(یادیں (قسط نمبر1
ازقلم امل نوریہ
نیلی آنکھوں، گلابی ہونٹوں اور سفید رنگت والی مالا آئینے کے سامنے کھڑی اپنے سنہری لمبے بالوں کا جوڑا بنا رہی تھی کہ اس نے اچانک اپنے گھر کے حال میں ابان کو پایا۔ اس کو دیکھتے ہی اس نے فوراً سے بال اور چہرہ ڈھانپ لیا اور ساتھ ہی اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہنے لگی:” السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
“ہمارا اسلام کسی کے گھر یا کمرے میں داخل ہونے کے لیے اجازت کا حکم دیتا ہے۔”
اس پر ابان شرمندہ ہوا اور اس نے بلند آواز میں سوری کہا۔
مالا اپنی بات مکمل کر کے کمرے میں جا چکی تھی لیکن ابان نے اتنے بلند الفاظ میں سوری کہا تھا کہ اسے اپنے کمرے کے بند دروازے سے بھی اس کی آواز سنی۔ اس کی آواز سنتے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اور ساتھ ہی وہ اپنے خالہ زاد کے اکلوتے بیٹے کی نیک بیوی کے لیے اسے دعا دینے لگی۔ ابان نے پورے گھر میں اپنی خالہ کو تلاش کیا لیکن جب انہیں نہ پایا تو اس نے دوبارہ سے مالا کے کمرے کا رخ کیا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ مالا نے دروازہ کھولنے کی بجائے بند دروازے سے ہی جواب دیا۔
“جی۔”
:اس پر ابان نے کہا
“میری خالہ جان کہاں ہیں؟”
:مالا نے جواب دیا
“آپ کی خالہ جان اپنی نند کے گھر گئی ہوئی ہیں۔”
:اس پر ابان نے کہا
“چلیں ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔”
اس کے جانے کے بعد مالا نے دروازہ لگایا اور دوبارہ سے اپنے بال کھول کر آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ اب اس نے اپنے لمبے بالوں کی چٹیا بنائی اور پھر دوپٹے سے حجاب کر لیا۔ابھی وہ فارغ ہی ہوئی تھی کہ دروازے کی گھنٹی نے اسے چونکا دیا۔ اس نے عادتاً اپنی ماما جان سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کون کون ہے؟
:اس پر اس کی امی نے بتایا
مالا! آپ کی پھپھو اور ان کا بیٹا ہے، میرے ساتھ۔
یہ سنتے ہی اس نے اپنے دوپٹے سے نقاب کر لیا اور دروازہ کھولا۔ مہمانوں کی خدمت کے لیے مالا کچن میں چلی گئی۔مبشر اس کی اکلوتی پھپھو کا اکلوتا بیٹا تھا۔ مالا کو پریشانی ہو رہی تھی کہ ماما ابھی پھپھو سے مل کر آئی ہیں لیکن پھپھو اور ان کے بیٹے کو ساتھ کیوں لے کر آئی ہیں؟ اسے ٹینشن کی وجہ سے شدید سردی میں بھی پسینہ آ رہا تھا۔وہ تینوں ہنسی خوشی اپنی باتوں میں مشغول تھے کہ اتنے میں مالا نے دروازے پر دستک دی۔ دروازے پر دستک دیتے ہی تینوں خاموش ہوگئے، کیوں کہ وہ تینوں یہی چاہتے تھے کہ مالا ان کی باتیں نہ سن لے۔دروازے پر دستک کی وجہ سے اس کی امی دروازے پر آئیں اور چائے لے کر دوبارہ دروازہ بند کر لیا کیوں کہ مالا کی ماما جانتی تھیں کہ وہ ان کے درمیان نہیں بیٹھے گی۔ وہ کمرے میں گئی اور دو رکعات نماز نفل ادا کی اور سجدے میں جا کر اتنا روئی کہ جیسے کبھی روئی ہی نہ تھی۔
کچھ لوگ کا ساتھ
اور ان سے منسلک
یادیں اتنی تلخ ہوتی
ہیں کہ ان کو یاد کرنا
انسان کی اذیت اور
