —
یوں جیسے ان کے دل نے بھی وہ بات مان لی ہو۔
ٹھیک ہے… پھر زیدان کا نکاح بھی اسوان کے ساتھ ہی ہوگا۔۔۔۔ راضیہ بیگم صرف کہا نہیں فیصلہ کیا تھا
اور۔۔۔۔
فیصلہ ہوچکا تھا، کائنات کے نصیب میں زیدان لکھا جا چکا تھا۔۔۔
شاید تقدیر نے اُس کے حصے میں محبت نہیں،
امتحان لکھا تھا۔

++++++++++++

کائنات اس وقت اپنے کمرے میں جائے نماز پر بیٹھی تھی۔
آنکھوں سے بہتے آنسو سجدے کی جگہ کو تر کر چکے تھے۔
الفاظ نہیں تھے — بس سسکیاں، بس فریادیں تھی

یا رب… تُو جانتا ہے، میں بےقصور ہوں…
تو ہی میری سچائی کا گواہ ہے…

وہ روتے ہوئے بار بار اپنے ہاتھ اُٹھا رہی تھی،
جیسے دعا کے پردے کے پیچھے چھپ کر
دنیا کی بے انصافیوں سے پناہ مانگ رہی ہو۔

یا اللہ، میں اپنی بے گناہی کا ثبوت تجھ ہی سے مانگتی ہوں۔ میں بےقصور ہوں… میرا حال تو تُو ہی جانتا ہے…یا رب، میں نے کسی کا دل نہیں توڑا، پھر بھی الزام میرے حصے میں آئے۔

کائنات کی سسکیاں آہستہ آہستہ تھمنے لگیں۔
دل جیسے رو کر ہلکا ہو گیا تھا۔
اس نے چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر ایک لمبی سانس لی —
ایسی سانس، جس میں تھکن بھی تھی اور تسلیم بھی۔

اُسی لمحے دروازہ آہستگی سے کھلا۔
قدموں کی ہلکی چاپ پر بھی وہ چونک گئی۔
پلکوں پر آنسو لٹک گئے،
اور نگاہ دروازے کی سمت اُٹھی۔

مریم بیگم دروازے پر کھڑی تھیں۔
انہوں نے دھیرے سے کہا،
نماز ختم کر لو، کائنات… مجھے تم سے بات کرنی ہے۔

کائنات نے چپ چاپ سلام پھیرا،
جائے نماز تہہ کی،
اور نظریں جھکائے اپنی ماں کے قریب آ بیٹھی۔

مریم بیگم نے گہری سانس لی۔
ان کے ہاتھوں میں لرزش تھی،
جیسے الفاظ دل کے اندر پھنسے ہوں،
لیکن اب نکلنے ہی والے ہوں۔

ہم نے… تمہارا نکاح کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

کائنات کے ہاتھوں کی انگلیاں جم گئیں۔
پلکوں نے لرز کر ماں کا چہرہ دیکھا —
ماما…؟
آواز بس سرگوشی بن کر نکلی۔
یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں…؟

مریم بیگم نے نظریں چرائیں،
یہی بہتر ہے، کائنات… تمہارے لیے بھی، ہمارے لیے بھی۔

کائنات کی سانس رُک گئی۔
ابھی تو وہ اپنے رب سے انصاف مانگ کر اٹھی تھی،
اور اب… اپنی زندگی کا فیصلہ سن رہی تھی —
وہ بھی بغیر صفائی، بغیر یقین کے۔

ماما… مجھے سزا دی جا رہی ہے نا؟
اس کے لب کپکپا گئے۔

مریم بیگم کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی، مگر آواز مضبوط تھی۔
کوئی سزا نہیں دی جا رہی تمہیں، کائنات… تمہیں بچایا جا رہا ہے۔

کائنات نے چونک کر مریم بیگم کی طرف دیکھا،
بچایا جا رہا ہے؟
آواز بھرّا گئی تھی،
ماما، آپ کو اپنی بیٹی پر یقین نہیں؟
میں نے اس لڑکے کو نہیں بلایا تھا…
میں تو اُسے جانتی بھی نہیں، وہ خود گھس آیا تھا…

مریم بیگم نے نظریں چرائیں، جیسے وہ نظریں ملاتیں تو کمزور پڑ جاتیں۔
بس، اب اس بات کو یہیں ختم کرو۔
تم اپنے نکاح کی تیاری کرو —
اسوان کے نکاح والے دن ہی تمہارا نکاح ہوگا۔

