تقدیرِ ازل ( از قلم صدیقی )
قسط نمبر ۹
تُو جو کہہ دے تو میں ساری دنیا سے لڑ جاؤں
لیکن تو جو ہیں مُجھے سے کہتا ہی تو نہیں۔۔۔
اور جب زیدان کی نظر اُس لڑکے پر پڑی تو زیدان کے منہ سے بے اختیارِ نِکلا۔۔
ابے تُو یہاں کیا کر رہا ہے؟
لڑکا، جو ابھی ابھی سانس بحال کرنے کی کوشش کر رہا تھا، چونک کر سیدھا ہوا۔
ابے بھائی تُو یہاں؟
زیدان نے بیزاری سے کہا
بدقسمتی سے یہ منحوس گھر میرا ہی ہے… اور یہ کمرہ بھی۔
لڑکے نے شکر ادا کرنے والے انداز میں ہاتھ جوڑ دیے،
بھائی، اچھا ہوا تیرا ہی گھر ہے… یار، مجھے بچا لے۔
زیدان نے فوراََ ناگواری سے کہا
نہیں بچا رہا… اب دفع ہو یہاں سے۔
بھائی، یار، پلیز… بچا لے نا، خدا کا واسطہ۔۔۔
وہ التجا کے لہجے میں بولا، سانس پھولا ہوا تھا،
جیسے پیچھے کوئی قیامت آ گئی ہو۔
زیدان نے تیز نظروں سے اُسے گھورا
پہلے تو یہ بتا، تُو یہاں آیا کیسے؟
لڑکے نے کانپتی سانسوں کے درمیان کہا،
یار، مت پوچھ… بہت گڑبڑ ہو گئی ہے۔
زیدان نے ابرو چڑھائے،
صاف صاف بول—کیسی گڑبڑ؟
وہ بوکھلاہٹ میں اردگرد دیکھنے لگا،
زرتاشہ کے کمرے میں تھا… پیسے لینے گیا تھا… پھر اُس کی گزن نے دیکھ لیا اور اب اُس کا بھائی میرے پیچھے لگا ہے۔۔۔
زیدان کی آنکھوں میں لمحے بھر کے لیے حیرت کی چمک ابھری،
مگر اگلے ہی لمحے اُس نے تھنڈے لہجے میں کہا،
تو مطلب، تو صرف بربادی پھیلانے آیا ہے اس گھر میں؟
لڑکا جھک کر ہاتھ جوڑنے لگا،
خدا کے لیے، ابھی کے لیے بچا لے… کل چلا جاؤں گا، وعدہ۔۔۔
زیدان نے چہرہ سخت کر لیا، ایک لمحے کے لیے خاموش رہا، پھر آہستگی سے کہا،
پوری بات بتا، پھر سوچوں گا۔
یار، زرتاشہ نے مجھے کہا تھا — کام ہے۔ گھر میں ایک لڑکی کے کمرے میں گھسنا ہے، اور کہنا ہے کہ میں اس کا بوائے فرینڈ ہوں، پھر نکل جانا ہے۔ پانچ لاکھ کی بات ہوئی تھی، میں نے کہا دس لوں گا، اُس نے پانچ دے دیے باقی کے پیسے لینے آیا تھا۔۔۔
وہ ایک پل کے لیے رکا، پھر بولا، پھر وہی لڑکی—اسی نے مجھے زرتاشہ کے کام میں دیکھ لیا۔ اس نے اپنے بھائی کو بتا دیا، اور اب وہ مجھے ڈھونڈ رہا ہے۔
تیری بات میں کتنی سچ ہے؟ زیدان نے سرد لہجے میں پوچھا۔
لڑکے نے ہاتھ جوڑ دیے، سچ سچ، بھائی۔ میں خود بھی پھنسا ہوا ہوں—بات جتنی کہی وہی ہے۔
زیدان نے فوراً فون مانگا۔ لڑکے نے ہچکچاہٹ میں فون نکالا—واٹس ایپ کی چیٹس، نام، کال لوگ، جو بھی ثبوت تھا، زیدان نے آنکھوں سے تیزی سے اسکین کیا۔
پھر زیدان کو یاد آیا ذرتشا نے اس کا راستہ روکا تھا نہ
اُس نے اپنا فون اٹھایا اور فوراََ اسوان کو میسیج کردیا۔۔۔ اور پھر بولا۔۔۔
اُس دِن بھی تو آیا تھا نہ میرے گھر میں تیری وجہ سے میری نیند خراب ہوئی تھی۔
یار بھائی میرے کو کیا پتہ تھا کہ تیرا گھر یہ۔۔۔ ورنہ تو میری ماں کی توبہ کبھی نہیں آتا۔۔۔
زیدان نے سرد لہجے میں اُس کی طرف دیکھتے کہا
اچھا اب بیٹھا جا یہیں سکون سے میرے کمرے میں کوئی نہیں آتا۔۔۔۔
وہ اب سکون کا سانس لیا صوفے پر بیٹھ ہی تھاکہ
دروازہ ایک دم سے کُھلا اور اگلے ہی پل، دروازے کی چوکھٹ پر اَسوان کھڑا تھا۔
آنکھوں میں غصہ، چہرے پر وہی رعب جس سے پورا گھر تھرتھرا جاتا تھا۔
اُس کے چہرے کی سختی نے لڑکے کے اندر خوف سا بھر دیا۔
لڑکے نے خوف زدہ نظروں سے زیدان کو دیکھا،
میں نے کہا تھا نا، میرے کمرے میں کوئی نہیں آتا…
پھر ذرا توقف کے بعد کندھے اچکا کر بولا،
پر یہ تو بھائی ہیں میرے —
یہ آ جاتے ہیں۔
اب اگر اپنی کھال بچانی ہے… اُس نے لڑکے کی طرف دیکھا،
تو بھائی کو سب کچھ سچ سچ بتا دے۔
پھر زیدان میں ہاتھ میں پکڑا اُس لڑکے کا موبائل اَسوان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا —
یہ لو، دیکھو بھائی…
زرتاشہ چڑیل کا کمال۔۔۔۔
لڑکا گھبراہٹ میں پسینے سے شرابور ہو چکا تھا،
ہونٹ کپکپا رہے تھے،
اور نگاہیں اَسوان سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔
زیدان کے چہرے پر ابھی وہیں بیزاری تھی۔۔۔
اب بتا دے سب، ورنہ یہ تجھے زندہ دفن کر دے گے۔
کمرے کا ماحول لمحہ بہ لمحہ بھاری ہوتا جا رہا تھا،
اَسوان کی نظریں اب سیدھی لڑکے پر جمی تھیں،
اور وہ، جیسے زمین پھٹ جائے اور وہ اُس میں سما جائے۔
لڑکے کے پاس اب کوئی راستہ نہیں بچا تھا—اس نے وہی سب کچھ اسوان کو بھی بتا دیا جو زیدان کو بتایا تھا۔
اسوان لڑکے کی بات سنے کے بعد زیدان کی طرف دیکھا۔۔۔
تُم بھی وہیں سوچ رہے ہو جو میں سوچ رہا ہوں؟؟
زیدان نے لڑکے کی طرف ایک بار اور دیکھا — آنکھوں میں وہی ٹھنڈی جانچ۔ پھر آہستگی سے سر ہلایا، جیسے کہ ہاں میں وہی سوچ رہا ہوں۔
+++++++++++++
ماحول ویسا ہی ہوا میں گھلتے ہوئے الفاظ کی طرح بکھر رہا تھا—ہنسی، سرگوشیاں، اور دلوں میں چھپے سوال۔ زرتاشہ نیچے کھڑی خاموش دعا مانگ رہی تھی، آنکھیں بند، ہونٹوں پر بے بسی کی ایک فریاد۔ اس کے لبوں پر جو الفاظ تھے وہ بس ایک ہی تھے خدا… بس اسے اسوان کے ہاتھ نہ لگنے دینا۔
مگر دعا جیسے سنی ہی نہیں گئی — اسی لمحے اسوان اُس لڑکے کو گھسیٹتے ہوئے محفل کی طرف لے آیا۔ پوری محفل کی نظریں فوراً وہاں جم گئیں۔
آدھا خاندان وہاں موجود تھا سب کے چہرے اَچانک سنور گئے۔ رضیہ بیگم کی آواز میں غصہ اور حیرت کا ملا جلا تاثر تھا اَے! یہ اسوان؟
اسوان نے بلا الفاظ سر جھکا کر لڑکے کو سامنے کھڑا کر دیا۔ اس کے ہاتھ مضبوط تھے مگر حرکت میں وہ سنجیدہ کم اور فیصلہ کن زیادہ لگ رہا تھا۔
عائشہ بیگم نے کہا، یہ لڑکا تو وہی ہے۔۔۔؟؟
اسوان نے ٹھنڈی آواز میں حکم دیا،
اب بول، وہی جو مُجھے بتایا تھا۔۔۔
لڑکا کچھ دیر کے لیے رک گیا—آنکھوں میں خوف، ہونٹ خشک۔ پھر اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے ہچکچاتے ہوئے کہا، میرا نام… عابد ہے، اور… میں زرتاشہ کا بوائے فرینڈ ہوں۔
اس جملے کے ساتھ محفل میں ایک گھبراہٹ سی دوڑی کچھ منٹوں کی خاموشی کے بعد لوگ الگ الگ انداز میں ریمارکس کرنے لگے۔ زینب کا ماتھا سکڑا، عائشہ بیگم کے ہونٹ کمپنے لگے، اور مریم بیگم کی آنکھوں میں دھیمی سی حیرت اور مایوسی دونوں تھی۔
زرتاشہ کا چہرہ ایک دم سے سفید پڑ گیا۔
زرتاشہ نے کانپتے ہوئے قدم آگے بڑھائے، آواز بلند کی —
کیا بکواس کر رہے ہو؟ کیوں جھوٹ بول رہے ہو؟
عابد نے کپکپاتے ہونٹوں سے، مگر ڈھیٹ لہجے میں کہا،
میں جھوٹ نہیں بول رہا… تم جھوٹ بول رہی ہو۔
اور اُس دن بھی میں تم ہی سے ملنے آیا تھا،
بس غلطی سے اُس لڑکی کے کمرے میں چلا گیا تھا۔
یہ کہتے ہوئے اُس نے سیدھا ہاتھ اٹھایا —
اور اشارہ کائنات کی طرف کیا۔
پورا صحن جیسے ایک لمحے کو سانس لینا بھول گیا۔
کائنات کے چہرے پر سکتے کی کیفیت تھی —
آنکھوں میں بے یقینی، لبوں پر لرزتی خاموشی۔
میں تو اسے جانتا بھی نہیں،
عابد نے بات مکمل کی،
میں تو زرتاشہ کے کہنے پر آیا تھا۔
رضیہ بیگم کا چہرہ سُن ہو گیا —
پہلے حیرت، پھر غصہ، اور پھر وہی دبی ہوئی شرمندگی۔۔۔
زرتاشہ…؟
ان کی آواز کرخت تھی،
یہ سچ ہے کیا؟
زرتاشہ نے ہڑبڑا کر کہا،
نہیں دادی۔۔ یہ جھوٹ بول رہا ہے، یہ سب جھوٹ ہے!