آنکھوں میں نمی کا
باعث بنتا ہے اور
وہ ہمارے ذہن کے
ایسے حصے میں
رہتے ہیں کہ جنہیں
انسان یاد نہ بھی
کرنا چاہے تو وہ
یاد آ ہی جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد پھپھو اور ان کا بیٹا تو واپس جا چکے تھے لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ مالا کی خوشیاں بھی اپنے ساتھ ہی لے گئے ہیں اور اس کے ماضی کی کچھ یادیں چھوڑ گئے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد مالا کی ماں اپنی بیٹی کے پاس گئی اور اسے پریشان دیکھ کر اس کے گلے لگ گئی کیوں کہ وہ اس کی اداسی کی وجہ جانتی تھی۔ گلے لگ کر روتے ہوئے کہنے لگیں: ”بیٹا تمہیں پتا ہے کہ تمہاری پھپھو گھر میں اکیلی ہی نہیں گئی تھی بلکہ تمہارے بابا بھی ساتھ گئے تھے۔
ماما جان! میں جانتی ہوں کہ اسی لیے تو پھپھو اپنے بیٹے ساتھ ہمارے گھر آئیں تھیں
:اس پر ماں اپنی بیٹی سے زیادہ رونے لگ گئی اور کہنے لگی
میری جان! میں جانتی ہوں کہ تم اپنے پھپھو کے بیٹے کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی ہو، لیکن بیٹا مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟میں نے تمہارے بابا کو بہت سمجھایا ہے اور ان سے پوچھا بھی ہے کہ کیا وہ بھول چکے ہیں کہ مبشر نے مالا کے ساتھ ماضی میں کیا کیا تھا، لیکن وہ بضد ہیں کہ میں اپنی اکلوتی بڑی بہن کو انکار نہیں کر سکتا ہوں۔
:اس پر مالا نے اپنی ماں سے پوچھا
ماما جان اللہ کے اس وعدے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
نیک عورتوں کے لیے نیک مرد ہیں اور نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں ہیں اور ناپاک مردوں کے لیے ناپاک عورتیں ہیں اور ناپاک عورتوں کے لیے ناپاک مرد ہیں ۔
26:سورت النور آیت نمبر
:اس پر اس کی ماں آنکھوں میں نمی لیے ہوئے کہنے لگی
بیٹا! اللہ کے وعدے سچ ہیں اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے وعدوں میں سچا ہے؟
دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگ گئیں۔ روتے روتے انہیں وقت کا احساس ہی نہ ہوا۔ دروازے پر دستک ہوئی تو دونوں نے آنسو صاف کیے کیوں کہ دونوں جانتی تھیں کہ کون آیا ہے؟ مالا کے بابا آئے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد مالا نے بہت ہمت کر کے بات کی کہ بابا جی میں مبشر سے شادی نہیں کرنا چاہتی کیوں کہ اس نے میرے ماضی کو میرے لیے ایک تلخ یاد بنا دیا ہے اور میں نہیں چاہتی کہ میرا حال اور مستقبل بھی میرے ماضی کی طرح میری یاداشت کا تلخ حصہ بنے۔
:مالا روتے ہوئے کہنے لگی
میرے موبائل سے میری اجازت کے بغیر میری تصاویر لے کر سوشل میڈیا پر وائرل کی تھیں۔ابھی مالا کی بات مکمل ہی نہ ہوئی تھی کہ اس کے بابا نے فوراً سے اسے ٹوکتے ہوئے کہا
بیٹا اسلام نے آپ کو تصاویر بنانے سے منع کیا ہے۔
آپ نے جب اسلام کے حکم کی خلاف ورزی کی تو ناکامی آپ کا مقدر بننی ہی تھی
اس پر انہوں نے یہ حدیث پڑھی اور خاموش ہو گئے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور (تصویر بنانے والا)ہے۔