کائنات کے لب کھلے رہ گئے۔
اتنی جلدی؟ ماما… میرے پیپرز—

ہاں، دیتے رہنا پیپرز…
مریم بیگم نے سرد لہجے میں بات کاٹ دی،
ویسے بھی، نکاح کے بعد کون سا تُم یہاں سے چلی جاؤ گی۔۔۔

کیا مطلب، ماما…؟

مریم بیگم نے ہولے سے گہری سانس لی،
پھر ٹھہرے ہوئے مگر بوجھل لہجے میں کہا،
تمہارا نکاح… ہم زیدان سے کروا رہے ہیں۔

کائنات کے لب آدھے کھلے رہ گئے۔
چند لمحوں تک وہ ماں کا چہرہ دیکھتی رہی —
یوں جیسے سنے ہوئے لفظوں کو سمجھنے میں وقت لگ رہا ہو۔
دل نے ایک دھچکا سا محسوس کیا،
اور سانس جیسے گلے میں اٹک گئی۔

ز… زیدان؟
لفظ اُس کے لبوں تک آئے مگر نکل نہ سکے۔
چہرے پر خالی سی حیرت پھیل گئی،
اور آنکھوں میں ایک انجانا سا خوف اُتر آیا۔
دل جیسے کسی نے اندر ہی اندر زور سے دبا دیا ہو —
دھڑکن سنائی دے رہی تھی، مگر سانس نہیں۔
ماما، یہ آپ… یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟
وہ تو۔۔۔۔؟؟

مریم بیگم نے نرمی سے مگر حتمی لہجے میں کہا،
ہاں، زیدان۔
یہی بہتر ہے، کائنات…
تمہاری عزت، تمہارا نام، سب اسی نکاح میں محفوظ ہو جائے گا۔

کائنات کے آنسو گالوں پر بہنے لگے۔
دل سے ایک ہی آواز نکلی —
یہ نکاح نہیں، سزا ہے… اُس گناہ کی جو میں نے کیا ہی نہیں۔۔۔۔

ماما آپ جانتی ہے نہ وہ۔۔۔وہ کیسے ہیں۔۔۔
اس کے آنسو بہہ نکلے۔
میں اُس سے نکاح نہیں کروں گی۔
میں نے کچھ غلط نہیں کیا،
تو پھر کیوں میں سزا بھگتوں؟ وہ چیخی

مریم بیگم کے چہرے پر دکھ کی ایک لہر اُبھری۔
کائنات، آواز نیچی کرو… کوئی سن لے گا۔
تم نہیں سمجھتیں، یہ نکاح تمہیں بدنامی سے بچائے گا۔
یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔

فیصلہ…؟ یا سزا۔۔۔۔؟
میں نے خدا سے انصاف مانگا تھا،
اور آپ سب نے… مجھے نکاح کے نام پر سزا دے دی۔

کائنات…
انہوں نے نرمی سے کہا،
تمہیں یہ نکاح کرنا ہی ہوگا۔

کائنات نے آنسو صاف کیے،
نظریں سیدھی ماں کے چہرے پر گاڑ دیں —
نہیں ماما، میں نہیں کروں گی۔
چاہے سب کچھ کھو دوں…
پر میں یہ نکاح نہیں کروں گی۔

مریم بیگم کے قدم جیسے زمین میں گڑ گئے۔
وہ لمحہ بھر کائنات کو دیکھتی رہیں —
پھر آہستہ سے بولیں،
تمہیں اندازہ بھی ہے، تم کہہ کیا رہی ہو؟

کائنات نے آنسو پونچھے،
ہاں ماما، پورے ہوش و حواس میں کہہ رہی ہوں۔
میں یہ نکاح نہیں کروں گی۔

کمرے کی دیواروں نے جیسے یہ جملہ سن کر گونج پیدا کر دی۔
مریم بیگم کا رنگ اُڑ گیا۔
کائنات، تم پاگل تو نہیں ہو گئی؟
ساری فیملی نے فیصلہ کر لیا ہے۔۔۔

کائنات نے دھیرے سے سر جھٹکا۔
تو پھر بدل دیجیے فیصلہ —
کیونکہ میں کسی کے دباؤ میں اپنی زندگی نہیں برباد کر سکتی۔

اتنے میں دروازہ دھڑاک سے کھلا۔
عائشہ بیگم تیزی سے اندر آئیں،
ان کے پیچھے زینب بیگم بھی تھی۔