میں اسے جانتی بھی نہیں۔۔۔
اسوان نے آہستہ سے سر جھکایا، لبوں پر ایک سرد سی مسکراہٹ آئی،
اور پھر خشک لہجے میں بولا،
اچھا؟ نہیں جانتی؟
اس کے ساتھ ہی اُس نے عابد کا پکڑے فون میں زرتاشا کے وائس ریکارڈنگ آن کردیا جو اُس نے عابد کو پہلے کیفے میں بلاتے وقت کیا تھا اور دوسرا گھر پر۔۔۔۔
کل ڈیزرٹ کیفے میں مُجھے سے ملو مُجھے تُم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔
ابھی جاؤ میرے گھر۔۔۔۔سب گھر سے جا چکے ہیں ۔۔۔
اسوان نے بڑی مہارت سے وہیں وہیں ریکارڈنگ سُنائی جو اس وقت سنانی چاہیے تھی۔۔۔۔
محفل میں جیسے کوئی بم پھٹ گیا۔
کسی نے سانس لیا، کسی نے سر تھام لیا۔
رضیہ بیگم کے ہاتھ کانپ گئے،
اور عائشہ بیگم کا منہ کھل کر رہ گیا۔
زرتاشہ کے چہرے سے ساری رنگت اُڑ گئی۔
وہ ہکلاتے ہوئے بولی،
یہ۔۔۔ یہ ریکارڈنگ جھوٹی ہے۔۔۔ ایڈیٹ کی گئی ہے۔۔۔
زینب بیگم نے آگے بڑھ کر گھبرا کر کہا،
اور وہ فون؟ کائنات کے فون میں بھی تو تمہارا نمبر تھا — ‘جان’ کے نام سے۔۔۔
عابد نے گہرا سانس لیا، خوف اور جھجک کے بیچ لرزتی آواز میں بولا،
وہ… وہ مُجھے لگا وہ فون زرتاشا کا ہے، اور نمبر بھی،
اسی لیے میں نے وہ نمبر کا نام اِیڈٹ کر دیا تھا، شرّارت میں۔۔۔ کیونکہ زرتاشہ نے ہی مجھے اسی نمبر سے کال کر کے بلایا تھا۔
اُس کی بات سن کر جو بجلی زینب بیگم کے سر پر گری تھی،
وہ لمحے بھر کو سُن رہ گئیں۔
زرتاشہ کا چہرہ اب لال ہو چکا تھا —
غصے اور خوف کا امتزاج اُس کی آنکھوں میں صاف دکھائی دے رہا تھا۔
جھوٹ پہ جھوٹ بولے جا رہے ہو تم۔۔۔۔
وہ چلّائی،
اسوان نے پرسکون مگر کاٹ دار لہجے میں کہا،
تو پھر سچ کیا ہے، زرتاشہ؟
وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا،
یہ سب جھوٹ ہے؟
تو بتا دو، سچ کیا ہے؟
سب کے سامنے بتاؤ۔
زرتاشہ کی نظریں چاروں طرف بھٹکنے لگیں،
رضیہ بیگم کے چہرے پر غصہ،
عائشہ بیگم کے چہرے پر شرمندگی،
زینب بیگم کے چہرے پر غصّہ،
لیکن ابھی تک کوئی بھی آگے نہیں بڑھا تھا۔۔۔
کائنات کے وقت تو بہت لعنت ملامت ملی تھی کائنات کو۔ صِرف لعنت ملامت نہیں ساتھ میں تھپڑوں کو برسات بھی۔۔۔۔ زرتاشا کے وقت سب خاموش کیوں تھے۔۔۔؟؟
اب اسوان نے عابد کو چھوڑ دیا تھا اور عابد خاموشی سے اپنے راستے چُپ چاپ ہولیا۔۔۔
دروازے کی سمت سے عدنان صاحب اور فیضان صاحب تیزی سے اندر داخل ہوئے۔
چہروں پر حیرت اور تشویش، اور قدموں میں جلدی۔
یہ شور کیسا ہے؟ عدنان صاحب نے بلند آواز میں پوچھا،
آؤ، دیکھ لو اپنی بیٹی کے کارنامے۔۔۔۔
بوائے فرینڈ بناتی پھرتی ہے،
اور اوپر سے گھر میں بُلاتی بھی ہے!
خاندان کی عزت، گھر کی حرمت —
کسی چیز کی پرواہ نہیں اسے جیسے…
یہ زرتاشا کی خالہ کی آواز تھی جو محفل میں سے نکلی تھی۔۔۔ اُن کے بولتے ہی جیسے باقیوں کو بھی موقع مل گیا تھا۔۔۔۔ ابھی جو سب خواتین خاموش بیٹھی تماشائی بنی تھی۔۔۔ ان کے ہونٹوں پر سرگوشیاں پھوٹنے لگیں —
اللہ خیر کرے، یہ کیا سن رہے ہیں ہم…
یہ زرتاشہ تو بہت نازوں میں پلی تھیں…
ایسے کردار کی توقع تو کسی نے نہیں کی تھی…
کچھ عورتوں نے چہروں پر دوپٹے ڈال لیے،
کچھ نے ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھا،
اور باقی بس تماشہ دیکھنے لگی تھیں —
کیونکہ اب تماشہ شروع ہو چکا تھا۔
زرتاشہ کی ٹانگوں سے جیسے جان نکل گئی،
وہ ایک قدم پیچھے ہٹی،
اس کی نظریں زمین پر گڑ گئیں۔
عدنان صاحب کی نگاہیں اُس پر تھیں —
ساکت، بھاری، اور سوالوں سے بھری۔
یہ سب… سچ ہے؟
انہوں نے بس اتنا پوچھا،
اور یہ ایک سوال زرتاشہ کے وجود پر تازیانہ بن کر لگا۔
فیضان صاحب کو اب ساری باتیں سمجھ آچکی تھی۔۔۔
وہ آگے بڑھے،اور غصے سے بھرے لہجے میں بولے،
کیا کر رہے ہو اسوان؟
بیچ محفل میں، سب کے سامنے یوں بہن بیٹیوں کو رسوا نہیں کرتے۔۔۔۔
اسوان نے ان کی طرف دیکھا
آنکھوں میں وہی چنگاریاں،
لہجہ مگر سرد، پتھر کی طرح۔
اور جو اس نے کیا؟
وہ بولا،
یہ میری بہن نہیں ہے۔
اگر ہوتی… تو اپنی عزت کا خیال کرتی اور دوسرے کا بھی، پھر اس کی عزت بھی یوں نیلام نہ ہوتی۔۔۔
اسوان کی اس بات کا مطلب زرتاشا اچھے سے سمجھ چکی تھی اُس نے نظر اٹھا کر اسوان کو گھورا۔۔۔
عدنان صاحب وہیں کھڑے تھے، خاموش اور ساکت جب اُن کے کانوں میں خواتین کی گرجوشی سنائی دی
اللہ توبہ… یہ وہی زرتاشہ ہے نا؟ عدنان صاحب کی بیٹی؟
ایک اور عورت نے فوراً جواب دیا،