(مشكاة المصابيح (2/385، باب التصاویر، ط: قدیمي)(الصحیح لمسلم (3/1667، برقم: 2107، ط: دار إحیاء التراث العربي)
حدیث سن کر مالا کے آنسوؤں میں مزید اضافہ ہوا لیکن اس پر بھی اس نے اپنی ہمت کو سمٹتے ہوئے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا
بابا جان! میں مانتی ہوں کہ یہ میری غلطی تھی اور اللہ کے حکم کی نافرمانی بھی تھی اور اس کی سزا بھی الحمد اللہ میں نے اس دنیا میں کاٹ لی ہے اور الحمدللہ اللہ سے توبہ بھی کر لی ہے لیکن بابا جان اس نے مجھ پر بد کردار، مطلب پرست خود غرض،بے وفا اور منافق ہونے کا الزام بھی لگایا تھا اور اس نے نہ صرف مجھ پر الزام لگایا بلکہ اس نے اپنے تمام دوستوں میں ہر کسی کو میرے بارے میں غلط باتیں بھی کیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ یونیورسٹی کا ہر لڑکا مجھے باپردہ ہونے کے باوجود بھی غلیظ نگاہوں سے دیکھنا اور مجھ پر تنقید کرنا اپنا حق سمجھتا تھا۔
بابا جان اب بتائیے کہ میرا کیا قصور تھا کہ مجھ پر بد کردار ہونے کا الزام لگایا جاتا؟
:اس پر بابا نے کہا
حضرت عیسی علیہ السلام کی بغیر باپ کے پیدائش پر بھی لوگوں نے حضرت مریم علیہ السلام پر الزامات لگائے تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما پر بھی بہتان باندھا گیا تھا۔
:اس پر مالا کہنے لگی
ان پر الزامات لگے تھے تو ان کے اپنے بیٹے نے ان کے حق میں بول کر گواہی دی تھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی پاک دامنی کی گواہی خود اللہ نے قرآن میں دی۔
لیکن افسوس کہ میرے دو ہی اپنے تھے اور ان میں سے بھی ایک اس وقت میرے خلاف تھا۔وہ دکھ تو اپنی جگہ مگر اصل رنج تو مجھے اب ہوا جب میرے اپنوں نے ہی مجھے، مجھ پر الزام لگانے والوں کے حوالے کر دیا۔
اس پر وہ زارو قطار رونے لگی۔اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ۔مالا رونے میں اس قدر مگن تھی کہ اسے علم ہی نہ ہوا کہ دروازے پر دستک ہوئی ہے۔پھر جب اس نے خالہ جان کو دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ ان کے پیچھے بھی کوئی ہے۔ اس نے خالہ کو سلام کیا اور خود کمرے میں چلی گئی۔ مالا کے خالہ،خالو اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ تشریف لائے تھے۔ شاید وہ بھی کسی خاص مقصد کے تحت تشریف لائے تھے لیکن وہ مالا کو روتا ہوا دیکھ کر پریشان ہو گئے تھے اور مالا کے والدین کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
————–
ابان نے ہمت کی اور اپنی خالہ جان سے پوچھا
خالہ جان! مالا کیوں رو رہی تھی
:اس پر مالا کے والدین بھی پریشان ہو گئے۔ مالا کے بابا نے جواب دیا
بیٹا کچھ نہیں ہوا۔
:اس پر ابان اور اس کے والدین کو تسلی نہ ہوئی تو ابان کی ماں نے اپنی بہن سے کہا
!میری پیاری بہن
ہم یہاں کسی خاص مقصد کے تحت آئے ہیں اور اگر آپ ہمیں اصل حقیقت سے آگاہ نہیں کریں گی تو ہمارا مقصد کیسے پورا ہوگا؟