کیا کہہ رہی ہے یہ لڑکی؟ زینب بیگم چیخیں۔
مریم، تم نے سنا؟ انکار کر رہی ہے؟
ابھی تو ہم اسے عزت کے ساتھ بچانے کا راستہ دے رہے تھے۔۔۔۔

عائشہ بیگم نے نفرت بھری نظر ڈالی۔
بس یہی کمی رہ گئی تھی۔۔۔
بدنامی کے بعد بھی زبان چل رہی ہے۔

کائنات کے چہرے پر خوف ابھر آیا،
لیکن اس کی نظریں نیچی نہیں ہوئیں۔
میں نے کوئی گناہ نہیں کیا، آپ لوگوں کو میری بات کیوں سمجھ نہیں آرہی۔۔۔ میں بے قصور ہوں میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔

بس۔۔۔ مریم بیگم کی آواز کانپ گئی۔
ایک لفظ اور مت کہنا، کائنات۔۔۔

کائنات کے آنسو ٹپکنے لگے —
نرمی سے، خاموشی سے۔
آپ سب کو اپنی عزت عزیز ہے،
میری زندگی نہیں… نکاح میں قبول ہے بولتے ہی وہ مجھے جان سے مار دیں گے

کمرے کا دروازہ پھر کھلا —
رضیہ بیگم داخل ہوئیں۔
ان کے چہرے پر غصہ نہیں،
بلکہ ایک پتھر جیسی سختی تھی۔

یہ سب ہنگامہ کیوں ہو رہا ہے؟
زینب بیگم نے فوراً کہا،
امّاں، یہ لڑکی نکاح سے انکار کر رہی ہے۔۔۔

رضیہ بیگم کا چہرہ سُن سا ہو گیا۔
ایک لمحے بعد ان کے لب ہلے —
انکار؟

کائنات نے نظریں جھکا لیں،
لیکن آواز صاف تھی،
جی نانی… میں یہ نکاح نہیں کروں گی۔

رضیہ بیگم نے سرد لہجے میں کہا،
تو ٹھیک ہے، پھر نتائج کے لیے بھی تیار رہنا۔
ہم نے فیصلہ کر لیا ہے —
یہ نکاح ہوگا۔
چاہے تم مانو یا نہ مانو۔

کائنات کے آنسو جم گئے۔
اب وہ رو بھی نہیں رہی تھی —
بس ایک پتھر کی طرح کھڑی تھی۔
اندر کہیں سب کچھ ٹوٹ چکا تھا۔

اُس کے انکار، اقرار کی کوئی حیثیت نہیں تھی اس گھر میں۔
کبھی اگر اُس کی بات سنی جاتی،
تو شاید اُس کے آنسو اتنے بےوقعت نہ ہوتے۔
کبھی اگر کوئی اسے سمجھ لیتا،
تو شاید وہ اتنی خاموش نہ ہوتی۔

++++++++++++++

آج اسوان کا مَیُّوں تھا — پورا گھر پھولوں سے سجا ہوا تھا۔
ہر کونے سے ہنسی، رنگ اور خوشبو اُٹھ رہی تھی۔
در و دیوار پر زرد اور سفید گلابوں کی مالائیں لٹک رہی تھیں،

مَیُّوں کی محفل پورے گارڈن ایریا میں سجی تھی۔
چاروں طرف گلابی اور پیلے رنگ کی روشنیاں،
کھجور کے درختوں پر لٹکتی فئری لائٹس،
اور درمیان میں رسموں کی ہلکی سی گہما گہمی تھی۔
عورتوں کی باتوں، چوڑیوں کی چھنک اور دعاؤں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔

مگر اس ساری رونق کے بیچ، ایک چہرہ ایسا تھا جو خاموش تھا —
کائنات۔

رضیہ بیگم نے اسے بہت مارا تھا،
ایسا لگا تھا جیسے غصہ اترنے کا کوئی پیمانہ ہی نہیں۔
مگر اُس سب کے باوجود،
کائنات نے اب تک ہامی نہیں بھری تھی۔

وہ بس چپ تھی —
نہ ہاں کہی، نہ انکار۔
صرف آنکھوں میں ایک انجانی سی خالی جگہ تھی،
جہاں کبھی خواب ہوا کرتے تھے۔

گھر میں سب کو لگا جیسے معاملہ سلجھ گیا ہو۔
مریم بیگم بھی اب خاموش تھیں —
شاید انہوں نے خود کو سمجھا لیا تھا کہ یہ سب بہتری کے لیے ہے۔