ہاں ہاں، وہی… کتنی شریف لگتی تھی، آنکھوں پر دھوکہ کھا گئے سب۔
بس یہی زمانہ رہ گیا ہے بہن، بیٹیاں ہاتھ سے نکل جائیں تو سمجھو عزت گئی…
اور اوپر سے اتنے ناز نخرے، تعلیم، فیشن — سب کچھ بگاڑ دیتا ہے لڑکیوں کو…
کچھ عورتیں دکھاوے کے افسوس میں بولیں،
ہائے افسوس، کتنی عزت دار فیملی ہے، ایک پل میں ساری عزت خاک میں مل گئی۔۔۔۔
پھر ایک جوان عورت بولی،
پر ایک بات تو ہے… اسوان نے غلط تو نہیں کہا، اگر بہن ہوتی تو ایسا قدم کبھی نہ اٹھاتی…
سب کے چہروں پر تجسس اور طنز کی ملی جلی لکیریں تھیں —
کوئی افسوس کر رہا تھا،
کوئی چپکے سے لطف لے رہا تھا،
اور کچھ وہ بھی تھیں جو اپنے گھروں کی بیٹیوں کے بارے میں سوچ کر کانپ اٹھی تھیں۔
کمرے کا ماحول اب دعا کی نہیں، تماشے کی فضا بن چکا تھا —
ہر نظریہ زرتاشہ پر جمی تھی،
اور زرتاشہ… بس پتھر بنے کھڑی تھی،
نہ آنسو نکل رہے تھے، نہ آواز۔
دل میں ایک ہی شور تھا — یہ سب کیسے ہوا؟ میں سب کے سامنے کیسے بےنقاب ہوگئی؟
اُس کے دماغ میں جیسے گھنٹیاں بج رہی تھیں،
ہر چہرہ، ہر نظریہ، ہر سرگوشی،
اُس کے وجود پر کسی چاقو کی طرح چل رہی تھی۔
زینب بیگم کی نظریں اُس پر جمی تھیں —
غصے سے بھری، مگر کہیں اندر ایک شکست بھی چھپی تھی۔
عدنان صاحب اب بھی خاموش تھے،
لیکن اُن کی خاموشی سب آوازوں سے زیادہ بھاری تھی۔
زرتاشہ نے ہلکے قدم آگے بڑھائے،
لب کھولے — مگر الفاظ الجھ گئے۔
میں… میں نے ایسا کچھ نہیں کیا… وہ لڑکا جھوٹ بول رہا ہے… میں بس۔۔۔
عدنان صاحب کے لب ہلے
بس… آج سے تم میری بیٹی نہیں ہو۔
زرتاشا کی سانس ایک دم سے روک گئی۔۔۔
کوئی بھی لڑکا دیکھو… وہ بولے،
اور ان کی آواز میں ضبط کے باوجود لرزش تھی،
ابھی… ابھی اسی وقت اس کا نکاح پڑھوا کر رخصت کرو اسے۔۔۔ میں اس کی اب شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔
زینب بیگم نے گھبرا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا،
عدنان! یہ کیا کہہ رہے ہو آپ؟
مگر عدنان صاحب کے چہرے پر پتھر جیسا سکوت تھا۔
میں وہ باپ نہیں بن سکتا،
انہوں نے دھیرے سے کہا،
جس کی بیٹی گھر بیٹھے خاندان کی عزت نیلام کرے…
زرتاشہ کے لب ہل رہے تھے، مگر آواز نہیں نکل رہی تھی۔
دل چاہ رہا تھا کچھ کہے، صفائی دے —
پر اب نہ کوئی سننے والا تھا،
نہ یقین کرنے والا۔
جو کچھ کائنات کے ساتھ کیا تھا،
آج سب کچھ اُسی پر پلٹ آیا تھا۔
وقت کے ترازو نے حساب چُکتا کر دیا —
کائنات کو اُس نے گھر کی چار دیواری میں،
چند عورتوں کے بیچ ذلیل کیا تھا…
اور آج خود وہ،
پورے محلے کے سامنے رسوا کھڑی تھی۔
جس عزت پر ناز تھا،
وہی عزت آج تماشہ بن گئی۔
جس لب سے کبھی طنز نکلتا تھا،
آج وہی لب کانپ رہے تھے،
صفائی دینے کے لیے،
مانگنے کے لیے — یقین… بس ایک یقین۔
کائنات چپ تھی،
لیکن اُس کی خاموشی سب سے بلند آواز تھی۔
زرتاشہ نے ایک نظر اُس پر ڈالی —
وہی لڑکی،
جسے کبھی اُس نے کمتر سمجھا تھا،
آج اسی کی آنکھوں میں وہ آئینہ تھا
جس میں زرتاشہ اپنی اصل حقیقت دیکھ رہی تھی۔
کہ دیکھو…
کیسا محسوس ہوتا ہے جب الزام لگے،
اور کوئی تم پر یقین نہ کرے۔
زینب بیگم کے صبر کا پیمانہ آخر کار لبریز ہو چکا تھا۔
ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے، بس دہکتے ہوئے شعلے تھے —
وہی شعلے جو ماں کے فخر کے ٹوٹنے پر بھڑکتے ہیں۔
کتنا مان تھا مجھے تم پر…
ان کی آواز کپکپائی، مگر اگلے ہی لمحے تھپڑ کی گونج نے محفل کی ساری سرگوشیاں دبا دیں۔
سب مٹی میں ملا دیا تم نے۔۔۔۔
زرتاشہ ایک قدم پیچھے ہٹی،
چہرے پر ہاتھ رکھے،
آنکھوں میں خوف اور شرمندگی کی لکیریں ایک ساتھ اُبھر آئیں۔
زینب بیگم کی سانسیں تیز تھیں،
دیکھو، دیکھو—اپنے باپ کا جھکا ہوا سر! تمہیں یہ سب کرتے ہوئے ہمارا ذرا بھی خیال نہیں آیا؟
عدنان صاحب اب سب کی طرف متوجہ ہوئے۔
چہرے پر تھکن، آنکھوں میں نمی، اور آواز میں وہ کپکپاہٹ —
جو صرف ایک باپ کے اندر کے ٹوٹنے سے آتی ہے۔
انہوں نے دونوں ہاتھ جوڑ دیے،
اور دھیرے سے کہا،
بس… میری عزت بچا لو… پلیز…
دل جیسے مٹھی میں آ گیا ہو۔ سانس لینا بھول گئی تھی۔
شرمندگی، دکھ، اور بےبسی — تینوں نے اسے ایک ہی وقت میں جکڑ لیا۔
اب کوئی صفائی، کوئی آنسو، کوئی وقت —
اس اذیت کا ازالہ نہیں کر سکتا تھا۔
جو اذیت اس وقت زرتشا کو ہورہی تھی۔۔۔
عدنان صاحب کے الفاظ ابھی فضا میں گونج ہی رہے تھے کہ محفل کی عورتوں میں سرگوشیاں اٹھنے لگیں..
