” امید ہمیشہ زندہ رہتی ہے “
ازقلم: عائشہ صدیقی
رات کی خاموشیوں میں، جب ہر در بند ہو جاتا ہے اور سارا جہاں نیند کی آغوش میں ڈوب جاتا ہے، تب ایک ماں جاگتی ہے۔
اُس کے آنسو تکیے میں جذب ہو جاتے ہیں، مگر دل کی چنگاریاں کبھی بُجھتی نہیں۔
وہی ماں، جو کل تک شوہر کے سائے میں پرسکون تھی، آج تنہائی کے اندھیروں میں اپنے یتیم بچوں کے خواب سمیٹ رہی ہے۔
بیوہ صرف ایک لفظ نہیں، بلکہ ایک لامتناہی اذیت کا نام ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے جب عورت کا سارا جہاں بکھر جاتا ہے، مگر وہ خود کو ٹوٹنے نہیں دیتی، اپنے بچوں کے سامنے مسکراتی ہے۔
اُس کی مسکراہٹ میں ایک دنیا کا غم چھپا ہوتا ہے، اور چہرے پر صبر کا نقاب، جس کے پیچھے طوفان چھپا ہوتا ہے۔
وہ اپنے دکھوں کو چادر میں لپیٹ کر، اپنی اولاد کے لیے حوصلے کا لباس پہنتی ہے۔
دن کے اجالے میں وہ اپنے بچوں کے لیے خوشیاں ڈھونڈتی ہے، رات کے اندھیروں میں خود کو ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔
اور جب رات گہری ہو جاتی ہے، جب دنیا سو جاتی ہے، وہ اپنے رب کے حضور آنسو بہاتی ہے۔
اُس کی دعا میں ایک ہی صدا گونجتی ہے:
**”یا اللہ، میرے بچوں کے نصیب آسان کر دے۔”**
یہ عورت وہ چراغ ہے جو اپنی روشنی جلا کر اندھیروں میں اجالا پھیلاتی ہے۔
معاشرہ اُسے ترس کی نگاہ سے دیکھتا ہے، مگر وہ کسی کی ترس کی محتاج نہیں۔
وہ صبر، غیرت اور محنت کی مجسم تصویر ہے۔
اُس کے یتیم بچے اُس کے دل کی دھڑکن ہیں، جن کے لیے وہ خود کو بھول چکی ہے۔
کاش ہمارا معاشرہ سمجھ پاتا کہ یہ عورت صرف بیوہ نہیں بلکہ شہزادوں کی ماں ہے۔
کاش ہم اُس کے کندھوں پر رکھا وہ بوجھ محسوس کر پاتے، جو نہ جسم اٹھا پاتا ہے، نہ دل سہہ پاتا ہے، وہ کہانیاں جو اُس کے قدموں میں دفن ہیں، جنہیں سن کر دل لرز جائے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اُس کے لیے صرف ہمدردی نہیں بلکہ عزت، سہارا اور احترام کے ہاتھ بڑھائیں —
کیونکہ بیوہ عورت کا دکھ کسی موت سے کم نہیں، مگر وہ ہر دن مرتی ہے صرف اپنے یتیم بچوں کے لیے۔
اور شاید یہی اُس کی زندگی کی عبادت ہے۔
ختم شدہ۔۔۔۔