مگر اسوان نے نِکاح کی بات ابھی تک زیدان سے ہوئی ہی نہیں تھی۔
سب کو ہدایت تھی کہ یہ بات نکاح والے دن ہی چھیڑی جائے —
تاکہ زیدان کے پاس نہ بھاگنے کا موقع ہو،
نہ کوئی بڑا ردِعمل دینے کا۔

اسی وجہ سے ابھی خاندان والوں تک بھی زیدان کے نکاح کی خبر نہیں پہنچی تھی۔۔۔

اوپر والے کمرے میں زیدان تھا،
ہمیشہ کی طرح دروازہ بند کیے،
سب کی آوازوں سے دور تھا

اور نیچے،
کائنات چپ چاپ کونے میں بیٹھی تھی،
جیسے کسی نے اُس کی آواز اس کی آنکھوں کے آنسوؤں میں قید کر دی ہو۔

اسی لمحے، محفل میں وہ داخل ہوا —
جیسے دھوپ میں اچانک بادل کا سایہ آ جائے۔

سفید کرتا، زیتونی واسکٹ، بال پیچھے کو سلیقے سے جیل کیے ہوئے۔
چہرے پر سنجیدگی، مگر آنکھوں میں ایک عجیب سا سکون تھا
اور لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ،
جو شاید سب کے لیے عام تھی،
لیکن کائنات کے لیے… ایک کرن بن گئی۔

اس نے جیسے ہی ہادی کو دیکھا —
دل کے اندر کہیں بہت گہرائی میں
ایک ہلکی سی اُمید جاگی۔
جیسے برسوں سے بند کھڑکی میں سے ہوا کی ایک لکیر گزر گئی ہو۔

ہادی بھائی آ گئے… کسی نے کہا،
اور محفل میں ایک نیا رنگ بھر گیا۔

مگر کائنات کے لیے یہ بس ایک آواز نہیں تھی،
یہ جیسے اشارہ تھا —
شاید راستہ یہی ہے۔
شاید خدا نے ابھی بھی اس کے لیے کچھ سوچا ہے۔

ہادی کے پیچھے ارسم داخل ہوا۔
گہرے نیلے رنگ کا کُرتا، ہاتھ میں موبائل،
چہرے پر وہی اعتماد، وہی لاپرواہ سی مسکراہٹ۔
باتوں میں الجھا ہوا، مگر نظر جیسے سب پر پھسلتی ہوئی۔
کائنات کی نگاہ اُس پر پڑی تو اُس نے فوراً نظریں موڑ لیں۔
وہ ہادی کے علاوہ کسی کو اتنا غور سے نہیں دیکھتی تھی۔۔

++++++++++++++

ابھی شام کے صرف آٹھ بجے تھے۔
محفل پوری طرح جمی نہیں تھی،
بس چند قریبی رشتے دار اور خاندان کے لوگ ہی آئے ہوئے تھے۔
باقی سب آہستہ آہستہ پہنچ رہے تھے —
کوئی راستے میں، کوئی تیار ہونے میں مصروف۔

پریشے کی فیملی بھی ابھی تک نہیں پہنچی تھی،
اور سب اُن ہی کا انتظار کر رہے تھے۔

زرتاشہ اپنے کمرے میں تھی،
آئینے کے سامنے جھکی،
جھومر کو ٹھیک کرتی ہوئی —
کبھی لپ اسٹک لگاتی، کبھی دوپٹے کا پلو درست کرتی۔

++++++++++

ہادی اور ارسم وہیں کھڑے تھے۔
اسوان ابھی موجود نہیں تھا،
محفل میں صرف چند خواتین تھیں —
اس لیے دونوں آہستہ آہستہ اندر،
اسوان کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔

کائنات کی نظر ان پر پڑی۔
ہادی کو اندر جاتے دیکھا تو
دل نے جیسے فوراً ایک فیصلہ کر لیا۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھی۔
آج اسے ہادی سے بات کرنی تھی،
اور آج ہی کرنی تھی —
ورنہ شاید پھر موقع نہ ملتا۔

آج وہ ہادی سے اپنی چھپی محبت کا اظہار کر دے گی آج وہ ہادی کو سب بتا دے گی۔۔۔۔ اُس کے ساتھ جو ہُوا۔۔۔پھر جو ہادی کا فیصلہ ہوگا وہ اُس کا ہوگا۔۔۔۔