دبی دبی باتیں، مگر ہر لفظ خنجر کی طرح کاٹتا ہوا۔
ہائے، اب کون اپنائے گا اسے؟ ہمیں اپنی عزت بہت پیاری ہے۔۔۔۔
ایسی لڑکیاں گھر کی نہیں، گلی کی ہوتی ہیں…
کتنی شریف لگتی تھی، دیکھو اندر سے کیا نکلی۔۔۔
کسی نے افسوس کے انداز میں سر ہلایا،
کسی نے طنز کے لہجے میں کہا،
بیٹی کو سنبھال نہ سکے، اب عزت مانگ رہے ہیں…
زرتاشہ نے آنکھیں بند کر لیں۔
ہر جملہ اس کے کانوں میں شور بن کر گونج رہا تھا —
طنز، فتوے، افسوس، اور فیصلہ… سب ایک ساتھ۔
یہ سارا تماشا اوپر چھت پر کھڑا زیدان بڑے اطمینان سے دیکھ رہا تھا۔
ہاتھ میں آدھی خالی شراب کی بوتل، آنکھوں میں چمک،
اور لبوں پر ایک ایسی مسکراہٹ — جو کسی کے درد سے لطف اٹھا رہی تھی۔
نیچے زرتاشہ کی ٹوٹی ہوئی آواز،
عدنان صاحب کے لرزتے جملے،
اور عورتوں کی سرگوشیاں —
سب مل کر ایک ڈراما بنا رہے تھے،
اور زیدان اس ڈرامے کا سب سے خاموش مگر شیطانی تماشائی تھا۔
واہ زرتاشہ۔۔۔ وہ زیرِ لب بولا،
جس غرور سے تم چلتی تھیں نا،
آج وہی غرور تمہارے قدموں میں بکھرا پڑا ہے… اور روکو زیدان شاہ کا راستہ۔۔۔
اُس نے بوتل لبوں سے لگائی،
ایک گھونٹ بھرا،
اور نیچے جھک کر محفل کو مزید غور سے دیکھا۔
زرتاشہ کے لرزتے لب، عدنان صاحب کی خاموشی،
اور عورتوں کی طنزیہ باتیں —
سب کچھ اُس کے لیے ایک فلم لگ رہا تھا۔
لیکن اگلے ہی لمحے اُس کی نظریں کسی اور سمت جا ٹھہریں۔ چھت کے کنارے سے تھوڑا سا جھک کر دیکھا۔۔
تو مریم بیگم کے برابر ایک لڑکی کھڑی تھی۔
چہرہ نازک، آنکھیں نم، اور اُن آنکھوں سے بہنے والے آنسو۔۔۔۔
زیدان کی مسکراہٹ ایک پل کو تھم گئی۔
اُس کے ہاتھ میں پکڑی بوتل ہوا میں رُک سی گئی۔
اس نے ذرا غور سے دیکھا —
وہ لڑکی رو نہیں رہی تھی، محسوس کر رہی تھی۔
زرتاشہ کی ذلت اُس کے چہرے پر افسوس بن کر اُتر رہی تھی، نہ خوشی، نہ نفرت — صرف درد۔
زیدان نے ایک نظر اُس لڑکی پر ڈالی —
جس کے گالوں پر آنسو بہہ رہے تھے۔
پھر بے زار سا منہ بنایا۔
ایک لمبی سانس کھینچی اور ناک چڑھاتے ہوئے زیرِ لب بولا —
ہنہ… سارا موڈ خراب کر دیا۔۔۔
اُس کی آنکھوں میں وہی خمار باقی تھا،
مگر دل کا لطف جیسے اچانک زائل ہو گیا ہو۔
چہرے پر ہلکی سی جھنجھلاہٹ،
قدموں میں لاپرواہی،
اور ہاتھ میں پکڑی بوتل اب بےمعنی لگ رہی تھی۔
اس نے بیزاری سے بوتل کا آخری گھونٹ لیا،
اور وہیں چھت کے کونے پر بوتل زور سے پھینک دی —
بوتل بجتے ہوئے ٹکڑوں میں بکھر گئی،
بالکل ویسے ہی جیسے نیچے زرتاشہ کی عزت بکھری تھی۔
فضول ڈرامہ… وہ بڑبڑایا،
اور رخ موڑ کر آہستہ آہستہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
قدموں کی چاپ میں غرور،
اور لہجے میں وہی بےحسی —
جس سے لگتا تھا جیسے دنیا جل بھی جائے،
زیدان کو فرق نہیں پڑے گا۔
اور
نیچے محفل میں عدنان صاحب کے جوڑے ہوئے ہاتھ ابھی لرز ہی رہے تھے کہ
اچانک کسی نے آگے بڑھ کر وہ لرزتے ہاتھ تھام لیے۔
سب کی نظریں ایک ساتھ اس سمت پلٹ گئیں۔
اُس کی آواز بھاری تھی، مگر یقین سے بھری —
میں کروں گا شادی…
عدنان صاحب نے حیرت سے سر اٹھایا،
سامنے وہ کھڑا تھا —
سیدھا، مضبوط، اور آنکھوں میں ایک عجیب سا عزم۔
اُس نے عدنان صاحب کے ہاتھ اور مضبوطی سے تھام لیے، اور دھیرے مگر پُراعتماد لہجے میں بولا،
آپ ہاتھ مت چھوڑیں… میں بناؤں گا اسے اپنے گھر کی عزت۔
یہ جملہ ہوا میں گونجا تو محفل میں جیسے سانس رک گئی۔ عورتوں کے چہروں سے طنز لمحہ بھر کو غائب ہوا، اور مردوں کی نظریں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
زرتاشہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُس شخص کو دیکھ رہی تھی — جسے دیکھ کر اُس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا،
میں کروں گا اس سے شادی…
یہ جملہ جیسے کائنات کے دل کے آر پار اُتر گیا۔
اُس کی روئی ہوئی آنکھوں کی پلکیں ہلکی سی اٹھیں،
نظریں بےاختیار اُس سمت مڑ گئیں—
اور جب اُس شخص کو دیکھا،
تو گلے میں کچھ اٹک سا گیا۔
دل بند ہونے لگا، سانسیں رک سی گئیں،
اور کانوں میں بس ایک ہی آواز گونجتی رہی—
میں کروں گا اس سے شادی…
یہ آواز عبدل ہادی کی تھی۔
کائنات کا رنگ اُڑ گیا۔
چہرے سے ساری رونق، ساری زندگی جیسے کھینچ لی گئی ہو۔
اس نے ایک قدم پیچھے لینا چاہا مگر قدموں نے ساتھ نہ دیا—
اور اگلے ہی لمحے،
وہ زمین پر گر چکی تھی۔
کائنات۔۔۔۔ مریم بیگم چیختی، فوراََ کائنات کی طرف بڑھی ہوئی۔۔۔
+++++++++++
کائنات کو جب ہوش آیا تو اس نے خود کو اپنے بیڈ پر پایا۔ گھڑی کی سوئیاں سات بجا رہی تھیں۔ کچھ لمحوں تک اُس کا دماغ بالکل خالی رہا، پھر اچانک جیسے یادوں کا دروازہ کھل گیا—ہر منظر، ہر لفظ، ہر چہرہ اُس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔
کائنات جھٹکے سے اُٹھی۔
چپل پہنے بغیر ہی دروازہ کھولا اور کوریڈور میں نکل آئی۔
گھر…
پوری طرح جاگ چکا تھا۔
سیڑھیوں کے نیچے سے قہقہوں اور دوڑتی قدموں کی آوازیں آرہی تھیں۔
خوشبو — گلاب اور موتیے کی — ہوا میں گھل رہی تھی۔
ملازمہ ہاتھوں میں تحفوں اور پھولوں کی ٹوکریاں اٹھائے بھاگتی پھر رہی تھی۔
ہر طرف اک ہلچل تھی۔
ایک ایسی ہلچل جو خوشی کے شور میں لپٹی ہوئی تھی۔
پورا گھر سجا آرہا تھا ہر طرف ہر خوشیاں ہی خوشیاں تھی۔۔۔ لیکن کائنات کا دل اندھیروں میں ڈوبا تھا۔۔۔
تبھی سامنے سے کائنات کو عائشہ بیگم آتی دیکھائی دی۔۔وہ ملازمہ کو ہدایات دے رہی تھیں، ساری تیاریاں خود دیکھ رہی تھیں۔
جب اُن کی نظر کائنات پر پڑی تو وہ نرمی سے اس کے پاس آئیں۔ اور پوچھا۔۔
کیسی ہو، بیٹا؟ طبیعت اب کیسی ہے تمہاری؟ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ دو دن سے تم نے کچھ نہیں کھایا… کمزوری کی وجہ سے بےہوش ہوگئی تھی۔۔۔
کائنات نے اُن کی طرف دیکھا —
اتنا میٹھا لہجہ؟
وہ بھی عائشہ بیگم کا؟
ایسے لہجے میں تو اُنہوں نے آج تک کائنات سے بات نہیں کی تھی۔۔۔
اس نے صرف سر ہلایا۔
عائشہ بیگم مسکرائیں۔
مجھے لگتا ہے تمہیں اب بھی کمزوری ہے… کچھ کھاؤ گی؟ایسا کرتی ہوں، تمہارے لیے کمرے میں اچھا سا ناشتہ بھجواتی ہوں، آرام سے کھا لینا۔ کچھ کھا لو گی تو ٹھیک ہوجاؤ گی۔۔۔
کائنات نے آہستہ سے پوچھا
آسوان بھائی کہاں ہیں؟ مجھ… مجھ سے ان سے بات کرنی ہے۔ سو رہے ہیں یا جاگ گئے؟
عائشہ بیگم کے لبوں پر ہلکی سی ہنسی آئی۔