اپنی بہن کی یہ بات سن کر مالا کی ماں مزید پریشان ہوگئی کہ نہ جانے میری بہن کس مقصد کے تحت آئی ہے؟
:مالا کے بابا نے کہا
!جی بہن
بتائیے کہ آپ کس مقصد کے تحت آئی ہیں؟
اس پر ابان کے والد نے کہا: ”دیکھیں بھائی جان! آپ کی بیٹی کو ہم اپنی بیٹی بنانا چاہتے ہیں۔“اس پر مالا کی ماں تو دل ہی دل میں خوش ہوئی لیکن مالا کے بابا حیرت زدہ رہ گئے۔
:مالا کے بابا نے بات ٹالنے کے لیے کہا
ہماری بیٹی ابھی پڑھ رہی ہے اور ابھی اس کے آخری سمسٹر کے تین ماہ رہتے ہیں۔
:اس پر ابان اپنے خالو سے کچھ یوں مخاطب ہوا
خالو جان! ہمیں علم ہے اسی لیے تو ہم ابھی آئے ہیں کہ تین ماہ میں مالا کی پڑھائی شادی کی تیاریاں دونوں مکمل ہو جائیں گی۔
:اس سے پہلے کہ مالا کی ماں کچھ کہتی، مالا کے بابا نے جواباً کہا
ہمیں وقت چاہیے اور ہم آپ کو کچھ دنوں تک ان شاء اللہ خود ہی بتا دیں گے۔
ابان اور اس کے والدین نے اس وقت وہاں سے جانے کو ترجیح دی اور اجازت طلب کر کے وہ چلے گئے۔ دوسری طرف مالا نے کمرے میں آتے ہی نماز عشاء ادا کی اور دعا مانگتے مانگتے رونے لگی۔ اسے علم ہی نہ ہوا کہ وہ روتے روتے کب سو گئی؟ مالا اپنے گھر میں ابان اور اس کے والدین کے درمیان ہونے والی گفتگو سے بے خبر تھی۔ مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد مالا کی ماں مالا کے کمرے میں آئی تو اسے جائے نماز پر سوتا ہوا پایا۔ مالا کی ماما نے اسے جگایا اور کہا
بیٹا بستر پر سو جاؤ
اس پر مالا اٹھی اور اپنی ماں سے کوئی بھی بات کیے بغیر بستر پر دوبارہ سو گئی۔ مالا کی ماں اپنے کمرے میں آئی جہاں پر ان کے شوہر شاید ان کا انتظار کر رہے تھے۔
جیسے ہی وہ اپنے بستر پر لیٹی ان کے شوہر نے انہیں فوراً کہا کہ اپنی بہن کو خود ہی انکار کر دینا اور مالا سے یہ بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مالا کی ماں نے کچھ بھی نہ کہا اور دونوں کچھ دیر خاموش رہے اور پھر سو گئے۔ دوسری طرف مالا تہجد کے وقت اٹھی۔اس نے وضو کیا اور نماز تہجد ادا کرنے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اس کی زبان سے دعا کے لیے کچھ بھی ادا نہ ہوا۔ وہ فقط اتنا ہی کہہ پائی
میرے پیارے اللہ جی! مجھے اپنا نیک، فرمانبردار اور پاک ہمسفر عطا کرنا، جو کہ مجھ سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہو۔
وہ بہت روئی کہ اسے وقت کا اندازہ تب ہوا جب اس نے اپنے کانوں میں فجر کی اذان سنی۔اس نے نماز فجر ادا کی اور تلاوت قرآن پاک کے لیے قرآن کھولا۔ اس کی پہلی نظر جس آیت پر پڑی اس کا ترجمہ یہ تھا
تم ہر گز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم راہ خدا میں اپنی محبوب ترین چیز کو قربان نہ کرو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
92سورت آل عمران آیت نمبر
اس پر فورا اس کے ذہن میں آیا کہ اللہ جی آپ مجھ سے کون سی محبوب چیز کی قربانی چاہتے ہیں؟ ساتھ ہی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔۔۔۔
_____________
جاری ہے ۔۔۔۔
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.