وہ قدم بہ قدم اندر کی طرف بڑھی۔
چہرے پر ہلکی سی گھبراہٹ،
لیکن نگاہوں میں عزم صاف نظر آ رہا تھا۔

اُسی کے پیچھے،
زرتاشہ کی خالہ زاد بہن رانیہ بھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
بظاہر پانی لینے جا رہی تھی،
مگر اُس کی نظریں بھی کائنات کے تعاقب میں تھیں —
آہستہ آہستہ، وہ بھی اسی سمت بڑھنے لگی۔

++++++++++++

وہ ابھی اپنے کمرے سے نکل ہی رہی تھی کہ اچانک دروازہ کھلا —
کسی کے داخل ہونے کی آہٹ پر وہ چونک گئی۔

زرتاشہ چونکی
ت–تم… تم یہاں کیا کر رہے ہو؟

دروازے کے اندر ایک نوجوان کھڑا تھا۔
سادہ جینز، کالے رنگ کی شرٹ،
آنکھوں میں عجیب سا غصہ اور بےچینی۔

پیسے لینے آیا ہوں، وہ دبی آواز میں بولا۔
فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھیں تم میرا ؟

زرتاشہ نے غصے سے کہا
میں نے تمہیں پیسے دے دیے تھے، نا۔۔۔

صرف پانچ لاکھ۔
وہ ایک قدم آگے بڑھا۔
میں نے کہا تھا… پانچ اور چاہییں۔

زرتاشہ نے گھبرا کر اردگرد دیکھا،
آواز نیچی کی، میں دے دوں گی… لیکن ابھی نہیں۔

کب؟ اُس نے تیزی سے پوچھا۔

ابھی گھر میں شادی ہے، سب لوگ نیچے ہیں…
بس دو دن بعد آ جانا، میں خود دے دوں گی۔

وہ لڑکا چند لمحے اُسے دیکھتا رہا،
پھر آہستہ سے بولا،
دو دن بعد… اگر وعدہ پورا نہ کیا تو،

اچانک اُسے یاد آیا۔۔۔دو دِن بعد تو اسوان کا نکاح ہے۔۔۔
نہیں… دو دن بعد نِکاح ہے، تم شادی کے بعد آنا،
وہ تیزی سے بولی،
ابھی گھر میں سب لوگ ہیں…نہیں بلکہ
تم مت آنا، میں خود آؤں گی… تمہارے پاس۔

تم مجھے پاگل سمجھتی ہو کیا؟
وہ ایک قدم اور آگے بڑھا،
اس کے لہجے میں تلخی اور شک کی بھٹی جل رہی تھی۔
ہر بار یہی کہتی ہو ‘بعد میں، بعد میں’ —
اور جب وقت آتا ہے، تو تم غائب ہو جاتی ہو۔

اس سے پہلے کہ زرتاشہ کچھ بولتی —
دروازے پر نوک کی آواز گونجی۔
دونوں چونکے۔
تیار ہوگئیں۔۔۔
کائنات کی آواز آئی۔۔۔
اور پھر دروازہ ہلکا سا کھلا… اور اگلے ہی لمحے کائنات اندر داخل ہوئی۔ اُس کے ساتھ رانیہ بھی تھی۔

کائنات نے چونک کر سامنے کھڑے لڑکے کو دیکھا،
جو اب نظریں چرا کر ایک قدم پیچھے ہٹ چکا تھا۔
یہ… یہ تو وہی ہے۔۔۔؟؟

رانیہ نے الجھی نظروں سے دونوں کو دیکھا،

زرتاشہ نے فوراً بات سنبھالنے کی کوشش کی —
وہ… وہ ڈیکوریٹر ہے… سامان کے پیسے لینے آیا تھا،
الفاظ لبوں سے لڑکھڑاتے ہوئے نکلے۔
میں… میں ابھی دینے ہی والی تھی،

تم جھوٹ کیوں بول رہی ہو، زرتاشہ؟
کائنات کی آواز بھرا گئی۔
یہ… یہ تمہیں بھی تنگ کرنے آیا نا؟
کون ہو تم؟ میں ابھی اسوان بھائی کو بُلاتی ہوں۔۔۔وہ بتائیں گے تمہیں۔۔۔۔

لڑکے نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر جھکایا۔
ہائے اللہ… کتنی معصوم ہیں آپ…

رانیہ نے حیرت سے دونوں کو دیکھا۔
کیا چکر ہے؟ یہ کون ہے؟ کائنات، تم جانتی ہو اِسے؟