سونا؟ ارے وہ تو سویا ہی نہیں! اپنی شادی کی خوشی میں تو پاگل ہوا جا رہا ہے۔ ساری رات جاگتا رہا، اب شاید اپنے کمرے میں ہوگا۔ ابھی یہیں تھا۔۔
اس نے آہستہ سے کہا،
اچھا…
اور پھر بغیر کچھ کہے اوپر کی طرف بڑھ گئی —
آسوان کے کمرے کی جانب۔ ایک آخری امید ایک آخری کوششں۔۔۔۔
سیڑھیوں کے موڑ پر کائنات کے قدم آہستہ پڑ گئے۔
سامنے دائیں طرف ایک دروازہ تھا — زیدان کا کمرہ۔
پھر اگلا دروازہ — پری کا۔
اور ان دونوں کے بعد… آسوان کا کمرہ۔
وہ سیدھا اسوان کے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔
جب اندر سے زیدان کی آواز ابھری،
اتنی بھاری، اتنی تیز کہ وہ ٹھٹھک گئی۔۔۔اور وہیں روک گئی۔۔۔
تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے کیا، بھائی؟ میں اور اُس سے نکاح؟ ہرگز نہیں! کبھی نہیں۔۔۔
وہ یہ الفاظ سن کر وہیں روک گئی اور زیدان کے کمرے کے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئی۔۔ اور سنے لگی۔۔۔
پھر دوسری آواز ابھری —
آسوان کی۔
پُرسکون، مگر سرد۔
تمہارے پاس کوئی آپشن نہیں ہے، زیدان۔
یاد ہے، تم نے خود کہا تھا —
زیدان کی بیوی بننا آسان نہیں، اسے ہمیشہ حالتِ جنگ میں جینا آنا چاہیے۔
اور میں نے کہا تھا، میں ایسی لڑکی ڈھونڈوں گا جو جنگ لڑنے کے لیے پیدا ہوئی ہو۔
تو میں وہ لڑکی ڈھونڈ لایا ہوں۔
کمرے میں کچھ لمحے کی خاموشی چھا گئی،
پھر زیدان کی خفگی سے بھری آواز گونجی۔
میں اپنے اردگرد کسی کو بھی برداشت نہیں کر سکتا، بھائی — تم جانتے ہو۔
پھر دوبارہ اسوان کی آواز آئی۔۔
پر وہ تو تمہاری بیوی ہوگی نا۔۔۔
جو صرف تمہاری ہوگی۔
جو صرف اور صرف زیدان شاہ کی ہوگی۔
جس پر صِرف اور صِرف زیدان شاہ کا حق ہوگا۔۔۔۔
وہ اُسے اُس کی ہی زبان میں سمجھا رہا تھا۔۔۔
اور تمہیں پتہ ہے۔۔۔ وہ کتنی اچھی لڑکی ہے۔۔۔
اور تم جانتے ہو، میں کتنا برا لڑکا ہوں…
لہجہ سخت تھا اور بے حد کڑوا
اور وہ اسی برے لڑکے کو قبول کر چکی ہے، زیدان۔
کچھ لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔
پھر زیدان کی دبی ہوئی چیخ جیسی آواز آئی —
کیا؟
ہاں، وہ راضی ہوگئی ہے…
مجھے پتا ہے، تم سب اُسے سزا دینے کے لیے میری شادی اُس سے کروانا چاہتے ہو۔
پتا نہیں اُس دن اُس نے کیا کر دیا تھا…گھر پر بہت شور ہوا تھا،
زیدان کی آواز پر کائنات کی سانس رُک گئی۔
وہ اِتنا بھی انجان نہیں تھا… جتنا وہ ظاہر کرتا تھا۔
تم اب بھی نہیں سمجھے، زرتاشہ نے تو اُسے پھسانے کی کوشش کی تھی۔۔۔
لیکن میں جانتا تھا — وہ ایسی نہیں ہے۔
تو پھر… اُس کی شادی کسی اور سے کروا دو۔۔
نہیں… وہ تمہارے لیے بنی ہے۔
اُس کی شادی تم سے ہی ہوگی۔
اگر اُس پر الزام نہ بھی لگتا… تب بھی وہ تمہاری ہی دلہن بنتی۔
کیوں؟ کیونکہ ایسا اسوان دیار شاہ چاہتا تھا —
اور جو اسوان چاہے، وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔
اب تمہارے پاس کوئی آپشن نہیں بچا، زیدان۔
اُس دن کے بارے میں تمہیں پہلے سوچنا چاہیے تھا…
جب تم باہر جانے کی ضد کر رہے تھے،
اور میں منع کر رہا تھا۔
تب ہم دونوں کے درمیان یہ طے ہوا تھا —
کہ اگر میں تمہیں باہر جانے کی اجازت دوں گا،
تو بدلے میں تم اُس لڑکی سے شادی کرو گے،
جس کا نام میں لوں گا۔
آواز سرد پڑ گئی۔
خاموشی کا اک لمحہ…
پھر آسوان کا آخری جملہ تلوار بن کر گرا —
اب اگر تم اپنا اور میرا رشتہ بچانا چاہتے ہو…
تو نکاح کے لیے تیار ہو جانا۔۔۔
دروازہ چرچرا کر کھلا۔
آسوان باہر نکلا — اور ٹھٹھک گیا۔
دروازے کے پاس، دیوار سے لگی، چہرے پر ٹوٹی ہوئی سانسوں کے سائے لیے کائنات کھڑی تھی۔
کائنات… تم؟
کائنات کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے — بس ایک خالی سا سکوت تھا،
جیسے سب کچھ رو لیا ہو، اب کچھ باقی نہ بچا ہو۔
میں آپ کو اپنا بھائی مانتی تھی…
مجھے لگتا تھا، اس پورے گھر میں صرف آپ ہیں —
جو میری پرواہ کرتے ہیں،
جو مجھے واقعی ایک لڑکی، ایک انسان سمجھتے ہیں… لیکن…
اس کی آواز بھرّا گئی۔وہ روکی کچھ اور بولتی کے اسوان فوراََ بولا۔۔۔
کائنات، تم واقعی میری بہن ہو۔
پری اور زیدان کے بعد اگر مجھے کسی کی پرواہ ہے تو واقعی وہ تم ہو…
جھوٹ مت بولیے آسوان بھائی…
اس کی آواز بھری ہوئی تھی، مگر لہجہ بےحد مضبوط تھا
آپ کو صرف اپنے بھائی کی پرواہ ہے۔
کائنات کا کیا؟
اس کی تو ویسے بھی کوئی نہیں سنتا،
نہ اس کی بات، نہ اس کا دکھ…
آسوان کے چہرے پر الجھن اُبھری
ایسا مت کہو، کائنات۔ ایسا نہیں ہے۔
اچھا؟ تو پھر اب تو سب صاف ہے نا؟
سب کو پتا چل گیا کہ وہ میرا بوائے فرینڈ نہیں تھا۔
سب جان گئے کہ میں غلط نہیں تھی۔
تو اب… اب میرا نکاح رکوا دیجیے۔
میں نہیں چاہتی یہ نکاح ہو۔۔
آسوان کی پیشانی کی رگ ابھر آئی۔
اس نے گہری سانس لی۔۔
پاگل ہو گئی ہو تم؟ ابھی ابھی میں نے زیدان کو کسی طرح منایا ہے۔
اب اگر تم منع کرو گی تو وہ پورا گھر سر پر اٹھا لے گا، کائنات۔
کائنات کی آنکھوں میں نمی چمکی،
میں اتنی بےوقوف نہیں ہوں، جتنی آپ سمجھتے ہیں، آسوان بھائی…
یاد رکھیے گا، میں آپ کا دیا ہوا یہ درد کبھی نہیں بھولوں گی۔
اس نے آہستہ سے سر جھکایا،
پلٹی، اور چل دی۔
آخری امید بھی جیسے چھن سے ٹوٹ کر زمین پر بکھر گئی۔
وہ اب کہیں کی نہیں رہی تھی… وہ برباد ہوچکی تھی۔۔۔ساری خوشیاں اُس کی چھین چکی تھی۔۔۔
وہ مرچکی تھی۔۔۔
وہ جب نیچے آئی تو اُس کی نظر ملازمہ کے ہاتھوں پر پڑی۔۔۔ وہ سرخ رنگ کا لہنگا تھامے کھڑی تھی۔
چمکتی سِلک، جھلملاتے نگ، اور زری کی باریک کڑھائی
جیسے کسی خوش نصیب دلہن کے خوابوں کا لباس ہو۔
پھر کائنات کی نظر دوسری ملازمہ پر گئی جس کے ہاتھ میں سُرخ دوپٹہ تھا۔۔۔جس کے کناروں پر جھالر اور سنہری کڑھائی چمک رہی تھی۔ اور دوپٹے کے اُوپر سنہری دھاگوں سے لکھا تھا —
ہادی کی دلہن۔۔۔
یہ دیکھ کر ایک کپکپی سی اُس کے اندر اتر گئی، جیسے کسی نے برف سا درد اُس کے وجود میں گھول دیا ہو۔
پھر اس کی نظر عائشہ بیگم پر پڑی۔۔۔
ان کے ہاتھوں میں سفید رنگ کا لہنگا تھا،
اور اس کے اوپر ایک نازک سا سرخ دوپٹہ رکھا تھا،
جس کے کناروں پر جھالر اور سنہری کڑھائی چمک رہی تھی۔ اور دوپٹے کے اُوپر سنہری دھاگوں سے لکھا تھا —
زیدان کی دلہن
کائنات کے دل میں جیسے کسی نے خنجر سا اتار دیا۔
آنکھوں کے سامنے وہ سب لمحے گھوم گئے —
جب آسوان بھائی نے کہا تھا،
وہ تمہارے لیے بنی ہے، زیدان… تم سے ہی اس کا نکاح ہوگا…
عائشہ بیگم مسکرا رہی تھیں،
مگر کائنات کے لیے وہ مسکراہٹ جلتی ہوئی شمع کی طرح تھی۔۔۔
جس کی روشنی نہیں، صرف دھواں دکھائی دیتا ہے۔
عائشہ بیگم کی نظر اُس پر پڑی تو عائشہ بیگم نے اُسے آواز دیا۔۔۔
یہاں اؤ کائنات۔۔۔
وہ خاموشی سے اُن کے پاس آگئی۔۔۔
عائشہ بیگم نے ہاتھ میں تھاما سفید لہنگا اُس کی طرف بڑھایا۔
ان کے لبوں پر ایک چمکتی ہوئی مسکراہٹ تھی۔۔
یہ تمہارا لہنگا ہے، کائنات… کیسا لگ رہا ہے؟
تمہیں سفید رنگ پسند ہے نا؟
دیکھو، اسی لیے میں نے تمہارے نکاح کے لیے سفید رنگ چُنا…
کائنات نے نظریں اٹھائیں۔
لہنگے کی چمک آنکھوں کو چُھبنے لگی۔
سفید
وہ رنگ جو کبھی پاکیزگی کی علامت تھا،
آج اس کے لیے خالی پن کا رنگ بن گیا تھا۔
وہ لہنگا جو کسی دلہن کے خوابوں کی زینت ہونا چاہیے تھا،
اس کے لیے ایک فیصلہ بن چکا تھا — ایسا فیصلہ جس میں اُس کی مرضی کا کوئی لفظ شامل نہیں تھا۔۔۔
وہ سر ہلاتے خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف پڑھ گئی۔۔۔
++++++++++++
وہ فرش پر بیٹھے بیٹھی تھی،
پیٹھ دیوار سے لگی،
اور آنکھیں خالی خلا میں گھور رہی تھیں۔
کل رات سے ایک لفظ بھی اُس کے لبوں پر نہیں آیا تھا۔
نہ آنسو، نہ چیخ — بس ایک خاموش احتجاج جو اُس کے وجود میں قید تھا۔
کل ہی یہ فیصلہ ہوا تھا —
آسوان کے ساتھ ساتھ زرتاشا کا نکاح بھی ہو گا۔
سب نے کہا، وقت اچھا ہے، موقع بھی ٹھیک ہے۔
کوئی یہ نہیں جان سکا کہ زرتاشا کے دل میں کیسا طوفان اٹھ رہا ہے۔
اگر کل رات فیضان صاحب کے فون پر اسوان کے ہونے والے سسرال والوں کی کال نہ آئی ہوتی۔۔۔
کہ ہم آرہے ہیں۔۔۔۔
تو شاید زرتاشا اب تک ہادی کی بیوی بن چکی ہوتی۔
فیصلے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آئی تھی،
دروازہ اندر سے بند کیا،
اور تب سے وہیں بیٹھی تھی —
نہ کھانا، نہ پانی، نہ کوئی بات۔
آنکھوں کے سامنے وہ چہرہ گھوم رہا تھا — ارسم کا۔
اس نے کبھی اس سے زیادہ کچھ نہیں مانگا تھا،
لیکن ارسم نہ صحیح کوئی اور ہی صحیح پر وہ کوئی اور ہادی کیوں۔۔۔
ہادی —
وہ نام جس کے ساتھ زرتاشا کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا،
اب اُس کے نصیب سے جوڑ دیا گیا تھا۔
وہ ہادی جیسے لڑکے کو اپنی زندگی میں کبھی قبول نہیں کرسکتی تھی اُسے تو ہادی کو دیکھ کر ہی نفرت سی محسوس ہوتی تھی۔۔۔
ہادی اُس کے ٹائپ کا نہیں تھا۔
نہ اُس کا انداز، نہ اُس کا لہجہ، نہ اُس کی دنیا۔
اور سب سے بڑھ کر — نہ اُس کا خاندان تھا،
اور سب سے بڑی بات وہ ڈاکٹر تھا۔۔
زرتاشا نے ہمیشہ اس پیشے سے نفرت کی تھی۔
اور اب…
قسمت نے اُسے ایسے ہی انسان کے ساتھ باندھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
وہ ہنس بھی نہیں سکی۔
دل چاہا چیخ دے، کہے —
مجھے یہ سب نہیں چاہیے۔۔۔
مگر آواز جیسے گلے میں اٹک گئی۔
++++++++++++++
وہ سجدے میں بیٹھی تھی —
ماتھے کے نیچے ٹھنڈی جائے نماز،
اور آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے اس کپڑے کو بھیگے ہوئے لمس میں بدل دیا تھا۔
الفاظ لبوں پر آتے، مگر رُک جاتے۔
دل میں اتنا درد تھا کہ دعائیں بھی لرزنے لگیں۔
وہ بار بار ہاتھ اٹھاتی، پھر گرا دیتی۔
کبھی کہتی،
یا اللہ، مجھے بچا لے…
کبھی بس خاموش رہتی —
کیونکہ اب اُسے خود نہیں معلوم تھا کہ بچانے کی دعا کس سے مانگنی ہے —
تقدیر سے؟
لوگوں سے؟
یا اپنے آپ سے؟
ہر آیت کے ساتھ اُس کی ہچکیاں بڑھتی گئیں۔
الفاظ دھندلا گئے،
آواز رندھ گئی،
مگر دل کے اندر وہ ایک ہی التجا گونجتی رہی —
اُسے زیدان کی نہیں ہادی کی دلہن بنا دے
آنکھوں سے بہتے آنسو،
ہاتھوں پر گرتے رہے،
پھر جائے نماز میں جذب ہوتے گئے —
جیسے وہ بھی اس کا دکھ اپنے اندر سمو لینا چاہتی ہو۔
نماز ختم ہوئی،
وہ دیر تک سجدے میں ہی بیٹھی رہی۔
خاموش، ٹوٹی ہوئی،
مگر دل کے کسی کونے میں ایک کمزور سی امید اب بھی جل رہی تھی۔
شاید… کوئی دعا سن لی گئی ہو۔
++++++++++++
کمرے میں ماحول بوجھل تھا—
فضا میں جیسے غصہ، دکھ اور بے بسی سب ایک ساتھ گھل گئے ہوں۔
ارسم کے چہرے پر حیرت کے ساتھ ساتھ شدید غصہ جھلک رہا تھا۔
وہ ابھی ابھی سائرہ بیگم کے منہ سے نکلی بات سن کر کرسی سے جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
ارسم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا
کیا مطلب… کائنات کا نکاح؟
وہ لفظ جیسے اس کے حلق سے خراش بن کر نکلے۔
سب کا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا سب کا۔۔؟؟
پہلے زرتاشا اور اب کائنات؟
ماما! آپ نے چچی سے بات نہیں کی تھی اس کے بارے میں؟
سائرہ بیگم نے گہری سانس لی، جیسے اپنے ہی کہے لفظوں کا وزن برداشت کرنا مشکل ہو۔
میں نے بات کی تھی، ارسم… لیکن وہ مانی نہیں۔
سب کچھ اسوان نے طے کر دیا۔
پتہ نہیں کس چال میں، کس ضد میں…
اپنے بھائی کے لیے تو کوئی لڑکی ملتی نہیں،
اس لیے اس نے مریم بیگم کا فائدہ اٹھایا۔
اور میں یہ بھی نہیں جان سکی…
کائنات کے ساتھ آخر ہوا کیا تھا؟
ارسم نے مٹھیاں بھینچ لیں۔
میں اُس کو پسند کرتا تھا ماما۔۔۔۔
رضوان صاحب نے کہا پر اب کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔
سائرہ بیگم نے بے بسی سے کہا
کائنات کا تو ٹھیک لیکن، ہم زرتاشا کا کیا کرے گے۔۔۔؟؟
رضوان صاحب صوفے پر نیم تکیہ لگائے بیٹھے تھے،
چہرے پر تھکن اور لہجے میں بیزاری صاف جھلک رہی تھی۔
کیا کرنا ہے اب؟
ہادی نے جب فیصلہ کر لیا ہے تو…
ابھی وہ جملہ ختم ہی کر رہے تھے کہ ارسم تپ کر بول اٹھا
ہاں… اُس کو تو بس نیکیاں کمانی ہیں…
لفظوں میں تحقیر تھی، غصہ تھا، اور تھوڑا سا دکھ بھی۔
سائرہ بیگم ہونٹ بھینچ کر بولیں:
دیکھ لینا، وہ اپنے اس فیصلے پر بہت پچھتائے گا…
رضوان صاحب نے ان کی طرف دیکھا، ہلکا سا طنزیہ مسکرا کر بولے
تمہیں لگتا ہے، سائرہ؟
وہ عبدالہادی ہے — وہ اپنے فیصلوں پر کبھی پچھتاتا نہیں۔ جیسے ضد کے پتھر پر تقدیر کندہ ہو گئی ہو۔
ارسم نے مٹھیاں بھینچ لیں۔
میں زرتاشا کو اپنی بھابھی ہرگز برداشت نہیں کروں گا، ابو۔
آپ جانتے ہیں وہ کتنی بدتمیز، مغرور،
اور… اور…
سائرہ بیگم نے بات پوری کی
اور بے حیا بھی ہے۔۔۔
ان کے لہجے میں زہر بھرا ہوا تھا۔
ارسم نے تیزی سے ان کی طرف دیکھا —
اسے خود بھی یہ لفظ برا لگا،
مگر شاید دل کا غصہ اتنا شدید تھا کہ کچھ کہہ نہیں سکا۔
رضوان صاحب نے آہ بھری،
دیکھو، وہ اُس کا فیصلہ ہے۔
ہم اُس کے سگے ماں باپ تو نہیں ہیں کہ اُس پر جبر کریں یا روکیں۔
اُس نے فیصلہ کیا ہے تو کرنے دو۔
اگر کچھ مسئلہ ہوا —
تو میں خود بات کروں گا ہادی سے،
وہ زرتاشا کو لے کر الگ ہوجائے گا۔۔۔
سائرہ بیگم نے تلخی سے کہا
ہاں، بس یہی سننا باقی رہ گیا تھا۔۔۔
اِسی دِن کے لیے تو اُسے اپنا بیٹا بنایا تھا نہ تاکہ اُسے شادی کے بعد پھر الگ کر دیں۔۔۔
رضوان صاحب نے سرد لہجے میں کہا
اور کیا کریں؟
ہمارے پاس اب کوئی راستہ نہیں۔
جس حالت میں ہم اُسے اپنا رہے ہیں،
مجھے نہیں لگتا زرتاشا یہاں آ کر کوئی الٹی سیدھی حرکت کرے گی۔
میں نے اُس کا چہرہ اُس دن محفل میں دیکھا تھا —
کیسے خاموش اور بے باز کھڑی تھی۔۔
سائرہ بیگم نے فوراََ کہا
ہاں، یہ تو ہے…
یہاں اُس کی زبان زیادہ نہیں کھلے گی۔
بس پھر مسئلہ کیا ہے؟ جو ہو رہا ہے، ہونے دو اور اب تیاری کرو۔۔ بارات لے جانے کی۔۔۔
لیکن ابا کائنات۔۔۔ ارسم کی آنکھوں میں دکھ جھلک رہا تھا۔۔۔
اب تو کچھ نہیں ہوسکتا نہ ارسم۔۔۔ رضوان صاحب نے سنجدگی سے کہا
رضوان صاحب نے بات کاٹتے ہوئے گہری سانس لی —
ان کی آنکھوں میں تھکن کے ساتھ ایک ایسی سنجیدگی تھی جو ارسم کے دل پر بوجھ بن کر اُتری۔
پسند کرتے تھے نا، محبت تو نہیں…
انہوں نے آہستگی سے کہا، مگر ہر لفظ میں وزن تھا۔
اور میں جانتا ہوں تمہیں وہ کیوں پسند تھی، ارسم۔
سائرہ… تمہارے لیے ویسی ہی لڑکی ڈھونڈ دے گی۔۔
اُنہوں نے کہا اور اُٹھ کر اپنے روم میں چلا گئے پیچھے سائرہ بیگم ارسم کو سمجھنے لگی۔۔۔
++++++++++++++
ایک تیری آنکھ نہیں ہوتی مرے حال پر نم ورنہ
دیکھ کر مجھے گھر کے در و دیوار روتے ہیں
پوچھنا تھا انہیں حشر میں کیا اجر ملے گا؟
اس دنیا میں جو لوگ , پروردگار روتے ہیں
شاہ حویلی آج پورے عروج پر تھی —
در و دیوار رنگ و روشنی میں نہائے ہوئے،
ہر گوشہ جگمگا رہا تھا۔
لمبے درختوں پر لڑیوں کی روشنی ایسے جھلملا رہی تھی جیسے ستارے زمین پر اتر آئے ہوں۔
بڑی حویلی کے اندر ڈھول کی تھاپ، عورتوں کی ہنسی اور چہل پہل نے فضا میں عجب سا رنگ بھر دیا تھا۔
گلاب اور چنبیلی کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی،
کسی نے کہا —
آج تو شاہ حویلی اپنی اصلی شان میں لوٹی ہے۔۔۔
مرکزی صحن میں خوبصورت سا اسٹیج سجا ہوا تھا،
سفید اور سنہری پھولوں کی آرائش،
اوپر سے گلاب کی پتیاں گر رہی تھیں۔
کونے میں بینڈ والے شادی کے گیت گا رہے تھے —
آئی ایسی رات ہے جو
بہت خوش نصیب ہے
چاہے جسے دُور سے دنیا
وہ میرے قریب ہے…
باہر لان میں بڑے بڑے فانوس لٹک رہے تھے،
مہمانوں کے قہقہے اور کیمرے کے فلیش ایک دوسرے میں گھل مل کر محفل کو کسی فلمی منظر میں بدل رہے تھے۔
زینب بیگم اپنے مخصوص وقار کے ساتھ مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں،
جبکہ مریم بیگم کا چہرہ تھکا ہوا مگر مطمئن لگ رہا تھا۔ ان کے چہرے پر وہی صبر کی لکیر تھی، جو پچھلے کچھ دنوں سے گہری ہوتی جا رہی تھی۔
رضیہ بیگم بھی مہمانوں کے اتقبال میں لگی تھی۔۔۔
رضیہ بیگم اور عائشہ بیگم بھی مہمانوں کے استقبال میں لگی ہوئی تھیں۔
زرتاشہ کی بارات آ چکی تھی…
پر پریشے اور اُس کے سسرال والوں کا ابھی تک کچھ اتا پتا نہیں تھا،
اور زیدان بھی ابھی تک اپنے کمرے سے باہر نہیں آیا تھا…
جبکہ ہادی سیاہ شلوار قمیض میں سفید شال ڈالے، صوفے پر بیٹھا تھا۔۔۔آنکھوں میں خاموش عزم۔
نہ مسکراہٹ، نہ غصہ — بس ایک ٹھہرا ہوا سکون تھا
فیضان صاحب نے قدرے اطمینان بھرے لہجے میں کہا،
رضیہ بیگم، مولوی صاحب بھی آ چکے ہیں… میرا خیال ہے پہلے ہادی اور زرتاشہ کا نکاح کروا دیتے ہیں۔ پتہ نہیں اسوان کے سسرال والوں کو ابھی کتنی دیر لگے گی، اور ویسے بھی وہ خود ابھی تک تیار نہیں ہوا۔
رضیہ بیگم نے ہلکا سا سر ہلایا،
ہاں، ٹھیک ہیں، عدنان کہاں ہے اُس کو بُلا لے
شاہ حویلی کے وسیع ہال میں جیسے ایک لمحے کو ہلچل سی مچ گئی۔
عورتیں اپنی جگہوں سے اٹھنے لگیں،
مرد آگے بڑھ کر اسٹیج کے گرد جمع ہونے لگے۔
کسی کے ہاتھ میں گلاب کی پتیوں کی ٹوکری تھی،
کسی کے لبوں پر درود و سلام کے ورد۔
ڈھولک کی ہلکی تھاپ اور شادی کے ترانے اب پس منظر میں مدھم پڑتے جا رہے تھے۔
اتنے میں اسوان آہستہ آہستہ زینے اُتر رہا تھا —
سفید رنگ کی کڑھائی دار شیروانی،
جس پر ہلکی سنہری کاڑھائی روشنی میں چمک رہی تھی۔
فیضان صاحب کی نظر اسوان پر پڑی تو وہ اُس کے پاس آئے چلو اچھا ہُوا تُم آگئے ورنہ ابھی میں تمہیں بلانے ہی آرہا تھا۔۔۔ ہادی کا نکاح ہونے والا ہے۔۔ اس کے بعد تُمہارا ہوگا۔۔۔ اور یہ زیدان تیار ہوگیا کیا۔۔۔؟؟ وہ بھی آجاتا نیچے تو اچھا ہوتا۔۔۔
اسوان کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا
پتہ نہیں۔۔۔ اُس کا روم لوک ہے صبح سے جب سے میں نے اس سے نکاح کی بات کی ہے۔۔۔
فیضان صاحب نے سنجیدگی سے کہا
چھوڑو دیکھتے ہیں اُسے بعد میں ابھی زرتاشا کا نکاح ہوجانے دو۔۔۔
اسوان نے ہاں میں سیر ہلایا۔۔۔
پھر دونوں اسٹیج کی طرف پڑھ گئے۔۔۔
زرتاشہ کو کمرے سے باہر لایا گیا —
سُرخ جوڑے میں لپٹی،
ماتھے پر بندیا، چہرے پر ایک ایسی خاموشی جو بولنے سے زیادہ کچھ کہہ رہی تھی۔
نہ آنکھوں میں چمک، نہ دل میں خوشی —
بس ایک بوجھ، ایک اجنبی سا خوف۔
اسٹیج پر ہادی پہلے سے موجود تھا۔۔۔
مولوی صاحب نے قرآنِ پاک کا نسخہ کھولا،
پھر مولوی صاحب کی متین آواز گونجی —
عبدالہادی بن عبداللہ، کیا آپ کو زرتاشہ بنت عدنان سے نکاح قبول ہے؟
ہادی کی نظریں چند لمحوں کے لیے نیچے جھکیں،
پھر ایک مضبوط، بھاری آواز فضا میں ابھری —
قبول ہے۔
پھولوں کی پتیوں کی خوشبو اور عورتوں کے لبوں سے نکلا ماشاءاللہ ایک ساتھ مل کر شاہ حویلی کے صحن میں گونج اٹھا۔
مولوی صاحب نے دوبارہ وہی سوال دہرایا —
اور جب زرتاشہ کے کانوں میں قبول ہے کے الفاظ پہنچے،
تو اس کی آنکھوں میں نمی تیر گئی۔
ہونٹ کپکپائے،
اور پھر وہ بھی بولی
قبول ہے…
پورا ہال تالیاں، مبارکباد اور تصویروں کے شور سے بھر گیا — مگر اُن دو دلوں میں صرف خاموشی گونج رہی تھی۔
ابھی عبدالہادی کو نکاح کی مبارک بادیں دی جا رہی تھیں، لوگ اس کے اردگرد جمع تھے، پھولوں کی خوشبو اور مبارک باد کے جملے فضا میں گھل رہے تھے کہ—
محفل کے دروازے کی سمت سے ایک مانوس آواز ابھری۔
اور اچانک مردوں سے بچ سے وہ نِکلا آگے بڑھا،
اور ہادی کے قریب جا کر بولا،
مبارک ہو بھائی… نکاح کی خوشی تمہیں راس آئے۔
ہادی نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا ہاتھ تھاما،
اسی لمحے اسوان آگے بڑھا —
چہرے پر حیرت کے آثار نمایاں تھے۔
تم… تم کہاں سے آئے؟
زیدان نے بیزاری سے کہا
روم سے آیا۔۔
روم سے؟ اسوان نے ذرا تیوری چڑھائی،
مطلب آتے وقت نظر نہیں آئے تم؟
زیدان نے کندھے اچکائے،
تو اس میں میں کیا کروں؟ تمہارا سارا دھیان نکاح پر تھا، اب جلدی سے میرا نکاح کروا دو میں زیادہ دیر نہیں روکوں گا یہاں۔۔۔
اسوان نے نظریں اٹھائیں، تھوڑا سا چونکا،
اور پھر آہستہ سے بولا،
اچھا… اچھا… ٹھیک ہے، بیٹھ جاؤ پہلے،
زیدان نے ناگواری سے کہا
بیٹھنے کا وقت نہیں ہے میرے پاس۔۔۔
اسوان نے سرد لہجہ میں کہا
تو کھڑے کھڑے نکاح پڑھوا دوں کیا۔۔۔؟؟
پڑھوا سکتے ہو تو پڑھوا دو۔۔۔ مُجھے تو کوئی پروبلم نہیں ہے۔۔۔
اسوان نے خفکی سے کہا
چُپ چپ اِدھر بیٹھے جاؤ۔۔۔
اب سب کی نگاہوں کا مرکز زیدان تھا—
جہاں ہادی اور اسوان پورے کے پورے دولہا بنے سنورے بیٹھے تھے، وہیں وہ سادہ سے سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔۔۔
عائشہ بیگم نے اُس کے لیے خاص طور پر
ایک خوبصورت سیاہ شیروانی منتخب کی تھی،
مگر زیدان شاہ کو کون منا سکتا تھا؟
وہ ہمیشہ کی طرح اپنی مرضی کا مالک—
شیروانی کو بڑے اطمینان سے ریجیکٹ کر کے
سادہ سفید لباس میں ہی محفل میں آ گیا تھا۔
غنیمت یہ تھی کہ
زیدان شاہ نے کم از کم شلوار قمیض پہن لی تھی،
ورنہ وہ تو چاہتا تو
پینٹ شرٹ میں بھی نکاح کی محفل میں آ جاتا۔
اور اب زیدان کو مزید انتظار میں رکھنا بھی ممکن نہیں تھا،
اسی لیے کائنات کو فوراََ باہر لایا گیا۔۔۔
دروازہ کھلا —
اور کائنات مریم بیگم کے ساتھ سفید لہنگے میں ملبوس، آہستہ آہستہ قدم بڑھاتی ہوئی باہر آئی۔
سفید لہنگا ہلکی سنہری گوٹے کی باریک کاریگری سے سجا ہوا تھا، دوپٹہ بےحد نفاست سے سر پر ٹکا ہوا،
اُس کے اوپر ایک اور سرخ دوپٹے سے اُس کا چہرا ڈھاکا ہُوا تھا۔۔۔جس کے کناروں پر جھالر اور سنہری کڑھائی چمک رہی تھی۔
مگر سب سے نمایاں وہ الفاظ تھے…
جو دوپٹے پر بڑے، خوبصورت حروف میں چمک رہے تھے.. زیدان کی دلہن
مریم بیگم کی انگلیوں نے اُس کا ہاتھ تھام رکھا تھا،
مگر کائنات کا دل جیسے کہیں پیچھے —
اپنے خوابوں، اپنی خواہشوں کے ملبے میں رہ گیا تھا۔
اس وقت پورا ہال جیسے زیدان کی قسمت پر رشک کر رہا تھا —
ہر نظر کبھی دلہن کے چمکتے دوپٹے پر جاتی،
تو کبھی زیدان پر جو عجیب سے چہرا بنایا اسٹیج پر بیٹھا تھا۔۔۔
کائنات کے سٹیج پر بیٹھتے ہی مولوی صاحب نے نکاح پڑھنا شروع کردیا۔۔۔
مریم بیگم نے کائنات کے قریب بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا۔ کائنات کے دل کی دھڑکن تیز تھی، ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں الجھی جا رہی تھیں۔
مولوی صاحب نے نکاح نامہ کھولا، اور نرم مگر گمبھیر لہجے میں بولے —
کائنات بنتِ رحیم صدیقی ( مرحوم ) ، کیا آپ کو زیدان شاہ بن فیضان شاہ سے نکاح قبول ہے، ”
ایک لمحے کو فضا میں سناٹا چھا گیا۔
کائنات کے لب ہلنے سے انکار کر رہے تھے،
دل جیسے سینے سے باہر آنے کو تھا۔
مریم بیگم نے اس کے کان کے قریب جھک کر دھیرے سے کہا —بولو بیٹا… قبول ہے…
کائنات کی آواز کانپتی ہوئی نکلی —
ق… قبول ہے۔
دوسری بار مولوی صاحب نے پوچھا —
کائنات نے ہچکچاتے ہوئے، مگر واضح لہجے میں کہا —
قبول ہے۔
تیسری بار کلمات دہراتے ہوئے اس کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کر نیچے گرا —
قبول ہے…
محفل میں ہلکی سی سرگوشی گونجی،
اور پھر مولوی صاحب نے زیدان کی طرف دیکھا۔
قبول ہے۔
پہلی، دوسری، تیسری بار —
ہر بار اُس کے لہجے میں ایک عجیب ٹھہراؤ، ایک وزن تھا۔
مولوی صاحب نے مسکرا کر اعلان کیا —
مبارک ہو! زیدان بن فیضان اور کائنات بنتِ رحیم کا نکاح بخیر و برکت مکمل ہوا۔
اور اس اعلان کے ساتھ ہی ہال تالیوں، مسکراہٹوں اور مبارکبادوں سے گونج اٹھا —
مگر اس شور کے بیچ، کائنات کے دل میں ایک عجیب سا سکوت تھا، جیسے سب کچھ سن کر بھی وہ کچھ نہ سن پائی ہو۔
اب نکاح کے بعد کی جو جو رسمِ تھی وہ زیدان اور ہادی کی ساتھ ساتھ ہونے لگی۔۔۔ محفل میں ہلکی ہلکی
گانوں کی آواز کی دھنیں گونجنے لگی تھیں—
دیکھا نہیں میں نے پہلے کبھی یہ نظارہ،
بدلا ہوا سا لگے مجھ کو عالم یہ سارا۔
ہو سورج کو ہوئی حرارت،
راتوں کو کرے شرارت،
بیٹھا ہے کھڑکی پہ تیری۔
ہاں، اس بات پہ چاند بھی بگڑا،
قطرہ قطرہ وہ پگھلا،
بھر آیا آنکھوں میں میری،
تو سورج بُجھا دوں،
تجھے میں سجا دوں،
سویرہ ہو تجھ سے ہی کل،
ہو ہو۔۔۔
فلک تک چل، ساتھ میرے،
فلک تک چل، ساتھ چل۔۔۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد حویلی کے دروازے سے ایک اور قافلہ داخل ہوا —
پھولوں سے سجی کاریں، خوشبو دار گلاب کی پتیاں، اور روایتی بینڈ کی دھیمی دھیمی دھنیں۔
پریشے اور اُس کے سسرالی سب آ چکے تھے۔
دروازے پر استقبال کے لیے رضیہ بیگم، زینب بیگم، اور مریم بیگم موجود تھیں۔
پریشے ہلکی پنک لہنگے میں بے حد دلکش لگ رہی تھی،
اس کے چہرے پر حیا کی سرخی تھی اور ہاتھوں میں مہندی کے گہرے رنگ۔
اب ساری توجہ اسوان کے نکاح کی تیاریوں پر تھی۔
خادم دوڑ دوڑ کر اسٹیج سنوار رہے تھے،
پھولوں کی مالائیں بدلی جا رہی تھیں،
مولوی صاحب دوبارہ بُلائے جا چکے تھے،
اور مائک پر اعلان ہوا —
براہِ کرم سب حضرات تشریف رکھیں، اسوان شاہ کا نکاح شروع ہورہا ہے۔۔
پورا ہال پھر سے روشنیوں سے جگمگا اُٹھا —
ڈھولک کی ہلکی تھاپ، دعاؤں کے بول،
اور فضا میں وہی مانوس سا جملہ گونجنے والا تھا
قبول ہے۔۔۔
نکاح کے بعد کا منظر بڑا ہی نرم اور خوشگوار تھا —
دعاؤں، مسکراہٹوں اور ہلکی سی شرمائی نظروں کے درمیان سب کچھ مکمل ہوا۔
اسوان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی،
جیسے ساری تھکن اور دن بھر کا بوجھ اب اتر گیا ہو۔
ارمان نے قریب آ کر اُس کے کان میں آہستہ سے کہا،
مبارک ہو، شاہ صاحب… آج تم بھی قیدِ محبت میں آگئے۔
اسوان نے سر جھٹک کر مسکرا دیا —
قید نہیں، سکون ملا ہے۔
پریشے نظریں جھکائے، شرمائی شرمائی سی بیٹھی تھی
گلابی چہرے پر ہلکی سی لالی جیسے چاند پر حیا کا رنگ اُتر آیا ہو۔
ہونٹوں پر دبکی سی مسکراہٹ،
اور انگلیوں میں اُلجھی ہوئی اُس کے لہنگے کی جھالر
سب کچھ اس بات کا گواہ تھا کہ وہ لمحہ اس کے دل کے قریب ترین تھا۔
++++++++++++++
جاری ہے۔۔۔۔