زرتاشہ نے تیزی سے بیچ میں بات کاٹی۔
نہیں! کوئی نہیں ہے یہ… تم دفع ہو یہاں سے۔۔۔

لڑکا ہلکا سا ہنسا،
ارے ارے… اتنی جلدی کیوں کر رہی ہیں،
اگر اجازت ہو تو بہادر محترمہ کو سچ بتا دوں؟
ہماری دوسری ملاقات ہو چکی ہے ان سے…

زرتاشہ کی آنکھوں میں غصہ بھر آیا۔
میں کہہ رہی ہوں، دفع ہو جاؤ یہاں سے۔۔۔

میں ابھی اسوان بھائی کو بلاتی ہوں….
وہ تیزی سے بولی اور دروازے کی طرف لپکی۔

کائنات! رُکو— رُکو ذرا…
زرتاشہ نے گھبرا کر پیچھے سے آواز دی،
مگر کائنات نے ایک پل کو بھی نہیں ٹھہرا۔

دروازہ زور سے کھلا اور اگلے ہی لمحے
وہ کمرے سے باہر جا چکی تھی۔

زرتاشہ کا چہرہ زرد پڑ گیا۔
اس نے گھبرا کر لڑکے کی طرف دیکھا۔

تم… تم نہ مرواؤ گے مجھے!
اب فوراً دفع ہو یہاں سے…

لڑکے کے لبوں پر ایک مدھم سی مسکراہٹ اُبھری،
پیسہ وقت پر دے دینا۔۔۔
وہ کہتا روم سے نکل گیا۔۔۔۔

+++++++++++

محفل میں بیٹھی خواتین کے درمیان اچانک ہلچل مچ گئی۔
پہلے اسوان تیزی سے گزرا،
پھر اُس کے پیچھے ارسم اور ہادی۔

سب کی نظریں ایک ساتھ اُدھر اُٹھ گئیں۔
باتوں کا شور ایک دم تھم گیا۔

یہ کیا ہوا؟
کچھ مسئلہ لگتا ہے…
سرگوشیوں کا شور بڑھنے لگا۔

تب رانیہ آگے ہوئی،
چہرے پر تجسس اور آواز میں اضطراب۔

زرتاشہ کے کمرے میں کوئی لڑکا تھا…
ایک جملہ تھا، مگر جیسے ہوا میں چنگاری پھینک دی گئی ہو۔

خواتین کی آنکھیں پھیل گئیں۔
کیا؟ لڑکا؟
زرتاشہ کے کمرے میں؟

رانیہ نے تیزی سے کہا،
ہاں! زرتاشہ اُسے بچانے کی کوشش کر رہی تھی،
اور کائنات… وہ اُسے پہچانتی تھی!
اب وہی لڑکا بھاگا ہے —
اسوان بھائی، ارسم اور ہادی اُسے پکڑنے گئے ہیں۔۔۔

محفل میں جیسے بھنبھناہٹ سی پھیل گئی۔
چہروں پر حیرت، تجسس، اور کہیں کہیں شک کی جھلک۔
کچھ عورتوں نے چپکے سے ایک دوسرے کے کان میں بات کی،
اور فضا میں ایک بےچینی سا شور اُٹھ کھڑا ہوا —

++++++++++++++

وہ لڑکا، جو زرتاشہ کے کمرے سے نکلا تھا،
اب پورے ہوش و حواس کھو چکا تھا۔
نیچے مَیون کی چہل پہل، روشنیوں کی چمک،
اور ہر طرف ہنسی مذاق کی آوازیں —
اُس کے لیے وہ سب شور قیامت بن گیا تھا۔

دل دھڑک رہا تھا، سانسیں اکھڑی ہوئی تھیں۔
کہیں پکڑا گیا تو؟
یہی خیال سر پر ہتھوڑے کی طرح بج رہا تھا۔

بچنے کے لیے وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگا،
راہداری میں چند ملازم گزرے —
وہ فوراً دیوار کے ساتھ لگ گیا۔
پھر جیسے ہی موقع ملا،
ایک کھلا ہوا دروازہ دیکھ کر بنا سوچے سمجھے اندر گھس گیا۔

کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا تھا —
وہ لمحہ بھر کو رک گیا۔
کمرہ خالی نہیں تھا۔۔۔ بیڈ پر وہ بیٹھ بیٹھا تھا زیدان۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

1 Comment

  1. Ahhhhh next ep do jldi wo zidan ke kamre mai chala gaya

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *